حلقہ بندیاں ہوئیں تو الیکشن فروری یا مارچ میں ہوں گے: رانا ثناء

rana-sana-ullah-election-pakistan-aa.jpg



وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا کہتے ہیں اگر حلقہ بندیاں ہوئیں تو فروری یا مارچ کے پہلے ہفتے میں الیکشن ہوں گے، آئینی تقاضا ہے کہ حلقہ بندیاں ہونی چاہئیں، چیئرمین پی ٹی آئی نے گرفتاری کے وقت کوئی مزاحمت نہیں کی، چیئرمین پی ٹی آئی کو زدوکوب نہیں کیا گیا، جیل میں فائیو اسٹار ہوٹل جیسے کمرے نہیں ہوتے۔

راناثنا نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کا مؤقف رہا ہے کہ سب کو ایک طرح کی جیل میں رکھنا چاہیے، چیئرمین پی ٹی آئی کئی بار کہہ چکے کہ گھروں سے کھانا منگوانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، جیلوں میں اوپن واش رومزہی ہوتے ہیں، جن جیلوں اورسیلوں میں ہم رہے ہیں وہ بھی ایسے ہی تھے۔

وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی عدالت یا جیل سپرنٹنڈنٹ کو درخواست دیں، عدالت جو فیصلہ کرے گی اس پر عمل درآمد کیا جائے گا، یہ سلسلہ رکنا تو چاہیے، ہم یہ بات کرتے رہے ہیں، اگر کسی نے کسی کے ساتھ برا کیا ہو، اس کے ساتھ برا ہو جائے تو اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں۔


رانا ثنااللہ کا کہنا تھا چیئرمین پی ٹی آئی کو حوصلہ رکھنا چاہیے، جیلوں کا ماحول ایسا ہی ہے، یہ درست نہیں ہے کہ جج صاحب نے فیصلے میں جلدی کی ہے،ان کو دفاع میں شہادتیں پیش کرنے کا کئی بار موقع دیا گیا، 3 سال ان کی قید ہے، عمر قید یا سزائے موت کی سزا نہیں ہے، ان کی ہفتے 10 روز میں ضمانت ہو جائے گی، کیس، سزا اور نااہلی برقرار رہےگی۔

وزیر داخلہ نے کہا بلدیاتی الیکشن سے جنرل الیکشن کے نتائج کو اخذ نہیں کرسکتے، ایک شخص نے سیاست میں ایک دوسرے کی بےعزتی کرنے کا کلچر متعارف کروایا،چیئرمین پی ٹی آئی ایک فتنہ ہے، ملک کی سیاست کا ناسور ہے، چیئرمین پی ٹی آئی قوم کو حادثے سے دوچار کرنا چاہتا تھا، اس نے خود کو حادثے سے دوچار کر لیا، اس کو لگتا ہے کہ باہر پیغامات بھیج کر ہمیں ڈرا لے گا تو اس کی بھول ہے۔

قومی اسمبلی کے 266 حلقے ہیں اور صوبائی اسمبلیوں کے 593 حلقے ہیں، الیکشن کمیشن حلقہ بندیوں کے لیے شیڈول کا اعلان کرے گا جس کے بعد کوئی نیا انتظامی یونٹ نہیں بنایا جا سکتا،شیڈول کے اعلان کے بعد 15 روز کے اندر ایڈمنسٹریٹو انتظامات مکمل کیے جاتے ہیں جس میں متعقلہ محکمہ ریونیو سے تحصیل اور ڈسٹرکٹ کے نقشہ جات اور ضروری ڈیٹا لینے کی درخواست کی جاتی ہے۔

ضلعی مردم شماری کی رپورٹ اور آبادی کے بلاک سائز سمیت ڈیٹا کمیٹی کو فراہم کیا جاتا ہے اور حلقہ بندی کمیٹی کو 5 روز میں تربیت دی جاتی ہے۔ اسی دوران کمیٹیوں کو صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں کا ضلعی کوٹہ فراہم کر دیا جاتا ہے۔

حلقہ بندی کمیٹیاں 30 روز کے اندر ابتدائی کام مکمل کرتی ہیں جس کے بعد 4 دن کے اندر حلقہ بندیوں کی ابتدائی اشاعت کر دی جاتی ہے،اس کے بعد 30 روز تک ابتدائی حلقہ بندیوں پر اعتراضات الیکشن کمیشن میں جمع کرائے جاتے ہیں پھر الیکشن کمیشن 30 دن کے اندر اعتراضات کی سماعت کرکے فیصلے کرتا ہے، اعتراضات نمٹانے کے بعد تقریباً تین سے چار روز میں حلقہ بندیوں کی حتمی اشاعت کر دی جاتی ہے۔

گزشتہ حلقہ بندی شیڈول کے اعلان کے بعد تقریباً چار ماہ میں الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کا کام مکمل کیا تھا،حلقہ بندیوں کے لیے ملک کو آبادی اور جغرافیائی لحاظ سے انتخابی حلقہ جات میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ کسی بھی حلقے میں آبادی کا فرق 10 فیصد سے زیادہ نہیں ہوناچاہیے۔ حلقہ بندی کے بعد الیکشن کمیشن ووٹر لسٹوں کا کام مکمل کرکے انہیں منجمد کر دیتا ہے اور اس کے بعد الیکشن شیڈول کا اعلان کیا جاتا ہے۔
 
Last edited by a moderator: