خدا کی تلاش - ضرور پڑھیں

maksyed

Siasat.pk - Blogger
خُدا کی تلاش- ضرور پڑھیں


محترم قارئین السلامُ علیکم

کل رات جب میں چھت پر چادر بِچھا کر سونے کی تیاری کرہی رہا تھا تبھی میری چار سالہ بیٹی بڑی آہستگی سے چلتی ہُوئی میرے قریب آئی اور مجھ سے لپٹ گئی اپنے ننھے سے سر کو میرے سینے پر رکھا اور ہاتھوں کے شکنجے میرے جسم کے گرد کسنے لگی

میں نے پوچھا بیٹا کیا بات ہے کیا نیند نہیں آرہی؟

نہیں بابا آپ سے ایک بات پوچھنی ہے

میں نے کہا پوچھو بیٹا کیا بات ہے

وہ آسمان کی طرف اشارہ کر کے پوچھنے لگی بابا یہ آسمان میں کیا چیز چمکتی ہے؟

میں نے کہا بیٹا یہ ستارے ہیں

تب اُس نے دوسرا سوال داغا بابا کیا یہ ہمارے گھر سے بڑے ہیں یا چھوٹے؟

میں نے کہا بیٹا یہ ستارے ہمارے گھر سے بھی بڑے ہیں بلکہ ہمارے شہر بھی بڑے ہیں بلکہ شائد ہماری زمین سے بھی بڑے ہیں

تب اُس نے حیرت سے پوچھا بابا یہ ستارے اتنے بڑے ہیں تو آسمان میں کس چیز سے لٹکے ہوئے ہیں؟

میں نے کہا بیٹا یہ کسی چیز سے بھی نہیں لٹکے بلکہ اللہ کریم کی قدرت سے آسمان میں لٹکے ہیں تبھی میں نے محسوس کیا کہ میری بیٹی کی گرفت میرے جسم پہ مزید سخت ہوگئی میں نے اپنے ایک ہاتھ کو اس کے ننھے ہاتھوں کی گرفت سے نِکالا اور اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا بیٹا مگر تم پریشان کیوں ہورہی ہو؟

تب اُس نے اپنے خدشے کا اظہار کیا بابا مجھے ڈر لگتا ہے کہیں یہ ستارے آسمان سے گِر نہ پڑیں! بابا کیا یہ ستارے گِر نہیں سکتے؟

میں نے جواباً کہا بیٹا اللہ کریم اپنے بندوں سے بُہت محبت کرتا ہے اس لئے وہ اِن ستاروں کو کبھی ہم پر نہیں گرنے دیگا

بابا کیا اللہ تعالٰی ہم سے کبھی ناراض ہوگیا تو وہ ہم پر ستارے گِرا دیگا؟ اُس نے اگلا سوال داغا

نہیں بیٹا وہ اپنے بندوں پر بُہت مہربان ہے وہ ہم سے ناراض بھی ہوجاتا ہے تو معافی مانگنے پر فوراً خوش بھی ہو جاتا ہے وہ بُہت مہربان ہے بیٹا تُمہاری امّی تم سے جِتنا پیار کرتی ہیں وہ اُس سے بھی بُہت بُہت ذیادہ مُحبت کرتا ہے

بابا اگر مجھ سے غلطی ہوجائے اور میں معافی مانگوں تو کیا اللہ تعالی مجھے معاف کردیگا؟

ہاں بیٹا وہ سبھی کو معاف فرمادیتا ہے

میں نے دیکھا میرے اس جواب سے اُس کہ چہرے پر اطمینان کی لہر دوڑ گئی اور اُس کی گرفت بھی میرے جسم پر کمزور پڑنے لگی تھی

بابا جب تمہیں کسی پر غصہ آتا ہے تو تُم بھی معاف کرکے خوش ہوجاتے ہو؟

میں نے اُسکی جانب دیکھا اور سوچا یہ آج مجھ سے کیسے سوال کر رہی ہے لگتا ہے جیسے میرا ٹیسٹ لیا جارہا ہو حالانکہ میں جانتا ہوں وہ اکثر ایسے سوالات اپنی ماں سے بھی کرتی ہے جس کے جوابات اُس سے نہیں بن پاتے اور وہ مجھ سے کہتی ہے کیا بچی ہے یہ ،،لگتا ہے سوالات کی پٹاری لئے گھومتی ہے،، اور میں ہمیشہ یہ کہہ کر ٹال دیتا تھا کہ بھئی اس کے نام کا عدد آٹھ ہے بُہت اونچی پرواز ہوتی ہے آٹھ والوں کے تخیّلات کی

بابا سوگئے کیا؟میری بیٹی نے مجھے جھنجوڑتے ہوئے پوچھا

نہیں بیٹا جاگ رہا ہوں میں نے اُس کے سر میں انگلیاں گھوماتے ہوئے کہا۔

بابا آپ نے بتایا نہیں آپ بھی غصہ میں معاف کر دیتے ہونا؟

نہیں بیٹا میں اتنی جلدی معاف نہیں کرپاتا کیونکہ میں بُہت گُنہگار انسان ہوں خُود کو سمجھانے میں وقت لگ جاتا ہے

بابا آپ بھی معاف کردیا کریں نا کہیں اللہ تعالٰی ناراض ہوگیا تو یہ ستارے کہیں ہم پر گِر نہ جائیں

ہاں بیٹا آئندہ کوشش کرونگا ۔ میرے اس جواب کے بعد اُس نے اطمینان سے آنکھیں موند لیں جیسے کوئی اہم پیغام یا امانت دیکر کوئی قاصد کوئی امانتدار کسی بوجھ کے فِکر سے آزاد ہوجاتا ہے

چند لمحوں میں ہی وہ میرے برابر میں خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہی تھی اور میری آنکھیں جو چند لمحوں قبل خمارِ نیند سے جُھکی جارہی تھیں خلاؤں میں ستاروں کو ایسے دیکھ رہیں تھیں گویا جسیے زندگی میں پہلی بار ستاروں کو دیکھا ہو۔

پھر مجھے اپنی جوانی کا وہ واقعہ یا د آیا جب میں ایک درویش کی کُٹیا میں اُس سے پوچھ رہا تھا کہ بابا خُدا کو پانے کا آسان طریقہ کیا ہے کیونکہ میں نے کتابوں میں پڑھا ہے پہلے لوگ اپنی آدھی سے ذیادہ زندگی اللہ عزوجل کو پانے کیلئے دُنیا سے کٹ جاتے تھے جنگل نشین ہوجایا کرتے تھے خود پر دُنیا کی نعمتوں کے دروازے بند کرلیا کرتے تھے۔ تب اُس درویش نے مجھے ایک حدیث قُدسی سُنائی تھی جسکا مفہوم کچھ اسطرح ہے۔

اے اِبن آدم ایک تیری چاہت ہے اور اِک میری چاہت ہے اگر تو چَلا اُس پر جو میری چاہت ہے تو میں تُجھے دُونگا وہ بھی جو تیری چاہت ہے اور اگر چَلا اُس پر جو تیری چاہت ہے تو تجھے تَھکا دونگا اُس میں جو تیری چاہت ہے پھر ہوگا وہی جو میری چاہت ہے۔

یہ حدیث قُدسی سُنا کر فرمانے لگے بِیٹا وہ کیا چیز ہے جو واقعی صرف تمہاری ہے؟

میں نے عرض کی حضور سب کچھ اللہ کریم کی امانت ہے میرا تو کُچھ بھی نہیں یہ جان، یہ صحت، یہ مال، یہ عزت، سبھی پہ اللہ کا اختیار ہے میرا تو کچھ بھی نہیں۔

وہ مُسکراتے ہوئے فرمانے لگے نہیں بیٹا تم نے جو کچھ کہا ٹھیک ہے مگر ایک چیز ہے جو صرف تُمہارے اختیار میں ہے وہی قیمتی متاع ہے انسان کے پاس جس کی قربانی اللہُ سُبحانہُ تعالٰی کو بےحد پسند ہے۔

میں عقل کے گھوڑے دوڑاتا رہا تمام باتوں کو بار بار دماغ میں دُہراتا رہا لیکن کچھ پلے نہیں پڑا بڑے ادب سے اُس درویش کے قدموں کو دباتے ہوئے عرض کرنے لگا بابا میں بُہت کم فہم ہوں ان کتابوں کو میں پڑھ تو لیتا ہوں لیکن شائد سمجھنے سے قاصر ہوں آپ ہی بتا دیجئے نا کہ آخر وہ ایسی کیا چیز ہے جسکی مجھے خبر نہیں اور اُسکی قربانی اللہ کریم کو بے حد پسند ہے

اُس درویش نے اپنے قدموں کو سمیٹا اور چار زانوں بیٹھ گئے میری جانب بڑے غور سے دیکھا اور ایک جذب کی کیفیت میں فرمانے لگے بیٹا جانتے ہو انسان اشرف المخلوقات کیوں ہے

میں نے ادب سے عرض کی حضور آپ ہی ارشاد فرمائیں تب وہ درویش فرمانے لگے بیٹا اس لئے کہ اللہ کریم نے انسان کو عقل دی پرکھنے کیلئے شعور دیا خیر اور شر کو سمجھنے کیلئے پھر اپنا آئین دیا جس سے وہ اللہ کریم کی رضا اور ناراضگی کو جان سکے لیکن اس انسان کو اللہ کریم نے پابند نہیں کیا بلکہ اِس انسان کو اختیار دیا کہ چاہے تو دُنیا کی زندگی میں خیر کا رستہ اپنائے چاہے تو شر کے راستے پر چلے چاہے تو آخرت کی تیاری میں مشغول رہے چاہے تو دُنیا کی رنگینیوں میں خود کو گُما لے۔

بیٹا یہی اختیار ، یہی چاہت، یہی خواہش انسان کی سب سے بڑی متاع ہے ۔ تم نے مجھ سے پوچھا ہے کہ اللہ کریم کو پانے کا آسان طریقہ کیا ہے تو بس اپنی یہی چاہت، اپنا اختیار، اپنی خاہش کو اللہ کریم کے سپرد کردے تجھے خُدا مل جائے گا تُجھے کبھی جنگلوں کا رُخ نہیں کرنا پڑے گا تُجھے کبھی صحراؤں کی خاک نہیں چھاننی پڑے گی تجھے خُدا کو ڈھونڈنے کیلئے پہاڑوں پر بھی جانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی کیونکہ وہ تو تیری شہہ رگ سے بھی ذیادہ قریب ہے ہاں البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ جب تو خدا کو پالے تو تیرے اندر کی تپش اسقدر بڑھ جائے کہ تجھے انسانوں کی بھیڑ سے ڈر لگنے لگے تجھے لگے کہ تیرے وجود کی آتش اس بھیڑ سے سرد پڑنے لگی ہے تب جنگل، پہاڑ ، دریا سبھی تیرے منتظر ہونگے تو جہاں بھی ہوگا خدا سے بات کرلے گا

بیٹا یہ آسان رستہ نہیں بلکہ بُہت کٹھن راہ ہے اس راہ پہ چلنا ہر ایک کے بس کی بات بھی نہیں ،اس راہ پہ چلنے والوں کو اپنے نفس سے لڑنا پڑتا ہے اپنے من سے لڑنا پڑتا ہے، اپنی چاہت کو قربان کرنا بَچّوں کا کھیل نہیں پہلے سوچ لے تجھے اپنی ذات کے بُت کو مسمار کرنا پڑے گا،انا کے جام کو بہانا ہوگا، گالی بکنے والے سے خندہ پیشانی سے مِلنا پڑے گا تُہمت لگانے والے سے ہنس کر ملنا پڑے گا ،مارنے والے کے سامنے دوسرا گال پیش کرنا پڑے گا، نرم بستر کو طلاق دینی پڑے گی، طرح طرح کے پکوانوں سے نظر موڑ کر سوکھی روٹی پر قناعت کی عادت ڈالنی ہوگی انسانوں سے مُحبت کرنی ہوگی صرف مُحبت۔

اپنے وجود میں موجود نفرت، غصے ، حسد کے آتش کدے پر ندامت کا پانی ڈالنا ہوگا جو کُچھ بھی تیرے پاس ہے وہ سب خُدا کا ہے تو صرف اُسکا امین ہے تو جب تجھ سے واپسی کا تقاضہ ہو تو یہ مت کہنا کہ میرا تھا، میں نے دِیا، بلکہ ہمیشہ یہی کہنا کہ جس کا تھا اُسی کو لوٹادیا ، مصیبت کے وقت واویلہ نہ کرنا بلکہ صبر کرنا کہ وہ صابروں کو پسند کرتا ہے، ہر لمحہ اپنے عمل پر نظر رکھنی پڑے گی اپنا احتساب کرنا پڑے گا کہ تیرا عمل تیری مرضی کے مُطابق ہے یا اللہ کریم کی مرضی کے مُطابق، تو وہ کررہا ہے جو تیری چاہت ہے یا وہ کررہا ہے جو اللہ کریم کی چاہت ہے کبھی تیری چاہت ہوگی کہ نرم وگرم بستر سے خود کو جُدا نہ کرے لیکن تبھی اللہ کی چاہت ہوگی کہ تو بستر کو چھوڑ کے اُس کی بارگاہ میں حاضر ہو،کبھی تیری چاہت ہوگی کہ تیرا مال تیری جیب میں رہے اُس وقت ہوسکتا ہے اُس کی چاہت یہ ہو کہ تو وہ مال جو تونے بڑی محنت سے کمایا ہے کسی دوسرے کی ضرورت پر خرچ کردے

کبھی تیری چاہت ہوگی کہ سخت گرمی کے سبب ٹھنڈا پانی پئے یا اپنے پیٹ کی آگ بُجھانے کیلئے کچھ کھالے لیکن اُس کی چاہت ہوگی کہ تو روزہ دار رہے، کبھی سخت سردی کے سبب تیری چاہت ہوگی کہ ٹھنڈا پانی تیرے جسم کو نہ چُھوئے تبھی اُس کی چاہت ہوگی کہ اُسی ٹھنڈے پانی سے سخت جاڑے میں وضو کر، کبھی تیری چاہت تجھ سے تقاضہ کرے گی کہ تنہا رہ کر جسم کی تھکان مِٹالے تبھی اُسکی چاہت کا تقاضہ ہوگا کہ کسی کے دُکھ میں شریک ہوجا اور کسی کے دُکھ درد کو بانٹنے کے لئے سفر اختیار کر کبھی تیری چاہت ہوگی کہ سامنے والے کا مُنہ نوچ لے تبھی اُسکی چاہت ہوگی کہ تو اُسے سینے سے لگا لے، کبھی نفسانی خواہشات تجھے اپنی جانب بُلائیں گی تیرا من بھی چاہے گا مگر اُس کی چاہت تقاضہ کرےگی میرے سِوا سب سے بےنیاز ہوجا، بیٹا اپنی چاہت اپنی مرضی اپنی خواہش، کی قربانی ہی وہ راستہ ہے جِس پر چل کر بندہ خُدا کو پالیتا ہے

اگر اپنی چاہت کو قربان کرنے کا حوصلہ ہے تو اِس راہ پر ضرور قدم رکھ وہ کسی کی کوشش کو ضایع نہیں کرتا لیکن یہ بھی یاد رکھنا کہ معرفت کی منزل کو پانے کا سفر اسقدر دُشوار ہے کہ ہزاروں مسافر اس راہ پر چلتے ہیں لیکن سفر شروع ہونے کے بعد اس کی تکالیف پر صبر چند ایک ہی کر پاتے ہیں اور وہ بھی آدھی منزل ہی سر کرپاتے ہیں منزل پر تو ایک دو ہی پہنچ پاتے ہیں تو بھی کوشش کر دیکھ شائد تُجھے بھی منزل مل جائے اگر تونے دُنیا کی صعوبتوں پر صبر کو عادت بنایا اپنی چاہت اُسکی چاہت پر قربان کردی تو ضرور خدا عزوجل کو پالے گا مجھے اِس سے ذیادہ آسان راستہ کی خبر نہیں

بُول چلنا چاہے گا اِس راستہ پر درویش نے مسکراتے ہوئے میری جانب دیکھا تھا؟

میں اِنہی خیالات میں گُم تھا کہ میری بَچّی نے کسمسا کر دوبارہ میرے سینے پر ہاتھ رکھا میں نے چونک کر اُس کی جانب دیکھا تو وہ عالمِ نیند میں مُسکرا رہی تھی جیسے مُجھ سے سوال کر رہی ہو کہ بابا کیا سوچا ہے آپ نے چلیں گے اِس راہ پر

اور میں نے زِیرِ لب بے اختیار کہا کہ ضرور کوشش کرونگا اگر اللہ کریم کا فضل مجھ گُنہگار پر بھی ہُوا انشا ءَاللہ عزوجل آج شاعر مشرق کا یہ شعر بھی رات کی تنہائی میں مجھے کُچھ سمجھانے کی کوشش کررہا ہے اور بُہت لُطف دے رہا ہے

خُدا کے بندے ہیں ہَزاروں بَنّوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اُسکا بندہ بَنُوں گا جس کو خُدا کے بندوں سے پیار ہوگا


: میری رائے
اللہ پاک بڑا مہربان ہے ۔ ہم پر بڑی مہربانی کرتا ہے۔ہماری شامتیں ہمارے ہی اعمال ہیں جو ہمارے آگے آتی رہتیں ہیں۔اگر آج بھی ہم اپنے حصے کے کام کرنا شروع کر دیں تو یقین کریں اللہ بڑا مہربان ہے۔ اوریقینن وہ ہمیں تنہا نہیں . چھوڑے گا ۔ ہمیں اپنے اللہ کی طرف لوٹ کے جانا ہو گا، وہ خود کہتا ہے کہ میری طرف آ کر تو دیکھ

اللہ تعالٰی انسان سے فرماتا ہے

میری طرف آ کر تو دیکھ
متوجہ نہ ہوں تو کہنا

میری راہ پر چل کر تو دیکھ
راہیں نہ کھول دوں تو کہنا

مجھ سے سوال کر کے تو دیکھ
بخشش کی انتہا نہ کر دوں تو کہنا

میرے لئے بے قدر ہو کر تو دیکھ
قدر کی انتہا نہ کر دوں تو کہنا

میرے لیے ملامت سہہ کر تو دیکھ
اکرام کی حد نہ کر دوں تو کہنا

میرے لئے لٹ کر تو دیکھ
رحمت کے خزانے نہ لٹا دوں تو کہنا

میرے کوچے میں بک کر تو دیکھ
انمول نہ کر دوں تو کہنا

مجھے رب مان کر تو دیکھ
سب سے بے نیاز نہ کر دوں تو کہنا

میرے خوف سے آنسو بہا کر تو دیکھ
مغغرت کے دریا نہ بہا دوں تو کہنا

وفا کی لاج نبھا کر تو دیکھ
عطا کی حد نہ کر دوں تو کہنا

میرے نام کی تعظیم کر کے تو دیکھ
تکریم کی انتہا نہ کر دوں تو کہنا

مجھے حی القیوم مان کر تو دیکھ
ابدی حیات کا امین نہ بنا دوں تو کہنا

ہستی کو فنا کر کے تو دیکھ
جام بقا سے سرفراز نہ کر دوں تو کہنا

بالآخر میرا ہو کر تو دیکھ
ہر کسی کو تیرا نہ بنا دوں تو کہنا


ہماری پوری کی پوری قوم اس انتظار میں ہے کہ کوئی بندہ آئے، ہماری ٹانگیں پکڑ کر چارپائی سے نیچے کرے، ہماری بغلوں میں ہاتھ ڈال کر ہمیں کھڑا کرے، اپنے کندھے پر ہمیں بٹھا کر ہمارا پھیلایا ہوا گند صاف کرے اور پھر سے ہمیں صاف ستھرے نرم و گرم بستر پر لٹا دے تا کہ ہم دوبارہ آرام کی نیند سو سکیں۔

آپ قیامت تک انتظار کر لیں، نہ تو اللہ خود آ کر یہ کام کرے گا اور نہ ہی اپنے فرشتے آپ کی خدمت کے لیے بھیجے گا۔ اگر آپ اپنی حالت سدھارنا چاہتے ہیں تو خود کچھ کیجیے ورنہ جان لیجیے کہ قیامت تک پٹتے رہیں گے۔ ہماری قوم تو ایسی ہے کہ یہاں اب انگریز بھی دوبارہ نہیں آنے والا اور نہ ہی کبھی امریکہ اس ملک کو اپنی ریاست بنائے گا۔ وہ باہر بیٹھ کر ہم پر ہمارے ہی "لوٹوں" کے ذریعے حکومت کرے گا اور اپنا الو سیدھا کرے گا۔ اس میں اس کا قصور بھی تو نہیں۔ ہم خود ہی ایسے "صارفین" کی تلاش میں ہیں جو ہمارا زیادہ سے زیادہ ریٹ لگائیں، پھر چاہے ہماری ایسی تیسی کر دیں ہماری بلا سے۔

اگر ہم لوگ واقعی اپنے ساتھ مخلص ہیں تو ہمیں مسیحا کا راستہ دیکھنے کی بجائے اپنے آپ پر اعتماد کرنا چاہیے، اپنے آپ کو انفرادی سطح پر ٹھیک کرنا چاہیے، جب ہم اپنے آپ کو، اپنے گھر والوں کو اور اپنے دوستوں کو ٹھیک کر لیں گے تو سب ٹھیک ہو جائے گا، یقین کیجیے۔

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا

ہمارے وطن عزیز کے حالات بھی ٹھیک ہو سکتے ہیں، اگر ہم اللہ پاک کی طرف لوٹ جاہیں اور اللہ پر پکا اور کامل یقین کریں, اللہ اور قرآن کے بتائے ہوئے اصولوں کو اپنالیں، اللہ کی چاہت کو اپنی چاہت جانیں, اگر اللہ کا بتایا ہوا نظام اپنا لیا تو ہمارے مسائل حل ہونا شروع ہو جائے گے، انشاللہ۔۔۔۔۔

انشا اللہ اللہ بہتری کرے گا انشا اللہ ۔۔۔۔۔

یا پروردگار اس ملک پاکستان کی حفاظت فرما ۔۔۔۔۔

اللھم آمین یا رب العالمین


حرف دعا
مخمور سید
 

Wadaich

Prime Minister (20k+ posts)
:mash: Nice sharing. This is the truth of life. So simple and practical. What should we call us who have bagged many degrees, but cannot understand the real purpose of our being?
 

Rana Tahir Mahmood

Senator (1k+ posts)
It is a good expressive writing to convince the common man of old era but not for the educated and developed personalities. This type of concepts have already obsolete in modern world but principally they apply but to convince the modern generation we need to upgrade our understanding to teach in a modern scientific way. The new generation who is aware of astronomy, computer and space it is hard to convince them with these arguments.
 

lotaa

Minister (2k+ posts)
JazakALLAH bri very good post,ALLAH hum sba ko b hadayet de aameen
خُدا کی تلاش- ضرور پڑھیں


محترم قارئین السلامُ علیکم

کل رات جب میں چھت پر چادر بِچھا کر سونے کی تیاری کرہی رہا تھا تبھی میری چار سالہ بیٹی بڑی آہستگی سے چلتی ہُوئی میرے قریب آئی اور مجھ سے لپٹ گئی اپنے ننھے سے سر کو میرے سینے پر رکھا اور ہاتھوں کے شکنجے میرے جسم کے گرد کسنے لگی

میں نے پوچھا بیٹا کیا بات ہے کیا نیند نہیں آرہی؟

نہیں بابا آپ سے ایک بات پوچھنی ہے

میں نے کہا پوچھو بیٹا کیا بات ہے

وہ آسمان کی طرف اشارہ کر کے پوچھنے لگی بابا یہ آسمان میں کیا چیز چمکتی ہے؟

میں نے کہا بیٹا یہ ستارے ہیں

تب اُس نے دوسرا سوال داغا بابا کیا یہ ہمارے گھر سے بڑے ہیں یا چھوٹے؟

میں نے کہا بیٹا یہ ستارے ہمارے گھر سے بھی بڑے ہیں بلکہ ہمارے شہر بھی بڑے ہیں بلکہ شائد ہماری زمین سے بھی بڑے ہیں

تب اُس نے حیرت سے پوچھا بابا یہ ستارے اتنے بڑے ہیں تو آسمان میں کس چیز سے لٹکے ہوئے ہیں؟

میں نے کہا بیٹا یہ کسی چیز سے بھی نہیں لٹکے بلکہ اللہ کریم کی قدرت سے آسمان میں لٹکے ہیں تبھی میں نے محسوس کیا کہ میری بیٹی کی گرفت میرے جسم پہ مزید سخت ہوگئی میں نے اپنے ایک ہاتھ کو اس کے ننھے ہاتھوں کی گرفت سے نِکالا اور اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا بیٹا مگر تم پریشان کیوں ہورہی ہو؟

تب اُس نے اپنے خدشے کا اظہار کیا بابا مجھے ڈر لگتا ہے کہیں یہ ستارے آسمان سے گِر نہ پڑیں! بابا کیا یہ ستارے گِر نہیں سکتے؟

میں نے جواباً کہا بیٹا اللہ کریم اپنے بندوں سے بُہت محبت کرتا ہے اس لئے وہ اِن ستاروں کو کبھی ہم پر نہیں گرنے دیگا

بابا کیا اللہ تعالٰی ہم سے کبھی ناراض ہوگیا تو وہ ہم پر ستارے گِرا دیگا؟ اُس نے اگلا سوال داغا

نہیں بیٹا وہ اپنے بندوں پر بُہت مہربان ہے وہ ہم سے ناراض بھی ہوجاتا ہے تو معافی مانگنے پر فوراً خوش بھی ہو جاتا ہے وہ بُہت مہربان ہے بیٹا تُمہاری امّی تم سے جِتنا پیار کرتی ہیں وہ اُس سے بھی بُہت بُہت ذیادہ مُحبت کرتا ہے

بابا اگر مجھ سے غلطی ہوجائے اور میں معافی مانگوں تو کیا اللہ تعالی مجھے معاف کردیگا؟

ہاں بیٹا وہ سبھی کو معاف فرمادیتا ہے

میں نے دیکھا میرے اس جواب سے اُس کہ چہرے پر اطمینان کی لہر دوڑ گئی اور اُس کی گرفت بھی میرے جسم پر کمزور پڑنے لگی تھی

بابا جب تمہیں کسی پر غصہ آتا ہے تو تُم بھی معاف کرکے خوش ہوجاتے ہو؟

میں نے اُسکی جانب دیکھا اور سوچا یہ آج مجھ سے کیسے سوال کر رہی ہے لگتا ہے جیسے میرا ٹیسٹ لیا جارہا ہو حالانکہ میں جانتا ہوں وہ اکثر ایسے سوالات اپنی ماں سے بھی کرتی ہے جس کے جوابات اُس سے نہیں بن پاتے اور وہ مجھ سے کہتی ہے کیا بچی ہے یہ ،،لگتا ہے سوالات کی پٹاری لئے گھومتی ہے،، اور میں ہمیشہ یہ کہہ کر ٹال دیتا تھا کہ بھئی اس کے نام کا عدد آٹھ ہے بُہت اونچی پرواز ہوتی ہے آٹھ والوں کے تخیّلات کی

بابا سوگئے کیا؟میری بیٹی نے مجھے جھنجوڑتے ہوئے پوچھا

نہیں بیٹا جاگ رہا ہوں میں نے اُس کے سر میں انگلیاں گھوماتے ہوئے کہا۔

بابا آپ نے بتایا نہیں آپ بھی غصہ میں معاف کر دیتے ہونا؟

نہیں بیٹا میں اتنی جلدی معاف نہیں کرپاتا کیونکہ میں بُہت گُنہگار انسان ہوں خُود کو سمجھانے میں وقت لگ جاتا ہے

بابا آپ بھی معاف کردیا کریں نا کہیں اللہ تعالٰی ناراض ہوگیا تو یہ ستارے کہیں ہم پر گِر نہ جائیں

ہاں بیٹا آئندہ کوشش کرونگا ۔ میرے اس جواب کے بعد اُس نے اطمینان سے آنکھیں موند لیں جیسے کوئی اہم پیغام یا امانت دیکر کوئی قاصد کوئی امانتدار کسی بوجھ کے فِکر سے آزاد ہوجاتا ہے

چند لمحوں میں ہی وہ میرے برابر میں خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہی تھی اور میری آنکھیں جو چند لمحوں قبل خمارِ نیند سے جُھکی جارہی تھیں خلاؤں میں ستاروں کو ایسے دیکھ رہیں تھیں گویا جسیے زندگی میں پہلی بار ستاروں کو دیکھا ہو۔

پھر مجھے اپنی جوانی کا وہ واقعہ یا د آیا جب میں ایک درویش کی کُٹیا میں اُس سے پوچھ رہا تھا کہ بابا خُدا کو پانے کا آسان طریقہ کیا ہے کیونکہ میں نے کتابوں میں پڑھا ہے پہلے لوگ اپنی آدھی سے ذیادہ زندگی اللہ عزوجل کو پانے کیلئے دُنیا سے کٹ جاتے تھے جنگل نشین ہوجایا کرتے تھے خود پر دُنیا کی نعمتوں کے دروازے بند کرلیا کرتے تھے۔ تب اُس درویش نے مجھے ایک حدیث قُدسی سُنائی تھی جسکا مفہوم کچھ اسطرح ہے۔

اے اِبن آدم ایک تیری چاہت ہے اور اِک میری چاہت ہے اگر تو چَلا اُس پر جو میری چاہت ہے تو میں تُجھے دُونگا وہ بھی جو تیری چاہت ہے اور اگر چَلا اُس پر جو تیری چاہت ہے تو تجھے تَھکا دونگا اُس میں جو تیری چاہت ہے پھر ہوگا وہی جو میری چاہت ہے۔

یہ حدیث قُدسی سُنا کر فرمانے لگے بِیٹا وہ کیا چیز ہے جو واقعی صرف تمہاری ہے؟

میں نے عرض کی حضور سب کچھ اللہ کریم کی امانت ہے میرا تو کُچھ بھی نہیں یہ جان، یہ صحت، یہ مال، یہ عزت، سبھی پہ اللہ کا اختیار ہے میرا تو کچھ بھی نہیں۔

وہ مُسکراتے ہوئے فرمانے لگے نہیں بیٹا تم نے جو کچھ کہا ٹھیک ہے مگر ایک چیز ہے جو صرف تُمہارے اختیار میں ہے وہی قیمتی متاع ہے انسان کے پاس جس کی قربانی اللہُ سُبحانہُ تعالٰی کو بےحد پسند ہے۔

میں عقل کے گھوڑے دوڑاتا رہا تمام باتوں کو بار بار دماغ میں دُہراتا رہا لیکن کچھ پلے نہیں پڑا بڑے ادب سے اُس درویش کے قدموں کو دباتے ہوئے عرض کرنے لگا بابا میں بُہت کم فہم ہوں ان کتابوں کو میں پڑھ تو لیتا ہوں لیکن شائد سمجھنے سے قاصر ہوں آپ ہی بتا دیجئے نا کہ آخر وہ ایسی کیا چیز ہے جسکی مجھے خبر نہیں اور اُسکی قربانی اللہ کریم کو بے حد پسند ہے

اُس درویش نے اپنے قدموں کو سمیٹا اور چار زانوں بیٹھ گئے میری جانب بڑے غور سے دیکھا اور ایک جذب کی کیفیت میں فرمانے لگے بیٹا جانتے ہو انسان اشرف المخلوقات کیوں ہے

میں نے ادب سے عرض کی حضور آپ ہی ارشاد فرمائیں تب وہ درویش فرمانے لگے بیٹا اس لئے کہ اللہ کریم نے انسان کو عقل دی پرکھنے کیلئے شعور دیا خیر اور شر کو سمجھنے کیلئے پھر اپنا آئین دیا جس سے وہ اللہ کریم کی رضا اور ناراضگی کو جان سکے لیکن اس انسان کو اللہ کریم نے پابند نہیں کیا بلکہ اِس انسان کو اختیار دیا کہ چاہے تو دُنیا کی زندگی میں خیر کا رستہ اپنائے چاہے تو شر کے راستے پر چلے چاہے تو آخرت کی تیاری میں مشغول رہے چاہے تو دُنیا کی رنگینیوں میں خود کو گُما لے۔

بیٹا یہی اختیار ، یہی چاہت، یہی خواہش انسان کی سب سے بڑی متاع ہے ۔ تم نے مجھ سے پوچھا ہے کہ اللہ کریم کو پانے کا آسان طریقہ کیا ہے تو بس اپنی یہی چاہت، اپنا اختیار، اپنی خاہش کو اللہ کریم کے سپرد کردے تجھے خُدا مل جائے گا تُجھے کبھی جنگلوں کا رُخ نہیں کرنا پڑے گا تُجھے کبھی صحراؤں کی خاک نہیں چھاننی پڑے گی تجھے خُدا کو ڈھونڈنے کیلئے پہاڑوں پر بھی جانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی کیونکہ وہ تو تیری شہہ رگ سے بھی ذیادہ قریب ہے ہاں البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ جب تو خدا کو پالے تو تیرے اندر کی تپش اسقدر بڑھ جائے کہ تجھے انسانوں کی بھیڑ سے ڈر لگنے لگے تجھے لگے کہ تیرے وجود کی آتش اس بھیڑ سے سرد پڑنے لگی ہے تب جنگل، پہاڑ ، دریا سبھی تیرے منتظر ہونگے تو جہاں بھی ہوگا خدا سے بات کرلے گا

بیٹا یہ آسان رستہ نہیں بلکہ بُہت کٹھن راہ ہے اس راہ پہ چلنا ہر ایک کے بس کی بات بھی نہیں ،اس راہ پہ چلنے والوں کو اپنے نفس سے لڑنا پڑتا ہے اپنے من سے لڑنا پڑتا ہے، اپنی چاہت کو قربان کرنا بَچّوں کا کھیل نہیں پہلے سوچ لے تجھے اپنی ذات کے بُت کو مسمار کرنا پڑے گا،انا کے جام کو بہانا ہوگا، گالی بکنے والے سے خندہ پیشانی سے مِلنا پڑے گا تُہمت لگانے والے سے ہنس کر ملنا پڑے گا ،مارنے والے کے سامنے دوسرا گال پیش کرنا پڑے گا، نرم بستر کو طلاق دینی پڑے گی، طرح طرح کے پکوانوں سے نظر موڑ کر سوکھی روٹی پر قناعت کی عادت ڈالنی ہوگی انسانوں سے مُحبت کرنی ہوگی صرف مُحبت۔

اپنے وجود میں موجود نفرت، غصے ، حسد کے آتش کدے پر ندامت کا پانی ڈالنا ہوگا جو کُچھ بھی تیرے پاس ہے وہ سب خُدا کا ہے تو صرف اُسکا امین ہے تو جب تجھ سے واپسی کا تقاضہ ہو تو یہ مت کہنا کہ میرا تھا، میں نے دِیا، بلکہ ہمیشہ یہی کہنا کہ جس کا تھا اُسی کو لوٹادیا ، مصیبت کے وقت واویلہ نہ کرنا بلکہ صبر کرنا کہ وہ صابروں کو پسند کرتا ہے، ہر لمحہ اپنے عمل پر نظر رکھنی پڑے گی اپنا احتساب کرنا پڑے گا کہ تیرا عمل تیری مرضی کے مُطابق ہے یا اللہ کریم کی مرضی کے مُطابق، تو وہ کررہا ہے جو تیری چاہت ہے یا وہ کررہا ہے جو اللہ کریم کی چاہت ہے کبھی تیری چاہت ہوگی کہ نرم وگرم بستر سے خود کو جُدا نہ کرے لیکن تبھی اللہ کی چاہت ہوگی کہ تو بستر کو چھوڑ کے اُس کی بارگاہ میں حاضر ہو،کبھی تیری چاہت ہوگی کہ تیرا مال تیری جیب میں رہے اُس وقت ہوسکتا ہے اُس کی چاہت یہ ہو کہ تو وہ مال جو تونے بڑی محنت سے کمایا ہے کسی دوسرے کی ضرورت پر خرچ کردے

کبھی تیری چاہت ہوگی کہ سخت گرمی کے سبب ٹھنڈا پانی پئے یا اپنے پیٹ کی آگ بُجھانے کیلئے کچھ کھالے لیکن اُس کی چاہت ہوگی کہ تو روزہ دار رہے، کبھی سخت سردی کے سبب تیری چاہت ہوگی کہ ٹھنڈا پانی تیرے جسم کو نہ چُھوئے تبھی اُس کی چاہت ہوگی کہ اُسی ٹھنڈے پانی سے سخت جاڑے میں وضو کر، کبھی تیری چاہت تجھ سے تقاضہ کرے گی کہ تنہا رہ کر جسم کی تھکان مِٹالے تبھی اُسکی چاہت کا تقاضہ ہوگا کہ کسی کے دُکھ میں شریک ہوجا اور کسی کے دُکھ درد کو بانٹنے کے لئے سفر اختیار کر کبھی تیری چاہت ہوگی کہ سامنے والے کا مُنہ نوچ لے تبھی اُسکی چاہت ہوگی کہ تو اُسے سینے سے لگا لے، کبھی نفسانی خواہشات تجھے اپنی جانب بُلائیں گی تیرا من بھی چاہے گا مگر اُس کی چاہت تقاضہ کرےگی میرے سِوا سب سے بےنیاز ہوجا، بیٹا اپنی چاہت اپنی مرضی اپنی خواہش، کی قربانی ہی وہ راستہ ہے جِس پر چل کر بندہ خُدا کو پالیتا ہے

اگر اپنی چاہت کو قربان کرنے کا حوصلہ ہے تو اِس راہ پر ضرور قدم رکھ وہ کسی کی کوشش کو ضایع نہیں کرتا لیکن یہ بھی یاد رکھنا کہ معرفت کی منزل کو پانے کا سفر اسقدر دُشوار ہے کہ ہزاروں مسافر اس راہ پر چلتے ہیں لیکن سفر شروع ہونے کے بعد اس کی تکالیف پر صبر چند ایک ہی کر پاتے ہیں اور وہ بھی آدھی منزل ہی سر کرپاتے ہیں منزل پر تو ایک دو ہی پہنچ پاتے ہیں تو بھی کوشش کر دیکھ شائد تُجھے بھی منزل مل جائے اگر تونے دُنیا کی صعوبتوں پر صبر کو عادت بنایا اپنی چاہت اُسکی چاہت پر قربان کردی تو ضرور خدا عزوجل کو پالے گا مجھے اِس سے ذیادہ آسان راستہ کی خبر نہیں

بُول چلنا چاہے گا اِس راستہ پر درویش نے مسکراتے ہوئے میری جانب دیکھا تھا؟

میں اِنہی خیالات میں گُم تھا کہ میری بَچّی نے کسمسا کر دوبارہ میرے سینے پر ہاتھ رکھا میں نے چونک کر اُس کی جانب دیکھا تو وہ عالمِ نیند میں مُسکرا رہی تھی جیسے مُجھ سے سوال کر رہی ہو کہ بابا کیا سوچا ہے آپ نے چلیں گے اِس راہ پر

اور میں نے زِیرِ لب بے اختیار کہا کہ ضرور کوشش کرونگا اگر اللہ کریم کا فضل مجھ گُنہگار پر بھی ہُوا انشا ءَاللہ عزوجل آج شاعر مشرق کا یہ شعر بھی رات کی تنہائی میں مجھے کُچھ سمجھانے کی کوشش کررہا ہے اور بُہت لُطف دے رہا ہے

خُدا کے بندے ہیں ہَزاروں بَنّوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اُسکا بندہ بَنُوں گا جس کو خُدا کے بندوں سے پیار ہوگا


: میری رائے
اللہ پاک بڑا مہربان ہے ۔ ہم پر بڑی مہربانی کرتا ہے۔ہماری شامتیں ہمارے ہی اعمال ہیں جو ہمارے آگے آتی رہتیں ہیں۔اگر آج بھی ہم اپنے حصے کے کام کرنا شروع کر دیں تو یقین کریں اللہ بڑا مہربان ہے۔ اوریقینن وہ ہمیں تنہا نہیں . چھوڑے گا ۔ ہمیں اپنے اللہ کی طرف لوٹ کے جانا ہو گا، وہ خود کہتا ہے کہ میری طرف آ کر تو دیکھ

اللہ تعالٰی انسان سے فرماتا ہے

میری طرف آ کر تو دیکھ
متوجہ نہ ہوں تو کہنا

میری راہ پر چل کر تو دیکھ
راہیں نہ کھول دوں تو کہنا

مجھ سے سوال کر کے تو دیکھ
بخشش کی انتہا نہ کر دوں تو کہنا

میرے لئے بے قدر ہو کر تو دیکھ
قدر کی انتہا نہ کر دوں تو کہنا

میرے لیے ملامت سہہ کر تو دیکھ
اکرام کی حد نہ کر دوں تو کہنا

میرے لئے لٹ کر تو دیکھ
رحمت کے خزانے نہ لٹا دوں تو کہنا

میرے کوچے میں بک کر تو دیکھ
انمول نہ کر دوں تو کہنا

مجھے رب مان کر تو دیکھ
سب سے بے نیاز نہ کر دوں تو کہنا

میرے خوف سے آنسو بہا کر تو دیکھ
مغغرت کے دریا نہ بہا دوں تو کہنا

وفا کی لاج نبھا کر تو دیکھ
عطا کی حد نہ کر دوں تو کہنا

میرے نام کی تعظیم کر کے تو دیکھ
تکریم کی انتہا نہ کر دوں تو کہنا

مجھے حی القیوم مان کر تو دیکھ
ابدی حیات کا امین نہ بنا دوں تو کہنا

ہستی کو فنا کر کے تو دیکھ
جام بقا سے سرفراز نہ کر دوں تو کہنا

بالآخر میرا ہو کر تو دیکھ
ہر کسی کو تیرا نہ بنا دوں تو کہنا


ہماری پوری کی پوری قوم اس انتظار میں ہے کہ کوئی بندہ آئے، ہماری ٹانگیں پکڑ کر چارپائی سے نیچے کرے، ہماری بغلوں میں ہاتھ ڈال کر ہمیں کھڑا کرے، اپنے کندھے پر ہمیں بٹھا کر ہمارا پھیلایا ہوا گند صاف کرے اور پھر سے ہمیں صاف ستھرے نرم و گرم بستر پر لٹا دے تا کہ ہم دوبارہ آرام کی نیند سو سکیں۔

آپ قیامت تک انتظار کر لیں، نہ تو اللہ خود آ کر یہ کام کرے گا اور نہ ہی اپنے فرشتے آپ کی خدمت کے لیے بھیجے گا۔ اگر آپ اپنی حالت سدھارنا چاہتے ہیں تو خود کچھ کیجیے ورنہ جان لیجیے کہ قیامت تک پٹتے رہیں گے۔ ہماری قوم تو ایسی ہے کہ یہاں اب انگریز بھی دوبارہ نہیں آنے والا اور نہ ہی کبھی امریکہ اس ملک کو اپنی ریاست بنائے گا۔ وہ باہر بیٹھ کر ہم پر ہمارے ہی "لوٹوں" کے ذریعے حکومت کرے گا اور اپنا الو سیدھا کرے گا۔ اس میں اس کا قصور بھی تو نہیں۔ ہم خود ہی ایسے "صارفین" کی تلاش میں ہیں جو ہمارا زیادہ سے زیادہ ریٹ لگائیں، پھر چاہے ہماری ایسی تیسی کر دیں ہماری بلا سے۔

اگر ہم لوگ واقعی اپنے ساتھ مخلص ہیں تو ہمیں مسیحا کا راستہ دیکھنے کی بجائے اپنے آپ پر اعتماد کرنا چاہیے، اپنے آپ کو انفرادی سطح پر ٹھیک کرنا چاہیے، جب ہم اپنے آپ کو، اپنے گھر والوں کو اور اپنے دوستوں کو ٹھیک کر لیں گے تو سب ٹھیک ہو جائے گا، یقین کیجیے۔

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا

ہمارے وطن عزیز کے حالات بھی ٹھیک ہو سکتے ہیں، اگر ہم اللہ پاک کی طرف لوٹ جاہیں اور اللہ پر پکا اور کامل یقین کریں, اللہ اور قرآن کے بتائے ہوئے اصولوں کو اپنالیں، اللہ کی چاہت کو اپنی چاہت جانیں, اگر اللہ کا بتایا ہوا نظام اپنا لیا تو ہمارے مسائل حل ہونا شروع ہو جائے گے، انشاللہ۔۔۔۔۔

انشا اللہ اللہ بہتری کرے گا انشا اللہ ۔۔۔۔۔

یا پروردگار اس ملک پاکستان کی حفاظت فرما ۔۔۔۔۔

اللھم آمین یا رب العالمین


حرف دعا
مخمور سید
 

Pak Zindabad

Councller (250+ posts)
It is a good expressive writing to convince the common man of old era but not for the educated and developed personalities. This type of concepts have already obsolete in modern world but principally they apply but to convince the modern generation we need to upgrade our understanding to teach in a modern scientific way. The new generation who is aware of astronomy, computer and space it is hard to convince them with these arguments.

Keep living in the artifical world which you think is the whole universe.........Just like non-believers who think luxuries of this world are whole life............they keep running behind the material life........and unfortuntely some time they don't get time to enjoy the Money they had earned in their whole life............They live a poor life......and Die rich.
 

Ch Azam

Councller (250+ posts)
Bohat Khub ........ Allah Rabul Izzat hamain parhnay se ziada AAML karnay ki tufeeq aata karay ............. Thanks for sharing ........... Aik qool yad aa raha ha galiban Hazrat Ali (R.A) ka ha (Agar galat hoon tu islah farma dejeye ga)

" Allah k bandoon ko bilkul usi tarha or itni hi jaldi muaf farma diya karo jitni jaldi tum khud Allah se muafi ki umeed raktay ho "

Allah Pak hamaray Zahiri, Batni, Danista, Gar-Danista tamam gunah muaf farmaye, Hamain Garoor, Takabor, Khudnumai se bacha k rakhay, Hamain sahi menoon main deen par chalnay ki or deen ko samajhnay ki toufeeq aata karay......Hamain Ishq-e-Awais Karni (R.A) aata karay...... Ameen or Allah Pak ko jaza-e-khair aata karay Summa Aameen
 

behzadji

Minister (2k+ posts)
We talk a lot about the revolution but you know this fire sparks from the individuals own revolution. We are not willing to change our 6 feet body but think that we would change 796096 sq km of the whole country. we are certainly living in the fool's paradise.
 

Resonant

MPA (400+ posts)
It is a good expressive writing to convince the common man of old era but not for the educated and developed personalities. This type of concepts have already obsolete in modern world but principally they apply but to convince the modern generation we need to upgrade our understanding to teach in a modern scientific way. The new generation who is aware of astronomy, computer and space it is hard to convince them with these arguments.

Who said it is an argument?....It is not an argument bhai, it was a reminder. It is so obvious that it does not need any argument....When sun rises, it does not need any argument to prove its existance, whoever has eyes, can feel it whoever is blind, cant see the sun.
And for the 'educated person' part, what do you think about Dr. Iqbal?...well he was a PHd from Germany in Philosophy, and look what happened with his thought process, he just rejected the philosophical approach to find God, he reverted back toi Rumi......
 

maksyed

Siasat.pk - Blogger
We talk a lot about the revolution but you know this fire sparks from the individuals own revolution. We are not willing to change our 6 feet body but think that we would change 796096 sq km of the whole country. we are certainly living in the fool's paradise.
but brother we will have to change our 6 feet body first individually, afterthat we should try to bring change to those who around us .... this will only achieve if we sincere .... ALLAH SWT says ....

میری طرف آ کر تو دیکھ
متوجہ نہ ہوں تو کہنا

Hopes u would agree ..... Waslam
 

maksyed

Siasat.pk - Blogger
Bohat Khub ........ Allah Rabul Izzat hamain parhnay se ziada AAML karnay ki tufeeq aata karay ............. Thanks for sharing ........... Aik qool yad aa raha ha galiban Hazrat Ali (R.A) ka ha (Agar galat hoon tu islah farma dejeye ga)

" Allah k bandoon ko bilkul usi tarha or itni hi jaldi muaf farma diya karo jitni jaldi tum khud Allah se muafi ki umeed raktay ho "

Allah Pak hamaray Zahiri, Batni, Danista, Gar-Danista tamam gunah muaf farmaye, Hamain Garoor, Takabor, Khudnumai se bacha k rakhay, Hamain sahi menoon main deen par chalnay ki or deen ko samajhnay ki toufeeq aata karay......Hamain Ishq-e-Awais Karni (R.A) aata karay...... Ameen or Allah Pak ko jaza-e-khair aata karay Summa Aameen
اللھم آمین یا رب العالمین
 

thedude

Councller (250+ posts)
ٹائٹل میں لکھا ہے "ضرور پڑھیں" لہذا میں پیج اوپن کیے بغیر رہ نہ سکا ... مگر پوسٹ بہت لمبی ہے اور میں صرف دو باتوں کا جواب دوں گا :

اتنے بڑے ستارے آسمان میں کس چیز سے لٹکے ہیں ؟ جناب اپنی بیٹی کو بتائیے زمین کی کشش ثقل اتنی طاقتور نہیں کہ اپنے سے بڑی چیزوں کو اپنی طرف گرا سکے ... یہ کوئی گیدڑ سنگھی نہیں کہ جس کا جواب نہ بن پاۓ اور "خدا کی قدرت " کہ کر ٹالنا پڑے ... اصل حقیقت اپنی بیٹی کو بتائیں یا کسی سائنس دان کے پاس لے کر جائیں ... کیا پتا آپ کی بیٹی بھی مستقبل میں سائنس دان بن جاے

دوسری بات

ایک ہی پوسٹ میں دو اشعار جو ایک دوسرے کو رد کرتے ہیں:

مجھ سے سوال کر کے تو دیکھ
بخشش کی انتہا نہ کر دوں تو کہنا

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا

اگر کوئی خدا سے سوال کرے "اے خدا قوم کی حالت بدل دے" تو اس پر پہلا شعر لاگو ہو گا کہ دوسرا ؟ اب یہ بہانہ نہ ماریے گا کہ دعا کرنے والا گنہگار ہے اس لیے اس کی دعا قبول نہیں ہوتی ... اس ملک میں کوئی بھی نہیں جو اللہ کا پسندیدہ بھی ہو اور یہ دعا بھی کرتا ہو یہ میں ماننے کو تیّار نہیں ... لہذا اپنا فلسفہ درست کریں یا پھر مان جائیں کہ خدا کی کچھ باتوں میں دوغلے پن کی جھلک دکھائی دیتی ہے (یا پھر اگر اس بات کا منطقی جواب ہے تو میں سننیں کا انتظار کر رہا ہوں)
 

asmpk

Politcal Worker (100+ posts)
It is a good expressive writing to convince the common man of old era but not for the educated and developed personalities. This type of concepts have already obsolete in modern world but principally they apply but to convince the modern generation we need to upgrade our understanding to teach in a modern scientific way. The new generation who is aware of astronomy, computer and space it is hard to convince them with these arguments.

Nobody can convince anybody...specially in case of turning somebody to Allah S.A. However our duty is to continuously put efforts and try to talk to brothers to come to path that leads us to Allah S.A...

In the END.....It's Only Allah who turn the hearts of people to himself..... Nobody in the world can do that..... Allah says its is only he who guides people to his Noor....



 

makdaone

Councller (250+ posts)
pakistan main jo halat aj kal chal rahey hain or jo guzar chokay hain main pur zor tasdaeeq say kehta houn yeh sab hum per Allah ka hum per Azab hai.
hamrey buzurgoun ney qurabniyan dain sirf isliyeh keh musalmanoun ko apney rehsat milljaye mean Pakistan ja wajood Islam kay name per howa.
aj hamrey barey barey hukmran quran ko dek ker nahi persaktey or media fahas ads dekta hai or awam doniya kee currpt tarin logon main say hai
Iman nam kee chz hi nahi rahee.
wajah keya hai Islam ko apney tareekay say bana key raka howa hai Shirk or Bidat ki Intiha ho gee hai Pakistan main.

 

Mughal1

Chief Minister (5k+ posts)
خُدا کی تلاش- ضرور پڑھیں


محترم قارئین السلامُ علیکم

کل رات جب میں چھت پر چادر بِچھا کر سونے کی تیاری کرہی رہا تھا تبھی میری چار سالہ بیٹی بڑی آہستگی سے چلتی ہُوئی میرے قریب آئی اور مجھ سے لپٹ گئی اپنے ننھے سے سر کو میرے سینے پر رکھا اور ہاتھوں کے شکنجے میرے جسم کے گرد کسنے لگی

میں نے پوچھا بیٹا کیا بات ہے کیا نیند نہیں آرہی؟

نہیں بابا آپ سے ایک بات پوچھنی ہے

میں نے کہا پوچھو بیٹا کیا بات ہے

وہ آسمان کی طرف اشارہ کر کے پوچھنے لگی بابا یہ آسمان میں کیا چیز چمکتی ہے؟

میں نے کہا بیٹا یہ ستارے ہیں

تب اُس نے دوسرا سوال داغا بابا کیا یہ ہمارے گھر سے بڑے ہیں یا چھوٹے؟

میں نے کہا بیٹا یہ ستارے ہمارے گھر سے بھی بڑے ہیں بلکہ ہمارے شہر بھی بڑے ہیں بلکہ شائد ہماری زمین سے بھی بڑے ہیں

تب اُس نے حیرت سے پوچھا بابا یہ ستارے اتنے بڑے ہیں تو آسمان میں کس چیز سے لٹکے ہوئے ہیں؟

میں نے کہا بیٹا یہ کسی چیز سے بھی نہیں لٹکے بلکہ اللہ کریم کی قدرت سے آسمان میں لٹکے ہیں تبھی میں نے محسوس کیا کہ میری بیٹی کی گرفت میرے جسم پہ مزید سخت ہوگئی میں نے اپنے ایک ہاتھ کو اس کے ننھے ہاتھوں کی گرفت سے نِکالا اور اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا بیٹا مگر تم پریشان کیوں ہورہی ہو؟

تب اُس نے اپنے خدشے کا اظہار کیا بابا مجھے ڈر لگتا ہے کہیں یہ ستارے آسمان سے گِر نہ پڑیں! بابا کیا یہ ستارے گِر نہیں سکتے؟

میں نے جواباً کہا بیٹا اللہ کریم اپنے بندوں سے بُہت محبت کرتا ہے اس لئے وہ اِن ستاروں کو کبھی ہم پر نہیں گرنے دیگا

بابا کیا اللہ تعالٰی ہم سے کبھی ناراض ہوگیا تو وہ ہم پر ستارے گِرا دیگا؟ اُس نے اگلا سوال داغا

نہیں بیٹا وہ اپنے بندوں پر بُہت مہربان ہے وہ ہم سے ناراض بھی ہوجاتا ہے تو معافی مانگنے پر فوراً خوش بھی ہو جاتا ہے وہ بُہت مہربان ہے بیٹا تُمہاری امّی تم سے جِتنا پیار کرتی ہیں وہ اُس سے بھی بُہت بُہت ذیادہ مُحبت کرتا ہے

بابا اگر مجھ سے غلطی ہوجائے اور میں معافی مانگوں تو کیا اللہ تعالی مجھے معاف کردیگا؟

ہاں بیٹا وہ سبھی کو معاف فرمادیتا ہے

میں نے دیکھا میرے اس جواب سے اُس کہ چہرے پر اطمینان کی لہر دوڑ گئی اور اُس کی گرفت بھی میرے جسم پر کمزور پڑنے لگی تھی

بابا جب تمہیں کسی پر غصہ آتا ہے تو تُم بھی معاف کرکے خوش ہوجاتے ہو؟

میں نے اُسکی جانب دیکھا اور سوچا یہ آج مجھ سے کیسے سوال کر رہی ہے لگتا ہے جیسے میرا ٹیسٹ لیا جارہا ہو حالانکہ میں جانتا ہوں وہ اکثر ایسے سوالات اپنی ماں سے بھی کرتی ہے جس کے جوابات اُس سے نہیں بن پاتے اور وہ مجھ سے کہتی ہے کیا بچی ہے یہ ،،لگتا ہے سوالات کی پٹاری لئے گھومتی ہے،، اور میں ہمیشہ یہ کہہ کر ٹال دیتا تھا کہ بھئی اس کے نام کا عدد آٹھ ہے بُہت اونچی پرواز ہوتی ہے آٹھ والوں کے تخیّلات کی

بابا سوگئے کیا؟میری بیٹی نے مجھے جھنجوڑتے ہوئے پوچھا

نہیں بیٹا جاگ رہا ہوں میں نے اُس کے سر میں انگلیاں گھوماتے ہوئے کہا۔

بابا آپ نے بتایا نہیں آپ بھی غصہ میں معاف کر دیتے ہونا؟

نہیں بیٹا میں اتنی جلدی معاف نہیں کرپاتا کیونکہ میں بُہت گُنہگار انسان ہوں خُود کو سمجھانے میں وقت لگ جاتا ہے

بابا آپ بھی معاف کردیا کریں نا کہیں اللہ تعالٰی ناراض ہوگیا تو یہ ستارے کہیں ہم پر گِر نہ جائیں

ہاں بیٹا آئندہ کوشش کرونگا ۔ میرے اس جواب کے بعد اُس نے اطمینان سے آنکھیں موند لیں جیسے کوئی اہم پیغام یا امانت دیکر کوئی قاصد کوئی امانتدار کسی بوجھ کے فِکر سے آزاد ہوجاتا ہے

چند لمحوں میں ہی وہ میرے برابر میں خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہی تھی اور میری آنکھیں جو چند لمحوں قبل خمارِ نیند سے جُھکی جارہی تھیں خلاؤں میں ستاروں کو ایسے دیکھ رہیں تھیں گویا جسیے زندگی میں پہلی بار ستاروں کو دیکھا ہو۔

پھر مجھے اپنی جوانی کا وہ واقعہ یا د آیا جب میں ایک درویش کی کُٹیا میں اُس سے پوچھ رہا تھا کہ بابا خُدا کو پانے کا آسان طریقہ کیا ہے کیونکہ میں نے کتابوں میں پڑھا ہے پہلے لوگ اپنی آدھی سے ذیادہ زندگی اللہ عزوجل کو پانے کیلئے دُنیا سے کٹ جاتے تھے جنگل نشین ہوجایا کرتے تھے خود پر دُنیا کی نعمتوں کے دروازے بند کرلیا کرتے تھے۔ تب اُس درویش نے مجھے ایک حدیث قُدسی سُنائی تھی جسکا مفہوم کچھ اسطرح ہے۔

اے اِبن آدم ایک تیری چاہت ہے اور اِک میری چاہت ہے اگر تو چَلا اُس پر جو میری چاہت ہے تو میں تُجھے دُونگا وہ بھی جو تیری چاہت ہے اور اگر چَلا اُس پر جو تیری چاہت ہے تو تجھے تَھکا دونگا اُس میں جو تیری چاہت ہے پھر ہوگا وہی جو میری چاہت ہے۔

یہ حدیث قُدسی سُنا کر فرمانے لگے بِیٹا وہ کیا چیز ہے جو واقعی صرف تمہاری ہے؟

میں نے عرض کی حضور سب کچھ اللہ کریم کی امانت ہے میرا تو کُچھ بھی نہیں یہ جان، یہ صحت، یہ مال، یہ عزت، سبھی پہ اللہ کا اختیار ہے میرا تو کچھ بھی نہیں۔

وہ مُسکراتے ہوئے فرمانے لگے نہیں بیٹا تم نے جو کچھ کہا ٹھیک ہے مگر ایک چیز ہے جو صرف تُمہارے اختیار میں ہے وہی قیمتی متاع ہے انسان کے پاس جس کی قربانی اللہُ سُبحانہُ تعالٰی کو بےحد پسند ہے۔

میں عقل کے گھوڑے دوڑاتا رہا تمام باتوں کو بار بار دماغ میں دُہراتا رہا لیکن کچھ پلے نہیں پڑا بڑے ادب سے اُس درویش کے قدموں کو دباتے ہوئے عرض کرنے لگا بابا میں بُہت کم فہم ہوں ان کتابوں کو میں پڑھ تو لیتا ہوں لیکن شائد سمجھنے سے قاصر ہوں آپ ہی بتا دیجئے نا کہ آخر وہ ایسی کیا چیز ہے جسکی مجھے خبر نہیں اور اُسکی قربانی اللہ کریم کو بے حد پسند ہے

اُس درویش نے اپنے قدموں کو سمیٹا اور چار زانوں بیٹھ گئے میری جانب بڑے غور سے دیکھا اور ایک جذب کی کیفیت میں فرمانے لگے بیٹا جانتے ہو انسان اشرف المخلوقات کیوں ہے

میں نے ادب سے عرض کی حضور آپ ہی ارشاد فرمائیں تب وہ درویش فرمانے لگے بیٹا اس لئے کہ اللہ کریم نے انسان کو عقل دی پرکھنے کیلئے شعور دیا خیر اور شر کو سمجھنے کیلئے پھر اپنا آئین دیا جس سے وہ اللہ کریم کی رضا اور ناراضگی کو جان سکے لیکن اس انسان کو اللہ کریم نے پابند نہیں کیا بلکہ اِس انسان کو اختیار دیا کہ چاہے تو دُنیا کی زندگی میں خیر کا رستہ اپنائے چاہے تو شر کے راستے پر چلے چاہے تو آخرت کی تیاری میں مشغول رہے چاہے تو دُنیا کی رنگینیوں میں خود کو گُما لے۔

بیٹا یہی اختیار ، یہی چاہت، یہی خواہش انسان کی سب سے بڑی متاع ہے ۔ تم نے مجھ سے پوچھا ہے کہ اللہ کریم کو پانے کا آسان طریقہ کیا ہے تو بس اپنی یہی چاہت، اپنا اختیار، اپنی خاہش کو اللہ کریم کے سپرد کردے تجھے خُدا مل جائے گا تُجھے کبھی جنگلوں کا رُخ نہیں کرنا پڑے گا تُجھے کبھی صحراؤں کی خاک نہیں چھاننی پڑے گی تجھے خُدا کو ڈھونڈنے کیلئے پہاڑوں پر بھی جانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی کیونکہ وہ تو تیری شہہ رگ سے بھی ذیادہ قریب ہے ہاں البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ جب تو خدا کو پالے تو تیرے اندر کی تپش اسقدر بڑھ جائے کہ تجھے انسانوں کی بھیڑ سے ڈر لگنے لگے تجھے لگے کہ تیرے وجود کی آتش اس بھیڑ سے سرد پڑنے لگی ہے تب جنگل، پہاڑ ، دریا سبھی تیرے منتظر ہونگے تو جہاں بھی ہوگا خدا سے بات کرلے گا

بیٹا یہ آسان رستہ نہیں بلکہ بُہت کٹھن راہ ہے اس راہ پہ چلنا ہر ایک کے بس کی بات بھی نہیں ،اس راہ پہ چلنے والوں کو اپنے نفس سے لڑنا پڑتا ہے اپنے من سے لڑنا پڑتا ہے، اپنی چاہت کو قربان کرنا بَچّوں کا کھیل نہیں پہلے سوچ لے تجھے اپنی ذات کے بُت کو مسمار کرنا پڑے گا،انا کے جام کو بہانا ہوگا، گالی بکنے والے سے خندہ پیشانی سے مِلنا پڑے گا تُہمت لگانے والے سے ہنس کر ملنا پڑے گا ،مارنے والے کے سامنے دوسرا گال پیش کرنا پڑے گا، نرم بستر کو طلاق دینی پڑے گی، طرح طرح کے پکوانوں سے نظر موڑ کر سوکھی روٹی پر قناعت کی عادت ڈالنی ہوگی انسانوں سے مُحبت کرنی ہوگی صرف مُحبت۔

اپنے وجود میں موجود نفرت، غصے ، حسد کے آتش کدے پر ندامت کا پانی ڈالنا ہوگا جو کُچھ بھی تیرے پاس ہے وہ سب خُدا کا ہے تو صرف اُسکا امین ہے تو جب تجھ سے واپسی کا تقاضہ ہو تو یہ مت کہنا کہ میرا تھا، میں نے دِیا، بلکہ ہمیشہ یہی کہنا کہ جس کا تھا اُسی کو لوٹادیا ، مصیبت کے وقت واویلہ نہ کرنا بلکہ صبر کرنا کہ وہ صابروں کو پسند کرتا ہے، ہر لمحہ اپنے عمل پر نظر رکھنی پڑے گی اپنا احتساب کرنا پڑے گا کہ تیرا عمل تیری مرضی کے مُطابق ہے یا اللہ کریم کی مرضی کے مُطابق، تو وہ کررہا ہے جو تیری چاہت ہے یا وہ کررہا ہے جو اللہ کریم کی چاہت ہے کبھی تیری چاہت ہوگی کہ نرم وگرم بستر سے خود کو جُدا نہ کرے لیکن تبھی اللہ کی چاہت ہوگی کہ تو بستر کو چھوڑ کے اُس کی بارگاہ میں حاضر ہو،کبھی تیری چاہت ہوگی کہ تیرا مال تیری جیب میں رہے اُس وقت ہوسکتا ہے اُس کی چاہت یہ ہو کہ تو وہ مال جو تونے بڑی محنت سے کمایا ہے کسی دوسرے کی ضرورت پر خرچ کردے

کبھی تیری چاہت ہوگی کہ سخت گرمی کے سبب ٹھنڈا پانی پئے یا اپنے پیٹ کی آگ بُجھانے کیلئے کچھ کھالے لیکن اُس کی چاہت ہوگی کہ تو روزہ دار رہے، کبھی سخت سردی کے سبب تیری چاہت ہوگی کہ ٹھنڈا پانی تیرے جسم کو نہ چُھوئے تبھی اُس کی چاہت ہوگی کہ اُسی ٹھنڈے پانی سے سخت جاڑے میں وضو کر، کبھی تیری چاہت تجھ سے تقاضہ کرے گی کہ تنہا رہ کر جسم کی تھکان مِٹالے تبھی اُسکی چاہت کا تقاضہ ہوگا کہ کسی کے دُکھ میں شریک ہوجا اور کسی کے دُکھ درد کو بانٹنے کے لئے سفر اختیار کر کبھی تیری چاہت ہوگی کہ سامنے والے کا مُنہ نوچ لے تبھی اُسکی چاہت ہوگی کہ تو اُسے سینے سے لگا لے، کبھی نفسانی خواہشات تجھے اپنی جانب بُلائیں گی تیرا من بھی چاہے گا مگر اُس کی چاہت تقاضہ کرےگی میرے سِوا سب سے بےنیاز ہوجا، بیٹا اپنی چاہت اپنی مرضی اپنی خواہش، کی قربانی ہی وہ راستہ ہے جِس پر چل کر بندہ خُدا کو پالیتا ہے

اگر اپنی چاہت کو قربان کرنے کا حوصلہ ہے تو اِس راہ پر ضرور قدم رکھ وہ کسی کی کوشش کو ضایع نہیں کرتا لیکن یہ بھی یاد رکھنا کہ معرفت کی منزل کو پانے کا سفر اسقدر دُشوار ہے کہ ہزاروں مسافر اس راہ پر چلتے ہیں لیکن سفر شروع ہونے کے بعد اس کی تکالیف پر صبر چند ایک ہی کر پاتے ہیں اور وہ بھی آدھی منزل ہی سر کرپاتے ہیں منزل پر تو ایک دو ہی پہنچ پاتے ہیں تو بھی کوشش کر دیکھ شائد تُجھے بھی منزل مل جائے اگر تونے دُنیا کی صعوبتوں پر صبر کو عادت بنایا اپنی چاہت اُسکی چاہت پر قربان کردی تو ضرور خدا عزوجل کو پالے گا مجھے اِس سے ذیادہ آسان راستہ کی خبر نہیں

بُول چلنا چاہے گا اِس راستہ پر درویش نے مسکراتے ہوئے میری جانب دیکھا تھا؟

میں اِنہی خیالات میں گُم تھا کہ میری بَچّی نے کسمسا کر دوبارہ میرے سینے پر ہاتھ رکھا میں نے چونک کر اُس کی جانب دیکھا تو وہ عالمِ نیند میں مُسکرا رہی تھی جیسے مُجھ سے سوال کر رہی ہو کہ بابا کیا سوچا ہے آپ نے چلیں گے اِس راہ پر

اور میں نے زِیرِ لب بے اختیار کہا کہ ضرور کوشش کرونگا اگر اللہ کریم کا فضل مجھ گُنہگار پر بھی ہُوا انشا ءَاللہ عزوجل آج شاعر مشرق کا یہ شعر بھی رات کی تنہائی میں مجھے کُچھ سمجھانے کی کوشش کررہا ہے اور بُہت لُطف دے رہا ہے

خُدا کے بندے ہیں ہَزاروں بَنّوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اُسکا بندہ بَنُوں گا جس کو خُدا کے بندوں سے پیار ہوگا


: میری رائے
اللہ پاک بڑا مہربان ہے ۔ ہم پر بڑی مہربانی کرتا ہے۔ہماری شامتیں ہمارے ہی اعمال ہیں جو ہمارے آگے آتی رہتیں ہیں۔اگر آج بھی ہم اپنے حصے کے کام کرنا شروع کر دیں تو یقین کریں اللہ بڑا مہربان ہے۔ اوریقینن وہ ہمیں تنہا نہیں . چھوڑے گا ۔ ہمیں اپنے اللہ کی طرف لوٹ کے جانا ہو گا، وہ خود کہتا ہے کہ میری طرف آ کر تو دیکھ

اللہ تعالٰی انسان سے فرماتا ہے

میری طرف آ کر تو دیکھ
متوجہ نہ ہوں تو کہنا

میری راہ پر چل کر تو دیکھ
راہیں نہ کھول دوں تو کہنا

مجھ سے سوال کر کے تو دیکھ
بخشش کی انتہا نہ کر دوں تو کہنا

میرے لئے بے قدر ہو کر تو دیکھ
قدر کی انتہا نہ کر دوں تو کہنا

میرے لیے ملامت سہہ کر تو دیکھ
اکرام کی حد نہ کر دوں تو کہنا

میرے لئے لٹ کر تو دیکھ
رحمت کے خزانے نہ لٹا دوں تو کہنا

میرے کوچے میں بک کر تو دیکھ
انمول نہ کر دوں تو کہنا

مجھے رب مان کر تو دیکھ
سب سے بے نیاز نہ کر دوں تو کہنا

میرے خوف سے آنسو بہا کر تو دیکھ
مغغرت کے دریا نہ بہا دوں تو کہنا

وفا کی لاج نبھا کر تو دیکھ
عطا کی حد نہ کر دوں تو کہنا

میرے نام کی تعظیم کر کے تو دیکھ
تکریم کی انتہا نہ کر دوں تو کہنا

مجھے حی القیوم مان کر تو دیکھ
ابدی حیات کا امین نہ بنا دوں تو کہنا

ہستی کو فنا کر کے تو دیکھ
جام بقا سے سرفراز نہ کر دوں تو کہنا

بالآخر میرا ہو کر تو دیکھ
ہر کسی کو تیرا نہ بنا دوں تو کہنا


ہماری پوری کی پوری قوم اس انتظار میں ہے کہ کوئی بندہ آئے، ہماری ٹانگیں پکڑ کر چارپائی سے نیچے کرے، ہماری بغلوں میں ہاتھ ڈال کر ہمیں کھڑا کرے، اپنے کندھے پر ہمیں بٹھا کر ہمارا پھیلایا ہوا گند صاف کرے اور پھر سے ہمیں صاف ستھرے نرم و گرم بستر پر لٹا دے تا کہ ہم دوبارہ آرام کی نیند سو سکیں۔

آپ قیامت تک انتظار کر لیں، نہ تو اللہ خود آ کر یہ کام کرے گا اور نہ ہی اپنے فرشتے آپ کی خدمت کے لیے بھیجے گا۔ اگر آپ اپنی حالت سدھارنا چاہتے ہیں تو خود کچھ کیجیے ورنہ جان لیجیے کہ قیامت تک پٹتے رہیں گے۔ ہماری قوم تو ایسی ہے کہ یہاں اب انگریز بھی دوبارہ نہیں آنے والا اور نہ ہی کبھی امریکہ اس ملک کو اپنی ریاست بنائے گا۔ وہ باہر بیٹھ کر ہم پر ہمارے ہی "لوٹوں" کے ذریعے حکومت کرے گا اور اپنا الو سیدھا کرے گا۔ اس میں اس کا قصور بھی تو نہیں۔ ہم خود ہی ایسے "صارفین" کی تلاش میں ہیں جو ہمارا زیادہ سے زیادہ ریٹ لگائیں، پھر چاہے ہماری ایسی تیسی کر دیں ہماری بلا سے۔

اگر ہم لوگ واقعی اپنے ساتھ مخلص ہیں تو ہمیں مسیحا کا راستہ دیکھنے کی بجائے اپنے آپ پر اعتماد کرنا چاہیے، اپنے آپ کو انفرادی سطح پر ٹھیک کرنا چاہیے، جب ہم اپنے آپ کو، اپنے گھر والوں کو اور اپنے دوستوں کو ٹھیک کر لیں گے تو سب ٹھیک ہو جائے گا، یقین کیجیے۔

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا

ہمارے وطن عزیز کے حالات بھی ٹھیک ہو سکتے ہیں، اگر ہم اللہ پاک کی طرف لوٹ جاہیں اور اللہ پر پکا اور کامل یقین کریں, اللہ اور قرآن کے بتائے ہوئے اصولوں کو اپنالیں، اللہ کی چاہت کو اپنی چاہت جانیں, اگر اللہ کا بتایا ہوا نظام اپنا لیا تو ہمارے مسائل حل ہونا شروع ہو جائے گے، انشاللہ۔۔۔۔۔

انشا اللہ اللہ بہتری کرے گا انشا اللہ ۔۔۔۔۔

یا پروردگار اس ملک پاکستان کی حفاظت فرما ۔۔۔۔۔

اللھم آمین یا رب العالمین


حرف دعا
مخمور سید

Dear maksyed, such writings are not really correct in light of actual quranic text when the text is read properly in its proper context.

Allah is compassionate but he has set up universe according to some laws that govern the universe and all that is in the universe. Likewise people have been given divine revelation to understand these things and so that they could fit in.


It is therefore important for people to understand the quran and the universe then fit them together and see where does one oneself fit there.


The idea that people can know Allah beyond what he has told in the quran is a false one.


Likewise are the other so called spiritual experiences ie people just invent things and then others do not deny them because they thing they will be taken as ignorant or foolish. These stories are like the story the king is naked.


It is about a king in a far away state who always had to have the best clothes. Instead of attending to the affairs of the kingdom, all he would do is think about himself, how important he was and how he believed all should give him respect, even if he gave nothing to benefit them in return. One day two criminals arrived in the kingdom and heard of this king. They thought of a plan to exploit this king’s weakness. They proclaimed they could tailor clothes for the king, clothes which were to be the best in the world. The king immediately called them to his court and gave them lots of money so that they would do as they say.


The tailors told the king that because their clothes were specially tailored, only the wise could see them. The king agreed and the tailors began to “work.” After a while of waiting, the king wanted to know their process, but he sent his
treasurer, who he believed was smart, to check on them. The treasurer arrived at their quarters, but he saw nothing being made, just tailors looking like they were working with invisible clothes and strings. The treasurer thought he went dumb, but still reported to the king that the clothes looked wonderful. In order to showcase his new “clothes” the king ordered a parade be planned. When the king marched those people on the road, wanting the king’s attention and gratitude, shouted to the king that he had wonderful clothes. After a while, a kid popped out in the crowd and yelled “The king is naked!” Finally, this innocent voice broke the spell cast on the minds of the onlookers and they themselves began to shout it as well, until the king quickly marched off back into his castle. The truth was finally out."




People who do these things originally do them to make fool of others and benefit from them but later people do them anyway to not to look odd ones out.



But the problem is, such things cause a huge damage little by little.



It is because of our ignorance and acceptance kings and mullas ruled us abused us and today we are used and abused by ruling elite and their mullas.



All this because these things take us away from the quran. The quran want us to be realistic and not follow make beliefs.



Allah does not do things supernaturally rather he does things by way of rules and laws that he has set over things to govern their existence and functions. The quran clearly explains these so that we learn things and see how we can save ourselves from their harms and how we can benefit from their use.



It is a sort of closed loop system ie each action has a reaction or actions have consequences that cannot be avoided. You put your hand in fire you get burn. No matter how much you pray this does not suspend the predicted consequence.



It is this islam we have stopped accepting and instead have started a new islam based upon make beliefs and the result is obvious.


In order to change things for the better we need to work hard at getting true spirit of islam back in to us. It is going to be a very hard work because it will be like a totally new thing for us. Giving up make beliefs is never easy but we must try for the good of ourselves and rest of humanity.


regards and all the best.
 

Mughal1

Chief Minister (5k+ posts)
Keep living in the artifical world which you think is the whole universe.........Just like non-believers who think luxuries of this world are whole life............they keep running behind the material life........and unfortuntely some time they don't get time to enjoy the Money they had earned in their whole life............They live a poor life......and Die rich.


Dear PakZindabad, Islam is all about running after material world but according to rule of law as given by Allah in the quran. Doing nothing about ignorance , poverty and disease is anti islam just as doing nothing against oppression, suppression, injustice and unfairness or cruelty and animosity is.

Ruling elite and their mullas have mislead us from actual message of islam that is why people think having good things in life is bad because it is anti islam. They treat us like kids. They have programmed us such that we are willing to give them the gold we have for a bar of a chocolate. This is why they live like kings and we take upon ourselves suffering thinking we are doing all this in service of Allah.

Look closer in the quran and you will discover their tricks. The quran is book of knowledge that tells us how to save ourselves from tricks of the wicked people. If we ourselves do not learn it properly then we only have ourselves to blame.


http://www.siasat.pk/forum/showthread.php?50593-Javed-Ghamdi-Salman-Taseer-Asma-Jhangir-Khuda-ka-khof-karen-plz!-Nice-Column-by-Orya-Maqbool-Jan/page5

http://www.siasat.pk/forum/showthread.php?50607-Pakistan-religion-secularism-amp-tribalism

regards and all the best.
 
Last edited: