خود کش حملوں کا جواز

saud491

MPA (400+ posts)
خود کش حملوں کا جواز

سوال: ۱۔ صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق بنی اسرائیل کے ایک راہب کو جب ایمان قبول کرنے کی پاداش میں قتل کرنے کی کوشش کی گئی اور اللہ کی مدد سے یہ کوشش بار بار ناکام ہوئی تو اس نے خود اپنے آپ کو قتل کرنے کا طریقہ یہ تجویز کیا کہ لوگوں کو ایک میدان میں جمع کیا جائے اور پھر سب کے سامنے ’باسم رب ہذا الغلام‘ کہہ کر اس پر تیر چلایا جائے تو اس کی موت واقع ہو جائے گی۔ کیا اس سے خود کش حملے کا جواز ثابت ہوتا ہے؟

۲۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ برطانیہ اور امریکہ کے شہری چونکہ اپنی حکومتوں کو ٹیکس دیتے ہیں، اس لیے اگر ان ممالک کی حکومتیں مسلمانوں پر ظلم کرتی یا ظلم کرنے والوں کے ساتھ تعاون کرتی ہیں تو ان کے شہری بھی اس میں شریک ہیں۔ چنانچہ اگر اسرائیل کے ظلم وستم کا شکار ہونے والا کوئی فلسطینی امریکہ یا برطانیہ میں جا کر ان کے عام شہریوں پر حملہ کرے تو ایسا کرنا جائز ہے۔ کیا یہ بات درست ہے؟

جواب: ۱۔ خود کشی کے بارے میں یہ بات بطور اصول سمجھنی چاہیے کہ شریعت میں اس کی ممانعت اصلاً اس صورت کے لیے آئی ہے جب انسان زندگی کی تکالیف او رمصائب سے گھبرا کر خدا کی تقدیر پر صبر ورضا کا رویہ اپنانے کے بجائے اپنی زندگی کے خاتمے کا فیصلہ کر لے۔ یہ رویہ چونکہ خدا اور قضا وقدر کے فیصلوں پر ایمان کے منافی ہے، اس لیے اس کا شمار کبیرہ گناہوں میں ہوتا ہے۔ اگر یہ صورت نہ ہو اور مثال کے طو رپر انسان اپنے دین وایمان کی حفاظت کی خاطر یا اس کی دعوت کے راستے میں اپنی جان قربان کرنے کا فیصلہ کر لے تو اس صورت پر حرمت کا اطلاق نہیں ہوتا۔

آپ نے جس روایت کا حوالہ دیا ہے، اس میں بیان ہونے والے واقعے کی نوعیت یہی ہے۔ اس راہب پر یہ بات واضح تھی کہ ایمان لانے کے جرم میں کافر بادشاہ کے ہاتھوں اس کا مرنا یقینی ہے، البتہ اللہ کی حکمت کے تحت اس کی اب تک کی کوششیں ناکام رہی ہیں۔ اس وجہ سے اس نے یہ مناسب سمجھا کہ اپنی موت کا ایک ایسا طریقہ خود تجویز کر دے جس میں اسے لوگوں تک توحید کا پیغام پہنچانے کا موقع بھی میسر آ جائے۔ قتل کی متعدد کوششوں سے اس کا بچ نکلنا لوگوں میں معروف ہو چکا تھا اور یقیناًوہ ایسے شخص کے بارے میں جاننے کا تجسس بھی رکھتے تھے، اس لیے اس بات کی قوی امید تھی کہ اگر اسے اس کے تجویز کردہ طریقے کے مطابق ’باسم رب ہذا الغلام‘ (اس لڑکے کے رب کے نام سے) کہہ کر قتل کیا گیا تو یہ چیز لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد تک حق کا پیغام پہنچانے کا ذریعہ بن جائے گی۔ چنانچہ یہی ہوا اور روایت کے مطابق اس کی شہادت کا منظر دیکھنے والے لوگوں کی اکثریت نے ایمان قبول کر لیا۔ اسی روایت میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ جب بادشاہ کو اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے ایمان لانے کی خبر ملی تو اس نے ایک بڑی آگ بھڑکا کر ان سب لوگوں کو جمع کیا اور حکم دیا کہ یا تو وہ اپنے ایمان سے دست بردار ہو جائیں اور یا پھر ایک ایک کر کے اس آگ میں کود جائیں۔ اہل ایمان نے خود آگ میں کود کر جان دینا منظور کر لیا لیکن ایمان سے دست بردار نہ ہوئے، بلکہ ایک خاتون اپنے دودھ پیتے بچے کے ساتھ لائی گئی اور اس نے بھڑکتی ہوئی آگ کو دیکھ کر کچھ ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا تو اللہ کی قدرت سے اس کے دودھ پیتے بچے نے اس سے مخاطب ہو کر کہا کہ ’یا امہ اصبری فانک علی الحق‘ (اے میری ماں، صبر سے کام لو کیونکہ تم حق پر ہو) اور بچے کی اس حوصلہ افزائی پر اس کی ماں بھی آگ میں کود گئی۔ (مسلم، رقم ۳۰۰۵)

جہاں تک جنگ میں شہادت کے حصول کی غرض سے دشمن پر خود کش حملہ کرنے کا تعلق ہے تو اس ضمن میں یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ شہادت دراصل کفار کے ہاتھوں قتل ہونے کو کہتے ہیں، نہ کہ دشمن کو نقصان پہنچانے کی غرض سے ازخود اپنے آپ کو قتل کرنے کے اقدام کو۔ چنانچہ ایک غزوے میں جب ایک صحابی دشمن پر وار کرنے کی ناکام کوشش میں خود اپنی ہی تلوار سے زخمی ہو کر فوت ہو گئے تو صحابہ کو اس پر تردد ہوا کہ آیا یہ ان کی شہادت کی موت ہے یا خود کشی کی، تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو دوہرا اجر ملے گا۔ (مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۷۸۲۸) یعنی چونکہ اس کی نیت خود کشی کی نہیں تھی اور ایسا خطا سے ہوا ہے، اس لیے اسے اللہ کے ہاں شہید ہی شمار کیا جائے گا۔ البتہ مخصوص حالات میں، خاص طور پر جب کہ میدان جنگ میں موت یقینی دکھائی دے رہی ہو، اپنی جان کی قربانی دے کر مسلمانوں کو کسی بڑے نقصان سے بچانے کے لیے دشمن پر خود کش حملے کے جواز سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح اگر دشمن کی پیش قدمی کو روکنے یا طاقت کے تناسب کو متوازن کرنے کا اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ نہ ہو تو اس صورت حال میں بھی اس کا جواز اور مشروعیت تسلیم نہ کرنے کی بظاہر کوئی وجہ دکھائی نہیں دیتی۔ تاہم ایسے کسی بھی اقدام کے جواز کے لیے یہ ضروری ہوگا کہ اس میں شریعت کے کسی دوسرے اصول اور ضابطے کی خلاف ورزی نہ کی گئی ہو۔ یعنی اگر جنگ کسی مشروع اور جائز مقصد کے لیے لڑی جا رہی ہواور اس میں دشمن کو بھاری نقصان پہنچانے کے لیے خود کش حملہ زیادہ موثر ہو اور اس کا نشانہ مقاتلین ہی کو بنایا جائے تو اصولی طور پر اس خود کشی کو اس وعید کے تحت نہیں لایا جا سکتا جو حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ البتہ اگر جنگ کا محرک ہی ناجائز ہو اور حملے کا نشانہ دشمن کے مقاتلین کے بجائے عام انسانوں کو بنایا جائے تو اس صورت میں خود کش حملہ بھی اسی طرح ناجائز ہوگا جیسے کسی بھی دوسرے ہتھیار کا استعمال ناجائز ہے۔

۲۔ یہ استدلال کہ چونکہ امریکہ یا برطانیہ کے شہری اپنی حکومت کو ٹیکس دیتے ہیں جس کی مدد سے حکومت جنگ لڑتی ہے، اس لیے ٹیکس دینے والے تمام شہری ’مقاتلین‘ ہیں اور انھیں جنگی حملے کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے، شرعی اصولوں کی رو سے کسی طرح درست نہیں۔ اسلامی شریعت کی رو سے عام لوگ جو جنگ میں براہ راست شریک نہیں، انھیں ’مقاتل‘ قرار نہیں دیا جا سکتا، چاہے وہ اپنی حکومت کو ٹیکس دیتے ہوں اور جنگ کے فیصلے کو ان کی اصولی تائید حاصل ہو۔ ’مقاتل‘ اس کو کہا جائے گا جو جنگ میں براہ راست شریک ہو یا بالفعل لڑنے والوں کی ایسی مدد کر رہا ہو جو ’’لڑائی میں مدد‘‘ کے زمرے میں آتی ہو۔ اس سے ہٹ کر اصولی طو ر پر جنگ کے فیصلے کی تائید کرنے والوں یا مقاتلین کی مدد کی بعض دوسری صورتیں اختیار کرنے والوں کو ’مقاتل‘ نہیں کہا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عین میدان جنگ میں دشمن کے لشکر کے ساتھ آئی ہوئی خواتین اور کام کاج کرنے والوں خادموں کو، جو ظاہر ہے کہ اپنے لشکر کی مدد ہی کے لیے ساتھ آئے تھے، قتل کرنے سے منع فرمایا۔

حنظلہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک غزوے میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ ہم نے ایک عورت کو مقتول دیکھا اور لوگ اس کے ارد گرد جمع تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہوا تو آپ نے فرمایا:

ما کانت ہذہ تقاتل فی من یقاتل، انطلق الی خالد فقل لہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یامرک یقول لا تقتلن ذریۃ ولا عسیفا (ابن ماجہ، رقم ۲۸۴۲)
’’یہ لڑنے والوں کے ساتھ لڑائی میں تو شریک نہیں تھی۔ …. خالد کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمھیں حکم دیتے ہیں کہ بچوں اور خادموں کو ہرگز قتل نہ کرنا۔‘‘

ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں:
وجدت امراۃ مقتولۃ فی بعض مغازی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فنہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن قتل النساء والصبیان (بخاری، رقم ۳۰۱۵)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک غزوے میں ایک عورت مقتول پائی گئی تو آپ نے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع فرما دیا۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی سردار ابن ابی الحقیق کو قتل کرنے کے لیے صحابہ کا دستہ بھیجا تو انھیں عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا۔ اس دستے کے ایک مجاہد عبد اللہ بن انیس بتاتے ہیں کہ:

برحت بنا امراۃ ابن ابی الحقیق بالصیاح فارفع السیف ثم ذکرت قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاکفہ ولولا ذالک لاسترحنا منہا (مسند ابی عوانہ، ۶۵۸۷۔ مسند ابی یعلی، رقم ۹۰۷)
’’ابن ابی الحقیق کی بیوی نے چیخ کر ہمارے خلاف مدد کے لیے بلانا چاہا تو میں نے تلوار بلند کر لی، لیکن پھر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم یاد آ گیا اور میں نے اپنی تلوار روک لی۔ اگر آپ کا حکم نہ ہوتا تو ہم اس کی بیوی کا قصہ بھی پاک کر دیتے۔
‘‘

یہاں دیکھ لیجیے، خاتون کے چیخ پکار کے ذریعے سے مجاہدین کو خطرے میں ڈالنے کے باوجود انھوں نے اسے قتل کرنے سے گریز کیا۔

ایک اور روایت میں بیان ہوا ہے کہ:
نہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن قتل العسفاء والوصفاء (سنن سعید بن منصور، رقم ۲۶۲۸)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدوروں اور خادموں کو قتل کرنے سے منع فرمایا۔‘‘

سیدنا عمر نے اپنے فوجی سالاروں کو ہدایت دی کہ:
اتقوا اللہ فی الفلاحین فلا تقتلوہم الا ان ینصبوا لکم الحرب (سنن بیہقی، رقم ۱۷۹۳۸)
’’ان کسانوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو اور انھیں قتل نہ کرو، الا یہ کہ وہ تمھارے مقابلے میں آکر جنگ کریں۔
‘‘

ظاہر ہے کہ دشمن کے جن کسانوں کو قتل کرنے سے منع کیا گیا، وہ لازماً اپنی زمین کی پیداوار کا ٹیکس حکمرانوں کو دیتے ہوں گے اور جنگ کے عسکری اخراجات میں ان کا بالواسطہ حصہ پڑا ہوگا، لیکن اس کے باوجود سیدنا عمر نے انھیں ’مقاتل‘ شمار نہیں کیا، الا یہ کہ وہ بالفعل جنگ میں حصہ لیں۔

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
کانوا لا یقتلون تجار المشرکین (ابن ابی شیبہ، رقم ۳۳۱۳۰)
’’صحابہ مشرکین کے تاجروں کو قتل نہیں کرتے تھے۔
‘‘
یہاں بھی دیکھ لیجیے، صحابہ نے دشمن کے ایسے تاجر اور مال دار حضرات کو قتل کرنے سے گریز کیا ہے جن کے سرمایے سے یقیناًان کی فوجیں بھی فائدہ اٹھاتی ہوں گی۔

عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ سے ’وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم ولا تعتدوا ان اللہ لا یحب المعتدین‘ (اور اللہ کے راستے میں ان سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں اور زیادتی نہ کرو، کیونکہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا) کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انھوں نے لکھا کہ:
ان ذلک فی النساء والذریۃ ومن لم ینصب ذلک الحرب منہم (ابن ابی شیبہ، رقم ۳۳۱۲۶)
’’یہ ممانعت عورتوں، بچوں اور ان لوگوں سے متعلق ہے جو مقابلے کے لیے میدان میں نہ آئے ہوں۔‘‘

اسی طرح فتح مکہ کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو ہدایت دی کہ:
الا لا یجہزن علی جریح ولا یتبعن مدبر ولا یقتلن اسیر (ابو عبید، الاموال، ص ۱۴۲)
’’سنو، کسی زخمی کو قتل نہ کیا جائے، کسی بھاگنے والے کا پیچھا نہ کیا جائے اور کسی قیدی کو قتل نہ کیا جائے۔‘‘

مذکورہ ہدایات سے واضح ہوتا ہے کہ دشمن قوم کے جو افراد بعض پہلووں سے دشمنوں کے لشکر کی مدد کرنے کے باوجود خود جنگ میں شریک نہ ہوں یا جنگ میں شریک ہونے کے بعد زخمی یا
گرفتار ہو جانے کی وجہ سے لڑنے کے قابل نہ رہے ہوں، شریعت اسے قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ غیر مقاتلین کا حملے کی زد میں آجانا صرف اس صورت میں معاف ہے جب حملے کا ہدف اصلاً مقاتلین ہوں اور تمام تر احتیاطی تدابیر کے باوجود قصد اور نیت کے بغیر ناگزیر طور پر یا اتفاقاً کچھ غیر مقاتلین بھی زد میں آ جائیں۔

مذکورہ تشریح کی روشنی میں بعض لوگوں کے اس نقطہ نظر کی غلطی بالکل واضح ہو جاتی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ اگر فلسطین میں اسرائیل کے ظلم وستم کا شکار ہونے والا کوئی شخص امریکہ یا برطانیہ میں جا کر وہاں کے ٹیکس دینے والے عام لوگوں پر خود کش حملہ کر دے تو یہ جائز ہوگا۔


محمد عمار خان ناصر


http://ammarnasir.wordpress.com/page/2/

مقاتلین = (combatants)
 
Last edited by a moderator:

Pakistani1947

Chief Minister (5k+ posts)
آپ نے جس روایت کا حوالہ دیا ہے، اس میں بیان ہونے والے واقعے کی نوعیت یہی ہے۔ اس راہب پر یہ بات واضح تھی کہ ایمان لانے کے جرم میں کافر بادشاہ کے ہاتھوں اس کا مرنا یقینی ہے، البتہ اللہ کی حکمت کے تحت اس کی اب تک کی کوششیں ناکام رہی ہیں۔ اس وجہ سے اس نے یہ مناسب سمجھا کہ اپنی موت کا ایک ایسا طریقہ خود تجویز کر دے جس میں اسے لوگوں تک توحید کا پیغام پہنچانے کا موقع بھی میسر آ جائے۔ قتل کی متعدد کوششوں سے اس کا بچ نکلنا لوگوں میں معروف ہو چکا تھا اور یقیناًوہ ایسے شخص کے بارے میں جاننے کا تجسس بھی رکھتے تھے، اس لیے اس بات کی قوی امید تھی کہ اگر اسے اس کے تجویز کردہ طریقے کے مطابق باسم رب ہذا الغلام (اس لڑکے کے رب کے نام سے) کہہ کر قتل کیا گیا تو یہ چیز لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد تک حق کا پیغام پہنچانے کا ذریعہ بن جائے گی۔ چنانچہ یہی ہوا اور روایت کے مطابق اس کی شہادت کا منظر دیکھنے والے لوگوں کی اکثریت نے ایمان قبول کر لیا۔ اسی روایت میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ جب بادشاہ کو اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے ایمان لانے کی خبر ملی تو اس نے ایک بڑی آگ بھڑکا کر ان سب لوگوں کو جمع کیا اور حکم دیا کہ یا تو وہ اپنے ایمان سے دست بردار ہو جائیں اور یا پھر ایک ایک کر کے اس آگ میں کود جائیں۔ اہل ایمان نے خود آگ میں کود کر جان دینا منظور کر لیا لیکن ایمان سے دست بردار نہ ہوئے، بلکہ ایک خاتون اپنے دودھ پیتے بچے کے ساتھ لائی گئی اور اس نے بھڑکتی ہوئی آگ کو دیکھ کر کچھ ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا تو اللہ کی قدرت سے اس کے دودھ پیتے بچے نے اس سے مخاطب ہو کر کہا کہ یا امہ اصبری فانک علی الحق (اے میری ماں، صبر سے کام لو کیونکہ تم حق پر ہو) اور بچے کی اس حوصلہ افزائی پر اس کی ماں بھی آگ میں کود گئی۔ (مسلم، رقم ۳۰۰۵)
I searched for above hadeeth but I could not find the above quoted Hadeeth. While searching I found following Hadeeth in Sahih Bukhari, according to which there were only three babies who spoke in the cradle:

Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "None spoke in cradle but three: (The first was) Jesus, (the second was), there a man from Bani Israel called Juraij. While he was offering his prayers, his mother came and called him. He said (to himself), 'Shall I answer her or keep on praying?" (He went on praying) and did not answer her, his mother said, "O Allah! Do not let him die till he sees the faces of prostitutes." So while he was in his hermitage, a lady came and sought to seduce him, but he refused. So she went to a shepherd and presented herself to him to commit illegal sexual intercourse with her and then later she gave birth to a child and claimed that it belonged to Juraij. The people, therefore, came to him and dismantled his hermitage and expelled him out of it and abused him. Juraij performed the ablution and offered prayer, and then came to the child and said, 'O child! Who is your father?' The child replied, 'The shepherd.' (After hearing this) the people said, 'We shall rebuild your hermitage of gold,' but he said, 'No, of nothing but mud.'(The third was the hero of the following story) A lady from Bani Israel was nursing her child at her breast when a handsome rider passed by her. She said, 'O Allah ! Make my child like him.' On that the child left her breast, and facing the rider said, 'O Allah! Do not make me like him.' The child then started to suck her breast again. (Abu Huraira further said, "As if I were now looking at the Prophet sucking his finger (in way of demonstration.") After a while the people passed by, with a lady slave and she (i.e. the child's mother) said, 'O Allah! Do not make my child like this (slave girl)!, On that the child left her breast and said, 'O Allah! Make me like her.' When she asked why, the child replied, 'The rider is one of the tyrants while this slave girl is falsely accused of theft and illegal sexual intercourse." (Sahih Bukhari; Book #55, Hadith #645) Source

@Saud 491 could you please provide the exact reference of hadeeth you quoted?
 
dr zakir naik beautifully explained that suicide attacks are permissible but only as a last resort... he explained that suicide attacks are not suicide.. and in some conditions it becomes wajib to commit suicide attack.....

i will search the link to that video and post here...
 

ranaji

President (40k+ posts)
Dehshat gardi aur khood kush hamlon ki koi justification nahi begunah insano ko maarna koi naik kaam aur islam ki khidmat nahi harr haal mai na jaiz hai
 

saud491

MPA (400+ posts)

I searched for above hadeeth but I could not find the above quoted Hadeeth. While searching I found following Hadeeth in Sahih Bukhari, according to which there were only three babies who spoke in the cradle:

Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "None spoke in cradle but three: (The first was) Jesus, (the second was), there a man from Bani Israel called Juraij. While he was offering his prayers, his mother came and called him. He said (to himself), 'Shall I answer her or keep on praying?" (He went on praying) and did not answer her, his mother said, "O Allah! Do not let him die till he sees the faces of prostitutes." So while he was in his hermitage, a lady came and sought to seduce him, but he refused. So she went to a shepherd and presented herself to him to commit illegal sexual intercourse with her and then later she gave birth to a child and claimed that it belonged to Juraij. The people, therefore, came to him and dismantled his hermitage and expelled him out of it and abused him. Juraij performed the ablution and offered prayer, and then came to the child and said, 'O child! Who is your father?' The child replied, 'The shepherd.' (After hearing this) the people said, 'We shall rebuild your hermitage of gold,' but he said, 'No, of nothing but mud.'(The third was the hero of the following story) A lady from Bani Israel was nursing her child at her breast when a handsome rider passed by her. She said, 'O Allah ! Make my child like him.' On that the child left her breast, and facing the rider said, 'O Allah! Do not make me like him.' The child then started to suck her breast again. (Abu Huraira further said, "As if I were now looking at the Prophet sucking his finger (in way of demonstration.") After a while the people passed by, with a lady slave and she (i.e. the child's mother) said, 'O Allah! Do not make my child like this (slave girl)!, On that the child left her breast and said, 'O Allah! Make me like her.' When she asked why, the child replied, 'The rider is one of the tyrants while this slave girl is falsely accused of theft and illegal sexual intercourse." (Sahih Bukhari; Book #55, Hadith #645) Source

@Saud 491 could you please provide the exact reference of hadeeth you quoted?


جزاک اللہ نشاندہی کرنے کی۔ میں نے یہ مضمون نہیں لکھا اور نا ہی میں نے حدیث نقل کی ہے۔ میں نے صرف مضمون کو یہاں فورم پر پیش کیا ہے۔ جن کا یہ مضمون ہے وہ قابل اعتماد ہستی ہیں۔
آپ کی سب سے بہترین بات یہ ہیکہ آپ نے تحقیق کی، اللہ آپ کو اسکی جزائے خیر دے۔ بہرحال میں نے تحقیق کی اور حدیث کا حوالہ صحیح پایا۔ ملاحظہ ہو۔



" كان ملكٌ فيمن كان قبلكم . وكان لهُ ساحرٌ . فلما كبرَ قال للملكِ : إني قد كبرتُ . فابعث إليَّ غلامًا أُعلِّمُه السحرَ . فبعث إليهِ غلامًا يُعلِّمُه . فكان في طريقِه ، إذا سلك ، راهبٌ . فقعد إليهِ وسمع كلامَه . فأعجبَه . فكان إذا أتى الساحرَ مرَّ بالراهبِ وقعد إليهِ . فإذا أتى الساحرَ ضربَه . فشكا ذلك إلى الراهبِ . فقال : إذا خشيتَ الساحرَ فقل : حبسني أهلي . وإذا خشيتَ أهلك فقل : حبسني الساحرُ . فبينما هو كذلك إذ أتى على دابةٍ عظيمةٍ قد حبستِ الناسَ . فقال : اليومَ أعلمُ آلساحرُ أفضلُ أم الراهبُ أفضلُ ؟ فأخذ حجرًا فقال : اللهم ! إن كان أمرُ الراهبِ أحبُّ إليك من أمرِ الساحرِ فاقتل هذهِ الدابةَ . حتى يمضي الناسُ . فرماها فقتلها . ومضى الناسُ . فأتى الراهبَ فأخبرَه . فقال لهُ الراهبُ : أي بنيَّ ! أنت ، اليوم ، أفضلُ مني . قد بلغ من أمرك ما أرى . وإنك ستُبتلى . فإن ابتُليتَ فلا تَدُلَّ عليَّ . وكان الغلامُ يُبرئُ الأكمهَ والأبرصَ ويُداوي الناسَ من سائرِ الأدواءِ . فسمع جليسٌ للملكِ كان قد عمي . فأتاهُ بهدايا كثيرةٍ . فقال : ما ههنا لكَ أجمعُ ، إن أنتَ شفيتني . فقال : إني لا أشفي أحدًا . إنما يشفي اللهُ . فإن أنت آمنتَ باللهِ دعوتُ اللهَ فشفاكَ . فآمنَ باللهِ . فشفاهُ اللهُ . فأتى الملكُ فجلس إليهِ كما كان يجلسُ . فقال لهُ الملكُ : من ردَّ عليك بصرك ؟ قال : ربي . قال : ولك ربٌّ غيري ؟ قال : ربي وربك اللهُ . فأخذَه فلم يزل يُعذبْه حتى دَلَّ على الغلامِ . فجئَ بالغلامِ . فقال لهُ الملكُ : أي بنيَّ ! قد بلغ من سحركَ ما تُبرئُ الأكمهَ والأبرصَ وتفعلُ وتفعلُ . فقال : إني لا أشفي أحدًا . إنما يشفي اللهُ . فأخذَه فلم يزل يعذبْه حتى دلَّ على الراهبِ . فجئ بالراهبِ . فقيل لهُ : ارجع عن دينك . فأبى . فدعا بالمئشارِ . فوُضع المئشارُ على مفرقِ رأسِه . فشقَّه حتى وقع شِقَّاه . ثم جئ بجليسِ الملكِ فقيل لهُ : ارجع عن دينك . فأبى . فوُضعَ المئشارُ في مفرقِ رأسِه . فشقَّهُ بهِ حتى وقع شِقَّاهُ . ثم جئ بالغلامِ فقيل لهُ : ارجع عن دينك . فأبى . فدفعَه إلى نفرٍ من أصحابِه فقال : اذهبوا بهِ إلى جبلِ كذا وكذا . فاصعدوا بهِ الجبلَ . فإذا بلغتم ذروتَه ، فإن رجع عن دينِه ، وإلا فاطرحوهُ . فذهبوا بهِ فصعدوا بهِ الجبلَ . فقال : اللهم ! اكفنيهم بما شئتَ . فرجف بهم الجبلُ فسقطوا . وجاء يمشي إلى الملكِ . فقال لهُ الملكُ : ما فعل أصحابك ؟ قال : كفانيهم اللهُ . فدفعَه إلى نفرٍ من أصحابِه فقال : اذهبوا بهِ فاحملوهُ في قرقورٍ ، فتوسَّطوا بهِ البحرَ . فإن رجع عن دينِه وإلا فاقذفوهُ . فذهبوا بهِ . فقال : اللهم ! اكفنيهم بما شئتَ . فانكفأت بهم السفينةُ فغرقوا . وجاء يمشي إلى الملكِ . فقال لهُ الملكُ : ما فعل أصحابك ؟ قال : كفانيهم اللهُ . فقال للملكِ : إنك لستَ بقاتلي حتى تفعلَ ما آمرك بهِ . قال : وما هو ؟ قال : تجمعُ الناسَ في صعيدٍ واحدٍ . وتُصلبني على جذعٍ . ثم خذ سهمًا من كنانتي . ثم ضعِ السهمَ في كبدِ القوسِ . ثم قل : باسمِ اللهِ ، ربِّ الغلامِ . ثم ارمني . فإنك إذا فعلت ذلك قتلتني . فجمع الناسَ في صعيدٍ واحدٍ . وصلبَه على جذعٍ . ثم أخذ سهمًا من كنانتِه . ثم وضع السهمَ في كبدِ القوسِ ثم قال : باسمِ اللهِ ، ربِّ الغلامِ . ثم رماهُ فوقع السهمُ في صدغِه . فوضع يدَه في صدغِه في موضعِ السهمِ . فمات . فقال الناسُ : آمنَّا بربِّ الغلامِ . آمنَّا بربِّ الغلامِ . آمنَّا بربِّ الغلامِ . فأتى الملكُ فقيل لهُ : أرأيتَ ما كنت تحذرُ ؟ قد ، واللهِ ! نزل بك حذرك . قد آمنَ الناسُ فأمر بالأخدودِ في أفواهِ السككِ فخُدَّت . وأُضرمَ النيرانُ . وقال : من لم يرجع عن دينِه فأحموهُ فيها . أو قيل له : اقتحم . ففعلوا حتى جاءت امرأةٌ ومعها صبيٌّ لها فتقاعست أن تقعَ فيها . فقال لها الغلامُ : يا أمه ! اصبري . فإنكِ على الحقِّ " .
الراوي: صهيب بن سنان المحدث:مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 3005
خلاصة حكم المحدث:
صحيح

http://www.dorar.net/enc/hadith?skeys=بسم+الله+,+رب+الغلام+,+ثم+ارمني&xclude=&t=*&degree_cat0=1
 

saud491

MPA (400+ posts)
dr zakir naik beautifully explained that suicide attacks are permissible but only as a last resort... he explained that suicide attacks are not suicide.. and in some conditions it becomes wajib to commit suicide attack.....

i will search the link to that video and post here...
اگر آپ پورا مضمون پڑہیں تو معلوم ہوگا کہ مضمون نگار کا بھی یہی موقف ہے۔

البتہ مخصوص حالات میں، خاص طور پر جب کہ میدان جنگ میں موت یقینی دکھائی دے رہی ہو، اپنی جان کی قربانی دے کر مسلمانوں کو کسی بڑے نقصان سے بچانے کے لیے دشمن پر خود کش حملے کے جواز سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح اگر دشمن کی پیش قدمی کو روکنے یا طاقت کے تناسب کو متوازن کرنے کا اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ نہ ہو تو اس صورت حال میں بھی اس کا جواز اور مشروعیت تسلیم نہ کرنے کی بظاہر کوئی وجہ دکھائی نہیں دیتی۔ تاہم ایسے کسی بھی اقدام کے جواز کے لیے یہ ضروری ہوگا کہ اس میں شریعت کے کسی دوسرے اصول اور ضابطے کی خلاف ورزی نہ کی گئی ہو۔ یعنی اگر جنگ کسی مشروع اور جائز مقصد کے لیے لڑی جا رہی ہواور اس میں دشمن کو بھاری نقصان پہنچانے کے لیے خود کش حملہ زیادہ موثر ہو اور اس کا نشانہ مقاتلین ہی کو بنایا جائے تو اصولی طور پر اس خود کشی کو اس وعید کے تحت نہیں لایا جا سکتا جو حدیث میں بیان ہوئی ہے۔
البتہ اگر جنگ کا محرک ہی ناجائز ہو اور حملے کا نشانہ دشمن کے مقاتلین کے بجائے عام انسانوں کو بنایا جائے تو اس صورت میں خود کش حملہ بھی اسی طرح ناجائز ہوگا جیسے کسی بھی دوسرے ہتھیار کا استعمال ناجائز ہے۔
 
Last edited: