QaiserMirza

Chief Minister (5k+ posts)
رزق کی نعمت

مخلو ق کے خا لق کا دعو یٰ ہے کہ زمین پر چلنے والے ہر جا ندا ر کے رزق کا کفیل ہے ۔ اس میں سب مخلو ق شا مل ہے ۔ انسان حیوا ن کیڑے مکوڑے مرغ وما ہی غرضیکہ ہر ذی جا ن اور ذی روح بغیر کسی استثنا کے ۔

رزق صر ف یہی نہیں کہ جیب میں ما ل ہو بلکہ ہما ری ہر صفت رزق ہے اور ہما ری ہر استعداد رزق ہے ۔ بینا ئی رز ق ہے گویائی رزق ہے خیال رزق ہے احساس رزق ہے سما عت رزق ہے وجود کی طاقت اور لطافت رزق ہے غم رزق ہے خوشی رزق ہے علم رزق ہے محبت رزق ہے حُسن رزق ہے ذوقِ جما ل رزق ہے اور
سب سے بڑی با ت یہ کہ ایما ن بھی رزق ہے ۔

اس ہمہ رنگ رزق کے نزو ل اور حصول کے عمل پرغو ر کر نے سے یہ با ت واضح ہو جا تی ہے کہ خا لق کا دعو یٰ کسی اور دلیل کا محتا ج نہیں ۔ وہ ایسا رازق ہے کہ بچے کے پیدا ہو نے سے پہلے اُس کے رزق کا انتظا م کر چکا ہو تا ہے ۔

آسما نو ں سے مصفا اور مطہر پا نی کی با رش کر نے والا خا لق رزق کی ترسیل کے وسیع سلسلے رکھتا ہے ۔ انسان سمجھ نہیں سکتا۔ آج کا انسا ن جھگڑالو ہو گیا ہے ۔ وہ تسلیم سے حا صل ہو نے والی تعلیم سے محرو م ہو چکا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ رزق کے وسیع و عظیم پھیلاؤ کو دیکھتا تو ہے سمجھتا نہیں۔

با ر ش کے سا تھ رزق کا اتنا گہرا تعلق ہے کہ با رش کو ہی رزق کہہ دیا جا تا ہے ۔ با رش کے ہو نے سے ہی رزق کے چشمے بلکہ سر چشمے جا ری ہو جاتے ہیں ۔ پہا ڑو ں اور جنگلو ں میں اُگنے والے ایک معمو لی درخت و دیکھیں رزق سے بھر پور ہے ۔ اس کی شا خیں پر ندو ں کا کا رین بسیرا ہیں ۔ اس کا سا یہ جا ند اروں کی پناہ گاہ ہے ۔ لکڑ ی طویل سلسلہ ہے رزق کا ۔ جلا نے وا لی ہو تب بھی لکڑی رزق ہے ۔ عما رتی لکڑی تو سبحان اللہ۔رزق ہی رزق ہے ۔ فرنشنگ ہا وس شوروم فر نیچر گا ڑیا ں رزق کما نے وا لو ں اور رزق کھا نے وا لو ں کے لیے نعمت ہے درخت کی لکڑی نہ ختم ہو نے وا لا خز انہ ہے۔ درخت با رش کی عطا ہے ۔با رش خا لق کا عمل ہے ۔دعو یٰ یہ ہے کہ رزق آسما ن سے نا زل ہو تا ہے۔ دلیل یہ ہے کہ با رش میں صفتِ رزا قی ہے۔ زمین سے اُ گنے وا لے اناج کو با رش سے جو تعلق ہے وہ محتا جِ بیان نہیں ۔جا ندار زمین سے اُگنے وا لی اجناس پر پلتے ہیں مویشیو ں ہی کولیجیے ۔تا زہ دودھ کی نہریں ہیں ۔ تا زہ گوشت کا نہ ختم ہو نے وا لا سٹور ۔ صحت مند گوشت جس پر انسانی صحت کا دارومدار ہے ۔مو یشیو ں کی کھا لیں کیا کیا رزق مہیا کر تی ہیں ۔ کسی ٹینری سے معلوم کر یں ۔ مو یشیو ں سے لباس جو تے بار برداری اورنہ جا نے کیا کیا کچھ حا صل ہوتا ہے ۔ ان کی رزاقانہ افا دیت پر مکمل تبصرہ خا رج از امکان ہے ۔

جا نور جا نوروں کا رزق ہیں انسانو ں کا رزق ہیں یہا ں تک کے مرا ہوا جا نور بھی گدھ کا رزق ہے گد ھ مردار پر پلتا ہے شا ہین زندہ شکار سے اپنی ز ند گی برقرار رکھتا ہے ۔ پروردگار کے کام ہیں ۔ شا ہین اور شیر کی خوراک کو زند گی دے کر محفوظ کر دیا گیا ہے ۔

اگر آسما نو ں سے مینہ نہ بر سے تو رزق کی داستان ختم سی ہو کر رہ جا ئے ۔ سا ئنس کی تر قی کے با وجود رز ق کا نظام معیشت و معا شیات تقسیم دولت کا سارا نظام بارش کے ختم ہو نے سے ختم ہو جا ئے گا ۔ با رش کے دم سے سو تی اور اُونی کپڑے کی ملیں چل رہی ہیں ۔ با رش نہ ہو تو نہ اون نہ کپاس نہ خوراک نہ لباس ۔
با رش کی کمی سے بجلی کا نظام بُحران کا شکار ہو تے دیکھا گیا ہے ۔ رزق کی تقسیم و تر سیل کا نظاآسمان سے بر سنے وا لے پا نی پر ہے ۔ پا نی کی کمی سے قحط سا لی اپنے ظا لم جبڑوں میں انسان کو دبوچ لیتی ہے ۔ یاد رکھنے وا لی بات یہ ہے بارش منشا ئے الٰہی ہے اور یہ عطا ئے رحما نی بغیر کسی معاو ضے کے ہے ۔

انسانی آنکھ کو قدرت نے بینا ئی کا رزق عطا کیا اور اس بینا آنکھ کے لیے نظا رو ں کے خزا نے مو جود ہیں ۔ کا ئنات کے منور منا ظر انسان کی ضیافتِ نگاہ کا سامان ہیں کہسا روں سے ریگزاروں تک نظر کا رزق نظا روں کے حسن میں پھیلا دیا گیا ہے ۔ یہ سب بغیر معا وضے کے ہے۔

ایسے محسوس ہو تا ہے کہ مشرق سے طلوع ہو نے وا لا سورج رزق کے خزا نے بکھیرتا ہوا مغرب میں غروب ہو تا ہے اور پھر رات ایک الگ قسم کارزق راحتِ جاں کے لیے تقسیم کر تی ہے ۔ پُر سکون نیند ایک عظیم دولت ہے مفت ملتی ہے اس پر کروڑوں رو پے نثار ۔ سورج پھلوں کو رس عطا کر تاہے چا ند مٹھاس بخشتا ہے ستا رے صا حبانِ فکر کو دولتِ افکار سے مالامال کر تے ہیں ۔ غر ضیکہ اس کا ئنات کا ہر موسم اور ہر لمحہ کسی نہ کسی انداز سے رزق تقسیم کرتا ہی رہتا ہے ۔

انسان کا رزق اُس کے اپنے وجود کے کسی حصے میں پنہا ں ہو تا ہے ۔ اس صلا حیت کو دریا فت کر نا ہی انسان کا فر ض ہے ۔ اس کے بعد حصول رزق کا مسئلہ ختم ہو تا جا تا ہے ۔ کچھ لو گو ں کا رزق ان کے ذہن میں ہو تا ہے ۔ ان کی ذہنی صلا حیت رزق بنتی ہی چلی جا تی ہے ۔ یہ صا حبا نِ فکر و فراست اپنی اور دوسروں کی معیشت کو استوار کر تے ہیں۔ دنیا کو علم و ادب سے نوا زتے ہیں اور رزق ان کے ذہن کو سلام کر نے کے لیے حاضر رہتا ہے ۔

کچھ انسانو ں کا رزق ان کے گلے میں ہو تا ہے ۔ سر یلا رسیلا نغمہ یو ں بھی رزق ہے اور یوں بھی گلو کار کا گلا سو نے کی کان سے کیا کم ہو گا ۔ اس نغمگی سے کتنے اداروں اور کتنے افراد کا رزق وابستہ ہے ۔ صا حبِ آواز کے ساتھ صاحبِ ساز کو بھی نوازدیا جا تا ہے ۔

مز دوروں اور ورکروں کا رزق ان کے با زوؤں میں ہے ۔ جسما نی طا قت جو قدرت کی عطا ہے ذریعہ رزق بھی ہے ۔ ہا تھ چلتے ہیں اور پیٹ پلتے ہیں ۔ کا سب کا رزق کسب میں ہے۔ کا سب امیر ہو یا غریب وہ اللہ کا دوست ہے ۔

کچھ ممالک میں جنسیات بھی معا شیات کا ایک حصہ ہے ۔ گمرا ہی ہے لیکن رزق سے وا بستہ ہے ۔ گناہ تو ہے لیکن رزق کا ذریعہ ہے۔

اس مقام پر مذہب انسان کی رہنما ئی کر تا ہے ۔ مذہب بتا تا ہے کہ حلال کیا ہے حرام کیاہے۔جا ئز کیا ہے نا جا ئز کیا ہے ۔ ثواب کیا ہے عذاب کیا ہے کرم کیا ہے ستم کیا ہے مذہب غور کر نے کی دعوت دیتا ہے کہ آخری رزق کی ضرورت کیا ہے ۔ زند گی گزارنے کے لیے رزق چا ہیے ۔

ماں کی گود سے قبر تک کا سفر ہے۔ کتنا زادِ راہ چا ہیے ؟

ہم مال بڑ ھا تے ہیں اور یہ بھول جا تے ہیں کی زند گی کم ہو تی جا رہی ہے ۔ سانس کی آری ہستی کا شجر کا ٹ رہی ہے ۔ زند گی برف کی سل کی طر ح پگھلتی چلی جا رہی ہے ۔ یہ پو نجی گھٹتی جا رہی ہے ۔ دولت موت سے نہیں بچا سکتی ۔

سا نس بند ہو جا ئے تو رزق کی تمام افا دیت ہما رے لیے ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتی ہے ۔ جا ئز ضروریات کو نا جائز کما ئی سے پو را کر نا حماقت بھی ہے اور گناہ بھی۔ رشوت کے مال پر پلنے وا لی اولاد لا زمی طور پر با غی ہو گی بے ادب ہوگی گستاخ ہو گی ۔ دوہرا عذاب ہے ۔ عا قبت بھی بر باد اور اولاد بھی برباد
تکا ثرِ زر نے انسان کو اتنا غا فل اور اندھا بنا دیا ہے کہ اُس کی آنکھ بند ہو نے سے پہلے کُھل ہی نہیں سکتی۔انسان دولت کے حصول کی خواہش میں پا گل سا ہو گیا ہے ۔ دولت زند گی کے لیے ہے لیکن آج کی زند گی صرف دولت کے لیے ہے ۔

سو چنا چا ہیے کہ صرف پیسہ ہی رزق نہیں ۔ ایک قسم کا رزق حا صل کر نے کے لیے دو سری قسم کا رزق ضا ئع کر نا کم عقلی ہے ۔ دین کو دے کر دولتِ دنیا حاصل کی ۔ تو بھی کس کام کی ؟

وطن چھوڑ کر پیسہ لیا تو کیا لیا ؟جہنم میں لے جا نے وا لی دولت سے وہ غر یبی بہتر ہے جو جنت کی راہ دکھا ئے۔

خیر و شر کا شعور نہ ہو تو امیر غر یب کی بحث عبث ہے کا ئنات میں دولت کی یکساں تقسیم کی خواہش تقسیم ایک ایسا خواب ہے جو اُس وقت تک شر مندہ تعبیر نہیں ہو سکتا جب تک کوے اور مور کو ایک جیسے پر نہیں ملتے یا شیر اور گیدڑکو ایک جیسا مزاج نہیں ملتا ۔

اچھا امیر بہت اچھا ہو تا ہے برا غر یب بہت برا ہو تا۔ اچھا امیر وہ ہے جو اپنے مال سے اپنے محروم بھائی کی خدمت کرے ۔ برا غریب وہ ہے جو دوسرے کے مال کے مال کو باطل طر یقے سے حا صل کرنا چاہے یعنی چوری ڈاکہ رشوت کے ذریعے سے ۔

آزادی پرواز رزق ہے ۔ سو نے کا قفس ملے تو بھی قبول نہ کر نا چا ہیے ۔

یہ زند گی محدود ایام کے لیے ہے ۔ پا کیزہ رزق کی تلاش کر نی چا ہیے بلکہ اس کاانتظارکر نا چا ہیے ۔ ہما را رزق ہمیں ضرور ملے گا جیسے ہمیں ہماری زند گی ملی ہے بینا ئی ملی ہے گو یا ئی ملی ہے اور جیسے ایک دن ہمیں موت سے ملنا ہے ۔

جو ہما ری جان کا محافظ ہے وہی ہما رے رزق کا ضا من ہے ۔ رزق دینا رازق کا عمل ہے ۔ یہ اس کا دعویٰ ہے جس نے سورج چاند ستاروں کو نورانی رزق عطا کیا ہے جس نے پہاڑوں کو استقا مت دی ہے دریا کو روا نی دی ہے گلو ں میں رنگ بھر ے ہیں مو سموں کو خوئے انقلاب عطا کی ہے ۔ بیج کو مٹی کی تا ریکی میں پا لنے وا لا انسان کو کیوں نہ پا لے گا ؟

صبر واستقامت کا مقام ہے ۔ اپنی غر یبی کی تو ہین نہ کر نی چا ہیے ۔ اپنے مال کو عذاب نہ بنا یا جا ئے ۔ حق والے کوحق دے دیا جائے اور اپنی عاقبت کی فکر کی جا ئے۔ عا قبت آنے وا لا لمحہ ہو سکتا ہے ۔

واصف علی واصف