رنگ روڈ۔۔دوسرا پاناما اسکینڈل

Waqar_H

Senator (1k+ posts)
Funny to see PTI supporters now justifying and defending corruption. Phir un Nooniyo ko gaaliya dete hain jo kehte thay “khata ha tou lagata bhi ha”.

Are you guys really any different?

Good to see Imran Khan finally taking some visible action against corruption.
 

Hate_Nooras

Chief Minister (5k+ posts)
Funny to see PTI supporters now justifying and defending corruption. Phir un Nooniyo ko gaaliya dete hain jo kehte thay “khata ha tou lagata bhi ha”.

Are you guys really any different?

Good to see Imran Khan finally taking some visible action against corruption.
Who is defending the corruption- please dont make generalised statements. Quote people that are defending corruption.
 

gorgias

Chief Minister (5k+ posts)
Ring road type scandal is a routine matter for parliamentarians and bureaucrats to get rich, But the difference is Imran khan who is not only against such norms but is also not hesitant to take action against his own ministers and government.

But Lifafa chaudhry is not giving credit to Imran khan for action against his own ministers and government, but is using the title as a trap for people to blame Imran khan for all this.

یہی تو افسوس ہے کہ جاوید چودھری اس کا کریڈٹ عمران خان کو دینے کی بجائے اسے عمران خان کے لیے پانامہ ٹو قرار دے رہے ہیں اور مناقفت کی انتہا دیکھے کہ جاوید چودھری پانامہ کیس میں نواز شریف کو بے قصور سمجھتے ہیں۔
 

Truthstands

Minister (2k+ posts)
So pti ministers thought we should make some money too
Think like Pakistani pls and demand a judicial enquiry (including showbaz sharif time)
Judicial inquiry from Qazi Paisa or Lohar High Court or ISB cheif relative of mehtab Abbasi? ?
Nooni goons have history of doing these kind of tactics, every project they do the same.
 

Truthstands

Minister (2k+ posts)
This scandal 1st time by Imran Khan Riaz PTI media team favourite anchor.
The Zulfi Bukhari is the same who spent 1,7500000 on PMIK Umrah, Khan is not child that cannot understand that he is spending Rs1,7500000 and moreover 90% Khan UK visit sponsored by this Zulfi.


Fake news. He was accused before for the same. IK dont let anyone to spend money on him. He dont live on his friends money.
His one article earn him millions.
 

Islamabadiya

Chief Minister (5k+ posts)
Judicial inquiry from Qazi Paisa or Lohar High Court or ISB cheif relative of mehtab Abbasi? ?
Nooni goons have history of doing these kind of tactics, every project they do the same.
Maybe from the ones who gave honesty certificate or one that dismissed Gillani or one that did panama decision
 

Islamabadiya

Chief Minister (5k+ posts)
Fake news. He was accused before for the same. IK dont let anyone to spend money on him. He dont live on his friends money.
His one article earn him millions.
Friend, ik himself has admitted in the past that his friends gave his expenses many times when he was asked about his low income tax
 

peaceandjustice

Chief Minister (5k+ posts)
یہ پٹواری مافیاز/ قبضہ مافیاز اپنے حرام خور اینکرز صحافیوں کے ٹولے اور میڈیا کے بلیک میلرز مل کر اپنے کرپٹ آقاؤں خاندانوں کو بچانے نکل آتے ہیں یہ تمام حرام خور اینکرز ملک ریاض اور نونی لید مافیاز کے کارندے ہیں اور اپنے پٹواریوں کی حمایت میں نکل آئے ہیں ابھی تو حرام خور وکیلوں کے زریعے عدالتوں سے سٹے آرڈر لیا جائے گا اور عدلیہ کرپٹ خاندانوں مافیاز کو مکمل انصاف دینے کی پابند ھے اب اس میں کیا ھے ایسا تو ہونا ھے ماضی میں بھی ہوا ھے اور مستقبل میں بھی ہونا ھے اور عوام ان رنگ روڈز کے نامکمل ہونے سے کھجل خوار ہوتی رھے گی جس طرح لاھور رنگ روڈ کے نامکمل ہونے سے ہورہی ھے عدالت نے لاھور رنگ روڈ پر بھی ملک ریاض کو سٹے آرڈر دیا ہوا ھے اور میڈیا کوئی بات نہیں کرتا اور الزامات پی ٹی آئی کی گورنمنٹ پر لگائے جا رھے ھیں اس راولپنڈی اسلام آباد رنگ روڈ میں بھی یہی ہونا ھے
 

Worldtronic

Senator (1k+ posts)
Fake news. He was accused before for the same. IK dont let anyone to spend money on him. He dont live on his friends money.
His one article earn him millions.

I wish that is fake news, but on this Umrah trip Zulfi was on ECL, and khan manage to arrange time permission for Zulfi.
 

Islamabadiya

Chief Minister (5k+ posts)
یہ پٹواری مافیاز/ قبضہ مافیاز اپنے حرام خور اینکرز صحافیوں کے ٹولے اور میڈیا کے بلیک میلرز مل کر اپنے کرپٹ آقاؤں خاندانوں کو بچانے نکل آتے ہیں یہ تمام حرام خور اینکرز ملک ریاض اور نونی لید مافیاز کے کارندے ہیں اور اپنے پٹواریوں کی حمایت میں نکل آئے ہیں ابھی تو حرام خور وکیلوں کے زریعے عدالتوں سے سٹے آرڈر لیا جائے گا اور عدلیہ کرپٹ خاندانوں مافیاز کو مکمل انصاف دینے کی پابند ھے اب اس میں کیا ھے ایسا تو ہونا ھے ماضی میں بھی ہوا ھے اور مستقبل میں بھی ہونا ھے اور عوام ان رنگ روڈز کے نامکمل ہونے سے کھجل خوار ہوتی رھے گی جس طرح لاھور رنگ روڈ کے نامکمل ہونے سے ہورہی ھے عدالت نے لاھور رنگ روڈ پر بھی ملک ریاض کو سٹے آرڈر دیا ہوا ھے اور میڈیا کوئی بات نہیں کرتا اور الزامات پی ٹی آئی کی گورنمنٹ پر لگائے جا رھے ھیں اس راولپنڈی اسلام آباد رنگ روڈ میں بھی یہی ہونا ھے

just to add one point, Lahore ring road stay has been vacated from one month and yet the Punjab gov this hesitant in starting work that’s why fingers are pointing towards Punjab gov
 

Worldtronic

Senator (1k+ posts)
Fake news. He was accused before for the same. IK dont let anyone to spend money on him. He dont live on his friends money.
His one article earn him millions.
I am sharing this news with hope you will not believe.


a6f2a8caf0574a23ba17ab546c92a76a.jpg
 

Truthstands

Minister (2k+ posts)
I am sharing this news with hope you will not believe.


a6f2a8caf0574a23ba17ab546c92a76a.jpg
Who wrote this web blog? Whats the credibility? I can share many Fake news ??
 

Truthstands

Minister (2k+ posts)
Friend, ik himself has admitted in the past that his friends gave his expenses many times when he was asked about his low income tax
Wrong,
But that was not for this case, it was when his case was in the court and a question was raised of payment in 1996 when he sold the flat.
Dont mix things if u dont know the reality.go reaf his statements during court.
He has a certificate from court that he's honest and truthful.
 

Zainsha

Chief Minister (5k+ posts)

www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

راولپنڈی رنگ روڈ کی کہانی وزیراعظم عمران خان کے دفتر سے شروع ہوئی‘ وزیراعظم کو کسی دوست نے بتایا آپ کے خلاف بھی پاناما اسکینڈل بن چکا ہے۔
آج آپ کی حکومت ختم ہو جاتی ہے تو آپ کے لیے راولپنڈی رنگ روڈ کافی ہو گی‘ آپ باقی زندگی فائلیں اٹھا کر ایک عدالت سے دوسری عدالت دھکے کھاتے رہیں گے‘ وزیراعظم کے لیے یہ انکشاف پریشان کن تھا‘ وزیراعظم کو دوست نے چند اکاؤنٹ نمبرز‘ چند فون نمبرز‘ چار اعلیٰ سرکاری افسروں کے عہدے اور 10 ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے نام دیے اور وزیراعظم کو کمشنر راولپنڈی کیپٹن(ر) محمد محمود سے چند سوال پوچھنے کا مشورہ دیا۔
وزیراعظم نے خفیہ تحقیقات کرائیں‘ الزام سچ نکلا‘ وزیراعظم نے کمشنر راولپنڈی کیپٹن محمود کو بلایا اور ان سے صرف ایک سوال پوچھا ’’آپ کو راولپنڈی رنگ روڈ کا روٹ بدلنے اور اٹک لوپ کو اس میں شامل کرنے کا مشورہ کس نے دیا تھا‘‘ کیپٹن محمود نے فوراً جواب دیا ’’مجھے کسی نے نہیں کہا تھا‘‘ وزیراعظم نے دوبارہ پوچھا ’’کیا آپ کو کسی وفاقی وزیر یا اسپیشل ایڈوائزر ٹو پی ایم نے سفارش نہیں کی؟‘‘ کمشنر نے صاف انکار کر دیا۔


یہ انکار وزیراعظم کو برا لگا‘ کیوں؟ کیوں کہ وزیراعظم کے پاس سارا ریکارڈ موجود تھا‘ یہ جانتے تھے وفاقی وزیر غلام سرور خان اور وزیراعظم کے معاون خصوصی ذلفی بخاری کمشنر راولپنڈی پر اثرانداز ہوئے تھے اور اس اثرورسوخ کی وجہ سے 10 ہاؤسنگ سوسائٹیوں نے چند ماہ میں اربوں روپے کمائے تھے۔
کمشنر کے انکار نے وزیراعظم کے خدشات کو مضبوط بنا دیا اور انھوں نے راولپنڈی کی ساری انتظامیہ کمشنرکیپٹن ریٹائرڈ محمد محمود‘ ڈپٹی کمشنر راولپنڈی محمد انوار الحق‘ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیوکیپٹن (ر) شعیب علی اور اسسٹنٹ کمشنر صدر غلام عباس کو عہدوں سے ہٹا دیا اور چیئرمین چیف منسٹر انسپکشن ٹیم گلزارحسین شاہ کو کمشنر راولپنڈی لگایا اور انھیں راولپنڈی رنگ روڈ کی انکوائری کا حکم دے دیا‘ کمشنر گلزارحسین شاہ نے کام شروع کیا اور 11مئی کو انکوائری رپورٹ آ گئی۔
بیوروکریسی میں گلزار حسین شاہ کی شہرت اچھی نہیں‘ یہ ڈسکہ میں این اے 75کے الیکشن کے دوران کمشنر گوجرانوالہ تھے اور ان پر الیکشن میں اثرانداز ہونے کا الزام لگا تھا مگر اس کے باوجود گلزار حسین کی انکوائری رپورٹ نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا‘ میں نے اپنے 28 سال کے صحافتی کیریئر میں کسی سرکاری افسر کی تیار کردہ اتنی تگڑی اور جامع رپورٹ نہیں دیکھی‘ اس رپورٹ نے ثابت کر دیا اگر سرکاری افسر کام کرنا چاہے تو یہ ایک ہفتے میں تمام تحقیقاتی اداروں اور جے آئی ٹیز کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔
یہ رپورٹ ہمارے پورے سسٹم کا نوحہ بھی ہے اور یہ ثابت کرتی ہے سیاست دان‘ بیوروکریٹس اور طاقتور اداروں کے ریٹائرڈ افسر کس طرح مل کر پورے نظام کو توڑ مروڑکر ایک ایک رات میں عوام کی جیب سے کھربوں روپے نکال لیتے ہیں‘ میں عمران خان کا ناقد ہوں‘ میں چھ سال سے ان پر تنقید کر رہا ہوں لیکن یہ رپورٹ پڑھ کر پہلی مرتبہ مجھے ان پر ترس آیا‘ یہ شخص واقعی ہر طرف سے مفاد پرستوں میں گھرا ہوا ہے‘ سرکاری افسر‘ وزیراعظم کے دوست اورحکمران پارٹی کے عہدیدار ملک کو لوٹ رہے ہیں اور یہ ملک اور اپنے آپ کو ان سے بچانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن سوال یہ ہے یہ کس کس سے بچے گا؟ اس ملک میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔
کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ میں انکشاف ہوا پنجاب حکومت نے 2017 میں راولپنڈی پر ٹریفک کا دباؤ کم کرنے کے لیے 40کلومیٹر کی رنگ روڈ بنانے کا فیصلہ کیا‘ پلان بھی بن گیا اور بینک آف چائنہ سے 400 ملین ڈالر لون بھی منظور ہو گیا لیکن منصوبہ شروع ہونے سے پہلے میاں شہباز شریف کی حکومت ختم ہو گئی اوریہ منصوبہ بھی دوسرے بے شمار منصوبوں کی طرح ٹھپ ہو گیا لیکن پھر یہ اچانک نہ صرف ایکٹو ہو گیا بلکہ اس میں 26کلومیٹر کا اضافہ بھی ہو گیا‘ اس میں اٹک لوپ بھی شامل ہو گئی۔
اسلام آباد کے دو سیکٹر بھی اس میں ڈال دیے گئے اور حکومت کو یہ تاثر بھی دیا جانے لگا ہمیں غیرملکی قرضوں کی ضرورت نہیں‘ ہمارے پاس ایسی کمپنیاں موجود ہیں جو اپنی جیب سے 66کلو میٹر لمبی سڑک بنائیں گی اور ٹول ٹیکس شیئرنگ کے ذریعے اپنی سرمایہ کاری واپس لے لیں گی‘ یہ منصوبہ بظاہر شان دار لگتا تھا لیکن اس کامقصد رنگ روڈ بنانا نہیں تھا‘ اس کے ذریعے 10 ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے مالکان نے لوگوں سے کھربوں روپے جمع کرنا تھے‘ کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ کے مطابق نوا سٹی کے نام سے راتوں رات ایک ہاؤسنگ سوسائٹی رجسٹرڈ ہوئی۔
سوسائٹی کے پاس 970 کنال زمین تھی لیکن سوسائٹی کے مالک جنید چوہدری نے 20 ہزار فائلیں بنائیں اور مارکیٹ میں ایک ماہ میں یہ ساری فائلیں بیچ دیں‘ کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ کے بعد مزید تحقیقات ہوئیں تو پتا چلا فائلیں صرف 20 ہزار نہیں تھیں ان کی تعداد 30 ہزار ہے اور اس میں ہوا بازی کے وفاقی وزیر غلام سرور خان کے صاحب زادے منصور خان پارٹنر ہیں‘ کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ نے سول ایوی ایشن کی طرف سے نوا سٹی کے فوری این او سی پر بھی سوال اٹھایا‘ یہ این او سی حیران کن اسپیڈ سے جاری ہوا تھا‘ جنید چوہدری نے یہ فائلیں رئیل اسٹیٹ مارکیٹنگ کمپنیوں کو بلک میں دیں‘ پراپرٹی ڈیلروں نے سوشل میڈیا پر اشتہارات دیے اور ایک ماہ میں 20 ہزار فائلیں بیچ دیں۔
تحقیقاتی اداروں نے تحقیقات کیں تو پتا چلا صرف ایک ایجنٹ نے ایک ماہ میں 34 کروڑ روپے کمائے‘ آپ باقی کا اندازہ خود لگا لیجیے‘ یہ بھی پتا چلا نیو ائیرپورٹ سوسائٹی کے مالک راجہ سجاد حسین نے بھی رنگ روڈ کے نام پر اندھا دھند سرمایہ کمایا‘ اس کی کمپنی کا نام الآصف ڈویلپر ہے جب کہ لائف اسٹائل کے نام سے جنوری 2020 میں جنید چوہدری نے ایک دوسری کمپنی بھی بنائی اور اس کمپنی نے کمشنر آفس کی معلومات پر تھوڑی سی زمینیں خریدیں اور ہاؤسنگ اسکیموں نے اس زمین کی بنیاد پر دھڑا دھڑ فائلیں بیچنا شروع کر دیں۔
حبیب رفیق گروپ نے رنگ روڈ میں مورت انٹرچینج ڈال کر اسمارٹ سٹی کو بوسٹ دیا اور اپنی سیل میں اضافہ کر لیا‘ کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ٹاپ سٹی ہاؤسنگ اسکیم میں کمشنر کیپٹن محمود بے نامی حصے دار ہیں‘ رنگ روڈ سے اس کو بھی بوسٹ ملا اور اس کے مالکان بھی اربوں روپے کھا گئے‘ بلیو ورلڈ سوسائٹی نے بھی بوسٹ لی اور اسلام آباد کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی (ICHS) بھی پیچھے نہ رہی‘ رپورٹ میں میجر جنرل ریٹائرڈ سلیم اسحاق‘ کرنل ریٹائرڈ عاصم ابراہیم پراچہ اور کرنل ریٹائرڈ مسعود کا نام بھی شامل ہے‘ اتحاد ہاؤسنگ سوسائٹی‘ میاں شہباز شریف کے سابق پرنسپل سیکریٹری توقیر شاہ اور وزیراعظم کے معاون خصوصی ذلفی بخاری کے رشتے داروں کی زمینوں کا ذکر بھی ہے۔
یہ لوگ پسوال زگ زیگ کے بینی فشریز ہیں‘ یہ انکشاف بھی کیا گیا کمشنر کیپٹن(ر) محمد محمود نے گریڈ 17 کے افسر وسیم علی تابش کو غیرقانونی طور پر اٹک میں پوسٹ کیا‘ اسے رنگ روڈ کے لیے زمینیں خریدنے کی ذمے داری سونپ دی اور اس نے پانچ ارب روپے کی لینڈ ایکوزیشن کر دی۔
رپورٹ میں قرطبہ سٹی اور کمشنر کیپٹن محمود کے دو بھائیوں کا ذکر بھی ہے‘ یہ ہاؤسنگ سوسائٹیز میں پارٹنر بھی تھے اور بے نامی دار بھی‘ وسیم علی تابش بھی ٹاپ سٹی کے مالک کے دوست اور رشتے دار ہیں‘ کیپیٹل اسمارٹ سٹی رنگ روڈ میں تبدیلی کا سب سے بڑا ’’بینی فشری‘‘ تھا‘ کمشنر نے رپورٹ کے آخر میں درخواست کی نیب اور ایف آئی اے کے ذریعے نوا سٹی‘ نیو ائیرپورٹ سوسائٹی‘ بلیو ورلڈ سٹی‘ اتحاد سٹی‘ میاں رشیدہ گاؤں میں موجود 300 بے نامی زمینوں‘ گاؤں تھالیاں میں 200 کنال بے نامی زمین‘ جاندو اور چھوکر گاؤں میں ملٹی پروفیشنل ہاؤسنگ اسکیم کی زمین‘ گاؤں راما میں لائف ریزیڈینشیا‘ اڈیالہ روڈ پر موجود روڈن انکلیو‘ ایس اے ایس ڈویلپرز‘ کیپیٹل اسمارٹ سٹی اور ٹاپ سٹی کے خلاف تحقیقات کی جائیں جب کہ کمشنر راولپنڈی کیپٹن(ر) محمد محمود سمیت اسکینڈل میں ملوث تمام سرکاری افسروں کو نوکری سے فارغ کیا جائے اور ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جائے۔

مجھے کل دوپہر پتا چلا ملزمان کے خلاف خفیہ تحقیقات شروع ہو چکی ہیں‘ نوا سٹی کے مالک جنید چوہدری کے دو وفاقی وزراء اور وزیراعظم کے اسپیشل اسسٹنٹ سے روابط بھی نکل آئے ہیں‘ تحائف کی تفصیلات کا علم بھی ہو چکا ہے‘ نوا سٹی کے ایجنٹوں کے اکاؤنٹس‘ فون ڈیٹا‘ جائیدادوں اور بے نامی پراپرٹیز کی فہرستیں بھی بن رہی ہیں‘ کیپیٹل اسمارٹ سٹی‘ نیو ائیرپورٹ سوسائٹی‘ بلیو ورلڈ‘ اتحاد سٹی اور روڈن کے خلاف بھی ثبوت جمع ہو رہے ہیں اور وزیراعظم نے تمام ملزموں کو گرفتار کرنے اور عوام کی رقم واپس دلوانے کا حکم بھی دے دیا ہے‘ وزیراعظم اور ذلفی بخاری کے تعلقات میں بھی دراڑ آ چکی ہے‘ وزیراعظم ان سے یہ توقع نہیں رکھتے تھے‘ ان کی وزارت کے اندر بھی چند فائلیں کھل رہی ہیں اور وہ انکشافات بھی حیران کن ہوں گے۔

یہ ملک کس طرح چل رہا ہے؟ آپ صرف گلزار حسین کی رپورٹ پڑھ لیں‘ آپ کو مزید کچھ پڑھنے کی ضرورت نہیں رہے گی‘ آپ ظلم دیکھیے‘ ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالکان سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کے ساتھ مل کر کس طرح فضا بناتے ہیں‘ پورے پورے شہر کاغذوں میں بناتے اور پلاٹوں کی فائلیں بنا کر مہینے میں اربوں روپے جمع کر لیتے ہیں اور عوام سستے پلاٹوں اور گھروں کے لالچ میں اپنی عمر بھر کی کمائی سے محروم ہو جاتے ہیں‘ یہ کیسے لوگ ہیں؟ کیا ان کے دل رحم سے بالکل خالی ہو چکے ہیں؟ عمران خان سچ کہتے ہیں اس ملک میں مافیاز کی حکومت ہے اور یہ مافیاز ہر حکومت کو مفلوج کر کے رکھ دیتے ہیں۔
 
Last edited by a moderator:

Zainsha

Chief Minister (5k+ posts)
میں عمران خان کا ناقد ہوں‘ میں چھ سال سے ان پر تنقید کر رہا ہوں لیکن یہ رپورٹ پڑھ کر پہلی مرتبہ مجھے ان پر ترس آیا‘ یہ شخص واقعی ہر طرف سے مفاد پرستوں میں گھرا ہوا ہے‘ سرکاری افسر‘ وزیراعظم کے دوست اورحکمران پارٹی کے عہدیدار ملک کو لوٹ رہے ہیں اور یہ ملک اور اپنے آپ کو ان سے بچانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن سوال یہ ہے یہ کس کس سے بچے گا؟ اس ملک میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے
 

hello

Chief Minister (5k+ posts)
جیدا پر یقین کرنا بڑا مشکل ہے یہ بہت بڑا چکڑ باز بلکہ چونا باز ہے کہتے ہیں یہ روزانہ دو تین قسم کے کالم لکھتا ہے اور تینوں مختلف لوگوں کو سینڈ کرتا ہے جو اس کا ریٹ زیادہ لگاتا وہ یہ شائع کروا دیتا ہے مجھے اس میں بھی اس کی کوئی مکاری نظر اتی ہے یہ اپنے پرگراموں میں بھی بڑی مکاری کے ساتھ جمہوریت کی گاڑی لے کر نلکتا ہے اور اس کی گاڑی روکتی ہے بد ترین کرپٹ سیاسدانوں کے گھر کے سامنے لہذا ہوشیار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہوشیار یہ کوئی چال چلنے کی کوشش نہ کر رہا ہو ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق نہ کسی نے پیسہ کھایا نہ کوئی تحقیقات مکمل ہوئیں جس میں کسی کو مجرم ٹھرا دیا ہو
 

Zainsha

Chief Minister (5k+ posts)
جیدا پر یقین کرنا بڑا مشکل ہے یہ بہت بڑا چکڑ باز بلکہ چونا باز ہے کہتے ہیں یہ روزانہ دو تین قسم کے کالم لکھتا ہے اور تینوں مختلف لوگوں کو سینڈ کرتا ہے جو اس کا ریٹ زیادہ لگاتا وہ یہ شائع کروا دیتا ہے مجھے اس میں بھی اس کی کوئی مکاری نظر اتی ہے یہ اپنے پرگراموں میں بھی بڑی مکاری کے ساتھ جمہوریت کی گاڑی لے کر نلکتا ہے اور اس کی گاڑی روکتی ہے بد ترین کرپٹ سیاسدانوں کے گھر کے سامنے لہذا ہوشیار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہوشیار یہ کوئی چال چلنے کی کوشش نہ کر رہا ہو ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق نہ کسی نے پیسہ کھایا نہ کوئی تحقیقات مکمل ہوئیں جس میں کسی کو مجرم ٹھرا دیا ہو

Yaar.. Jedday changgar se mujhay bhi shadeed nafrat hai.. yeh haraami lecture sab ko Imam Hussain AS kay deta hai.. aur corruption kings ki tatta geeri karta hai.. agar shahbaz shareef na hota tou aaj iss ka kisi akhbar kay daftar kay bahar choloon ka thela hota..

lekin Pakistan main jis tarah cheezain chalti hain unn main yeh hona na-mumkin naheen.. I am sure iss case main itna kuch naheen ho ga..

ab iss term "Imran Khan ka Panama Scandal" ko har harami siasat daan use karay ga.. specially woh heejra...
 

Eigle

Senator (1k+ posts)

رنگ روڈ۔۔دوسرا پاناما اسکینڈل

رنگ روڈ۔۔دوسرا پاناما اسکینڈل

شیئرٹویٹ
جاوید چوہدری منگل 18 مئ 2021

شیئرٹویٹشیئرای میلتبصرے
مزید شیئر
مزید اردو خبریں
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry
راولپنڈی رنگ روڈ کی کہانی وزیراعظم عمران خان کے دفتر سے شروع ہوئی‘ وزیراعظم کو کسی دوست نے بتایا آپ کے خلاف بھی پاناما اسکینڈل بن چکا ہے۔
آج آپ کی حکومت ختم ہو جاتی ہے تو آپ کے لیے راولپنڈی رنگ روڈ کافی ہو گی‘ آپ باقی زندگی فائلیں اٹھا کر ایک عدالت سے دوسری عدالت دھکے کھاتے رہیں گے‘ وزیراعظم کے لیے یہ انکشاف پریشان کن تھا‘ وزیراعظم کو دوست نے چند اکاؤنٹ نمبرز‘ چند فون نمبرز‘ چار اعلیٰ سرکاری افسروں کے عہدے اور 10 ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے نام دیے اور وزیراعظم کو کمشنر راولپنڈی کیپٹن(ر) محمد محمود سے چند سوال پوچھنے کا مشورہ دیا۔
وزیراعظم نے خفیہ تحقیقات کرائیں‘ الزام سچ نکلا‘ وزیراعظم نے کمشنر راولپنڈی کیپٹن محمود کو بلایا اور ان سے صرف ایک سوال پوچھا ’’آپ کو راولپنڈی رنگ روڈ کا روٹ بدلنے اور اٹک لوپ کو اس میں شامل کرنے کا مشورہ کس نے دیا تھا‘‘ کیپٹن محمود نے فوراً جواب دیا ’’مجھے کسی نے نہیں کہا تھا‘‘ وزیراعظم نے دوبارہ پوچھا ’’کیا آپ کو کسی وفاقی وزیر یا اسپیشل ایڈوائزر ٹو پی ایم نے سفارش نہیں کی؟‘‘ کمشنر نے صاف انکار کر دیا۔

یہ انکار وزیراعظم کو برا لگا‘ کیوں؟ کیوں کہ وزیراعظم کے پاس سارا ریکارڈ موجود تھا‘ یہ جانتے تھے وفاقی وزیر غلام سرور خان اور وزیراعظم کے معاون خصوصی ذلفی بخاری کمشنر راولپنڈی پر اثرانداز ہوئے تھے اور اس اثرورسوخ کی وجہ سے 10 ہاؤسنگ سوسائٹیوں نے چند ماہ میں اربوں روپے کمائے تھے۔
کمشنر کے انکار نے وزیراعظم کے خدشات کو مضبوط بنا دیا اور انھوں نے راولپنڈی کی ساری انتظامیہ کمشنرکیپٹن ریٹائرڈ محمد محمود‘ ڈپٹی کمشنر راولپنڈی محمد انوار الحق‘ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیوکیپٹن (ر) شعیب علی اور اسسٹنٹ کمشنر صدر غلام عباس کو عہدوں سے ہٹا دیا اور چیئرمین چیف منسٹر انسپکشن ٹیم گلزارحسین شاہ کو کمشنر راولپنڈی لگایا اور انھیں راولپنڈی رنگ روڈ کی انکوائری کا حکم دے دیا‘ کمشنر گلزارحسین شاہ نے کام شروع کیا اور 11مئی کو انکوائری رپورٹ آ گئی۔
بیوروکریسی میں گلزار حسین شاہ کی شہرت اچھی نہیں‘ یہ ڈسکہ میں این اے 75کے الیکشن کے دوران کمشنر گوجرانوالہ تھے اور ان پر الیکشن میں اثرانداز ہونے کا الزام لگا تھا مگر اس کے باوجود گلزار حسین کی انکوائری رپورٹ نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا‘ میں نے اپنے 28 سال کے صحافتی کیریئر میں کسی سرکاری افسر کی تیار کردہ اتنی تگڑی اور جامع رپورٹ نہیں دیکھی‘ اس رپورٹ نے ثابت کر دیا اگر سرکاری افسر کام کرنا چاہے تو یہ ایک ہفتے میں تمام تحقیقاتی اداروں اور جے آئی ٹیز کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔
یہ رپورٹ ہمارے پورے سسٹم کا نوحہ بھی ہے اور یہ ثابت کرتی ہے سیاست دان‘ بیوروکریٹس اور طاقتور اداروں کے ریٹائرڈ افسر کس طرح مل کر پورے نظام کو توڑ مروڑکر ایک ایک رات میں عوام کی جیب سے کھربوں روپے نکال لیتے ہیں‘ میں عمران خان کا ناقد ہوں‘ میں چھ سال سے ان پر تنقید کر رہا ہوں لیکن یہ رپورٹ پڑھ کر پہلی مرتبہ مجھے ان پر ترس آیا‘ یہ شخص واقعی ہر طرف سے مفاد پرستوں میں گھرا ہوا ہے‘ سرکاری افسر‘ وزیراعظم کے دوست اورحکمران پارٹی کے عہدیدار ملک کو لوٹ رہے ہیں اور یہ ملک اور اپنے آپ کو ان سے بچانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن سوال یہ ہے یہ کس کس سے بچے گا؟ اس ملک میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔
کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ میں انکشاف ہوا پنجاب حکومت نے 2017 میں راولپنڈی پر ٹریفک کا دباؤ کم کرنے کے لیے 40کلومیٹر کی رنگ روڈ بنانے کا فیصلہ کیا‘ پلان بھی بن گیا اور بینک آف چائنہ سے 400 ملین ڈالر لون بھی منظور ہو گیا لیکن منصوبہ شروع ہونے سے پہلے میاں شہباز شریف کی حکومت ختم ہو گئی اوریہ منصوبہ بھی دوسرے بے شمار منصوبوں کی طرح ٹھپ ہو گیا لیکن پھر یہ اچانک نہ صرف ایکٹو ہو گیا بلکہ اس میں 26کلومیٹر کا اضافہ بھی ہو گیا‘ اس میں اٹک لوپ بھی شامل ہو گئی۔
اسلام آباد کے دو سیکٹر بھی اس میں ڈال دیے گئے اور حکومت کو یہ تاثر بھی دیا جانے لگا ہمیں غیرملکی قرضوں کی ضرورت نہیں‘ ہمارے پاس ایسی کمپنیاں موجود ہیں جو اپنی جیب سے 66کلو میٹر لمبی سڑک بنائیں گی اور ٹول ٹیکس شیئرنگ کے ذریعے اپنی سرمایہ کاری واپس لے لیں گی‘ یہ منصوبہ بظاہر شان دار لگتا تھا لیکن اس کامقصد رنگ روڈ بنانا نہیں تھا‘ اس کے ذریعے 10 ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے مالکان نے لوگوں سے کھربوں روپے جمع کرنا تھے‘ کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ کے مطابق نوا سٹی کے نام سے راتوں رات ایک ہاؤسنگ سوسائٹی رجسٹرڈ ہوئی۔
سوسائٹی کے پاس 970 کنال زمین تھی لیکن سوسائٹی کے مالک جنید چوہدری نے 20 ہزار فائلیں بنائیں اور مارکیٹ میں ایک ماہ میں یہ ساری فائلیں بیچ دیں‘ کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ کے بعد مزید تحقیقات ہوئیں تو پتا چلا فائلیں صرف 20 ہزار نہیں تھیں ان کی تعداد 30 ہزار ہے اور اس میں ہوا بازی کے وفاقی وزیر غلام سرور خان کے صاحب زادے منصور خان پارٹنر ہیں‘ کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ نے سول ایوی ایشن کی طرف سے نوا سٹی کے فوری این او سی پر بھی سوال اٹھایا‘ یہ این او سی حیران کن اسپیڈ سے جاری ہوا تھا‘ جنید چوہدری نے یہ فائلیں رئیل اسٹیٹ مارکیٹنگ کمپنیوں کو بلک میں دیں‘ پراپرٹی ڈیلروں نے سوشل میڈیا پر اشتہارات دیے اور ایک ماہ میں 20 ہزار فائلیں بیچ دیں۔
تحقیقاتی اداروں نے تحقیقات کیں تو پتا چلا صرف ایک ایجنٹ نے ایک ماہ میں 34 کروڑ روپے کمائے‘ آپ باقی کا اندازہ خود لگا لیجیے‘ یہ بھی پتا چلا نیو ائیرپورٹ سوسائٹی کے مالک راجہ سجاد حسین نے بھی رنگ روڈ کے نام پر اندھا دھند سرمایہ کمایا‘ اس کی کمپنی کا نام الآصف ڈویلپر ہے جب کہ لائف اسٹائل کے نام سے جنوری 2020 میں جنید چوہدری نے ایک دوسری کمپنی بھی بنائی اور اس کمپنی نے کمشنر آفس کی معلومات پر تھوڑی سی زمینیں خریدیں اور ہاؤسنگ اسکیموں نے اس زمین کی بنیاد پر دھڑا دھڑ فائلیں بیچنا شروع کر دیں۔
حبیب رفیق گروپ نے رنگ روڈ میں مورت انٹرچینج ڈال کر اسمارٹ سٹی کو بوسٹ دیا اور اپنی سیل میں اضافہ کر لیا‘ کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ٹاپ سٹی ہاؤسنگ اسکیم میں کمشنر کیپٹن محمود بے نامی حصے دار ہیں‘ رنگ روڈ سے اس کو بھی بوسٹ ملا اور اس کے مالکان بھی اربوں روپے کھا گئے‘ بلیو ورلڈ سوسائٹی نے بھی بوسٹ لی اور اسلام آباد کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی (ICHS) بھی پیچھے نہ رہی‘ رپورٹ میں میجر جنرل ریٹائرڈ سلیم اسحاق‘ کرنل ریٹائرڈ عاصم ابراہیم پراچہ اور کرنل ریٹائرڈ مسعود کا نام بھی شامل ہے‘ اتحاد ہاؤسنگ سوسائٹی‘ میاں شہباز شریف کے سابق پرنسپل سیکریٹری توقیر شاہ اور وزیراعظم کے معاون خصوصی ذلفی بخاری کے رشتے داروں کی زمینوں کا ذکر بھی ہے۔
یہ لوگ پسوال زگ زیگ کے بینی فشریز ہیں‘ یہ انکشاف بھی کیا گیا کمشنر کیپٹن(ر) محمد محمود نے گریڈ 17 کے افسر وسیم علی تابش کو غیرقانونی طور پر اٹک میں پوسٹ کیا‘ اسے رنگ روڈ کے لیے زمینیں خریدنے کی ذمے داری سونپ دی اور اس نے پانچ ارب روپے کی لینڈ ایکوزیشن کر دی۔
رپورٹ میں قرطبہ سٹی اور کمشنر کیپٹن محمود کے دو بھائیوں کا ذکر بھی ہے‘ یہ ہاؤسنگ سوسائٹیز میں پارٹنر بھی تھے اور بے نامی دار بھی‘ وسیم علی تابش بھی ٹاپ سٹی کے مالک کے دوست اور رشتے دار ہیں‘ کیپیٹل اسمارٹ سٹی رنگ روڈ میں تبدیلی کا سب سے بڑا ’’بینی فشری‘‘ تھا‘ کمشنر نے رپورٹ کے آخر میں درخواست کی نیب اور ایف آئی اے کے ذریعے نوا سٹی‘ نیو ائیرپورٹ سوسائٹی‘ بلیو ورلڈ سٹی‘ اتحاد سٹی‘ میاں رشیدہ گاؤں میں موجود 300 بے نامی زمینوں‘ گاؤں تھالیاں میں 200 کنال بے نامی زمین‘ جاندو اور چھوکر گاؤں میں ملٹی پروفیشنل ہاؤسنگ اسکیم کی زمین‘ گاؤں راما میں لائف ریزیڈینشیا‘ اڈیالہ روڈ پر موجود روڈن انکلیو‘ ایس اے ایس ڈویلپرز‘ کیپیٹل اسمارٹ سٹی اور ٹاپ سٹی کے خلاف تحقیقات کی جائیں جب کہ کمشنر راولپنڈی کیپٹن(ر) محمد محمود سمیت اسکینڈل میں ملوث تمام سرکاری افسروں کو نوکری سے فارغ کیا جائے اور ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جائے۔
مجھے کل دوپہر پتا چلا ملزمان کے خلاف خفیہ تحقیقات شروع ہو چکی ہیں‘ نوا سٹی کے مالک جنید چوہدری کے دو وفاقی وزراء اور وزیراعظم کے اسپیشل اسسٹنٹ سے روابط بھی نکل آئے ہیں‘ تحائف کی تفصیلات کا علم بھی ہو چکا ہے‘ نوا سٹی کے ایجنٹوں کے اکاؤنٹس‘ فون ڈیٹا‘ جائیدادوں اور بے نامی پراپرٹیز کی فہرستیں بھی بن رہی ہیں‘ کیپیٹل اسمارٹ سٹی‘ نیو ائیرپورٹ سوسائٹی‘ بلیو ورلڈ‘ اتحاد سٹی اور روڈن کے خلاف بھی ثبوت جمع ہو رہے ہیں اور وزیراعظم نے تمام ملزموں کو گرفتار کرنے اور عوام کی رقم واپس دلوانے کا حکم بھی دے دیا ہے‘ وزیراعظم اور ذلفی بخاری کے تعلقات میں بھی دراڑ آ چکی ہے‘ وزیراعظم ان سے یہ توقع نہیں رکھتے تھے‘ ان کی وزارت کے اندر بھی چند فائلیں کھل رہی ہیں اور وہ انکشافات بھی حیران کن ہوں گے۔
یہ ملک کس طرح چل رہا ہے؟ آپ صرف گلزار حسین کی رپورٹ پڑھ لیں‘ آپ کو مزید کچھ پڑھنے کی ضرورت نہیں رہے گی‘ آپ ظلم دیکھیے‘ ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالکان سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کے ساتھ مل کر کس طرح فضا بناتے ہیں‘ پورے پورے شہر کاغذوں میں بناتے اور پلاٹوں کی فائلیں بنا کر مہینے میں اربوں روپے جمع کر لیتے ہیں اور عوام سستے پلاٹوں اور گھروں کے لالچ میں اپنی عمر بھر کی کمائی سے محروم ہو جاتے ہیں‘ یہ کیسے لوگ ہیں؟ کیا ان کے دل رحم سے بالکل خالی ہو چکے ہیں؟ عمران خان سچ کہتے ہیں اس ملک میں مافیاز کی حکومت ہے اور یہ مافیاز ہر حکومت کو مفلوج کر کے رکھ دیتے ہیں۔
You have criticized Imran for 6 years for nothing. But you don't have courage to appreciate his fearless, self-sacrificing leadership and tireless working habit. Jadaa tu bara zalim haa.
 

Wake up Pak

Prime Minister (20k+ posts)


www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

راولپنڈی رنگ روڈ کی کہانی وزیراعظم عمران خان کے دفتر سے شروع ہوئی‘ وزیراعظم کو کسی دوست نے بتایا آپ کے خلاف بھی پاناما اسکینڈل بن چکا ہے۔
آج آپ کی حکومت ختم ہو جاتی ہے تو آپ کے لیے راولپنڈی رنگ روڈ کافی ہو گی‘ آپ باقی زندگی فائلیں اٹھا کر ایک عدالت سے دوسری عدالت دھکے کھاتے رہیں گے‘ وزیراعظم کے لیے یہ انکشاف پریشان کن تھا‘ وزیراعظم کو دوست نے چند اکاؤنٹ نمبرز‘ چند فون نمبرز‘ چار اعلیٰ سرکاری افسروں کے عہدے اور 10 ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے نام دیے اور وزیراعظم کو کمشنر راولپنڈی کیپٹن(ر) محمد محمود سے چند سوال پوچھنے کا مشورہ دیا۔
وزیراعظم نے خفیہ تحقیقات کرائیں‘ الزام سچ نکلا‘ وزیراعظم نے کمشنر راولپنڈی کیپٹن محمود کو بلایا اور ان سے صرف ایک سوال پوچھا ’’آپ کو راولپنڈی رنگ روڈ کا روٹ بدلنے اور اٹک لوپ کو اس میں شامل کرنے کا مشورہ کس نے دیا تھا‘‘ کیپٹن محمود نے فوراً جواب دیا ’’مجھے کسی نے نہیں کہا تھا‘‘ وزیراعظم نے دوبارہ پوچھا ’’کیا آپ کو کسی وفاقی وزیر یا اسپیشل ایڈوائزر ٹو پی ایم نے سفارش نہیں کی؟‘‘ کمشنر نے صاف انکار کر دیا۔


یہ انکار وزیراعظم کو برا لگا‘ کیوں؟ کیوں کہ وزیراعظم کے پاس سارا ریکارڈ موجود تھا‘ یہ جانتے تھے وفاقی وزیر غلام سرور خان اور وزیراعظم کے معاون خصوصی ذلفی بخاری کمشنر راولپنڈی پر اثرانداز ہوئے تھے اور اس اثرورسوخ کی وجہ سے 10 ہاؤسنگ سوسائٹیوں نے چند ماہ میں اربوں روپے کمائے تھے۔
کمشنر کے انکار نے وزیراعظم کے خدشات کو مضبوط بنا دیا اور انھوں نے راولپنڈی کی ساری انتظامیہ کمشنرکیپٹن ریٹائرڈ محمد محمود‘ ڈپٹی کمشنر راولپنڈی محمد انوار الحق‘ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیوکیپٹن (ر) شعیب علی اور اسسٹنٹ کمشنر صدر غلام عباس کو عہدوں سے ہٹا دیا اور چیئرمین چیف منسٹر انسپکشن ٹیم گلزارحسین شاہ کو کمشنر راولپنڈی لگایا اور انھیں راولپنڈی رنگ روڈ کی انکوائری کا حکم دے دیا‘ کمشنر گلزارحسین شاہ نے کام شروع کیا اور 11مئی کو انکوائری رپورٹ آ گئی۔
بیوروکریسی میں گلزار حسین شاہ کی شہرت اچھی نہیں‘ یہ ڈسکہ میں این اے 75کے الیکشن کے دوران کمشنر گوجرانوالہ تھے اور ان پر الیکشن میں اثرانداز ہونے کا الزام لگا تھا مگر اس کے باوجود گلزار حسین کی انکوائری رپورٹ نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا‘ میں نے اپنے 28 سال کے صحافتی کیریئر میں کسی سرکاری افسر کی تیار کردہ اتنی تگڑی اور جامع رپورٹ نہیں دیکھی‘ اس رپورٹ نے ثابت کر دیا اگر سرکاری افسر کام کرنا چاہے تو یہ ایک ہفتے میں تمام تحقیقاتی اداروں اور جے آئی ٹیز کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔
یہ رپورٹ ہمارے پورے سسٹم کا نوحہ بھی ہے اور یہ ثابت کرتی ہے سیاست دان‘ بیوروکریٹس اور طاقتور اداروں کے ریٹائرڈ افسر کس طرح مل کر پورے نظام کو توڑ مروڑکر ایک ایک رات میں عوام کی جیب سے کھربوں روپے نکال لیتے ہیں‘ میں عمران خان کا ناقد ہوں‘ میں چھ سال سے ان پر تنقید کر رہا ہوں لیکن یہ رپورٹ پڑھ کر پہلی مرتبہ مجھے ان پر ترس آیا‘ یہ شخص واقعی ہر طرف سے مفاد پرستوں میں گھرا ہوا ہے‘ سرکاری افسر‘ وزیراعظم کے دوست اورحکمران پارٹی کے عہدیدار ملک کو لوٹ رہے ہیں اور یہ ملک اور اپنے آپ کو ان سے بچانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن سوال یہ ہے یہ کس کس سے بچے گا؟ اس ملک میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔
کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ میں انکشاف ہوا پنجاب حکومت نے 2017 میں راولپنڈی پر ٹریفک کا دباؤ کم کرنے کے لیے 40کلومیٹر کی رنگ روڈ بنانے کا فیصلہ کیا‘ پلان بھی بن گیا اور بینک آف چائنہ سے 400 ملین ڈالر لون بھی منظور ہو گیا لیکن منصوبہ شروع ہونے سے پہلے میاں شہباز شریف کی حکومت ختم ہو گئی اوریہ منصوبہ بھی دوسرے بے شمار منصوبوں کی طرح ٹھپ ہو گیا لیکن پھر یہ اچانک نہ صرف ایکٹو ہو گیا بلکہ اس میں 26کلومیٹر کا اضافہ بھی ہو گیا‘ اس میں اٹک لوپ بھی شامل ہو گئی۔
اسلام آباد کے دو سیکٹر بھی اس میں ڈال دیے گئے اور حکومت کو یہ تاثر بھی دیا جانے لگا ہمیں غیرملکی قرضوں کی ضرورت نہیں‘ ہمارے پاس ایسی کمپنیاں موجود ہیں جو اپنی جیب سے 66کلو میٹر لمبی سڑک بنائیں گی اور ٹول ٹیکس شیئرنگ کے ذریعے اپنی سرمایہ کاری واپس لے لیں گی‘ یہ منصوبہ بظاہر شان دار لگتا تھا لیکن اس کامقصد رنگ روڈ بنانا نہیں تھا‘ اس کے ذریعے 10 ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے مالکان نے لوگوں سے کھربوں روپے جمع کرنا تھے‘ کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ کے مطابق نوا سٹی کے نام سے راتوں رات ایک ہاؤسنگ سوسائٹی رجسٹرڈ ہوئی۔
سوسائٹی کے پاس 970 کنال زمین تھی لیکن سوسائٹی کے مالک جنید چوہدری نے 20 ہزار فائلیں بنائیں اور مارکیٹ میں ایک ماہ میں یہ ساری فائلیں بیچ دیں‘ کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ کے بعد مزید تحقیقات ہوئیں تو پتا چلا فائلیں صرف 20 ہزار نہیں تھیں ان کی تعداد 30 ہزار ہے اور اس میں ہوا بازی کے وفاقی وزیر غلام سرور خان کے صاحب زادے منصور خان پارٹنر ہیں‘ کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ نے سول ایوی ایشن کی طرف سے نوا سٹی کے فوری این او سی پر بھی سوال اٹھایا‘ یہ این او سی حیران کن اسپیڈ سے جاری ہوا تھا‘ جنید چوہدری نے یہ فائلیں رئیل اسٹیٹ مارکیٹنگ کمپنیوں کو بلک میں دیں‘ پراپرٹی ڈیلروں نے سوشل میڈیا پر اشتہارات دیے اور ایک ماہ میں 20 ہزار فائلیں بیچ دیں۔
تحقیقاتی اداروں نے تحقیقات کیں تو پتا چلا صرف ایک ایجنٹ نے ایک ماہ میں 34 کروڑ روپے کمائے‘ آپ باقی کا اندازہ خود لگا لیجیے‘ یہ بھی پتا چلا نیو ائیرپورٹ سوسائٹی کے مالک راجہ سجاد حسین نے بھی رنگ روڈ کے نام پر اندھا دھند سرمایہ کمایا‘ اس کی کمپنی کا نام الآصف ڈویلپر ہے جب کہ لائف اسٹائل کے نام سے جنوری 2020 میں جنید چوہدری نے ایک دوسری کمپنی بھی بنائی اور اس کمپنی نے کمشنر آفس کی معلومات پر تھوڑی سی زمینیں خریدیں اور ہاؤسنگ اسکیموں نے اس زمین کی بنیاد پر دھڑا دھڑ فائلیں بیچنا شروع کر دیں۔
حبیب رفیق گروپ نے رنگ روڈ میں مورت انٹرچینج ڈال کر اسمارٹ سٹی کو بوسٹ دیا اور اپنی سیل میں اضافہ کر لیا‘ کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ٹاپ سٹی ہاؤسنگ اسکیم میں کمشنر کیپٹن محمود بے نامی حصے دار ہیں‘ رنگ روڈ سے اس کو بھی بوسٹ ملا اور اس کے مالکان بھی اربوں روپے کھا گئے‘ بلیو ورلڈ سوسائٹی نے بھی بوسٹ لی اور اسلام آباد کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی (ICHS) بھی پیچھے نہ رہی‘ رپورٹ میں میجر جنرل ریٹائرڈ سلیم اسحاق‘ کرنل ریٹائرڈ عاصم ابراہیم پراچہ اور کرنل ریٹائرڈ مسعود کا نام بھی شامل ہے‘ اتحاد ہاؤسنگ سوسائٹی‘ میاں شہباز شریف کے سابق پرنسپل سیکریٹری توقیر شاہ اور وزیراعظم کے معاون خصوصی ذلفی بخاری کے رشتے داروں کی زمینوں کا ذکر بھی ہے۔
یہ لوگ پسوال زگ زیگ کے بینی فشریز ہیں‘ یہ انکشاف بھی کیا گیا کمشنر کیپٹن(ر) محمد محمود نے گریڈ 17 کے افسر وسیم علی تابش کو غیرقانونی طور پر اٹک میں پوسٹ کیا‘ اسے رنگ روڈ کے لیے زمینیں خریدنے کی ذمے داری سونپ دی اور اس نے پانچ ارب روپے کی لینڈ ایکوزیشن کر دی۔
رپورٹ میں قرطبہ سٹی اور کمشنر کیپٹن محمود کے دو بھائیوں کا ذکر بھی ہے‘ یہ ہاؤسنگ سوسائٹیز میں پارٹنر بھی تھے اور بے نامی دار بھی‘ وسیم علی تابش بھی ٹاپ سٹی کے مالک کے دوست اور رشتے دار ہیں‘ کیپیٹل اسمارٹ سٹی رنگ روڈ میں تبدیلی کا سب سے بڑا ’’بینی فشری‘‘ تھا‘ کمشنر نے رپورٹ کے آخر میں درخواست کی نیب اور ایف آئی اے کے ذریعے نوا سٹی‘ نیو ائیرپورٹ سوسائٹی‘ بلیو ورلڈ سٹی‘ اتحاد سٹی‘ میاں رشیدہ گاؤں میں موجود 300 بے نامی زمینوں‘ گاؤں تھالیاں میں 200 کنال بے نامی زمین‘ جاندو اور چھوکر گاؤں میں ملٹی پروفیشنل ہاؤسنگ اسکیم کی زمین‘ گاؤں راما میں لائف ریزیڈینشیا‘ اڈیالہ روڈ پر موجود روڈن انکلیو‘ ایس اے ایس ڈویلپرز‘ کیپیٹل اسمارٹ سٹی اور ٹاپ سٹی کے خلاف تحقیقات کی جائیں جب کہ کمشنر راولپنڈی کیپٹن(ر) محمد محمود سمیت اسکینڈل میں ملوث تمام سرکاری افسروں کو نوکری سے فارغ کیا جائے اور ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جائے۔

مجھے کل دوپہر پتا چلا ملزمان کے خلاف خفیہ تحقیقات شروع ہو چکی ہیں‘ نوا سٹی کے مالک جنید چوہدری کے دو وفاقی وزراء اور وزیراعظم کے اسپیشل اسسٹنٹ سے روابط بھی نکل آئے ہیں‘ تحائف کی تفصیلات کا علم بھی ہو چکا ہے‘ نوا سٹی کے ایجنٹوں کے اکاؤنٹس‘ فون ڈیٹا‘ جائیدادوں اور بے نامی پراپرٹیز کی فہرستیں بھی بن رہی ہیں‘ کیپیٹل اسمارٹ سٹی‘ نیو ائیرپورٹ سوسائٹی‘ بلیو ورلڈ‘ اتحاد سٹی اور روڈن کے خلاف بھی ثبوت جمع ہو رہے ہیں اور وزیراعظم نے تمام ملزموں کو گرفتار کرنے اور عوام کی رقم واپس دلوانے کا حکم بھی دے دیا ہے‘ وزیراعظم اور ذلفی بخاری کے تعلقات میں بھی دراڑ آ چکی ہے‘ وزیراعظم ان سے یہ توقع نہیں رکھتے تھے‘ ان کی وزارت کے اندر بھی چند فائلیں کھل رہی ہیں اور وہ انکشافات بھی حیران کن ہوں گے۔

یہ ملک کس طرح چل رہا ہے؟ آپ صرف گلزار حسین کی رپورٹ پڑھ لیں‘ آپ کو مزید کچھ پڑھنے کی ضرورت نہیں رہے گی‘ آپ ظلم دیکھیے‘ ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالکان سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کے ساتھ مل کر کس طرح فضا بناتے ہیں‘ پورے پورے شہر کاغذوں میں بناتے اور پلاٹوں کی فائلیں بنا کر مہینے میں اربوں روپے جمع کر لیتے ہیں اور عوام سستے پلاٹوں اور گھروں کے لالچ میں اپنی عمر بھر کی کمائی سے محروم ہو جاتے ہیں‘ یہ کیسے لوگ ہیں؟ کیا ان کے دل رحم سے بالکل خالی ہو چکے ہیں؟ عمران خان سچ کہتے ہیں اس ملک میں مافیاز کی حکومت ہے اور یہ مافیاز ہر حکومت کو مفلوج کر کے رکھ دیتے ہیں۔
Who reads his pathetic biased writings. This guy is known for plagiarism and copying the material.