ریٹائرڈسول وفوجی افسران بیرون ملک ڈالرزمیں پنشن کیوں وصول کررہےہیں:رضاربانی

1700887192301.png


شاہ خرچیوں پر قابو نہ پایا گیا تو صوبوں سے مطالبہ کریں گے کہ ٹیکس اکٹھا کر کے وفاق کو دیں: سینئر رہنما پیپلزپارٹی چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کی صدارت میں آج ہونے والے سینٹ اجلاس میں نگران وفاقی وزیر خزانہ شمشاد اختر کی طرف سے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ملازموں کی تنخواہوں اور پنشن کے سٹرکچر کے حوالے سے تفصیلات پیش کی گئیں جس پر سینیٹرز کی طرف سے شدید تنقید کی گئی۔ سینئر سینیٹر ورہنما پیپلزپارٹی رضا ربانی نے کہا کہ 164 ریٹائرڈ سول وفوجی افسران ملک سے باہر بیٹھ کر ڈالرز میں پنشن لے رہے ہیں، اس کا کیا جواز بنتا ہے۔

نگران وزیر خزانہ نے سینٹ میں بتایا کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ملازمین کی کل تعداد 1 ہزار 178 ہےجن میں گریڈ اوجی 8 کے 16 ملازم ہیں جن کی زیادہ سے زیادہ تنخواہ 39 لاکھ 35 ہزار ماہانہ اور 11 لاکھ 96 ہزار روپے پنشن ہے۔ گریڈ اوجی 7 کے 31 ملازم ہیں جن کی تنخواہ 25 لاکھ روپے اور پنشن 9 لاکھ 74 ہزار تک ہے، گریڈ او جی 6 کے 60 ملازم ہیں جن کی تنخواہ 15 لاکھ اور پنشن 8 لاکھ ہے۔

گریڈ 4کے 266 ملازم ہیں جن کی زیادہ سے زیادہ تنخواہ 5 لاکھ 76 ہزار ماہانہ اور پنشن 6 لاکھ 38 ہزار تک ہے، گریڈ 3 کے 386 ملازمین کی تنخواہ 2 لاکھ 91 ہزار روپے تک اور پنشن 4 لاکھ 91 ہزار تک ہے۔ گریڈ 2 کے 286 ملازموں کی تنخوا 1 لاکھ 85 ہزار تک اور پنشن 4 لاکھ 29 ہزار روپے تک ہے۔ گریڈ اوجی ون کے 4 ملازم 1 لاکھ 11 ہزار تک تنخواہ اور پنشن 2 لالاکھ 283 ہزار روپے تک ہے۔

رضا ربانی نے مینجمنٹ پوزیشن کی تنخواہوں کے پیکیجز پر توجہ دلائو نوٹس پر کہا کہ ایک طرف آئی ایم ایف کے دبائو پر گیس و بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور دوسری طرف حکومتی شاہ خرچیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اشرافیوں کی مراعات میں بے حساب اضافہ کیا جا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے پارلیمنٹ نے پیسہ کھا لیا کیا ایسا ہی ہے یا سول بیوروکریسی پیسے کھا رہی ہے؟

انہوں نے کہا کہ 10 سال ہو گئے این ایف سی نہیں ہوا اور کہا جاتا ہے کہ این ایف سی، 18ویں ترمیم اور صوبے پیسے کھا گئے۔ وفاق نے شاہ خرچیوں اور بیوروکریسی کی تنخواہیں کنٹرول نہ کیں تو صوبوں سے مطالبہ کریں گے کہ ٹیکس اکٹھا کر کے وفاق کو دیں۔ اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہ اس وقت 1 لاکھ 60 ہزار روپے ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزارت خزانہ کی طرف سے ایم پی ون، ٹو اور تھری کی تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد ایم پی ون سکیل کی تنخواہ 8 لاکھ سے 10 لاکھ روپے اور مراعات، ایم پی ٹو کی تنخواہ 3 لاکھ 70 ہزار روپے سے 6 لاکھ روپے اور ایم پی تھری کی تنخواہ 24 لاکھ سے 33 لاکھ روپے تک پہنچ چکی ہے۔

نگران وزیر خزانہ نے کہا کہ ایم پی سکیل نجی شعبہ سے پیشہ ور افراد کو لانے کیلئے لائے گئے تاکہ سرکاری شعبہ کی مدد کریں۔ گزشتہ حکومتوں نے نظرثانی کی لیکن اس وقت فنانس اور توانائی میں ٹیکنیکل مسائل ہیں۔ ہم سے ڈھانچہ جدید بنانے کا مطالبہ کیا گیا اس لیے ایم پی سکیل متعارف کروائے گئے۔

سینیٹر پلوشہ خان نے پوچھا کہ ایک ایک ملازم 40 لاکھ روپے تنخواہ لے رہا ہے، وہ کون سا ایسا کام کر رہا ہے کہ اتنی زیادہ تنخواہیں ادا کی جا رہی ہیں؟ شمشاد اختر نے بتایا کہ دنیا بھر میں مرکزی بینک میں تنخواہوں کا سٹرکچر مختلف ہوتا ہے، بینک سیکٹر میں تنخاہوں میں اضافہ ہوا اس لیے ہمیں بھی ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرنا پڑا۔

نگران وزیر خزانہ نے سینٹ اجلاس میں اپنے تحریری جواب میں چیف جسٹس - وزیراعظم ڈیم فنڈ کی تفصیلات میں بتایا کہ اب تک 11 ارب 48 کروڑ روپے جمع ہوئے جس پر سرکاری منافع کی مد میں 6 ارب 29 کروڑ روپے موصول ہو چکے ہیں۔ ڈیم فنڈ میں اس وقت کل 17 ارب 86 کروڑ روپے جمع ہوئے ہیں، ڈیم فنڈ سے رقم نکالنے کا فیصلہ صرف عدلیہ کر سکتی ہے۔

یاد رہے کہ ڈیم فنڈ جولائی 2018ء میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے قائم کر کے عطیات کی درخواست کرتے ہوئے 10 لاکھ روپے عطیہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے ڈیمز کے لیے چندہ مہم میں سابق چیف جسٹس کی حمایت کرتے ہوئے پانی کی کمی پر قابو پانے کیلئے مشترکہ بنایا تھا۔ ڈیم فنڈ میں مارچ 2019ء تک 10 ارب جمع ہوئے جبکہ مبینہ طور پر منصوبے کی تشہیر پر 13 ارب روپے خرچ کیے گئے۔