زیادتی کی شکار لڑکی کو تفتیشی کی جانب سے بھی ہراساں کیے جانے کا انکشاف

1supremecourtrape.jpg

سپریم کورٹ میں زیادتی کیس کی سماعت ہوئی، عدالت نے زیادتی کے ملزم کی ضمانت پر رہائی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

تفصیلات کے مطابق درخواست گزار خاتون نے ملزم پر تھانہ صادق آباد میں زیادتی کا مقدمہ درج کروا رکھا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اگر لڑکی ہوٹل میں گئی تو اس کا مطلب ہے کہ زیادتی کر کے تصاویر بنا لی جائیں؟

عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ ملزم اور تفتیشی افسر نے مل کر تمام شواہد ضائع کر دیے، متاثرہ لڑکی کا اب تک میڈیکل ہو سکا نہ ہی بیان ریکارڈ کیا گیا۔ ہائی کورٹ کا حقائق کی موجودگی میں ملزم کو ضمانت دینا حیران کن ہے، تفتیش کے لیے کسی خاتون افسر کو ٹیم کا حصہ کیوں نہیں بنایا گیا؟

سی پی او راولپنڈی نے بھی تفتیشی افسر کی جانب سے شواہد ضائع کرنے کا اعتراف کرلیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ لڑکی کے مطابق تفتیشی افسر بھی رات کو بلا کر ہراساں کرتا رہا۔

سی پی او نے کہا کہ از سر نو تحقیقات میں لڑکی کے الزامات درست ثابت ہوئے، تفتیشی افسر شہزاد انور کی تنزلی کی جاچکی ہے اور اس کی سزا میں اضافے کی سفارش بھی کردی گئی ہے۔ از سر نو تحقیقات کے بعد چالان جمع کروا دیا ہے۔

دوران سماعت ملزم کے وکیل نے کہا کہ خاتون خود لڑکے کے ساتھ ہوٹل میں گئی جس پر جسٹس اعجاز نے کہا کہ ہوٹل میں جانے کا کیا مطلب ہے زیادتی کر کے تصاویر بنائی جائیں؟

ملزم کے وکیل نے مزید کہا کہ لڑکی کا ملتان میں نکاح ہو چکا ہے جس پر بینچ میں شامل جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا شادی شدہ ہونا زیادتی کا لائسنس دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو ملزم پولیس پر اثر انداز ہو سکتا ہے وہ متاثرہ لڑکی پر کیسے نہیں ہوگا۔

عدالت نے ملزم کی ضمانت پر رہائی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا، ضمانت منسوخ ہونے پر راولپنڈی پولیس نے ملزم فرحان کو گرفتار کر لیا۔