مسلسل بایس سال نرگس اپنی بے نوری پر روی - پر کوئی دیکھنے والا نہیں تھا سب سن کر ہی اندازہ لگا لیتے تھے کہ اس نے نہیں چلنا - نہ - بیکار ہے
پھر چمن میں دو دیدآور پیدا ہووے
ایک کا نام تھا شجاع پاشا اور دوسرے کا نام تھا ظہیر الاسلام بابر
انہوں نے کہا -- جی تسی چکھ کے تے ویکھو
پھر امپائر نے آخر چکھ ہی لیا - شروع میں کھٹا میٹھا سا لگا - دو تین چمچیں منہ بھر کر کھا لیں - جلدی ہی پکی لیس بن کر طالو سے چپک گیا - اب زبان سے زور لگا لگا کر اتارنے کی کوشش کر رہا ہے - لیکن لیس طالو سے پکی چپکی ہوئی ہے
جو بایس پہلے والے دیگ کی بڑ بڑ سن کر ہی اندازہ لگا لیتے تھے کہ "نہیں چلے گا" وہ زیادہ عقلمند تھے - کیوں کہ بڑ بڑ فطرت اور حقیقت سے بہت دور تھی - کونسیپٹ تھے لیکن ان کو عمل میں لانے والے انجینرنگ پروسیس نظر نہیں آتے تھے کہ آخر کیسے ہو گا ؟؟؟
جب چلانے کی کوشش کی تو ککڑیاں، مجاں، کٹے، اور انڈوں سے آگے کوئی "ذہنی صلاحیت" نہیں نکلی
اپنی نالائقی کو چھپانے کے لئے
١: بے رحم احتساب کا ڈرامہ لگایا اس نے - زیادہ دیر نہیں لگی - عدالتوں کو گالیاں دینا لگا
٢: عوام کو اس کے حق یعنی اٹا، چینی، ادویات وغیرہ دینے میں ناکامی ھوئی تو - مافیا مافیا کا راگ لگا دیا
٣: گورننس نہیں ہو سکی تو بیورو کریسی کو گالیاں دینے لگا
٤: ملک کو سفارتی تنہائی میں دھکیل دینے کو کور کرنے کے لئے - مولا جٹ والی بڑکیں مارنے لگا
اس کی اصلیت کھلنے میں کوئی دیر تو نہیں لگی - قدرت اتنی تیزی سے بھی پکڑتی ہے - انتہائی حیران کن بات ہے --- سارا کچھ ہے بیچارے کے منہ پر ایسے ان لگا جیسے ضرورت سے زیادہ کھچا ربڑ پھڑات سے اپنے ہی منہ پر آ کر لگتا ہے
مہنگائی بڑھتی ہے تو وزیراعظم کرپٹ
روپیہ کی قدر کم ہوتی ہے تو وزیراعظم کرپٹ
تیل کی قیمت بڑھتی ہے تو وزیراعظم کرپٹ
بجلی بڑھتی ہے تو وزیراعظم کرپٹ
ملک کا قرضہ بڑھتا ہے تو وزیراعظم کرپٹ
لبیک یا رسول الله سے اب لبیک یا فرانسیسی سفیر
اور - نہ جانے کیا کیا
پھر چمن میں دو دیدآور پیدا ہووے
ایک کا نام تھا شجاع پاشا اور دوسرے کا نام تھا ظہیر الاسلام بابر
انہوں نے کہا -- جی تسی چکھ کے تے ویکھو
پھر امپائر نے آخر چکھ ہی لیا - شروع میں کھٹا میٹھا سا لگا - دو تین چمچیں منہ بھر کر کھا لیں - جلدی ہی پکی لیس بن کر طالو سے چپک گیا - اب زبان سے زور لگا لگا کر اتارنے کی کوشش کر رہا ہے - لیکن لیس طالو سے پکی چپکی ہوئی ہے
جو بایس پہلے والے دیگ کی بڑ بڑ سن کر ہی اندازہ لگا لیتے تھے کہ "نہیں چلے گا" وہ زیادہ عقلمند تھے - کیوں کہ بڑ بڑ فطرت اور حقیقت سے بہت دور تھی - کونسیپٹ تھے لیکن ان کو عمل میں لانے والے انجینرنگ پروسیس نظر نہیں آتے تھے کہ آخر کیسے ہو گا ؟؟؟
جب چلانے کی کوشش کی تو ککڑیاں، مجاں، کٹے، اور انڈوں سے آگے کوئی "ذہنی صلاحیت" نہیں نکلی
اپنی نالائقی کو چھپانے کے لئے
١: بے رحم احتساب کا ڈرامہ لگایا اس نے - زیادہ دیر نہیں لگی - عدالتوں کو گالیاں دینا لگا
٢: عوام کو اس کے حق یعنی اٹا، چینی، ادویات وغیرہ دینے میں ناکامی ھوئی تو - مافیا مافیا کا راگ لگا دیا
٣: گورننس نہیں ہو سکی تو بیورو کریسی کو گالیاں دینے لگا
٤: ملک کو سفارتی تنہائی میں دھکیل دینے کو کور کرنے کے لئے - مولا جٹ والی بڑکیں مارنے لگا
اس کی اصلیت کھلنے میں کوئی دیر تو نہیں لگی - قدرت اتنی تیزی سے بھی پکڑتی ہے - انتہائی حیران کن بات ہے --- سارا کچھ ہے بیچارے کے منہ پر ایسے ان لگا جیسے ضرورت سے زیادہ کھچا ربڑ پھڑات سے اپنے ہی منہ پر آ کر لگتا ہے
مہنگائی بڑھتی ہے تو وزیراعظم کرپٹ
روپیہ کی قدر کم ہوتی ہے تو وزیراعظم کرپٹ
تیل کی قیمت بڑھتی ہے تو وزیراعظم کرپٹ
بجلی بڑھتی ہے تو وزیراعظم کرپٹ
ملک کا قرضہ بڑھتا ہے تو وزیراعظم کرپٹ
لبیک یا رسول الله سے اب لبیک یا فرانسیسی سفیر
اور - نہ جانے کیا کیا
قدرت نے زیادہ دیر نہیں لگائی