سپریم کورٹ نے والد کی جگہ بیٹی کو نوکری کے لیے اہل قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ خواتین کی شادی کا ان کی معاشی خودمختاری سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل، نے ایک سرکاری ملازم کے انتقال کے بعد ان کی بیٹی کو نوکری سے محروم کرنے کے کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے بیٹی کو نوکری کے لیے اہل قرار دیتے ہوئے درخواست گزار زاہدہ پروین کی درخواست منظور کر دی اور کیس کا تصفیہ کر دیا۔
سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ خواتین کی شادی کا ان کی معاشی خودمختاری سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر شادی کے بعد بیٹا اپنے والد کا جانشین بن سکتا ہے تو بیٹی کیوں نہیں بن سکتی؟
https://twitter.com/x/status/1901701028405219375
ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے عدالت کو بتایا کہ سابق چیف جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلے کے مطابق، سرکاری ملازم کے بچوں کو ترجیحی بنیادوں پر نوکریاں نہیں دی جا سکتیں۔ تاہم، جسٹس منصور علی شاہ نے واضح کیا کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ 2024 کا ہے، جب کہ موجودہ کیس اس سے پہلے کا ہے، لہٰذا اس فیصلے کا اطلاق ماضی کے معاملات پر نہیں ہوگا۔ انہوں نے سوال کیا کہ خاتون کو نوکری سے کیوں محروم کیا گیا؟
ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا نے کہا کہ درخواست گزار خاتون کی شادی ہو چکی ہے، اس لیے وہ والد کی جگہ نوکری کی اہل نہیں ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اس دلیل کو مسترد کرتے ہوئے پوچھا کہ کس قانون میں لکھا ہے کہ شادی شدہ بیٹی اپنے والد کی جگہ نوکری کی اہل نہیں ہو سکتی؟ انہوں نے کہا کہ خواتین کی معاشی خودمختاری اور اس معاملے سے متعلق تفصیلی فیصلہ بعد میں دیا جائے گا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ خواتین کی شادی ان کی معاشی خودمختاری کے راستے میں رکاوٹ نہیں بننی چاہیے اور بیٹیوں کو بھی بیٹوں کی طرح والد کی جگہ نوکری کے لیے اہل سمجھا جانا چاہیے۔