شب برات اور حلوہ

Status
Not open for further replies.

Zia Hydari

Chief Minister (5k+ posts)
مکمل وضوء کا مسنون طریقہ نماز دین اسلام کا ایک اہم رکن ہے جس کے بغیر بندہ مؤمن نہیں بن سکتا۔ اور نبی کریمﷺ نے وضو کو نماز کی چابی قرار دیا ہے۔ [سنن أبي داؤد، کتاب الطہارۃ، باب فرض الوضوء، (61)] یعنی وضو کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور جس چابی کے دندانے ہی خراب ہوں، وہ چابی بھی کسی کام کی نہیں ہوتی، لہٰذا نماز کےلیے وضو بھی کیا جائے تو عین اس طریقہ کے مطابق، جس طریقہ سے وضو کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے۔ اگر وضو سنت نبوی کے مطابق ہوگا تو وہ وضو نماز کی ادائیگی کےلیے مؤثر ہوگا، وگرنہ ناقص وضو کی صورت میں اقامتِ صلاۃ ناممکن ہے۔ لہٰذا وضو کرنے میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے کہ وضو مکمل، صحیح اور سنت مطہرہ کے مطابق ہو۔ طریقہ وضو: نیت کرنا: رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ’’یقیناً اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہے۔‘‘ [صحیح البخاري، کتاب بدء الوحی، باب بدء الوحی، (1)] بسم اللہ سے آغاز کرنا: نبی کریمﷺ کا فرمان ہے: لَا وُضُوءَ لِمَنْ لَمْ يَذْكُرْ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ ’’جس شخص نے وضو اللہ کا نام لیے بغیر کرلیا، تو اس کا وضو نہیں ہے۔‘‘ [سنن الترمذي، أبواب الطہارۃ عن رسول اللہﷺ، باب ما جاء في التسمیۃ عند الوضوء، (25)] وضو کے آغاز میں بسم اللہ یا بسم اللہ الرحمن الرحیم میں سے کوئی بھی پڑھ لیں، درست ہے۔ کیونکہ مقصود اللہ کا نام لینا ہے اور وہ دونوں صورتوں میں حاصل ہے۔ نیز اگر کوئی شخص وضو کے آغاز میں بسم اللہ پڑھنا بھول جائے یا بغیر بسم اللہ وضو کرلے تو اسے نئے سرے سے دوبارہ وضو کرنا ہوگا۔ دائیں جانب سے آغاز: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: إِذَا تَوَضَّأْتُمْ، فَابْدَءُوا بِأَيَامِنِكُمْ ’’جب تم وضو کرو تو دائیں جانب سے آغاز کرو۔‘‘ [سنن أبي داؤد، کتاب اللباس، باب في الانتعال، (4141)] ہاتھ دھونا: رسول اللہﷺ نے فرمایا: إِذَا اسْتَيْقَظَ أَحَدُكُمْ مِنْ نَوْمِهِ فَلْيَغْسِلْ يَدَهُ قَبْلَ أَنْ يُدْخِلَهَا فِي وَضُوئِهِ، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لاَ يَدْرِي أَيْنَ بَاتَتْ يَدُهُ ’’جب تم میں سے کوئی اپنی نیند سے بیدار ہو تو اپنے ہاتھ کو وضو والے برتن میں ڈالنے سے پہلے دھو لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے ہاتھ نے کہاں رات گزاری ہے۔‘‘ [صحیح البخاري، کتاب الوضوء، باب الاستجمار وتراً، (162)] یعنی جب بندہ نیند سے بیدار ہو تو اپنے ہاتھوں کو برتن میں ڈالنے سے پہلے دھوئے۔ یہ دھونا لازمی وضروری ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے وضو فرمایا تو پہلے اپنے ہاتھوں کو دھویا حتیٰ کہ انہیں صاف کیا، پھر کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا اور ناک کو جھاڑا اور آخر میں فرمایا: ’’میں تمہیں رسول اللہﷺ کا وضو دکھانا چاہتا تھا۔ ‘‘ [سنن الترمذي، أبواب الطھارۃ، باب ما جاء في وضوء النبي ﷺ کیف کان، (48)] کلی کرنا، ناک میں پانی چڑھانا اور ناک جھاڑنا: نبی کریمﷺ نے حکم دیا ہے: إِذَا تَوَضَّأْتَ فَمَضْمِضْ ’’جب تو وضو کرے تو کلی کر۔‘‘ [سنن أبي داؤد، کتاب الطھارۃ، باب في الاستنثار، (144)] اسی طرح فرمایا: إِذَا تَوَضَّأَ أَحَدُكُمْ فَلِيَجْعَلْ فِي أَنْفِهِ مَاءً ثُمَّ لِيَنْتَثِرْ ’’جب تم میں سے کوئی ایک وضو کرے تو اپنے ناک میں پانی ڈالے، پھر اس کو جھاڑے۔‘‘ [صحیح مسلم، کتاب الطھارۃ، باب الإیتار في الاستنثار والاستجمار، (237)] یاد رہے کہ ایک ہی چلو میں پانی لے کر کچھ کلی کرنے کےلیے منہ میں ڈالنا ہے اور کچھ ناک میں داخل کرنا ہے۔ [صحیح مسلم، کتاب الطھارۃ، باب في وضوء النبيﷺ، (235)] پہلے تین بار کلی کرلینا، پھر علیحدہ پانی لے کر بعد میں تین بار ناک میں پانی چڑھانا رسول اللہﷺ سے ثابت نہیں۔ نیز جاننا چاہیے کہ استنشاق عربی زبان میں ناک کی ہوا کے ذریعہ پانی کھینچنے کو کہتے ہیں۔ تو یعنی محض ناک کے ساتھ پانی لگا دینے سے یا ہاتھ کے زور سے ناک میں کچھ پانی داخل کرلینے سے فریضہ ٔ استنشاق ادا نہیں ہوتا، بلکہ نبی کریمﷺ نے تو حکم دیا ہے: بَالِغْ فِي الِاسْتِنْشَاقِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ صَائِمًا ’’ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کر، إلاّ کہ تو روزہ دار ہو۔‘‘ [سنن أبي داؤد، کتاب الطہارۃ، باب فی الاستنثار، (142)] تو غیر روزہ دار کےلیے لازمی ہے کہ وہ خوب اچھی طرح ناک میں پانی چڑھائے۔ اسی طرح ناک کو جھاڑنا بھی وضو کا حصہ ہے۔ بغیر ناک جھاڑے کیا گیا وضو مسنون نہ ہوگا۔ چہرہ دھونا: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ‹ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْہَكُمْ› ’’اے اہل ایمان! جب تم نماز کےلیے کھڑے ہونے لگو تو اپنے چہروں کو دھو لو۔‘‘ [المائدۃ: 6] داڑھی کا خلال: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ وضو فرماتے تو ایک چلو میں پانی لے کر اپنی تھوڑی کے نیچے داخل کرتے اور اس کا خلال کرتے اور فرماتے: هَكَذَا أَمَرَنِي رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ ’’مجھے میرے رب عزوجل نے اسی طرح حکم دیا ہے۔‘‘ [سنن أبي داؤد، کتاب الطہارۃ، باب تخلیل اللحیۃ، (145)] کہنیوں سمیت دونوں ہاتھ دھونا: اللہ رب العزت کا حکم ہے: ‹ وَاَيْدِيَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ› ’’اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو۔‘‘ [المائدۃ: 6] انگلیوں کا خلال: نبی کریمﷺ نے حکم دیا ہے: وَخَلِّلْ بَيْنَ الأَصَابِعِ ’’اور انگلیوں کا خلال کر۔‘‘ [سنن الترمذي، أبواب الصوم، باب ما جاء في کراھیۃ مبالغۃ الاستنشاق للصائم، (788)] ہر دو انگلیوں کے درمیان دوسرے ہاتھ کی انگلی کو خوب اچھی طرح پھیریں تاکہ انگلیوں کے درمیان والی جگہ بھی تَر ہوجائے، خشک نہ رہے۔ اسی کا نام خلال کرنا ہے۔ سر کا مسح کرنا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ‹وَامْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ› ’’اور اپنے سروں کا مسح کر لو۔‘‘ [المائدۃ: 6] اللہ تعالیٰ نے ’’سر‘‘ کا مسح کرنے کا حکم دیا ہے۔ تو مکمل سر کا مسح کرنا فرض ہے۔ وامسحوا بربع رؤوسکم یا ببعض رؤوسکم نہیں کہا۔ یعنی سر کے چوتھائی یا بعض حصہ کا مسح کرنے کا نہیں کہا۔ لہٰذا مکمل سر کا مسح کیا جائے۔ نبی کریمﷺ نے سر کا مسح فرمایا: فَأَقْبَلَ بِهِمَا وَأَدْبَرَ، بَدَأَ بِمُقَدَّمِ رَأْسِهِ حَتَّى ذَهَبَ بِهِمَا إِلَى قَفَاهُ، ثُمَّ رَدَّهُمَا إِلَى المَكَانِ الَّذِي بَدَأَ مِنْهُ ’’دونوں ہاتھوں کو آگے لے گئے اور پھر واپس لائے۔ سر کے آغاز سے شروع فرمایا حتیٰ کہ انہیں اپنی گدی تک لے گئے، پھر ان کو اسی جگہ پر واپس لے آئے جہاں سے آغاز کیا تھا۔‘‘ [صحیح البخاري، کتاب الوضوء، باب مسح الرأس کلہ، (185)] یعنی آغازِ سر سے انتہائے سر تک دونوں ہاتھوں کو لے کر گئے، پھر انہیں واپس لائے۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ کچھ لوگ سر کے مسح کے دوران سر کے اطراف سے ہاتھوں کو اٹھا لیتے ہیں جبکہ سر کے اطراف (کانوں والی جانبیں) بھی سر کے اندر داخل ہیں۔ کانوں کا مسح: رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: اَلْأُذُنَانِ مِنَ الرَّأْسِ ’’دونوں کان سر میں سے ہیں۔‘‘ [سنن الترمذي، أبواب الطھارۃ، باب ما جاء أن الأذنین من الرأس، (37)] یعنی دونوں کان سر کا حکم رکھتے ہیں تو جب سر کے مسح کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے تو کان بھی اسی حکم کے تحت داخل ہوگئے۔ یعنی کا نوں کا بھی مسح کیا جائے۔ اور رسول اللہﷺ نے کا نوں کا مسح فرمایا: بَاطِنِهِمَا بِالسَّبَّاحَتَيْنِ وَظَاهِرِهِمَا بَإِبْهَامَيْهِ ’’کان کے سوراخ والے حصہ کا مسح شہادت والی انگلی سے کیا اور سر والی جانب کا مسح اپنے انگوٹھے کے ساتھ فرمایا۔‘‘ [سنن النسائي، کتاب الطھارۃ، باب مسح الأذنین مع الرأس وما یستدل بہ علی أنھما من الرأس، (102)] عموماً کانوں کا مسح کرنے میں کوتاہی برتی جاتی ہے، غفلت بھرے انداز میں کانوں کا مسح تیزی کے ساتھ کیا جاتا ہے، جس کے نتیجہ میں کانوں کا کچھ حصہ مسح کی زد میں نہیں آتا، جبکہ مکمل کانوں کا مسح کرنا ضروری ہے تو اس کے لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ کان کی لَو سے مسح کا آغاز اس طرح کریں کہ انگوٹھے اور شہادت والی انگلیوں سے دونوں کانوں کو پکڑے اور پھر پہلے اپنی انگلیوں کو راستوں سے گھماتے گھماتے کانوں کے سوراخ تک لے جائیں، پھر انگلیوں کو کانوں سے باہر نکالے بغیر اپنے انگوٹھوں کو پیچھے سے گھما دیا جائے۔ اسی طرح تسلی سے مکمل کان کا مسح ہوجائے گا۔ پاؤں دھونا: اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے: ‹وَاَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَيْنِ› ’’اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھو لو۔‘‘ [المائدۃ: 6] لہٰذا کانوں کا مسح کرنے کے بعد پہلے دایاں اور پھر بایاں پاؤں بالترتیب دھویا جائے اور ہر پاؤں دھونے کے ساتھ ساتھ اس کی انگلیوں کا خلال بھی کیا جائے کہ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: إِذَا تَوَضَّأْتَ فَخَلِّلْ بَيْنَ أَصَابِعِ يَدَيْكَ وَرِجْلَيْكَ ’’جب تو وضو کرے تو اپنے ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کے درمیان خلال کرلے۔‘‘ [سنن الترمذي، أبواب الطھارۃ، باب ما جاء في تخلیل الأصابع، (39)] وضو کر نے کے بعد کی دعا: وضوکرلینے کے بعد یہ دعا پڑھیں: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللہُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ [صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ، باب الذکر المستحب عقب الوضوء، (234)]
 
Last edited:

Zia Hydari

Chief Minister (5k+ posts)
مولوی ادھر توں خود ہی پھنس گیا ہے شاباش اب دیکھ کر مجھے بتا یہاں کدھر یہ لفظ موجود ہے (فَاغْسِلُوا) اس آیات میں( وَامْسَحُوۡا بِرُءُ وۡسِکُمْ وَ اَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیۡنِ ؕ )
شاباش

اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے: ‹وَاَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَيْنِ› ’’اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھو لو۔‘‘

مصدر: http://www.rafeeqtahir.com/ur/play-article-616.html
اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے:
‹وَاَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَيْنِ› ’’اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھو لو۔‘‘
اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے: ‹وَاَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَيْنِ› ’’اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھو لو۔‘‘

مصدر: http://www.rafeeqtahir.com/ur/play-article-616.html
 
مکمل وضوء کا مسنون طریقہ نماز دین اسلام کا ایک اہم رکن ہے جس کے بغیر بندہ مؤمن نہیں بن سکتا۔ اور نبی کریمﷺ نے وضو کو نماز کی چابی قرار دیا ہے۔ [سنن أبي داؤد، کتاب الطہارۃ، باب فرض الوضوء، (61)] یعنی وضو کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور جس چابی کے دندانے ہی خراب ہوں، وہ چابی بھی کسی کام کی نہیں ہوتی، لہٰذا نماز کےلیے وضو بھی کیا جائے تو عین اس طریقہ کے مطابق، جس طریقہ سے وضو کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے۔ اگر وضو سنت نبوی کے مطابق ہوگا تو وہ وضو نماز کی ادائیگی کےلیے مؤثر ہوگا، وگرنہ ناقص وضو کی صورت میں اقامتِ صلاۃ ناممکن ہے۔ لہٰذا وضو کرنے میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے کہ وضو مکمل، صحیح اور سنت مطہرہ کے مطابق ہو۔ طریقہ وضو: نیت کرنا: رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ’’یقیناً اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہے۔‘‘ [صحیح البخاري، کتاب بدء الوحی، باب بدء الوحی، (1)] بسم اللہ سے آغاز کرنا: نبی کریمﷺ کا فرمان ہے: لَا وُضُوءَ لِمَنْ لَمْ يَذْكُرْ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ ’’جس شخص نے وضو اللہ کا نام لیے بغیر کرلیا، تو اس کا وضو نہیں ہے۔‘‘ [سنن الترمذي، أبواب الطہارۃ عن رسول اللہﷺ، باب ما جاء في التسمیۃ عند الوضوء، (25)] وضو کے آغاز میں بسم اللہ یا بسم اللہ الرحمن الرحیم میں سے کوئی بھی پڑھ لیں، درست ہے۔ کیونکہ مقصود اللہ کا نام لینا ہے اور وہ دونوں صورتوں میں حاصل ہے۔ نیز اگر کوئی شخص وضو کے آغاز میں بسم اللہ پڑھنا بھول جائے یا بغیر بسم اللہ وضو کرلے تو اسے نئے سرے سے دوبارہ وضو کرنا ہوگا۔ دائیں جانب سے آغاز: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: إِذَا تَوَضَّأْتُمْ، فَابْدَءُوا بِأَيَامِنِكُمْ ’’جب تم وضو کرو تو دائیں جانب سے آغاز کرو۔‘‘ [سنن أبي داؤد، کتاب اللباس، باب في الانتعال، (4141)] ہاتھ دھونا: رسول اللہﷺ نے فرمایا: إِذَا اسْتَيْقَظَ أَحَدُكُمْ مِنْ نَوْمِهِ فَلْيَغْسِلْ يَدَهُ قَبْلَ أَنْ يُدْخِلَهَا فِي وَضُوئِهِ، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لاَ يَدْرِي أَيْنَ بَاتَتْ يَدُهُ ’’جب تم میں سے کوئی اپنی نیند سے بیدار ہو تو اپنے ہاتھ کو وضو والے برتن میں ڈالنے سے پہلے دھو لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے ہاتھ نے کہاں رات گزاری ہے۔‘‘ [صحیح البخاري، کتاب الوضوء، باب الاستجمار وتراً، (162)] یعنی جب بندہ نیند سے بیدار ہو تو اپنے ہاتھوں کو برتن میں ڈالنے سے پہلے دھوئے۔ یہ دھونا لازمی وضروری ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے وضو فرمایا تو پہلے اپنے ہاتھوں کو دھویا حتیٰ کہ انہیں صاف کیا، پھر کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا اور ناک کو جھاڑا اور آخر میں فرمایا: ’’میں تمہیں رسول اللہﷺ کا وضو دکھانا چاہتا تھا۔ ‘‘ [سنن الترمذي، أبواب الطھارۃ، باب ما جاء في وضوء النبي ﷺ کیف کان، (48)] کلی کرنا، ناک میں پانی چڑھانا اور ناک جھاڑنا: نبی کریمﷺ نے حکم دیا ہے: إِذَا تَوَضَّأْتَ فَمَضْمِضْ ’’جب تو وضو کرے تو کلی کر۔‘‘ [سنن أبي داؤد، کتاب الطھارۃ، باب في الاستنثار، (144)] اسی طرح فرمایا: إِذَا تَوَضَّأَ أَحَدُكُمْ فَلِيَجْعَلْ فِي أَنْفِهِ مَاءً ثُمَّ لِيَنْتَثِرْ ’’جب تم میں سے کوئی ایک وضو کرے تو اپنے ناک میں پانی ڈالے، پھر اس کو جھاڑے۔‘‘ [صحیح مسلم، کتاب الطھارۃ، باب الإیتار في الاستنثار والاستجمار، (237)] یاد رہے کہ ایک ہی چلو میں پانی لے کر کچھ کلی کرنے کےلیے منہ میں ڈالنا ہے اور کچھ ناک میں داخل کرنا ہے۔ [صحیح مسلم، کتاب الطھارۃ، باب في وضوء النبيﷺ، (235)] پہلے تین بار کلی کرلینا، پھر علیحدہ پانی لے کر بعد میں تین بار ناک میں پانی چڑھانا رسول اللہﷺ سے ثابت نہیں۔ نیز جاننا چاہیے کہ استنشاق عربی زبان میں ناک کی ہوا کے ذریعہ پانی کھینچنے کو کہتے ہیں۔ تو یعنی محض ناک کے ساتھ پانی لگا دینے سے یا ہاتھ کے زور سے ناک میں کچھ پانی داخل کرلینے سے فریضہ ٔ استنشاق ادا نہیں ہوتا، بلکہ نبی کریمﷺ نے تو حکم دیا ہے: بَالِغْ فِي الِاسْتِنْشَاقِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ صَائِمًا ’’ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کر، إلاّ کہ تو روزہ دار ہو۔‘‘ [سنن أبي داؤد، کتاب الطہارۃ، باب فی الاستنثار، (142)] تو غیر روزہ دار کےلیے لازمی ہے کہ وہ خوب اچھی طرح ناک میں پانی چڑھائے۔ اسی طرح ناک کو جھاڑنا بھی وضو کا حصہ ہے۔ بغیر ناک جھاڑے کیا گیا وضو مسنون نہ ہوگا۔ چہرہ دھونا: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ‹ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْہَكُمْ› ’’اے اہل ایمان! جب تم نماز کےلیے کھڑے ہونے لگو تو اپنے چہروں کو دھو لو۔‘‘ [المائدۃ: 6] داڑھی کا خلال: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ وضو فرماتے تو ایک چلو میں پانی لے کر اپنی تھوڑی کے نیچے داخل کرتے اور اس کا خلال کرتے اور فرماتے: هَكَذَا أَمَرَنِي رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ ’’مجھے میرے رب عزوجل نے اسی طرح حکم دیا ہے۔‘‘ [سنن أبي داؤد، کتاب الطہارۃ، باب تخلیل اللحیۃ، (145)] کہنیوں سمیت دونوں ہاتھ دھونا: اللہ رب العزت کا حکم ہے: ‹ وَاَيْدِيَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ› ’’اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو۔‘‘ [المائدۃ: 6] انگلیوں کا خلال: نبی کریمﷺ نے حکم دیا ہے: وَخَلِّلْ بَيْنَ الأَصَابِعِ ’’اور انگلیوں کا خلال کر۔‘‘ [سنن الترمذي، أبواب الصوم، باب ما جاء في کراھیۃ مبالغۃ الاستنشاق للصائم، (788)] ہر دو انگلیوں کے درمیان دوسرے ہاتھ کی انگلی کو خوب اچھی طرح پھیریں تاکہ انگلیوں کے درمیان والی جگہ بھی تَر ہوجائے، خشک نہ رہے۔ اسی کا نام خلال کرنا ہے۔ سر کا مسح کرنا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ‹وَامْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ› ’’اور اپنے سروں کا مسح کر لو۔‘‘ [المائدۃ: 6] اللہ تعالیٰ نے ’’سر‘‘ کا مسح کرنے کا حکم دیا ہے۔ تو مکمل سر کا مسح کرنا فرض ہے۔ وامسحوا بربع رؤوسکم یا ببعض رؤوسکم نہیں کہا۔ یعنی سر کے چوتھائی یا بعض حصہ کا مسح کرنے کا نہیں کہا۔ لہٰذا مکمل سر کا مسح کیا جائے۔ نبی کریمﷺ نے سر کا مسح فرمایا: فَأَقْبَلَ بِهِمَا وَأَدْبَرَ، بَدَأَ بِمُقَدَّمِ رَأْسِهِ حَتَّى ذَهَبَ بِهِمَا إِلَى قَفَاهُ، ثُمَّ رَدَّهُمَا إِلَى المَكَانِ الَّذِي بَدَأَ مِنْهُ ’’دونوں ہاتھوں کو آگے لے گئے اور پھر واپس لائے۔ سر کے آغاز سے شروع فرمایا حتیٰ کہ انہیں اپنی گدی تک لے گئے، پھر ان کو اسی جگہ پر واپس لے آئے جہاں سے آغاز کیا تھا۔‘‘ [صحیح البخاري، کتاب الوضوء، باب مسح الرأس کلہ، (185)] یعنی آغازِ سر سے انتہائے سر تک دونوں ہاتھوں کو لے کر گئے، پھر انہیں واپس لائے۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ کچھ لوگ سر کے مسح کے دوران سر کے اطراف سے ہاتھوں کو اٹھا لیتے ہیں جبکہ سر کے اطراف (کانوں والی جانبیں) بھی سر کے اندر داخل ہیں۔ کانوں کا مسح: رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: اَلْأُذُنَانِ مِنَ الرَّأْسِ ’’دونوں کان سر میں سے ہیں۔‘‘ [سنن الترمذي، أبواب الطھارۃ، باب ما جاء أن الأذنین من الرأس، (37)] یعنی دونوں کان سر کا حکم رکھتے ہیں تو جب سر کے مسح کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے تو کان بھی اسی حکم کے تحت داخل ہوگئے۔ یعنی کا نوں کا بھی مسح کیا جائے۔ اور رسول اللہﷺ نے کا نوں کا مسح فرمایا: بَاطِنِهِمَا بِالسَّبَّاحَتَيْنِ وَظَاهِرِهِمَا بَإِبْهَامَيْهِ ’’کان کے سوراخ والے حصہ کا مسح شہادت والی انگلی سے کیا اور سر والی جانب کا مسح اپنے انگوٹھے کے ساتھ فرمایا۔‘‘ [سنن النسائي، کتاب الطھارۃ، باب مسح الأذنین مع الرأس وما یستدل بہ علی أنھما من الرأس، (102)] عموماً کانوں کا مسح کرنے میں کوتاہی برتی جاتی ہے، غفلت بھرے انداز میں کانوں کا مسح تیزی کے ساتھ کیا جاتا ہے، جس کے نتیجہ میں کانوں کا کچھ حصہ مسح کی زد میں نہیں آتا، جبکہ مکمل کانوں کا مسح کرنا ضروری ہے تو اس کے لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ کان کی لَو سے مسح کا آغاز اس طرح کریں کہ انگوٹھے اور شہادت والی انگلیوں سے دونوں کانوں کو پکڑے اور پھر پہلے اپنی انگلیوں کو راستوں سے گھماتے گھماتے کانوں کے سوراخ تک لے جائیں، پھر انگلیوں کو کانوں سے باہر نکالے بغیر اپنے انگوٹھوں کو پیچھے سے گھما دیا جائے۔ اسی طرح تسلی سے مکمل کان کا مسح ہوجائے گا۔ پاؤں دھونا: اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے: ‹وَاَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَيْنِ› ’’اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھو لو۔‘‘ [المائدۃ: 6] لہٰذا کانوں کا مسح کرنے کے بعد پہلے دایاں اور پھر بایاں پاؤں بالترتیب دھویا جائے اور ہر پاؤں دھونے کے ساتھ ساتھ اس کی انگلیوں کا خلال بھی کیا جائے کہ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: إِذَا تَوَضَّأْتَ فَخَلِّلْ بَيْنَ أَصَابِعِ يَدَيْكَ وَرِجْلَيْكَ ’’جب تو وضو کرے تو اپنے ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کے درمیان خلال کرلے۔‘‘ [سنن الترمذي، أبواب الطھارۃ، باب ما جاء في تخلیل الأصابع، (39)] وضو کر نے کے بعد کی دعا: وضوکرلینے کے بعد یہ دعا پڑھیں: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللہُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ [صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ، باب الذکر المستحب عقب الوضوء، (234)]
چھنے کاکے اتنی جلدی فرار ؟ میرے قوٹ کا ڈائریکٹ جواب دو کیوں ادھر ادھر فورم کا صفات کالے کرتے ہو شاباش مجھے دکھا دو کے اس آیات میں کدھر پاؤں گٹوں تک دھونے کا ذکر ہے شاباش ادھر ادھر کی مت پھینکو قران حکیم کی آیت بلکل صاف صاف بتا رہی ہے اور یہ بھی دیکھ لو ایک حوالہ ابھی دے دیتا ہوں اور یاد رکھو جب کسی مخالف سے بحث ہو تو قابلیت کا پتہ اس کی کتاب سے حوالہ مستند دے کر دیا جاتا ہے سمجھے ای عقل شریف میں یہ بات کاپی پیسٹ صاحب
IhQR24u.png
 
اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے: ‹وَاَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَيْنِ› ’’اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھو لو۔‘‘

مصدر: http://www.rafeeqtahir.com/ur/play-article-616.html
اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے:
‹وَاَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَيْنِ› ’’اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھو لو۔‘‘
اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے: ‹وَاَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَيْنِ› ’’اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھو لو۔‘‘

مصدر: http://www.rafeeqtahir.com/ur/play-article-616.html


ابھے مولوی کیا میں بھائی پھیرو سے آیا ہوں کیا ؟ خود تو جاہل ہے دوسروں کو بھی جاہل سمجھتا ہے مجھے معلوم تھا اس کا کیا ترجمہ پرتم نے ماننا نہیں تھا چل یہ گوگل کا ترجمہ دیکھ ادھر کس جگہ پر دھونے کا لفظ ہے
HLkAi8Z.png

 

طارق جمیل جھوٹی حدیث بیان کرتا ہے اپنی طرف سے گھڑ کر اس طرح بات کرتا ہے کہ لو گ اسے دین کی بات سمجھتے ہیں، میں نے جب بھی اس کی نشاندہی کری تو ان لوگوں کو برا لگا اور بجائے جواب دینے کے مجھ پر جھوٹ باندھا شیعہ ہونے کا۔

bhai in ka deen or iman tariq jameel hai na k islam ... agar in k dil mai islam ki mohobat hoti tou ye molvi say kam or islam say zeyada mohobat kartay ... ye bani israel ki tarhan hain jo apnay molviyo ki ghustakhiyo ka bhe difa kartay thay .
 

دوسری صدی ہجری میں معتزلہ فرقہ وجود میں آیا تھا جو حدیث کو نہیں مانتا تھا، اٹھارویں صدی عیسوی میں وہابی ازم وجود میں ایا تھا، جو مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کی یہود و نصاریٰ کی سازش ہے، یہ بنیادی طور پر رسول اللہﷺ سے مسلمان کی محبت کے خلاف سازش کرتے ہیں، ان کے پاس حدیث نہیں ہوتی ہے بلکہ تاویلات سے مسلمانوں کو بدعتی کافر اور مشرک قرار دیتے ہیں، جب وہابی ازم کی پول کھل گئی تو اب ہند و پاکستان میں انہوں نے دیوبندی کے نام سے کام شروع کردیا۔

allama iqbal nay bhe deoband ko wahabi sect ki ak off shoot he kaha hai ... sub continent mai whabisim ismael dehlvi ki waja say pehla hai jis ko zaid hamid ALLAH ka wali kehta hai (ALLAH maf karay)
 

Zia Hydari

Chief Minister (5k+ posts)
چھنے کاکے اتنی جلدی فرار ؟ میرے قوٹ کا ڈائریکٹ جواب دو کیوں ادھر ادھر فورم کا صفات کالے کرتے ہو شاباش مجھے دکھا دو کے اس آیات میں کدھر پاؤں گٹوں تک دھونے کا ذکر ہے شاباش ادھر ادھر کی مت پھینکو قران حکیم کی آیت بلکل صاف صاف بتا رہی ہے اور یہ بھی دیکھ لو ایک حوالہ ابھی دے دیتا ہوں اور یاد رکھو جب کسی مخالف سے بحث ہو تو قابلیت کا پتہ اس کی کتاب سے حوالہ مستند دے کر دیا جاتا ہے سمجھے ای عقل شریف میں یہ بات کاپی پیسٹ صاحب
IhQR24u.png


اللہ عزجل نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
( وَامْسَحُوۡا بِرُءُ وۡسِکُمْ وَ اَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیۡنِ ؕ )
ترجمہ کنزالایمان:''اور سروں کا مسح کرواورگٹوں تک پاؤں دھوؤ۔''[المائدۃ: ۶]
اس آیت مبارکہ میں اَرْجُلکم کو نصب وجر دونوں کے ساتھ پڑھا گیا ہے نصب کی صورت میں مغسول پرعطف ہے اور معنی یہ ہیں: اور اپنے سر کا مسح کرو اور دھوؤ اپنے پاؤں کو۔

حدیث مبارکہ:
سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 116، پاکی کا بیان
ابوحیوۃ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی کو دیکھا انہوں نے وضو کیا تو دونوں ہاتھوں کو تین مرتبہ دھویا۔ اور تین مرتبہ کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا تین مرتبہ اور منہ دھویا تین مرتبہ اور دونوں بازوں تین تین مرتبہ دھوئے اور سر کا مسح کیا اور تین تین مرتبہ دونوں پاؤں کو دھویا۔ پھر فرمایا کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہی وضو تھا۔

اب اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضو کا طریقہ اور تم حضرت علی کے طریقے کو بھی نہیں مانتے ہو تو تمہارا کیا علاج؟
 

Zia Hydari

Chief Minister (5k+ posts)
ابھے مولوی کیا میں بھائی پھیرو سے آیا ہوں کیا ؟ خود تو جاہل ہے دوسروں کو بھی جاہل سمجھتا ہے مجھے معلوم تھا اس کا کیا ترجمہ پرتم نے ماننا نہیں تھا چل یہ گوگل کا ترجمہ دیکھ ادھر کس جگہ پر دھونے کا لفظ ہے
HLkAi8Z.png


، حدیث صحیح میں ہے سید عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کچھ لوگوں کو پاؤں پر مسح کرتے دیکھا تو منع فرمایا اور عطا سے مروی ہے وہ بہ قسم فرماتے ہیں کہ میرے علم میں اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) میں سے کسی نے بھی وضو میں پاؤں پر مسح نہ کیا ۔
قرآن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ سے سمجھو۔
 

اللہ عزجل نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
( وَامْسَحُوۡا بِرُءُ وۡسِکُمْ وَ اَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیۡنِ ؕ )
ترجمہ کنزالایمان:''اور سروں کا مسح کرواورگٹوں تک پاؤں دھوؤ۔''[المائدۃ: ۶]
اس آیت مبارکہ میں اَرْجُلکم کو نصب وجر دونوں کے ساتھ پڑھا گیا ہے نصب کی صورت میں مغسول پرعطف ہے اور معنی یہ ہیں: اور اپنے سر کا مسح کرو اور دھوؤ اپنے پاؤں کو۔

حدیث مبارکہ:
سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 116، پاکی کا بیان
ابوحیوۃ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی کو دیکھا انہوں نے وضو کیا تو دونوں ہاتھوں کو تین مرتبہ دھویا۔ اور تین مرتبہ کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا تین مرتبہ اور منہ دھویا تین مرتبہ اور دونوں بازوں تین تین مرتبہ دھوئے اور سر کا مسح کیا اور تین تین مرتبہ دونوں پاؤں کو دھویا۔ پھر فرمایا کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہی وضو تھا۔

اب اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضو کا طریقہ اور تم حضرت علی کے طریقے کو بھی نہیں مانتے ہو تو تمہارا کیا علاج؟


، حدیث صحیح میں ہے سید عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کچھ لوگوں کو پاؤں پر مسح کرتے دیکھا تو منع فرمایا اور عطا سے مروی ہے وہ بہ قسم فرماتے ہیں کہ میرے علم میں اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) میں سے کسی نے بھی وضو میں پاؤں پر مسح نہ کیا ۔
قرآن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ سے سمجھو۔
جھوٹ بولتے ہو قران حکیم پر صرف اور صرف اپنے باطل عقیدے کو بچانے کے لیے قراه پاک کا غلط ترجمہ کرتے ہو شرم کرو تم تو انسان بھی کہلانے کے لائق نہیں ہو پتہ نہیں کس مٹی سے بنے ہو یہ جو آیت بار بار قوٹ کر رہے ہو دنیا کا کوئی شخص اس میں دھونے کا لفظ نہیں ثابت کر سکتا اس میں حکم ایک بار آیا کے اپنے چہرے کو دھو اس کے بعد مسح کا حکم ہے سر اور پیروں کا ٹخنوں یعنی گٹوں تک پر تم ایک جاہل ہی نہیں ایک بے شرم انسان ہو یہ اگر چار یار فورم نہ ہوتا تو بین ہوتے پرمننٹ پر ادھر انصاف نہیں ہے بہر حال اب جو تم نے آیت دی تھی اس کے اندر لفظ دھونا نکالو
کیا میں نے جو احادیث دیں ہیں وہ کیا ضعیف ہیں تم کو تو یہ بھی نہیں پتہ کے اگر مجھ سے بحث کر رہے ہو تو مجھے قائل کرنے کے لیے تم کو میری کتب سے حوالے دینے ہوں گے پر تم اپنی کتابوں کے اصل صفات بھی ادھر نہیں دے سکتے ہو اور جو میں دے رہا ہوں تماری کتب سے ان کو نہیں مانتے ہو بہر حال میں ادھر وہ تمارا جھوٹ پھر بیان کرتا ہوں اور تماری کتب سے ہی ثابت کرتا ہوں خاص طور پر مسند حنبل سے یہ وہ صاحب کتاب ہیں جو کے امام بھی ہیں چار جو خود ساختہ تم لوگوں نے بناے ہیں لو دیکھو
NXH3g1e.png


یہ تمارا جھوٹ پکڑا ہے گوگل سے ترجمہ کر کے اور اب احادیث دیکھو اور پھوٹ لو ادھر سے بہت ہو گئی آج پھر تماری اور یہ تمارے خلیفہ ثانی کو دیکھو کیسے وضو فرما رہے ہیں مسند حنبل کی زبانی
9tauf3v.png


BjzxVxp.png


rd9x6ao.png

اور آخر میں یہ نبی پاک کا وضو دیکھو ایک بار پھر جھوٹے شخص یہ میں پہلے بھی دکھا چکا تھا پر تم عقل کے بھی اندھے ہو اب بھی باز نہیں اے فتنہ پھیلانے سے تو روز محشر پھر چھترول ہی ہو گی قران اور حدیث پر جھوٹ بولنے پر سمجھے یہ امام ذہبی کی کتاب سے ہے
IhQR24u.png
 
Last edited:

QaiserMirza

Chief Minister (5k+ posts)

، حدیث صحیح میں ہے سید عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کچھ لوگوں کو پاؤں پر مسح کرتے دیکھا تو منع فرمایا اور عطا سے مروی ہے وہ بہ قسم فرماتے ہیں کہ میرے علم میں اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) میں سے کسی نے بھی وضو میں پاؤں پر مسح نہ کیا ۔
قرآن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ سے سمجھو۔


محترم بھائی آپ کیوں بحث کر رہے ہیں ، وہ شخص اپنے دین کی تشریح کر رہا ہے اور آپ اپنے دین کی - یہ دو مختلف دین ہیں جن میں کوئی ایک عقیدہ بھی مشترک نہیں تو پھر بحث کی بات پر - بحث تو کسی مشترک بات کو بنیاد بنا کر کی جاتی ہے
لکم دینکم ولی دین
میرے بھائی کیا آپ کو ان صاحب کی زبان سے اندازہ نہیں ہورہا - کیا کسی کو دین کی باتیں بتانے کا یہ انداز ہوتا ہے
 
محترم بھائی آپ کیوں بحث کر رہے ہیں ، وہ شخص اپنے دین کی تشریح کر رہا ہے اور آپ اپنے دین کی - یہ دو مختلف دین ہیں جن میں کوئی ایک عقیدہ بھی مشترک نہیں تو پھر بحث کی بات پر - بحث تو کسی مشترک بات کو بنیاد بنا کر کی جاتی ہے
لکم دینکم ولی دین
میرے بھائی کیا آپ کو ان صاحب کی زبان سے اندازہ نہیں ہورہا - کیا کسی کو دین کی باتیں بتانے کا یہ انداز ہوتا ہے


لکم دینکم ولی دین
واہ کیا اتحاد ہے ناصبیوں کا اور سنیوں کا پر یہ تو کوئی بتاے کے ادھر کوئی میرا ایک حوالہ سنی کتب سے ہٹ کر ہو ؟
ضیا میاں جس کی بات پر بغلیں بجا رہے ہو یہی تمارے قاتل ہیں اور مساجدوں پر تمارے بھی ان ہی لوگوں نے قبضہ کیا ہے اس بندے کے پاس کچھ ہو تو وہ ہمارا مقابلہ کرے خیر میرے حوالے وہ ہیں جو کے کسی بھی جگہ لے جاؤ کوئی ان کو چیلنج نہیں کر سکتا
مرزا تیرا اگر کام یہی ہے کے چھیڑ چھاڑ نہ کرنا تو آئندہ سے توبہ کر کے کوئی مزید غلاظت نہیں اگلے گا ورنہ تیرا پیچھا جاری رہے گا
 

alimula

Senator (1k+ posts)
Re: Shab-e-Baraat Ke Wazaif Aur Tauba Ki Ahmiyat By Shaykh ul Islam Dr Muhammad Tahir-ul-Qadri

Shab e barat ...is baseless n self created... mirch masala molvi ne create kia hua h....

 

Mughal1

Chief Minister (5k+ posts)
Re: Shab-e-Baraat Ke Wazaif Aur Tauba Ki Ahmiyat By Shaykh ul Islam Dr Muhammad Tahir-ul-Qadri

For proper understanding of quran and deen of islam one can find ample help HERE and HERE.

Mullahism is mostly about wasting your valuable time in nonsense in the name of God and his book and his messenger. Read the links provided and then challenge mullahs and see the result before your very eyes.

If people still wish to waste their lives away in nonsense then they have been given the right to do so by God but not without serious consequences as are before their very eyes.
 

QaiserMirza

Chief Minister (5k+ posts)


خاص پندرہویں شعبان کی رات مغفرت کی رات


عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
[FONT=Al_Mushaf] إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَيَغْفِرُ لأَكْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ كَلْبٍ[FONT=Al_Mushaf]
[/FONT]اللہ تبارک و تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب کو آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے ، اور قبیلہ کلب کی بکریوں کے بال سے بھی زیادہ کی تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔“[/FONT]
(ترمذی :۷۳۹ )
ضعیف: یہ روایت ضعیف ہے ،کیونکہ؛
۱: حجاج بن ارطاۃ ضعیف عند الجمہور اور مدلس راوی ہے، یحیی بن ابی کثیر بھی مدلس ہیں۔
٭اس روایت کے سلسلے میں امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : [FONT=Al_Mushaf]وَسَمِعْتُ مُحَمَّدًا يُضَعِّفُ هَذَا الْحَدِيثَ وَقَالَ يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عُرْوَةَ وَالْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ[/FONT]
"میں نے امام بخاری کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے، اسے یحیی (بن ابی کثیر) نے عروہ سے نہیں سنا اور نہ حجاج بن ارطاۃ نے نے اسے یحیی (بن ابی کثیر) سے سنا ہے۔" (سنن الترمذی:۷۳۹)
٭شیخ البانی نے بھی اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ (ضعیف الترمذی)

 
Status
Not open for further replies.

Back
Top