اسرائیلی اخبار جھوٹ نہیں لکھتے اور نہ ہی کبھی غلط رپورٹنگ کرتے ہیں جو رپورٹ شائع کی گئی اس کے مطابق عمران خان کے معاون خصوصی نے چند دیگر افراد کے ساتھ اسرائیل کا خفیہ مگر آفیشل دورہ کیا ہے۔ اس الزام پر تمام انگلیاں زلفی بخاری کی جانب اٹھ رہی ہیں جس کی دو وجوہات ہیں
زلفی بخاری خاتون اول کا مرید خاص ہے لہذا اس حساس ترین دورے کی کوی بھی بات لیک ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا
دوسری اہم بات یہ کہ اگر زلفی بخاری اپنے برٹش پاسپورٹ پر اسرائیل جاتے ہیں تو ان کو ویزے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی انکے پاسپورٹ پر سٹیمپ لگےگی اور اگر دورہ آفیشل ہوتو اسرائیل خود بھی سیکریسی کا پورا خیال رکھتا ہے اور ائرپورٹ سے ہی ایسے افراد کو بغیر کسی چیکنگ کے سیدھا مطلوبہ جگہ پر لے جایا جاتا ہے لہذا ایسا دورہ خفیہ ہی رہتا ہے سواے اس کے اسرائیل خود اس سیکرٹ انفارمیشن کو لیک کرنا چاہے۔ اب بھی ایسا ہی ہوا ہے اور اسرائیل نے یہ خفیہ انفارمیشن لیک کی ہے ورنہ س دورے کا چرچا کبھی بھی نہ ہوسکتا
اس دورے کے بارے میں زلفی بخاری کا جو رسپانس آیا ہے وہ اور بھی زیادہ مشکوک ہے مثلا زلفی بخاری نے دورے سے انکار نہیں کیا صرف یہ کہا ہے کہ جسدن کی بات کی جارہی ہے اسدن وہ راولپنڈی میں کمشنر کے ساتھ تھا حالانکہ مسئلہ یہ ہے ہی نہیں کہ فلاں دن گئے تھے یا فلاں مہینے ؟ معاملہ یہ ہے کہ زلفی بخاری نے اسرائیل کا دورہ عمران خان کے دور حکومت میں کیا ہے یا نہیں؟ اس دورے کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں زلفی بخاری حلفیہ بیان دے۔ اور عمران خان بھی قوم کو بتاے کہ یہ دورہ اس کے کسی بھی معاون خصوصی نے نہیں کیا مستقبل میں اگر اسرائیلی اخبار وہ نام اور دورے کی تفیصلات بھی دے دیتا ہے تو قوم کو پتا چل جاے گا کہ سچ کیا تھا
زلفی بخاری نے مزید کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا جو موقف عمران خان کا ہے وہ سب کے سامنے ہے
ان دونوں سٹیمینٹس سے یہ کنفرم ہورہا ہے کہ موصوف نے اسرائیل کا دورہ کیا ہے مگر اسدن نہیں جس کا تذکرہ کیا جارہا ہے اور عمران خان کا موقف تو سب ہی جانتے ہیں کہ جب فلسطین کا مسئلہ حل ہوجاے گا پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرلے گا یہ الگ بات کہ فلسطینی مسئلے کے حل کا اعلان کریں یا نہ کریں امریکہ کہہ دے گا کہ مسئلہ حل ہوگیا تو ہماری کٹھ پتلی حکومت کیلئے اتنا ہی کافی ہوگا
اسرائیل سے تعلقات رکھنا ہمارے مفاد میں ہے یا نہیں اس موضو ع کو لے کر حکومت کو کھل کر بات کرنی چاہئے تھی ناکہ معاونین خصوصی یوں خفیہ دورے کرتے پھریں، ہم سمجھتے ہیں کہ اگر اسرائیل کو ہمارے قریب ترین دوست عرب، چینی اور ترکی تسلیم کرچکے ہیں تو ہمیں انڈیا کو سفارتی محاذ پر ایک شکست دینے کیلئے ایسا کرلینے میں کوی حرج نہیں مگر یوں نہ کیا جاے کہ اوپر سے انکار اور اندر سے فل اقرار
زلفی بخاری خاتون اول کا مرید خاص ہے لہذا اس حساس ترین دورے کی کوی بھی بات لیک ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا
دوسری اہم بات یہ کہ اگر زلفی بخاری اپنے برٹش پاسپورٹ پر اسرائیل جاتے ہیں تو ان کو ویزے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی انکے پاسپورٹ پر سٹیمپ لگےگی اور اگر دورہ آفیشل ہوتو اسرائیل خود بھی سیکریسی کا پورا خیال رکھتا ہے اور ائرپورٹ سے ہی ایسے افراد کو بغیر کسی چیکنگ کے سیدھا مطلوبہ جگہ پر لے جایا جاتا ہے لہذا ایسا دورہ خفیہ ہی رہتا ہے سواے اس کے اسرائیل خود اس سیکرٹ انفارمیشن کو لیک کرنا چاہے۔ اب بھی ایسا ہی ہوا ہے اور اسرائیل نے یہ خفیہ انفارمیشن لیک کی ہے ورنہ س دورے کا چرچا کبھی بھی نہ ہوسکتا
اس دورے کے بارے میں زلفی بخاری کا جو رسپانس آیا ہے وہ اور بھی زیادہ مشکوک ہے مثلا زلفی بخاری نے دورے سے انکار نہیں کیا صرف یہ کہا ہے کہ جسدن کی بات کی جارہی ہے اسدن وہ راولپنڈی میں کمشنر کے ساتھ تھا حالانکہ مسئلہ یہ ہے ہی نہیں کہ فلاں دن گئے تھے یا فلاں مہینے ؟ معاملہ یہ ہے کہ زلفی بخاری نے اسرائیل کا دورہ عمران خان کے دور حکومت میں کیا ہے یا نہیں؟ اس دورے کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں زلفی بخاری حلفیہ بیان دے۔ اور عمران خان بھی قوم کو بتاے کہ یہ دورہ اس کے کسی بھی معاون خصوصی نے نہیں کیا مستقبل میں اگر اسرائیلی اخبار وہ نام اور دورے کی تفیصلات بھی دے دیتا ہے تو قوم کو پتا چل جاے گا کہ سچ کیا تھا
زلفی بخاری نے مزید کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا جو موقف عمران خان کا ہے وہ سب کے سامنے ہے
ان دونوں سٹیمینٹس سے یہ کنفرم ہورہا ہے کہ موصوف نے اسرائیل کا دورہ کیا ہے مگر اسدن نہیں جس کا تذکرہ کیا جارہا ہے اور عمران خان کا موقف تو سب ہی جانتے ہیں کہ جب فلسطین کا مسئلہ حل ہوجاے گا پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرلے گا یہ الگ بات کہ فلسطینی مسئلے کے حل کا اعلان کریں یا نہ کریں امریکہ کہہ دے گا کہ مسئلہ حل ہوگیا تو ہماری کٹھ پتلی حکومت کیلئے اتنا ہی کافی ہوگا
اسرائیل سے تعلقات رکھنا ہمارے مفاد میں ہے یا نہیں اس موضو ع کو لے کر حکومت کو کھل کر بات کرنی چاہئے تھی ناکہ معاونین خصوصی یوں خفیہ دورے کرتے پھریں، ہم سمجھتے ہیں کہ اگر اسرائیل کو ہمارے قریب ترین دوست عرب، چینی اور ترکی تسلیم کرچکے ہیں تو ہمیں انڈیا کو سفارتی محاذ پر ایک شکست دینے کیلئے ایسا کرلینے میں کوی حرج نہیں مگر یوں نہ کیا جاے کہ اوپر سے انکار اور اندر سے فل اقرار