ضابطہ فوجداری میں تازہ ترین ترامیم سے متعلق تفصیلات سامنے آگئی ہیں جس میں فوجداری مقدمات میں مختلف تبدیلیوں کی تجاویز دی گئی ہیں۔
خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق حکومت کی جانب سے ضابطہ فوجداری یعنی کرمنل قوانین میں مختلف ترامیم کی تجویز دی گئی ہے ، اس حوالے سے اسلام آبا دمیں فوجداری قانون اور نظام انصاف سے متعلق اصلاحات کے حوالے سے ایک تقریب بھی منعقد کی گئی ۔
ضابطہ فوجداری میں جن تبدیلیوں کی تجاویز کی گئی ہیں ان میں ایس ایچ او کیلئے کم از کم گریجویشن تک تعلیم یافتہ ہونا لازمی قرار دیا جائے گا، اور جن تھانوں میں مقدمات کا بوجھ زیادہ ہوگا وہاں اے ایس پی رینک کا ایس ایچ او تعینات کیا جائے گا۔
دوسری تجویز میں کہا گیا ہے کہ فوجداری ضابطہ کے تحت دائر مقدمات کا ٹرائل 9 ماہ میں مکمل کیا جائے گا اور ہر ماہ کی پیش رفت رپورٹ متعلقہ ہائی کورٹ کو جمع کروائی جائے گی، غیر سنجیدہ مقدمات دائر کرنے پر سیشن کورٹس کے پاس 10لاکھ روپے تک کا جرمانہ عائد کرنے کا اختیار ہوگا۔
اگر کوئی بھی ٹرائل کورٹ 9 ماہ میں مقدمے کا ٹرائل مکمل نہیں کرسکتی تو وہ اس حوالے سے ہائی کورٹ کو وضاحت دینے کی پابند ہوگی، ہائی کورٹ نے وضاحت قبول کی توٹرائل کیلئے وقت دیا جائے گا۔
اسی طرح ٹرائل کورٹ میں پیش ہونےو الے گواہان کے بیانات کی آڈیو اور ویڈیو ریکارڈ کی جائے گی تاکہ گواہ کے بیان کے ٹرانسکرپٹ سے منحرف ہونے کی کوشش کرے تو آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔
گواہان اگر عدالت میں آنے کیلئے راضی نہ ہوں تو ان کا بیان بذریعہ ویڈیو لنک بھی ریکارڈ کیا جاسکے گا، بیرون ملک مقیم گواہ کسی بھی مجاز افسر کی موجودگی میں اپنا بیان ویڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کرواسکتے ہیں۔
ضابطہ فوجداری میں ایک ترمیم 3 دن سے زائد التوا دینے سے متعلق ہے جس کے مطابق ان مقدمات میں صرف 3 روز کا التوا دیا جاسکتا ہے، تین دن سے زیادہ کے التوا پر ٹرائل کورٹ کو وضاحت کرنا ہوگی۔
فوجداری مقدمات میں مطلوب مفرور ملزمان کے شناختی کارڈز اور بینک اکاؤنٹس منجمد کردیئے جائیں گے۔
پراسیکیوٹر تفتیش سے مطمئن نہ ہو تو مزید یا ازسر نو تحقیقات کا کہہ سکے گا، جلسے جلوسوں میں اسلحہ کی نمائش کی اجازت نہیں ہوگی، ملزمان کے معائنہ کیلئے تشکیل دیئے گئے میڈیکل بورڈ میں ماہر نفسیات کو بھی شامل کیا جائے گا۔