فیصلہ کن کلام

1344181567202.gif



ایم کیوایم اور اس کے قائدالطاف حسین ،اپنے نظریات و افکار کے آئینے میں


الکلمۃالاخیرۃ
فیصلہ کن کلام

تالیف:ڈاکٹر محمد ابصار دہلوی


مقدمہ
اللہ رب العزت نے کائنات کو وجود بخشنے کے بعد انسان کی تخلیق کی اور پھر اس زمین پر اس کو ایک مقصد کے تحت آباد کیا جس کو قرآن ان الفاظ میں بیان کرتا ہے :
اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَةً لَّھَا لِنَبْلُوَھُمْ اَیُّھُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا
[1]
بے شک ہم نے اس زمین پر جو کچھ بنا یا ہے وہ اس کے لئے زیب و زینت ہے،تاکہ ہم ان کو آزمائیں کہ ان میں سے کون عمل کے اعتبار سے اچھا ہے۔
لہٰذا اللہ رب العزت نے اس زمین پر انسانوں کو بھیجا تاکہ وہ آزمائے کہ کون ہے جو اس کی فرمانبرداری اور اس کے احکامات کی بجاآوری کرنے والاہے، تاکہ اس کے اچھے اعمال کی جزا دے اورکون ہے جو اس کی نافرمانی اور اس کے احکام کی حکم عدولی کرنے والاہے ،تاکہ اس کو اس کے برے اعمال کی سزا دے ۔
اور یہ حقیقت ہے کہ انسانوں کے اس زمین پر بھیجے جانے کے بعد ایک دوسرے کے لئے آزمائش بنایا گیاہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَجَعَلْنَا بَعْضَکُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً
[2]
اور ہم نے تمہیں ایک دوسرے کے لئے آزمائش بنایا ہے۔
پس یہ آزمائش اس لحاظ سے بھی ہے کہ مختلف علاقوں اور زبانیں بولنے والے لوگوں کے اندر جو اپنی اپنی ثقافت، رہن سہن کی وجہ سے اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں اس میں کون صحیح اور درست طرز عمل اختیار کرتاہے اور کون ہے جوکہ انصاف کادامن ہاتھ سے چھوڑ کر عصبیت کی آگ میں کود جاتاہے۔یہ بات اپنی جگہ ہے کہ انسان اپنی قوم سے محبت کرتا ہے لیکن عصبیت یہ ہے کہ انسان ناحق معاملے میں اپنی قوم کا ساتھ دے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ :
((یَا رَسُولَ اللَّہِ أَمِنَ الْعَصَبِیَّةِ أَنْ یُحِبَّ الرَّجُلُ قَوْمَہُ قَالَ لَا وَلَکِنْ مِنْ الْعَصَبِیَّةِ أَنْ یَنْصُرَ الرَّجُلُ قَوْمَہُ عَلَی الظُّلْمِ))
[3]
یارسول اللہ !کیا یہ بھی عصبیت ہے کہ آدمی اپنی قوم سے محبت کرے ؟فرمایا :نہیں !عصبیت یہ ہے کہ آدمی ناحق معاملے میں بھی اپنی قوم کی مدد کرے۔
کتاب کا اصل موضوع ایم کیوایم اور اس کے قائدالطاف حسین ،اپنے نظریات و افکار کے آئینے میں جوکہ سرورق سے ہی واضح ہوچکا ہے کہ یہ تحریر پاکستان میں سرگرم عمل ایک تحریک اور اس کے قائد کے افکار ونظریات اور اس کی جدوجہد سے متعلق ہے جس کو ایم کیوایم (متحدہ قومی موومنٹ سابقہ مہاجر قومی موومنٹ) کے نام سے جانا جاتاہے ۔
اگر تو موضوعِ بحث کسی انفرادی شخصیت کے افکار ونظریات ہوتے یا پھر کسی ایسی جماعت کی جدوجہد ہوتی جس کا تعلق یا نسبت کسی خاص قومیت یا زبان سے نہ ہوتا تو اس پر بات کرنا اتناحساس اور احتیاط طلب نہ ہوتا کہ جتنا اس تحریک اور اس کے قائد کے افکار و نظریات پر کلام کرنا حساس اور احتیاط طلب ہے ۔کیوں کہ ایسے کسی بھی معاملے میں کلام جس کا تعلق کسی خاص قومیت یا زبان سے ہو ،ذرا سی بھی بے احتیاطی یا بے انصافی ،عصبیت کی آگ کو بھڑکا دینے کے لئے کافی ہوتی ہے۔
لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی گروہ کے افکار یا نظریات اور اس کی عملی جدوجہد اگر اعلانیہ شریعت اور اس کے احکامات کے برخلاف ہوں تو بغیر کسی تغافل اور تساہل کے اس گروہ سے متعلقہ و غیر متعلقہ لوگوں کو اس بات سے آگا ہ کیا جاناازروئے شریعت ضروری ہوجاتا ہے تاکہ وہ اس گروہ کی اصلاح کرسکیں یا پھر خود بھی اس کے فتنے سے بچ سکیں اور دوسرے مسلمانوں کو بھی اس کے فتنے سے بچاسکیں ۔
چونکہ ہمارے موضوع کامحور یہ تحریک اور اس کے قائد کے نظریات وافکار ہیں لہٰذا ہماے اولین مخاطب اس تحریک میں شامل وہ لوگ(کارکنان و رہنما)ہیں،جن کاتعلق اہل سنت والجماعت سے ہے جن کو عرف عام میں سنی مسلمانکہاجاتا ہے، چاہے وہ کسی بھی سنی مکتبہ فکر (حنفی،مالکی ،شافعی ،حنبلی ،سلفی)سے تعلق رکھتے ہوں۔
دوسرے نمبر پرہمارے مخاطب وہ اہل السنۃ(عرف عام میں سنی مسلمان)ہیں جوکہ اس تحریک سے کسی بھی طرح کی ہمدردی و الفت رکھتے ہیں اور اس تحریک کو اپنے مال وجان کے تحفظ کا ضامن سمجھتے ہیں ۔اسی طرح ہمارے مخاطب وہ اہل السنۃ بھی ہیں جوکہ ایسا طرز فکر رکھنے والی کسی بھی جماعت میں شامل ہوں یا اس سے ہمدردی و الفت رکھتے ہوں ۔
چنانچہ اب ہم اس تحریک اور اس کے قائدودیگر رہنماؤں کے افکار و نظریا ت اور ان کی عملی جدوجہد کا جائز لیں گے اور اس بارے میں شریعت کا کیا مؤقف ہے اس کو بھی واضح کریں گے۔کوشش یہ ہوگی کہ ہماری گفتگوکا محور ہمارے ملک میں رائج گندی سیاست کی مانند نہ ہو جوکہ جمہوری نظام کالازمی شاخسانہ ہے بلکہ ہماری مقدور بھر کوشش یہ ہوگی کہ صرف ان اہم اور ضروری نکات پر بحث کی جائے جن کاتعلق ایک مسلمان کے اسلام و ایمان کی سلامتی سے ہو۔
ہم اپنی گفتگو کے درمیان موضوع بحث جماعت ایم کیوایم کے لئے تحریک ،اس کے سربراہ الطاف حسین صاحب کے لئے قائد کے الفاظ استعمال کریں گے۔اسی طرح ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کے لئے اردوبولنے والےکے الفاظ استعمال کریں گے۔تاکہ ناموں کے باربار استعمال سے بات کا رخ کسی قسم کی عصبیت کی طرف مڑنے کے بجائے اصل موضوع کی طرف رہے۔باقی کل کی کل خیر اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے وہ جس کے لئے چاہتا ہے اس کے لئے خیر کے دروازے کھول دیتاہے ۔

ایم کیوایم اور اس کے قائدالطاف حسین ،اپنے نظریات و افکار کے آئینے میں
اس بات سے قطع نظر کہ اس تحریک کا قیام کیوں اور کیسے عمل میں آیا کیوں کہ اس سے متعلق لوگوں میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں :
(۱)بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اس تحریک کا قیام دراصل یہود وہنود کی کارفرمائی اور سازش کا نتیجہ ہے۔
(۲)اس کے برعکس بعض لوگ اس تحریک کو اردو بولنے والے کے معاشی وتعلیمی استحصال کا فطری نتیجہ قرار دیتے ہیں۔
(۳)بعض لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ تحریک دراصل دوطرفہ سازش کا نتیجہ ہے ،وہ اس طرح کہ ایک طرف اسلام کے نام پر بننے والے ملک کے لئے لاکھوں جانوں اور عزتوں کا نذرانہ دے کر ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کے حوالے سے استعماری ایجنٹوں نے حکومتی سطح پر ایسے اقدامات کئے جس سے اردوبولنے والے مسلمانوں کے اندر احساس محرومی پیدا کیا جاسکے اور ساتھ ساتھ ایسے حالات پیدا کئے گئے جس سے ان کے اور دیگر قومیتوں کے درمیان بے اعتمادی اورنفرت کی فضاء قائم ہوجائے(جیساکہ ملک کے تمام صوبوں میں مختلف قومیتوں کے موجود ہونے کے باوجود صرف ایک صوبہ میں کوٹہ سسٹمکا نفاذ) اور دوسری طرف ایک خفیہ منصوبے کے تحت اردوبولنے والے مسلمانوں اور دیگر مسلمان قومیتوں کے درمیان عصبیت کی آگ کو بھڑکانے کے لئے اس تحریک کی بنیاد رکھی گئی جس کے ذریعے اردوبولنے والوں کے آباؤاجداد کی جانب سے دی جانے والی قربانیوں پر نہ صرف پانی پھیرا جاسکے بلکہ آئندہ ان کی توانائیوں کو اسلام کے بجائے یہود وہنود کی سازشوں کی تکمیل میں جھونک دیا جائے۔
بہرحال!اس تحریک کے وجود میں آنے کی جو بھی وجوہات یا اسباب تھے مگر اس وقت ہماری گفتگوکا محور موجودہ حالات کے تناظر میں اس تحریک اور اس کے قائد کے افکار و نظریات کی وضاحت اور ساتھ ساتھ ان افکار و نظریات اور ان پر کی جانے والی جدوجہد اور مستقبل کے لائحہ عمل اور اہداف کے متعلق شریعت میں کیا حکم ہے؟ اس کو بھی انشاء اللہ واضح کریں گے۔
چنانچہ اب ہم ان اہم نکات پر روشنی ڈالیں گے جوکہ اس تحریک اور اس کے قائد کے بنیادی افکار و نظریات میں شامل ہیں اور جن کی پیروی سے ایک مسلمان اپنے اسلام و ایمان سے ہاتھ دھوبیٹھ سکتاہے ۔
قادیانیت کا تحفظ
جس طرح ملک کی دیگر سیکولر جماعتیں (خاص کر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن)قادیانیت کے تحفظ کی بات کرتی ہیں اسی طرح یہ تحریک بھی قادیانیت کے تحفظ کی نہ صرف سب سے بڑی علمبردار ہے بلکہ اس علمبرداری پر اس تحریک کے قائد کو فخر بھی ہے جس کاوہ بارہا اور برملا اظہار کرچکے ہیں ۔ایک ٹی وی انٹرویو میں کہتے ہیں :
ایم کیوایم واحد آرگنائیزیشن ہے کہ جب قادیانیوں کے سربراہ مرزا طاہر بیگ صاحب کا انتقال ہوا تھا،واحد الطاف حسین تھا جس نے تعزیتی بیان دیا تھا جس پر کئی اخبارات نے اداریئے لکھے کہ میں نے کفر کیا ،اور (اب)میں یہ کفر دوبارہ کرنے جارہا ہوں،جس کا دل چاہے کفر کا فتویٰ دے۔
[4]
اس سے پہلے کہ ہم قادیانیت کے تحفظ کے ممکنات پربحث کریں کہ آیاایسی کوئی صورت ممکن بھی ہے یا نہیں ،ہم قادیانیت کی حقیقت کو جان لیں کہ یہ کن افکارو نظریا ت کا مجموعہ ہے اور اس کا شریعت میں کیا مقام ہے ؟کیوں کہ جب قادیانیت کی حقیقت واضح ہوجائے گی تو خود بخود اس کے تحفظ کی باتیں کرنے والوں کی حقیقت بھی آشکارا ہوجائے گی کہ کن مقاصد کے حصول کے لئے قادیانیت کے تحفظ کی بات کی جاتی ہے !
عقیدۂ قادیانیت :
عقیدۂ قادیانیت کو اپنی زبان میں تفصیل سے بیان کرنے کے بجائے ہم قادیانیت کے افکارکو خود قادیانیت کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی ملعون اور اس کے جانشینوں کی زبانی پیش کردیتے ہیں تاکہ اس فتنے کو سمجھنے میں کسی ان پڑھ کو بھی مشکل پیش نہ آئے۔پس مختصر یہ کہ مرزا غلام احمد قادیانی ملعون نہ صرف امام مہدی اور حضرت عیسیٰ ہونے کے دعویٰ رکھنے کے ساتھ ساتھ نبی اور خدا ہونے کا دعوے دار تھا اور جو اس بات سے انکار کرے ،اس کو وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا تھا اور آج بھی اس کے جانشین اور ماننے والے اس عقیدے پر کاربند ہیں گویاکہ یہ گروہ گمراہی در گمراہی اور ضلالت در ضلالت کا مجموعہ ہے ۔گو کہ اس گمراہی و ضلالت کو بیان کرنے کے لئے ایک ضخیم کتا ب بھی کم تھی مگر عوام الناس کو اس فتنے سے آگاہ کرنے کے لئے ہم قادیانیت کے عقائد کوصرف دو لحاظ سے واضح کریں گے:
(۱) عقیدۂ قادیانیت بطور منکر ختم نبوت
(۲) عقیدۂ قادیانیت بطورگستاخ نبوت
عقیدۂ قادیانیت بطور منکر ختم نبوت:
مرزا غلام احمد قادیانی ملعون اپنے بارے میں کہتاہے :
میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں اگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہوگا اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے تو میں کیوں کر اس سے انکار کر سکتا ہوں ،میں اس پر قائم ہوں اس وقت تک کہ اس دنیا سے گزر جاؤں۔
[5]
ایک اور جگہ کہتا ہے :
ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم رسول اور نبی ہیں ۔
[6]
یہ تھے مرزا غلام احمد قادیانی ملعون کے افکار ،اور اس کے جانشینوں اور ماننے والوں کے کیا عقائد ہیں وہ ملاحظہ فرمائیں :
یہ بات بالکل روزِ روشن کی طرح ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دروازہ کھلا ہے
[7]
پس شریعت اسلامی نبی کے جو معنی کرتی ہے اس کے معنی سے حضرت صاحب (مرزا غلام احمد قادیانی )ہرگز مجازی نبی نہیں بلکہ حقیقی نبی ہیں ۔
[8]
عقیدۂ قادیانیت بطور گستاخ نبوت:
قادیانی اپنے عقائدمیں نہ صرف عقیدہ ختم نبوت کے انکاری ہیں بلکہ وہ اس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کرام کی شان میں بھی کھلم کھلا گستاخی کرنے والے ہیں ۔مرزا غلام احمد قادیانی خودکو معاذ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی پرتو اور سایہ قرار دیتا ہے بلکہ اپنے آپ کوحضرت عیسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی بھی گردانتاہے۔چنانچہ وہ کہتا ہے:
خدا ایک اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کا نبی ہے اور وہ خاتم الانبیاء ہے اور سب سے بڑھ کر اب ہے،اب بعد اس کے کوئی نبی نہیں مگر وہی جس پر بروزی طور پر محمدیت کی چادر پہنائی گئی.جیساکہ تم جب آئینہ میں اپنی شکل دیکھو تو تم دو نہیں ہوسکتے ،بلکہ ایک ہی ہواگر چہ بظاہر دو ہی نظر آتے ہیں ،صرف ظل (سایہ)اور اصل کا فرق ہے۔
[9]
میں بارہا بتلا چکا ہوں کہ میںبروزی طور پر وہی نبی خاتم الانبیاء ہوں اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میں میرا نام محمد اور احمدرکھا ہے اور مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود قرار دیا ہے،پس اس طور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم الانبیاء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا ،کیونکہ ظل (سایہ)اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا۔
[10]
مرزا غلام قادیانی ،نبی ہونے کے دعویدار ہونے کے باوجود اسی کلمے کے اقراری ہوتے ہیں جوکہ مسلمان اداکرتے ہیں اور جس سے بعض مسلمان دھوکہ بھی کھاجاتے ہیں اور کہتے کہ ان کے اورہمارے کلمے میں فرق ہی کیا ہے ؟وجہ اس کی خو د قادیانی اپنی کتاب میں یوں بیان کرتے ہیں:
مسیح موعود (مرزا غلام احمد قادیانی)خود محمد رسول اللہ ہیں جو اشاعت اسلام کے لئے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے،اس لئے ہم کو کسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں۔ہاں!اگر محمد رسول اللہ کی جگہ کوئی اور ہوتا تو ضرورت پیش آتی۔
[11]
مرزا قادیانی کے بیٹا اپنے باپ کے بارے میں کہتا ہے:
یعنی مسیح موعود(مرزا قادیانی)نبی کریم سے الگ کوئی چیز نہیں ،بلکہ وہی ہے جو بروزی رنگ میں دوبارہ دنیا میں آئے گا ،تو اس صورت میں کیا اس بات میں کوئی شک رہ جاتا ہے کہ قادیان میں اللہ نے پھر محمد صلعم کو(مرزا کی صورت میں )اتارا۔
[12]
مرزا غلام قادیانی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کا دعویدار ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی ہونے کا دعوے دار بھی تھا۔
میں وہی مسیح موعود (حضرت عیسیٰ )ہوں جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان احادیث صحیح میں خبر دی ہے جو صحیح بخاری اور مسلم اور دوسری صحاح میں درج ہیں۔
[13]
خدانے مجھے بشارت دی اور کہا کہ وہ مسیح موعود اور مہدی مسعود جس کا انتظار کرتے ہیں وہ توہے
[14]
لیکن سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق اس کی بدزبانی اور گستاخی کا عالم یہ تھا کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام پر یہودیوں سے بھی بڑھ کر بہتان درازی پر اترآیا تھا۔کہتا ہے کہ :
آپ(عیسیٰ علیہ السلام)کو گالیاں دینے اور بدزبانی کی اکثر عادت تھی ۔ادنیٰ ادنیٰ بات میں غصہ آجاتا تھا۔اپنے نفس کو جذبات سے روک نہیں سکتے تھے۔مگر میرے نزدیک آپ کی یہ حرکات جائے افسو س نہیں کیونکہ آپ تو گالیاں دیتے تھے اور (جواباً)یہودی ہاتھ سے کسر نکال لیا کرتے تھے۔یہ بھی یاد رہے کہ آپ(عیسیٰ علیہ السلام)کو کسی قدر جھوٹ بولنے کی بھی عادت تھی۔
[15]
نہایت شرم کی بات ہے کہ آپ (عیسیٰ علیہ السلام )نے (اپنے حواریو ں کو دی جانے والی)پہاڑی تعلیم کو جو انجیل کا مغز کہلاتی ہے ،یہودیوں کی کتاب طالمودسے چراکر لکھا ہے اور پھر ایسا ظاہر کیا ہے کہ گویا یہ میری تعلیم ہے۔
[16]
آپ (عیسیٰ علیہ السلام )کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے۔تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زناکار اور کسبی عورتیں تھیں۔جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا مگر شاید یہ بھی خدا ئی کے لئے ایک شرط ہوگی ۔آپ کا کنجریوں سے میلان اور صحبت بھی شاید اسی وجہ سے ہو کہ جدی مناسبت درمیان میں ہے ورنہ کوئی پرہیز گار انسان ایک جوان کنجری کو یہ موقع نہیں دے سکتاکہ وہ اس کے سر پر اپنے ناپاک ہاتھ لگاوے اور زناکاری کی کمائی کا پلید عطر اس کے سر پر ملے اور اپنے بالوں کو اس کے پیروں پر ملے۔سمجھنے والے سمجھ لیں کہ ایسا انسان کس چلن کا آدمی ہوسکتا ہے۔
[17]
یورپ کے لوگوں کو جس قدر شراب نے نقصان پہنچایا ہے ، اس کا سبب تو یہ تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام شراب پیا کرتے تھے ۔شاید کسی بیماری کی وجہ سے یا پرانی عادت کی وجہ سے۔
[18]
یہ ہے ادنیٰ سی جھلک اس کی نبوت کی شان میں کھلم کھلا گستاخیوں کی ورنہ اس کی گستاخانہ کلام سے تو اس خبیث کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔
مرزا غلام احمد قادیانی ملعون اور اس کے جانشینوں کی مسلمانوں سے متعلق رائے:
مرزا غلام احمد قادیانی ملعون اور اس کے جانشینوں کے مسلمانوں سے متعلق باالفاظ دیگرمرزا غلام احمد قادیانی ملعون کو نبی و مسیح نہ مانے والوں سے متعلق کیا رائے ہے وہ بھی جان لیتے ہیں،تاکہ یہ واضح ہوسکے کہ کیا ان تمام باتوں کے بعد قادیانیت کا تحفظ کسی طرح ممکن ہے؟
کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود ( مرزا غلام احمد قادیانی)کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے ، خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعودکا نام بھی نہیں سنا ہو ، وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں ۔
[19]
ہر ایک ایسا شخص جو موسیٰ کو مانتاہو مگر عیسیٰ کو نہیں مانتا یا عیسیٰ کو مانتا ہومگر محمد کو نہیں مانتا یا محمد کو مانتا ہو مگر مسیح موعود (مرزا غلام احمد قادیانی)کو نہیں مانتا وہ نہ صرف کافر ہے بلکہ پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
[20]
ہمارا فرض ہے کہ ہم غیر احمدیوں کو مسلمان نہ سمجھیں اور ان کے پیچھے نماز نہ پڑھیں کیونکہ ہمارے نزدیک وہ خدا تعالیٰ کے ایک نبی (مرزا غلام احمد قادیانی)کے منکر ہیں۔
[21]
حضرت مسیح موعود نے غیر احمدیوں کے ساتھ صرف وہی سلوک جائز رکھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسائیوں کے ساتھ کیا ۔غیر احمدیوں سے ہماری نمازیں الگ کی گئیں ،ان کولڑکیا ں دینا حرام قرار دیا گیا ،ان کے جنازے پڑھنے سے روکا گیا ۔اب باقی کیا رہ گیا جو ہم ان کے ساتھ مل کر کرسکتے ہیں؟
[22]
خود مرزا غلام احمد قادیانی کے اپنے نہ ماننے والوں کے بارے میں کیا رائے تھی:
جو شخص میری فتح کا قائل نہیں ہوگا تو صاف سمجھا جائے گا کہ اس کو ولد الحرام (زناء کاری کی اولاد)بننے کا شوق ہے اوروہ حلال زادہ نہیں۔
[23]
میری ان کتابوں کو ہر مسلمان محبت کی نظر سے دیکھتا ہے اور ان کے معارف سے فائدہ اٹھاتا ہے اور میری دعوت کی تصدیق کرتاہے اور اسے قبول کرتا ہے مگر رنڈیوں (بدکار عورتوں )کی اولاد نے میری تصدیق نہیں کی۔
[24]
(مجھ کو نہ ماننے والے )دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہوگئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئی ہیں۔
[25]
عقیدہ ختم نبوت:
قادیانیت کے نبوت کے حوالے سے درج بالا نظریات کوجاننے کے بعد ہم عقیدہ ختم نبوت کو قرآن وسنت کی روشنی میں سمجھ لیتے ہیں تاکہ عقیدہ قادیانت کی خباثت عیاں ہوسکے۔
قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ
[26]
(لوگو!)تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم )نہیں ہیں لیکن آپ اللہ تعالیٰ کے رسول اورخاتم النبین ہیں(یعنی آپ کے بعد کوئی نبی نہیں)۔
احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اس عقیدے کی وضاحت بالکل صراحت اور تواتر کے ساتھ کرتی ہیں جس سے انکار کسی صورت ممکن ہی نہیں ۔رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا:
((عَنْ أَبِی ھُرَیْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَثَلِی وَمَثَلُ الْا َٔنْبِیَاء ِ مِنْ قَبْلِی کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَی بُنْیَانًا فَأَحْسَنَہُ وَأَجْمَلَہُ اِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِیَةٍ مِنْ زَوَایَہُ فَجَعَلَ النَّاسُ یَطُوفُونَ بِہِ وَیَعْجَبُونَ لَہُ وَیَقُولُونَ ھَلَّا وُضِعَتْ ھَذِہِ اللَّبِنَةُ قَالَ فَأَنَا اللَّبِنَة وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّینَ))
[27]
میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے بہت ہی حسین وجمیل محل بنایا مگر اس کے کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی ،لوگ اس کے گرد گھومنے اور اس پر عش عش کرنے لگے اور یہ کہنے لگے کہ یہ ایک اینٹ کیوں نہ لگادی گئی ؟پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نے فرمایا:میں وہی (آخری )اینٹ ہو ں اور میں نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں۔
((عَنْ أَبِی ھُرَیْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ فُضِّلْتُ عَلَی الَأَنْبِیَاء ِ بِسِتٍّوَخُتِمَ بِیَ النَّبِیُّونَ))
[28]
مجھے چھ چیزوں میں دوسرے انبیاء کرام علیہم السلام پر فضیلت دی گئی ہے(اس میں آخری یہ ہے کہ )مجھ پر نبیوں کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔
((اِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدْ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُولَ بَعْدِی وَلَا نَبِیَّ))
[29]
رسالت و نبوت ختم ہوچکی ہے ،پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔
((وَاِنَّہُ سَیَکُونُ فِی أُمَّتِی ثَلَاثُونَ کَذَّابُونَ کُلُّھُمْ یَزْعُمُ أَنَّہُ نَبِیٌّ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّینَ لَا نَبِیَّ بَعْدِی))
[30]
میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے ،ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں،میرے بعدکوئی نبی نہیں ۔
شریعت میں قادیانیت کا حکم بطور منکر ختم نبوت :
عقیدہ ختم نبوت اوراس کے برخلاف قادیانی نظریات جاننے کے بعد یہ بھی جان لینا ضروری ہے کہ جو شخص عقیدہ ختم نبوت پر مکمل ایمان و یقین رکھنے والا نہ ہو تو اس کا شریعت میں کیا حکم ہے؟
صاحب روح المعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وکونہ ﷺخاتم النبیین ممانطق بہ الکتاب وصدعت بہ السنة، واجمعت علیہ الامت فیکفر مدعی خلافہ ویقتل ان اصر
[31]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے پر کتاب اللہ ناطق ہے اوراحادیث نے کھول کر سنادیا اور اس پر امت کا اجماع ہے ،پس اس کے خلاف جو دعویٰ کرے وہ کافر ہوجائے گا اور اگر اصرار کرے تو قتل کیا جائے گا۔
اس کی دلیل خلفائے راشدین کا اپنے دور خلافت میں نبوت کے دعوے دارکذابوں اور ان کا ساتھ دینے والے لوگوں کو مرتد قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف قتال کرنا ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بہت سے نبوت کے دعوے دار کذاب اٹھے تو خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہادکیا اور اس فتنے کو جزیرہ نماعرب میں جڑ سے اکھاڑ دیا۔اس فتنے کی شرانگیزی اتنی ہے کہ صحابہ کرام نے اس فتنے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگادی تھی چناچہ اس فتنے کی سرکوبی کے دوران کئی بدری صحابہ سمیت بارہ سوصحابہ کرام شہید ہوئے اور صرف ایک معرکہ جنگ یمامہمیں جوکہ مسیلمہ کذاب کے خلاف لڑی گئی ستر حفاظ صحابہ کرام نے جام شہادت نوش کیا ۔
شریعت میں قادیانیت کا حکم بطور گستاخِ نبوت :
جیساکہ ہم نے یہ سمجھا کہ قادیانیوں کی ایک حیثیت ان کا منکر ختم نبوت ہونا ہے اور ایک حیثیت ان کا گستاخِ نبوتہونا ہے جوکہ منکر ختم نبوت سے زیادہ سخت معاملہ ہے ،جس کی سزا بھی زیادہ سخت ہے۔چناچہ ہم مختصراً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کرام کی شان میں گستاخی کرنے والوں کا حکم از روئے شریعت جان لیتے ہیں تاکہ ان گستاخ قادیانیوں کی حیثیت کا معاملہ بھی طے ہوجائے۔اس سلسلے میں لکھے جانے والی سب سے عمدہ کتابالصارم المسلول علی شاتم الرسولیعنی ننگی تلوار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے کے لئےجو شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تصنیف کی اس میں سے چند حوالہ جات نقل کردیتے ہیں۔
ایک شخص حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دربار میں لایا گیا ،وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کیا کرتا تھا ، اس لئے آپ نے اس کو قتل کردیا۔پھر فرمایا:
مَنْ سَبَّ اللّٰہ أو سب أحداً من الأنبیاء فاقتلوہ
[32]
جو اللہ تعالیٰ کو گالی دے یا کسی پیغمبر کی شان میں گستاخی کرے تو اس کوقتل کردو۔
مہاجر بن ابی امیہ رضی اللہ عنہ یمامہ اور اس گردونواح کے علاقے پرحکمران تھے ۔اس علاقے میں دو عورتیں تھیں ان میں ایک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والی تھی اور ایک مسلمانوں کی ہجو کرتی تھی۔حضرت مہاجر رضی اللہ عنہ نے دونوں کا ایک ایک ہاتھ کٹ وادیا اور سامنے کے دانت تڑوادیئے ۔جب اس فیصلے کی خبر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو آپ نے ان کو یہ خط لکھا:
بَلَغنی الذی (سرت)بہ فی المرأة التی تغنَّت وزمرت بشتم النبی ﷺ، فلولا ما قد سبقتنی فیہا لأمرتک بِقَتْلِھَا؛ لأن حدَّ الأنبیاء لیس یشبہ الحدود؛ فمن تعاطی ذلک من مسلم فھو مرتدٌّ أو معاھدٍ فھو محارب غادر فانہ بلغنی أنک قطعت یَدَ امرأة فی أن تَغَنَّت بھجاء المسلمین ونزعت ثَنِیِّتَھَا، فان کانت ممن تدعی الاسلام فأدب وتقدمة دون المُثْلَة، وان کانت ذِمِیَّةٍ فلعمری لَمَا صفحت عنہ من الشرک أعظم، ولو کنت تقدمت الیک فی مثل ھذا لبلغت مکروھک، فاقبل الدَّعَةَ
[33]
مجھے تمہارے فیصلے کا علم ہو ا جو تم نے شان رسالت میں گستاخی کرنے والی عورت کے بارے میں کیا (کہ اس کا ہاتھ کٹوادیا اور دانت تڑوادیئے)،اگر تم مجھ سے پہلے ہی اس کو سزا نہ دے چکے ہوتے تو میں تم کو اس کے قتل کا حکم دیتا ،کیونکہ انبیاء کرام کی شان میں گستاخی کی سزا عام لوگوں کی سزا کے مشابہ نہیں ،اس لئے یاد رکھو،مسلمانوں میں سے جو کوئی بھی اس جرم کا مرتکب ہوتو وہ مرتدہے ،اگر معاہد (کافر)ایسی حرکت کرے توحربی عہد شکن ہےاسی طرح تم نے اس عورت کا بھی ہاتھ کاٹ دیا اور سامنے کے دانت نکل وادیئے ہیں جس نے گاکر مسلمانوں کی ہجو کی ،اس سلسلہ میں قابل لحاظ یہ بات ہے کہ اگر وہ مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتی تھی تو اس کے لئے تادیب و تعذیر ہی کافی تھی (قید وبند یا کوڑے وغیرہ کی سزا)مثلہ جائز نہ تھا اور اگر وہ ذمیہ تھی تو تم نے اس سے درگزر کیوں نہ کیا ،اس کا مشرک ہونا تو اس سے بڑا جرم تھا اور اگر میں پہلے سے تم کو ہدایت نہ کرچکا ہوتا تو تمہارے ناگوار فیصلے کی نوبت تک نہ آتی ۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
من شتم النبیَّ ﷺقُتل
[34]
جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے وہ واجب القتل ہے۔
خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یُقتل،وذلک أنہ من شتم النبیَّﷺ فھو مُرْتَدٌّ عن الاسلام،ولا یشتم مسلمٌ النبیَّ ﷺ
[35]
جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے ،اسے قتل کیا جائے کیونکہ وہ اس فعل سے مرتد ہوجاتا ہے ۔یہ حقیقت ہے کہ کوئی مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی جسارت نہیں کرسکتا۔
حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
أیما مسلم سب اللّٰہ أو سب أحداً من الأنبیاء فقد کَذَّبَ برسول اللّٰہ ﷺ، وھی رِدَّةٌ، یُسْتتاب فانْ رَجَع والا قُتِلَ، وأیما معاھدٍ عاند فسب اللہ أو سبّ أحداً من الأنبیاء أو جھر بہ فقد نَقَضَ العھد فاقتلوہ
[36]
جو مسلمان اللہ تعالیٰ کو گالی دے یاکسی نبی کی شان میں بکواس کرے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرنے والا ہوا اور یہارتدادہے ۔لہٰذا اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے اگر رجوع کرے تو ٹھیک ورنہ قتل کردیا جائے اور جو (کافر)معاہد عناد سے کام لیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی شان میں گالی گلوچ کرے یا کسی پیغمبر کو سب و شتم کرے یا ایسے کلمات علانیہ کہے تو وہ نقص عہدمرتکب ہو ا،اس لئے اس کو قتل کردو۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے کلام سے یہاں ایک بات واضح ہوئی کہ شریعت میں اللہ تعالیٰ کو یاپچھلے انبیاء میں سے کسی نبی کی شان میں گستاخی کرنے والے کو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرنے والا اور مرتدشمارکرتے ہوئے اس کو توبہ کے لئے مہلت دی گئی ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے کو توبہ کی مہلت دیئے بغیر ہر امتی کو قتل کرنے کااختیار عطافرمایا ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا؟توفرمایا :
قد وجب علیہ القتلُ،ولا یُستتاب؛ خالد بن الولید قَتَلَ رجلاً شتم النبیﷺولم یَسْتَتِبْہ
[37]
نہیں !اس کے لئے توبہ کی مہلت نہیں ،قتل کی سزا لازم ہوچکی ،اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ایک گستاخ کو قتل کیا اوراس سے توبہ کا مطالبہ نہ کیا۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی دلیل وہ قول بھی ہے جوکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے ازواجِ مطہرات پر افتراء بازی کرنے والے کے بارے میں فرمایا:
لقاذف أزواج النبی ﷺتوبةٌ،وقاذف غیرھن لہ توبةٌ
[38]
ازواجِ مطہرات پر بہتان باندھنے والے کی کوئی توبہ قبول نہیں (تو گستاخ رسول کی توبہ کیونکر قبول ہو)جبکہ دوسری عام عورتوں پر الزام تراشی کرنے والوں کی توبہ ہے۔
صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شان میں گستاخی کرنے والوں میں سے اکثرکے قتل کا حکم جاری کیا اور جس صحابی نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے کو آپ سے اجازت لئے بغیر از خود قتل کیااس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رضامندی کا اظہار کیا بلکہ اس کی تحسین بھی فرمائی ۔
یہودی سردار کعب بن اشرف کی ایذا رسانیوں اور کھلی گستاخیوں پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا :
((مَنْ لِکَعْبِ بْنِ الْأَشْرَفِ فَاِنَّہُ قَدْ آذَی اللَّہَ وَرَسُولَہُ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ أَتُحِبُّ أَنْ أَقْتُلَہُ یَا رَسُولَ اللَّہِ قَالَ نَعَمْ))
[39]
کعب بن اشرف کو کون ٹھکانے لگائے گا ؟کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو اذیت دی ہے۔محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یارسول اللہ !کیا اس بات کو آپ پسند کریں گے کہ اسے قتل کروں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں ٹھیک ہے!۔
بالآخر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے ایک خفیہ تدبیر کے ذریعے اس کوجہنم واصل کردیا۔اسی طرح طلیحہ اسدی اور اسود عنسی وہ کذاب تھے جن کے قتل کاحکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں دے دیا تھا۔
(بشمول موضوع بحث تحریک کے قائدسمیت) کچھ لوگ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ان واقعات سے جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے اذیت دینے والوں کو معاف کیا گیا،بنیاد بناکر کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جانی دشمنوں اور اذیت دینے والوں کو معاف کردیا تو ہم کون ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کرنے والوں کو سزا دیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گستاخ کو کبھی معاف کردیا اور کبھی اس کو قتل کرنے کاحکم دیا کیونکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا صوابدیدی اختیار تھا لیکن اگر صحابہ میں کوئی بھی بلااجازت کسی گستاخ کو قتل کردیتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تحسین فرماتے۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال فرمانے کے بعد توصحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین نے ہر گستاخ رسول کو واجب القتل سمجھا اور کسی کو بھی معاف نہ کیا اور یہی حکم بالاجماع قیامت تک ساری امت کے لئے ہے۔امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس مسئلہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
ومعلوم أن النّیْل منہ أعظم من انتھاک المحارم، لکن لما دخل فیھا حقہ کان الأمر الیہ فی العفو أو الانتقام، فکان یختار العفوفاذا تعذر عفوہ بموتہ ﷺبقی حقاً محضاً للّٰہ ولرسولہ وللمؤمنین لم یعف عنہ مستحقہ، فتجب اقامتہ
[40]
یہ بات معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ا یذا دینا بھی سب سے بڑی خلاف ورزی اور حرمتوں کی پامالی ہے لیکن چونکہ اس معاملے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا حق شامل ہوگیا ،اس لئے معاف کردینا یا یا انتقام لینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا اختیار ٹھرا اب جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد گستاخ کو معاف کرنا اہل ایمان کے اختیار میں نہیں اس لئے اس کو سزا دینا واجب ہے۔
اس کے علاوہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کعب بن اشرف کے واقعہ کو بیان کرنے کے بعد ایک اور حدیث نقل کرتے ہیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل فرمایا:
((انّہ نَالَ مِنَّا الأَ ذَی، وَھَجَانَا بِالشِّعْرِ، وَ لاَ یَفْعَل ھَذَا أَحَدٌ مِنْکُم اِلاَّ کَانَ السَّیْف))
[41]
کعب نے ہمیں اذیت دی ،اشعار کے ذریعے ہماری ہجو کی لہٰذا جوکوئی اس جرم کا ارتکاب کرے گا تہ تیغ کیا جائے گا۔
شریعت میں قادیانیوں کا حکم بطو رمرتد و زندیق:
اہل سنت والجماعت کے تما م مکاتب فکر اس بات پر متفق ہیں کہ قادیانیوں کا حکم مرتداور زندیق کا ہے ،اور جیساکہ ہم پہلے سمجھ چکے کہ قادیانیوںکا مرتد ہونے کا حکم اس لئے بھی ہے کہ وہ مسلمان ہونے کے دعوے دار ہونے کے ساتھ ساتھ منکر ختم نبوتاور گستاخِ نبوتبھی ہیں ۔لیکن وہ زندیق کیوں قرار پائے اور زندیق کس کوکہتے ہیں یہ بھی سمجھ لینے کی ضرورت ہے!
یوں تو شریعت کی نظرمیں کفر کی کئی قسمیں ہیں لیکن ان میں سے ایک کفر تو وہ ہے جس میں کھلم کھلا شریعت ِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے کفر کااظہارہو ،تو ایسا کرنے والا کافر کہلاتا ہے جیسے کہ یہودی ،نصرانی اور ہندووغیرہ۔ایک کفر کی قسم یہ ہے کہ کسی خوف یا مفاد کے تحت آدمی زبان سے تو اسلام و ایمان کا اقرار کرے لیکن دل سے اس پر ایمان نہ رکھے،ایسے شخص کو منافق کہا جاتا ہے۔لیکن ایک کفر کی قسم یہ ہے کہ آدمی زبان سے تو اسلام کا اقرار اور شریعت ِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلیم کرے مگر ساتھ میں اس کی ایسی تاویل و تشریح کرے جس سے شریعت کے واضح احکامات کی حقیقت ہی بدل جائے۔جیسے کہے کہ نمازسے مراد دُعایا ذکر کرنا ہے،یاکہے کہ زکوٰۃ سے مرا د تزکیہ نفس ہے نہ کہ مال میں سے ایک خاص مقدار کا دینا۔ تو جوکوئی عقیدے یا واضح احکامات میں ایسی تحریف کرے اور پھر اس تحریف کو عین اسلام سمجھے اس کو شریعت میں زندیق کہا جاتا ہے۔
قادیانیوں کے اس لحاظ سے زندیق ہونے میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے شریعت کے واضح عقائد و احکامات میں ایسی تحریفات کر دی ہیں جس کے مرتکب کوشریعت نے کافر قرار دیا ہے ، (مثلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء تسلیم کرنے کے باوجود مرزا قادیانی کو نبی مانناوغیرہ)اس کے باوجودوہ اپنے اس عقیدے کو عین اسلام قراردیتے ہیں اور جو ان کے عقائد بد کو تسلیم نہ کرے اس کو یہ الٹا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں ۔
مرتد اور زندیق کی سزا ایک ہی ہے ،اوروہ ہے قتل مگرجمہور علماء جن میں امام مالک ،امام احمدرحمہمااللہ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے ایک قول کے مطابق فرق صرف اتنا ہے کہ مرتد کو تین دن کی توبہ کی مہلت دی جاتی ہے تا کہ اس کے شبہات دور ہوجائیں سوائے گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے، جبکہ زندیق کو توبہ کی مہلت بھی نہیں دی جاتی، اس لحاظ سے زندیق کا معاملہ مرتد سے بھی سنگین ہے ۔لہٰذا جس کا زندیق ہونا ثابت ہوجائے اس کے باوجود وہ اپنے زندقہ سے انکاری ہوتو اس کوبغیر مہلت دیئے قتل کردیا جاتاہے ۔اس سلسلے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ منقول ہے:
أُتی علی رضی اﷲ عنہ بأناسٍ من الزنادقة ارتدوا عن الاسلام، فسألھم، فجحدوا، فقامت علیھم البینة العدول، قال: فقتلھم ولم یستتبھم، وقال:وأُتی برجلٍ کان نصرانیاً وأسلم، ثم رجع عن الاسلام، قال: فسألہ فأقرّ بما کان منہ، فاستتابہ، فترکہ فقیل لہ: کیف تستتیب ھذا ولم تستتب أولئک؟ قال:ان ھذا أقرّ بما کان منہ، وان أولئک لم یقروا وجحدوا حتی قامت علیھم البینة، فلذلک لم أستتبھم، رواہ الامام أحمد
[42]
اسلام سے پھرجانے والے زندیقوں کی ایک جماعت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس لائی گئی ۔آپ نے ان سے ان کے ارتداد کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے اس سے انکار کیا ۔پس عادل گواہوں کی شہادت پیش کی گئی توحضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو توبہ کا موقع نہ دیا اور ان کو قتل کردیا۔اسی طرح ایک شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس لایا گیا اس نے عیسائیت چھوڑ کر ا سلام قبول کیا اور بعد میں پھر مرتد ہوگیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اس سے مرتد ہونے کا سوال کیا ،اس نے اقرار کیا ۔آپ نے توبہ کا مطالبہ کیا اور اس کی توبہ کرنے پر اس کو چھوڑ دیا۔اس پر آپ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ آپ نے اس مرتد سے تو بہ کا مطالبہ کیا جبکہ ان زندیقوں کو اس کا موقع نہ دیا ، ایسا کیوں ہے؟فرمایا :اس نے اپنے ارتداد کا اقرار کیا جبکہ ان لوگوں نے انکار کیا یہاں تک کہ مقدمہ میں ان کے خلاف بذریعہ شہادت ثبوت مہیا ہوگیا اس لئے توبہ کی گنجائش باقی نہ رہی۔
[43]
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
فھذا من أمیر المؤمنین علی رضی اﷲ عنہ بیانٌ أن کل زندیقٍ کتم زندقتہ وجحدھا حتی قامت علیہ البینة قتل ولم یستتب
[44]
یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جانب سے وضاحت ہے جو زندیق اپنا زندقہ چھپائے اور اس جرم کا انکار کرے مگردلیل سے اس کا جرم ثابت ہوجائے تو اس کی سزا موت ہے،اس کو توبہ کا موقع نہ دیا جائے گا ۔
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یُقْتَلُ الزَّنَادِقَةُ وَلَا یُسْتَتَابُونَ
[45]
زندیقوں کو قتل کیا جائے گا اور ان کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
اُقْتُلْ الزِّنْدِیقَ سِرًّا فَاِنَّ تَوْبَتَہُ لَا تُعْرَفُ
[46]
چھپے ہوئے زندیق کو (جوکہ اپنا کفر چھپاتا ہے )قتل کردو اس لئے کہ اس کی توبہ کا اعتبار نہیں۔
منکرختم نبوتاور گستاخِ نبوت کو کافر نہ سمجھنا :
پس جو کوئی بھی قرآن و حدیث اور صحابہ کرام کے ان واضح نصوص کے بعد بھی منکر نبوت اور گستاخِ نبوت کو کافر نہ سمجھے تو اس کا دین وایمان سلامت نہیں رہتا اور خود بھی کافروں کی صف میں کھڑا ہوجاتاہے ۔امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ امام محمد بن سحنون مالکی رحمہ اللہ جوکہ امام شافعی و امام ا حمد بن حنبل کے پایہ کے امام تھے ،ان کا یہ قول نقل کرتے ہیں :
أجمع العلماء أن شاتم النبی ﷺ المنتقص لہ کافر،والوعید جارٍ علیہ بعذاب اللہِ، وحُکمہ عند الأُمة القتل، ومن شکَّ فی کفرہ وعذابہ کفرَ
[47]
علماء کا اتفاق ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شاتم اور گستاخ کافر ہے ،اس پر عذاب الٰہی کی وعید ہے اور امت کے نزدیک اس کا شرعی حکم قتل ہے اور جو شخص اس کے کفر و عذاب میں شک کرے وہ بھی کافر ہوجاتاہے ۔
مسلمہ امہ کے لئے لمحہ فکریہ :
اسے مسلمہ امہ کی بے خبری یا غفلت کہیں یا پھر علماء اور دینی عناصر کا بھولا پن کہ قادیانیوں کے اس قدر کفر وضلالت پر مبنی عقائد کے باوجود اکثر اسلامی ممالک میں ان پر کوئی قدغن نہیں بلکہ ان کو کھلی آزادی حاصل ہے۔
مگر غضب پر غضب یہ کہ جن اسلامی ممالک میں ان کے خلاف عوام الناس میدان میں آگئے تھے اور قریب تھا کہ قادیانی عام مسلمانوں کے غیض وغضب کا نشانہ بن جاتے ،ان کو، ان کی املاک کواور ان کی عبادت گاہوں کو غیر مسلم اقلیتقرار دے کر آئینی و قانونی تحفظ فراہم کردیا گیا اور ان کو وہ حیثیت عطاکردی گئی جوکہ اسلامی حکومت میں جزیہ دینے والے کافروں کی ہوتی ہے کہ ان کے مال و جان ، ان کی املاک اور عبادت گاہوں کا تحفظ کیا جاتا ہے، اور یوں ان خبیث صفت لوگوں کے بارے میں شریعت نے جو سزا مقر ر کی ہے، اس پر بڑی عیاری و مکاری سے پردہ ڈالتے ہوئے ان کو، ان کی اصل سزا سے بچالیا گیا۔
اس ضمن میں دینی کہلانے والی جماعتیں جو کہ ایک طرف قادیانیت کی شدید مخالفت کرتی ہیں (اور اس معاملے میں ان کے عام کارکنان کے خلوص میں کوئی شک و شبہ بھی نہیں )مگر جب کبھی قادیانیوں کی خبیث حرکات پر حکومت وقت کی جانب سے کسی سرزنش کے بجائے تحفظفراہم کرنے پر مسلمانوں کی جانب سے کوئی اقدام کردیا جائے تو یہ قادیانیت مخالف جماعتیں اس اقدام کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے ڈھکے چھپے الفاظ میں قادیانیت کے تحفظ کی بات کرتی نظر آتی ہیں یا پھر ایسے اقدامات کو بھارتی و اسرائیلی ایجنسیوں را اور موساد کے ایجنٹوں کی کاروائی قرار دیتی ہیں۔اس کی سب سے بہترین مثال 28مئی2010ء کو لاہور میں ہونے قادیانیوں کی نام نہاد عبادت گاہ پر ہونے والے حملے کے بعد اندینیکہلانے والی جماعتوں کے قائدین کی جانب سے دیئے جانیوالے بیانات ہیں۔ایک دینیکہلانے والی جماعت کے رہنما جو اس وقت نائب امیر ہیں ،ان سےAry Newsکے ایک ٹی وی اینکر نے پوچھاکہ :
یہ جو واقعہ ہوا ہے احمدیوں کی عبادت گاہ پر حملے کا ،کیایہ قابل مذمت ہے لیاقت بلوچ صاحب ؟(تو جواب میں انہوں نے کہا کہ) :جی بالکل قابل مذمت ہے۔
[48]
اور تو اور عالمی مجلس ختم نبوت والوں کی طرف سے یہ بیان جاری کیا گیا :
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے لاہور میں دو قادیانی عبادت گاہوں میں وحشیانہ فائرنگ اور بم دھماکوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بے گناہوں کے قتل عام کی کسی بھی مذہب میں کوئی گنجائش نہیں ہے، جن لوگوں نے یہ واردات کی ہے وہ کسی رعایت کے مستحق نہیں۔
[49]
یہاں یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ کافروں کی عبادت گاہوں پر حملے تو کسی بھی صورت جائز نہیں تو اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اوّلاً یہ بات ٹھیک ہے کہ کافروں کی عبادت گاہوں کوتحفظ حاصل ہوتا ہے لیکن اس وقت جبکہ دار الاسلام موجود ہواور یہ کہ یہ تحفظ اُن کفار کی عبادت گاہوں کو حاصل ہوتا ہے جوکہ دار الاسلام کو جزیہ دینے پر آمادہ ہوجائیں۔دوسری با ت یہ کہ یہ تحفظ عام کفار کو حاصل ہوتاہے مگر مرتد و زندیقکو نہیں اور جیساکہ ہم سمجھ چکے کہ قادیانیوں کاحکم کافر سے بڑھ کر مرتد وزندیق کا ہے لہذا وہ واجب القتل ہیں۔پس شریعت میں جن لوگوں کا حکم واجب القتلکا ہو ، تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن ان کے بارے ارشاد فرمایا تھا:
((اقْتُلُوھُمْ وَاِنْ وَجَدْتُمُوھُمْ مُتَعَلِّقِینَ بِأَسْتَارِ الْکَعْبَةِ))
[50]
اگر تم انہیں کعبۃ اللہ کے پردوں سے چمٹا ہوا بھی پاؤتو ان کو قتل کردو۔
پس شریعت جن لوگوں سے جینے کا حق چھین لے توسوال یہ ہے کہ کیا ان کی عبادت گاہوں کا کوئی وجود بھی شرعی طور پر ممکن ہے؟
قادیانیت کے تحفظ کے سب سے بڑے علمبردار:
مگر جس طرح قادیانیت کے تحفظکے لئے اردوبولنے والوں کی ترجمانی کا دعویٰ کرنے والی تحریک خم ٹھونک کر میدان میں آئی اور اس تحریک کے قائد نے قادیانیت کے تحفظکے لئے کی جانے والی اپنی کوششوں پر فخر کا مظاہر کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔
ایک ٹی وی انٹرویو جوکہ ستمبر2009کو ایکسپریس ٹی وی کی جانب سے بدنامِ زمانہ اینکر مبشر لقمان نے اس تحریک کے قائد سے لیا تھا۔ اس میں اینکر کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وہ قادیانیوں کی حمایت کرتے ہوئے کہتے ہیں :
ایم کیوایم واحد آرگنائیزیشن ہے کہ جب قادیانیوں کے سربراہ مرزا طاہر بیگ صاحب کا انتقال ہوا تھا،واحد الطاف حسین تھا جس نے تعزیتی بیان دیا تھا جس پر کئی اخبارات نے اداریئے لکھے کہ میں نے کفر کیا ،اور (اب)میں یہ کفر دوبارہ کرنے جارہا ہوں،جس کا دل چاہے کفر کا فتویٰ دے۔قادیانیوں کو اگر آپ مسلمان نہیں سمجھتے تو نہ سمجھیں ۔کس نے کہا ہے(کہ سمجھیں)؟لیکن جو قادیانی یا احمدی پاکستان میں بستے ہیں انہیں اپنے عقیدے ، مسلک کے مطابق زندگی گزارنے کی برابر کی آزادی ہونی چاہیے،چاہے تما م لوگ مجھ سے ناراض ہوجائیں لیکن میں (یہ )حق بولنا نہیں چھوڑوں گا۔
اینکر نے ایک اور سوال پوچھتے ہوئے کہا:
ہمارا 73ء کا آئین کہتا ہے کہ اقلیتوں کو ان کا اپنے مذہب کی تبلیغ کی اجازت ہے تو کیاجماعت احمدیہ(قادیانیوں )کو بھی اپنے مذہب کی تبلیغ کی اجازت ہونی چاہیے؟(اس کے جواب میں انہوں نے کہا)بالکل ہونی چاہیے ،میری نظر میں ہونی چاہیے،ہر کسی کوہونی چاہیے۔(یہ ) میں ایسے ہی نہیں کہہ رہا!میں نے احمدیوں (قادیانیوں)کا لٹریچر بھی پڑھا ہے،میں نے احمدیوں کے پروگرام بھی دیکھیں ہیں،میں نے دیکھا وہی کلمہ ہے، اور سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانتے ہیں۔اب(پس پردہ)وجھگڑا ہے اس کی بحث میں جانا نہیں چاہتا۔آپ انہیں مسلمان نہیں مانتے نانہ مانیں،ہندوؤں کا اللہ رسول جو ہے تواس کا اپنا اللہ رسول ہے،اس کوتو آپ تسلیم کرتے ہیں تو احمدیوں کو بھی تسلیم کیجئے ۔یہ جرأت پاکستان کے اندر کسی میں نہیں ہے،احمدیوں پر ظلم نہیں ہونا چاہیے،انسان ہیں ،وہ پاکستانی ہیں،اور میں آپ کو ایک بات اور بتادو مبشر بھائی پاکستان کا سب سے پہلا نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبد السلام وہ بھی احمدی تھا(اینکر اس دوران کہتاہے Who is a great man)۔اب آپ اس کا نام صرف اس لئے نہ لیں یا طلباء کو اس لئے نہ پڑھایا جائے کہ ڈاکٹر عبد السلام احمدی تھے۔یہ سراسر ظلم ہے اور زیادتی ہے۔اس ناانصافی کوختم ہونا چاہیے۔
[51]
پھر اس کے چند دن بعد علماء کو دی گئی افطار پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
اب آپ بتائے کہ کوئی سچ بات کر ہی نہیں سکتا ۔میں صر ف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ احمدی (قادیانی )پاکستانی شہری ہیں جس طرح کرسچن ہیں،ہندو ہیں ،سکھ ہیں،پارسی ہیں۔بھئی ان کو بھی جینے کا حق ملنا چاہیے۔
[52]
اہلیان گلشن اقبال کراچی کی جانب سے دی گئی افطار پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں:
آئین پاکستان کے تحت احمدیوں(قادیانیوں )کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ پاکستان کے شہری نہیں،(لہٰذا)انہیں قتل کردیا جائے۔مذہبی اختلافات کی بنیاد پر ایک دوسرے کے قتل کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ۔جب میں انسانیت کی بات کرتاہو ں تومجھے ایجنٹ قرار دے دیا جاتاہے لیکن جو سچ ہے اور جو حق ہے وہ کہتا رہوں گا،جھوٹ کی تبلیغ نہیں کروں گا۔جب اللہ تعالیٰ مسلم اور غیر مسلم کو بلاتخصیص تمام نعمتیں عطا کررہا ہے تو ہم ان سے یہ نعمتیں چھیننے والے کون ہوتے ہیں۔
[53]
جب کبھی قادیانیوں پر کوئی آفت ٹوٹتی ہے تو سب سے پہلا مذمتی بیان اس تحریک کے قائد کی جانب سے آتا ہے۔نواب شاہ میں ایک قادیانی کے مارے جانے پر ایک نیوز رپورٹ یوں تھی:
(الطاف حسین نے )نواب شاہ میں مسلح دہشت گردوں کے ہاتھوں احمدی (قادیانی )فرقے کے ضلعی امیر محمد یوسف کے بہیمانہ قتل کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ہے اور اس واردات کو مذہبی انتہا پسندیکا تسلسل قرار دیا ہے۔
[54]
اسی طرح تعزیتی اور مذمتی بیانات لاہور میں قادیانیوں کی عبادت گاہ پر ہونے والے حملے پر جاری کئے گئے۔
Ary Newsکے ایک پروگرام میں PJ Meerکے اس سوال کے جواب میں کہ کیا قادیانیوں کو پارلیمنٹ کے ممبر بننے کا حق ہے تو اس کے جواب میں اس تحریک کے قائد کہتے ہیں:
دیکھئے صاحب!پی جے بھائی!ایم کیوا یم میں کوئی رہے یا نہ رہے ،میری بطور ایم کیوایم کے بانی کی حیثیت سے، میری شروع سے یہ preachingرہی ہے کہ تمام پاکستانی برابر ہیںچاہے کرسچن ہوں ،چاہے ہندو ہوں،چاہے سکھ ہوں،کسی بھی مذہب سے تعلق ہو یا احمدی (قادیانی ) ہوں، ان کو حق ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے رکن بنیں ۔پاکستان میں شاید کسی اور میں اتنی جرأت نہ ہوکہ وہ یہ بات کہہ سکے ۔مجھے معلوم ہے کہ مجھ پر اس بات پر فتوے لگیں گے،میری صحت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔میرا فیصلہمالک یوم الدینجو روز محشر اللہ تعالیٰ فیصلہ کرے گا ،میں نے اس کے حضور پیش ہونا ہے وہ میرا فیصلہ کرے گا،دنیا کا کوئی مولوی میرا فیصلہ نہیں کرسکتا۔
[55]
قادیانیت کی حمایت میں تحریک کے قائد کی جانب سے دیئے جانے والے بیان پر قادیانیوں کے موجودہ سربراہ مرزا مسرور بیگ ملعون،اس تحریک کے قائد کے بارے میں جو فرماتے ہیں ،وہ قابل توجہ ہے :
گزشتہ دنوں کسی اخبار کے حوالے سے مجھے خبر بھجوائی گئی ایسی خبروں کو میرے علم میں لانے کے لئے اور شاید میری رائے پوچھنے کے لئے بھی۔وہ خبر تھی الطاف حسین صاحب کے حوالے سے جو ایم کیو ایم کے لیڈر ہیں،کہ انہوں نے احمدیوں(قادیانیوں )کے حق میں کھل کر بیان دیا ہے اور احمدیوں کے ساتھ پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے ،ظلم وزیادتی ہورہی ہے، اس کی کھلی کھلی مذمت کی ہے کہ یہ سب کام غلط کئے جارہے ہیں.جہاں تک الطاف حسین صاحب کے بیان کا تعلق ہے ،ہر محب وطن پاکستانی میرے خیال میں یہ چاہے گاکہ ملک میں امن ہو اور ملائیت کا خاتمہ ہوبڑے خوشی کی بات ہے ،مجھے خوشی ہوئی اس بات پر کہ الطاف حسین صاحب نے یہ بیان دیااور جرأ ت کا مظاہرہ کیابلکہ اس دفعہ اچھا بیان دے کر کافی جرأ ت کا مظاہر ہ کیا ہےاور ہاں میں یہ ضرور کہوں گا کہ اللہ کرے جوبھی ملک کو بچانے کے لئے ان نفرتوں کی دیوار کو گرانے کی کوشش کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو کامیاب کرے۔ہر احمدی (قادیانی )کو دعاکرتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لیڈر پیدا کرے ملک میں۔
[56]
فیصلہ آپ کے ہاتھ میں! !
قادیانیت کے عقائد،شریعت میں ان کے بارے میں حکم اور تحریک کے قائد کے عزائم کو اتنی تفصیل کے ساتھ بیان کرنا س لئے ضروری ہوا کہ کسی بھی تحریک کے بارے میں فیصلہ کرنے سے پہلے یہ لازم ہے کہ اس کے عزائم کو شریعت کی روشنی میں پرکھا جائے تاکہ اصل حقیقت سامنے آسکے اور یہ بھی کہ اس معاملے میں کسی ناانصافی اورعصبیت سے بچاجاسکے۔
اب جبکہ تحریک کے قائد تو اپنا فیصلہ سناچکے کہ کوئی ان کی تحریک میں رہے یا نہ رہے وہ قادیانیوں کی اعلانیہ حمایت سے پیچھے نہ ہٹیں گے چاہے ان کا دین و ایمان جاتا رہے اور یہ کہ قادیانیوں کی حمایت سے اگر کفر بھی لازم آتا ہے پھر بھی وہ یہ کفر کرتے رہیں گے اور دوسری طرف یہ بھی واضح ہوگیا کہ اس دنیامیں قادیانیوں جیسے عقائد رکھنے یا ان کی حمایت کرنے والوں کا دنیا میں کیا حکم ہے اور روزِ محشر ان کا کیا انجام ہوگا!!
لہٰذا فیصلہ اب اس تحریک میں شامل اہل السنۃ سے تعلق رکھنے والے کارکنا ن اور ہمدردوں اور ہر اس فرد نے کرنا ہے، جوکہ کسی بھی ایسی جماعت یا گروہ سے وابستہ ہوجوکہ قادیانیت کی حمایت کرتی ہویا ان کے تحفظ کی بات کرتی ہو،کہ آیااسے اپنا دین و ایمان محبوب ہے یا کفر کے ساتھ کھڑا ہونا ۔پس جس کی قسمت میں رسول اللہ کی شفاعت سے محرومی اور روزِ محشر کی رسوائی لکھی ہوگی اس پر ان باتوں کا شاید کوئی اثر بھی نہیں ہوگامگر جس کو اپنا دین و ایمان محبوب ہوگا اور وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبار ک سے روزِ محشر آب کوثر کا جام پینے اور آپ کی شفاعت کا طالب ہوگا وہ ایسی ہر تحریک سے اظہارِ لاتعلقی اور برأت کا اعلان کردے گا۔



[1] الکھف:۷۔

[2] الفرقان:۲۰۔

[3] ابن ماجة رقم الحدیث :۳۹۳۹۔مسند احمد رقم الحدیث :۱۶۸۲۷۔

[4] ایکسپریس ٹی وی ستمبر 2009۔ٹی وی اینکر مبشر لقمان کا پروگرام۔

[5] خط مسیح حضرت مسیح موعود بہ طرف ایڈیٹر اخبار عام لاہور۔

[6] بدر ،۵مارچ ۱۹۰۸ء۔

[7] حقیقۃ النبوت، مصنف مرزا بشیر الدین محمود احمدصاحب قادیان ص۲۲۸۔

[8] حقیقۃ النبوت، مصنف مرزا بشیر الدین محمود احمدصاحب قادیان ص۱۷۴۔

[9] کشتی نوح ص۱۵خزائن ص ۱۶ج۱۹۔

[10] ایک غلطی کا ازالہ ص۸خزائن ص۲۱۲ج۱۸۔

[11] کلمۃ الفصل ص۱۵۸۔

[12] کلمۃ الفصل ص۱۰۵مصنفہ مرزا بشیر احمد پسر مرزا قادیانی ۔

[13] حقیقی اسلام ص۲۹،۳۰۔

[14] تذکرہ ص۲۵۷طبع سوم اتمام الحجۃ ص ۳ درروحانی خزائن ج۸ص۲۷۵۔

[15] حاشیہ انجام آتھم ص۵ خزائن ص۲۸۹ج۱۱۔

[16] حاشیہ انجام آتھم ص۶خزائن ص۲۹۰ج۱۱۔

[17] ضمیمہ انجام آتھم ص۷ ،خزائن ص۲۹۱ج۱۱۔

[18] حاشیہ ص۷۳خزائن ص۷۱ج۱۹۔

[19] آئینہ صداقت مصنف مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ قادیان ص۳۵۔

[20] کلمۃ الفصل ،مصنف صاحبزادہ بشیر احمد قادیانی مندرجہ ریویوآف ریلیجنزص۱۱۰۔

[21] انوار خلافت ص ۹۰۔

[22] کلمۃ الفصل ،مصنف صاحبزادہ بشیر احمد قادیانی مندرجہ ریویوآف ریلیجنزص۱۶۹۔

[23] انوار اسلام ص۳۰ روحانی خزائن ص۳۱ج۹۔

[24] آئینہ کمالات ص۵۴۷،۵۴۸۔روحانی خزائن ص ۵۴۷ج۵۔

[25] نجم الہدیٰ ص۵۳روحانی خزائن ص۵۳ج۱۴۔

[26] الاحزاب:۴۰۔

[27] صحیح بخاری ج۱۱ص۴۰۴رقم:۳۲۷۱۔صحیح مسلم ج۱۱ص۴۰۴رقم:۴۲۳۹۔

[28] صحیح مسلم ج۳ص۱۰۹رقم:۸۱۲۔

[29] سنن ترمذی ج۸ص۲۳۰رقم:۲۱۹۸۔مسند احمد ج۲۷ص۳۶۹رقم:۱۳۳۲۲۔

[30] سنن ترمذی ج۸ص۱۵۶رقم:۲۱۴۵۔ابوداود ج۱۱ص۳۲۲رقم:۳۷۱۰۔

[31] روح المعانی ج۸ص۳۹۔

[32] الصارم المسلول علی شاتم الرسول ج۱ص۱۳۵۔

[33] الصارم المسلول علی شاتم الرسول ج۱ص۱۳۵۔

[34] الصارم المسلول علی شاتم الرسول ج۱ص۱۲۔

[35] الصارم المسلول علی شاتم الرسول ج۱ص۱۲۔

[36] الصارم المسلول علی شاتم الرسول ج۱ص۱۳۵۔

[37] الصارم المسلول علی شاتم الرسول ج۱ص۱۱۔

[38] الصارم المسلول علی شاتم الرسول ج۲ص۳۵۔

[39] صحیح البخاری ج۱۰ص۲۳۱رقم :۲۸۰۶۔

[40] الصارم المسلول علی شاتم الرسول ج۱ص۱۵۶۔

[41] الصارم المسلول علی شاتم الرسول ج۱ص۶۴۔

[42] الصارم المسلول علی شاتم الرسول ج۲ص۴۴۔

[43] اس روایت کو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے۔

[44] الصارم المسلول علی شاتم الرسول ج۲ص۴۴۔

[45] احکام القرآن لجصاص﷫ج۵ص۱۵۷۔

[46] احکام القرآن لجصاص﷫ج۵ص۱۵۷۔

[47] الصارم المسلول علی شاتم الرسول ج۲ص۱۳۲۔

[48] دیکھئے http://youtu.be/kacLtQmINg0۔

[49] روزنامہ جسارت۔30مئی2010ء کااداریہ۔

[50] سنن النسائی ج۲۱ ص۷۲۴ رقم الحدیث:۳۹۹۹۔

[51] دیکھئے http://www.youtube.com/watch?v=2bk7yRdOnI4۔

[52] Ary Tv news reportاوردیکھئے http://youtu.be/jHYLZMJ1D8s۔

[53] Ary Tv News Report۔

[54] Ary Tv News Reportاور دیکھئے http://youtu.be/QHa92DRQVOU۔

[55] دیکھئے http://youtu.be/jp7BZ_vv_OI۔

[56] دیکھئے http://youtu.be/q_Xybp74Cok۔



 

QaiserMirza

Chief Minister (5k+ posts)
انتظار کرو مہوش بی بی کی پانچ کلو میٹر طویل پوسٹ کی جس میں وہ ثابت کریں گی کہ م ق م مظلوموں کی جماعت ہے اور باقی سب ظالم ہیں
 
عقل رکھنے والوں کے لئے ان سب باتوں میں کھلی نشانیاں ہیں………!!
بے حیائی اور بے راہ روی
یوں تو ملک کی اکثر سیاسی جماعتوں (بشمول اس تحریک )کے قائدین اور رہنماؤں کی اکثریت بددین،بد اخلاق ہونے کے ساتھ ساتھ بدکردار بھی ہے جوکہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان جماعتوں کے کارکنان و ہمدردوں میں بھی بد دینی بد کرداری پروان چڑھ رہی ہے جس کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں ۔
لیکن جس منظم اور محکم انداز میں بددینی و بدکرداری کے ساتھ بے حیائی اور بے راہ روی کو عوام الناس میں اس تحریک کے ذریعے فروغ دیا جارہاہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔اس بات کا اندازہ صرف اس تحریک کے قائد کی مختلف جلسوں اور پریس کانفرنسس میں اعلانیہ بے حیائی اور بے غیرتی پر مبنی گفتگوسے کیا جاسکتاہے جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔
ماضی قریب میں اس کی سب سے بڑی مثال 19فروری ۲۰۱۲ء کو منعقدہ خواتین کا جلسہ ہے جس کوبراعظم ایشیاء کی تاریخ میں خواتین کاسب سے بڑا جلسہ قرار دیاگیا اور اس جلسہ میں جس طرح بدنامہ زمانہ فنکاراؤں اور گلوکاراؤں کے ذریعے مسلمانوں کی مائوں بہنوں کی عزت و ناموس کو رسوا کیا گیا اور ان کو حیاء باختہ رقص پر مجبور کیا گیا اور اس تحریک کے قائد کی جانب سے پوری دنیا کے سامنے جو حیاء سوز تقریر کی گئی اس نے تو غیرت وحمیت کا جنازہ ہی نکال دیا۔
غیرت نام تھا جس کا ،رخصت ہوئی مسلماں کے گھر سے
صحیح فرمایا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے:
((اِذَا لَمْ تَسْتَحْیِ فَافْعَلْ مَا شِئْتَ))
’’ جس کے اندر سے حیاء وغیرت نکل جائے وہ جو چاہے کرتا پھرے‘‘۔
اردو بولنے والی ماؤں بہنوں کو غور فکر کرنا چاہیے کہ کل تک جو مائیں بہنیں حیا ء وعفت کا پیکر ہوا کرتی تھیں آج کس کے ایجنڈے پر ان کی عزت و ناموس کو گلی گلی رسوا کیا جارہا ہے اور سوچنا چاہیے اس تحریک کے کارکنان کو کہ جو گفتگوان کے قائد ان کی ماؤں بہنوں کے سامنے کرتے ہیں اگر وہ گفتگوکوئی اور کرے تو کیا وہ اس شخص کی جان کو درپے نہ ہوجائیں گے اور یہ بھی کہ کیا ان کے آباؤاجداد نے اس لئے یہ ملک حاصل کیا تھا کہ ان کی بیٹیاں سڑکوں پررقص کریں اور بھنگڑے ڈالیں؟ جان لیں !اگر اس طرز عمل کا تدارک نہ کیا گیا تو پھر ہماری ماؤں بہنوں کی عزت وناموس کو بچانے والا کوئی نہ ہوگا؟
سیکولر ازم اور لبرل ازم
یہ تحریک لبر ل ازم اور سیکولر ازم کی حامی جماعتوں میں سے ایک ہے ۔یہ تحریک نہ صرف ان دونوں فلسفوں پر یقین رکھتی ہے بلکہ اس کے فروغ اور اس کی بنیاد پر ریاستی امور چلانے کا بھی عزم رکھتی ہے۔اس بات کا اندازہ تحریک کے قائد اور اس کے رہنماؤں کے بیانات اورخاص کر ان کی ’’فکری نشستوں ‘‘میں ہونے والی گفتگو سے کیا جاسکتاہے جس کا اس تحریک کے عام کارکنان بھی بخوبی علم رکھتے ہیں۔بدنامہ زمانہ اینکرمبشر لقمان کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران اس تحریک کے قائد نے برملاکہا کہ :
’’ہم لبرل لوگ ہیں ‘‘۔
چنانچہ اس ضمن میں لبرل ازم اور سیکولر ازم کو مختصراً سمجھنا نہایت ضروری ہے تاکہ اس بات کا اندازہ بخوبی کیا جاسکے کہ ان نظریات کے فروغ اور نفاذ کا کیا مطلب ہے؟اور آدمی کے دین و ایمان پر اس کے کتنے بھیانک اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
لبرل ازم کی تعریف وتاریخ :
لفظ ’’لبرل‘‘قدیم روم کی لاطینی زبان کے لفظ ’’لائیبر‘‘(Liber)اور پھر ’’لائبرالس‘‘(Liberalis)سے ماخوذ ہے ، جس کا مطلب ہے ’’آزاد ۔جو غلام نہ ہو‘‘۔آٹھویں صدی عیسوی تک اس لفظ کامعنی ایک آزاد آدمی ہی تھا ۔ بعدمیں یہ لفظ ایک ایسے شخص کے لئے بولا جانے لگا جو فکری طور پر آزاد ، تعلیم یافتہ اور کشادہ ذہن کا مالک ہو۔اٹھارویں صدی عیسوی اور اس کے بعدیہ لفظ اس شخص کے بارے میں کہاجانے لگاجو خدا یا کسی اور مافوق الفطرت ہستی یا مافوق الفطرت ذرائع سے حاصل ہونے والی تعلیمات اور مذہبی اقدار کی پابندی سے خود کو آزاد سمجھتا ہوچناچہ لبرل ازم سے مراد کسی بھی مذہبی اقدارسے آزاد روش پر مبنی وہ فلسفہ اورنظام اخلاق و سیاست ہے جس پر کوئی گروہ یا معاشرہ عمل پیرا ہو۔
بنیادی طور پر برطانوی فلسفی جان لاک(1620 Jhon Lockeء تا 1740ء)پہلا شخص ہے جس نے لبرل ازم کو باقاعدہ ایک فلسفہ اور طرز فکر کی شکل دی ۔یہ شخص عیسائیت کے مروجہ عقیدے کو نہیں مانتا تھا بلکہ اس سے نہایت بیزار بھی تھا۔انقلاب فرانس کے فکر ی رہنما ’’والٹیئرVoltaire(1694تا1778ء)اورروسوRousseau(1712ء تا 1778ء)اگر چہ رسمی طور پر عیسائی تھے لیکن فکری طور پر جان لاک سے متاثر تھے ۔انہی لوگوں کی فکر کی روشنی میں ’’انقلاب فرانس‘‘کے بعد فرانس کے قوانین میں مذہبی اقدار سے آزادی کے اختیار کو قانونی تحفظ دیا گیا اور اسے ریاستی امور کی صورت گری کے لئے بنیاد بنادیا گیا۔امریکہ کے ’’اعلان آزادی‘‘(American Declaration of Independence)میں بھی شخصی آزادی کی ضمانت جان لاک کی فکر سے متاثر ہوکر دی گئی ۔
[1]
سیکولر ازم کی تعریف وتاریخ:
سیکولر ازم،قدیم لاطینی لفظ’’سیکولارس‘‘(Saecularis)سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے ’’وقت کے اندر محدود‘‘۔عیسائی عقیدے کے مطابق خدا کی ذات وقت کی قید اور حدود سے آزاد اور ماورا ہے۔یورپ میں تحریک احیاء علوم (جوکہ عیسائیت کے مسخ شدہ عقائدسے بیزاری کا نتیجہ تھی )کے دوران یورپ میں جب عیسائیت کی تعلیمات سے بیزاری کے نتیجے میں خدا کے انسانی زندگی میں کسی عمل دخل کے خلاف بغاوت پیدا ہوئی تو کہاجانے لگا کہ چونکہ خدا وقت کی حدود سے ماوراہے اور انسان وقت کی حدود سے مقید ہے لہذا نسانی زندگی کو سیکولر یعنی خدا سے جدا(محدود )ہونا چاہیے۔
اس لفظ کو باقاعدہ اصطلاح کی شکل میں 1864ء میں متعارف کرانے والا پہلا شخص برطانوی مصنف جارج جیکب ہولیوک(1817 George Jacob Holyoakeء تا1906ء)تھا۔اس کو ایک دفعہ عیسائیت سے بیزاری یا بالفاظِ دیگر لبرل ازم پر لیکچر دینے پر چھ ماہ کی سزا کاٹنی پڑی ۔ جیل سے رہا ہونے کے بعد اس نے اپنا طرزِ فکر تبدیل کیا اور لبرل ازم کے مقابلے میں نرم لفظ’’سیکولر ازم ‘‘کا پرچار شروع کردیا۔
[2]
اس اصطلاح کے عام ہوجانے کے بعد پہلے برطانیہ اور پھر تمام یورپ اور دنیا بھر میں سیکولرازم کے معنی یہ ہوئے:’’انسانی زندگی کے دنیاسے متعلق امورکا تعلق خد ایا مذہب سے نہیں ہوتا‘‘اور مزید یہ کہ ’’حکومتی معاملات کا خدا یا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا‘‘۔اس اصطلاح کے یہی معنی اب دنیا بھر میں انگریزی زبان کی ہر لغت اور انسائیکلو پیڈیا میں پائے جاتے ہیںاور اسی پر سیکولر کہلانے والے تمام لوگوں کا اتفاق ہے۔
سیکولر ازم اور لبرل ازم دراصل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں :
لبرل ازم اور سیکولر ازم بظاہر دو الگ الگ اصطلاحات و فلسفوں کا نام ہے مگر حقیقی اعتبار سے دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم اورایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔جو شخص لبرل ازم کے فلسفے (آزاد خیالی،مذہب بیزاری)پر یقین رکھتاہوتو وہ شخص لازماً سیکولر ازم (خدا کو مقید کرنے )کا حامی ہوگا کہ کیونکہ دونوں کے مقاصدو اہداف مشترک ہیں کہ ’’خدا کو مقید کرتے ہوئے انفرادی و اجتماعی معاملات میںمذہب سے آزادی حاصل کرنا ‘‘، لہٰذا نتائج کے اعتبار سے دونوں فلسفوں میں کوئی فرق نہیں۔
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
لبرل ازم اورسیکولر ازم اسلام کی نظر میں:
اس سے قبل کہ ہم لبرل ازم اورسیکولر ازم کے فروغ میں موضوع بحث تحریک کے کردار پر بحث کریں ،ہم ان دونوں نظریات کو قرآن وسنت کی روشنی میں پرکھ لیتے ہیں آیا اللہ رب العزت نے انسان کو اپنی بندگی اور فرمابرداری کے لئے پیدا کیا تھا یا پھر اپنے نفس کی خواہشات کے مطابق ’’جیسے چاہو جیو‘‘کے فلسفے پر آزادانہ زندگی گزارنے کے لئے۔اس سلسلے میں چند آیات قرآنی اور احادیث ہی اس بات کے رد کے لئے کافی ہیں ،مزید کسی تفصیل کی ضرورت نہیں۔ایک حدیث میں بندۂ مومن کی مثال اس طریقے سے دی گئی ہے:
((مَثَلُ الْمُؤْمِنِ کَمَثَلِ الْفَرَسِ عَلَی آخِیَّتِہِ یَجُولُ ثُمَّ یَرْجِعُ اِلَی آخِیَّتِہِ))
[3]
’’بندۂ مومن کی مثال اس گھوڑے کی سی ہے جوکہ ایک کھونٹے سے بندھا ہوا ہو،کہ گھوڑاگھوم پھر کرکھونٹے کی طرف ہی واپس آجاتا ہے‘‘۔
چناچہ درجِ ذیل آیات قرآنی بھی درج بالا حدیث کی ترجمانی کرتی ہیں :
یٰآَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ ٌ عَلِیْمٌ
[4]
’’اے ایمان والو!اللہ اور اس کے رسول (کی مقرر کردہ حدود)سے آگے نہ بڑھواور اللہ سے ڈرتے رہو۔یقینا اللہ تعالیٰ سننے والے او ر جاننے والے ہیں‘‘۔
فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
[5]
’’پس قسم ہے تمہارے پروردگار کی!یہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ آپس کے تمام اختلافات میں آپ کو حاکم نہ مان لیں ،پھر جو فیصلہ آپ ان میں کردیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور آپ کے حکم کو فرمابرداری کے ساتھ تسلیم کرلیں‘‘۔
وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ ٓاَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِھِمْ وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا
[6]
’’اور کسی ایمان والے مرد وعورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعد اپنے کسی امرکا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گاتو وہ صریح گمراہی میں پڑگیا ‘‘۔
سب سے پہلے پاکستان………؟؟
پاکستان کا مطلب کیا ؟لاالہ الااللہ !کے نام پر حاصل کئے گئے ملک میں اول دن سے ہی مختلف حیلوں بہانوں سے ان دونوں فلسفوں کو رائج اور نافذ کرنے کی کوشش کی گئی ۔لیکن عوام الناس کے اندر پائے جانے والی اسلام سے محبت،ان نظریات کے مکمل طور پر رائج ہونے میں رکاوٹ بنی رہی۔
لیکن اس حوالے سے سب سے بڑی عملی کوشش اس وقت کی گئی جب طاغوت وقت جنرل پرویز مشرف نے کفریہ نعرے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘کی بنیاد پر روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے نام پران دونوں نظریا ت کو نہ صرف نافذکیا بلکہ عوام الناس کے قلوب و اذہان کے اندر بھی دین و شریعت سے شدید بیزارگی پیدا کی گئی۔چنانچہ وہ اپنے ان افکار کا تو برملا اظہار کرتا تھا کہ کہ ’’آ ج خلافت کا نظام قابل عمل نہیں‘‘اور یہ کہ ’’ داڑھی اور پردہ کو گھر پر رکھا جائے‘‘اور’’موسیقی کو حرام کہنے والوں سے ہمیں مقابلہ کرنا ہوگا‘‘وغیرہ وغیرہ۔
چنانچہ جس وقت ان نظریات کو عوام الناس میں حکومتی سطح پر تھوپنے کی کوشش کی گئی، تواس دوران ملک کی دیگر جماعتوںکی طرح اس تحریک کے ذریعے پورے ملک میں، اورخاص کر اردو بولنے والے مسلمانوں کے اندران نظریات کو رائج کرنے کے لئے پھرپور ذہن سازی کی گئی اور روشن خیالی و اعتدال پسندی کے نام پر کفر و الحاد کا وہ طوفان کھڑا کیا گیا جس کے آگے بند باندھنے کی کوئی سبیل نظر نہ آتی تھی(جس کی قدرے تفصیل آگے آرہی ہے)………لیکن اللہ تعالیٰ لال مسجد و جامعہ حفصہ کے طلبہ وطالبات کی شہادت کو قبول کرے کہ وہ جاں سے تو گزرگئے لیکن اپنی قربانیوں سے وہ اس عفریت کو بھی ہمیشہ کے لئے زمین میں دفن کرگئے۔چنانچہ آج روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے الفاظ کو ماسوا گنے چنے لوگوں کے کوئی بھی استعمال کرنے والا نہیں ۔
بہرحال !یہ جاننے کے بعد کہ اسلام میں لبرل ازم اور سیکولر ازم کے نظریات و افکار کی کسی صورت کوئی گنجائش نہیں، جولوگ بھی ان نظریات کی حامل جماعتوں اور تحریکوں سے وابستہ ہیں ان کو چاہیے کہ وہ اپنے دین و ایمان کو برباد ہونے سے بچائیں اورایسا طرز فکر رکھنے والی تحریکوں سے بے زاری کا اظہار کریں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کردار
’’دہشت گردی ‘‘کے خلاف جنگ کے نام پر برپا کی جانے والی صلیبی جنگ میں ایک طرف حکومت پاکستان اور افواجِ پاکستان سمیت ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے امریکہ کی ایک ’’ہوں‘‘اور ڈالروں کی چمک کے سامنے سرِتسلیم خم کردیا اور افغانستان کے مسلمانوں کے قتل عام کے لئے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو کھلا لائسنس عطاکیا بلکہ اس جنگ مین کفر کے اتحادی ’’فرنٹ لائن اسٹیٹ ‘‘کاکردار اداکر نے میں کوئی عار محسوس نہ کیا ۔
اس ضمن میں ملک کی ’’دینی ‘‘کہلانے والی جماعتوں کا اندرونی طور پرکیا کردار رہا وہ ابھی زیرِ بحث نہیں ،مگر بیرونی طور پر بھی انہوں نے بھی اس معاملے میں شریعت کی طرف سے عائد کئے جانے والے ’’فریضے‘‘(یعنی جہاد فی سبیل اللہ) کی ادائیگی میں جس مجرمانہ خاموشی اور غفلت کا مظاہرہ کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں اور جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے(البتہ ان جماعتوں سے تعلق رکھنے والے وہ لوگ اس سے مستثنیٰ ہیں جنہوں نے اپنی جماعتوں کی مخالفتوں کے باوجود ہر طریقے سے کفر کے مقابلے میں کھڑے ہونے والے اہل ایمان کی مددو نصرت کی)۔
لیکن مسلمانوں کے خلاف جنگ میں جو خطرناک اور بھیانک کردار اس تحریک نے اداکیا اس کو احاطۂ تحریر میں لانا ناممکن نہ سہی مگر مشکل ضرور ہے۔یہ تحریک اس جنگ میں مجموعی طور پر افواجِ پاکستان کی طرح کفار کا ہراول دستہ ثابت ہوئی ۔ اس تحریک نے نہ صرف اپنے زیرِ اثر علاقوں میں کفر کے خلاف لڑنے والے اور ان کی مدد ونصرت کرنے والوں کی جاسوسی سے لے کر ان کی گرفتاریوں تک اور ان کا عرصۂ حیات تنگ کرنے سے لے کر ان کو رسوا کرنے اور خفیہ طریقوں سے قتل کرنے تک آئی ایس آئی کی طرح بھرپورکردار ادا کیا۔
عالمی طور پر افغانستان اور عراق کے مسلمانوں کے معاشی استحصال سے لے کر ان پرکفار کی طرف سے آتش و آہن کی برسات تک یا پھر ملکی طورپر لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے محاصرے سے لے کر ’’آپریشن سائلنس ‘‘میں فاسفورس بموں کے ذریعے ان کو جلائے جانے تک ،امریکہ کی خوشنودی کے طالب اور ڈالروں کے پجاری افواجِ پاکستان کے ہاتھوں سرحدی علاقوں میں ہزاروں قبائلی مسلمانوں کے قتل عام سے لے کر اپنے ہی ملک میں لاکھوں لوگوں کو’’مہاجر‘‘بنائے جانے تک یا پھر ملک میں نافذ ظلم و جبر پر مشتمل کفریہ قوانین کے مقابلے میں شریعت کے نفاذ کی مخالفت تک ،ہر ایسے موقع پر اس تحریک نے وہ کردار ادا کیا جوکہ کفر کے سرداروں کو مطلوب تھا۔اس حوالے سے چند چیدہ چیدہ مثالیں درج ذیل ہیں :
امریکہ کی حمایت میں ریلی:
نائن الیون کے بعد جب امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان پر حملہ کرنے لئے پر تول رہے تھے اس وقت اس تحریک نے کفارکو اپنے پورے تعاون کا یقین دلایا (جس کی پوری تفصیل تھوڑے عرصے پہلے ہی سامنے آئی ہے)
اور اس وقت کے امریکی صدر نے جب یہ اعلان کیا کہ :
"Every nation ,in every region,now has a decision to make.
Either you are with us ,or you are with the terrorsts."
’’ہر قوم جو کہیں بھی رہتی ہو،اس کو ابھی یہ فیصلہ کرنا ہوگا آیا وہ ہمارے ساتھ ہے یا وہ ہمارے دشمنوں کے ساتھ ہے۔‘‘
چنانچہ اس تحریک کے قائدکی جانب سے۲۳ستمبر۲۰۰۱ء کو اس وقت کے وزیر اعظم برطانیہ ٹونی بلئیر کو لکھا جانے والا خط قابل ذکر ہے ۔ جس کے متن کو پڑھ کر ہی اندازہ ہوجائے گا کہ کس طرح کفر کے ساتھ ہر طرح کے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی۔خط کا متن درج ذیل ہے:
23ستمبر2001ء
جناب ٹونی بلیئرممبر پارلیمنٹ و وزیرا عظم
برطانیہ 10ڈائو ننگ اسٹریٹ لندن ڈبلیوون
محترم وزیر اعظم(برطانیہ)!
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)دہشت گردی کی ہرقسم ،مذہبی جنونیت اور تشدد کی قطعی مخالف جماعت ہے اور حقیقی جمہوریت کی حامی ہے۔ہم درجِ ذیل خدمات پیش کرسکتے ہیں:
(۱) ہم معاہدہ ہونے کے پانچ روز کے اندر دہشت گردی کے خلاف برسرِ پیکار عالمی برادری کی حمایت میں پانچ دن کے نوٹس پر کراچی میں متعدد مظاہرے کرسکتے ہیں۔حکومت پاکستان سے اجازت ملنے کی صورت میں ان مظاہروں میں لاکھوں افراد شرکت کریں گے۔پہلا مظاہرہ 26ستمبر 2001ء کو ہوگا۔
(۲) سندھ کے تمام چھوٹے بڑے شہروں اور کسی حد تک پنجاب میں مدارس،بنیاد پرستوں اور طالبان سے وابستہ تنظیموں کی نگرانی کے لئے ہیومن انٹیلی جنس فراہم کی جاسکتی ہے۔
(۳) مغربی ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کی ہیومن انٹیلی جنس صلاحیتوں کو مدد اور بڑھاوا دینے کے لئے افغانستان میں چنیدہ گروپوں کو امدادی کارکنوں کی شکل میں بھیجا جاسکتا ہے۔
اس مدد کے بدلے میں ہم درج ذیل کم از کم مقاصد کے حصول کی ضمانت چاہتے ہیں جو نہ صرف ہمارے لئے انتہائی ضروری ہیں بلکہ مجموعی طور پر پاکستان کے لئے بھی بہتر ہوں گے۔
ہمارے مقاصد:
(الف) ہم صوبہ سند ھ اور وفاق کے انتظام میں حقیقی برابری چاہتے ہیں۔
(ب) تعلیم،روزگار ،فوج اور انتظامیہ سمیت زندگی کے تمام شعبوں میں برابری پر مبنی شراکت چاہتے ہیں۔
(ج) ہم مہاجروں اور سندھیوں پر مشتمل مقامی پولیس چاہتے ہیں۔
(د) وفاقی حکومت تمام صوبوں کو مکمل خود مختاری دے کر دفاع،خارجہ اموراور کرنسی کنٹرول کے شعبے اپنے پاس رکھے اور ان تمام شعبوں میں تمام صوبوں کی یکساں نمائند گی ہو۔
(ہ) خفیہ پاکستانی ادارے آئی ایس آئی کو مکمل طورپر ختم کیا جائے ورنہ یہ مستقبل میں بھی کئی طالبان اور اسامہ بن لادن پیدا کرتی رہے گی۔
ہمیں امید ہے کہ آپ ہمارے پیشکش پر پاکستان کے مفاد میں سنجیدگی سے غور کریں گے۔آپ کی جانب سے جلد پیشرفت کا منتظر ہوں ۔
نیک خواہشات و دعاؤں کے ساتھ
آپ کا مخلص
دستخط
الطاف حسین
بانی و قائد متحدہ قومی موومنٹ(ایم کیوایم)
چنانچہ اس تحریک نے اعلانیہ طور امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لئے26ستمبر۲۰۰۱ء کو ایک بہت بڑی ریلی کاانعقاد کیا تھا اور دراصل یہ اس سفر کا باقاعدہ آغاز جس کے تحت اس تحریک اپنا پورا وزن کفر کے پلڑے میں ڈال دیا تھا۔
کفر کے ہراول دستے کا کردار:
ہوسکتا ہے کہ کوئی اس خط کے اصلی ہونے سے انکاری ہومگر اس تحریک نے اہل ایمان کے خلاف لڑے جانے والی جنگ جو کردار اداکیا اور جس طرح کفر کے سردار امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا ساتھ قولی وعملی طور پر دیا،وہ خط کے مندرجات سے مختلف نہیں اور کوئی اس کا بھی منکر ہے تو وہ اس تحریک کی ویب سائٹ کے ایک لنک کوملاحظہ کر لے۔جس میں واضح طور اس تحریک کے قائد نے کفر کے سرداروں سے اظہار یک جہتی کرتے ہوئے اپنے تیس ملین سپورٹرز کی غیر مشروط مدو حمایت کا یقین دلایا بلکہ ایک خط جوکہ مریکی صدر کو لکھا گیا اس کاحوالہ بھی موجودہے۔ایک رپورٹ کی ہیڈنگ یہ تھی:
"Altaf Hussain offers unconditional support of over thirty million MQM supporters to the US President,British Prime Minister And International Community:Complete Audio Report of Mr.Altaf Hussains's Address.
’’الطاف حسین نے امریکہ کے صدر اور برطانیہ کے وزیر اعظم کوایم کیو ایم کے تیس ملین سپورٹرکی غیر مشروط حمایت کی پیشکش کی ہے‘‘۔
الطاف حسین کے خطاب کی مکمل آڈیورپورٹ کا لنک یہ تھا جوکہ ڈیلیٹ کردیا گیا ہے:
http://www.mqm.org:80/audio_news/ah010918.ram
ایک ہیڈنگ اس طرح ہے:
"MQM workers are prpared to provide unconditional assistance and cooperation to the International Community and Multinational corporations-Altaf Hussain.
’’ایم کیوایم کے کارکنان عالمی برادری اور ملٹی نیشنل کارپوریشنس سے غیر مشروط مدد و تعاون کرنے پر تیار ہیں۔الطاف حسین‘‘۔
امریکی صدر کے نام جو خط لکھا گیا وہ یوں تھا:
London - 11 September 2001.
Mr Altaf Hussain, Founder and Leader of Muttahida Quami Movement (MQM), has strongly condemned the terrorist attacks upon USA. In a letter sent to US President George W Bush, "Mr Hussain on behalf of the MQM and millions of his supporters condemned the cowardly and brutal terrorist attack upon different places in the United States including the World Trade Centre in New York and the Pentagon in Washington. Mr Hussain prayed for the victims and their families and for the early recovery of those wounded in these attacks.
[7]
اصل لنک:
http://www.mqm.org/English-News/Sep2001/news010923.htm
اور وکی لیکس کے مطابق کراچی میں امریکی سفیر اسٹیفن فیکن(Stephen Fakan)اپنے ایک مراسلے میں کہتاہے :
"MQM's armed members, known as "Good Friends," are the largest non-governmental armed element in the city."
’’ایم کیوایم کے مسلح کارکنان جوکہ ہمارے ’’اچھے دوست ‘‘کے طور پر جانے جاتے ہیں، شہر(کراچی )میں ایک بڑی غیر سرکاری مسلح تنظیم ہے‘‘۔
http://wikileaks.org/cable/2009/04/09KARACHI138.html
عراق کے مسلمانوں سے اظہار بیزاری:
اسی طرح جب افغانستان کو تخت وتاراج کرنے کے بعد یہود ونصاریٰ نے عراق کو تختۂ مشق بنانے کا فیصلہ کیا تواس وقت’’مظلوموں کی ساتھی‘‘اس تحریک نے عراق کے مسلمانوں سے جس اظہار بیزاری کا اظہارکیا وہ انتہائی شرمناک تھا۔ جب کفار میں سے بھی بعض ممالک بظاہر عراق پر حملے کے مخالفت کا اظہار کررہے تھے، اس وقت اس تحریک کے رہنماؤں نے ملک میں ان لوگوں(دینی کہلانے والی جماعتوں) کو ’’بیگانے کی شادی میں عبد اللہ دیوانہ ‘‘کی مثالیں دے کرتنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا جو کہ عراق جنگ کی مخالفت صرف زبانی کلامی ہی کررہی تھیں، حقیقت میں کسی عملی اقدام سے دور تک ان کا واسطہ نہ تھا۔اس تحریک کے رہنماؤں کے بیانات اس وقت کے اخبارات میں واضح طورپر مل جائیں گے ۔اس سلسلے میں صرف ایک مباحثہ کا حوالہ دینا کافی ہے کہ جوکہ مفتی نظام الدین شامزئی رحمہ اللہ اور اس تحریک کے نامور رہنما کنور خالد یونس کے درمیان ایک نجی ٹی وی چینل (جیونیوز )پر ہوا تھا۔
جامعہ حفصہ کی پاکدامن عورتوں پر بہتان درازی :
لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے طلباء طالبات نے جب اسلام آباد میں سات مساجد کی شہادت اور مزید مساجدکی مسماری کی تیاری اور اس پر ’’دینی‘‘کہلانے والی جماعتوں کی طرف سے بے توجہی کی وجہ سے خود ہی اقدام کرتے ہوئے حکومت پر دباؤڈالنے کی غرض سے ایک لائبریری پر قبضہ کیا تاکہ حکومت کو اس عمل سے باز رہنے پر مجبور کیا جاسکے مگر حکومت کی ہٹ دھرمیوں اور اپنوں کی بے اعتنائی کی وجہ سے جب وہ ’’شریعت یاشہادت‘‘کا نعرہ لگاکر نفاذ شریعت کی تحریک چلانے پر مجبور ہوئے تو اس وقت بھی اس تحریک کی جانب سے نفاذ شریعت کی شدید مخالفت کامعاملہ اپنی جگہ،مگر جامعہ حفصہ کی طالبات سے متعلق جس طرح اخلاق سے گری ہوئی زبان استعمال کی گئی اور ان کو بدکردار اور فاحشہ عورتوں سے تشبیہ دی گئی اس کو بیان کرنے سے ہم قاصر ہیں ۔اس کے لئے اس وقت دیئے گئے اخباری بیانات ہی کافی ہیں مزید کسی حوالے کی ضرورت نہیں۔
قبائلی علاقوں میں آپریشن کے موقع پر مجرمانہ کردار:
امریکی ایماء پر جب ڈالروں کی بچاریوں نے قبائلی علاقوں کے مسلمانوں کو کفر کے خلاف اہل ایمان کو پناہ دینے اور شریعت کے نفاذ کی بات کرنے پرعبرتناک سزا دینے کافیصلہ کیا تو اس موقع پر بھی جو بھیانک کردار ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں سے بڑھ کر اس تحریک نے ادا کیا وہ بیان سے باہر ہے۔جس کا اعتراف کراچی میں امریکی سفیر نے اپنے ایک مراسلے میں یوں کیا:
"The only party to publicly protest the recent Swat Nizam-e-Adl regulations
[8]"
’’یہ واحدجماعت ہے جس نے عوامی سطح پر سوات نظام عدل ریگولیشن کی بھرپور مخالفت کی‘‘۔
پھرجس طرح ایک لڑکی کی جعلی ویڈیوکی بنیاد پر ہنگامہ کھڑا کیاگیا اور اس کی بنیاد پر سوات و مالاکنڈ کے قبائلی مسلمانوں کا قتل عام شروع کیا گیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔چناچہ اس جعلی ویڈیوکی بنیادپر اس تحریک کی جانب سے شریعت کے نفاذ کے خلاف پروپیگنڈے کا جو طوفان کھڑا کیا گیا اور لوگوں کے سامنے اسلامی احکامات کی جس طرح سے ڈراؤنی منظر کشی کی گئی وہ ناقابل بیان ہے۔۵اپریل ۲۰۰۹ء کو منایا جانے والا ’’یوم سیاہ ‘‘اس بات کا منہ بولتا ثبوت تھا۔جس میں اپنے زیر اثر علاقوں کو سیاہ جھنڈوں سے بھردیا گیا تھا۔
تحریک سے وابستہ کارکنان و ہمدردوں کے لئے لمحہ ٔ فکریہ:
شریعت کا حکم اس بارے میں واضح ہے کہ ایک مسلمان کا اہل ایمان کے مقابلے میں کافروں کے ساتھ مل کرلڑنا ،اہل ایمان کی جاسوسی کرنا اور اُن کو گرفتار کرانا ،اہل ایمان کے مقابلے میں کافروں کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعاون کرنا خواہ وہ عسکری ہو یا غیر عسکری ،اُن کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنا،اُس کودائرہ اسلام سے خارج کرکے’’ کافر ومرتد‘‘بنادیتاہے اور اُس کانماز پڑھنا اورروزہ رکھنا، زکوٰۃ وحج اداکرناکسی کام کا نہیں اور یہ جرم اُس کے پچھلے کئے گئے تمام نیک اعمال کو بھی ضائع کردیتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٰآَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوا الْیَھُودَ وَ النَّصٰرٰٓی اَوْلِیَآء بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ وَ مَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْ اِنَّ اﷲَ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ
[9]
’’اے اہل ایمان !یہود ونصارٰی کو دوست نہ بناؤ۔یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے گا وہ بے شک انہی میں سے ہے ۔بے شک اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہرگز ہدایت عطا نہیں فرماتا‘‘۔
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ مذکورہ آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ نے اس بات سے بھی خبردار کیا ہے کہ جو مسلمان اللہ تعالیٰ ،اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اور مومنوں کو چھوڑ کر ان کافروں کو اپنا حمایتی ،مددگار اور دوست بنائے گا تو اس کے نتیجے میں وہ ان یہودیوں اور عیسائی کافروں کی جماعت کا ہی فرد گردانا جائے گا ۔گویایہ شخص اللہ رب العالمین ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کے مدمقابل کافروں کی جماعت کا ایک کارکن ہے۔اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے کلیتاً بیزار اور لاتعلق ہوں گے۔‘‘
[10]
سورۃ البقرۃ کی آیت 28کی تفسیر میں امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اس آیت کریمہ کا معنی ومفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کومنع کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ کافروں کو اپنا حمایتی اور مددگار نہ بناؤ۔وہ اس طرح کہ ان کے دین ومذہب کی بنیاد پر ان سے دوستیاں رچانے لگ جاؤ،مسلمانوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کے خلاف کافروں کی مدد کرنے کے درپے ہوجاؤاور کافروں کومسلمانوں کے خفیہ راز اور معلومات فراہم کرنے لگ جاؤ۔جو شخص ایسا رویہ اختیار کرے گا (فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْئٍ)یعنی اس طرح کرنے سے وہ اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ اس سے لاتعلق ہوجائے گا۔اس وجہ سے کہ وہ اسلام سے مرتد ہوچکا ہے اور کفر میں داخل ہوچکا ہے۔‘‘
[11]
یہ تو تھے چند مختصر حوالے، ورنہ دلائل تو اتنے کثیر ہیں کہ جن کویہاں نقل کرنا ممکن ہی نہیں۔
یہ تمام دلائل اولاً اس شخص کے لئے لمحہ فکریہ ہیں جوکہ ایسی کسی بھی تحریک کا کارکن ہو،جس کا مسلمانوں خلاف جنگ میں کفارکے ساتھ قولی و عملی تعاون کسی سے بھی پوشیدہ نہیں اور جس کے اقراری اس تحریک کے قائد و دیگر رہنما بھی ہیں ،اب بھی اگر ایسی کسی بھی تحریک سے لاتعلقی کا اظہار نہیں کرتا اوربرضاورغبت ان کے اہداف و مقاصدکی تکمیل کرتا رہتا ہے تو ایسے شخص کے بارے میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنے دین وایمان سے محروم ہوچکا اورچاہے وہ لاکھ بار کلمہ پڑھتا رہے، نماز و روزہ اور حج و زکوٰۃ اداکرتا رہے ،وہ کسی کام آنے والے نہیں اور جو حکم ’’کافر ومرتد‘‘ کا ہوتا ہے ،وہی حکم اس کا ہوگا ۔
جب تاتاریوں نے مسلمانوں کا قتل عام شروع کیا اور اپنے احکامات کو شریعت کے مقابلے میں نافذ کیا تو شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یہ فتویٰ دیا کہ :
’’من جَمَّزَ اِلٰی مُعَسْکَرِ التُّتَرِ وَ لَحِقَ بِھِمْ ارْتَدَّ وَ حَلَّ دَمُہُ وَ مَالُہ، فَاِذَا کَانَ ھَذَا فِی مُجَرَّدِ اللُّحُوْقِ بِالْمُشْرِکِیْنَ فَکَیْفَ بِمَنْ اعْتَقَدَ مَعَ ذَالِکَ أَنَّ جِھَادَھُمْ وَ قِتَالَھُمْ لِأَھْلِ الْاِسْلَامِ دِیْنُ یُدَانُ بِہِ ، ھَذَا أَوْلٰی بِالْکُفْرِ وَالرِّدَّةِ۔‘‘
[12]
’’جو شخص تاتاریوں کے معسکر (چھاؤنی)کی طرف بھاگا بھاگا جاتا ہے اور ان سے جاملتا ہے ،وہ شخص مرتد ہوجاتا ہے اور اس کا خون بہانا اور اس کا مال اپنے قبضہ میں لینا جائز ہے ۔مشرکین کے ساتھ صرف جاملنے کا یہ حکم ہے کہ وہ مرتد ہوجاتا ہے اور اس کو قتل کرنا اور اس کا مال قبضہ میں لینا جائز ہے ۔تو اس شخص کے متعلق خود غور فرمالیں کہ جو اس بات کا اعتقاد اورنظریہ رکھتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف جنگ وقتال کرنا میرے دین ومذہب میں شامل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ثانی الذکر شخص کفر وارتداد میں کہیں زیادہ آگے بڑھا ہوا ہے‘‘ ۔
دوم یہ کہ ایسے لوگ جو کہ ایسی کسی بھی تحریک سے ہمدردی والفت رکھتے ہوں اور کسی بھی قسم کی معاو نت کرتے ہوں، ان کے لئے بھی غوروفکر کا مقام ہے کہ ان کی کسی بھی ایسی تحریک سے وابستگی ان کے بھی دین و ایمان کی اُسی طرح بربادی اور عذاب کا سبب بن سکتی ہے جس کے مستحق ایسی کسی بھی تحریک میں شامل لوگ ہوں گے۔
مفسر قرآن سیدنا عبداللہ بن عباس ﷟فرماتے ہیں :
((ھُوَ مُشْرِکْ مِثلُھُمْ ، لِأَ نَّ مَنْ رَضِیَ بِالشِّرْکِ فَھُوَ مُشْرِکٌ))
’’جوکسی کافر ومشرک سے دوستی کرے گا وہ ان کی طرح کا ہی مشرک ہوگا ،اس لیے کہ جو شرک کو پسند کرتا ہے وہ بھی مشرک ہوتا ہے۔‘‘
[13]
علامہ قرطبی ﷫اسلام کا اصول بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں :
’’الرِّضَاءُ بِالْکُفْرِ کُفْرٌ‘‘
[14]
’’ کفر کو پسند کرنا بھی کفر ہے ‘‘۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ﷫ فرماتے ہیں :
’’وَ قَدْ قَالَ غَیْرُ وَاحِدٍ مِنَ السَّلْفِ(( أَعْوَانُ الظَّلَمَةِ مِمَّنْ أَعَانَھُمْ ، وَ لَوْ أَنَّہُ لَاقَ لَھُمْ دَوَاءً ، أَوْ بَرٰی لَھُمْ قَلَمًا)) ، ومِنْھُمْ مَنْ کَانَ یَقُوْلُ (( بَلْ مَنْ یَّغْسِلُ ثِیَابَھُمْ مِنْ أَعْوَانِھِمْ ))‘‘
[15]
’’سلف صالحین میں سے بہت زیادہ افراد کا یہ موقف ہے کہ ظالموں اور جابروں کے مددگاران لوگوں کے حکم ہی میں شامل ہیں جن کا وہ تعاون کرتے ہیں ۔اگرچہ وہ ظالموں کے لیے محض دوا دارو اور علاج معالجہ کا ہی بندوبست کریں یا محض ان کو قلم تراش کر ہی پیش کریں ۔بعض سلف نے تویہاں تک کہاہے کہ :ظالموں کے کپڑے دھونے والا بھی ان کے ساتھ ہوگا‘‘۔

شریعت کے نفاذ کی مخالفت
کفر کے سرداروں کی خواہش کے عین مطابق ملک کی اکثر سیاسی جماعتیں(پیپلز پارٹی،اے این پی وغیرہ) تو شریعت کے نفاذ ہی کی شدید مخالف ہیں اور کچھ جماعتیں ہیں جوکہ بظاہراً شریعت کے نفاذ کی مخالفت نہیں کرتیں لیکن شریعت کا نفاذ قوت کے ساتھ کرنے کی وہ بھی شدید مخالف ہیں ۔
اور جہاں تک تعلق ہے ’’دینی ‘‘کہلانے والی جماعتوں کا ، وہ اس معاملے میں گوکہ مخالف نظر نہیں آتیں مگر وہ بھی شریعت کے نفاذ کو کفر کے ہی طے کردہ ’’پر امن ذرائع‘‘اور انسانی ہاتھوں کے تخلیق کردہ ’’آئین‘‘کی دستاویزات سے مشروط کردیتی ہیں،چاہے وہ آئین کفریہ قوانین سے بھرپور ہی کیوں نہ ہوں۔
مگر جہاں تک تعلق ہے اس تحریک کا ،ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں سب سے بڑھ کر شریعت کی عملداری یا قوت کے ساتھ اس کے نفاذ کی مخالفت میں یہ تحریک ہمیشہ پیش پیش رہی ہے۔’’ڈنڈا بردار شریعت ‘‘اور کلاشنکوف شریعت‘‘نامنظور کے نعرے لگواکر شریعت اور اس کے احکامات کی مخالفت و استہزا کو باقاعدہ مہم کے طور پر اختیار کرنا ،واحد اس تحریک کا وطیرہ رہا ہے۔شریعت کی عملداری اور اس کے نفاذ کی مخالفت میں باقاعدہ جلسے اور جلوس نکالنا ،اپنے زیرا ثر علاقوں میں چاکنگ کرنا اور پمفلٹ تقسیم کرنا اورشریعت کے استہزا و مخالفت پر مشتمل بینرز آوزا ں کرنا کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ۔
۹/اپریل ۲۰۰۷ء کو اس تحریک کی طرف سے یہ بیان جاری کیاگیا کہ :
’’جامعہ حفصہ اور لال مسجد میں کلاشنکوفیں اور ڈنڈا اٹھانے والے نام نہاد اسلام کے ٹھیکیدار سن لیں کہ ہم نے بھی چوڑیا ں نہیں پہن رکھیں………کلاشنکوف شریعت کے اعلان کے خلاف 15اپریل کو کراچی میں بڑی ریلی نکالیں گے‘‘۔
[16]
پھر اسی ضمن میں شرعی احکام کے استہزا اور اس کے انکار پر مبنی ایک سوال نامہ اس تحریک کی جانب سے 12اپریل 2007ء کو روزنامہ جنگ میں شائع کیاگیا اور اپنے زیر اثر علاقے میں نہ صرف اس کوبطور پمفلٹ بڑی تعداد میں تقسیم کیا گیابلکہ اپنے جلسوں میں لوگوں سے سوال کرکے اجتماعی طور پر اس کا نفی میں جواب لیاگیا ۔اس سوالنامہ میں کچھ نکات ایسے تھے جن سے یہ بات بخوبی عیاں ہوجاتی ہے کہ یہ تحریک کس طرح شرعی احکامات کے استہزا اور دھجیاں اڑنے پر مصرہیں۔وہ یہ ہیں:
……کیا خواتین ’’غیر اسلامی ‘‘شٹل کوک برقعہ پہننے پرتیار ہیں؟
……کیا آپ کے خیال میں اسلام نے شیو بنانے کو حرام قرار دیا ہے؟
……کیا آپ اسلام آباد میں لال مسجد اور مدرسہ حفصہ پر ڈنڈا بردار کلاشنکوفی قبضہ کرکے عوام پر جبراً اپنی خود ساختہ کلاشن کوفی شریعت نافذ کرنے والوں کے حق میں ہیں؟
……کیا آپ وفاقی شرعی عدالت کی موجودگی میں ملاؤں کی خود ساختہ شرعی عدالتوں کے قیام کو جائز سمجھتے ہیں؟
ان سوالوں کا تفصیلاً جواب دینا یہاں ممکن نہیں ۔مختصراً یہ کہ ایک مسلمان اگر کسی شرعی حکم پر عمل نہ کرسکے، چاہے اپنی غفلت کی وجہ سے یا جان بوجھ کر ،لیکن وہ اس عمل سے کافر نہیں ہوتا ۔مگر جو شخص کسی واضح شرعی حکم کا ہی انکاری ہوجائے بلکہ اس شرعی حکم کو ہی غیر اسلامی قرار دے دے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا ایمان سلامت نہیں رہتا۔
لہٰذا جو شخص عورتوں کے پردہ کرنے کوقرآن و سنت کے واضح احکامات کے برخلاف معاذ اللہ ’’غیر اسلامی ‘‘قرار دے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے داڑھی رکھنے کا حکم دینے اور اس کے نہ رکھنے والے سے منہ پھیرلینے کے باوجو داڑھی نہ رکھنے یعنی شیوبنانے کو حرام نہ سمجھے ،اور جولوگ شریعت کے نفاذ کے لئے کھڑے ہوں ان کا استہزا وتمسخر کرتے ہوئے ان کی بھرپورمزاحمت کرے تو اس شخص کو چاہیے کہ وہ اپنے دین و ایمان کی خیر منائے کہ کہیں وہ اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا رہے مگر شریعت کی نظر میں اس کی حیثیت کفر کرنے والوں کی ہو،اور جہاں تک تعلق ہے ملک میں قائم نام نہاد ’’شرعی عدالتوں ‘‘کی حیثیت کا ،تواگر کوئی ان عدالتوں کو ’’شرعی‘‘سمجھتا ہے ،تو اس ضمن میں صرف چند سوالوں کے جواب مطلوب ہیں؟
اولاً یہ کہ جب ملک میں شرعی عدالتیں موجود ہیں تو پھر دوسرے متوازی عدالتی نظام کی موجودگی کا کیا مطلب ہے ؟او ر دوم یہ کہ اگر شرعی عدالت کوئی فیصلہ دے تو دوسری متوازی عدالت میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کا حق کیا معنی رکھتاہے؟سوم یہ کہ شرعی عدالت کے فیصلے کو دوسری متوازی عدالتیں کیوں کالعدم قرار دے سکتی ہیں؟اس بات کا عملی ثبوت یہ ہے کہ جب ملک میں شرعی عدالتوں نے ایک طویل عرصے کی سماعت کے بعد بڑی ہمت کرکے بینک انٹرسٹ کو ’’سود‘‘قرار دیتے ہوئے ختم کرنے کا حکم دیا تو اس کو دوسری متوازی عدالت نے اس فیصلے کو کالعدم قراردیتے ہوئے اس بینک انٹرسٹ کو دوبارہ جائز قرار دے دیا۔بتائیے کسی شرعی حکم کے مطابق فیصلے کو ’’کالعدم ‘‘قرار دینے کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ کھلم کھلا کفر نہیں؟
بہرحال!پھر 15اپریل2007ء کو کراچی میں’’ڈنڈا بردار کلاشنکوفی شریعت نامنظور‘‘ریلی منعقد کی گئی ۔جس میں اس تحریک کے قائد نے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خلاف جلد از جلد کاروائی کرنے ورنہ بصورت دیگر ’’دمام دم مست قلند‘‘ کرنے کی دھمکی دینے کے ساتھ ساتھ لال مسجدو جامعہ حفصہ کے طلبہ و طالبات کو منافقین کا ٹولہ قرار دیا۔وہ کہتے ہیں:
’’(حکومت )مذہبی انتہاپسندوں کی جانب سے جامعہ حفصہ اور لال مسجد پر کیا جانے والاغیر قانونی قبضہ فوری ختم کرائے اور لوگوں کو تحفظ فراہم کرے ورنہ اس کا شدید ردعمل اور’’دمام مست قلندر ‘‘ہوگا………میں نے پاکستان کی عوام کو پیغام دے دیا ہے کہ ایسے انتہاپسندوں کے خلاف متحدہ ہراول دستے کا کردار ادا کرے گی………گناہوں کے عذاب دینے کا کام اللہ کا ہے نہ کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے ’’ڈنڈا بردار منافقین ‘‘کا ………حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام پھیلانے کے لئے کبھی تلوار نہیں اٹھائی ‘‘۔
[17]
غور کرنے کی بات ہے کہ یہ اس تحریک کے طرز فکر میں عجیب تضاد نہیں کہ ایک طرف وہ شریعت کے نفاذ کی بزورِ قوت شدید مخالف ہے ۔لیکن دوسری طرف وہ اپنے نظریات و افکار کو زبردستی اپنے کارکنان اور عوام الناس پر تھوپنے پر مصر نظر آتی ہے۔اس تحریک کے قائد کی طرف سے جب بھی کوئی ’’حکم‘‘آتا ہے چاہے وہ اس تحریک کے اندورنی معاملات سے متعلق ہو یا پھر ملکی طور پر کوئی واقعہ سے متعلق ،اس کو پوری قوت سے اپنے زیر اثر علاقوں میں نافذ کیا جاتاہے ۔(جیسے کہ ہڑتال کی کال پر اپنے زیر اثر علاقوں میں زور زبردستی سے کاروبار بند کرانا،زکوۃ ،فطرہ اور قربانی کی کھالیں دھونس و دھمکی سے وصول کرنا اور لوگوں کے مال پر مختلف طریقوں اور بہانوں سے ناحق ڈاکہ ڈالنا اور انکار یا مزاحمت کی صورت میں ناحق ان کی جان لینا اب تو معمول کی با ت بن چکا ہے اور اب معاملہ یہ ہے کہ اب ہر سیاسی گروہ نے یہ طرز فکر اپنالیا ہے جو کسی سے مخفی نہیں )۔اس بات کا اعتراف تو خودکراچی میں امریکی سفیر نے اپنے ایک مراسلے میں یوں کیا:
"The party operates through its 100 Sector Commanders,who take their orders directly from the party leader, Altaf Hussain, who lives in exile in the United Kingdom."
’’یہ تحریک(شہر کے معاملات کو) اپنے سو کے قریب سیکٹر کمانڈرز کے ذریعے کنٹرول کرتی ہے جوکہ لند ن میں مقیم اپنے قائد الطاف حسین سے براہ راست احکامات وصول کرتے ہیں‘‘۔
[18]
اور حال یہ ہے کہ جو کوئی چاہے وہ اس تحریک کا کارکن ہو یا عام شہری اگر وہ ان تمام مظالم پر آواز اٹھائے یا اس کی مخالفت کرے اس کے لئے موت کا پروانہ جاری کردیا جاتا ہے اور اس کے لئے دلیل اور ثبوت ایک ہی ہوتا ہے ،وہ یہ کہ :
’’جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے‘‘۔
کیا کسی قائد کے ردّی افکار کو بزورِ قوت نافذ کیا جانا تو صحیح قرار پائے مگر اللہ رب العزت جو اصل خالق و مالک ہے اور وہ ہی زمین وآسمان کا وارث ہے اور سب کو بالآخر اس کی طرف لوٹ کر جانا ہے ، اس کی نازل کردہ شریعت کا بزورِ قوت نفاذ غلط اور ظلم قرار پائے ۔
تھوڑی سی بھی عقل و فہم رکھنے والا شخص یہ بات جانتا ہے کہ دنیا میں کوئی نظا م بغیر ’’قوتِ نافذہ‘‘(Authority)کے نہ چل سکتا ہے اور نہ ہی وہ نظام کہلانے کا حقدار ٹہرتا ہے بلکہ وہ کتابوں کی زینت بن جاتاہے۔ جب رب کائنات نے یہ اعلان کردیا کہ :
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلاَمُ
[19]
’’بے شک اللہ کے نزدیک دین (نظام )صرف اسلام ہے‘‘۔
اور ہر مسلمان بھی یہ ایمان رکھتا ہے کہ اسلام ایک مکمل ’’نظام حیات‘‘ہے تو پھر کیوں اس کے نفاذ کے لئے ’’قوت‘‘کے استعمال کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔
کیا اللہ رب العزت کا عطاکردہ نظام اتنا حقیر اور ذلیل ہے کہ دنیابھر کے کفریہ و شرکیہ آئین جوکہ انسانی اذہان کی پیداوار ہیں ،ان کے نفاذ کے لئے قوت کے استعمال کوجائز قرار دیا جائے مگر دین اسلام کے نفاذ کے لئے قوت کے استعمال کو ناجائز قرار دیا جائے۔
ہرگز نہیں !اللہ رب العزت کی شریعت اس لئے نازل نہیں کی گئی کہ اس کو ردّی افکار اور باطل نظریا ت سے بھی گیا گزرا سمجھا جائے بلکہ اس لئے نازل کی گئی کہ اس کے احکامات کو بزورِ قوت نافذ کیا جائے۔اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے:
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِاﻟۡﺒَﻴِّﻨٰﺖِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْط وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَاْسٌ شَدِیْدٌِ
[20]
’’ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی نشانیاں دے کر بھیجا اور ان پر کتابیں اور ترازو (یعنی نظامِ عدل و قسط ) نازل کیا تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں اور ہم نے (اس کام کی تکمیل کے لئے ) لوہا نازل کیا جس میں جنگ کرنے کی بڑی صلاحیت ہے ‘‘۔
اور پھر اس تحریک کے قائد کا یہ کہنا کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی تلوار نہیں اٹھائی‘‘،دراصل تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت کے بنیادی اصولوں سے بھی انحراف کے مترادف ہے۔سوال یہ ہے کہ جس نبی کو خود اللہ رب العزت نے یہ حکم دیا ہو کہ فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ
[21]’’جنگ کرو اللہ کی راہ میں ‘‘اور پھر اہل ایمان کے بارے میں فرمایا ہوکہ وَحَرِضِ الْمُوْمِنِیْنَ[22]’’اور اہل ایمان کو بھی اس پر ابھاریئے ‘‘،تو کیا اس نبی نے اللہ رب العزت کے اس حکم سے اعراض کیا ہوگا ؟
ہرگز نہیں !جنگ بدر و احداورخندق و تبوک اس بات کی گواہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ رب العزت کے اُسی حکم پر عمل کے لئے یہ جنگیں لڑیں، جس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے:
((أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی یَشْھَدُوا أَنْ لَا اِلَہَ اِلَّا اللَّہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّہِ وَیُقِیمُوا الصَّلَاةَ وَیُؤْتُوا الزَّکَاةَ فَاِذَا فَعَلُوا ذَلِکَ عَصَمُوا مِنِّی دِمَاء َھُمْ وَأَمْوَالَھُمْ اِلَّا بِحَقِّ الْاِسْلَامِ وَحِسَابُھُمْ عَلَی اللَّہِ))
[23]
’’مجھے حکم دیاگیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک قتال کروں جب تک وہ’’لاالٰہ الااﷲ محمدرسول اﷲ‘‘کی گواہی نہ دیں اورنماز قائم کریں اورزکوٰۃادا کریں، جب وہ یہ کام کریں گے توان کا مال اورجان محفوظ ہے سوائے اس حق کے اور ان کاحساب اﷲپر ہے۔ ‘‘
یہاں بعض لوگ اور اس تحریک کے قائد بھی سورۃ البقرۃ کی آیت ۲۵۶کے اس حصے :
لاَ اِکْرَاہَ فِی الْدِّیْنِ
[24]
’’دین میں کوئی جبر نہیں ‘‘۔
کی غلط اور خود ساختہ تفسیر سے عوام الناس کے ذہنوں میں یہ مغالطہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام میں کوئی زبردستی نہیں ہے ۔لہٰذا ازروئے قرآن کریم شریعت کا بزورِ قوت نفاذ جائز نہیں ۔
اوّل تو اس مغالطے کا رددرج بالا آیت اور حدیث سے ہی ہوجاتا ہے۔مگر پھر بھی ہم سورۃ البقرۃ کی مذکورہ آیت کی تفسیر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین اور مفسرین قرآن کی زبانی سمجھ لیتے ہیں تاکہ اصل حقیقت واضح ہوجائے۔
’’جبر و اکراہ ‘‘سے مراد صرف کافر کو زبردستی مسلمان بننے پر مجبورکرنا ہے:
تمام مفسرین و فقہاء کرام اس بات پر متفق ہیں کہ سورۃا لبقرۃ کی آیت کے مذکورہ حصے سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ مسلمانوں کو اسلامی احکامات ماننے پر مجبور کرنا ’’جبر و اکراہ ‘‘ہے بلکہ اس سے کسی کافر کو اسلام داخل کرنے پر مجبور کرنامراد ہے۔جیساکہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کا مطلب یوں بیان کرتے ہیں:
’’لا تکرھوا أحدًا علی الدخول فی دین الاسلام‘‘
[25]
’’کسی کافر کو اسلام میں داخل کرنے کے لئے مجبور نہ کرو‘‘۔
پھر اس آیت سے متعلق اکثر مفسرین صحابہ کرام کے اقوال کی روشنی میں کہتے ہیں کہ یہ آیت صرف اہل کتاب (عیسائیوں اوریہودیوں)سے متعلق ہے ۔جس میں صرف ان کو یہ اختیار دیا گیا کہ اگر وہ اسلام کو قبول نہیں کرتے تو پھر اسلام کو بطور نظام قبول کرتے ہوئے ’’جزیہ ‘‘ادا کریں تو ان کی جان و مال کو تحفظ حاصل ہوجائے گا ۔باقی رہے دوسرے قسم کے کافر، توان کو کسی مسلمانوں کی جانب سے پناہ مل جانے یا پھردارلاسلام کا ان سے کسی قسم کا معاہدہ ہوجانے یا پھرا ن کے اسلام قبول کرلینے کے سو ا کوئی چارہ نہیں ۔
[26]
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’فمن عدل عن الکتاب قوم بالحدید؛ولھذا کان قوام الدین بالمصحف والسیف۔وقد روي عن جابر بن عبد اللّٰہ رضی اللّٰہ عنھما قال:((أمرنا رسول اللّٰہ ﷺ أن نضرب بھذا )) یعنی السیف من عدل عن ھذا یعنی المصحف ‘‘
[27]
’’پس جو شخص کتاب اللہ کو چھوڑ کر دوسری راہ اختیار کرے،اُسے لوہے (یعنی تلوار)سے سیدھا کیاجائے،اس لئے کہ دین کا قیام ،دین کی مضبوطی اور پائیداری کتاب اللہ اور شمشیر سے ہوتی ہے۔سیدنا جابر بن عبداللہ ﷛سے مروی ہے ،وہ کہتے ہیں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ وعلیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے :((اَنْ نَضْرِبَ بِھَذَا))’’یعنی تلوار سے اُسے ماریں جو قرآن سے منہ موڑے‘‘۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت نقل کرتے ہیں، ،حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب (صلحِ حدیبیہ کے ایک سال بعد )عمرہ ٔ قضا کے لیے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے آگے یہ رجزیہ اشعار پڑھتے جارہے تھے :
’’خلوا بنی الکفار عن سبیلہ،قد انزل الرحمٰن فی تنزیلہ،بان خیر القتل فی سبیلہ ،نحن قتلنا لکم علی تاویلہ ،کما قتلنا کم علی تنزیلہ‘‘
’’اے کافروں کی اولاد! رسول اللہﷺ کا راستہ چھوڑ دو ،بے شک مہربان اللہ نے اپنے کلام میں فرما یا ہے کہ:’’ بہترین قتل وہ ہے جو اس کی راہ میں ہو‘‘۔(لہٰذا) ہم تم کو قتل کریں گے اس قرآن کی مراد (یعنی معانی و احکامات )منوانے پر بھی ،جیساکہ ہم نے تم کو قتل کیا ہے اس کے نزول کے منوانے پر ‘‘۔
[28]
اب خود ہی فیصلہ کرلینا چاہیے کہ شریعت کے نفاذ سے متعلق صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین اور مفسرین کی تفسیر کو مانا جائے یا پھر اس تحریک کے قائد کی خود ساختہ تفسیر کو تسلیم کیا جائے۔
آخر میں اگر اس بات کی طرف بھی اشارہ کردیا جائے تو کوئی حرج نہیں کہ شریعت کے قوت کے ساتھ نفاذ کے معاملے میں اس تحریک کے قائد اور قادیانیت کے نظریات میں کوئی خاص فرق نہیں۔مرزا غلام احمد قادیانی ملعون اپنی کتاب میں کہتاہے :
’’جب سے دین کے لئے لڑنا حرام کیا گیا ہے ،اب اس کے بعد جو دین کے لئے ’’تلوار‘‘اٹھاتا ہے اور غازی نام رکھ کر کافروں کو قتل کرتاہے ،وہ خدا کا اور اس کے رسول کا نافرمان ہے‘‘
[29]
ایک اور جگہ اپنے اشعار میں کہتا ہے:
اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستوں خیال
دین کے لئے حرام ہے اب جنگ اور’’ قتال‘‘
دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد
منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد
[30]
پس جو کوئی بھی اپنے ایمان و اسلام کی سلامتی چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ ایسے نظریات و افکار سے توبہ کرلے چاہے اس کا تعلق کسی بھی گروہ سے ہواوریہ کہ اس تحریک کے کارکنان و ہمدردوں کو بھی غور کرنا چاہیے کہ کیا وہ کہیں ایسے نظریات و افکار کوتو Followنہیں کررہے ہیں جو کہ روزِ قیامت سوائے حسرت وندامت کے علاوہ کسی اورچیز میں اضافہ کا سبب نہ بن سکیں گے ۔
وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ مَوْقُوْفُوْنَ عِنْدَ رَبِّھِمْ یَرْجِعُ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ نِ الْقَوْلَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا لَوْلَآ اَنْتُمْ لَکُنَّا مُؤْمِنِیْنَقَالَ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْآ اَنَحْنُ صَدَدْنٰکُمْ عَنِ الْھُدٰی بَعْدَ اِذْ جَآءَ کُمْ بَلْ کُنْتُمْ مُّجْرِمِیْنَ وَقَالَ الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا بَلْ مَکْرُ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ اِذْ تَاْمُرُوْنَنَآ اَنْ نَّکْفُرَ بِاللّٰہِ وَنَجْعَلَ لَہٗٓ اَنْدَادًا وَاَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ وَجَعَلْنَا الْاَغْلٰلَ فِیْٓ اَعْنَاقِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ھَلْ یُجْزَوْنَ اِلَّا مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
[31]
’’اے دیکھنے والے!کاش کہ تو ان ظالموں کو(جنہوں نے اللہ احکامات کے بجائے کسی اور کی حکم بجاآوری کی)اس وقت دیکھتا جبکہ ا پنے رب کے سامنے کھڑے ہوئے ایک دوسرے کو الزام دے رہے ہوں گے۔کمزور لوگ بڑے لوگوں سے کہیں گے اگر تم نے ہوتے تو ہم مومن(اللہ کی فرمانبرداری کرنے والے)ہوتے۔تو بڑے لوگ ان کمزوروں کو جواب دیں گے کہ کیا تمہارے سامنے ہدایت آچکنے کے بعد ہم نے تمہیں اس سے روکا تھا؟(نہیں) بلکہ تم خود مجرم تھے۔(اس کے جواب میں )یہ کمزور لوگ ان بڑوں سے کہیں گے کہ(نہیں نہیں)بلکہ تم دن رات کے مکروفریب سے ہمیں اللہ کے ساتھ کفر کرنے اور اس کے شریک مقرر کرنے کا تمہارا حکم دینا ہی ہمیں ایمان سے محروم کرنے کا باعث بنا!اور عذاب کو دیکھتے ہی سب کے سب دل پشیمان ہورہے ہوں گے اور انکار کرنے والوں کی گردنوں ہم طوق ڈال دیں گے انہیں صرف ان کے کئے کرائے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا‘‘۔
اختتامیہ
اردوبولنے والوں سمیت ہر ایک کے مسائل کاواحد حل
جہاں تک تعلق ہے اردوبولنے والوں سمیت ہر ایک کے معاشی استحصال اور مسائل کا تو اس کاحل صرف اور صرف شریعت کے نفاذ میں ہے۔کیوں کہ اسلا م کا عطاکردہ نظام ہی وہ واحد ذریعہ ہے جوکہ وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بناتاہے اور معاشرتی ،معاشی اور سیاسی ناہمواریوں اور ناانصافیوں کو ختم کرتاہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرٰةِ وَالْاِنْجِیْلِ یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَھُمُ اﻟﻄَّﻴِّﺒَﺖِوَیُحَرِّمُ عَلَیْھمُ الْخَبٰٓئِثَ وَیَضَعُ عَنْھمْ اِصْرَھمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھمْ
[32]
’’جولوگ رسول نبی امی کا اتباع کرنے والے ہیں جن کو وہ لوگ اپنے پاس تورات و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ ان کو نیک باتوں کو حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے منع کرتے ہیں اور پاکیزہ چیزو ں کو حلال کرتے ہیں اور خبیث چیزوں کوحرام کرتے ہیں اور ان لوگوں پر جو بوجھ اور طوق پڑگئے تھے ان کو دور کرتے ہیں ‘‘۔
حضرت سعد بن ابی وقاص نے شاہ ایران کسریٰ کے دربار میں کہے تھے:
((فَقَالَ اللّٰہَ ابْتَعَثَنَا لِنُخْرِجَ النَّاسَ مَنْ شَاءَ مِنْ عِبَادَةِ الْعِبَادِ اِلٰی عِبَادَةِ اللّٰہِ وَحْدَہٗ، وَمِنْ ضِیْقِ الدِّنْیَا اِلٰی سَعَتِھا، وَمِنْ جَوْرِ الْاَدْیَانِ اِلٰی عَدْلِ الْاِسْلَام))
[33]
’’بے شک اللہ نے ہمیں بھیجا ہے تا کہ ہم نکالیں انسانوں کوبندوں کی عبادت سے، اللہ وحدہ کی عبادت کی طرف اور دنیا کی تنگی سے اس کی وسعت کی طرف اور (باطل)ادیان کے ظلم و ستم سے اسلام کے عدل کی طرف۔‘‘
مذکورہ بالا آیت میں ’’یَاْمُرُھُمْ‘‘کے جملے سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ جب نیکیوں کو معاشرے میں رائج اور نافذ کیا جاتاہے اور برائیوں کی قوت کے ساتھ بیخ کنی کی جاتی ہے تو لوگوں کے گلوں میں جو ظلم و جبر کے طوق جاہلیت کی بنیادر پر پہنادیئے جاتے ہیں وہ خود بخود اترجاتے ہیں ورنہ بصورت دیگر ظلم و جبر کے طوق اوربھاری ہوتے چلے جاتے ہیں۔
اس بات کو مزید سمجھنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل مدینہ کے دو قبائل اوس و خزرج کی مثال ہی کافی ہے ۔چنانچہ جب شریعت نہیں تھی تو جنگل کا قانون رائج تھا اور جاہلیت کا دور دورہ تھا اور طاقت کی بنیاد پر ایک گروہ دوسرے گروہ پر ناحق طریقے سے غالب تھا۔
ان دونوں قبائل کے درمیان تاریخ انسانی کی وہ بھیانک جنگ لڑی گئی جوکہ نسل در نسل چلتی رہی ۔نتیجہ یہ ہوا کہ خزرج قبیلہ اوس قبیلے پر غالب آگیا ۔پھر انصاف کا پیمانہ یوں ٹہرا کہ اگر اوس قبیلے کا فرد خزرج قبیلے کے فرد کے ہاتھوں مارا جاتا تو بدلے میں صرف چند کھجوروں کے ٹوکرے دئیے جاتے اور اگر خزرج قبیلے کا فرد اوس قبیلے کے ہاتھوں مارا جاتا تو بدلے میں قبیلہ اوس کے تین افراد کو قتل کیا جاتا اور یہ قانون دونوں قبیلوں نزدیک کے متفقہ تھا۔
مگر جب یہ دونوں قبیلے اسلام سے سرفراز ہوئے اور اسلام کو بطور نظام نافذ کرنے پر متفق ہوگئے تو اللہ رب العزت نے ان کو باہم شیر و شکر کردیا اور یوں ظلم و جبر پر مبنی جاہلی نظام کا خاتمہ ممکن ہوا اور آج ہم ان کو ’’انصارِ مدینہ ‘‘کے نام کے ساتھ ادب سے پکارتے ہیں(رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ )
چنانچہ آج اگر ہم معاشرتی ناہمواریوں اور معاشی استحصال کا خاتمہ چاہتے ہیں تو اس کاواحد حل’’شریعت اسلامی‘‘کے نفاذ میں ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور صورت اختیار کرنے میں سوائے گھاٹے اور خسارے کے کچھ اور ہاتھ آنے والا نہیں۔لہٰذا نجات اسی میں ہے کہ ہماری ساری ہمدردیاں اور سپورٹ اس گروہ کے ساتھ ہوجانے چاہیے جوکہ دین حق کے نفاذ کے لئے اللہ کے دشمنوں اور کفر کے سرداروں سے لڑ رہے ہیں اور اپنی جان ومال اس راہ میں لٹارہے ہیں کیونکہ یہی وہ گروہ ہے جس کے حق پر ہونے کی گواہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں دی :
((لَنْ یَبْرَحَ ھذَا الدِّینُ قَائِمًا یُقَاتِلُ عَلَیْہِ عِصَابَةٌ مِنْ الْمُسْلِمِینَ حَتَّی تَقُومَ السَّاعَةُ))
[34]
’’یہ دین قائم رہے گا کیونکہ مسلمانوں کی ایک جماعت اس کے(قیام کے)لئے قتال کرتی رہے گی قیامت واقع ہونے تک‘‘۔
((لَا تَزَالُ عِصَابَةٌ مِنْ أُمَّتِی یُقَاتِلُونَ عَلَی أَمْرِ اللَّہِ قَاھرِینَ لِعَدُوِّھمْ لَا یَضُرُّھُمْ مَنْ خَالَفَھُمْ حَتَّی تَأْتِیَھُمْ السَّاعَةُ))
[35]
’’میری امت کاایک گروہ اللہ کے حکم کے مطابق قتال کرتا رہے گا ،یہ لوگ دشمنوں پر چھائے رہیں گے ،جس کسی نے ان کی مخالفت کی وہ انہیں نقصان نہیں پہنچاسکے گا ،یہاں تک کہ قیامت آجائے اور اسی طریقے پر قائم رہیں گے۔‘‘
((مَنْ یُرِدْ اللَّہُ بِہِ خَیْرًا یُفَقِّھۡہُ فِی الدِّینِ وَلَا تَزَالُ عِصَابَةٌ مِنْ الْمُسْلِمِینَ یُقَاتِلُونَ عَلَی الْحَقِّ ظَاھِرِینَ عَلَی مَنْ نَاوَأَھُمْ اِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ))
[36]
’’اللہ جس کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دیدیتا ہے اور قیامت تک مسلمانوں میں سے ایک جماعت حق پر لڑتی رہے گی اور اپنے سے الجھنے والوں پر غالب رہے گی ۔‘‘

وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ
[37]
’’اور اللہ تعالیٰ اپنے ہرکام پر پوری طرح غالب ہے لیکن لوگوں کی اکثریت نہیں جانتی ‘‘۔


[1] بحوالہ انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا ، وکی پیڈیا اور آکسفورڈ ڈکشنری۔

[2] بحوالہ انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا اوروکی پیڈیا۔

[3] مسند احمد ج۲۲ص۴۵۲ رقم:۱۰۹۰۷۔

[4] الحجرات:۱۔

[5] النسآء:۶۵۔

[6] الاحزاب:۳۶۔

[7] http://www.mqm.org/English-News/Sep-2001/ah010911.htm

[8] بحوالہ وکی لیکس

[9] سورۃالمائدۃ:۵۱۔

[10] تفسیر الطبری:۶/۲۷۶،۲۷۷۔

[11] تفسیر الطبری:۶/۳۱۳، تفسیر القرطبی :۴/۵۷۔

[12] الدرر السنیۃ:۷/۳۳۴۔

[13] تفسیر القرطبی:۸/۹۳-۹۴، تفسیر فتح القدیر للشوکانی:۱/۵۲۹ ، تفسیر أبی سعود:۲/۲۴۶۔

[14] تفسیر القرطبی:۵/۴۱۷،۴۱۸۔

[15] مجموع الفتاوی:۷/۶۴۔

[16] روزنامہ ایکسپریس ،9اپریل ۲۰۰۷ء۔

[17] دیکھئے http://www.mqm.org/news-2007/apr/n04-15.pdf

[18] بحوالہ وکی لیکس۔

[19] آل عمران:۱۹۔

[20] الحدید:۲۵۔

[21] النسآء۔

[22] النسآء۔

[23] صحیح البخاری،ج:۱،ص:۱۷،رقم الحدیث:۲۵۔

[24] البقرۃ۔

[25] تفسیر ابن کثیرج۱ص۶۸۲۔

[26] تفصیل کے لئے قدیم کتب تفاسیر اورکتب فقہ ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔

[27] السیاسۃ الشرعیہ :باب کیفیۃ معرفۃ الأصلح فی الولایۃ،ص۱۹۔

[28] رواہ الطبرانی ورجالہ رجال الصحیح ،مجمع الزوائد،ج:۶،ص:۱۴۷۔فتح الباری لابن حجر﷫ج:۱۲ص:۶۵۔

[29] منارۃ المسیح ص ب ت۔

[30] ضمیمہ تحفہ گولڑیہ صفحہ ۳۹۔

[31] سبا:۳۱ تا۳۳۔

[32] الاعراف:۱۵۷۔

[33] البدایۃ والنہایۃ،ج:۷،ص:۴۷۔

[34] صحیح مسلم ،ج:۱۰،ص:۳۸،رقم الحدیث:۳۵۴۶۔کنزالعمال،ج:۱۲،ص:۱۶۴،رقم الحدیث:۳۴۴۹۵۔

[35] صحیح مسلم ،ج:۱۰،ص:۴۲،رقم الحدیث:۳۵۵۰۔

[36] صحیح مسلم ،ج:۱۰،ص:۴۱،رقم الحدیث:۳۵۴۹ ۔

[37] یوسف:۲۱۔
 
عقل رکھنے والوں کے لئے ان سب باتوں میں کھلی نشانیاں ہیں!!
بے حیائی اور بے راہ روی
یوں تو ملک کی اکثر سیاسی جماعتوں (بشمول اس تحریک )کے قائدین اور رہنماؤں کی اکثریت بددین،بد اخلاق ہونے کے ساتھ ساتھ بدکردار بھی ہے جوکہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان جماعتوں کے کارکنان و ہمدردوں میں بھی بد دینی بد کرداری پروان چڑھ رہی ہے جس کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں ۔
لیکن جس منظم اور محکم انداز میں بددینی و بدکرداری کے ساتھ بے حیائی اور بے راہ روی کو عوام الناس میں اس تحریک کے ذریعے فروغ دیا جارہاہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔اس بات کا اندازہ صرف اس تحریک کے قائد کی مختلف جلسوں اور پریس کانفرنسس میں اعلانیہ بے حیائی اور بے غیرتی پر مبنی گفتگوسے کیا جاسکتاہے جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔
ماضی قریب میں اس کی سب سے بڑی مثال 19فروری ۲۰۱۲ء کو منعقدہ خواتین کا جلسہ ہے جس کوبراعظم ایشیاء کی تاریخ میں خواتین کاسب سے بڑا جلسہ قرار دیاگیا اور اس جلسہ میں جس طرح بدنامہ زمانہ فنکاراؤں اور گلوکاراؤں کے ذریعے مسلمانوں کی مائوں بہنوں کی عزت و ناموس کو رسوا کیا گیا اور ان کو حیاء باختہ رقص پر مجبور کیا گیا اور اس تحریک کے قائد کی جانب سے پوری دنیا کے سامنے جو حیاء سوز تقریر کی گئی اس نے تو غیرت وحمیت کا جنازہ ہی نکال دیا۔
غیرت نام تھا جس کا ،رخصت ہوئی مسلماں کے گھر سے
صحیح فرمایا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے:
((اِذَا لَمْ تَسْتَحْیِ فَافْعَلْ مَا شِئْتَ))
جس کے اندر سے حیاء وغیرت نکل جائے وہ جو چاہے کرتا پھرے۔
اردو بولنے والی ماؤں بہنوں کو غور فکر کرنا چاہیے کہ کل تک جو مائیں بہنیں حیا ء وعفت کا پیکر ہوا کرتی تھیں آج کس کے ایجنڈے پر ان کی عزت و ناموس کو گلی گلی رسوا کیا جارہا ہے اور سوچنا چاہیے اس تحریک کے کارکنان کو کہ جو گفتگوان کے قائد ان کی ماؤں بہنوں کے سامنے کرتے ہیں اگر وہ گفتگوکوئی اور کرے تو کیا وہ اس شخص کی جان کو درپے نہ ہوجائیں گے اور یہ بھی کہ کیا ان کے آباؤاجداد نے اس لئے یہ ملک حاصل کیا تھا کہ ان کی بیٹیاں سڑکوں پررقص کریں اور بھنگڑے ڈالیں؟ جان لیں !اگر اس طرز عمل کا تدارک نہ کیا گیا تو پھر ہماری ماؤں بہنوں کی عزت وناموس کو بچانے والا کوئی نہ ہوگا؟
سیکولر ازم اور لبرل ازم
یہ تحریک لبر ل ازم اور سیکولر ازم کی حامی جماعتوں میں سے ایک ہے ۔یہ تحریک نہ صرف ان دونوں فلسفوں پر یقین رکھتی ہے بلکہ اس کے فروغ اور اس کی بنیاد پر ریاستی امور چلانے کا بھی عزم رکھتی ہے۔اس بات کا اندازہ تحریک کے قائد اور اس کے رہنماؤں کے بیانات اورخاص کر ان کی فکری نشستوں میں ہونے والی گفتگو سے کیا جاسکتاہے جس کا اس تحریک کے عام کارکنان بھی بخوبی علم رکھتے ہیں۔بدنامہ زمانہ اینکرمبشر لقمان کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران اس تحریک کے قائد نے برملاکہا کہ :
ہم لبرل لوگ ہیں ۔
چنانچہ اس ضمن میں لبرل ازم اور سیکولر ازم کو مختصراً سمجھنا نہایت ضروری ہے تاکہ اس بات کا اندازہ بخوبی کیا جاسکے کہ ان نظریات کے فروغ اور نفاذ کا کیا مطلب ہے؟اور آدمی کے دین و ایمان پر اس کے کتنے بھیانک اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
لبرل ازم کی تعریف وتاریخ :
لفظ لبرلقدیم روم کی لاطینی زبان کے لفظ لائیبر(Liber)اور پھر لائبرالس(Liberalis)سے ماخوذ ہے ، جس کا مطلب ہے آزاد ۔جو غلام نہ ہو۔آٹھویں صدی عیسوی تک اس لفظ کامعنی ایک آزاد آدمی ہی تھا ۔ بعدمیں یہ لفظ ایک ایسے شخص کے لئے بولا جانے لگا جو فکری طور پر آزاد ، تعلیم یافتہ اور کشادہ ذہن کا مالک ہو۔اٹھارویں صدی عیسوی اور اس کے بعدیہ لفظ اس شخص کے بارے میں کہاجانے لگاجو خدا یا کسی اور مافوق الفطرت ہستی یا مافوق الفطرت ذرائع سے حاصل ہونے والی تعلیمات اور مذہبی اقدار کی پابندی سے خود کو آزاد سمجھتا ہوچناچہ لبرل ازم سے مراد کسی بھی مذہبی اقدارسے آزاد روش پر مبنی وہ فلسفہ اورنظام اخلاق و سیاست ہے جس پر کوئی گروہ یا معاشرہ عمل پیرا ہو۔
بنیادی طور پر برطانوی فلسفی جان لاک(1620 Jhon Lockeء تا 1740ء)پہلا شخص ہے جس نے لبرل ازم کو باقاعدہ ایک فلسفہ اور طرز فکر کی شکل دی ۔یہ شخص عیسائیت کے مروجہ عقیدے کو نہیں مانتا تھا بلکہ اس سے نہایت بیزار بھی تھا۔انقلاب فرانس کے فکر ی رہنما والٹیئرVoltaire(1694تا1778ء)اورروسوRousseau(1712ء تا 1778ء)اگر چہ رسمی طور پر عیسائی تھے لیکن فکری طور پر جان لاک سے متاثر تھے ۔انہی لوگوں کی فکر کی روشنی میں انقلاب فرانسکے بعد فرانس کے قوانین میں مذہبی اقدار سے آزادی کے اختیار کو قانونی تحفظ دیا گیا اور اسے ریاستی امور کی صورت گری کے لئے بنیاد بنادیا گیا۔امریکہ کے اعلان آزادی(American Declaration of Independence)میں بھی شخصی آزادی کی ضمانت جان لاک کی فکر سے متاثر ہوکر دی گئی ۔
[1]
سیکولر ازم کی تعریف وتاریخ:
سیکولر ازم،قدیم لاطینی لفظسیکولارس(Saecularis)سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے وقت کے اندر محدود۔عیسائی عقیدے کے مطابق خدا کی ذات وقت کی قید اور حدود سے آزاد اور ماورا ہے۔یورپ میں تحریک احیاء علوم (جوکہ عیسائیت کے مسخ شدہ عقائدسے بیزاری کا نتیجہ تھی )کے دوران یورپ میں جب عیسائیت کی تعلیمات سے بیزاری کے نتیجے میں خدا کے انسانی زندگی میں کسی عمل دخل کے خلاف بغاوت پیدا ہوئی تو کہاجانے لگا کہ چونکہ خدا وقت کی حدود سے ماوراہے اور انسان وقت کی حدود سے مقید ہے لہذا نسانی زندگی کو سیکولر یعنی خدا سے جدا(محدود )ہونا چاہیے۔
اس لفظ کو باقاعدہ اصطلاح کی شکل میں 1864ء میں متعارف کرانے والا پہلا شخص برطانوی مصنف جارج جیکب ہولیوک(1817 George Jacob Holyoakeء تا1906ء)تھا۔اس کو ایک دفعہ عیسائیت سے بیزاری یا بالفاظِ دیگر لبرل ازم پر لیکچر دینے پر چھ ماہ کی سزا کاٹنی پڑی ۔ جیل سے رہا ہونے کے بعد اس نے اپنا طرزِ فکر تبدیل کیا اور لبرل ازم کے مقابلے میں نرم لفظسیکولر ازم کا پرچار شروع کردیا۔
[2]
اس اصطلاح کے عام ہوجانے کے بعد پہلے برطانیہ اور پھر تمام یورپ اور دنیا بھر میں سیکولرازم کے معنی یہ ہوئے:انسانی زندگی کے دنیاسے متعلق امورکا تعلق خد ایا مذہب سے نہیں ہوتااور مزید یہ کہ حکومتی معاملات کا خدا یا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔اس اصطلاح کے یہی معنی اب دنیا بھر میں انگریزی زبان کی ہر لغت اور انسائیکلو پیڈیا میں پائے جاتے ہیںاور اسی پر سیکولر کہلانے والے تمام لوگوں کا اتفاق ہے۔
سیکولر ازم اور لبرل ازم دراصل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں :
لبرل ازم اور سیکولر ازم بظاہر دو الگ الگ اصطلاحات و فلسفوں کا نام ہے مگر حقیقی اعتبار سے دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم اورایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔جو شخص لبرل ازم کے فلسفے (آزاد خیالی،مذہب بیزاری)پر یقین رکھتاہوتو وہ شخص لازماً سیکولر ازم (خدا کو مقید کرنے )کا حامی ہوگا کہ کیونکہ دونوں کے مقاصدو اہداف مشترک ہیں کہ خدا کو مقید کرتے ہوئے انفرادی و اجتماعی معاملات میںمذہب سے آزادی حاصل کرنا ، لہٰذا نتائج کے اعتبار سے دونوں فلسفوں میں کوئی فرق نہیں۔
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
لبرل ازم اورسیکولر ازم اسلام کی نظر میں:
اس سے قبل کہ ہم لبرل ازم اورسیکولر ازم کے فروغ میں موضوع بحث تحریک کے کردار پر بحث کریں ،ہم ان دونوں نظریات کو قرآن وسنت کی روشنی میں پرکھ لیتے ہیں آیا اللہ رب العزت نے انسان کو اپنی بندگی اور فرمابرداری کے لئے پیدا کیا تھا یا پھر اپنے نفس کی خواہشات کے مطابق جیسے چاہو جیوکے فلسفے پر آزادانہ زندگی گزارنے کے لئے۔اس سلسلے میں چند آیات قرآنی اور احادیث ہی اس بات کے رد کے لئے کافی ہیں ،مزید کسی تفصیل کی ضرورت نہیں۔ایک حدیث میں بندۂ مومن کی مثال اس طریقے سے دی گئی ہے:
((مَثَلُ الْمُؤْمِنِ کَمَثَلِ الْفَرَسِ عَلَی آخِیَّتِہِ یَجُولُ ثُمَّ یَرْجِعُ اِلَی آخِیَّتِہِ))
[3]
بندۂ مومن کی مثال اس گھوڑے کی سی ہے جوکہ ایک کھونٹے سے بندھا ہوا ہو،کہ گھوڑاگھوم پھر کرکھونٹے کی طرف ہی واپس آجاتا ہے۔
چناچہ درجِ ذیل آیات قرآنی بھی درج بالا حدیث کی ترجمانی کرتی ہیں :
یٰآَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ ٌ عَلِیْمٌ
[4]
اے ایمان والو!اللہ اور اس کے رسول (کی مقرر کردہ حدود)سے آگے نہ بڑھواور اللہ سے ڈرتے رہو۔یقینا اللہ تعالیٰ سننے والے او ر جاننے والے ہیں۔
فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
[5]
پس قسم ہے تمہارے پروردگار کی!یہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ آپس کے تمام اختلافات میں آپ کو حاکم نہ مان لیں ،پھر جو فیصلہ آپ ان میں کردیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور آپ کے حکم کو فرمابرداری کے ساتھ تسلیم کرلیں۔
وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ ٓاَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِھِمْ وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا
[6]
اور کسی ایمان والے مرد وعورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعد اپنے کسی امرکا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گاتو وہ صریح گمراہی میں پڑگیا ۔
سب سے پہلے پاکستان؟؟
پاکستان کا مطلب کیا ؟لاالہ الااللہ !کے نام پر حاصل کئے گئے ملک میں اول دن سے ہی مختلف حیلوں بہانوں سے ان دونوں فلسفوں کو رائج اور نافذ کرنے کی کوشش کی گئی ۔لیکن عوام الناس کے اندر پائے جانے والی اسلام سے محبت،ان نظریات کے مکمل طور پر رائج ہونے میں رکاوٹ بنی رہی۔
لیکن اس حوالے سے سب سے بڑی عملی کوشش اس وقت کی گئی جب طاغوت وقت جنرل پرویز مشرف نے کفریہ نعرے سب سے پہلے پاکستانکی بنیاد پر روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے نام پران دونوں نظریا ت کو نہ صرف نافذکیا بلکہ عوام الناس کے قلوب و اذہان کے اندر بھی دین و شریعت سے شدید بیزارگی پیدا کی گئی۔چنانچہ وہ اپنے ان افکار کا تو برملا اظہار کرتا تھا کہ کہ آ ج خلافت کا نظام قابل عمل نہیںاور یہ کہ داڑھی اور پردہ کو گھر پر رکھا جائےاورموسیقی کو حرام کہنے والوں سے ہمیں مقابلہ کرنا ہوگاوغیرہ وغیرہ۔
چنانچہ جس وقت ان نظریات کو عوام الناس میں حکومتی سطح پر تھوپنے کی کوشش کی گئی، تواس دوران ملک کی دیگر جماعتوںکی طرح اس تحریک کے ذریعے پورے ملک میں، اورخاص کر اردو بولنے والے مسلمانوں کے اندران نظریات کو رائج کرنے کے لئے پھرپور ذہن سازی کی گئی اور روشن خیالی و اعتدال پسندی کے نام پر کفر و الحاد کا وہ طوفان کھڑا کیا گیا جس کے آگے بند باندھنے کی کوئی سبیل نظر نہ آتی تھی(جس کی قدرے تفصیل آگے آرہی ہے)لیکن اللہ تعالیٰ لال مسجد و جامعہ حفصہ کے طلبہ وطالبات کی شہادت کو قبول کرے کہ وہ جاں سے تو گزرگئے لیکن اپنی قربانیوں سے وہ اس عفریت کو بھی ہمیشہ کے لئے زمین میں دفن کرگئے۔چنانچہ آج روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے الفاظ کو ماسوا گنے چنے لوگوں کے کوئی بھی استعمال کرنے والا نہیں ۔
بہرحال !یہ جاننے کے بعد کہ اسلام میں لبرل ازم اور سیکولر ازم کے نظریات و افکار کی کسی صورت کوئی گنجائش نہیں، جولوگ بھی ان نظریات کی حامل جماعتوں اور تحریکوں سے وابستہ ہیں ان کو چاہیے کہ وہ اپنے دین و ایمان کو برباد ہونے سے بچائیں اورایسا طرز فکر رکھنے والی تحریکوں سے بے زاری کا اظہار کریں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کردار
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر برپا کی جانے والی صلیبی جنگ میں ایک طرف حکومت پاکستان اور افواجِ پاکستان سمیت ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے امریکہ کی ایک ہوںاور ڈالروں کی چمک کے سامنے سرِتسلیم خم کردیا اور افغانستان کے مسلمانوں کے قتل عام کے لئے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو کھلا لائسنس عطاکیا بلکہ اس جنگ مین کفر کے اتحادی فرنٹ لائن اسٹیٹ کاکردار اداکر نے میں کوئی عار محسوس نہ کیا ۔
اس ضمن میں ملک کی دینی کہلانے والی جماعتوں کا اندرونی طور پرکیا کردار رہا وہ ابھی زیرِ بحث نہیں ،مگر بیرونی طور پر بھی انہوں نے بھی اس معاملے میں شریعت کی طرف سے عائد کئے جانے والے فریضے(یعنی جہاد فی سبیل اللہ) کی ادائیگی میں جس مجرمانہ خاموشی اور غفلت کا مظاہرہ کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں اور جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے(البتہ ان جماعتوں سے تعلق رکھنے والے وہ لوگ اس سے مستثنیٰ ہیں جنہوں نے اپنی جماعتوں کی مخالفتوں کے باوجود ہر طریقے سے کفر کے مقابلے میں کھڑے ہونے والے اہل ایمان کی مددو نصرت کی)۔
لیکن مسلمانوں کے خلاف جنگ میں جو خطرناک اور بھیانک کردار اس تحریک نے اداکیا اس کو احاطۂ تحریر میں لانا ناممکن نہ سہی مگر مشکل ضرور ہے۔یہ تحریک اس جنگ میں مجموعی طور پر افواجِ پاکستان کی طرح کفار کا ہراول دستہ ثابت ہوئی ۔ اس تحریک نے نہ صرف اپنے زیرِ اثر علاقوں میں کفر کے خلاف لڑنے والے اور ان کی مدد ونصرت کرنے والوں کی جاسوسی سے لے کر ان کی گرفتاریوں تک اور ان کا عرصۂ حیات تنگ کرنے سے لے کر ان کو رسوا کرنے اور خفیہ طریقوں سے قتل کرنے تک آئی ایس آئی کی طرح بھرپورکردار ادا کیا۔
عالمی طور پر افغانستان اور عراق کے مسلمانوں کے معاشی استحصال سے لے کر ان پرکفار کی طرف سے آتش و آہن کی برسات تک یا پھر ملکی طورپر لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے محاصرے سے لے کر آپریشن سائلنس میں فاسفورس بموں کے ذریعے ان کو جلائے جانے تک ،امریکہ کی خوشنودی کے طالب اور ڈالروں کے پجاری افواجِ پاکستان کے ہاتھوں سرحدی علاقوں میں ہزاروں قبائلی مسلمانوں کے قتل عام سے لے کر اپنے ہی ملک میں لاکھوں لوگوں کومہاجربنائے جانے تک یا پھر ملک میں نافذ ظلم و جبر پر مشتمل کفریہ قوانین کے مقابلے میں شریعت کے نفاذ کی مخالفت تک ،ہر ایسے موقع پر اس تحریک نے وہ کردار ادا کیا جوکہ کفر کے سرداروں کو مطلوب تھا۔اس حوالے سے چند چیدہ چیدہ مثالیں درج ذیل ہیں :
امریکہ کی حمایت میں ریلی:
نائن الیون کے بعد جب امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان پر حملہ کرنے لئے پر تول رہے تھے اس وقت اس تحریک نے کفارکو اپنے پورے تعاون کا یقین دلایا (جس کی پوری تفصیل تھوڑے عرصے پہلے ہی سامنے آئی ہے)
اور اس وقت کے امریکی صدر نے جب یہ اعلان کیا کہ :
"Every nation ,in every region,now has a decision to make.
Either you are with us ,or you are with the terrorsts."
ہر قوم جو کہیں بھی رہتی ہو،اس کو ابھی یہ فیصلہ کرنا ہوگا آیا وہ ہمارے ساتھ ہے یا وہ ہمارے دشمنوں کے ساتھ ہے۔
چنانچہ اس تحریک کے قائدکی جانب سے۲۳ستمبر۲۰۰۱ء کو اس وقت کے وزیر اعظم برطانیہ ٹونی بلئیر کو لکھا جانے والا خط قابل ذکر ہے ۔ جس کے متن کو پڑھ کر ہی اندازہ ہوجائے گا کہ کس طرح کفر کے ساتھ ہر طرح کے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی۔خط کا متن درج ذیل ہے:
23ستمبر2001ء
جناب ٹونی بلیئرممبر پارلیمنٹ و وزیرا عظم
برطانیہ 10ڈائو ننگ اسٹریٹ لندن ڈبلیوون
محترم وزیر اعظم(برطانیہ)!
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)دہشت گردی کی ہرقسم ،مذہبی جنونیت اور تشدد کی قطعی مخالف جماعت ہے اور حقیقی جمہوریت کی حامی ہے۔ہم درجِ ذیل خدمات پیش کرسکتے ہیں:
(۱) ہم معاہدہ ہونے کے پانچ روز کے اندر دہشت گردی کے خلاف برسرِ پیکار عالمی برادری کی حمایت میں پانچ دن کے نوٹس پر کراچی میں متعدد مظاہرے کرسکتے ہیں۔حکومت پاکستان سے اجازت ملنے کی صورت میں ان مظاہروں میں لاکھوں افراد شرکت کریں گے۔پہلا مظاہرہ 26ستمبر 2001ء کو ہوگا۔
(۲) سندھ کے تمام چھوٹے بڑے شہروں اور کسی حد تک پنجاب میں مدارس،بنیاد پرستوں اور طالبان سے وابستہ تنظیموں کی نگرانی کے لئے ہیومن انٹیلی جنس فراہم کی جاسکتی ہے۔
(۳) مغربی ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کی ہیومن انٹیلی جنس صلاحیتوں کو مدد اور بڑھاوا دینے کے لئے افغانستان میں چنیدہ گروپوں کو امدادی کارکنوں کی شکل میں بھیجا جاسکتا ہے۔
اس مدد کے بدلے میں ہم درج ذیل کم از کم مقاصد کے حصول کی ضمانت چاہتے ہیں جو نہ صرف ہمارے لئے انتہائی ضروری ہیں بلکہ مجموعی طور پر پاکستان کے لئے بھی بہتر ہوں گے۔
ہمارے مقاصد:
(الف) ہم صوبہ سند ھ اور وفاق کے انتظام میں حقیقی برابری چاہتے ہیں۔
(ب) تعلیم،روزگار ،فوج اور انتظامیہ سمیت زندگی کے تمام شعبوں میں برابری پر مبنی شراکت چاہتے ہیں۔
(ج) ہم مہاجروں اور سندھیوں پر مشتمل مقامی پولیس چاہتے ہیں۔
(د) وفاقی حکومت تمام صوبوں کو مکمل خود مختاری دے کر دفاع،خارجہ اموراور کرنسی کنٹرول کے شعبے اپنے پاس رکھے اور ان تمام شعبوں میں تمام صوبوں کی یکساں نمائند گی ہو۔
(ہ) خفیہ پاکستانی ادارے آئی ایس آئی کو مکمل طورپر ختم کیا جائے ورنہ یہ مستقبل میں بھی کئی طالبان اور اسامہ بن لادن پیدا کرتی رہے گی۔
ہمیں امید ہے کہ آپ ہمارے پیشکش پر پاکستان کے مفاد میں سنجیدگی سے غور کریں گے۔آپ کی جانب سے جلد پیشرفت کا منتظر ہوں ۔
نیک خواہشات و دعاؤں کے ساتھ
آپ کا مخلص
دستخط
الطاف حسین
بانی و قائد متحدہ قومی موومنٹ(ایم کیوایم)
چنانچہ اس تحریک نے اعلانیہ طور امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لئے26ستمبر۲۰۰۱ء کو ایک بہت بڑی ریلی کاانعقاد کیا تھا اور دراصل یہ اس سفر کا باقاعدہ آغاز جس کے تحت اس تحریک اپنا پورا وزن کفر کے پلڑے میں ڈال دیا تھا۔
کفر کے ہراول دستے کا کردار:
ہوسکتا ہے کہ کوئی اس خط کے اصلی ہونے سے انکاری ہومگر اس تحریک نے اہل ایمان کے خلاف لڑے جانے والی جنگ جو کردار اداکیا اور جس طرح کفر کے سردار امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا ساتھ قولی وعملی طور پر دیا،وہ خط کے مندرجات سے مختلف نہیں اور کوئی اس کا بھی منکر ہے تو وہ اس تحریک کی ویب سائٹ کے ایک لنک کوملاحظہ کر لے۔جس میں واضح طور اس تحریک کے قائد نے کفر کے سرداروں سے اظہار یک جہتی کرتے ہوئے اپنے تیس ملین سپورٹرز کی غیر مشروط مدو حمایت کا یقین دلایا بلکہ ایک خط جوکہ مریکی صدر کو لکھا گیا اس کاحوالہ بھی موجودہے۔ایک رپورٹ کی ہیڈنگ یہ تھی:
"Altaf Hussain offers unconditional support of over thirty million MQM supporters to the US President,British Prime Minister And International Community:Complete Audio Report of Mr.Altaf Hussains's Address.
الطاف حسین نے امریکہ کے صدر اور برطانیہ کے وزیر اعظم کوایم کیو ایم کے تیس ملین سپورٹرکی غیر مشروط حمایت کی پیشکش کی ہے۔
الطاف حسین کے خطاب کی مکمل آڈیورپورٹ کا لنک یہ تھا جوکہ ڈیلیٹ کردیا گیا ہے:
http://www.mqm.org:80/audio_news/ah010918.ram
ایک ہیڈنگ اس طرح ہے:
"MQM workers are prpared to provide unconditional assistance and cooperation to the International Community and Multinational corporations-Altaf Hussain.
ایم کیوایم کے کارکنان عالمی برادری اور ملٹی نیشنل کارپوریشنس سے غیر مشروط مدد و تعاون کرنے پر تیار ہیں۔الطاف حسین۔
امریکی صدر کے نام جو خط لکھا گیا وہ یوں تھا:
London - 11 September 2001.
Mr Altaf Hussain, Founder and Leader of Muttahida Quami Movement (MQM), has strongly condemned the terrorist attacks upon USA. In a letter sent to US President George W Bush, "Mr Hussain on behalf of the MQM and millions of his supporters condemned the cowardly and brutal terrorist attack upon different places in the United States including the World Trade Centre in New York and the Pentagon in Washington. Mr Hussain prayed for the victims and their families and for the early recovery of those wounded in these attacks.
[7]
اصل لنک:
http://www.mqm.org/English-News/Sep2001/news010923.htm
اور وکی لیکس کے مطابق کراچی میں امریکی سفیر اسٹیفن فیکن(Stephen Fakan)اپنے ایک مراسلے میں کہتاہے :
"MQM's armed members, known as "Good Friends," are the largest non-governmental armed element in the city."
ایم کیوایم کے مسلح کارکنان جوکہ ہمارے اچھے دوست کے طور پر جانے جاتے ہیں، شہر(کراچی )میں ایک بڑی غیر سرکاری مسلح تنظیم ہے۔
http://wikileaks.org/cable/2009/04/09KARACHI138.html
عراق کے مسلمانوں سے اظہار بیزاری:
اسی طرح جب افغانستان کو تخت وتاراج کرنے کے بعد یہود ونصاریٰ نے عراق کو تختۂ مشق بنانے کا فیصلہ کیا تواس وقتمظلوموں کی ساتھیاس تحریک نے عراق کے مسلمانوں سے جس اظہار بیزاری کا اظہارکیا وہ انتہائی شرمناک تھا۔ جب کفار میں سے بھی بعض ممالک بظاہر عراق پر حملے کے مخالفت کا اظہار کررہے تھے، اس وقت اس تحریک کے رہنماؤں نے ملک میں ان لوگوں(دینی کہلانے والی جماعتوں) کو بیگانے کی شادی میں عبد اللہ دیوانہ کی مثالیں دے کرتنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا جو کہ عراق جنگ کی مخالفت صرف زبانی کلامی ہی کررہی تھیں، حقیقت میں کسی عملی اقدام سے دور تک ان کا واسطہ نہ تھا۔اس تحریک کے رہنماؤں کے بیانات اس وقت کے اخبارات میں واضح طورپر مل جائیں گے ۔اس سلسلے میں صرف ایک مباحثہ کا حوالہ دینا کافی ہے کہ جوکہ مفتی نظام الدین شامزئی رحمہ اللہ اور اس تحریک کے نامور رہنما کنور خالد یونس کے درمیان ایک نجی ٹی وی چینل (جیونیوز )پر ہوا تھا۔
جامعہ حفصہ کی پاکدامن عورتوں پر بہتان درازی :
لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے طلباء طالبات نے جب اسلام آباد میں سات مساجد کی شہادت اور مزید مساجدکی مسماری کی تیاری اور اس پر دینیکہلانے والی جماعتوں کی طرف سے بے توجہی کی وجہ سے خود ہی اقدام کرتے ہوئے حکومت پر دباؤڈالنے کی غرض سے ایک لائبریری پر قبضہ کیا تاکہ حکومت کو اس عمل سے باز رہنے پر مجبور کیا جاسکے مگر حکومت کی ہٹ دھرمیوں اور اپنوں کی بے اعتنائی کی وجہ سے جب وہ شریعت یاشہادتکا نعرہ لگاکر نفاذ شریعت کی تحریک چلانے پر مجبور ہوئے تو اس وقت بھی اس تحریک کی جانب سے نفاذ شریعت کی شدید مخالفت کامعاملہ اپنی جگہ،مگر جامعہ حفصہ کی طالبات سے متعلق جس طرح اخلاق سے گری ہوئی زبان استعمال کی گئی اور ان کو بدکردار اور فاحشہ عورتوں سے تشبیہ دی گئی اس کو بیان کرنے سے ہم قاصر ہیں ۔اس کے لئے اس وقت دیئے گئے اخباری بیانات ہی کافی ہیں مزید کسی حوالے کی ضرورت نہیں۔
قبائلی علاقوں میں آپریشن کے موقع پر مجرمانہ کردار:
امریکی ایماء پر جب ڈالروں کی بچاریوں نے قبائلی علاقوں کے مسلمانوں کو کفر کے خلاف اہل ایمان کو پناہ دینے اور شریعت کے نفاذ کی بات کرنے پرعبرتناک سزا دینے کافیصلہ کیا تو اس موقع پر بھی جو بھیانک کردار ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں سے بڑھ کر اس تحریک نے ادا کیا وہ بیان سے باہر ہے۔جس کا اعتراف کراچی میں امریکی سفیر نے اپنے ایک مراسلے میں یوں کیا:
"The only party to publicly protest the recent Swat Nizam-e-Adl regulations
[8]"
یہ واحدجماعت ہے جس نے عوامی سطح پر سوات نظام عدل ریگولیشن کی بھرپور مخالفت کی۔
پھرجس طرح ایک لڑکی کی جعلی ویڈیوکی بنیاد پر ہنگامہ کھڑا کیاگیا اور اس کی بنیاد پر سوات و مالاکنڈ کے قبائلی مسلمانوں کا قتل عام شروع کیا گیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔چناچہ اس جعلی ویڈیوکی بنیادپر اس تحریک کی جانب سے شریعت کے نفاذ کے خلاف پروپیگنڈے کا جو طوفان کھڑا کیا گیا اور لوگوں کے سامنے اسلامی احکامات کی جس طرح سے ڈراؤنی منظر کشی کی گئی وہ ناقابل بیان ہے۔۵اپریل ۲۰۰۹ء کو منایا جانے والا یوم سیاہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت تھا۔جس میں اپنے زیر اثر علاقوں کو سیاہ جھنڈوں سے بھردیا گیا تھا۔
تحریک سے وابستہ کارکنان و ہمدردوں کے لئے لمحہ ٔ فکریہ:
شریعت کا حکم اس بارے میں واضح ہے کہ ایک مسلمان کا اہل ایمان کے مقابلے میں کافروں کے ساتھ مل کرلڑنا ،اہل ایمان کی جاسوسی کرنا اور اُن کو گرفتار کرانا ،اہل ایمان کے مقابلے میں کافروں کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعاون کرنا خواہ وہ عسکری ہو یا غیر عسکری ،اُن کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنا،اُس کودائرہ اسلام سے خارج کرکے کافر ومرتدبنادیتاہے اور اُس کانماز پڑھنا اورروزہ رکھنا، زکوٰۃ وحج اداکرناکسی کام کا نہیں اور یہ جرم اُس کے پچھلے کئے گئے تمام نیک اعمال کو بھی ضائع کردیتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٰآَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوا الْیَھُودَ وَ النَّصٰرٰٓی اَوْلِیَآء بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ وَ مَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْ اِنَّ اﷲَ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ
[9]
اے اہل ایمان !یہود ونصارٰی کو دوست نہ بناؤ۔یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے گا وہ بے شک انہی میں سے ہے ۔بے شک اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہرگز ہدایت عطا نہیں فرماتا۔
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ مذکورہ آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :
اللہ تعالیٰ نے اس بات سے بھی خبردار کیا ہے کہ جو مسلمان اللہ تعالیٰ ،اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اور مومنوں کو چھوڑ کر ان کافروں کو اپنا حمایتی ،مددگار اور دوست بنائے گا تو اس کے نتیجے میں وہ ان یہودیوں اور عیسائی کافروں کی جماعت کا ہی فرد گردانا جائے گا ۔گویایہ شخص اللہ رب العالمین ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کے مدمقابل کافروں کی جماعت کا ایک کارکن ہے۔اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے کلیتاً بیزار اور لاتعلق ہوں گے۔
[10]
سورۃ البقرۃ کی آیت 28کی تفسیر میں امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس آیت کریمہ کا معنی ومفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کومنع کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ کافروں کو اپنا حمایتی اور مددگار نہ بناؤ۔وہ اس طرح کہ ان کے دین ومذہب کی بنیاد پر ان سے دوستیاں رچانے لگ جاؤ،مسلمانوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کے خلاف کافروں کی مدد کرنے کے درپے ہوجاؤاور کافروں کومسلمانوں کے خفیہ راز اور معلومات فراہم کرنے لگ جاؤ۔جو شخص ایسا رویہ اختیار کرے گا (فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْئٍ)یعنی اس طرح کرنے سے وہ اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ اس سے لاتعلق ہوجائے گا۔اس وجہ سے کہ وہ اسلام سے مرتد ہوچکا ہے اور کفر میں داخل ہوچکا ہے۔
[11]
یہ تو تھے چند مختصر حوالے، ورنہ دلائل تو اتنے کثیر ہیں کہ جن کویہاں نقل کرنا ممکن ہی نہیں۔
یہ تمام دلائل اولاً اس شخص کے لئے لمحہ فکریہ ہیں جوکہ ایسی کسی بھی تحریک کا کارکن ہو،جس کا مسلمانوں خلاف جنگ میں کفارکے ساتھ قولی و عملی تعاون کسی سے بھی پوشیدہ نہیں اور جس کے اقراری اس تحریک کے قائد و دیگر رہنما بھی ہیں ،اب بھی اگر ایسی کسی بھی تحریک سے لاتعلقی کا اظہار نہیں کرتا اوربرضاورغبت ان کے اہداف و مقاصدکی تکمیل کرتا رہتا ہے تو ایسے شخص کے بارے میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنے دین وایمان سے محروم ہوچکا اورچاہے وہ لاکھ بار کلمہ پڑھتا رہے، نماز و روزہ اور حج و زکوٰۃ اداکرتا رہے ،وہ کسی کام آنے والے نہیں اور جو حکم کافر ومرتد کا ہوتا ہے ،وہی حکم اس کا ہوگا ۔
جب تاتاریوں نے مسلمانوں کا قتل عام شروع کیا اور اپنے احکامات کو شریعت کے مقابلے میں نافذ کیا تو شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یہ فتویٰ دیا کہ :
من جَمَّزَ اِلٰی مُعَسْکَرِ التُّتَرِ وَ لَحِقَ بِھِمْ ارْتَدَّ وَ حَلَّ دَمُہُ وَ مَالُہ، فَاِذَا کَانَ ھَذَا فِی مُجَرَّدِ اللُّحُوْقِ بِالْمُشْرِکِیْنَ فَکَیْفَ بِمَنْ اعْتَقَدَ مَعَ ذَالِکَ أَنَّ جِھَادَھُمْ وَ قِتَالَھُمْ لِأَھْلِ الْاِسْلَامِ دِیْنُ یُدَانُ بِہِ ، ھَذَا أَوْلٰی بِالْکُفْرِ وَالرِّدَّةِ۔
[12]
جو شخص تاتاریوں کے معسکر (چھاؤنی)کی طرف بھاگا بھاگا جاتا ہے اور ان سے جاملتا ہے ،وہ شخص مرتد ہوجاتا ہے اور اس کا خون بہانا اور اس کا مال اپنے قبضہ میں لینا جائز ہے ۔مشرکین کے ساتھ صرف جاملنے کا یہ حکم ہے کہ وہ مرتد ہوجاتا ہے اور اس کو قتل کرنا اور اس کا مال قبضہ میں لینا جائز ہے ۔تو اس شخص کے متعلق خود غور فرمالیں کہ جو اس بات کا اعتقاد اورنظریہ رکھتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف جنگ وقتال کرنا میرے دین ومذہب میں شامل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ثانی الذکر شخص کفر وارتداد میں کہیں زیادہ آگے بڑھا ہوا ہے ۔
دوم یہ کہ ایسے لوگ جو کہ ایسی کسی بھی تحریک سے ہمدردی والفت رکھتے ہوں اور کسی بھی قسم کی معاو نت کرتے ہوں، ان کے لئے بھی غوروفکر کا مقام ہے کہ ان کی کسی بھی ایسی تحریک سے وابستگی ان کے بھی دین و ایمان کی اُسی طرح بربادی اور عذاب کا سبب بن سکتی ہے جس کے مستحق ایسی کسی بھی تحریک میں شامل لوگ ہوں گے۔
مفسر قرآن سیدنا عبداللہ بن عباس ﷟فرماتے ہیں :
((ھُوَ مُشْرِکْ مِثلُھُمْ ، لِأَ نَّ مَنْ رَضِیَ بِالشِّرْکِ فَھُوَ مُشْرِکٌ))
جوکسی کافر ومشرک سے دوستی کرے گا وہ ان کی طرح کا ہی مشرک ہوگا ،اس لیے کہ جو شرک کو پسند کرتا ہے وہ بھی مشرک ہوتا ہے۔
[13]
علامہ قرطبی ﷫اسلام کا اصول بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں :
الرِّضَاءُ بِالْکُفْرِ کُفْرٌ
[14]
کفر کو پسند کرنا بھی کفر ہے ۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ﷫ فرماتے ہیں :
وَ قَدْ قَالَ غَیْرُ وَاحِدٍ مِنَ السَّلْفِ(( أَعْوَانُ الظَّلَمَةِ مِمَّنْ أَعَانَھُمْ ، وَ لَوْ أَنَّہُ لَاقَ لَھُمْ دَوَاءً ، أَوْ بَرٰی لَھُمْ قَلَمًا)) ، ومِنْھُمْ مَنْ کَانَ یَقُوْلُ (( بَلْ مَنْ یَّغْسِلُ ثِیَابَھُمْ مِنْ أَعْوَانِھِمْ ))
[15]
سلف صالحین میں سے بہت زیادہ افراد کا یہ موقف ہے کہ ظالموں اور جابروں کے مددگاران لوگوں کے حکم ہی میں شامل ہیں جن کا وہ تعاون کرتے ہیں ۔اگرچہ وہ ظالموں کے لیے محض دوا دارو اور علاج معالجہ کا ہی بندوبست کریں یا محض ان کو قلم تراش کر ہی پیش کریں ۔بعض سلف نے تویہاں تک کہاہے کہ :ظالموں کے کپڑے دھونے والا بھی ان کے ساتھ ہوگا۔

شریعت کے نفاذ کی مخالفت
کفر کے سرداروں کی خواہش کے عین مطابق ملک کی اکثر سیاسی جماعتیں(پیپلز پارٹی،اے این پی وغیرہ) تو شریعت کے نفاذ ہی کی شدید مخالف ہیں اور کچھ جماعتیں ہیں جوکہ بظاہراً شریعت کے نفاذ کی مخالفت نہیں کرتیں لیکن شریعت کا نفاذ قوت کے ساتھ کرنے کی وہ بھی شدید مخالف ہیں ۔
اور جہاں تک تعلق ہے دینی کہلانے والی جماعتوں کا ، وہ اس معاملے میں گوکہ مخالف نظر نہیں آتیں مگر وہ بھی شریعت کے نفاذ کو کفر کے ہی طے کردہ پر امن ذرائعاور انسانی ہاتھوں کے تخلیق کردہ آئینکی دستاویزات سے مشروط کردیتی ہیں،چاہے وہ آئین کفریہ قوانین سے بھرپور ہی کیوں نہ ہوں۔
مگر جہاں تک تعلق ہے اس تحریک کا ،ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں سب سے بڑھ کر شریعت کی عملداری یا قوت کے ساتھ اس کے نفاذ کی مخالفت میں یہ تحریک ہمیشہ پیش پیش رہی ہے۔ڈنڈا بردار شریعت اور کلاشنکوف شریعتنامنظور کے نعرے لگواکر شریعت اور اس کے احکامات کی مخالفت و استہزا کو باقاعدہ مہم کے طور پر اختیار کرنا ،واحد اس تحریک کا وطیرہ رہا ہے۔شریعت کی عملداری اور اس کے نفاذ کی مخالفت میں باقاعدہ جلسے اور جلوس نکالنا ،اپنے زیرا ثر علاقوں میں چاکنگ کرنا اور پمفلٹ تقسیم کرنا اورشریعت کے استہزا و مخالفت پر مشتمل بینرز آوزا ں کرنا کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ۔
۹/اپریل ۲۰۰۷ء کو اس تحریک کی طرف سے یہ بیان جاری کیاگیا کہ :
جامعہ حفصہ اور لال مسجد میں کلاشنکوفیں اور ڈنڈا اٹھانے والے نام نہاد اسلام کے ٹھیکیدار سن لیں کہ ہم نے بھی چوڑیا ں نہیں پہن رکھیںکلاشنکوف شریعت کے اعلان کے خلاف 15اپریل کو کراچی میں بڑی ریلی نکالیں گے۔
[16]
پھر اسی ضمن میں شرعی احکام کے استہزا اور اس کے انکار پر مبنی ایک سوال نامہ اس تحریک کی جانب سے 12اپریل 2007ء کو روزنامہ جنگ میں شائع کیاگیا اور اپنے زیر اثر علاقے میں نہ صرف اس کوبطور پمفلٹ بڑی تعداد میں تقسیم کیا گیابلکہ اپنے جلسوں میں لوگوں سے سوال کرکے اجتماعی طور پر اس کا نفی میں جواب لیاگیا ۔اس سوالنامہ میں کچھ نکات ایسے تھے جن سے یہ بات بخوبی عیاں ہوجاتی ہے کہ یہ تحریک کس طرح شرعی احکامات کے استہزا اور دھجیاں اڑنے پر مصرہیں۔وہ یہ ہیں:
کیا خواتین غیر اسلامی شٹل کوک برقعہ پہننے پرتیار ہیں؟
کیا آپ کے خیال میں اسلام نے شیو بنانے کو حرام قرار دیا ہے؟
کیا آپ اسلام آباد میں لال مسجد اور مدرسہ حفصہ پر ڈنڈا بردار کلاشنکوفی قبضہ کرکے عوام پر جبراً اپنی خود ساختہ کلاشن کوفی شریعت نافذ کرنے والوں کے حق میں ہیں؟
کیا آپ وفاقی شرعی عدالت کی موجودگی میں ملاؤں کی خود ساختہ شرعی عدالتوں کے قیام کو جائز سمجھتے ہیں؟
ان سوالوں کا تفصیلاً جواب دینا یہاں ممکن نہیں ۔مختصراً یہ کہ ایک مسلمان اگر کسی شرعی حکم پر عمل نہ کرسکے، چاہے اپنی غفلت کی وجہ سے یا جان بوجھ کر ،لیکن وہ اس عمل سے کافر نہیں ہوتا ۔مگر جو شخص کسی واضح شرعی حکم کا ہی انکاری ہوجائے بلکہ اس شرعی حکم کو ہی غیر اسلامی قرار دے دے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا ایمان سلامت نہیں رہتا۔
لہٰذا جو شخص عورتوں کے پردہ کرنے کوقرآن و سنت کے واضح احکامات کے برخلاف معاذ اللہ غیر اسلامی قرار دے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے داڑھی رکھنے کا حکم دینے اور اس کے نہ رکھنے والے سے منہ پھیرلینے کے باوجو داڑھی نہ رکھنے یعنی شیوبنانے کو حرام نہ سمجھے ،اور جولوگ شریعت کے نفاذ کے لئے کھڑے ہوں ان کا استہزا وتمسخر کرتے ہوئے ان کی بھرپورمزاحمت کرے تو اس شخص کو چاہیے کہ وہ اپنے دین و ایمان کی خیر منائے کہ کہیں وہ اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا رہے مگر شریعت کی نظر میں اس کی حیثیت کفر کرنے والوں کی ہو،اور جہاں تک تعلق ہے ملک میں قائم نام نہاد شرعی عدالتوں کی حیثیت کا ،تواگر کوئی ان عدالتوں کو شرعیسمجھتا ہے ،تو اس ضمن میں صرف چند سوالوں کے جواب مطلوب ہیں؟
اولاً یہ کہ جب ملک میں شرعی عدالتیں موجود ہیں تو پھر دوسرے متوازی عدالتی نظام کی موجودگی کا کیا مطلب ہے ؟او ر دوم یہ کہ اگر شرعی عدالت کوئی فیصلہ دے تو دوسری متوازی عدالت میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کا حق کیا معنی رکھتاہے؟سوم یہ کہ شرعی عدالت کے فیصلے کو دوسری متوازی عدالتیں کیوں کالعدم قرار دے سکتی ہیں؟اس بات کا عملی ثبوت یہ ہے کہ جب ملک میں شرعی عدالتوں نے ایک طویل عرصے کی سماعت کے بعد بڑی ہمت کرکے بینک انٹرسٹ کو سودقرار دیتے ہوئے ختم کرنے کا حکم دیا تو اس کو دوسری متوازی عدالت نے اس فیصلے کو کالعدم قراردیتے ہوئے اس بینک انٹرسٹ کو دوبارہ جائز قرار دے دیا۔بتائیے کسی شرعی حکم کے مطابق فیصلے کو کالعدم قرار دینے کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ کھلم کھلا کفر نہیں؟
بہرحال!پھر 15اپریل2007ء کو کراچی میںڈنڈا بردار کلاشنکوفی شریعت نامنظورریلی منعقد کی گئی ۔جس میں اس تحریک کے قائد نے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خلاف جلد از جلد کاروائی کرنے ورنہ بصورت دیگر دمام دم مست قلند کرنے کی دھمکی دینے کے ساتھ ساتھ لال مسجدو جامعہ حفصہ کے طلبہ و طالبات کو منافقین کا ٹولہ قرار دیا۔وہ کہتے ہیں:
(حکومت )مذہبی انتہاپسندوں کی جانب سے جامعہ حفصہ اور لال مسجد پر کیا جانے والاغیر قانونی قبضہ فوری ختم کرائے اور لوگوں کو تحفظ فراہم کرے ورنہ اس کا شدید ردعمل اوردمام مست قلندر ہوگامیں نے پاکستان کی عوام کو پیغام دے دیا ہے کہ ایسے انتہاپسندوں کے خلاف متحدہ ہراول دستے کا کردار ادا کرے گیگناہوں کے عذاب دینے کا کام اللہ کا ہے نہ کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے ڈنڈا بردار منافقین کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام پھیلانے کے لئے کبھی تلوار نہیں اٹھائی ۔
[17]
غور کرنے کی بات ہے کہ یہ اس تحریک کے طرز فکر میں عجیب تضاد نہیں کہ ایک طرف وہ شریعت کے نفاذ کی بزورِ قوت شدید مخالف ہے ۔لیکن دوسری طرف وہ اپنے نظریات و افکار کو زبردستی اپنے کارکنان اور عوام الناس پر تھوپنے پر مصر نظر آتی ہے۔اس تحریک کے قائد کی طرف سے جب بھی کوئی حکمآتا ہے چاہے وہ اس تحریک کے اندورنی معاملات سے متعلق ہو یا پھر ملکی طور پر کوئی واقعہ سے متعلق ،اس کو پوری قوت سے اپنے زیر اثر علاقوں میں نافذ کیا جاتاہے ۔(جیسے کہ ہڑتال کی کال پر اپنے زیر اثر علاقوں میں زور زبردستی سے کاروبار بند کرانا،زکوۃ ،فطرہ اور قربانی کی کھالیں دھونس و دھمکی سے وصول کرنا اور لوگوں کے مال پر مختلف طریقوں اور بہانوں سے ناحق ڈاکہ ڈالنا اور انکار یا مزاحمت کی صورت میں ناحق ان کی جان لینا اب تو معمول کی با ت بن چکا ہے اور اب معاملہ یہ ہے کہ اب ہر سیاسی گروہ نے یہ طرز فکر اپنالیا ہے جو کسی سے مخفی نہیں )۔اس بات کا اعتراف تو خودکراچی میں امریکی سفیر نے اپنے ایک مراسلے میں یوں کیا:
"The party operates through its 100 Sector Commanders,who take their orders directly from the party leader, Altaf Hussain, who lives in exile in the United Kingdom."
یہ تحریک(شہر کے معاملات کو) اپنے سو کے قریب سیکٹر کمانڈرز کے ذریعے کنٹرول کرتی ہے جوکہ لند ن میں مقیم اپنے قائد الطاف حسین سے براہ راست احکامات وصول کرتے ہیں۔
[18]
اور حال یہ ہے کہ جو کوئی چاہے وہ اس تحریک کا کارکن ہو یا عام شہری اگر وہ ان تمام مظالم پر آواز اٹھائے یا اس کی مخالفت کرے اس کے لئے موت کا پروانہ جاری کردیا جاتا ہے اور اس کے لئے دلیل اور ثبوت ایک ہی ہوتا ہے ،وہ یہ کہ :
جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے۔
کیا کسی قائد کے ردّی افکار کو بزورِ قوت نافذ کیا جانا تو صحیح قرار پائے مگر اللہ رب العزت جو اصل خالق و مالک ہے اور وہ ہی زمین وآسمان کا وارث ہے اور سب کو بالآخر اس کی طرف لوٹ کر جانا ہے ، اس کی نازل کردہ شریعت کا بزورِ قوت نفاذ غلط اور ظلم قرار پائے ۔
تھوڑی سی بھی عقل و فہم رکھنے والا شخص یہ بات جانتا ہے کہ دنیا میں کوئی نظا م بغیر قوتِ نافذہ(Authority)کے نہ چل سکتا ہے اور نہ ہی وہ نظام کہلانے کا حقدار ٹہرتا ہے بلکہ وہ کتابوں کی زینت بن جاتاہے۔ جب رب کائنات نے یہ اعلان کردیا کہ :
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلاَمُ
[19]
بے شک اللہ کے نزدیک دین (نظام )صرف اسلام ہے۔
اور ہر مسلمان بھی یہ ایمان رکھتا ہے کہ اسلام ایک مکمل نظام حیاتہے تو پھر کیوں اس کے نفاذ کے لئے قوتکے استعمال کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔
کیا اللہ رب العزت کا عطاکردہ نظام اتنا حقیر اور ذلیل ہے کہ دنیابھر کے کفریہ و شرکیہ آئین جوکہ انسانی اذہان کی پیداوار ہیں ،ان کے نفاذ کے لئے قوت کے استعمال کوجائز قرار دیا جائے مگر دین اسلام کے نفاذ کے لئے قوت کے استعمال کو ناجائز قرار دیا جائے۔
ہرگز نہیں !اللہ رب العزت کی شریعت اس لئے نازل نہیں کی گئی کہ اس کو ردّی افکار اور باطل نظریا ت سے بھی گیا گزرا سمجھا جائے بلکہ اس لئے نازل کی گئی کہ اس کے احکامات کو بزورِ قوت نافذ کیا جائے۔اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے:
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِاﻟۡﺒَﻴِّﻨٰﺖِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْط وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَاْسٌ شَدِیْدٌِ
[20]
ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی نشانیاں دے کر بھیجا اور ان پر کتابیں اور ترازو (یعنی نظامِ عدل و قسط ) نازل کیا تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں اور ہم نے (اس کام کی تکمیل کے لئے ) لوہا نازل کیا جس میں جنگ کرنے کی بڑی صلاحیت ہے ۔
اور پھر اس تحریک کے قائد کا یہ کہنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی تلوار نہیں اٹھائی،دراصل تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت کے بنیادی اصولوں سے بھی انحراف کے مترادف ہے۔سوال یہ ہے کہ جس نبی کو خود اللہ رب العزت نے یہ حکم دیا ہو کہ فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ
[21]جنگ کرو اللہ کی راہ میں اور پھر اہل ایمان کے بارے میں فرمایا ہوکہ وَحَرِضِ الْمُوْمِنِیْنَ[22]اور اہل ایمان کو بھی اس پر ابھاریئے ،تو کیا اس نبی نے اللہ رب العزت کے اس حکم سے اعراض کیا ہوگا ؟
ہرگز نہیں !جنگ بدر و احداورخندق و تبوک اس بات کی گواہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ رب العزت کے اُسی حکم پر عمل کے لئے یہ جنگیں لڑیں، جس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے:
((أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی یَشْھَدُوا أَنْ لَا اِلَہَ اِلَّا اللَّہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّہِ وَیُقِیمُوا الصَّلَاةَ وَیُؤْتُوا الزَّکَاةَ فَاِذَا فَعَلُوا ذَلِکَ عَصَمُوا مِنِّی دِمَاء َھُمْ وَأَمْوَالَھُمْ اِلَّا بِحَقِّ الْاِسْلَامِ وَحِسَابُھُمْ عَلَی اللَّہِ))
[23]
مجھے حکم دیاگیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک قتال کروں جب تک وہلاالٰہ الااﷲ محمدرسول اﷲکی گواہی نہ دیں اورنماز قائم کریں اورزکوٰۃادا کریں، جب وہ یہ کام کریں گے توان کا مال اورجان محفوظ ہے سوائے اس حق کے اور ان کاحساب اﷲپر ہے۔
یہاں بعض لوگ اور اس تحریک کے قائد بھی سورۃ البقرۃ کی آیت ۲۵۶کے اس حصے :
لاَ اِکْرَاہَ فِی الْدِّیْنِ
[24]
دین میں کوئی جبر نہیں ۔
کی غلط اور خود ساختہ تفسیر سے عوام الناس کے ذہنوں میں یہ مغالطہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام میں کوئی زبردستی نہیں ہے ۔لہٰذا ازروئے قرآن کریم شریعت کا بزورِ قوت نفاذ جائز نہیں ۔
اوّل تو اس مغالطے کا رددرج بالا آیت اور حدیث سے ہی ہوجاتا ہے۔مگر پھر بھی ہم سورۃ البقرۃ کی مذکورہ آیت کی تفسیر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین اور مفسرین قرآن کی زبانی سمجھ لیتے ہیں تاکہ اصل حقیقت واضح ہوجائے۔
جبر و اکراہ سے مراد صرف کافر کو زبردستی مسلمان بننے پر مجبورکرنا ہے:
تمام مفسرین و فقہاء کرام اس بات پر متفق ہیں کہ سورۃا لبقرۃ کی آیت کے مذکورہ حصے سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ مسلمانوں کو اسلامی احکامات ماننے پر مجبور کرنا جبر و اکراہ ہے بلکہ اس سے کسی کافر کو اسلام داخل کرنے پر مجبور کرنامراد ہے۔جیساکہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کا مطلب یوں بیان کرتے ہیں:
لا تکرھوا أحدًا علی الدخول فی دین الاسلام
[25]
کسی کافر کو اسلام میں داخل کرنے کے لئے مجبور نہ کرو۔
پھر اس آیت سے متعلق اکثر مفسرین صحابہ کرام کے اقوال کی روشنی میں کہتے ہیں کہ یہ آیت صرف اہل کتاب (عیسائیوں اوریہودیوں)سے متعلق ہے ۔جس میں صرف ان کو یہ اختیار دیا گیا کہ اگر وہ اسلام کو قبول نہیں کرتے تو پھر اسلام کو بطور نظام قبول کرتے ہوئے جزیہ ادا کریں تو ان کی جان و مال کو تحفظ حاصل ہوجائے گا ۔باقی رہے دوسرے قسم کے کافر، توان کو کسی مسلمانوں کی جانب سے پناہ مل جانے یا پھردارلاسلام کا ان سے کسی قسم کا معاہدہ ہوجانے یا پھرا ن کے اسلام قبول کرلینے کے سو ا کوئی چارہ نہیں ۔
[26]
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فمن عدل عن الکتاب قوم بالحدید؛ولھذا کان قوام الدین بالمصحف والسیف۔وقد روي عن جابر بن عبد اللّٰہ رضی اللّٰہ عنھما قال:((أمرنا رسول اللّٰہ ﷺ أن نضرب بھذا )) یعنی السیف من عدل عن ھذا یعنی المصحف
[27]
پس جو شخص کتاب اللہ کو چھوڑ کر دوسری راہ اختیار کرے،اُسے لوہے (یعنی تلوار)سے سیدھا کیاجائے،اس لئے کہ دین کا قیام ،دین کی مضبوطی اور پائیداری کتاب اللہ اور شمشیر سے ہوتی ہے۔سیدنا جابر بن عبداللہ ﷛سے مروی ہے ،وہ کہتے ہیں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ وعلیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے :((اَنْ نَضْرِبَ بِھَذَا))یعنی تلوار سے اُسے ماریں جو قرآن سے منہ موڑے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت نقل کرتے ہیں، ،حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب (صلحِ حدیبیہ کے ایک سال بعد )عمرہ ٔ قضا کے لیے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے آگے یہ رجزیہ اشعار پڑھتے جارہے تھے :
خلوا بنی الکفار عن سبیلہ،قد انزل الرحمٰن فی تنزیلہ،بان خیر القتل فی سبیلہ ،نحن قتلنا لکم علی تاویلہ ،کما قتلنا کم علی تنزیلہ
اے کافروں کی اولاد! رسول اللہﷺ کا راستہ چھوڑ دو ،بے شک مہربان اللہ نے اپنے کلام میں فرما یا ہے کہ: بہترین قتل وہ ہے جو اس کی راہ میں ہو۔(لہٰذا) ہم تم کو قتل کریں گے اس قرآن کی مراد (یعنی معانی و احکامات )منوانے پر بھی ،جیساکہ ہم نے تم کو قتل کیا ہے اس کے نزول کے منوانے پر ۔
[28]
اب خود ہی فیصلہ کرلینا چاہیے کہ شریعت کے نفاذ سے متعلق صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین اور مفسرین کی تفسیر کو مانا جائے یا پھر اس تحریک کے قائد کی خود ساختہ تفسیر کو تسلیم کیا جائے۔
آخر میں اگر اس بات کی طرف بھی اشارہ کردیا جائے تو کوئی حرج نہیں کہ شریعت کے قوت کے ساتھ نفاذ کے معاملے میں اس تحریک کے قائد اور قادیانیت کے نظریات میں کوئی خاص فرق نہیں۔مرزا غلام احمد قادیانی ملعون اپنی کتاب میں کہتاہے :
جب سے دین کے لئے لڑنا حرام کیا گیا ہے ،اب اس کے بعد جو دین کے لئے تلواراٹھاتا ہے اور غازی نام رکھ کر کافروں کو قتل کرتاہے ،وہ خدا کا اور اس کے رسول کا نافرمان ہے
[29]
ایک اور جگہ اپنے اشعار میں کہتا ہے:
اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستوں خیال
دین کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال
دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد
منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد
[30]
پس جو کوئی بھی اپنے ایمان و اسلام کی سلامتی چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ ایسے نظریات و افکار سے توبہ کرلے چاہے اس کا تعلق کسی بھی گروہ سے ہواوریہ کہ اس تحریک کے کارکنان و ہمدردوں کو بھی غور کرنا چاہیے کہ کیا وہ کہیں ایسے نظریات و افکار کوتو Followنہیں کررہے ہیں جو کہ روزِ قیامت سوائے حسرت وندامت کے علاوہ کسی اورچیز میں اضافہ کا سبب نہ بن سکیں گے ۔
وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ مَوْقُوْفُوْنَ عِنْدَ رَبِّھِمْ یَرْجِعُ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ نِ الْقَوْلَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا لَوْلَآ اَنْتُمْ لَکُنَّا مُؤْمِنِیْنَقَالَ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْآ اَنَحْنُ صَدَدْنٰکُمْ عَنِ الْھُدٰی بَعْدَ اِذْ جَآءَ کُمْ بَلْ کُنْتُمْ مُّجْرِمِیْنَ وَقَالَ الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا بَلْ مَکْرُ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ اِذْ تَاْمُرُوْنَنَآ اَنْ نَّکْفُرَ بِاللّٰہِ وَنَجْعَلَ لَہٗٓ اَنْدَادًا وَاَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ وَجَعَلْنَا الْاَغْلٰلَ فِیْٓ اَعْنَاقِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ھَلْ یُجْزَوْنَ اِلَّا مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
[31]
اے دیکھنے والے!کاش کہ تو ان ظالموں کو(جنہوں نے اللہ احکامات کے بجائے کسی اور کی حکم بجاآوری کی)اس وقت دیکھتا جبکہ ا پنے رب کے سامنے کھڑے ہوئے ایک دوسرے کو الزام دے رہے ہوں گے۔کمزور لوگ بڑے لوگوں سے کہیں گے اگر تم نے ہوتے تو ہم مومن(اللہ کی فرمانبرداری کرنے والے)ہوتے۔تو بڑے لوگ ان کمزوروں کو جواب دیں گے کہ کیا تمہارے سامنے ہدایت آچکنے کے بعد ہم نے تمہیں اس سے روکا تھا؟(نہیں) بلکہ تم خود مجرم تھے۔(اس کے جواب میں )یہ کمزور لوگ ان بڑوں سے کہیں گے کہ(نہیں نہیں)بلکہ تم دن رات کے مکروفریب سے ہمیں اللہ کے ساتھ کفر کرنے اور اس کے شریک مقرر کرنے کا تمہارا حکم دینا ہی ہمیں ایمان سے محروم کرنے کا باعث بنا!اور عذاب کو دیکھتے ہی سب کے سب دل پشیمان ہورہے ہوں گے اور انکار کرنے والوں کی گردنوں ہم طوق ڈال دیں گے انہیں صرف ان کے کئے کرائے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔
اختتامیہ
اردوبولنے والوں سمیت ہر ایک کے مسائل کاواحد حل
جہاں تک تعلق ہے اردوبولنے والوں سمیت ہر ایک کے معاشی استحصال اور مسائل کا تو اس کاحل صرف اور صرف شریعت کے نفاذ میں ہے۔کیوں کہ اسلا م کا عطاکردہ نظام ہی وہ واحد ذریعہ ہے جوکہ وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بناتاہے اور معاشرتی ،معاشی اور سیاسی ناہمواریوں اور ناانصافیوں کو ختم کرتاہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرٰةِ وَالْاِنْجِیْلِ یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَھُمُ اﻟﻄَّﻴِّﺒَﺖِوَیُحَرِّمُ عَلَیْھمُ الْخَبٰٓئِثَ وَیَضَعُ عَنْھمْ اِصْرَھمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھمْ
[32]
جولوگ رسول نبی امی کا اتباع کرنے والے ہیں جن کو وہ لوگ اپنے پاس تورات و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ ان کو نیک باتوں کو حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے منع کرتے ہیں اور پاکیزہ چیزو ں کو حلال کرتے ہیں اور خبیث چیزوں کوحرام کرتے ہیں اور ان لوگوں پر جو بوجھ اور طوق پڑگئے تھے ان کو دور کرتے ہیں ۔
حضرت سعد بن ابی وقاص نے شاہ ایران کسریٰ کے دربار میں کہے تھے:
((فَقَالَ اللّٰہَ ابْتَعَثَنَا لِنُخْرِجَ النَّاسَ مَنْ شَاءَ مِنْ عِبَادَةِ الْعِبَادِ اِلٰی عِبَادَةِ اللّٰہِ وَحْدَہٗ، وَمِنْ ضِیْقِ الدِّنْیَا اِلٰی سَعَتِھا، وَمِنْ جَوْرِ الْاَدْیَانِ اِلٰی عَدْلِ الْاِسْلَام))
[33]
بے شک اللہ نے ہمیں بھیجا ہے تا کہ ہم نکالیں انسانوں کوبندوں کی عبادت سے، اللہ وحدہ کی عبادت کی طرف اور دنیا کی تنگی سے اس کی وسعت کی طرف اور (باطل)ادیان کے ظلم و ستم سے اسلام کے عدل کی طرف۔
مذکورہ بالا آیت میں یَاْمُرُھُمْکے جملے سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ جب نیکیوں کو معاشرے میں رائج اور نافذ کیا جاتاہے اور برائیوں کی قوت کے ساتھ بیخ کنی کی جاتی ہے تو لوگوں کے گلوں میں جو ظلم و جبر کے طوق جاہلیت کی بنیادر پر پہنادیئے جاتے ہیں وہ خود بخود اترجاتے ہیں ورنہ بصورت دیگر ظلم و جبر کے طوق اوربھاری ہوتے چلے جاتے ہیں۔
اس بات کو مزید سمجھنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل مدینہ کے دو قبائل اوس و خزرج کی مثال ہی کافی ہے ۔چنانچہ جب شریعت نہیں تھی تو جنگل کا قانون رائج تھا اور جاہلیت کا دور دورہ تھا اور طاقت کی بنیاد پر ایک گروہ دوسرے گروہ پر ناحق طریقے سے غالب تھا۔
ان دونوں قبائل کے درمیان تاریخ انسانی کی وہ بھیانک جنگ لڑی گئی جوکہ نسل در نسل چلتی رہی ۔نتیجہ یہ ہوا کہ خزرج قبیلہ اوس قبیلے پر غالب آگیا ۔پھر انصاف کا پیمانہ یوں ٹہرا کہ اگر اوس قبیلے کا فرد خزرج قبیلے کے فرد کے ہاتھوں مارا جاتا تو بدلے میں صرف چند کھجوروں کے ٹوکرے دئیے جاتے اور اگر خزرج قبیلے کا فرد اوس قبیلے کے ہاتھوں مارا جاتا تو بدلے میں قبیلہ اوس کے تین افراد کو قتل کیا جاتا اور یہ قانون دونوں قبیلوں نزدیک کے متفقہ تھا۔
مگر جب یہ دونوں قبیلے اسلام سے سرفراز ہوئے اور اسلام کو بطور نظام نافذ کرنے پر متفق ہوگئے تو اللہ رب العزت نے ان کو باہم شیر و شکر کردیا اور یوں ظلم و جبر پر مبنی جاہلی نظام کا خاتمہ ممکن ہوا اور آج ہم ان کو انصارِ مدینہ کے نام کے ساتھ ادب سے پکارتے ہیں(رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ )
چنانچہ آج اگر ہم معاشرتی ناہمواریوں اور معاشی استحصال کا خاتمہ چاہتے ہیں تو اس کاواحد حلشریعت اسلامیکے نفاذ میں ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور صورت اختیار کرنے میں سوائے گھاٹے اور خسارے کے کچھ اور ہاتھ آنے والا نہیں۔لہٰذا نجات اسی میں ہے کہ ہماری ساری ہمدردیاں اور سپورٹ اس گروہ کے ساتھ ہوجانے چاہیے جوکہ دین حق کے نفاذ کے لئے اللہ کے دشمنوں اور کفر کے سرداروں سے لڑ رہے ہیں اور اپنی جان ومال اس راہ میں لٹارہے ہیں کیونکہ یہی وہ گروہ ہے جس کے حق پر ہونے کی گواہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں دی :
((لَنْ یَبْرَحَ ھذَا الدِّینُ قَائِمًا یُقَاتِلُ عَلَیْہِ عِصَابَةٌ مِنْ الْمُسْلِمِینَ حَتَّی تَقُومَ السَّاعَةُ))
[34]
یہ دین قائم رہے گا کیونکہ مسلمانوں کی ایک جماعت اس کے(قیام کے)لئے قتال کرتی رہے گی قیامت واقع ہونے تک۔
((لَا تَزَالُ عِصَابَةٌ مِنْ أُمَّتِی یُقَاتِلُونَ عَلَی أَمْرِ اللَّہِ قَاھرِینَ لِعَدُوِّھمْ لَا یَضُرُّھُمْ مَنْ خَالَفَھُمْ حَتَّی تَأْتِیَھُمْ السَّاعَةُ))
[35]
میری امت کاایک گروہ اللہ کے حکم کے مطابق قتال کرتا رہے گا ،یہ لوگ دشمنوں پر چھائے رہیں گے ،جس کسی نے ان کی مخالفت کی وہ انہیں نقصان نہیں پہنچاسکے گا ،یہاں تک کہ قیامت آجائے اور اسی طریقے پر قائم رہیں گے۔
((مَنْ یُرِدْ اللَّہُ بِہِ خَیْرًا یُفَقِّھۡہُ فِی الدِّینِ وَلَا تَزَالُ عِصَابَةٌ مِنْ الْمُسْلِمِینَ یُقَاتِلُونَ عَلَی الْحَقِّ ظَاھِرِینَ عَلَی مَنْ نَاوَأَھُمْ اِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ))
[36]
اللہ جس کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دیدیتا ہے اور قیامت تک مسلمانوں میں سے ایک جماعت حق پر لڑتی رہے گی اور اپنے سے الجھنے والوں پر غالب رہے گی ۔

وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ
[37]
اور اللہ تعالیٰ اپنے ہرکام پر پوری طرح غالب ہے لیکن لوگوں کی اکثریت نہیں جانتی ۔


[1] بحوالہ انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا ، وکی پیڈیا اور آکسفورڈ ڈکشنری۔

[2] بحوالہ انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا اوروکی پیڈیا۔

[3] مسند احمد ج۲۲ص۴۵۲ رقم:۱۰۹۰۷۔

[4] الحجرات:۱۔

[5] النسآء:۶۵۔

[6] الاحزاب:۳۶۔

[7] http://www.mqm.org/English-News/Sep-2001/ah010911.htm

[8] بحوالہ وکی لیکس

[9] سورۃالمائدۃ:۵۱۔

[10] تفسیر الطبری:۶/۲۷۶،۲۷۷۔

[11] تفسیر الطبری:۶/۳۱۳، تفسیر القرطبی :۴/۵۷۔

[12] الدرر السنیۃ:۷/۳۳۴۔

[13] تفسیر القرطبی:۸/۹۳-۹۴، تفسیر فتح القدیر للشوکانی:۱/۵۲۹ ، تفسیر أبی سعود:۲/۲۴۶۔

[14] تفسیر القرطبی:۵/۴۱۷،۴۱۸۔

[15] مجموع الفتاوی:۷/۶۴۔

[16] روزنامہ ایکسپریس ،9اپریل ۲۰۰۷ء۔

[17] دیکھئے http://www.mqm.org/news-2007/apr/n04-15.pdf

[18] بحوالہ وکی لیکس۔

[19] آل عمران:۱۹۔

[20] الحدید:۲۵۔

[21] النسآء۔

[22] النسآء۔

[23] صحیح البخاری،ج:۱،ص:۱۷،رقم الحدیث:۲۵۔

[24] البقرۃ۔

[25] تفسیر ابن کثیرج۱ص۶۸۲۔

[26] تفصیل کے لئے قدیم کتب تفاسیر اورکتب فقہ ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔

[27] السیاسۃ الشرعیہ :باب کیفیۃ معرفۃ الأصلح فی الولایۃ،ص۱۹۔

[28] رواہ الطبرانی ورجالہ رجال الصحیح ،مجمع الزوائد،ج:۶،ص:۱۴۷۔فتح الباری لابن حجر﷫ج:۱۲ص:۶۵۔

[29] منارۃ المسیح ص ب ت۔

[30] ضمیمہ تحفہ گولڑیہ صفحہ ۳۹۔

[31] سبا:۳۱ تا۳۳۔

[32] الاعراف:۱۵۷۔

[33] البدایۃ والنہایۃ،ج:۷،ص:۴۷۔

[34] صحیح مسلم ،ج:۱۰،ص:۳۸،رقم الحدیث:۳۵۴۶۔کنزالعمال،ج:۱۲،ص:۱۶۴،رقم الحدیث:۳۴۴۹۵۔

[35] صحیح مسلم ،ج:۱۰،ص:۴۲،رقم الحدیث:۳۵۵۰۔

[36] صحیح مسلم ،ج:۱۰،ص:۴۱،رقم الحدیث:۳۵۴۹ ۔

[37] یوسف:۲۱۔
 

nomi304

Minister (2k+ posts)
بھائی آپ نے تو پوری کتاب پوسٹ کر دی رمضان کا مہینہ ہے بند قرآن پڑے یا یہ کتاب
 

جامعہ حفصہ کی پاکدامن عورتوں پر بہتان درازی :
لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے طلباء طالبات نے جب اسلام آباد میں سات مساجد کی شہادت اور مزید مساجدکی مسماری کی تیاری اور اس پر ’’دینی‘‘کہلانے والی جماعتوں کی طرف سے بے توجہی کی وجہ سے خود ہی اقدام کرتے ہوئے حکومت پر دباؤڈالنے کی غرض سے ایک لائبریری پر قبضہ کیا تاکہ حکومت کو اس عمل سے باز رہنے پر مجبور کیا جاسکے مگر حکومت کی ہٹ دھرمیوں اور اپنوں کی بے اعتنائی کی وجہ سے جب وہ ’’شریعت یاشہادت‘‘کا نعرہ لگاکر نفاذ شریعت کی تحریک چلانے پر مجبور ہوئے تو اس وقت بھی اس تحریک کی جانب سے نفاذ شریعت کی شدید مخالفت کامعاملہ اپنی جگہ،مگر جامعہ حفصہ کی طالبات سے متعلق جس طرح اخلاق سے گری ہوئی زبان استعمال کی گئی اور ان کو بدکردار اور فاحشہ عورتوں سے تشبیہ دی گئی اس کو بیان کرنے سے ہم قاصر ہیں ۔اس کے لئے اس وقت دیئے گئے اخباری بیانات ہی کافی ہیں مزید کسی حوالے کی ضرورت نہیں۔
قبائلی علاقوں میں آپریشن کے موقع پر مجرمانہ کردار:
امریکی ایماء پر جب ڈالروں کی بچاریوں نے قبائلی علاقوں کے مسلمانوں کو کفر کے خلاف اہل ایمان کو پناہ دینے اور شریعت کے نفاذ کی بات کرنے پرعبرتناک سزا دینے کافیصلہ کیا تو اس موقع پر بھی جو بھیانک کردار ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں سے بڑھ کر اس تحریک نے ادا کیا وہ بیان سے باہر ہے۔جس کا اعتراف کراچی میں امریکی سفیر نے اپنے ایک مراسلے میں یوں کیا:
"The only party to publicly protest the recent Swat Nizam-e-Adl regulations
[1]"
’’یہ واحدجماعت ہے جس نے عوامی سطح پر سوات نظام عدل ریگولیشن کی بھرپور مخالفت کی‘‘۔
پھرجس طرح ایک لڑکی کی جعلی ویڈیوکی بنیاد پر ہنگامہ کھڑا کیاگیا اور اس کی بنیاد پر سوات و مالاکنڈ کے قبائلی مسلمانوں کا قتل عام شروع کیا گیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔چناچہ اس جعلی ویڈیوکی بنیادپر اس تحریک کی جانب سے شریعت کے نفاذ کے خلاف پروپیگنڈے کا جو طوفان کھڑا کیا گیا اور لوگوں کے سامنے اسلامی احکامات کی جس طرح سے ڈراؤنی منظر کشی کی گئی وہ ناقابل بیان ہے۔۵اپریل ۲۰۰۹ء کو منایا جانے والا ’’یوم سیاہ ‘‘اس بات کا منہ بولتا ثبوت تھا۔جس میں اپنے زیر اثر علاقوں کو سیاہ جھنڈوں سے بھردیا گیا تھا۔
تحریک سے وابستہ کارکنان و ہمدردوں کے لئے لمحہ ٔ فکریہ:
شریعت کا حکم اس بارے میں واضح ہے کہ ایک مسلمان کا اہل ایمان کے مقابلے میں کافروں کے ساتھ مل کرلڑنا ،اہل ایمان کی جاسوسی کرنا اور اُن کو گرفتار کرانا ،اہل ایمان کے مقابلے میں کافروں کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعاون کرنا خواہ وہ عسکری ہو یا غیر عسکری ،اُن کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنا،اُس کودائرہ اسلام سے خارج کرکے’’ کافر ومرتد‘‘بنادیتاہے اور اُس کانماز پڑھنا اورروزہ رکھنا، زکوٰۃ وحج اداکرناکسی کام کا نہیں اور یہ جرم اُس کے پچھلے کئے گئے تمام نیک اعمال کو بھی ضائع کردیتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٰآَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوا الْیَھُودَ وَ النَّصٰرٰٓی اَوْلِیَآء بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ وَ مَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْ اِنَّ اﷲَ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ
[2]
’’اے اہل ایمان !یہود ونصارٰی کو دوست نہ بناؤ۔یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے گا وہ بے شک انہی میں سے ہے ۔بے شک اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہرگز ہدایت عطا نہیں فرماتا‘‘۔
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ مذکورہ آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ نے اس بات سے بھی خبردار کیا ہے کہ جو مسلمان اللہ تعالیٰ ،اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اور مومنوں کو چھوڑ کر ان کافروں کو اپنا حمایتی ،مددگار اور دوست بنائے گا تو اس کے نتیجے میں وہ ان یہودیوں اور عیسائی کافروں کی جماعت کا ہی فرد گردانا جائے گا ۔گویایہ شخص اللہ رب العالمین ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کے مدمقابل کافروں کی جماعت کا ایک کارکن ہے۔اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے کلیتاً بیزار اور لاتعلق ہوں گے۔‘‘
[3]
سورۃ البقرۃ کی آیت 28کی تفسیر میں امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اس آیت کریمہ کا معنی ومفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کومنع کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ کافروں کو اپنا حمایتی اور مددگار نہ بناؤ۔وہ اس طرح کہ ان کے دین ومذہب کی بنیاد پر ان سے دوستیاں رچانے لگ جاؤ،مسلمانوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کے خلاف کافروں کی مدد کرنے کے درپے ہوجاؤاور کافروں کومسلمانوں کے خفیہ راز اور معلومات فراہم کرنے لگ جاؤ۔جو شخص ایسا رویہ اختیار کرے گا (فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْئٍ)یعنی اس طرح کرنے سے وہ اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ اس سے لاتعلق ہوجائے گا۔اس وجہ سے کہ وہ اسلام سے مرتد ہوچکا ہے اور کفر میں داخل ہوچکا ہے۔‘‘
[4]
یہ تو تھے چند مختصر حوالے، ورنہ دلائل تو اتنے کثیر ہیں کہ جن کویہاں نقل کرنا ممکن ہی نہیں۔
یہ تمام دلائل اولاً اس شخص کے لئے لمحہ فکریہ ہیں جوکہ ایسی کسی بھی تحریک کا کارکن ہو،جس کا مسلمانوں خلاف جنگ میں کفارکے ساتھ قولی و عملی تعاون کسی سے بھی پوشیدہ نہیں اور جس کے اقراری اس تحریک کے قائد و دیگر رہنما بھی ہیں ،اب بھی اگر ایسی کسی بھی تحریک سے لاتعلقی کا اظہار نہیں کرتا اوربرضاورغبت ان کے اہداف و مقاصدکی تکمیل کرتا رہتا ہے تو ایسے شخص کے بارے میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنے دین وایمان سے محروم ہوچکا اورچاہے وہ لاکھ بار کلمہ پڑھتا رہے، نماز و روزہ اور حج و زکوٰۃ اداکرتا رہے ،وہ کسی کام آنے والے نہیں اور جو حکم ’’کافر ومرتد‘‘ کا ہوتا ہے ،وہی حکم اس کا ہوگا ۔
جب تاتاریوں نے مسلمانوں کا قتل عام شروع کیا اور اپنے احکامات کو شریعت کے مقابلے میں نافذ کیا تو شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یہ فتویٰ دیا کہ :
’’من جَمَّزَ اِلٰی مُعَسْکَرِ التُّتَرِ وَ لَحِقَ بِھِمْ ارْتَدَّ وَ حَلَّ دَمُہُ وَ مَالُہ، فَاِذَا کَانَ ھَذَا فِی مُجَرَّدِ اللُّحُوْقِ بِالْمُشْرِکِیْنَ فَکَیْفَ بِمَنْ اعْتَقَدَ مَعَ ذَالِکَ أَنَّ جِھَادَھُمْ وَ قِتَالَھُمْ لِأَھْلِ الْاِسْلَامِ دِیْنُ یُدَانُ بِہِ ، ھَذَا أَوْلٰی بِالْکُفْرِ وَالرِّدَّةِ۔‘‘
[5]
’’جو شخص تاتاریوں کے معسکر (چھاؤنی)کی طرف بھاگا بھاگا جاتا ہے اور ان سے جاملتا ہے ،وہ شخص مرتد ہوجاتا ہے اور اس کا خون بہانا اور اس کا مال اپنے قبضہ میں لینا جائز ہے ۔مشرکین کے ساتھ صرف جاملنے کا یہ حکم ہے کہ وہ مرتد ہوجاتا ہے اور اس کو قتل کرنا اور اس کا مال قبضہ میں لینا جائز ہے ۔تو اس شخص کے متعلق خود غور فرمالیں کہ جو اس بات کا اعتقاد اورنظریہ رکھتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف جنگ وقتال کرنا میرے دین ومذہب میں شامل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ثانی الذکر شخص کفر وارتداد میں کہیں زیادہ آگے بڑھا ہوا ہے‘‘ ۔
دوم یہ کہ ایسے لوگ جو کہ ایسی کسی بھی تحریک سے ہمدردی والفت رکھتے ہوں اور کسی بھی قسم کی معاو نت کرتے ہوں، ان کے لئے بھی غوروفکر کا مقام ہے کہ ان کی کسی بھی ایسی تحریک سے وابستگی ان کے بھی دین و ایمان کی اُسی طرح بربادی اور عذاب کا سبب بن سکتی ہے جس کے مستحق ایسی کسی بھی تحریک میں شامل لوگ ہوں گے۔
مفسر قرآن سیدنا عبداللہ بن عباس ﷟فرماتے ہیں :
((ھُوَ مُشْرِکْ مِثلُھُمْ ، لِأَ نَّ مَنْ رَضِیَ بِالشِّرْکِ فَھُوَ مُشْرِکٌ))
’’جوکسی کافر ومشرک سے دوستی کرے گا وہ ان کی طرح کا ہی مشرک ہوگا ،اس لیے کہ جو شرک کو پسند کرتا ہے وہ بھی مشرک ہوتا ہے۔‘‘
[6]
علامہ قرطبی ﷫اسلام کا اصول بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں :
’’الرِّضَاءُ بِالْکُفْرِ کُفْرٌ‘‘
[7]
’’ کفر کو پسند کرنا بھی کفر ہے ‘‘۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ﷫ فرماتے ہیں :
’’وَ قَدْ قَالَ غَیْرُ وَاحِدٍ مِنَ السَّلْفِ(( أَعْوَانُ الظَّلَمَةِ مِمَّنْ أَعَانَھُمْ ، وَ لَوْ أَنَّہُ لَاقَ لَھُمْ دَوَاءً ، أَوْ بَرٰی لَھُمْ قَلَمًا)) ، ومِنْھُمْ مَنْ کَانَ یَقُوْلُ (( بَلْ مَنْ یَّغْسِلُ ثِیَابَھُمْ مِنْ أَعْوَانِھِمْ ))‘‘
[8]
’’سلف صالحین میں سے بہت زیادہ افراد کا یہ موقف ہے کہ ظالموں اور جابروں کے مددگاران لوگوں کے حکم ہی میں شامل ہیں جن کا وہ تعاون کرتے ہیں ۔اگرچہ وہ ظالموں کے لیے محض دوا دارو اور علاج معالجہ کا ہی بندوبست کریں یا محض ان کو قلم تراش کر ہی پیش کریں ۔بعض سلف نے تویہاں تک کہاہے کہ :ظالموں کے کپڑے دھونے والا بھی ان کے ساتھ ہوگا‘‘۔

شریعت کے نفاذ کی مخالفت
کفر کے سرداروں کی خواہش کے عین مطابق ملک کی اکثر سیاسی جماعتیں(پیپلز پارٹی،اے این پی وغیرہ) تو شریعت کے نفاذ ہی کی شدید مخالف ہیں اور کچھ جماعتیں ہیں جوکہ بظاہراً شریعت کے نفاذ کی مخالفت نہیں کرتیں لیکن شریعت کا نفاذ قوت کے ساتھ کرنے کی وہ بھی شدید مخالف ہیں ۔
اور جہاں تک تعلق ہے ’’دینی ‘‘کہلانے والی جماعتوں کا ، وہ اس معاملے میں گوکہ مخالف نظر نہیں آتیں مگر وہ بھی شریعت کے نفاذ کو کفر کے ہی طے کردہ ’’پر امن ذرائع‘‘اور انسانی ہاتھوں کے تخلیق کردہ ’’آئین‘‘کی دستاویزات سے مشروط کردیتی ہیں،چاہے وہ آئین کفریہ قوانین سے بھرپور ہی کیوں نہ ہوں۔
مگر جہاں تک تعلق ہے اس تحریک کا ،ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں سب سے بڑھ کر شریعت کی عملداری یا قوت کے ساتھ اس کے نفاذ کی مخالفت میں یہ تحریک ہمیشہ پیش پیش رہی ہے۔’’ڈنڈا بردار شریعت ‘‘اور کلاشنکوف شریعت‘‘نامنظور کے نعرے لگواکر شریعت اور اس کے احکامات کی مخالفت و استہزا کو باقاعدہ مہم کے طور پر اختیار کرنا ،واحد اس تحریک کا وطیرہ رہا ہے۔شریعت کی عملداری اور اس کے نفاذ کی مخالفت میں باقاعدہ جلسے اور جلوس نکالنا ،اپنے زیرا ثر علاقوں میں چاکنگ کرنا اور پمفلٹ تقسیم کرنا اورشریعت کے استہزا و مخالفت پر مشتمل بینرز آوزا ں کرنا کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ۔
۹/اپریل ۲۰۰۷ء کو اس تحریک کی طرف سے یہ بیان جاری کیاگیا کہ :
’’جامعہ حفصہ اور لال مسجد میں کلاشنکوفیں اور ڈنڈا اٹھانے والے نام نہاد اسلام کے ٹھیکیدار سن لیں کہ ہم نے بھی چوڑیا ں نہیں پہن رکھیں………کلاشنکوف شریعت کے اعلان کے خلاف 15اپریل کو کراچی میں بڑی ریلی نکالیں گے‘‘۔
[9]
پھر اسی ضمن میں شرعی احکام کے استہزا اور اس کے انکار پر مبنی ایک سوال نامہ اس تحریک کی جانب سے 12اپریل 2007ء کو روزنامہ جنگ میں شائع کیاگیا اور اپنے زیر اثر علاقے میں نہ صرف اس کوبطور پمفلٹ بڑی تعداد میں تقسیم کیا گیابلکہ اپنے جلسوں میں لوگوں سے سوال کرکے اجتماعی طور پر اس کا نفی میں جواب لیاگیا ۔اس سوالنامہ میں کچھ نکات ایسے تھے جن سے یہ بات بخوبی عیاں ہوجاتی ہے کہ یہ تحریک کس طرح شرعی احکامات کے استہزا اور دھجیاں اڑنے پر مصرہیں۔وہ یہ ہیں:
……کیا خواتین ’’غیر اسلامی ‘‘شٹل کوک برقعہ پہننے پرتیار ہیں؟
……کیا آپ کے خیال میں اسلام نے شیو بنانے کو حرام قرار دیا ہے؟
……کیا آپ اسلام آباد میں لال مسجد اور مدرسہ حفصہ پر ڈنڈا بردار کلاشنکوفی قبضہ کرکے عوام پر جبراً اپنی خود ساختہ کلاشن کوفی شریعت نافذ کرنے والوں کے حق میں ہیں؟
……کیا آپ وفاقی شرعی عدالت کی موجودگی میں ملاؤں کی خود ساختہ شرعی عدالتوں کے قیام کو جائز سمجھتے ہیں؟
ان سوالوں کا تفصیلاً جواب دینا یہاں ممکن نہیں ۔مختصراً یہ کہ ایک مسلمان اگر کسی شرعی حکم پر عمل نہ کرسکے، چاہے اپنی غفلت کی وجہ سے یا جان بوجھ کر ،لیکن وہ اس عمل سے کافر نہیں ہوتا ۔مگر جو شخص کسی واضح شرعی حکم کا ہی انکاری ہوجائے بلکہ اس شرعی حکم کو ہی غیر اسلامی قرار دے دے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا ایمان سلامت نہیں رہتا۔
لہٰذا جو شخص عورتوں کے پردہ کرنے کوقرآن و سنت کے واضح احکامات کے برخلاف معاذ اللہ ’’غیر اسلامی ‘‘قرار دے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے داڑھی رکھنے کا حکم دینے اور اس کے نہ رکھنے والے سے منہ پھیرلینے کے باوجو داڑھی نہ رکھنے یعنی شیوبنانے کو حرام نہ سمجھے ،اور جولوگ شریعت کے نفاذ کے لئے کھڑے ہوں ان کا استہزا وتمسخر کرتے ہوئے ان کی بھرپورمزاحمت کرے تو اس شخص کو چاہیے کہ وہ اپنے دین و ایمان کی خیر منائے کہ کہیں وہ اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا رہے مگر شریعت کی نظر میں اس کی حیثیت کفر کرنے والوں کی ہو،اور جہاں تک تعلق ہے ملک میں قائم نام نہاد ’’شرعی عدالتوں ‘‘کی حیثیت کا ،تواگر کوئی ان عدالتوں کو ’’شرعی‘‘سمجھتا ہے ،تو اس ضمن میں صرف چند سوالوں کے جواب مطلوب ہیں؟
اولاً یہ کہ جب ملک میں شرعی عدالتیں موجود ہیں تو پھر دوسرے متوازی عدالتی نظام کی موجودگی کا کیا مطلب ہے ؟او ر دوم یہ کہ اگر شرعی عدالت کوئی فیصلہ دے تو دوسری متوازی عدالت میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کا حق کیا معنی رکھتاہے؟سوم یہ کہ شرعی عدالت کے فیصلے کو دوسری متوازی عدالتیں کیوں کالعدم قرار دے سکتی ہیں؟اس بات کا عملی ثبوت یہ ہے کہ جب ملک میں شرعی عدالتوں نے ایک طویل عرصے کی سماعت کے بعد بڑی ہمت کرکے بینک انٹرسٹ کو ’’سود‘‘قرار دیتے ہوئے ختم کرنے کا حکم دیا تو اس کو دوسری متوازی عدالت نے اس فیصلے کو کالعدم قراردیتے ہوئے اس بینک انٹرسٹ کو دوبارہ جائز قرار دے دیا۔بتائیے کسی شرعی حکم کے مطابق فیصلے کو ’’کالعدم ‘‘قرار دینے کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ کھلم کھلا کفر نہیں؟
بہرحال!پھر 15اپریل2007ء کو کراچی میں’’ڈنڈا بردار کلاشنکوفی شریعت نامنظور‘‘ریلی منعقد کی گئی ۔جس میں اس تحریک کے قائد نے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خلاف جلد از جلد کاروائی کرنے ورنہ بصورت دیگر ’’دمام دم مست قلند‘‘ کرنے کی دھمکی دینے کے ساتھ ساتھ لال مسجدو جامعہ حفصہ کے طلبہ و طالبات کو منافقین کا ٹولہ قرار دیا۔وہ کہتے ہیں:
’’(حکومت )مذہبی انتہاپسندوں کی جانب سے جامعہ حفصہ اور لال مسجد پر کیا جانے والاغیر قانونی قبضہ فوری ختم کرائے اور لوگوں کو تحفظ فراہم کرے ورنہ اس کا شدید ردعمل اور’’دمام مست قلندر ‘‘ہوگا………میں نے پاکستان کی عوام کو پیغام دے دیا ہے کہ ایسے انتہاپسندوں کے خلاف متحدہ ہراول دستے کا کردار ادا کرے گی………گناہوں کے عذاب دینے کا کام اللہ کا ہے نہ کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے ’’ڈنڈا بردار منافقین ‘‘کا ………حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام پھیلانے کے لئے کبھی تلوار نہیں اٹھائی ‘‘۔
[10]
غور کرنے کی بات ہے کہ یہ اس تحریک کے طرز فکر میں عجیب تضاد نہیں کہ ایک طرف وہ شریعت کے نفاذ کی بزورِ قوت شدید مخالف ہے ۔لیکن دوسری طرف وہ اپنے نظریات و افکار کو زبردستی اپنے کارکنان اور عوام الناس پر تھوپنے پر مصر نظر آتی ہے۔اس تحریک کے قائد کی طرف سے جب بھی کوئی ’’حکم‘‘آتا ہے چاہے وہ اس تحریک کے اندورنی معاملات سے متعلق ہو یا پھر ملکی طور پر کوئی واقعہ سے متعلق ،اس کو پوری قوت سے اپنے زیر اثر علاقوں میں نافذ کیا جاتاہے ۔(جیسے کہ ہڑتال کی کال پر اپنے زیر اثر علاقوں میں زور زبردستی سے کاروبار بند کرانا،زکوۃ ،فطرہ اور قربانی کی کھالیں دھونس و دھمکی سے وصول کرنا اور لوگوں کے مال پر مختلف طریقوں اور بہانوں سے ناحق ڈاکہ ڈالنا اور انکار یا مزاحمت کی صورت میں ناحق ان کی جان لینا اب تو معمول کی با ت بن چکا ہے اور اب معاملہ یہ ہے کہ اب ہر سیاسی گروہ نے یہ طرز فکر اپنالیا ہے جو کسی سے مخفی نہیں )۔اس بات کا اعتراف تو خودکراچی میں امریکی سفیر نے اپنے ایک مراسلے میں یوں کیا:
"The party operates through its 100 Sector Commanders,who take their orders directly from the party leader, Altaf Hussain, who lives in exile in the United Kingdom."
’’یہ تحریک(شہر کے معاملات کو) اپنے سو کے قریب سیکٹر کمانڈرز کے ذریعے کنٹرول کرتی ہے جوکہ لند ن میں مقیم اپنے قائد الطاف حسین سے براہ راست احکامات وصول کرتے ہیں‘‘۔
[11]
اور حال یہ ہے کہ جو کوئی چاہے وہ اس تحریک کا کارکن ہو یا عام شہری اگر وہ ان تمام مظالم پر آواز اٹھائے یا اس کی مخالفت کرے اس کے لئے موت کا پروانہ جاری کردیا جاتا ہے اور اس کے لئے دلیل اور ثبوت ایک ہی ہوتا ہے ،وہ یہ کہ :
’’جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے‘‘۔
کیا کسی قائد کے ردّی افکار کو بزورِ قوت نافذ کیا جانا تو صحیح قرار پائے مگر اللہ رب العزت جو اصل خالق و مالک ہے اور وہ ہی زمین وآسمان کا وارث ہے اور سب کو بالآخر اس کی طرف لوٹ کر جانا ہے ، اس کی نازل کردہ شریعت کا بزورِ قوت نفاذ غلط اور ظلم قرار پائے ۔
تھوڑی سی بھی عقل و فہم رکھنے والا شخص یہ بات جانتا ہے کہ دنیا میں کوئی نظا م بغیر ’’قوتِ نافذہ‘‘(Authority)کے نہ چل سکتا ہے اور نہ ہی وہ نظام کہلانے کا حقدار ٹہرتا ہے بلکہ وہ کتابوں کی زینت بن جاتاہے۔ جب رب کائنات نے یہ اعلان کردیا کہ :
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلاَمُ
[12]
’’بے شک اللہ کے نزدیک دین (نظام )صرف اسلام ہے‘‘۔
اور ہر مسلمان بھی یہ ایمان رکھتا ہے کہ اسلام ایک مکمل ’’نظام حیات‘‘ہے تو پھر کیوں اس کے نفاذ کے لئے ’’قوت‘‘کے استعمال کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔
کیا اللہ رب العزت کا عطاکردہ نظام اتنا حقیر اور ذلیل ہے کہ دنیابھر کے کفریہ و شرکیہ آئین جوکہ انسانی اذہان کی پیداوار ہیں ،ان کے نفاذ کے لئے قوت کے استعمال کوجائز قرار دیا جائے مگر دین اسلام کے نفاذ کے لئے قوت کے استعمال کو ناجائز قرار دیا جائے۔
ہرگز نہیں !اللہ رب العزت کی شریعت اس لئے نازل نہیں کی گئی کہ اس کو ردّی افکار اور باطل نظریا ت سے بھی گیا گزرا سمجھا جائے بلکہ اس لئے نازل کی گئی کہ اس کے احکامات کو بزورِ قوت نافذ کیا جائے۔اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے:
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِاﻟۡﺒَﻴِّﻨٰﺖِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْط وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَاْسٌ شَدِیْدٌِ
[13]
’’ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی نشانیاں دے کر بھیجا اور ان پر کتابیں اور ترازو (یعنی نظامِ عدل و قسط ) نازل کیا تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں اور ہم نے (اس کام کی تکمیل کے لئے ) لوہا نازل کیا جس میں جنگ کرنے کی بڑی صلاحیت ہے ‘‘۔
اور پھر اس تحریک کے قائد کا یہ کہنا کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی تلوار نہیں اٹھائی‘‘،دراصل تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت کے بنیادی اصولوں سے بھی انحراف کے مترادف ہے۔سوال یہ ہے کہ جس نبی کو خود اللہ رب العزت نے یہ حکم دیا ہو کہ فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ
[14]’’جنگ کرو اللہ کی راہ میں ‘‘اور پھر اہل ایمان کے بارے میں فرمایا ہوکہ وَحَرِضِ الْمُوْمِنِیْنَ[15]’’اور اہل ایمان کو بھی اس پر ابھاریئے ‘‘،تو کیا اس نبی نے اللہ رب العزت کے اس حکم سے اعراض کیا ہوگا ؟
ہرگز نہیں !جنگ بدر و احداورخندق و تبوک اس بات کی گواہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ رب العزت کے اُسی حکم پر عمل کے لئے یہ جنگیں لڑیں، جس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے:
((أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی یَشْھَدُوا أَنْ لَا اِلَہَ اِلَّا اللَّہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّہِ وَیُقِیمُوا الصَّلَاةَ وَیُؤْتُوا الزَّکَاةَ فَاِذَا فَعَلُوا ذَلِکَ عَصَمُوا مِنِّی دِمَاء َھُمْ وَأَمْوَالَھُمْ اِلَّا بِحَقِّ الْاِسْلَامِ وَحِسَابُھُمْ عَلَی اللَّہِ))
[16]
’’مجھے حکم دیاگیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک قتال کروں جب تک وہ’’لاالٰہ الااﷲ محمدرسول اﷲ‘‘کی گواہی نہ دیں اورنماز قائم کریں اورزکوٰۃادا کریں، جب وہ یہ کام کریں گے توان کا مال اورجان محفوظ ہے سوائے اس حق کے اور ان کاحساب اﷲپر ہے۔ ‘‘
یہاں بعض لوگ اور اس تحریک کے قائد بھی سورۃ البقرۃ کی آیت ۲۵۶کے اس حصے :
لاَ اِکْرَاہَ فِی الْدِّیْنِ
[17]
’’دین میں کوئی جبر نہیں ‘‘۔
کی غلط اور خود ساختہ تفسیر سے عوام الناس کے ذہنوں میں یہ مغالطہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام میں کوئی زبردستی نہیں ہے ۔لہٰذا ازروئے قرآن کریم شریعت کا بزورِ قوت نفاذ جائز نہیں ۔
اوّل تو اس مغالطے کا رددرج بالا آیت اور حدیث سے ہی ہوجاتا ہے۔مگر پھر بھی ہم سورۃ البقرۃ کی مذکورہ آیت کی تفسیر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین اور مفسرین قرآن کی زبانی سمجھ لیتے ہیں تاکہ اصل حقیقت واضح ہوجائے۔
’’جبر و اکراہ ‘‘سے مراد صرف کافر کو زبردستی مسلمان بننے پر مجبورکرنا ہے:
تمام مفسرین و فقہاء کرام اس بات پر متفق ہیں کہ سورۃا لبقرۃ کی آیت کے مذکورہ حصے سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ مسلمانوں کو اسلامی احکامات ماننے پر مجبور کرنا ’’جبر و اکراہ ‘‘ہے بلکہ اس سے کسی کافر کو اسلام داخل کرنے پر مجبور کرنامراد ہے۔جیساکہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کا مطلب یوں بیان کرتے ہیں:
’’لا تکرھوا أحدًا علی الدخول فی دین الاسلام‘‘
[18]
’’کسی کافر کو اسلام میں داخل کرنے کے لئے مجبور نہ کرو‘‘۔
پھر اس آیت سے متعلق اکثر مفسرین صحابہ کرام کے اقوال کی روشنی میں کہتے ہیں کہ یہ آیت صرف اہل کتاب (عیسائیوں اوریہودیوں)سے متعلق ہے ۔جس میں صرف ان کو یہ اختیار دیا گیا کہ اگر وہ اسلام کو قبول نہیں کرتے تو پھر اسلام کو بطور نظام قبول کرتے ہوئے ’’جزیہ ‘‘ادا کریں تو ان کی جان و مال کو تحفظ حاصل ہوجائے گا ۔باقی رہے دوسرے قسم کے کافر، توان کو کسی مسلمانوں کی جانب سے پناہ مل جانے یا پھردارلاسلام کا ان سے کسی قسم کا معاہدہ ہوجانے یا پھرا ن کے اسلام قبول کرلینے کے سو ا کوئی چارہ نہیں ۔
[19]
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’فمن عدل عن الکتاب قوم بالحدید؛ولھذا کان قوام الدین بالمصحف والسیف۔وقد روي عن جابر بن عبد اللّٰہ رضی اللّٰہ عنھما قال:((أمرنا رسول اللّٰہ ﷺ أن نضرب بھذا )) یعنی السیف من عدل عن ھذا یعنی المصحف ‘‘
[20]
’’پس جو شخص کتاب اللہ کو چھوڑ کر دوسری راہ اختیار کرے،اُسے لوہے (یعنی تلوار)سے سیدھا کیاجائے،اس لئے کہ دین کا قیام ،دین کی مضبوطی اور پائیداری کتاب اللہ اور شمشیر سے ہوتی ہے۔سیدنا جابر بن عبداللہ ﷛سے مروی ہے ،وہ کہتے ہیں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ وعلیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے :((اَنْ نَضْرِبَ بِھَذَا))’’یعنی تلوار سے اُسے ماریں جو قرآن سے منہ موڑے‘‘۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت نقل کرتے ہیں، ،حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب (صلحِ حدیبیہ کے ایک سال بعد )عمرہ ٔ قضا کے لیے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے آگے یہ رجزیہ اشعار پڑھتے جارہے تھے :
’’خلوا بنی الکفار عن سبیلہ،قد انزل الرحمٰن فی تنزیلہ،بان خیر القتل فی سبیلہ ،نحن قتلنا لکم علی تاویلہ ،کما قتلنا کم علی تنزیلہ‘‘
’’اے کافروں کی اولاد! رسول اللہﷺ کا راستہ چھوڑ دو ،بے شک مہربان اللہ نے اپنے کلام میں فرما یا ہے کہ:’’ بہترین قتل وہ ہے جو اس کی راہ میں ہو‘‘۔(لہٰذا) ہم تم کو قتل کریں گے اس قرآن کی مراد (یعنی معانی و احکامات )منوانے پر بھی ،جیساکہ ہم نے تم کو قتل کیا ہے اس کے نزول کے منوانے پر ‘‘۔
[21]
اب خود ہی فیصلہ کرلینا چاہیے کہ شریعت کے نفاذ سے متعلق صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین اور مفسرین کی تفسیر کو مانا جائے یا پھر اس تحریک کے قائد کی خود ساختہ تفسیر کو تسلیم کیا جائے۔
آخر میں اگر اس بات کی طرف بھی اشارہ کردیا جائے تو کوئی حرج نہیں کہ شریعت کے قوت کے ساتھ نفاذ کے معاملے میں اس تحریک کے قائد اور قادیانیت کے نظریات میں کوئی خاص فرق نہیں۔مرزا غلام احمد قادیانی ملعون اپنی کتاب میں کہتاہے :
’’جب سے دین کے لئے لڑنا حرام کیا گیا ہے ،اب اس کے بعد جو دین کے لئے ’’تلوار‘‘اٹھاتا ہے اور غازی نام رکھ کر کافروں کو قتل کرتاہے ،وہ خدا کا اور اس کے رسول کا نافرمان ہے‘‘
[22]
ایک اور جگہ اپنے اشعار میں کہتا ہے:
اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستوں خیال
دین کے لئے حرام ہے اب جنگ اور’’ قتال‘‘
دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد
منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد
[23]
پس جو کوئی بھی اپنے ایمان و اسلام کی سلامتی چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ ایسے نظریات و افکار سے توبہ کرلے چاہے اس کا تعلق کسی بھی گروہ سے ہواوریہ کہ اس تحریک کے کارکنان و ہمدردوں کو بھی غور کرنا چاہیے کہ کیا وہ کہیں ایسے نظریات و افکار کوتو Followنہیں کررہے ہیں جو کہ روزِ قیامت سوائے حسرت وندامت کے علاوہ کسی اورچیز میں اضافہ کا سبب نہ بن سکیں گے ۔
وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ مَوْقُوْفُوْنَ عِنْدَ رَبِّھِمْ یَرْجِعُ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ نِ الْقَوْلَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا لَوْلَآ اَنْتُمْ لَکُنَّا مُؤْمِنِیْنَقَالَ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْآ اَنَحْنُ صَدَدْنٰکُمْ عَنِ الْھُدٰی بَعْدَ اِذْ جَآءَ کُمْ بَلْ کُنْتُمْ مُّجْرِمِیْنَ وَقَالَ الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا بَلْ مَکْرُ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ اِذْ تَاْمُرُوْنَنَآ اَنْ نَّکْفُرَ بِاللّٰہِ وَنَجْعَلَ لَہٗٓ اَنْدَادًا وَاَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ وَجَعَلْنَا الْاَغْلٰلَ فِیْٓ اَعْنَاقِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ھَلْ یُجْزَوْنَ اِلَّا مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
[24]
’’اے دیکھنے والے!کاش کہ تو ان ظالموں کو(جنہوں نے اللہ احکامات کے بجائے کسی اور کی حکم بجاآوری کی)اس وقت دیکھتا جبکہ ا پنے رب کے سامنے کھڑے ہوئے ایک دوسرے کو الزام دے رہے ہوں گے۔کمزور لوگ بڑے لوگوں سے کہیں گے اگر تم نے ہوتے تو ہم مومن(اللہ کی فرمانبرداری کرنے والے)ہوتے۔تو بڑے لوگ ان کمزوروں کو جواب دیں گے کہ کیا تمہارے سامنے ہدایت آچکنے کے بعد ہم نے تمہیں اس سے روکا تھا؟(نہیں) بلکہ تم خود مجرم تھے۔(اس کے جواب میں )یہ کمزور لوگ ان بڑوں سے کہیں گے کہ(نہیں نہیں)بلکہ تم دن رات کے مکروفریب سے ہمیں اللہ کے ساتھ کفر کرنے اور اس کے شریک مقرر کرنے کا تمہارا حکم دینا ہی ہمیں ایمان سے محروم کرنے کا باعث بنا!اور عذاب کو دیکھتے ہی سب کے سب دل پشیمان ہورہے ہوں گے اور انکار کرنے والوں کی گردنوں ہم طوق ڈال دیں گے انہیں صرف ان کے کئے کرائے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا‘‘۔



[1] بحوالہ وکی لیکس

[2] سورۃالمائدۃ:۵۱۔

[3] تفسیر الطبری:۶/۲۷۶،۲۷۷۔

[4] تفسیر الطبری:۶/۳۱۳، تفسیر القرطبی :۴/۵۷۔

[5] الدرر السنیۃ:۷/۳۳۴۔

[6] تفسیر القرطبی:۸/۹۳-۹۴، تفسیر فتح القدیر للشوکانی:۱/۵۲۹ ، تفسیر أبی سعود:۲/۲۴۶۔

[7] تفسیر القرطبی:۵/۴۱۷،۴۱۸۔

[8] مجموع الفتاوی:۷/۶۴۔

[9] روزنامہ ایکسپریس ،9اپریل ۲۰۰۷ء۔

[10] دیکھئے http://www.mqm.org/news-2007/apr/n04-15.pdf

[11] بحوالہ وکی لیکس۔

[12] آل عمران:۱۹۔

[13] الحدید:۲۵۔

[14] النسآء۔

[15] النسآء۔

[16] صحیح البخاری،ج:۱،ص:۱۷،رقم الحدیث:۲۵۔

[17] البقرۃ۔

[18] تفسیر ابن کثیرج۱ص۶۸۲۔

[19] تفصیل کے لئے قدیم کتب تفاسیر اورکتب فقہ ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔

[20] السیاسۃ الشرعیہ :باب کیفیۃ معرفۃ الأصلح فی الولایۃ،ص۱۹۔

[21] رواہ الطبرانی ورجالہ رجال الصحیح ،مجمع الزوائد،ج:۶،ص:۱۴۷۔فتح الباری لابن حجر﷫ج:۱۲ص:۶۵۔

[22] منارۃ المسیح ص ب ت۔

[23] ضمیمہ تحفہ گولڑیہ صفحہ ۳۹۔

[24] سبا:۳۱ تا۳۳۔
 
اردوبولنے والوں سمیت ہر ایک کے مسائل کاواحد حل
جہاں تک تعلق ہے اردوبولنے والوں سمیت ہر ایک کے معاشی استحصال اور مسائل کا تو اس کاحل صرف اور صرف شریعت کے نفاذ میں ہے۔کیوں کہ اسلا م کا عطاکردہ نظام ہی وہ واحد ذریعہ ہے جوکہ وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بناتاہے اور معاشرتی ،معاشی اور سیاسی ناہمواریوں اور ناانصافیوں کو ختم کرتاہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرٰةِ وَالْاِنْجِیْلِ یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَھُمُ اﻟﻄَّﻴِّﺒَﺖِوَیُحَرِّمُ عَلَیْھمُ الْخَبٰٓئِثَ وَیَضَعُ عَنْھمْ اِصْرَھمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھمْ
[1]
’’جولوگ رسول نبی امی کا اتباع کرنے والے ہیں جن کو وہ لوگ اپنے پاس تورات و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ ان کو نیک باتوں کو حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے منع کرتے ہیں اور پاکیزہ چیزو ں کو حلال کرتے ہیں اور خبیث چیزوں کوحرام کرتے ہیں اور ان لوگوں پر جو بوجھ اور طوق پڑگئے تھے ان کو دور کرتے ہیں ‘‘۔
حضرت سعد بن ابی وقاص نے شاہ ایران کسریٰ کے دربار میں کہے تھے:
((فَقَالَ اللّٰہَ ابْتَعَثَنَا لِنُخْرِجَ النَّاسَ مَنْ شَاءَ مِنْ عِبَادَةِ الْعِبَادِ اِلٰی عِبَادَةِ اللّٰہِ وَحْدَہٗ، وَمِنْ ضِیْقِ الدِّنْیَا اِلٰی سَعَتِھا، وَمِنْ جَوْرِ الْاَدْیَانِ اِلٰی عَدْلِ الْاِسْلَام))
[2]
’’بے شک اللہ نے ہمیں بھیجا ہے تا کہ ہم نکالیں انسانوں کوبندوں کی عبادت سے، اللہ وحدہ کی عبادت کی طرف اور دنیا کی تنگی سے اس کی وسعت کی طرف اور (باطل)ادیان کے ظلم و ستم سے اسلام کے عدل کی طرف۔‘‘
مذکورہ بالا آیت میں ’’یَاْمُرُھُمْ‘‘کے جملے سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ جب نیکیوں کو معاشرے میں رائج اور نافذ کیا جاتاہے اور برائیوں کی قوت کے ساتھ بیخ کنی کی جاتی ہے تو لوگوں کے گلوں میں جو ظلم و جبر کے طوق جاہلیت کی بنیادر پر پہنادیئے جاتے ہیں وہ خود بخود اترجاتے ہیں ورنہ بصورت دیگر ظلم و جبر کے طوق اوربھاری ہوتے چلے جاتے ہیں۔
اس بات کو مزید سمجھنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل مدینہ کے دو قبائل اوس و خزرج کی مثال ہی کافی ہے ۔چنانچہ جب شریعت نہیں تھی تو جنگل کا قانون رائج تھا اور جاہلیت کا دور دورہ تھا اور طاقت کی بنیاد پر ایک گروہ دوسرے گروہ پر ناحق طریقے سے غالب تھا۔
ان دونوں قبائل کے درمیان تاریخ انسانی کی وہ بھیانک جنگ لڑی گئی جوکہ نسل در نسل چلتی رہی ۔نتیجہ یہ ہوا کہ خزرج قبیلہ اوس قبیلے پر غالب آگیا ۔پھر انصاف کا پیمانہ یوں ٹہرا کہ اگر اوس قبیلے کا فرد خزرج قبیلے کے فرد کے ہاتھوں مارا جاتا تو بدلے میں صرف چند کھجوروں کے ٹوکرے دئیے جاتے اور اگر خزرج قبیلے کا فرد اوس قبیلے کے ہاتھوں مارا جاتا تو بدلے میں قبیلہ اوس کے تین افراد کو قتل کیا جاتا اور یہ قانون دونوں قبیلوں نزدیک کے متفقہ تھا۔
مگر جب یہ دونوں قبیلے اسلام سے سرفراز ہوئے اور اسلام کو بطور نظام نافذ کرنے پر متفق ہوگئے تو اللہ رب العزت نے ان کو باہم شیر و شکر کردیا اور یوں ظلم و جبر پر مبنی جاہلی نظام کا خاتمہ ممکن ہوا اور آج ہم ان کو ’’انصارِ مدینہ ‘‘کے نام کے ساتھ ادب سے پکارتے ہیں(رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ )
چنانچہ آج اگر ہم معاشرتی ناہمواریوں اور معاشی استحصال کا خاتمہ چاہتے ہیں تو اس کاواحد حل’’شریعت اسلامی‘‘کے نفاذ میں ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور صورت اختیار کرنے میں سوائے گھاٹے اور خسارے کے کچھ اور ہاتھ آنے والا نہیں۔لہٰذا نجات اسی میں ہے کہ ہماری ساری ہمدردیاں اور سپورٹ اس گروہ کے ساتھ ہوجانے چاہیے جوکہ دین حق کے نفاذ کے لئے اللہ کے دشمنوں اور کفر کے سرداروں سے لڑ رہے ہیں اور اپنی جان ومال اس راہ میں لٹارہے ہیں کیونکہ یہی وہ گروہ ہے جس کے حق پر ہونے کی گواہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں دی :
((لَنْ یَبْرَحَ ھذَا الدِّینُ قَائِمًا یُقَاتِلُ عَلَیْہِ عِصَابَةٌ مِنْ الْمُسْلِمِینَ حَتَّی تَقُومَ السَّاعَةُ))
[3]
’’یہ دین قائم رہے گا کیونکہ مسلمانوں کی ایک جماعت اس کے(قیام کے)لئے قتال کرتی رہے گی قیامت واقع ہونے تک‘‘۔
((لَا تَزَالُ عِصَابَةٌ مِنْ أُمَّتِی یُقَاتِلُونَ عَلَی أَمْرِ اللَّہِ قَاھرِینَ لِعَدُوِّھمْ لَا یَضُرُّھُمْ مَنْ خَالَفَھُمْ حَتَّی تَأْتِیَھُمْ السَّاعَةُ))
[4]
’’میری امت کاایک گروہ اللہ کے حکم کے مطابق قتال کرتا رہے گا ،یہ لوگ دشمنوں پر چھائے رہیں گے ،جس کسی نے ان کی مخالفت کی وہ انہیں نقصان نہیں پہنچاسکے گا ،یہاں تک کہ قیامت آجائے اور اسی طریقے پر قائم رہیں گے۔‘‘
((مَنْ یُرِدْ اللَّہُ بِہِ خَیْرًا یُفَقِّھۡہُ فِی الدِّینِ وَلَا تَزَالُ عِصَابَةٌ مِنْ الْمُسْلِمِینَ یُقَاتِلُونَ عَلَی الْحَقِّ ظَاھِرِینَ عَلَی مَنْ نَاوَأَھُمْ اِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ))
[5]
’’اللہ جس کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دیدیتا ہے اور قیامت تک مسلمانوں میں سے ایک جماعت حق پر لڑتی رہے گی اور اپنے سے الجھنے والوں پر غالب رہے گی ۔‘‘

وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ
[6]
’’اور اللہ تعالیٰ اپنے ہرکام پر پوری طرح غالب ہے لیکن لوگوں کی اکثریت نہیں جانتی ‘‘۔



[1] الاعراف:۱۵۷۔

[2] البدایۃ والنہایۃ،ج:۷،ص:۴۷۔

[3] صحیح مسلم ،ج:۱۰،ص:۳۸،رقم الحدیث:۳۵۴۶۔کنزالعمال،ج:۱۲،ص:۱۶۴،رقم الحدیث:۳۴۴۹۵۔

[4] صحیح مسلم ،ج:۱۰،ص:۴۲،رقم الحدیث:۳۵۵۰۔

[5] صحیح مسلم ،ج:۱۰،ص:۴۱،رقم الحدیث:۳۵۴۹ ۔

[6] یوسف:۲۱۔