فیض آباد دھرنا کمیشن میں شہبازشریف سے کیا سوالات پوچھے گئے؟

shehbaz-sharif-nawaz-shahid.jpg


کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی لگانا وفاقی حکومت کا کام ہوتا ہے: شہبازشریف
نجی ٹی وی چینل اے آر وائے نیوز کی رپورٹ کے مطابق 167 صفحات پر مشتمل فیض آباد دھرنا کمیشن کی انکوائری رپورٹ موصول ہو گئی ہے جس کے مطابق کمیشن میں اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے 10 سوالات کے جوابات دیئے۔ کمیشن نے سوال پوچھا کہ آئی بی کی رپورٹ کے مطابق نفرت پر مبنی بیانات سامنے آنے پر آپ نے اس وقت کیا کارروائی کی؟ جس پر شہبازشریف نے بتایا کہ پنجاب حکومت نے وزیر قانون کی سربراہی میں کابینہ سب کمیٹی تشکیل دی تھی۔

شہبازشریف نے بتایا کہ اہم وزراء، چیف سیکرٹری، ہوم سیکرٹری، چیف سیکرٹری کے علاوہ آئی بی، سپیشل برانچ، سی ٹی ڈی اور آئی ایس آئی افسران بھی اس کمیٹی میں شامل تھے۔ کمیٹی کا باقاعدہ اجلاس بھی ہوتے رہے اور مجھے باخبر رکھا جاتا تھا، ایک سوال کے جواب میں شہبازشریف نے نوازشریف کیخلاف نفرت آمیز بیانات ودھمکیوں بارے انٹیلی جنس رپورٹ سے لاعلم ہونے کا اظہار کیا۔

شہبازشریف سے پوچھا گیا کہ آئی بی رپورٹ کے مطابق تحریک لبیک پاکستان نے خلاف قانون سرگرمیاں کیں، ایسی جماعت پر الیکشن کمیشن پابندی عائد کر سکتا ہے تو اس حوالے سے وفاقی کو آپ نے کوئی سفارش کی تھی؟ شہبازشریف نے کہا ایسی کسی رپورٹ کا علم نہیں اور کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی لگانا وفاقی حکومت کا کام ہوتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق کمیشن نے سوال کیا کہ ٹی وائی ایل آر اے اور ٹی ایل پی کی قیادت نے سوشل میڈیا پر دھمکیاں دیں، ان کیخلاف انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997ء کے تحت کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ شہبازشریف نے جواب میں کہا اس معاملے کو پیمرا و پی ٹی اے دیکھتے ہیں اور خطرات کے حوالے سے ایس او پی کے تحت رپورٹ پر سکیورٹی فراہم کی جاتی ہے۔
ایک سوال یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا آپ نے راولپنڈی کی ضلعی انتظامیہ کو اسلام آباد کی انتظامیہ سے تعاون نہ کرنے کا حکم جاری کیا؟ جس پر شہبازشریف نے کہا آر پی او، سی پی او، کمشنر ڈی سی کو ضلعی انتظامیہ اسلام آباد سے تعاون کے احکامات جاری کیے۔

شہبازشریف سے پوچھا گیا کہ سیکرٹری وزیراعطم نے بتایا کہ طاقت کا استعمال دھرنے کے شروع میں ممکن تھا؟ دھرنا 18 دن بعد ہٹانا ممکن نہیں تھا، کیا یہ بیان اسلام آباد، راولپنڈی انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان نہیں ہے؟ انہوں نے موقف اختیار کیا کہ جو بیان سیکرٹری نے دیا وہ ان کی ذاتی رائے ہو سکتی ہے لیکن پنجاب حکومت پر ذمہ داریاں نہ ادا کرنے کا الزام درست نہیں۔

کمیشن نے سوال کیا کہ فیض آباد دھرنے سے کیا پنجاب حکومت نے طاقت سے نپٹنے کا فیصلہ کیا تھا؟ جس پر جواب میں کہا کہ حکومت دھرنے سے نپٹنے کیلئے پرامن طریقہ اختیار کرنا چاہتی تھی۔ سوال ہوا کہ کیا ٹی ایل پی رہنمائوں کے کیسز ختم ہو گئے ہیں؟ جس پر انہوں نے بتایا کہ دھرنا عمائدین اور وفاقی حکومت میں معاہدے کے تحت کیسز ختم کیے جا چکے ہیں۔
فیض آباد دھرنا کمیشن نے پوچھا کہ آپ نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کیلئے بطور وزیراعلیٰ پنجاب کیا کیا؟ جس پر شہبازشریف نے بتایا کہ 31 مئی 2018ء تک پنجاب حکومت رہی اور کیس کا فیصلہ 6 فروری 2019ء کو ہوا۔ یاد رہے کہ ٹی ایل پی کا دھرنا 2017ء میں مسلم لیگ ن کی حکومت کے دوران دیا گیا تھا جب شاہد خاقان عباسی وزیراعظم تھے اور نوازشریف معزول ہو چکے تھے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کی ہدایات پر فیض آباد دھرنے کی تحقیقات کرنے کے لیے کمیشن قائم کیا گیا تھا جس نے طویل انکوائری کر کے چند دن پہلے سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو کلین چٹ دی تھی۔ علاوہ ازیں پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ فیض آباد دھرنا کمیشن کی رپورٹ منظرعام پر لائی جائے۔