فیض حمید نے دھرنے کے دوران ملاقات میں استعفے کا کہا، زاہد حامد

faizlzh1m11mh31.jpg


سابق وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے فیض آباد دھرنا کمیشن کو بتایا کہ سابق ڈی جی سی فیض حمید نے دھرنے کے دوران ان سے ملاقات کی اور استعفے کا کہا جبکہ 26 نومبر 2017 کی شام آئی ایس آئی کے جونئیر افسران لاہور میں میرے گھر مجھ سے استعفا لینے آئے۔


فیض آباد دھرنا کے باعث اپنی وزارت سے ہاتھ دھونے والے سابق وفاقی وزیر زاہد حامد نے دھرنا کمشن کے ارکان کو تفصیلات بتائیں, سابق وفاقی وزیر زاہد حامد نے کہا کہ ان کی دھرنے کے دوران آئی ایس آئی سے دو ملاقاتیں ہوئیں ، پہلی ملاقات وزارت قانون میں دو افراد سے ہوئی جنکے رینک کا صحیح سے علم نہیں ،ملاقات کرنے والے شاید کرنل سطح کے افسران تھے ، وہ میرے منصوبوں کے بارے میں جاننا چاہتے تھے میں نے انہیں بتایا تھا کہ وزیراعظم اور پارٹی قیادت کی ہدایات پر عمل کروں گا ۔

زاہد حامد نے کہا کہ مجھ سے دوسری ملاقات ڈی جی سی فیض حمید نے کی ، فیض حمید نےتجویز دی کہ بحران کے خاتمے کیلیے کیا آپ مختصر وقت کے لیے استعفے پر غور کرسکتے ہیں ؟ وہ سمجھتے تھے کہ اگر میں کچھ عرصہ چھٹی پر بھی چلا جاؤں تو شاید اس سے بھی ٹی ایل پی والے مطمئن ہو جائیں گے ۔


زاہد حامد نے کہا کہ میں نے انہیں (فیض حمید کو ) کہا کہ میں پہلے ہی وزیراعظم کو یہ پیشکش کرچکا ہوں مگر وہ ماننے کیلئے تیار نہیں ،انہیں بتایا کہ وزیر اعظم نے مجھے بھی کہا کہ میں دباؤ کا شکار نہ ہوں ، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اجلاس میں کہا تھا حکومت توڑ دوں گا اپنے وزیر کو استعفی نہیں دینے دوں گا ۔

انہوں نے مزید کہا کہ بدقسمتی سے جب پولیس ایکشن ناکام ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ واحد متبادل فوج کی مداخلت ہوگی جو اچھی نہیں ہوگی .اس صورتحال میں قیادت کو ایک بار پھر استعفی قبول کرنے کا کہا تھا ، میرے اصرار پر وزیراعظم نے نہ چاہتے ہوئے اتفاق کیا جسکے بارے میں وزیراعلی پنجاب نے بتایا ۔

زاہد حامد نے کہا کہ26نومبر 2017 کی رات لاہور میں میری رہائشگاہ پرآئی ایس آئی کے جونئیر افسران آئے ، وہ مجھ سے درخواست کرنے آئے تھے کہ میرے استعفی کا اعلان کیا جائے تاکہ فیض آباد انٹرچینج صبح کلیر ہو,سابق وزیر نے کہا کہ وزیراعلی پنجاب سے فون پر مشاورت کے بعد میں نے استعفی جمع کرانے سے قبل اسکی خبر کے اجرا پر اتفاق کیا .


انہوں نے کہا کہ جب 26 نومبر کی رات پولیس آپریشن ناکام ہوا تو مجھے لگا کہ اب مداخلت ہو گی زاہد حامد نے یہ بھی انکشاف کیا کہ دھرنے کے دوران مسلم لیگ ن کے رہنماوں کے ہمراہ انکی ٹی ایل پی وفد سے ملاقات کرائی گئی تھی ۔

انہوں نے کہا کہ اس ملاقات میں میرے عقیدے اور آخری نبی صلی اللہ و علیہ وسلم کے حوالے سے مجھ پر بے بنیادالزامات سے مجھے دلی دکھ ہوا۔

انہوں نے کہا کہ ٹی ایل پی وفد نے مجھے سنا تو دوٹوک کہا کہ وہ اپنے الزامات سے دستبردار ہوتے ہیں ، وفد مطمئن نظر آیا اور اس نے اپنی قیادت سے مشاورت کا وقت مانگا ، تاہم انہوں نے محسوس کیا کہ تین ہفتوں سے احتجاج کرتے مظاہرین ان کے استعفے سے کم پر منتشر نہیں ہونگے۔

دوسری جانب سابق وزیرِ داخلہ احسن اقبال کا فیض آباد دھرنے سے متعلق نیا انکشاف سامنے آیا ہے, فیض آباد دھرنا کمیشن کو رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ تحریکِ لبیک کے ساتھ معاہدہ پہلے کیا گیا تھا جو اس وقت کے وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی کو بعد میں دکھایا گیا۔

احسن اقبال نے دھرنا کمیشن کو بیان دیا ہے کہ وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی نے معاہدہ دیکھا تو اعتراض کیا,وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی نے وزیر کے استعفے اور فیض حمید کے معاہدے میں نام پر اعتراض کیا,احسن اقبال نے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی کو بتایا گیا کہ معاہدہ تو ہو چکا، اس پر دستخط بھی ہو گئے، اب اس سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔

فیض آباد دھرنا کمیشن نے مظاہرین کے ساتھ تحریری معاہدہ کرنے والے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ انٹرنل سیکیورٹی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اور دھرنا ختم ہونے پر مظاہرین میں پیسے تقسیم کرتے ویڈیوز میں دکھائی دینے والے اس وقت کے ڈی جی رینجرز پنجاب میجر جنرل نوید اظہر حیات کو کلین چٹ دے دی ہے۔