اس میں شک نہیں کہ وقوعہ میں غنڈہ گردی کا عنصر شامل ہے۔ اور سب اچھا نہیں ہے، مگر اعتراض کرنے والے بھی کچھ ایسے اعتراض کرتے ہیں جو انتہائی مضحکہ خیز ہوتے ہیں۔
دروازہ کیوں پھلانگا؟، گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت کیوں نہ لی؟
او بھائی، ایک عورت جو اپنے خاوند کو رنگے ہاتھوں پکڑنا چاہتی ہے، کیا وہ اخبار میں اشتہار دے کر آئے، یا مسجد میں لاوڈ سپیکر پر اعلان کروائے کہ میں آ رہی ہوں، لہذا ہشیار ہو جاؤ؟گھر کس کا تھا، اس سے فرق نہیں پڑتا، لیکن کیوں کہ یہ گھر "جائے واردات "تھا، لہذا چھاپہ بھی یہیں پڑنا تھا۔
کس نے یہ حق دیا کہ کسی کے گھر میں گھس کر یوں کاروائی کریں۔
اس کا سادہ سا جواب ہے کہ خود ان اداکارواؤں نے دیا۔جب ایک عورت کسی دوسرے شادی شدہ مرد کے ساتھ خفیہ رنگ رلیاں منا رہی ہو، تو اسے ردعمل کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے۔ساری دنیا کا مسلمہ قانون ہے کہ اصل قصور وارناحق پہل کرنے والا ہوتا ہے، اور جواب دینے والے کو کوئی قصور وار نہیں ٹھہراتا(بشرطیکہ ردعمل،اشتعال انگیزی کے حساب سے ہو، اور ظلم نا کیا جائے)۔ مثال:۔عام حالات میں کسی بھی ملک کا جہاز گرانا ایک غیر قانونی قدم ہے، جس کی ساری دنیا مذمت کرتی ہے، مگر جب پاکستان نے نہ صرف انڈین جہاز کو گرایا، بلکہ پائیلیٹ کو بھی جا پکڑا تو کسی نے یہ نہیں کہا کہ پاکستان نے غلط کیا، کیوں کہ پہل انڈیا نے کی تھی، اور پاکستان نے جواب دیا تھا۔
قانون کو اپنے ہاتھ میں کیوں لیا؟
واقعی قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لینا چاہئے، مگر یہ اعتراض کرنے والے یہ نہیں بتاتے کہ مذکورہ صورتحال میں کون سی قانونی راہ بنتی تھی جو اختیار کرنی چاہئے تھی؟۔کیا یہ عورت پولیس میں جا کر یہ کہہ کر اپنی عزت کا جنازہ نکلواتی کہ میرا میاں پرائی عورتوں کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہا ہے؟ مشرف دور میں حدود آرڈیننس میں تبدیلی کے بعد اس قسم کے واقعات ویسے بھی قابل دست اندازی پولیس نہیں رہے(شاطر لبرل جانتے تھے کہ انہوں نے قوم کو کس طرف لیجانا ہے، لہذا رستے کی رکاوٹیں وقتا فوقتا دور کرتے رہتے ہیں)اور اگر پولیس کچھ کر بھی سکتی ہو، تو بھی پولیس کے پاس اس قسم کے معاملات لے کر جانااپنے خاندان کی عزت کو مٹی میں ملانے والی بات ہے، اور رشتہ بچنے کے چانسز بھی قریب قریب صفر ہو جائیں گے۔
طلاق کیوں نہیں لی؛۔
کہنے والے کے لئے کہنا آسان ہے، لیکن جس پر بیتتی ہے وہی جانتا ہے۔خصوصا اگر اولاد ہو، تو پھر یہ فیصلہ اور بھی مشکل ہو جاتا ہے، اور متاثرہ فریق ہر ممکن کوشش کرتا ہے کہ کسی طرح یہ انتہائی نوبت نہ آئے۔ویسے بھی اگر ہاتھ پر کوئی پھوڑا نکلے، تو اس پھوڑے کا علاج کیا جاتا ہے، نہ کہ ہاتھ ہی کاٹ دیا جائے(کم از کم پہلے مرحلے میں تو نہیں کاٹا جاتا)۔ہاں اگر پھوڑا ناسور بن جائے، تو پھر ہاتھ کاٹنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا(اور دستیاب معلومات کے مطابق بیوی نے طلاق لینے کا اعلان کر بھی دیا ہے جو کہ ایک طرف افسوس ناک ہے، دوسری طرف متوقع تھا کہ معاملات کے اس نہج پر پہنچنے کے بعد صلح صفائی کا امکان نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے۔ اگرچہ ہماری دعا ہے کہ اب بھی رشتہ بچنے کی کوئی صورت نکل آئے، لیکن اگر ایسا نہ ہوا، تو بھی ذیادہ امکان اس بات کا ہے کہ اس عورت کا شوہر اپنی ناجائز معشوقہ سے نکاح نہیں کرے گا۔ یہ کوئی پیشین گوئی نہیں ، بلکہ اندازہ ہے)۔
کیا جو ہوا وہ صحیح تھا؟
خالصتا قانون کی نظر سے دیکھا جائے تو کوئی بھی اسے ٹھیک نہیں کہہ سکتا۔ لیکن دوسری طرف اگر پاکستان کی کسی بھی شادی شدہ گھریلو عورت سے پوچھا جائے، تو وہ یقینا یہی کہے گی کہ وہ بھی اس صورت حال میں (بشرطیکہ قدرت) اسی قسم کا ردعمل دکھائے گی(میرا جسم میری مرضی والوں کی بات الگ ہے)۔عورت تو سوکن برداشت نہیں کرتی، جو کہ قانونی اور شرعی بیوی ہوتی ہے، یہاں تو معاملہ ہی ناجائز تعلقات کا تھا۔اور صرف پاکستانی بیوی پر ہی کیا موقوف، دنیا کے ہر خطے میں یہی صورت حال ہے۔ مغر ب جہاں عورت ایک جنسی کھلونے سے ذیادہ حیثیت نہیں رکھتی، وہاں بھی عمومی صورت حال یہی ہے کہ ایک شخص (اپنی استطاعت کے مطابق)جب مرضی جتنی مرضی گرل فرینڈز بدل سکتا ہے، لیکن ایک گرل فرینڈ کے ہوتے ہوئے، دوسری جگہ منہ مارنا مغرب جیسے سڑانڈ زدہ (سیکس فری)معاشرے میں بھی دھوکہ دھی کے زمرے میں آتا ہے، اور ایسا کرنے والے کو(خواہ مرد ہو یا عورت) نتائج بھگتنا پڑتے ہیں، جس کی خبریں آئے دن اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ مغرب میں عورت کو مشرق کے مقابلے میں کہیں ذیادہ تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو غلط نہ ہو گا، بس فرق صرف یہ ہے کہ یہاں مارنے والا مرد شوہر ہوتا ہے، اور مغربی معاشرے میں مارنے والابوائے فرینڈ۔
باٹم لائن اس تمام بحث کی یہی ہے کہ اس کیس کا فیصلہ تو عدالت ہی کرے گی، مگر بیوی کو جو بھی سزا ہو،میاں اور اس کی مبینہ معشوقہ کو اس سے دس گنا ذیادہ سزا ہونی چاہئے، کیونکہ ان کا گناہ اور قصور بھی بہت ذیادہ ہے۔اور جہاں لوگ اس غنڈہ گردی کی مذمت کریں، وہیں میاں و ناجائز معشوقہ کے اس عمل کو بھی تنقید کا نشانہ بنائیں، تا کہ اس جہاں اس غنڈہ گردی کلچر کا خاتمہ ہو، وہیں اس نا ہنجار گرل فرینڈ کلچرکا سدباب بھی ہو سکے۔
اور آخری بات یہ کہ اگر اس معاملے میں ملک ریاض کا نام نہ ہوتا، تو شاید اس پر اتنا شور نہ مچتا۔ اور لوگ اسے ایک زخمی شیرنی بنی بیوی کا اپنے خاوند کے ناجائز تعلقات پر حملہ سمجھ کر پس پشت ڈال دیتے۔اور کچھ لوگ اسے اس لئے اچھال رہے ہیں کہ انہیں اس میں سے فوج کو بدنام کرنے کا بہانہ مل رہا ہے، جبکہ لبرل حضرات اسے زنا کو جائز قرار دلوانے کی طرف پیش قدمی کا موقع سمجھ رہے ہیں۔
دروازہ کیوں پھلانگا؟، گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت کیوں نہ لی؟
او بھائی، ایک عورت جو اپنے خاوند کو رنگے ہاتھوں پکڑنا چاہتی ہے، کیا وہ اخبار میں اشتہار دے کر آئے، یا مسجد میں لاوڈ سپیکر پر اعلان کروائے کہ میں آ رہی ہوں، لہذا ہشیار ہو جاؤ؟گھر کس کا تھا، اس سے فرق نہیں پڑتا، لیکن کیوں کہ یہ گھر "جائے واردات "تھا، لہذا چھاپہ بھی یہیں پڑنا تھا۔
کس نے یہ حق دیا کہ کسی کے گھر میں گھس کر یوں کاروائی کریں۔
اس کا سادہ سا جواب ہے کہ خود ان اداکارواؤں نے دیا۔جب ایک عورت کسی دوسرے شادی شدہ مرد کے ساتھ خفیہ رنگ رلیاں منا رہی ہو، تو اسے ردعمل کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے۔ساری دنیا کا مسلمہ قانون ہے کہ اصل قصور وارناحق پہل کرنے والا ہوتا ہے، اور جواب دینے والے کو کوئی قصور وار نہیں ٹھہراتا(بشرطیکہ ردعمل،اشتعال انگیزی کے حساب سے ہو، اور ظلم نا کیا جائے)۔ مثال:۔عام حالات میں کسی بھی ملک کا جہاز گرانا ایک غیر قانونی قدم ہے، جس کی ساری دنیا مذمت کرتی ہے، مگر جب پاکستان نے نہ صرف انڈین جہاز کو گرایا، بلکہ پائیلیٹ کو بھی جا پکڑا تو کسی نے یہ نہیں کہا کہ پاکستان نے غلط کیا، کیوں کہ پہل انڈیا نے کی تھی، اور پاکستان نے جواب دیا تھا۔
قانون کو اپنے ہاتھ میں کیوں لیا؟
واقعی قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لینا چاہئے، مگر یہ اعتراض کرنے والے یہ نہیں بتاتے کہ مذکورہ صورتحال میں کون سی قانونی راہ بنتی تھی جو اختیار کرنی چاہئے تھی؟۔کیا یہ عورت پولیس میں جا کر یہ کہہ کر اپنی عزت کا جنازہ نکلواتی کہ میرا میاں پرائی عورتوں کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہا ہے؟ مشرف دور میں حدود آرڈیننس میں تبدیلی کے بعد اس قسم کے واقعات ویسے بھی قابل دست اندازی پولیس نہیں رہے(شاطر لبرل جانتے تھے کہ انہوں نے قوم کو کس طرف لیجانا ہے، لہذا رستے کی رکاوٹیں وقتا فوقتا دور کرتے رہتے ہیں)اور اگر پولیس کچھ کر بھی سکتی ہو، تو بھی پولیس کے پاس اس قسم کے معاملات لے کر جانااپنے خاندان کی عزت کو مٹی میں ملانے والی بات ہے، اور رشتہ بچنے کے چانسز بھی قریب قریب صفر ہو جائیں گے۔
طلاق کیوں نہیں لی؛۔
کہنے والے کے لئے کہنا آسان ہے، لیکن جس پر بیتتی ہے وہی جانتا ہے۔خصوصا اگر اولاد ہو، تو پھر یہ فیصلہ اور بھی مشکل ہو جاتا ہے، اور متاثرہ فریق ہر ممکن کوشش کرتا ہے کہ کسی طرح یہ انتہائی نوبت نہ آئے۔ویسے بھی اگر ہاتھ پر کوئی پھوڑا نکلے، تو اس پھوڑے کا علاج کیا جاتا ہے، نہ کہ ہاتھ ہی کاٹ دیا جائے(کم از کم پہلے مرحلے میں تو نہیں کاٹا جاتا)۔ہاں اگر پھوڑا ناسور بن جائے، تو پھر ہاتھ کاٹنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا(اور دستیاب معلومات کے مطابق بیوی نے طلاق لینے کا اعلان کر بھی دیا ہے جو کہ ایک طرف افسوس ناک ہے، دوسری طرف متوقع تھا کہ معاملات کے اس نہج پر پہنچنے کے بعد صلح صفائی کا امکان نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے۔ اگرچہ ہماری دعا ہے کہ اب بھی رشتہ بچنے کی کوئی صورت نکل آئے، لیکن اگر ایسا نہ ہوا، تو بھی ذیادہ امکان اس بات کا ہے کہ اس عورت کا شوہر اپنی ناجائز معشوقہ سے نکاح نہیں کرے گا۔ یہ کوئی پیشین گوئی نہیں ، بلکہ اندازہ ہے)۔
کیا جو ہوا وہ صحیح تھا؟
خالصتا قانون کی نظر سے دیکھا جائے تو کوئی بھی اسے ٹھیک نہیں کہہ سکتا۔ لیکن دوسری طرف اگر پاکستان کی کسی بھی شادی شدہ گھریلو عورت سے پوچھا جائے، تو وہ یقینا یہی کہے گی کہ وہ بھی اس صورت حال میں (بشرطیکہ قدرت) اسی قسم کا ردعمل دکھائے گی(میرا جسم میری مرضی والوں کی بات الگ ہے)۔عورت تو سوکن برداشت نہیں کرتی، جو کہ قانونی اور شرعی بیوی ہوتی ہے، یہاں تو معاملہ ہی ناجائز تعلقات کا تھا۔اور صرف پاکستانی بیوی پر ہی کیا موقوف، دنیا کے ہر خطے میں یہی صورت حال ہے۔ مغر ب جہاں عورت ایک جنسی کھلونے سے ذیادہ حیثیت نہیں رکھتی، وہاں بھی عمومی صورت حال یہی ہے کہ ایک شخص (اپنی استطاعت کے مطابق)جب مرضی جتنی مرضی گرل فرینڈز بدل سکتا ہے، لیکن ایک گرل فرینڈ کے ہوتے ہوئے، دوسری جگہ منہ مارنا مغرب جیسے سڑانڈ زدہ (سیکس فری)معاشرے میں بھی دھوکہ دھی کے زمرے میں آتا ہے، اور ایسا کرنے والے کو(خواہ مرد ہو یا عورت) نتائج بھگتنا پڑتے ہیں، جس کی خبریں آئے دن اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ مغرب میں عورت کو مشرق کے مقابلے میں کہیں ذیادہ تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو غلط نہ ہو گا، بس فرق صرف یہ ہے کہ یہاں مارنے والا مرد شوہر ہوتا ہے، اور مغربی معاشرے میں مارنے والابوائے فرینڈ۔
باٹم لائن اس تمام بحث کی یہی ہے کہ اس کیس کا فیصلہ تو عدالت ہی کرے گی، مگر بیوی کو جو بھی سزا ہو،میاں اور اس کی مبینہ معشوقہ کو اس سے دس گنا ذیادہ سزا ہونی چاہئے، کیونکہ ان کا گناہ اور قصور بھی بہت ذیادہ ہے۔اور جہاں لوگ اس غنڈہ گردی کی مذمت کریں، وہیں میاں و ناجائز معشوقہ کے اس عمل کو بھی تنقید کا نشانہ بنائیں، تا کہ اس جہاں اس غنڈہ گردی کلچر کا خاتمہ ہو، وہیں اس نا ہنجار گرل فرینڈ کلچرکا سدباب بھی ہو سکے۔
اور آخری بات یہ کہ اگر اس معاملے میں ملک ریاض کا نام نہ ہوتا، تو شاید اس پر اتنا شور نہ مچتا۔ اور لوگ اسے ایک زخمی شیرنی بنی بیوی کا اپنے خاوند کے ناجائز تعلقات پر حملہ سمجھ کر پس پشت ڈال دیتے۔اور کچھ لوگ اسے اس لئے اچھال رہے ہیں کہ انہیں اس میں سے فوج کو بدنام کرنے کا بہانہ مل رہا ہے، جبکہ لبرل حضرات اسے زنا کو جائز قرار دلوانے کی طرف پیش قدمی کا موقع سمجھ رہے ہیں۔