مجھے گولی مار دیں گھر واپس نہیں جاؤں گی‘

Asad Varda

Citizen
123-77-660x330.jpg

دبئی کے حکمران کی بیٹی شیخہ لطیفہ کو، جو کہ مبینہ طور پر دبئی سے فرار ہونے کے بعد پکڑی گئی تھی، گذشتہ 18 ماہ سے دوبارہ نہیں دیکھا گیا۔

اب ایک ’فری لطیفہ‘ مہم میں اقوامِ متحدہ سے کہا جا رہا ہے وہ متحدہ عرب امارات پر دباؤ ڈالے کہ وہ شیخہ لطیفہ کو پیش کرے۔

دعویٰ کیا جاتا ہے کہ جب انھیں پکڑا گیا تو وہ ایک سابق فرانسیسی جاسوس ایروے جوبیر اور فن لینڈ سے تعلق رکھنے والی اپنی دوست اور مارشل آرٹس کی استاد ٹینا جوہینن کی مدد سے ملک سے بھاگنے کی کوشش کر رہی تھیں۔

ٹینا جوہینن نے بی بی سی کو بتایا کہ جب شیخہ لطیفہ کو پکڑا گیا تو ان کے آخری الفاظ تھے کہ انھیں گولی مار دیں کیونکہ واپس جانے پر موت کو ترجیح دیں گی۔

اس واقعے نے بین الاقوامی ہیومن رائٹس تنظیموں میں کافی تشویش پیدا کر دی تھی اور انھوں نے اماراتی حکومت سے کہا تھا کہ وہ شہزادی کے محفوظ ہونے کو ثابت کریں۔

انسانی حقوق کے وکیل ڈیوڈ ہے اس وقت اقوامِ متحدہ سے آئے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ شہزادی کی بہبود اور رہائی کے لیے دبئی پر دباؤ ڈالا جائے۔

دسمبر میں ہی متحدہ عرب امارات کی وزارتِ خارجہ نے اس حوالے سے اقوام متحدہ کو ایک بیان بھیجا تھا جس میں انھوں نے شہزادی کے بارے میں ’جھوٹے الزامات کی تردید‘ کی۔


متحدہ عرب امارات کی درخواست پر انٹرپول کی جانب سے مارچ میں جاری کیے گئے ایک ریڈ وارنٹ سے ان کی کہانی کی کچھ حد تک تصدیق ہو جاتی ہے۔ لیکن اس وارنٹ میں الزام ہے کہ شیخہ بھاگی نہیں بلکہ انھیں اغوا کیا گیا تھا۔

جاسوس کا کہنا ہے کہ انھوں نے غور کیا کہ کئی کشتیاں کئی دنوں تک ان کا پیچھا کرتی رہیں۔ اور آخر کار چار مارچ کو جب وہ انڈیا کے شہر گوا کے قریب تھے تو ایروے کشتی میں وہ اوپر اور شیخہ اپنی دوست کے ساتھ نیچے کیبن میں تھیں جب ان کی دوست کے مطابق انھیں اوپر سے گولیوں کی آوازیں آئیں۔

ایروے کے مطابق جب انھوں نے ایک کشتی کو اپنی جانب آتے دیکھا تو انھیں لگا کہ کچھ ہونے والا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس میں کمانڈو تھے جنھوں نے ان کی جانب بندوقیں تان رکھی تھیں۔

ان کی دوست بتاتی ہیں کہ 'ہم نے خود کو باتھ روم میں بند کر لیا۔ ہم نے ایک دوسرے کو گلے لگا لیا اور لطیفہ کو اندازہ ہوگیا تھا کہ کوئی انھیں لینے آ پہنچا ہے۔ ہم باتھ روم سے باہر آئیں تو کمرہ دھوئیں سے بھرا ہوا تھا۔ مجھے زمین پر دھکا دے کر میرے ہاتھ باندھ دیے گئے۔ '

جاسوس بتاتے ہیں کہ انھوں نے لطیفہ کو چیختے چلاتے سنا۔ 'وہ کہہ رہی تھی کہ میں نہیں جانا چاہتی، مجھے کشتی پر چھوڑ دو، میں واپس جانے پر مرنے کو ترجیح دوں گی۔'
'پانچ منٹ بعد میں نے ہیلی کاپٹر کی آواز سنی اور وہ اسے لے گئے۔‘

Source: https://www.bbc.com/urdu/world-49895710
 
Last edited by a moderator:

disgusted

Chief Minister (5k+ posts)
The daughter of Sheikh of Dubai does not want to go home. His wife has escaped to UK and is also not willing to return. There must be some problem. Only Benazir was happy in Dubai and now Ayyan Ali is happy in Dubai. Is there any similarity/dissimilarities in these events
 
دبئی کے حکمران کی بیٹی شیخہ لطیفہ کو، جو کہ مبینہ طور پر دبئی سے فرار ہونے کے بعد پکڑی گئی تھی، گذشتہ 18 ماہ سے دوبارہ نہیں دیکھا گیا۔
اب ایک ’فری لطیفہ‘ مہم میں اقوامِ متحدہ سے کہا جا رہا ہے وہ متحدہ عرب امارات پر دباؤ ڈالے کہ وہ شیخہ لطیفہ کو پیش کرے۔
دعویٰ کیا جاتا ہے کہ جب انھیں پکڑا گیا تو وہ ایک سابق فرانسیسی جاسوس ایروے جوبیر اور فن لینڈ سے تعلق رکھنے والی اپنی دوست اور مارشل آرٹس کی استاد ٹینا جوہینن کی مدد سے ملک سے بھاگنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
ٹینا جوہینن نے بی بی سی کو بتایا کہ جب شیخہ لطیفہ کو پکڑا گیا تو ان کے آخری الفاظ تھے کہ انھیں گولی مار دیں کیونکہ واپس جانے پر موت کو ترجیح دیں گی۔
اس واقعے نے بین الاقوامی ہیومن رائٹس تنظیموں میں کافی تشویش پیدا کر دی تھی اور انھوں نے اماراتی حکومت سے کہا تھا کہ وہ شہزادی کے محفوظ ہونے کو ثابت کریں۔
انسانی حقوق کے وکیل ڈیوڈ ہے اس وقت اقوامِ متحدہ سے آئے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ شہزادی کی بہبود اور رہائی کے لیے دبئی پر دباؤ ڈالا جائے۔
دسمبر میں ہی متحدہ عرب امارات کی وزارتِ خارجہ نے اس حوالے سے اقوام متحدہ کو ایک بیان بھیجا تھا جس میں انھوں نے شہزادی کے بارے میں ’جھوٹے الزامات کی تردید‘ کی۔
اس بیان کے ساتھ جو تصاویر شائع کی گئی تھیں ان میں شہزادی کو آئرلینڈ کی سابق صدر اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی سابق کمشنر میری رابنسن کے ہمراہ دیکھا جا سکتا ہے۔ حکام کے مطابق یہ تصاویر 15 دسمبر کو لی گئی تھیں۔
اماراتی بیان میں کہا گیا تھا کہ یہ تصاویر اس دوپہر کو لی گئیں جو دونوں نے اکھٹے گزاری اور ان کی مرضی سے لی گئی تھیں۔
حکام کے مطابق ان کے دبئی کے دورے پر میری رابنسن کو یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ شیخہ لطیفہ ٹھیک ٹھاک ہیں اور انھیں تمام امدادی سہولیات فراہم ہیں۔

گذشتہ برس شیخہ لطیفہ نے فرانس کی انٹیلیجنس کے ایک سابق افسر ایروے جوبیر سے رابطہ کیا تھا۔ اس شخص کا دعویٰ ہے کہ کئی برس پہلے وہ خود ایک برقعے میں دبئی سے بھاگنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ انھیں ایسا اس لیے کرنا پڑا تھا کیوںکہ ان کے مطابق 'ایک کاروباری معاہدے میں کچھ تلخیاں پیدا ہوگئی تھیں اور ان پر خرد برد کے الزامات لگائے گئے تھے۔'

وہ بتاتے ہیں کہ شیخہ لطیفہ بھی اسی طرح سے بھاگنے کا ارادہ رکھتی تھیں جیسے وہ بھاگے تھے۔ 'ایک ٹورپیڈو (آبدوز کشتی) اور سانس لینے والے آلے کی مدد سے اور میں نے انھیں کہا کہ مجھے آپ کو اس کی تربیت دینی ہوگی۔'ان کے مطابق شیخہ نے 20 سے 30 ہزار ڈالر میں یہ سانس لینے والے آلات خرید بھی لیے تھے۔

لیکن پھر شیخہ نے ٹورپیڈو کا منصوبہ ترک کر دیا اور وہ اپنی دوست ٹینا کے ساتھ گاڑی کے ذریعے ہمسایہ ملک عمان میں داخل ہوئیں۔ وہاں سے ان کے مطابق انھیں ایک ڈنگی کے ذریعے بین الاقوامی حدود میں کھڑی ایک کشتی تک پہنچایا گیا۔ اس کشتی پر سابق فرانسیسی جاسوس موجود تھے۔ اور وہاں سے وہ انڈیا کی جانب روانہ ہوگئے۔

متحدہ عرب امارات کی درخواست پر انٹرپول کی جانب سے مارچ میں جاری کیے گئے ایک ریڈ وارنٹ سے ان کی کہانی کی کچھ حد تک تصدیق ہو جاتی ہے۔ لیکن اس وارنٹ میں الزام ہے کہ شیخہ بھاگی نہیں بلکہ انھیں اغوا کیا گیا تھا۔
جاسوس کا کہنا ہے کہ انھوں نے غور کیا کہ کئی کشتیاں کئی دنوں تک ان کا پیچھا کرتی رہیں۔ اور آخر کار چار مارچ کو جب وہ انڈیا کے شہر گوا کے قریب تھے تو ایروے کشتی میں وہ اوپر اور شیخہ اپنی دوست کے ساتھ نیچے کیبن میں تھیں جب ان کی دوست کے مطابق انھیں اوپر سے گولیوں کی آوازیں آئیں۔

ایروے کے مطابق جب انھوں نے ایک کشتی کو اپنی جانب آتے دیکھا تو انھیں لگا کہ کچھ ہونے والا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس میں کمانڈو تھے جنھوں نے ان کی جانب بندوقیں تان رکھی تھیں۔
ان کی دوست بتاتی ہیں کہ 'ہم نے خود کو باتھ روم میں بند کر لیا۔ ہم نے ایک دوسرے کو گلے لگا لیا اور لطیفہ کو اندازہ ہوگیا تھا کہ کوئی انھیں لینے آ پہنچا ہے۔ ہم باتھ روم سے باہر آئیں تو کمرہ دھوئیں سے بھرا ہوا تھا۔ مجھے زمین پر دھکا دے کر میرے ہاتھ باندھ دیے گئے۔ '

جاسوس بتاتے ہیں کہ انھوں نے لطیفہ کو چیختے چلاتے سنا۔ 'وہ کہہ رہی تھی کہ میں نہیں جانا چاہتی، مجھے کشتی پر چھوڑ دو، میں واپس جانے پر مرنے کو ترجیح دوں گی۔'
'پانچ منٹ بعد میں نے ہیلی کاپٹر کی آواز سنی اور وہ اسے لے گئے۔‘

Source: https://www.bbc.com/urdu/world-49895710

اروے جوبیر جو خود ایک خبیث فراڈیا تھا 2009 میں دبئی سے بھاگ چکا تھا ۔ اُس کے بعد سے دبئی کی حکومت مسلسل اُس کے تعاقب میں لگی رہی اور اُس پر بہت سے کیس بھی بنائے ۔ یہ کاروائی اُس وقت شدت اختیار کر گئی جب دبئی کے حکمران کو یہ پتہ چلا کہ اورے ایک tell-all کتاب شائع کرنے والا ہے جس میں اُس نے دبئی کے حکمرانوں کا تمسخر اُڑایا ہے اور کچھ اندرونی راز بھی افشا کئے ہیں۔

پرنسس لطیفہ کے فرار میں اروے کا کوئی متحرک کردار نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ پہلے ہی watch-list پر موجود ہے اور کسی بھی صورت دبئی حکومت کے ہاتھ آنا afford نہیں کر سکتا اِس لئے بادی النظر میں اروے کا اومان میں موجود ہونا تقریباً ناممکن ہے۔

آپ سوچیں گے کہ میں یہ سب کیسے جانتا ہوں تو جناب

ہم بھی وہیں موجود تھے
ہم سے بھی سب پوچھا کئے
ہم ہنس دیئے ہم، چپ رہے
منظور تھا پردہ تیرا
 
Last edited:

bigfoot

Minister (2k+ posts)
دبئی کے حکمران کی بیٹی شیخہ لطیفہ کو، جو کہ مبینہ طور پر دبئی سے فرار ہونے کے بعد پکڑی گئی تھی، گذشتہ 18 ماہ سے دوبارہ نہیں دیکھا گیا۔
اب ایک ’فری لطیفہ‘ مہم میں اقوامِ متحدہ سے کہا جا رہا ہے وہ متحدہ عرب امارات پر دباؤ ڈالے کہ وہ شیخہ لطیفہ کو پیش کرے۔
دعویٰ کیا جاتا ہے کہ جب انھیں پکڑا گیا تو وہ ایک سابق فرانسیسی جاسوس ایروے جوبیر اور فن لینڈ سے تعلق رکھنے والی اپنی دوست اور مارشل آرٹس کی استاد ٹینا جوہینن کی مدد سے ملک سے بھاگنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
ٹینا جوہینن نے بی بی سی کو بتایا کہ جب شیخہ لطیفہ کو پکڑا گیا تو ان کے آخری الفاظ تھے کہ انھیں گولی مار دیں کیونکہ واپس جانے پر موت کو ترجیح دیں گی۔
اس واقعے نے بین الاقوامی ہیومن رائٹس تنظیموں میں کافی تشویش پیدا کر دی تھی اور انھوں نے اماراتی حکومت سے کہا تھا کہ وہ شہزادی کے محفوظ ہونے کو ثابت کریں۔
انسانی حقوق کے وکیل ڈیوڈ ہے اس وقت اقوامِ متحدہ سے آئے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ شہزادی کی بہبود اور رہائی کے لیے دبئی پر دباؤ ڈالا جائے۔
دسمبر میں ہی متحدہ عرب امارات کی وزارتِ خارجہ نے اس حوالے سے اقوام متحدہ کو ایک بیان بھیجا تھا جس میں انھوں نے شہزادی کے بارے میں ’جھوٹے الزامات کی تردید‘ کی۔
اس بیان کے ساتھ جو تصاویر شائع کی گئی تھیں ان میں شہزادی کو آئرلینڈ کی سابق صدر اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی سابق کمشنر میری رابنسن کے ہمراہ دیکھا جا سکتا ہے۔ حکام کے مطابق یہ تصاویر 15 دسمبر کو لی گئی تھیں۔
اماراتی بیان میں کہا گیا تھا کہ یہ تصاویر اس دوپہر کو لی گئیں جو دونوں نے اکھٹے گزاری اور ان کی مرضی سے لی گئی تھیں۔
حکام کے مطابق ان کے دبئی کے دورے پر میری رابنسن کو یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ شیخہ لطیفہ ٹھیک ٹھاک ہیں اور انھیں تمام امدادی سہولیات فراہم ہیں۔

گذشتہ برس شیخہ لطیفہ نے فرانس کی انٹیلیجنس کے ایک سابق افسر ایروے جوبیر سے رابطہ کیا تھا۔ اس شخص کا دعویٰ ہے کہ کئی برس پہلے وہ خود ایک برقعے میں دبئی سے بھاگنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ انھیں ایسا اس لیے کرنا پڑا تھا کیوںکہ ان کے مطابق 'ایک کاروباری معاہدے میں کچھ تلخیاں پیدا ہوگئی تھیں اور ان پر خرد برد کے الزامات لگائے گئے تھے۔'

وہ بتاتے ہیں کہ شیخہ لطیفہ بھی اسی طرح سے بھاگنے کا ارادہ رکھتی تھیں جیسے وہ بھاگے تھے۔ 'ایک ٹورپیڈو (آبدوز کشتی) اور سانس لینے والے آلے کی مدد سے اور میں نے انھیں کہا کہ مجھے آپ کو اس کی تربیت دینی ہوگی۔'ان کے مطابق شیخہ نے 20 سے 30 ہزار ڈالر میں یہ سانس لینے والے آلات خرید بھی لیے تھے۔

لیکن پھر شیخہ نے ٹورپیڈو کا منصوبہ ترک کر دیا اور وہ اپنی دوست ٹینا کے ساتھ گاڑی کے ذریعے ہمسایہ ملک عمان میں داخل ہوئیں۔ وہاں سے ان کے مطابق انھیں ایک ڈنگی کے ذریعے بین الاقوامی حدود میں کھڑی ایک کشتی تک پہنچایا گیا۔ اس کشتی پر سابق فرانسیسی جاسوس موجود تھے۔ اور وہاں سے وہ انڈیا کی جانب روانہ ہوگئے۔

متحدہ عرب امارات کی درخواست پر انٹرپول کی جانب سے مارچ میں جاری کیے گئے ایک ریڈ وارنٹ سے ان کی کہانی کی کچھ حد تک تصدیق ہو جاتی ہے۔ لیکن اس وارنٹ میں الزام ہے کہ شیخہ بھاگی نہیں بلکہ انھیں اغوا کیا گیا تھا۔
جاسوس کا کہنا ہے کہ انھوں نے غور کیا کہ کئی کشتیاں کئی دنوں تک ان کا پیچھا کرتی رہیں۔ اور آخر کار چار مارچ کو جب وہ انڈیا کے شہر گوا کے قریب تھے تو ایروے کشتی میں وہ اوپر اور شیخہ اپنی دوست کے ساتھ نیچے کیبن میں تھیں جب ان کی دوست کے مطابق انھیں اوپر سے گولیوں کی آوازیں آئیں۔

ایروے کے مطابق جب انھوں نے ایک کشتی کو اپنی جانب آتے دیکھا تو انھیں لگا کہ کچھ ہونے والا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس میں کمانڈو تھے جنھوں نے ان کی جانب بندوقیں تان رکھی تھیں۔
ان کی دوست بتاتی ہیں کہ 'ہم نے خود کو باتھ روم میں بند کر لیا۔ ہم نے ایک دوسرے کو گلے لگا لیا اور لطیفہ کو اندازہ ہوگیا تھا کہ کوئی انھیں لینے آ پہنچا ہے۔ ہم باتھ روم سے باہر آئیں تو کمرہ دھوئیں سے بھرا ہوا تھا۔ مجھے زمین پر دھکا دے کر میرے ہاتھ باندھ دیے گئے۔ '

جاسوس بتاتے ہیں کہ انھوں نے لطیفہ کو چیختے چلاتے سنا۔ 'وہ کہہ رہی تھی کہ میں نہیں جانا چاہتی، مجھے کشتی پر چھوڑ دو، میں واپس جانے پر مرنے کو ترجیح دوں گی۔'
'پانچ منٹ بعد میں نے ہیلی کاپٹر کی آواز سنی اور وہ اسے لے گئے۔‘

Source: https://www.bbc.com/urdu/world-49895710
why this problem on this forum?
 

Asad Varda

Citizen
The daughter of Sheikh of Dubai does not want to go home. His wife has escaped to UK and is also not willing to return. There must be some problem. Only Benazir was happy in Dubai and now Ayyan Ali is happy in Dubai. Is there any similarity/dissimilarities in these events
Nice analogy "disgusted"... I can read between the lines :P, well you are right there is definitely something fishy in both cases