پچھلے دنوں وزیراعظم عمران خان نے سینہ چوڑا کرتے ہوئے فرمایا کہ جتنا میں مغربی ممالک کو جانتا ہوں، اتنا کوئی نہیں جانتا ، میں ناموسِ رسالت اور اسلام کے بارے میں مغرب والوں کو سمجھاؤں گا اور عالمی سطح پر بلاسفیمی رکوانے کے قوانین بنواؤں گا۔۔۔ میرا خان صاحب سے سوال ہے کہ آپ مغرب والوں کو کیسے سمجھائیں گے۔۔۔؟
مغربی معاشرے کے لوگوں اور ہمارے معاشرے کے لوگوں میں مذہب کے معاملے میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ مغربی لوگ انسانی جان کو کسی بھی خیالی عقیدے، کسی بھی مذہبی کتاب اور کسی بھی مذہبی شخصیت سے زیادہ مقدم جانتے ہیں۔ ان کیلئے کوئی بھی کاغذ کی کتاب یا کوئی بھی نام نہاد مقدس شخصیت کسی جیتے جاگتے انسان سے زیادہ قیمتی نہیں ہوسکتی۔ اس لئے انہوں نے اپنے معاشروں میں خیالی دنیا (مذہبی دنیا) اور مادی دنیا کے درمیان ایک واضح لائن کھینچ رکھی ہے۔ کوئی شخص اپنی خیالی دنیا میں کسی کو بھی مقدس مانتا رہے، کسی کی بھی پوجا کرتا رہے، اس سے کسی دوسرے کو کوئی سروکار نہیں۔ ہاں اس کو یہ حق قطعاً حاصل نہیں کہ وہ اپنی خیالی دنیا کے کسی بھی کردار کے تقدس کو بنیاد بنا کر کسی انسان کا قتل کردے۔۔
ہمارے معاشروں میں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ ہمارے ہاں کاغذ کی کتاب اور خیالی مقدس شخصیات جیتے جاگتے انسانوں سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں اور ان کے نام کے تقدس کی خاطر زندہ انسان کو قتل کردینا بالکل جائز ہے۔ اس وقت تقریباً تیرہ اسلامی ممالک میں توہینِ پیغمبر اسلام کی سزا موت ہے۔ یعنی ریاست اپنی سرپرستی میں خیالی عقائد کی توہین پر زندہ انسان کو قتل کرتی ہے۔ اور باقی اسلامی ممالک میں بھی صورت حال کوئی خاص مختلف نہیں۔ یعنی جہاں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں، وہاں انہوں نے اپنی خیالی دنیا اور اس سے جڑی شخصیات کو زندہ انسانوں پر فوقیت دے رکھی ہے۔ اب یہ بہت بڑا فرق ہے جو مشرقی (مسلمان) معاشرے اور مغربی معاشرے میں ہے۔
خان صاحب نے یہ دعویٰ کردیا ہے کہ وہ مغربی معاشروں کو مشرقی معاشروں کی مذہب سے متعلق پائے جانے والے جنونی جذبے سے آگاہ کریں گے۔۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ آخر ہمارے وزیراعظم صاحب کس طرح مغرب کے لوگوں کو یہ سمجھائیں گے کہ کاغذ کی کتابیں اور خیالی دنیا کے کردار جیتے جاگتے انسانوں سے زیادہ معنے رکھتے ہیں اور اگر کوئی شخص ان کی خیالی شخصیات کا احترام نہیں کرتا تو اس کا قتل کردینا بالکل جائز ہے۔۔ آخر کسی بھی معقول اور ذی شعور انسان جس کا ذہن کسی جنونی نظریے کا ٹیکا لگا کر مفلوج نہ کردیا گیا ہو، کو کیسے اس بات پر قائل کیا جاسکتا ہے؟ یہ بات میری سمجھ سے بالا تر ہے۔ آخر خان صاحب کے پاس کوئی تو گیدڑ سنگھی ہوگی جس کی بنیاد پر انہوں نے یہ دعویٰ کیا ہے۔ میری نظر میں ایسا کوئی واقعہ نہیں گزرا جس میں خان صاحب نے بلاسفیمی کے نام پر قتل ہونے والے کسی شخص کے قتل کی مذمت کی ہو۔ پاکستان میں مشعال خان سے لے کر سلمان تاثیر تک کتنے ہی قتل ہوئے۔پروفیسر جنید حفیظ کی طرح کتنے ہی لوگ جیلوں میں معمولی باتوں کی وجہ سڑرہے ہیں۔ پاکستان کے شہر منڈی بہاؤالدین سے ایک شخص اٹھ کر جاتا ہے پیرس اور وہاں چارلی ہیبڈو کے پرانے آفس کے باہر کئی لوگوں کو خنجر مار کر زخمی کردیتا ہے، مگر خان صاحب نے اس پر ایک لفظ تک نہیں کہا۔ اس لئے خان صاحب اپنا یہ بیگیج لے کر جب مغربی معاشروں میں جائیں گے تو ان کو کیا دلیل دیں گے کہ آخر کس بنیاد پر کاغذ کی کتابوں اور خیالی دنیا کے کرداروں کی خاطر وہ زندہ انسانوں کو قتل کرنا قبول کرلیں۔
یورپ کے لوگ اپنے معاشروں کی تاریخ سے اچھی طرح آگاہ ہیں، ان کو علم ہے کہ چار پانچ سو سال پہلے تک ان کے معاشروں میں بھی اتنی ہی جنونیت تھی جتنی کہ آج کے مسلم معاشروں میں، وہ بھی مذہب سے معمولی اختلاف پر لوگوں پر توہین کے الزامات لگا کر ان کو قتل کردیا کرتے تھے۔ مگر یہ یورپ کا تاریک ماضی ہے، آج وہ اس جہالت سے بہت آگے نکل آئے ہیں۔ تو خان صاحب کس طرح ان لوگوں کو آمادہ کریں گے کہ وہ اپنی پرانی جہالت میں واپس لوٹ جائیں ۔۔ ویسے خان صاحب کو میرا مشورہ ہے کہ ایسا کوئی بھی اقدام کرنے سے پہلے اپنی حفاظت کا کوئی پیشگی بندوبست ضرور کرلیں، کیونکہ اگر کسی بھی ذی شعور آدمی کے سامنے خان صاحب یہ تجویز رکھتے ہیں کہ تم بھی ہم مسلمانوں کی طرح جنونی ہوجاؤ اور ہماری طرح مذہب پر لڑنا مرنا شروع کردو،تو وہ خان صاحب کو پاگل سمجھے گااور عین ممکن ہے کہ جس طرح میرا کو امریکہ میں زبردستی پاگل خانے میں داخل کردیا گیا، ویسے ہی خان صاحب کو بھی کسی پاگل خانے میں نہ داخل کردیں ۔۔
مغربی معاشرے کے لوگوں اور ہمارے معاشرے کے لوگوں میں مذہب کے معاملے میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ مغربی لوگ انسانی جان کو کسی بھی خیالی عقیدے، کسی بھی مذہبی کتاب اور کسی بھی مذہبی شخصیت سے زیادہ مقدم جانتے ہیں۔ ان کیلئے کوئی بھی کاغذ کی کتاب یا کوئی بھی نام نہاد مقدس شخصیت کسی جیتے جاگتے انسان سے زیادہ قیمتی نہیں ہوسکتی۔ اس لئے انہوں نے اپنے معاشروں میں خیالی دنیا (مذہبی دنیا) اور مادی دنیا کے درمیان ایک واضح لائن کھینچ رکھی ہے۔ کوئی شخص اپنی خیالی دنیا میں کسی کو بھی مقدس مانتا رہے، کسی کی بھی پوجا کرتا رہے، اس سے کسی دوسرے کو کوئی سروکار نہیں۔ ہاں اس کو یہ حق قطعاً حاصل نہیں کہ وہ اپنی خیالی دنیا کے کسی بھی کردار کے تقدس کو بنیاد بنا کر کسی انسان کا قتل کردے۔۔
ہمارے معاشروں میں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ ہمارے ہاں کاغذ کی کتاب اور خیالی مقدس شخصیات جیتے جاگتے انسانوں سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں اور ان کے نام کے تقدس کی خاطر زندہ انسان کو قتل کردینا بالکل جائز ہے۔ اس وقت تقریباً تیرہ اسلامی ممالک میں توہینِ پیغمبر اسلام کی سزا موت ہے۔ یعنی ریاست اپنی سرپرستی میں خیالی عقائد کی توہین پر زندہ انسان کو قتل کرتی ہے۔ اور باقی اسلامی ممالک میں بھی صورت حال کوئی خاص مختلف نہیں۔ یعنی جہاں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں، وہاں انہوں نے اپنی خیالی دنیا اور اس سے جڑی شخصیات کو زندہ انسانوں پر فوقیت دے رکھی ہے۔ اب یہ بہت بڑا فرق ہے جو مشرقی (مسلمان) معاشرے اور مغربی معاشرے میں ہے۔
خان صاحب نے یہ دعویٰ کردیا ہے کہ وہ مغربی معاشروں کو مشرقی معاشروں کی مذہب سے متعلق پائے جانے والے جنونی جذبے سے آگاہ کریں گے۔۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ آخر ہمارے وزیراعظم صاحب کس طرح مغرب کے لوگوں کو یہ سمجھائیں گے کہ کاغذ کی کتابیں اور خیالی دنیا کے کردار جیتے جاگتے انسانوں سے زیادہ معنے رکھتے ہیں اور اگر کوئی شخص ان کی خیالی شخصیات کا احترام نہیں کرتا تو اس کا قتل کردینا بالکل جائز ہے۔۔ آخر کسی بھی معقول اور ذی شعور انسان جس کا ذہن کسی جنونی نظریے کا ٹیکا لگا کر مفلوج نہ کردیا گیا ہو، کو کیسے اس بات پر قائل کیا جاسکتا ہے؟ یہ بات میری سمجھ سے بالا تر ہے۔ آخر خان صاحب کے پاس کوئی تو گیدڑ سنگھی ہوگی جس کی بنیاد پر انہوں نے یہ دعویٰ کیا ہے۔ میری نظر میں ایسا کوئی واقعہ نہیں گزرا جس میں خان صاحب نے بلاسفیمی کے نام پر قتل ہونے والے کسی شخص کے قتل کی مذمت کی ہو۔ پاکستان میں مشعال خان سے لے کر سلمان تاثیر تک کتنے ہی قتل ہوئے۔پروفیسر جنید حفیظ کی طرح کتنے ہی لوگ جیلوں میں معمولی باتوں کی وجہ سڑرہے ہیں۔ پاکستان کے شہر منڈی بہاؤالدین سے ایک شخص اٹھ کر جاتا ہے پیرس اور وہاں چارلی ہیبڈو کے پرانے آفس کے باہر کئی لوگوں کو خنجر مار کر زخمی کردیتا ہے، مگر خان صاحب نے اس پر ایک لفظ تک نہیں کہا۔ اس لئے خان صاحب اپنا یہ بیگیج لے کر جب مغربی معاشروں میں جائیں گے تو ان کو کیا دلیل دیں گے کہ آخر کس بنیاد پر کاغذ کی کتابوں اور خیالی دنیا کے کرداروں کی خاطر وہ زندہ انسانوں کو قتل کرنا قبول کرلیں۔
یورپ کے لوگ اپنے معاشروں کی تاریخ سے اچھی طرح آگاہ ہیں، ان کو علم ہے کہ چار پانچ سو سال پہلے تک ان کے معاشروں میں بھی اتنی ہی جنونیت تھی جتنی کہ آج کے مسلم معاشروں میں، وہ بھی مذہب سے معمولی اختلاف پر لوگوں پر توہین کے الزامات لگا کر ان کو قتل کردیا کرتے تھے۔ مگر یہ یورپ کا تاریک ماضی ہے، آج وہ اس جہالت سے بہت آگے نکل آئے ہیں۔ تو خان صاحب کس طرح ان لوگوں کو آمادہ کریں گے کہ وہ اپنی پرانی جہالت میں واپس لوٹ جائیں ۔۔ ویسے خان صاحب کو میرا مشورہ ہے کہ ایسا کوئی بھی اقدام کرنے سے پہلے اپنی حفاظت کا کوئی پیشگی بندوبست ضرور کرلیں، کیونکہ اگر کسی بھی ذی شعور آدمی کے سامنے خان صاحب یہ تجویز رکھتے ہیں کہ تم بھی ہم مسلمانوں کی طرح جنونی ہوجاؤ اور ہماری طرح مذہب پر لڑنا مرنا شروع کردو،تو وہ خان صاحب کو پاگل سمجھے گااور عین ممکن ہے کہ جس طرح میرا کو امریکہ میں زبردستی پاگل خانے میں داخل کردیا گیا، ویسے ہی خان صاحب کو بھی کسی پاگل خانے میں نہ داخل کردیں ۔۔