مشکل طریقہ کار؟ بڑی تعداد میں پاکستانی بینک اکاؤنٹ ہی نہیں رکھتے:سروے

bank-pakisan-ppt.jpg


پاکستانی شہریوں کی ایک بڑی تعداد یعنی 81 فیصد پاکستانی بینک اکاؤنٹس نہیں رکھتے جس کے بعد یہ سوال اہم ہے کہ کیا انہیں اس متعلق آگاہی نہیں؟ یا وہ اس طریقہ کار پر اعتماد نہیں کرتے؟ ایک سوال یہ بھی اہم ہے کہ کیا بینکوں میں اکاؤنٹ کھلوانا آسان نہیں؟ اس کیلئے کاغذی ثبوت اور بینک کے کچھ دیگر مطالبات ہوتے ہیں جنہیں پرا کیا جانا لازمی ہے۔

نجی کمپنی کرانداز فنانشل انکوژن سروے نے اپنے حالیہ سروے میں انکشاف کیا ہے کہ صرف 19 فیصد پاکستانی بینک اکاؤنٹس رکھتے ہیں جب کہ 81 فیصد بغیر بینکوں کے ہی لین دین کرتے ہیں۔ ادھر موبائل فون کے ذریعے رقوم کی ادائیگیوں کیلئے رجسٹریشن گزشتہ دو برس میں بڑھ کر دوگنا ہوگئی ہے۔

سروے میں دلچسپ امر یہ سامنے آیا ہے کہ گزشتہ دو برس میں بھی حوالہ ہنڈی پر اعتماد کرنے والوں کی تعداد 28 فیصد پر برقرار رہی۔ تاہم یہ بات تشویشناک ہے کہ صرف 19 فیصد بالغ پاکستانی بینک اکاونٹ رکھتے ہیں۔

اپنے ذاتی اکاونٹ میں رقم جمع کروانے والوں کی تعداد 95 فیصد رہی جبکہ اکاؤنٹ سے رقم نکلوانے والوں کی شرح 38 فیصد اور اکاؤنٹ میں تنخواہیں وصول کرنے والوں کی شرح 27 فیصد ہے۔ 81فیصد پاکستانیوں کا بینک اکاوئنٹ موجود ہی نہیں ہے۔ ان 81 فیصد میں سے 68 فیصد کا کہنا ہے کہ انہیں بینک اکاونٹ کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

اس سروے میں 6 ہزار 672 بالغ افراد نے حصہ لیا جس میں اسلام آباد اور تمام صوبوں سمیت آزاد جموں وکشمیر اور گلگلت بلستستان کے افراد بھی شامل ہیں۔ کرانداز پاکستان کی ڈائریکٹر ریسرچ مارکیٹینگ مہر شاہ نے کہا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سروے کار آمد ثابت ہوگا کیوں کہ اس سے فنانس تک رسائی میں عدم مساوات اجاگر ہوا ہوئی ہے۔

سروے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستان میں کس طرح سے (فنانشل انکوژن) مالی مصنوعات تک رسائی میں پیش رفت ہوئی۔ ساتویں ایڈیشن میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ڈیجیٹل فنانس ہر پاکستانی تک رسائی کو ممکن بنا رہا ہے۔ تاہم شہری اور دیہات میں آباد لوگوں کے درمیان ڈیجیٹل تقسیم بھی ظاہر ہو رہی ہے جبکہ مرد اور خواتین، پڑھے لکھے اور ناخواندہ افراد تک رسائی میں بھی فرق موجود ہے۔

تشویشناک اشاریہ یہ ہے کہ پاکستان میں فنانشل لٹریسی اب بھی 19 فیصد تک ہے اور پیغام بھیجنے اور موصول کرنے والوں کی شرح 34 فیصد ہے۔ سروے کے مطابق 63 فیصد بالغ پاکستانی موبائل فون سے رقوم کی لین دین کا تبادلہ نہیں کرتے حالانکہ انہیں موبائل منی سروس کے بارے میں آگاہی بھی ہے۔ موبائل فون سے رقوم کی لین دین کا تبادلہ نہ کرنے کی بڑی وجہ ضرورت کا نہ ہونا ہے اور ایسے افراد کی تعداد 53 فیصد ہے۔

اس کیساتھ ہی 43 فیصد افراد ناخواندگی کی وجہ سے موبائل فون سے رقوم کی لین دین سے گریز کرتے ہیں جبکہ 43 فیصد افراد ناکافی رقم کی وجہ سے موبائل فون ٹرانزیکشن کے قابل نہیں۔ ملک میں الیکٹرانک منی انسٹی ٹیوشن (ای ایم آئی) اکاونٹ سے آگاہی رکھنے والوں کی تعداد انتہائی کم ہے جو کہ صرف دو فیصد ہے۔ زیادہ تر پاکستانی صرف ایک ای ایم آئی برانڈ کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں۔ صرف 9 فیصد پاکستانیوں کے ایک سے زائد اکاوئنٹ موجود ہیں۔ موبائل منی والٹ کیلئے مختلف اکاونٹ رکھنے والوں کی تعداد 8 فیصد ہے۔
 

MADdoo

Minister (2k+ posts)
Police should allow looting of 1 million and above in a single scene. You will see a major shift.
 

MRT.abcd

Minister (2k+ posts)
Those who have the money, surely will not keep it at home. Bank wants money to open an account and to keep it running. You don't just get an account for free