منحرف اراکین کیلئے عزت کا راستہ یہی ہے کہ استعفیٰ دیکر گھرجائیں،سپریم کورٹ

articl1h1h1.jpg


چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کی۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ عزت کا راستہ یہی ہے منحرف ارکان مستعفی ہو کر گھر جائیں۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیئے کہ 63 اے کو شامل کرنے کا مقصد ہارس ٹریڈنگ کو ختم کرنا تھا، 63 اے کی خلاف ورزی آئین کی خلاف ورزی ہے، اس کے نتیجے میں ووٹ شمار نہیں ہوگا، ووٹ کاسٹ ہوگا لیکن گنا نہیں جائے گا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے علی ظفر سے پوچھا کہ آپ کہہ رہے ہیں ووٹ کاسٹ نہیں ہوں گے، ووٹ شمار کرنا اور انحراف کرنا دونوں مختلف چیزیں ہیں ، اگر سیاسی جماعت کی کوئی ہدایت ہی نہ ہو تو ووٹ گنا جائے گا یا نہیں ، کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ ہدایات نہ ہونے پر بھی رکن اسمبلی کا ووٹ شمار نہیں ہوگا؟

علی ظفر نے جواب دیا کہ پہلے سربراہ ہدایات جاری کرے گا، پھر ممبران کے خلاف ڈیکلریشن جاری کرے گا۔ جسٹس جمال خان نے استفسار کیا کہ ڈیکلریشن کی عدم موجودگی میں بھی ووٹ نہیں گنا جائے گا، اگر ووٹ گنا نہ جائے تو مطلب جرم ہی نہیں کیا، 63اے میں بتایا گیا ہے کہ ووٹ تو کاسٹ کرلیں گے لیکن سیٹ چلی جائے گی۔

جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس دیے کہ ووٹ کاسٹ ہونے کے بعد ہی پارٹی سربراہ ڈیکلریشن دے گا، پارٹی سربراہ ووٹ کاسٹ ہوتے وقت بھی اسپیکر کو بتا سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں پینل کوڈ نہیں کہ جرم ہو گیا ہے۔ تو لاش ملنے کے بعد ہی کارروائی ہو گی، آپ کہہ رہے ہیں بھٹو دور میں شامل کیے گیے ارٹیکل 96کی طرح اقلیت کا ووٹ شمار نہیں ہو گا، قومی مفاد اور اس لعنت کو ختم کرنے کے لیے ووٹ کو نہیں گننا چاہیے۔

جسٹس جمال خان نے ریمارکس دیے کہ کیا سیاسی جماعت اس کینسر کا علاج خود نہیں کر سکتی؟ سیاسی جماعتوں کو تکلیف ہے تو علاج کریں، ہمارے سامنے اکثر جماعتیں آپ کے موقف کے خلاف ہیں، آپ کیا توقع کررہے ہیں ہم اکثریت کو چھوڑ کر آپ کی بات مانیں گے؟

عدالت نے پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر کو تحریری معروضات جمع کروانے کی ہدایت کردی۔ مسلم لیگ ق نے علی ظفر کے دلائل اپناتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 63 اے تحریک عدم اعتماد کیخلاف حفاظتی دیوار ہے، جمہوریت کے چمپئن بننے والوں نے مینڈیٹ کے احترام کا معاہدہ کیا تھا۔

مسلم لیگ ن کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ قومی اسمبلی کی مدت پانچ سال ہوتی ہے، اسمبلی کی مدت تک ہی منحرف رکن نااہل ہو سکتا، ریفرنس میں پی ٹی آئی کہتی ہے منحرف ارکان کا ووٹ شمار نہ کیا جائے، ریفرنس سابق وزیراعظم کو عدم اعتماد سے بچانے کے لیے دائر کیا گیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ملک کو میچیور جمہوریت کی طرف لیکر جانا ہوگا، ضروری ہے قانون ساز سیر حاصل گفتگو کریں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ عزت کا راستہ یہی ہے کہ منحرف رکن مستعفی ہو کر گھر جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سیاستدانوں کو قربانیاں دینا ہوں گی۔ عدالت نے سماعت عید کے بعد تک ملتوی کر دی۔
 

A.jokhio

Minister (2k+ posts)
articl1h1h1.jpg


چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کی۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ عزت کا راستہ یہی ہے منحرف ارکان مستعفی ہو کر گھر جائیں۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیئے کہ 63 اے کو شامل کرنے کا مقصد ہارس ٹریڈنگ کو ختم کرنا تھا، 63 اے کی خلاف ورزی آئین کی خلاف ورزی ہے، اس کے نتیجے میں ووٹ شمار نہیں ہوگا، ووٹ کاسٹ ہوگا لیکن گنا نہیں جائے گا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے علی ظفر سے پوچھا کہ آپ کہہ رہے ہیں ووٹ کاسٹ نہیں ہوں گے، ووٹ شمار کرنا اور انحراف کرنا دونوں مختلف چیزیں ہیں ، اگر سیاسی جماعت کی کوئی ہدایت ہی نہ ہو تو ووٹ گنا جائے گا یا نہیں ، کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ ہدایات نہ ہونے پر بھی رکن اسمبلی کا ووٹ شمار نہیں ہوگا؟

علی ظفر نے جواب دیا کہ پہلے سربراہ ہدایات جاری کرے گا، پھر ممبران کے خلاف ڈیکلریشن جاری کرے گا۔ جسٹس جمال خان نے استفسار کیا کہ ڈیکلریشن کی عدم موجودگی میں بھی ووٹ نہیں گنا جائے گا، اگر ووٹ گنا نہ جائے تو مطلب جرم ہی نہیں کیا، 63اے میں بتایا گیا ہے کہ ووٹ تو کاسٹ کرلیں گے لیکن سیٹ چلی جائے گی۔

جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس دیے کہ ووٹ کاسٹ ہونے کے بعد ہی پارٹی سربراہ ڈیکلریشن دے گا، پارٹی سربراہ ووٹ کاسٹ ہوتے وقت بھی اسپیکر کو بتا سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں پینل کوڈ نہیں کہ جرم ہو گیا ہے۔ تو لاش ملنے کے بعد ہی کارروائی ہو گی، آپ کہہ رہے ہیں بھٹو دور میں شامل کیے گیے ارٹیکل 96کی طرح اقلیت کا ووٹ شمار نہیں ہو گا، قومی مفاد اور اس لعنت کو ختم کرنے کے لیے ووٹ کو نہیں گننا چاہیے۔

جسٹس جمال خان نے ریمارکس دیے کہ کیا سیاسی جماعت اس کینسر کا علاج خود نہیں کر سکتی؟ سیاسی جماعتوں کو تکلیف ہے تو علاج کریں، ہمارے سامنے اکثر جماعتیں آپ کے موقف کے خلاف ہیں، آپ کیا توقع کررہے ہیں ہم اکثریت کو چھوڑ کر آپ کی بات مانیں گے؟

عدالت نے پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر کو تحریری معروضات جمع کروانے کی ہدایت کردی۔ مسلم لیگ ق نے علی ظفر کے دلائل اپناتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 63 اے تحریک عدم اعتماد کیخلاف حفاظتی دیوار ہے، جمہوریت کے چمپئن بننے والوں نے مینڈیٹ کے احترام کا معاہدہ کیا تھا۔

مسلم لیگ ن کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ قومی اسمبلی کی مدت پانچ سال ہوتی ہے، اسمبلی کی مدت تک ہی منحرف رکن نااہل ہو سکتا، ریفرنس میں پی ٹی آئی کہتی ہے منحرف ارکان کا ووٹ شمار نہ کیا جائے، ریفرنس سابق وزیراعظم کو عدم اعتماد سے بچانے کے لیے دائر کیا گیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ملک کو میچیور جمہوریت کی طرف لیکر جانا ہوگا، ضروری ہے قانون ساز سیر حاصل گفتگو کریں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ عزت کا راستہ یہی ہے کہ منحرف رکن مستعفی ہو کر گھر جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سیاستدانوں کو قربانیاں دینا ہوں گی۔ عدالت نے سماعت عید کے بعد تک ملتوی کر دی۔
insaaf ki danish se aari munsif.....inse kuch naheen hoga!...
 

Phoebusrex

Senator (1k+ posts)
Yeh adalat hai ya something else?
جسٹس جمال خان نے ریمارکس دیے کہ کیا سیاسی جماعت اس کینسر کا علاج خود نہیں کر سکتی؟ سیاسی جماعتوں کو تکلیف ہے تو علاج کریں، ہمارے سامنے اکثر جماعتیں آپ کے موقف کے خلاف ہیں، آپ کیا توقع کررہے ہیں ہم اکثریت کو چھوڑ کر آپ کی بات مانیں گے؟
 

Rocky Khurasani

Senator (1k+ posts)
articl1h1h1.jpg


چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کی۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ عزت کا راستہ یہی ہے منحرف ارکان مستعفی ہو کر گھر جائیں۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیئے کہ 63 اے کو شامل کرنے کا مقصد ہارس ٹریڈنگ کو ختم کرنا تھا، 63 اے کی خلاف ورزی آئین کی خلاف ورزی ہے، اس کے نتیجے میں ووٹ شمار نہیں ہوگا، ووٹ کاسٹ ہوگا لیکن گنا نہیں جائے گا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے علی ظفر سے پوچھا کہ آپ کہہ رہے ہیں ووٹ کاسٹ نہیں ہوں گے، ووٹ شمار کرنا اور انحراف کرنا دونوں مختلف چیزیں ہیں ، اگر سیاسی جماعت کی کوئی ہدایت ہی نہ ہو تو ووٹ گنا جائے گا یا نہیں ، کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ ہدایات نہ ہونے پر بھی رکن اسمبلی کا ووٹ شمار نہیں ہوگا؟

علی ظفر نے جواب دیا کہ پہلے سربراہ ہدایات جاری کرے گا، پھر ممبران کے خلاف ڈیکلریشن جاری کرے گا۔ جسٹس جمال خان نے استفسار کیا کہ ڈیکلریشن کی عدم موجودگی میں بھی ووٹ نہیں گنا جائے گا، اگر ووٹ گنا نہ جائے تو مطلب جرم ہی نہیں کیا، 63اے میں بتایا گیا ہے کہ ووٹ تو کاسٹ کرلیں گے لیکن سیٹ چلی جائے گی۔

جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس دیے کہ ووٹ کاسٹ ہونے کے بعد ہی پارٹی سربراہ ڈیکلریشن دے گا، پارٹی سربراہ ووٹ کاسٹ ہوتے وقت بھی اسپیکر کو بتا سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں پینل کوڈ نہیں کہ جرم ہو گیا ہے۔ تو لاش ملنے کے بعد ہی کارروائی ہو گی، آپ کہہ رہے ہیں بھٹو دور میں شامل کیے گیے ارٹیکل 96کی طرح اقلیت کا ووٹ شمار نہیں ہو گا، قومی مفاد اور اس لعنت کو ختم کرنے کے لیے ووٹ کو نہیں گننا چاہیے۔

جسٹس جمال خان نے ریمارکس دیے کہ کیا سیاسی جماعت اس کینسر کا علاج خود نہیں کر سکتی؟ سیاسی جماعتوں کو تکلیف ہے تو علاج کریں، ہمارے سامنے اکثر جماعتیں آپ کے موقف کے خلاف ہیں، آپ کیا توقع کررہے ہیں ہم اکثریت کو چھوڑ کر آپ کی بات مانیں گے؟

عدالت نے پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر کو تحریری معروضات جمع کروانے کی ہدایت کردی۔ مسلم لیگ ق نے علی ظفر کے دلائل اپناتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 63 اے تحریک عدم اعتماد کیخلاف حفاظتی دیوار ہے، جمہوریت کے چمپئن بننے والوں نے مینڈیٹ کے احترام کا معاہدہ کیا تھا۔

مسلم لیگ ن کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ قومی اسمبلی کی مدت پانچ سال ہوتی ہے، اسمبلی کی مدت تک ہی منحرف رکن نااہل ہو سکتا، ریفرنس میں پی ٹی آئی کہتی ہے منحرف ارکان کا ووٹ شمار نہ کیا جائے، ریفرنس سابق وزیراعظم کو عدم اعتماد سے بچانے کے لیے دائر کیا گیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ملک کو میچیور جمہوریت کی طرف لیکر جانا ہوگا، ضروری ہے قانون ساز سیر حاصل گفتگو کریں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ عزت کا راستہ یہی ہے کہ منحرف رکن مستعفی ہو کر گھر جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سیاستدانوں کو قربانیاں دینا ہوں گی۔ عدالت نے سماعت عید کے بعد تک ملتوی کر دی۔
Saare mujrim Izzat ka rasta nikalne ke liye Supreme Court of Pakistan se Rabta karain. Cheap Justice ka ilaan.
 

Nadeem Rana

Councller (250+ posts)

چیف جسٹس بندیال نے میڈیا کو کیمرے کو دیکھا اور غصے سے کہا "عدالتیں 24 گھنٹے کام کرتی ہیں" ۔۔ اور پھر منہ سائیڈ پر کر کے شیطانی انداز میں ہنسے اور بڑبڑائے ۔۔۔ "نون لیگ کے لیے"​

 

The Oasis

MPA (400+ posts)
App logoon ka kaam khatam ho gaya islieay istifa dain, ab Adliya ko accha bannay ka drama karna hoga- Cheap Justic of Supreme Kotha
 

Husaink

Prime Minister (20k+ posts)
articl1h1h1.jpg


چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کی۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ عزت کا راستہ یہی ہے منحرف ارکان مستعفی ہو کر گھر جائیں۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیئے کہ 63 اے کو شامل کرنے کا مقصد ہارس ٹریڈنگ کو ختم کرنا تھا، 63 اے کی خلاف ورزی آئین کی خلاف ورزی ہے، اس کے نتیجے میں ووٹ شمار نہیں ہوگا، ووٹ کاسٹ ہوگا لیکن گنا نہیں جائے گا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے علی ظفر سے پوچھا کہ آپ کہہ رہے ہیں ووٹ کاسٹ نہیں ہوں گے، ووٹ شمار کرنا اور انحراف کرنا دونوں مختلف چیزیں ہیں ، اگر سیاسی جماعت کی کوئی ہدایت ہی نہ ہو تو ووٹ گنا جائے گا یا نہیں ، کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ ہدایات نہ ہونے پر بھی رکن اسمبلی کا ووٹ شمار نہیں ہوگا؟

علی ظفر نے جواب دیا کہ پہلے سربراہ ہدایات جاری کرے گا، پھر ممبران کے خلاف ڈیکلریشن جاری کرے گا۔ جسٹس جمال خان نے استفسار کیا کہ ڈیکلریشن کی عدم موجودگی میں بھی ووٹ نہیں گنا جائے گا، اگر ووٹ گنا نہ جائے تو مطلب جرم ہی نہیں کیا، 63اے میں بتایا گیا ہے کہ ووٹ تو کاسٹ کرلیں گے لیکن سیٹ چلی جائے گی۔

جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس دیے کہ ووٹ کاسٹ ہونے کے بعد ہی پارٹی سربراہ ڈیکلریشن دے گا، پارٹی سربراہ ووٹ کاسٹ ہوتے وقت بھی اسپیکر کو بتا سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں پینل کوڈ نہیں کہ جرم ہو گیا ہے۔ تو لاش ملنے کے بعد ہی کارروائی ہو گی، آپ کہہ رہے ہیں بھٹو دور میں شامل کیے گیے ارٹیکل 96کی طرح اقلیت کا ووٹ شمار نہیں ہو گا، قومی مفاد اور اس لعنت کو ختم کرنے کے لیے ووٹ کو نہیں گننا چاہیے۔

جسٹس جمال خان نے ریمارکس دیے کہ کیا سیاسی جماعت اس کینسر کا علاج خود نہیں کر سکتی؟ سیاسی جماعتوں کو تکلیف ہے تو علاج کریں، ہمارے سامنے اکثر جماعتیں آپ کے موقف کے خلاف ہیں، آپ کیا توقع کررہے ہیں ہم اکثریت کو چھوڑ کر آپ کی بات مانیں گے؟

عدالت نے پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر کو تحریری معروضات جمع کروانے کی ہدایت کردی۔ مسلم لیگ ق نے علی ظفر کے دلائل اپناتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 63 اے تحریک عدم اعتماد کیخلاف حفاظتی دیوار ہے، جمہوریت کے چمپئن بننے والوں نے مینڈیٹ کے احترام کا معاہدہ کیا تھا۔

مسلم لیگ ن کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ قومی اسمبلی کی مدت پانچ سال ہوتی ہے، اسمبلی کی مدت تک ہی منحرف رکن نااہل ہو سکتا، ریفرنس میں پی ٹی آئی کہتی ہے منحرف ارکان کا ووٹ شمار نہ کیا جائے، ریفرنس سابق وزیراعظم کو عدم اعتماد سے بچانے کے لیے دائر کیا گیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ملک کو میچیور جمہوریت کی طرف لیکر جانا ہوگا، ضروری ہے قانون ساز سیر حاصل گفتگو کریں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ عزت کا راستہ یہی ہے کہ منحرف رکن مستعفی ہو کر گھر جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سیاستدانوں کو قربانیاں دینا ہوں گی۔ عدالت نے سماعت عید کے بعد تک ملتوی کر دی۔
بنڈیال صاحب آپ بھی شرافت سے گھر چلے جاؤ ججی آپ کے بس کا روگ نہیں ہے اپنی آخرت کا بیڑہ غرق تو کر ہی لیا ہے
 

tahirmajid

Chief Minister (5k+ posts)
جسٹس جمال خان نے ریمارکس دیے کہ کیا سیاسی جماعت اس کینسر کا علاج خود نہیں کر سکتی؟ سیاسی جماعتوں کو تکلیف ہے تو علاج کریں، ہمارے سامنے اکثر جماعتیں آپ کے موقف کے خلاف ہیں، آپ کیا توقع کررہے ہیں ہم اکثریت کو چھوڑ کر آپ کی بات مانیں گے؟
Speaker ki ruling kion supreme court ne khatam ki, Parliment ko paband kion kia ijlaas karney or no confidence motion kay liaey, us waqt in kanjaro ko yaad nahi aaya keh siyaasi jamaatein khud hi hal kar lein, us waqt paisey liaey huey thay ab apna farz bhi nahi poora ho raha
 

tahirmajid

Chief Minister (5k+ posts)
چیف جسٹس نے کہا کہ ملک کو میچیور جمہوریت کی طرف لیکر جانا ہوگا، ضروری ہے قانون ساز سیر حاصل گفتگو کریں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ عزت کا راستہ یہی ہے کہ منحرف رکن مستعفی ہو کر گھر جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سیاستدانوں کو قربانیاں دینا ہوں گی۔ عدالت نے سماعت عید کے بعد تک ملتوی کر دی۔

Sair hasil guftago ka us waqt yaad nahi aya jub speaker ki roling khatam kar kay American agenda musalt kia tha. phir aadhi raat ko adaaltein khol kay baith gaey, lagta hay kaafi lamba maal lia hua tha. ye Judges Pakistan ki history mein gandey tareen judges ki hasiyat se yaad rakhey jaein,. Waisey inho ne constition ki khilaaf warzi ki hay parliment kay muamlaat mein dakhal de kar or speaker ki ruling khatam kar kay, in pe article 6 ki karwai banti hay
 

Jhon

Politcal Worker (100+ posts)
articl1h1h1.jpg


چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کی۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ عزت کا راستہ یہی ہے منحرف ارکان مستعفی ہو کر گھر جائیں۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیئے کہ 63 اے کو شامل کرنے کا مقصد ہارس ٹریڈنگ کو ختم کرنا تھا، 63 اے کی خلاف ورزی آئین کی خلاف ورزی ہے، اس کے نتیجے میں ووٹ شمار نہیں ہوگا، ووٹ کاسٹ ہوگا لیکن گنا نہیں جائے گا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے علی ظفر سے پوچھا کہ آپ کہہ رہے ہیں ووٹ کاسٹ نہیں ہوں گے، ووٹ شمار کرنا اور انحراف کرنا دونوں مختلف چیزیں ہیں ، اگر سیاسی جماعت کی کوئی ہدایت ہی نہ ہو تو ووٹ گنا جائے گا یا نہیں ، کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ ہدایات نہ ہونے پر بھی رکن اسمبلی کا ووٹ شمار نہیں ہوگا؟

علی ظفر نے جواب دیا کہ پہلے سربراہ ہدایات جاری کرے گا، پھر ممبران کے خلاف ڈیکلریشن جاری کرے گا۔ جسٹس جمال خان نے استفسار کیا کہ ڈیکلریشن کی عدم موجودگی میں بھی ووٹ نہیں گنا جائے گا، اگر ووٹ گنا نہ جائے تو مطلب جرم ہی نہیں کیا، 63اے میں بتایا گیا ہے کہ ووٹ تو کاسٹ کرلیں گے لیکن سیٹ چلی جائے گی۔

جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس دیے کہ ووٹ کاسٹ ہونے کے بعد ہی پارٹی سربراہ ڈیکلریشن دے گا، پارٹی سربراہ ووٹ کاسٹ ہوتے وقت بھی اسپیکر کو بتا سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں پینل کوڈ نہیں کہ جرم ہو گیا ہے۔ تو لاش ملنے کے بعد ہی کارروائی ہو گی، آپ کہہ رہے ہیں بھٹو دور میں شامل کیے گیے ارٹیکل 96کی طرح اقلیت کا ووٹ شمار نہیں ہو گا، قومی مفاد اور اس لعنت کو ختم کرنے کے لیے ووٹ کو نہیں گننا چاہیے۔

جسٹس جمال خان نے ریمارکس دیے کہ کیا سیاسی جماعت اس کینسر کا علاج خود نہیں کر سکتی؟ سیاسی جماعتوں کو تکلیف ہے تو علاج کریں، ہمارے سامنے اکثر جماعتیں آپ کے موقف کے خلاف ہیں، آپ کیا توقع کررہے ہیں ہم اکثریت کو چھوڑ کر آپ کی بات مانیں گے؟

عدالت نے پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر کو تحریری معروضات جمع کروانے کی ہدایت کردی۔ مسلم لیگ ق نے علی ظفر کے دلائل اپناتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 63 اے تحریک عدم اعتماد کیخلاف حفاظتی دیوار ہے، جمہوریت کے چمپئن بننے والوں نے مینڈیٹ کے احترام کا معاہدہ کیا تھا۔

مسلم لیگ ن کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ قومی اسمبلی کی مدت پانچ سال ہوتی ہے، اسمبلی کی مدت تک ہی منحرف رکن نااہل ہو سکتا، ریفرنس میں پی ٹی آئی کہتی ہے منحرف ارکان کا ووٹ شمار نہ کیا جائے، ریفرنس سابق وزیراعظم کو عدم اعتماد سے بچانے کے لیے دائر کیا گیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ملک کو میچیور جمہوریت کی طرف لیکر جانا ہوگا، ضروری ہے قانون ساز سیر حاصل گفتگو کریں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ عزت کا راستہ یہی ہے کہ منحرف رکن مستعفی ہو کر گھر جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سیاستدانوں کو قربانیاں دینا ہوں گی۔ عدالت نے سماعت عید کے بعد تک ملتوی کر دی۔
And the respectable way for the judiciary is to resign and let some well-educated, credible and honourable people to come in the courts.
 

arafay

Chief Minister (5k+ posts)
There is nothing in this case. PTI should have taken this case back immediately after 'selection of CM' in punjab assembly. Better to get file petition to get all 25 lotas in punjab assembly de-seated for now so that assembly could be dissolved.