نور مقدم قتل کیس میں تفتیشی افسر کی جانب سے مرکزی ملزم کی پینٹ پر خون نہ ملنے سے متعلق اسلام آباد پولیس کی جانب سے وضاحت سامنے آگئی ہے۔
مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر اسلام آباد پولیس کی جانب سے جاری کردہ ایک اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ نور مقدم قتل کیس کی سماعت میں تفتیشی افسر سے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے وکیل کی جرح کے حوالے سے کچھ باتیں ایسی میڈیا پر رپورٹ ہوئیں جنہوں نے ایک ابہام پیدا کردیا، انہیں غلط فہمیوں کو دور کرنے کیلئے آج یہ وضاحت پیش کی جارہی ہے۔
یادرہے کہ گزشتہ روز میڈیا رپورٹس میں تفتیشی افسر کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی تھی ملزم کی پینٹ پر خون کے نشانات برآمد نہیں ہوئے، چاقو پر مرکزی ملزم کی انگلیوں کے نشانات نہیں ملے اور موقع پر ظاہر جعفر کی موجودگی بھی ثابت نہیں ہوسکی۔
میڈیا پر تفتیشی افسر کے بیان کے ان نکات کے سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بحث شروع ہوگئی جس نے معاملے کو مزید ہوا دی اور یہ آئی جی اسلام آباد احسن یونس کے کانوں تک پہنچ گیا جنہوں نے فوری طور پر ایک اجلاس طلب کرتے ہوئے معاملے کا جائزہ لیا جس کے بعد اسلام آباد پولیس کی جانب سے ایک وضاحتی بیان جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اس وضاحتی بیان میں اسلام آباد پولیس نے موقف اختیار کیا ہے کہ عدالت میں جرح کے دوران تفتیشی افسر کو وکیل کے سوالوں پر ہاں اور نہیں میں جواب دینے ہوتے ہیں اور تفصیلی وضاحت نہیں دی جاسکتی اسی وجہ سے تفتیشی افسر کے جوابات کو منفی رنگ دے کر میڈیا میں رپورٹ کیا گیا۔
وضاحتی بیان میں تفتیشی افسر سے وکیل صفائی کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کی تفصیلات بھی جاری کی گئیں اور بتایا گیا کہ تفتیشی افسر سےملزم کی پینٹ پر خون پائے جانے کا سوال کیا گیا تھا جس پر انہوں نے نہیں میں جواب دیا، اگر انہیں وضاحت کا موقع دیا جاتا تو تفتیشی افسر لازمی بتاتے کہ پینٹ پر نہیں بلکہ ملزم کی شرٹ پر خون کے نشانات پائے گئے جن کا فارنزک بھی کروالیا گیا ہے۔
اسلام آباد پولیس نے وضاحتی بیان میں فرانزک رپورٹ کو بھی تفصیل سے شامل کیا اور بتایا کہ چاقو جس وقت لیبارٹری پہنچایا گیا اس پر موجود انگلیوں کے نشانات کا تعین ناممکن ہوگیا تھاتاہم اس پر لگا خون نورمقدم کا ہی تھا ، اسی طرح نور مقدم کے ناخنوں سے ملنے والی جلد بھی ظاہر جعفر کی تھی۔