گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر کوئی کوئی فوقیت نہیں اور نا ہی کس عربی کو عجمی اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی برتری حاصل. تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو تقویٰ میں سب سے اچھا ہے.
انسانیت کی تعریف کے یہ وہ سنہرے، خوبصورت اور طاقتور ترین الفاظ ہیں کے اس سے بہتر الفاظ انسانیت کی تعریف میں نہ آج تک بولے گئے نہ اس سے بہتر تعریف ممکن ہے. آج سے چودہ سو زیادہ سال پہلے کہے گئے یہ سنہری الفاظ اس دنیا میں آنے والے سب سے بہترین انسان، محسن انسانیت جناب ہمارے پیارے نبی کے ہیں. یہ صرف زبان سے ادا ہونے چند لفظ نہیں تھے بلکہ انکا عملی ثبوت بھی انسانیت نے دیکھا اور جو آج بھی تاریخ کا حصہ ہے یہ الفاظ انسانیت کے لئے مشعل راہ تھے، مشعل راہ ہیں اور ہمیشہ مشعل راہ رہینگے ۔ لیکن انسان کی بدقسمتی دیکھیۓ اسنے بلکل اسکے برعکس رویہ اپنایا.
پوری انسانی تاریخ رنگ و نسل، قومیت اور برادری کے دائرے کے اندر گھومتی نظر آتی ہے جہاں معیار تقویٰ ہونے چاہئے تھا، وہاں میعار قومیت، لسانیت، برادری ٹھیرا. جسکی وجہ سے معاشرے کا مظلوم طبقہ ہمیشہ سے بدترین ظلم اور ناانصافی کا شکار رہا جہاں معیار تقویٰ ہونے چاہئے تھا، وہاں میعار قومیت، لسانیت، برادری ٹھیرا. انسان نے جب بھی حصول اقتدار قومیت، رنگ، و نسل کی وجہ سے حاصل کیا جس سے صرف نفرتوں نے جنم لیا جسکی وجہ سے معاشرے کا مظلوم طبقہ ناصرف یہ کے بدترین ظلم اور ناانصافی کا شکار رہا. بلکہ کتنے ہی لوگ اس ظلم کے بھینٹ چڑھ گئے. یا تو گاجر، مولی کی طرح کاٹ دیے یا بدترین غلام بنا دیے گئے.
انسانی تعریف میں یوں تو آپ نے انسانیت پر بہت کچھ ہوتے ہوۓ دیکھا اور بہت سے بڑے لوگوں کو اکثر اظہار خیال کرتے ہوۓ سنا بھی ہوگا.. لیکن انسانیت سے بنفس نفیس کتنے لوگ ملے یا اسکو محسوس کیا. جنہوں نے انسانیت کو بہت قریب سے دیکھا ایسے مخلص لوگ بہت کم تھے بہرحال انہونے اپنے حصے کا کام بڑی ایمانداری اور خلوص نیت کے ساتھ کیا. انہونے بہت سے لوگوں کو گہری نیند سے بیدار کیا. لیکن ایسے مخلص لوگوں کو اقتدار میں شازو ناظر ہی کوئی حصہ ملا.. ہونا تو یہ چاہیئے تھا کے قیادت کا معیار صرف تقویٰ اور اخلاق طے پاتے۔ لیکن اس نظام جمہوریت میں جہاں صرف گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا سب ملیا میٹ کردیا۔ . لہذا اس جمہوری نظام میں مسند اقتدار ان لوگوں کی جھولی میں اکر گرا جو تقویٰ اور اخلاق کی پستیوں پر رہے. دنیا کا سب سے بہترین پیغام انسان نے صرف ایک اقوال زریں کے طور تو پر پڑھا، کسی میگزین میں اسکو نمایاں جگہ بھی دی یا پھر کسی یا سائن بورڈ پر آوازیں کر کے جیسے اپنا فرض منصبی ادا کیا.
قومیت، اور برادری جسکا تعلق تو صرف یہ ہونا چاہئے تھا کے یہ انسان کی ایک دوسرے سے پہچان اور شناخت کا سبب بنتے۔ نا کہ ایکدوسرے پر برتری کا۔ انسان نے قومیت اور برادری کو تو فوقیت دی اور پھر اخلاقی پستی میں ایسا گرا کے سوائے ہاتھ پیر مارنے، ایک دوسرے کا گلا کاٹنے اور نفرتوں کے بٹورنے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں کر پایا. تقویٰ کی تعریف آپکو کتابوں میں پڑھنے کے لئے تو ملے گی .لیکن عملی زندگی میں نہیں. دنیا کے موجودہ نظام جمہوریت کو آپ انسان کی تقسیم در تقسیم، ایک دوسرے سے لڑاؤ، اور حکومت کرو اور انسانی حقوق کی تعریف کرو پالیسی کا نام بھی دسکتے ہیں.
حیرت ہیکہ انسان ایک اتنی آسان اور سادہ سی بات آجتک کیوں ہیں سمجھ سکا کے قومیت کا ہونا انسان کے اختیار میں نہیں. یہ رضائے الہی کے کام ہیں کے وہ کس کو کب، کہاں اور کس قوم میں پیدا کرتا ہے. لیکن تقویٰ کا اختیار کر نا بہرحال انسان کے ہاتھ میں ہے۔ اور اسکا صرف ایک ہی فارمولا ہیکہ
کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر کوئی فوقیت نہیں. عجمی کو عربی پر اور عربی کو عجمی پر کوئی برتری نہیں تم میں
بہتر وہ ہے جو تقویٰ اور اخلاق میں تم میں سب سے بہتر ہے
تحریر
محمد عارف انصاری