maksyed
Siasat.pk - Blogger
پاگلوں کے درمیان پاگل - شجاع الدین غوری
پاگل خانے میں عجیب ہڑبونگ مچی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر، نرسیں اور دیگر افراد ایسے بھاگ رہے تھے جیسا کہ جان بچانے کے لیے بھاگتے ہیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ بھاگ دوڑ کیوں ہورہی تھی۔ بھاگتے ہوئے ایک شخص کو جو حلیے سے ڈاکٹر معلوم ہوتا تھا، جبراً روکتے ہوئے ہم نے پوچھا: آپ پاگلوں کی طرح ان پاگلوں کے پیچھے کیوں دوڑ رہے ہیں؟ وہ شخص جو حقیقت میں ڈاکٹر ہی تھا، رک کر اپنی سانسیں درست کرتے ہوئے کہنے لگا: وہ جو سب سے آگے دوڑ رہا ہے بقول اس کے وہ ان پاگلوں کا صدر ہی، اور جو اس کے پیچھے دوڑ رہے ہیں وہ سب کے سب اس کے وزیر و مشیر ہیں۔ بات مکمل کرنے سے پہلے وہ ایک لمحے کے لیے رکا اور ہماری جانب غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا: آپ کون ہیں؟ میں! میں ایک صحیح الدماغ اور ہوش مند انسان ہوں میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ تو پھر آپ اس پاگل خانے کو تباہی و بربادی سے بچانے اور یہاں کے نظم و نسق کو بحال کرنے میں ہماری مدد کریں۔ پاگلوں کا کیا ہے وہ کچھ بھی ہوسکتے ہیں.... بادشاہ، صدر، وزیراعظم.... اس میں آپ کو پریشانی کیا ہے! ہم نے متعجب ہوکر پوچھا۔ جناب! وہ بادشاہ بن جائیں یا صدر و وزیراعظم.... اس پر ہمیں کوئی پریشانی نہیں۔
پریشانی تب ہوتی ہے جب وہ اپنے مخبوط الحواس ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس قومی ادارے کی عظمت و وقار کو نقصان پہنچانے پر اتر آتے ہیں۔ وہ پریشان کن لہجے میں بولا۔ آخر انہوں نے کِیا کیا ہے؟ ہم نے حیران ہوکر پوچھا۔ ہر ادارے کے کچھ قاعدے اور قانون ہوتے ہیں۔ ہم یہ مانتے ہیں کہ پاگلوں کا قاعدے اور قانون سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا، لیکن ادارے کو لاقانونیت اور بے قاعدگی سے بچانے کے لیے ہمیں کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہوگا۔ آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟ ہم نے سنجیدہ ہوتے ہوئے پوچھا۔ آپ ایک صحیح الدماغ اور ہوش مند انسان ہیں، آپ خود فیصلہ کیجیے ان حالات میں آپ کو کیا کرنا چاہیے۔ یہ کہتے ہوئے وہ شخص ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑا کر بھاگا۔ ہم بھی اس کے پیچھے بھاگے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ وہ جو سب سے آگے دوڑ رہا تھا اور اپنے آپ کو صدر کہتا تھا، پاگل خانے کی چھت پر چڑھا تقریر کررہا تھا، اور نیچے کھڑے سارے پاگل اپنے صدر کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔ وہ کیا کہہ رہا تھا، اس کے حواری ہی سمجھ رہے تھے۔ ہم نے اس ڈاکٹر سے جس سے ابھی تھوڑی دیر پہلے ملاقات ہوئی تھی، پوچھا: اب کیا ہوگا؟ اسے اتارنے کی کوئی ترکیب کرنا ہوگی، ورنہ وہ تو پاگل ہے، خدا جانے کیا کربیٹھے! ڈاکٹر نے فکرمند لہجے میں کہا۔ آپ ایک مائیکرو فون منگوا دیں، میں اسے ابھی اتار دیتا ہوں۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ کچھ دیر تک وہ ہمیں غور سے دیکھتا رہا، شاید یہ جاننے کی کوشش کررہا تھا کہ آیا ہم صحیح الدماغ ہیں بھی یانہیں! یہ اطمینان ہونے کے بعد کہ ہم ان پاگلوں میں سے نہیں ہیں، دوڑتے ہوئے گیا اور ایک مائیکرو فون لیے فوراً ہی واپس آگیا۔
مائیکرو فون ہاتھ میں لیتے ہوئے میں نے چھت پر چڑھے پاگل کو مخاطب کیا: عزت مآب عالی جناب صدرِ محترم! میں آپ کا آرمی چیف آپ سے مخاطب ہوں۔ میری آواز پورے میدان میں گونج رہی تھی۔ آپ کے لیے بہتر ہے کہ خود ہی اتر جائیں، ورنہ اتارنے میں ہمیں کوئی دقت نہیں ہوگی۔ اعلان ختم ہوتے ہی میدان میں سناٹا چھاگیا، سارے پاگل ہماری جانب للچائی نظروں سے دیکھنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد ایک ایک کرکے سارے پاگل ہمارے پیچھے کھڑے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر اوپر چڑھے ہوئے پاگل نے کہا: اترنے کے لیے مجھے محفوظ راستہ چاہیے! اس کا یہ مطالبہ مان لیا گیا، پاگل خانے کے نظم و نسق کو بحال کرنے اور اس کے پاگل پن سے محفوظ رکھنے کے لیے نہ صرف محفوظ راستہ دے دیا گیا بلکہ اس کو بیرونِ پاگل خانہ جانے کی اجازت بھی دے دی گئی۔ اس کے جانے کے بعد ڈاکٹر نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے کہا: خس کم جہاں پاک۔ لیکن پھر نئے لوگ آگئے
: میری رائے
آپ سب لوگوں کو انداذہ ہو گیا ہو گا کہ کس پاگل کی بات ہو رہی ہے، اور نئے پاگل اور بدکردار لوگ کون ہیں ۔۔۔۔۔ اللہ پاک ان پاگلوں کے شر سے ہماری قوم کو محفوظ رکھے اور ہماری صفحوں میں اتحاد پیدا کرے اور ہم گنہاگاروں کو ایک قوم بنا دے ۔۔۔۔۔ انشا اللہ اللہ بہتری کرے گا انشا اللہ ۔۔۔۔۔، لیکن اس بہتری کے لیے ہمیں اللہ کی طرف لوٹ کے جانا ہو گا ۔۔۔۔
یا پروردگار اس ملک پاکستان کی حفاظت فرما ۔۔۔۔۔
اللھم آمین یا رب العالمین
حرف دعا
مخمور سید