کشتی الٹنے سے چند گھنٹے پہلے دو افراد بھوک سے مرگئے، دلخراش روداد

boat-sink-bhook.jpg


یونان کشتی حادثے نے کئی گھر اجاڑیں، والدین اپنے بیٹوں سے جدا ہوگئے، اس دلخراش واقعے کی کئی اداس داستانیں موجود ہیں، وہ مایوسی کے عالم میں فوم والے جوتوں اور لکڑی کے ایک ایسے ٹکڑے کے ساتھ تیر رہا تھا جو اس کے سہارے کا واحد راستہ تھا، اس دوران بحریہ کے جہاز پر سوار افراد انہیں ڈوبتے ہوئے دیکھ تو رہے تھے لیکن یونان کے ساحلی علاقے کے قریب ڈوبنے والی کشتی کے سواروں کی مدد کیلئے آنے اور انہیں گہرے پانیوں میں سے کھینچ کر ساحل تک لانے کیلئے انہوں نے تین سے چار گھنٹے لگا دیے۔

عثمان صدیق ان 12 پاکستانیوں میں شامل تھا جو اٹلی میں بہتر زندگی کی تلاش میں اس واقعے میں بچ گیا۔ وہ واحد شخص ہے جو پاکستان واپس آیا جبکہ باقی 11 نے یونان میں پناہ لینے کا انتخاب کیا۔

عثمان نے ایف آئی اے کو اپنی کہانی سنائی جس میں اس نے ایجنٹس کے ظلم و تشدد، نامناسب خوراک فراہم کیے جانے اور یورپی ممالک کے گزرنے والے جہازوں اور میری ٹائم فورسز کی بے حسی کی دلخراش روداد سنائی ہے۔

لیبیا کی تنگ عمارتوں میں نہ صرف تارکین کو بھوکا رہنے پر مجبور کیا گیا، بلکہ مچھلی پکڑنے والی جس کشتی میں انہیں لیجایا جا رہا تھا اس میں کھانے کا بھی کوئی انتظام نہیں تھا، ڈوبنے سے پانچ دن قبل تک وہ اسی کشتی میں پھنسے ہوئے تھے، بعد میں کئی تارکین وطن کی لاشیں پانی پر تیرتی رہیں۔ کشتی میں گنجائش 350 افراد کی تھی جبکہ اس پر سوار 750 افراد کو کرایا گیا تھا۔ عثمان نے ایف آئی اے کو بتایا کہ کشتی الٹنے سے چند گھنٹے قبل ان میں سے دو افراد بھوک سے مرگئے۔ عثمان پنجاب پولیس میں کانسٹیبل تھا جس کا تعلق گجرات سے ہے۔

اس شہر کے کئی لوگ یورپ کے مختلف ملکوں میں آباد ہیں۔ عثمان نے اپنے چار دوستوں (علی رضا، شعیب اختر، ذیشان مصطفی اور بلال افضل) کے ساتھ مل کر بیرون ملک قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا، ایک اور دوست محمد عثمان نے انہیں ایجنٹوں سے ملوایا۔ ان میں سے ہر ایک نے چوبیس لاکھ روپے ایڈوانس رقم ادا کی۔ 3؍ مئی کو انہیں دبئی لے جایا گیا جہاں سے انہوں نے اسکندریہ (مصر) کیلئے طیارہ پکڑا۔ وہاں اترنے پر انہیں کچھ افراد نے 130 مسافروں سے بھرے ایک چھوٹے طیارے میں منتقل کر دیا۔ یہ تمام افراد تارکین وطن تھے۔

پرواز لیبیا کے بن غازی ہوائی اڈے پر اتری اور تارکین وطن کو ایک محفوظ گھر میں لے جایا گیا۔ عثمان نے ایف آئی اے والوں کو بتایا کہ ہمیں ایک چھوٹے سے کمرے میں رکھا گیا تھا صرف بیٹھنے کی جگہ تھی، ہم 100؍ افراد تھے۔ عثمان اور اس کے دوستوں کو اگلے روز دوسرے محفوظ گھر میں منتقل کر دیا گیا جہاں ایک کمرے میں 35؍ پاکستانی تھے۔

وہ وہاں 25؍ دن تک نظر بند رہے، یہاں رہنے کے انتظامات برائے نام تھے جبکہ کھانا بھی دو دن کے وقفے سے دیا گیا۔ جیسے ہی ایجنٹس کو یقین ہوگیا ہے کہ پاکستان میں ان کے نمائندوں کو مطلوبہ رقم دیدی گئی ہے تو انہوں نے تارکین کو توبرک منتقل کر دیا۔

یہاں آصف سنیارا نامی شخص کا فارم ہاؤس ان کی اگلی منزل تھی جہاں 356 پاکستانیوں کو رکھا گیا تھا۔ اس محفوظ ٹھکانے کو آصف سنیارا کے لیبیائی پارٹنر اشرفی لبی چلا رہے تھے۔ وہ لیبیا کی بحریہ میں تھے اور ان کا بیٹا نوری بھی وہاں تعینات تھا۔ وہاں فراہم کی جانے والی خوراک تارکین کی ضروریات کیلئے ناکافی تھی۔

عثمان نے اپنے بیان میں بتایا ہے کہ اگر کوئی شخص کھانے کی شکایت کرتا تو نوری اور دو سوڈانی اس پر تشدد کرتے تھے۔ یہاں بھی کھانا ہر دو دن کے وقفے سے فراہم کیا جاتا تھا۔ وہاں کچھ دن گزارنے کے بعد، 200؍ تارکین کو ایک تنگ کنٹینر میں سوار کرایا گیا اور 8 جون کی رات کو انہیں سمندر کے قریب ایک جگہ لیجایا گیا۔

اسپیڈ بوٹ کے ذریعے انہیں ایک ایسی جگہ لے جایا گیا جہاں مچھلیاں پکڑنے والی کشتی سمندر میں کھڑی تھی۔ یہ کشتی مصر سے خالی آئی تھی۔ اسے چلانے والا شخص اور میکینک بھی کوئی تارک وطن تھا۔ مصر، لبنان اور شام کے تارکین وطن بھی وہاں اکٹھے ہوئے اور 350 مسافروں کی گنجائش والی کشتی میں کل 750 افراد کو سوار کرا دیا گیا۔

جہاز میں بچے اور خواتین بھی سوار تھے۔ ترکی اور یونان کے پانیوں سے گزرتی ہوئی کشتی کو چوتھے دن یعنی 13 جون کو لیبیا کے پانیوں میں داخل ہونے میں تین دن لگے جہاں پائلٹ نے حکمت عملی کے تحت انجن بند کر دیا تاکہ ساحلی محافظ انہیں بچا سکیں۔ لیکن کوئی نہیں آیا. ایک اور دن گزر گیا۔ کشتی میں کھانا نہیں تھا۔ تارکین وطن پانچ دن سے بھوکے تھے اور ان میں سے دو بھوک سے مر گئے۔