ملک بھر میں کچے کے ڈاکوئوں کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کی روک تھام کیلئے ڈاکوئوں کے محکمہ پولیس میں چھپے ہوئے سہولت کاروں کی خفیہ انکوائری کے بعد انہیں برطرف کرنے کے بجائے کراچی رینج میں ٹرانسفر کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔
ذرائع کے مطابق کچے کے ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن کے دوران انفارمیشن لیک ہوئی تھی جس کے بعد شکارپور میں تعینات پولیس اہلکاروں کی خفیہ طور پر انکوائری کا آغاز کیا گیا تھا جس میں پتا چلا کہ مبینہ طور پر وہی ڈاکوئوں کی سہولت کاری کر رہے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کچے کے ڈاکوئوں کے لیے مبینہ طور پر سہولت کاری کرنے کے الزام کے بعد 78 پولیس اہلکاروں کو برطرف کرنے کے بجائے شکارپور سے کراچی رینج میں ٹرانسفر کر دیا گیا ہے۔ انکوائری کے بعد پولیس اہلکاروں کو سزا یا نوکریوں سے برخاست کرنے کے بجائے کراچی میں ٹرانسفر کرنے کے فیصلے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
شکارپور میں کچے کے ڈاکوئوں کی سہولت کاری کرنے والے پولیس اہلکاروں کو کراچی ٹرانسفر کرنے سے وہاں پر پہلے ہی ڈاکوراج میں غیرمحفوظ زندگیاں گزارنے والے شہری مزید غیرمحفوظ ہو جائیں گے، جہاں پہلے ہی قتل کی وارداتوں بہت سی وارداتوں کے بعد شہری خوف وہراس میں جی رہے ہیں۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ کچے کے ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن کے دوران یہ فیصلہ لیا گیا ہے کہ جس پولیس اہلکار پر بھی ڈاکوئوں سے رابطوں کا شبہ ہے ان کا تبادلہ شکارپور رینج سے دوسرے علاقوں میں کر دیا جائے۔ علاوہ ازیں سندھ بھر میں کچے کے ڈاکوئوں کے سہولت کار پولیس اہلکاروں کا سروے بھی جاری ہے جس کے بعد مزید پولیس اہلکاروں کے تبادلوں کا امکان ظاہر کیاگیا ہے۔
آئی جی سندھ غلام نبی میمن سے اس بارے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ان پولیس اہلکاروں کو شکارپور کے افسران کی طرف سے سرینڈر کیا گیا ہے اور کہا ہے کہ انہیں ان کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پولیس اہلکاروں مختلف جرائم کی سرگرمیوں میں ملوث تھے اور کچھ اہلکار ایسے تھے جن کے رویہ کی شکایات تھیں، سنگین جرائم میں ملوث اہلکاروں کو سزائیں ان کے متعلقہ ضلع میں ہی دے دی جاتی ہیں۔