پاکستانی ججز کی اکثریت کرپٹ، بددیانت اور فراڈیوں پر مشتمل ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ان لعنتیوں کو بھرپور انداز میں بے نقاب کیا جائے
بڑے مایوس نظر آرھے ہو ۔ صادق اور امین کا صداقت نامہ واپس کردو یا پھر ثاقب نثار کو بلا لاؤ ۔
سپريم کورٹ اپنی عزت گنوا چکا، ہندوؤں کے جج يعنی ہندوستان نظام عدل ميں پاکستان سے آگے ہے۔
انصاف کا مذھب سے کیا لینا دینا ...انصاف انصاف ہے ..اگر اس کا تعلق مذھب سے ہوتا تو ہم سیکنڈ لاسٹ نہ آتے فہرست میں
معاف کردیجیئے، وہ صاحب دراصل لوگوں میں جذبہ ایمانی کو جنجھوڑنا چاہ رہے تھے، کہ شائد کو شرما شرمی انصاف کی راہ اختیار کر لے۔
لیکن آپکا کہنا درست ہے، کہ انسان کے مذہب سے اںصاف کا تعلّق نہیں ہوتا، اسکا تعلّق ضمیر سے ہوتا ہے۔
انصاف کا مذھب سے کیا لینا دینا ...انصاف انصاف ہے ..اگر اس کا تعلق مذھب سے ہوتا تو ہم سیکنڈ لاسٹ نہ آتے فہرست میں
ثاقب نثار کی نہ پوچھیں ..وہ ہر وہ کام کرتے تھے جو ان کے کرنے کا نہیں تھا اور ہر وہ کام نہیں کرتے تھے جو ان کو کرنا چاہئے تھا
جی ٹھيک کہاُکے انصاف کا تعلق مذہب سے نہيں ، ليکن کچھ تعلق دين سے ہے۔ اگر دين تھوڑا سا بھی زندگيوں ميں ہوتا تو ہمارا يہ حال نہ ہوتا۔
جذبہ ایمانی ؟؟؟جو اگر ہوتا تو نوبت یہاں تک پہنچتی
اور جہاں تک میری بات ہے میری تو ہر بات ہی درست ہوتی ہے
?
جی، بلکل، ان میں صرف جذبہ ’’بے ایمانی‘‘ ہی کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ زیادہ ہی کوُٹا گیا لگتا ہے۔۔۔۔ہیئت ہی بدل گئی ہے ان کی۔ تھیلے کی جگہہ بوریاں لگتے ہیں یہ، انصاف کی بوریاں۔
جی، جی، بلکل پاکستانی عدلیہ کی طرح۔ بات ہمیشہ آپ کی درست ہوتی ہے، بس مسائل تو پیرائے اور پسِ منظر میں ہوتے ہیں۔ اب وہ خود سے اپنے آپ کو آپ کی بات کے حساب سے درست نہ کریں، تو آپکا کیا قصور؟
بندہ بھی عقل کل سے کم راضی نہیں ہوتا ۔ آپ کی تحریریں ظاہر کرتیں ہیں کہ باڑ کے دونوں طرف گوشہ نشینی ہے ۔
اجی، ہم خاک نشینوں کی کیا خاک گوشہ نشینی؟ عقل کل ہو یا جزوی، دیوانوں کے کس کام کی؟ خواب منطق نہیں جانتے، نیّت نمائش نہیں مانتی اور نصیب ممکنات نہیں پہچانتے۔
باڑھ کہیں خاردار تو نہیں؟ خرد والے اکثر سوچ میں پڑجاتے ہیں، تو ایک ہی طرف رہتے ہیں۔
مگر ادھر کیا ہے؟ سوائے خونِ جگر، سو جگر میں خاک نہیں
جو باڑ کے دونوں جانب بستے ہیں وہ حریری لباس سے پرھیز کرتے ہیں ۔ حالانکہ کانٹے تو دامن کو تھام لیتے ہیں ۔ ان سے خوف کیسا ؟
گر یہ خار کبھی بامِ انسانیت کی حدود پر معمور ہوں تو ان گُلوں سے لاکھ گنا بہتر جنکے پیراہن ہی کاغذی ہوں۔
مگر جو انسان کو ہی جدا کریں، ایسی باڑھوں سے بے خودی کا پرہیز کیونکر ممکن؟
کہ خرد کے خال بھی کبھی احاطہ پروانگی کرسکے؟
بے شک انسانی کردار اپنے ماحول کی پہچان ہے ۔ جو تفرقوں ، نفرت اور بغض کی تاریک اور دھندلی راہوں میں نہ دھکیل دے وہ سیاست کیسی ۔ جو انسان کو اپنے رب سے متنفر نہ کردے وہ مذھبی پیشوائیت کیسی ۔ اورجو انسانی کھوپڑیوں کے مینار نہ تعمیر کرے وہ طاقت کیسی ۔ کل من علیھا فان ۔