ویسے تو مجھے شیعہ اور سنی ہونے یا کسی بھی فرقہ سے تعلق رکھنے کے کانسیپٹ ہی سے نفرت ہے لیکن۔۔۔
یہ بیوقوف اتنا تردد کر رہا ہے کہ سنیًوں کو غلط ثابت کر سکے لیکن اس کا تو اپنا بنیادی پوائنٹ ہی غلط ہے۔ اگر اس کی ساری باتیں مان بھی لی جائیں تو صرف ایک پوائینٹ پر ہی یہ خود غلط ثابت ہو جاتا ہے۔ وہ پوائنٹ یہ ہے کہ حضرت حسین جنگ کے لئے نکلے ہی نہی تھے۔ اگر ساری باتیں صحیح بھی ہوں تو حضرت حسین کسی جماعت کے خلاف جہاد پر نہی بلکہ ان لوگوں کے ظلم سے بچ کر مکہ سے نکلے اور اپنی فیملی کو لے کر کوفہ کی طرف ہجرت کی۔ اگر وہ جنگ کے لئے نکلے ہوتے تو کیا بچوں اور عورتوں سمیت صرف ۷۲ لوگ لے کر نکلتے یا ایک لشکر ان کے ساتھ ہوتا۔ اس لئے اگر یہ سنیوں کی کتابوں سے یہ ثابت بھی کردے کہ ایک ظالم اور فاسق مسلم حکمران کے خلاف بھی بغاوت نہی کی جاسکتی اور ایسا کرنے والا واجب القتل ہے تب بھی یہ الزام حضرتِ حسینؓ پر فِٹ ہی نہی بیٹھتا کیونکہ وہ بغاوت اور جہاد کے لئے کوفہ نہی جا رہے تھے۔
جہاں تک اس حدیث بارے بات ہے کہ چاہے تم پر ایک غلام ہی حکمران کیوں نہ بنا دیا جائے۔۔۔۔ تو اسے سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ حدیث میں لفظ بن جائے نہی بلکہ بنا دیا جائے لکھا گیا ہے۔ اس میں اس حکمران کا ذکر نہی کہ جو خود ہی مایٹ از رائیٹ کے تحت اپنے خلیفہ ہونے کا اعلان کرکے اپنے ظلم سے ڈرا کر لوگوں کی بیعت لے لے بلکہ یہاں اسلامی طریقے سے کسی حکمران کے چناؤ یعنی اسے بنائے جانے کا ذکر ہے اور چاہے وہ ایک غلام یا نا مناسب چائس ہی کیوں نہ ہو۔ اس حساب سے دیکھو تو نہ تو معاویہؓ اور نہ ہی ملعون یزید کو خلیفہ بنایا گیا تھا بلکہ ان دونوں باپ بیٹے نے تو طاقت کے زور پر ایسا کیا۔ اسلامی سلطنت کے دارلخلافہ کے معزیزین نے تو پہلے حضرت علیؓ کو خلیفہ چنا اور معاویہ نے ان کے خلاف بغاوت کی اور خود کو خلیفہ ڈکلیئر کیا اور اس کے بعد پھر یزید نے دھونس اور وراثت کے تحت خود کو خلیفہ ڈکلئیر کرکے تلوار کے زور پر بیعت لی۔ اگر مذکورہ حدیث پر عمل کیا جاتا تو پہلے واجب القتل معاویہؓ ٹھہرتے۔