!گورنرز سٹیٹ بنک کے استعفے

maksyed

Siasat.pk - Blogger
!گورنرز سٹیٹ بنک کے استعفے
سعید آسی

جب سٹیٹ بنک کی ہر سہ ماہی مانیٹری پالیسی میں افراط زر کے جستیں بھرنے اور مہنگائی کی شرح میں مزید اضافے کی تصویر دکھائی جا رہی ہو اور اس کے ساتھ ہی گورنر سٹیٹ بنک کی جانب سے پورا حساب کتاب رکھتے ہوئے اس خرابی کا ملبہ حکمرانوں پر ڈال کر قوم کو باور کرایا جا رہا ہو کہ قرضے پر قرضہ لینے والے یہی حکمران آپ پر مسلط ہونے والی مہنگائی کے ذمہ دار ہیں تو ایسے گورنر سٹیٹ بنک کے لئے یا تو اپوزیشن میں کوئی کردار متعین ہونا چاہئے یا حکومت کے عتاب کا نشانہ بن کر اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے نظر آنا چاہئے، گورنر سٹیٹ بنک شاہد حفیظ کاردار کا تو سیاسی پس منظر بھی موجود ہے اس لئے تصور کیا جا سکتا ہے کہ وہ حکمرانوں سے کوئی پرانا بدلہ چکانا چاہتے ہوں گے مگر یہ کیا ہے کہ سٹیٹ بنک کے غیر سیاسی گورنر بھی مہنگائی کے مارے عوام کو ان کے حکمرانوں کی بے تدبیریوں کا ہی آئینہ دکھاتے رہے۔ خاتون گورنر شمشاد اختر تو اپنے پروفیشنلزم کی بنیاد پر اس بلند ترین منصب تک پہنچی تھیں کسی سرکاری ملازم کے لئے اپنی ریٹائرمنٹ یا کنٹرکیٹ کی میعاد پوری کرکے ریٹائر ہونا اس کی پیشہ وارانہ زندگی کی باعزت تکمیل کی صورت میں اس کا اعزاز بن جاتا ہے اور کوئی سرکاری ملازم اس اعزاز سے محروم نہیں ہونا چاہے گا مگر خاتون گورنر سٹیٹ بنک کو اپنی میعاد ملازمت پوری ہونے کے قریب پہنچنے پر باعزت ریٹائرمنٹ والے اعزاز کو خود ہی چھوڑنے کا ناگوار فیصلہ کرنا پڑا تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ قومی اقتصادی پالیسیوں پر موجودہ حکمرانوں کے بے جا دباﺅ کے باعث کرب کی کس کیفیت سے گزر رہی ہوں گی۔


ان کے جانشین سلیم رضا گورنر سٹیٹ بنک کے منصب عالیشان پر تعینات ہوئے تو حکمرانوں نے یہ تصور کرکے طمانیت کا سانس لیا ہو گا کہ اب گورنر کی عقل سلیم کے بجائے حکومتی رضا کارگر اور کارآمد رہے گی مگر سلیم رضا نے تو آتے ہی چھانٹا پکڑ لیا۔ ان کی زیر صدارت سٹیٹ بنک کی سہ ماہی مانیٹری پالیسی مرتب ہو تی تو اس پر حکمرانوں کے لئے وارننگ ضرور رکھی جاتی۔ آپ حکومتی معاملات چلانے کے لئے مزید قرضے لینا بند کرو ورنہ معیشت دیوالیہ ہو جائے گی۔ یہ وارننگ مہنگائی کے بوجھ تلے دبی قوم کے لئے بھی ایک پیغام ہوتا تھا کہ آپ ایسے بے تدبیر حکمرانوں کو قبول کئے رکھیں گے تو مہنگائی کا عفریت آپ کو ادھیڑتا جھنجھوڑتا ہی رہے گا، اس وارننگ پر حکمران سمجھے نہ قوم نے انگڑائی لی مگر سلیم رضا کو بطور گورنر اپنے ملازمتی معاہدے کی میعاد آدھی گزرنے پر ہی اس منصب کو خیرباد کہنا پڑا، اور اب خدا خیر کرے، گورنر سٹیٹ بنک شاہد حفیظ کاردار تو اپنے تین سالہ منصب کے 9 ماہ پورے ہونے سے بھی پہلے عاجز آ کر یہ منصب واپس لوٹانے کا اعلان کئے بیٹھے ہیں۔ یاالہی یہ ماجرا کیا ہے؟ پہلے ان کے بارے میں خبر آئی کہ وہ پراسرار طور پر غائب ہو گئے ہیں۔ اگلے روز میڈیا نے قافیہ لگایا کہ کہیں وہ بھی تو اپنے پیشروﺅں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے گھر واپس نہیں لوٹ گئے اور پھر اس سے اگلے دن یہ قافیہ درست ثابت ہو گیا، شاہد حفیظ کاردار میڈیا کے سامنے آئے اور اعلان کیا کہ میں حکمرانوں کی ناقص اقتصادی پالیسیوں کا ساتھ نہیں دے سکتا اس لئے گورنر سٹیٹ بنک کا منصب چھوڑ آیا ہوں۔

موجودہ حکمرانوں کے اقتدار کے 39 ماہ کے دوران سٹیٹ بنک کے تیسرے گورنر کا حکومتی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے فارغ ہو کر گھر واپس جانا شائد حکمرانوں کے لئے کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہو گی کہ انہوں نے اداروں کی خودمختاری کی پاسداری کرنا سیکھا ہی نہیں مگر ان کی من مانیوں سے ملک کا اقتصادی ڈھانچہ غیر متوازن ہو کر دھڑام سے نیچے آن گرے گا تو ملک کی بقا کی بھی کوئی ضمانت مل پائے گی یا نہیں؟ بجائے اس کہ حکمرانوں کی من مانیوں سے عاجز آ کر ہر خوددار گورنر سٹیٹ بینک کو مقررہ مدت سے پہلے ہی اپنا منصب چھوڑ کر جانا پڑے، کیا یہ مناسب نہیں کہ ہر گورنر سٹیٹ بنک کے استعفے کا باعث بننے والی خرابیوں کا کھوج لگا لیا جائے۔

آخر یہ سارے گورنر سٹیٹ بنک حکومتی پالیسیوں سے بدکتے کیوں نظر آتے ہیں۔ میں نے اپنے تجسس کی بنیاد پر کھوج لگانے کی کوشش کی تو ایک سرا یہ ہاتھ آیا کہ موجودہ حکمران گورنر سٹیٹ بنک کو نوٹ چھاپنے والی مشین کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں وہ اپنے پیدا کردہ ہر مرض اور اپنی بے ضابطگیوں کے نتیجہ میں پیچیدہ ہونے والے ہر مرض کے علاج کا یہی مجرب نسخہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ نوٹ چھاپو اور خلاصی پاﺅ۔ اگر وہ حکمرانوں کی فرمائشیں پوری کرتے ہوئے بے دریغ نوٹ چھاپتے اور سکے ڈھالتے رہیں گے تو قاعدے قانون کے بغیر مارکیٹ میں آنے والی اس کرنسی پر اعتبار کون کرے گا۔ ہمارا روپیہ اپنی قدر کھوتا کھوتا پہلے ہی اتنا بے وقعت ہو گیا ہے کہ بوریاں بھر کر شاپنگ کے لئے مارکیٹوں میں لے جائی جانے والی افغانستان اور انڈونیشیا کی کرنسی بھی اس پر بھاری پڑنے لگی ہے۔ آج عالمی سطح پر کرنسی کی شرح تبادلہ کا جائزہ لیں تو ہمارا روپیہ عملاً ٹکے ٹوکری نظر آئے گا۔ پچھلی دہائی میں بھارتی روپیہ بھی پاکستانی روپے سے چار آنے پیچھے تھا۔ تھائی لینڈ کا بھات ہمارے روپے سے کوسوں دور تھا مگر ہمارے حکمرانوں نے ایسا چھو منتر چلایا کہ بھات پاکستان کے اڑھائی روپے کے برابر آ گیا اور بھارتی روپیہ پاکستان کے ڈیڑھ روپے سے بھی بھاری ہو گیا۔

یہی وہ چھو منتر ہے جو سٹیٹ بنک کے کسی بھی گورنر کے وارے میں نہیں آ رہا۔ آپ بنکوں سے بےدریغ قرضہ اور اوور ڈرافٹ بھی لئے جا رہے ہوں اور جعلی کرنسی کی طرح اصلی نوٹ بھی دھڑا دھڑ چھاپ کر مارکیٹ میں پھینک رہے ہوں تو اس سے پیدا ہونے والا افراط زر وہی اقتصادی تباہی لائے گا جس کا خوف کھاتے ہوئے کوئی گورنر سٹیٹ بنک اس ذمہ داری کو اپنے سر لینے پر آمادہ نہیں ہو رہا۔ اس لئے کیا اب اپنے عہد اقتدار میں تیسرے گورنر سٹیٹ بنک کے استعفے سے ہمارے حکمرانوں کو تھوڑی بہت عبرت نہیں حاصل کر لینی چاہئے؟ اب شاہد حفیظ کاردار کو منا کر واپس لانے کی کوشش کرنے کے بجائے اپنی ہی اصلاح کر لی جائے۔ شاہد حفیظ کاردار نے استعفٰی دے کر درحقیقت آپ
!کو سنبھلنے کا موقع فراہم کیا ہے۔