یہ قانون فیک نیوز کے نام پر سچی خبروں کو بند کرنے کا طریقہ ہے: سہیل وڑائچ

fake-news-suhailww.jpg


سینئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے ہے کہ پیکا آرڈیننس جیسے جابرانہ ہتھکنڈے پہلی بار نافذ نہیں کیے گئے، مگر دنیا میں کہیں بھی ایسے قوانین سے فائدے نہیں ملے۔

جیو نیوز کے پروگرام " رپورٹ کارڈ " میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ دنیابھر میں ایسے قوانین نافذ کرکے تجربے کیے گئے مگر اس سے نقصان ہوا ہے، اب فیک نیوز کی جگہ مذاق، کامیڈی ، افواہوں اور سرگوشیاں ہونے لگیں گی۔

انہوں نے کہا کہ اب لوگ پاکستانی واٹس ایپ اور دیگر چینلز کے بجائے دوسرے ممالک کے پلیٹ فارمز استعمال کیا کریں گے، اب لوگ آل انڈیا ریڈیو سننے لگے گے، یہ کوئی اچھا رجحان نہیں ہوگا کیونکہ اس سے پاکستان کے لوگوں، میڈیا اور اداروں پر اعتماد میں کمی آئے گی۔


سہیل وڑائچ نے کہا کہ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں بھی ایسے سینسر شپ کے قوانین سامنے لائے گئے، ایوب خان کے زمانے میں بھی ایسے ہی کنٹرول تھا کہ اخبارات جعلی خبریں پھیلاتے ہیں لیکن کنٹرول کے بعدسچی خبریں بھی بند کی جاتی رہیں، یہ قانون بھی فیک نیوز کے نام پر سچی خبروں کو بند کرنے کا ایک طریقہ ہے۔

سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ جو چیز حکومت کو پسند نہیں آئے گی اسے فیک نیوز قرار دیدیا جائے گا، اور عوام کے مفاد کی سچی خبروں کو نشر ہونے سے روک دیا جائے گا، یہ وہی ہتھکنڈے ہیں جو ماضی میں جابرانہ ادوار میں استعمال کیے جاتے رہے ہیں اور میں اس قانون کو مسترد کرتا ہوں۔

پاکستان کے آئین میں لوگوں کو اظہار رائے کی آزادی دی گئی ہے اور فری سپیچ کی گارنٹی دی گئی ہے، یہ آرڈیننس فری اسپیچ کے بنیادی حق کے خلاف ہے،یہ قانون کبھی بھی اسمبلی سے پاس نہیں ہوسکتا، اگر ہوبھی گیا تو اس کی عمر زیادہ نہیں ہوگی۔
 

Terminator;

Minister (2k+ posts)
کسی نے اِس "بیمار کالی مَجھ" جیسے بد بُودار درباری کا گھر دیکھا ہے ؟؟؟
دیکھ لو، اور لوھا کُوٹنے والوں کی اِنکی "پوجا پاٹ" کی وجہ جانو ۔ ۔ ۔
 
Last edited:

Terminator;

Minister (2k+ posts)
sindh-governor-saeeduzzaman-siddiqui-dies-at-79-1572334051-1504.jpg

اب ہر کوئی تو وڈے دلّے کی طرح "نوازنے والا"نہیں ہوتا، جوقبر میں پیر لٹکائے اپنے قصیدہ گو ذاتی نوکروں کو
بھی گورنر کی کُرسی پر بٹھا کر عالمِ ارواح خوشی خوشی رخصت کر دیتا ہے
 

A.jokhio

Minister (2k+ posts)
fake-news-suhailww.jpg


سینئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے ہے کہ پیکا آرڈیننس جیسے جابرانہ ہتھکنڈے پہلی بار نافذ نہیں کیے گئے، مگر دنیا میں کہیں بھی ایسے قوانین سے فائدے نہیں ملے۔

جیو نیوز کے پروگرام " رپورٹ کارڈ " میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ دنیابھر میں ایسے قوانین نافذ کرکے تجربے کیے گئے مگر اس سے نقصان ہوا ہے، اب فیک نیوز کی جگہ مذاق، کامیڈی ، افواہوں اور سرگوشیاں ہونے لگیں گی۔

انہوں نے کہا کہ اب لوگ پاکستانی واٹس ایپ اور دیگر چینلز کے بجائے دوسرے ممالک کے پلیٹ فارمز استعمال کیا کریں گے، اب لوگ آل انڈیا ریڈیو سننے لگے گے، یہ کوئی اچھا رجحان نہیں ہوگا کیونکہ اس سے پاکستان کے لوگوں، میڈیا اور اداروں پر اعتماد میں کمی آئے گی۔


سہیل وڑائچ نے کہا کہ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں بھی ایسے سینسر شپ کے قوانین سامنے لائے گئے، ایوب خان کے زمانے میں بھی ایسے ہی کنٹرول تھا کہ اخبارات جعلی خبریں پھیلاتے ہیں لیکن کنٹرول کے بعدسچی خبریں بھی بند کی جاتی رہیں، یہ قانون بھی فیک نیوز کے نام پر سچی خبروں کو بند کرنے کا ایک طریقہ ہے۔

سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ جو چیز حکومت کو پسند نہیں آئے گی اسے فیک نیوز قرار دیدیا جائے گا، اور عوام کے مفاد کی سچی خبروں کو نشر ہونے سے روک دیا جائے گا، یہ وہی ہتھکنڈے ہیں جو ماضی میں جابرانہ ادوار میں استعمال کیے جاتے رہے ہیں اور میں اس قانون کو مسترد کرتا ہوں۔

پاکستان کے آئین میں لوگوں کو اظہار رائے کی آزادی دی گئی ہے اور فری سپیچ کی گارنٹی دی گئی ہے، یہ آرڈیننس فری اسپیچ کے بنیادی حق کے خلاف ہے،یہ قانون کبھی بھی اسمبلی سے پاس نہیں ہوسکتا، اگر ہوبھی گیا تو اس کی عمر زیادہ نہیں ہوگی۔
No the law is rightly announced...GEo news and majority of news channels are fake news factory...there is no journalism happening in Pakistan...its all anti state fake propaganda against our country...on behest of Corrupt political mafia and interest of international establishment...