عمران خان نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے استعفے دے کر کچھ نہی کھویا بلکہ اس نے لگاتار بہترین فیصلے کئے ہیں۔اور ان اچھے سیاسی فیصلوں ہی کی بدولت وہ آج اتنا مقبول ہے کہ آج تیرہ پارٹیوں کے اتحاد، اسٹیبلشمنٹ اور ہر قسم کی مخالفت سے بھرپور ایڈمنسٹریشن کے باوجود الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں ہے۔ اور اس نے کمایا یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو گھیرتے گھیرتے کارنر میں لے آیا ہے۔ جو بیوقوف یہ سمجھ رہے ہیں کہ اگر عمران خان استعفے نہ دیتا تو پی ڈی ایم اپنی مرضی کے کیئر ٹیکر نہ لا سکتی وہ خوابوں کی دنیا میں بستے ہیں۔ جب بھی عبوری حکومتیں بنتیں، چاہے وہ آج بنی ہیں یا سات ماہ بعد بنتیں، پی ڈی ایم نے کسی ایک بندے پر راضی ہونا ہی نہی تھا اور تعیناتی پھر بھی الیکشن کمیشن آف جی ایچ کیو ہی سے کرائی جانی تھی اور پھر بھی وزیراعلی محسن نقوی ہی بنتا اور وزیراعظم بھی ایسا ہی کوئی ان کا اپنا بندہ ہوگا۔
عمران خان کے پاس ایک آپشن یہ بھی تھا کہ حکومت سے نکالے جانے کے بعد چپ کرکے گھر بیٹھ جاتا، نہ جلسے جلوس نکالتا اور نہ استعفے دیتا اور دعا کرتا کہ اسٹیبلشمنٹ اس پر خوش ہوکر اس کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لے یا واقعی نیوٹرل ہو جائے۔ اگر وہ ایسا کرتا تو آج عوام اس کے ساتھ نہ ہوتی پاپولرٹی پندرہ بیس فیصد ہوتی اور اسٹیبلشمنٹ بھی اسی طرح مخالف ہی رہتی۔ اس لئے عمران کے پاس صحیح رستہ ایک ہی تھا، کہ اگر اس میں جرات ہے اور اگر وہ بھیگی بلی کی طرح ڈرپوک نہی تو ان سب کو نام لے لے کر گلے سے پکڑے۔ اور اس نے یہی کیا۔
استعفوں سے عمران خان نے یہ حاصل کیا ہے کہ اب الیکشن کمیشن آف جی ایچ کیو کو اگلے تین ماہ میں ۳۵۲ سیٹوں پر ضمنی یا جنرل الیکشن کرانا پڑے گا یا پھر وہ آئین کی خلاف ورزی پر مجبور ہونگے۔
اسٹیبلشمنٹ الیکشنز ایک سال کے لئے ملتوی کرنے کا پروگرام بنا چکی تھی۔ انہیں اس سے روکنے کے لئے بہترین سیاسی چال ان پر زیادہ سے زیادہ دباؤ بڑھانا ہے۔ استعفے نہ دئیے ہوتے تو فنانشل ایمرجنسی لگا کر الیکشن ملتوی کر دئیے جاتے۔
مہاراج سیاسی جیسے دوست یہ سب جانتے ہیں لیکن ان کا ایجنڈہ کچھ اور ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ استعفے دینے یا نہ دینے سے عبوری وزیراعلی یہی بندہ بننا تھا۔ آئین میں صاف لکھا ہے کہ اگر حزب اقتدار اور اختلاف کسی ایک بندے پر راضی نہی ہوتیں تو فیصلہ الیکشن کمیشن کرے گا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے تمام ادارے اسٹیبلشمنٹ کے تحت چلتے ہیں اور الیکشن کمیشن بھی۔ اگر اسٹیبلشمنٹ آپ کے خلاف ہے تو الیکشن کمیشن بھی آپ کے خلاف۔ اس لئے پی ٹی آئی کو جب سے حکومت سے نکالا گیا ہے اور جب سے عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مزاحمت کی سیاست کا چناؤ کیا ہے اسی دن سے ہی یہ واضح ہے کہ یہ چی کریں یا چیں ان کو صرف تیرہ پارٹیوں کے اتحاد ہی کے خلاف نہی بلکہ اسٹیبلشمنٹ، الیکشن کمیشن، عدلیہ، پولیس اور باقی تمام اداروں کے مشترکہ محاذ کے خلاف الیکشن لڑنا ہے ۔
پی ڈی ایم تو اس کے بائیں ہاتھ کی مار ہے لیکن اس کا اصل مقابلہ طاقت ور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہے۔ وہ اسٹیبلشمنٹ کو بیک فٹ پر لے آیا۔ اس نے وہ کیا جو پاکستان میں کوئی سوچ بھی نہی سکتا تھا۔ آج نہ صرف پی ٹی آئی بلکہ ن لیگ کا ادنیٰ سا ووٹر بھی یہی کہتا ہے کہ فوج نے اس ملک کو ڈبو دیا ہے لیکن وہ اب بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہی۔ عمران خان شاید دوبارہ وزیراعظم نہ بن سکے یا ہو سکتا ہے وہ الیکشنز سے پہلے ہی مار دیا جائے یا عمر بھر کے لئے ڈس کوالیفائی کردیا جائے لیکن وہ ایک تحریک کا آغاز کر چکا ہے، وہ ایک رستہ دکھا چکا ہے اور بتا چکا ہے کہ کون کون اس ملک کو لوٹ رہے ہیں اور کون کون اپنی پاور کی خاطر اس کو ڈبو رہے ہیں۔ وزیراعظم بننا تاریخ میں کوئی اہمیت نہی رکھتا لیکن عمران خان پاکستان کی مختصر سی تاریخ میں کافی بڑی جگہ بنا چکا ہے۔ اگر یقین نہی تو جنرل باجوہ سے جا کر پوچھ لو۔