indigo
Siasat.pk - Blogger
ارباب منہاج القرآن کی خدمت میں
[TABLE="width: 595"]
[TR]
[TD="colspan: 2"]
[/TR]
[TR]
[TD]
[/TD]
[TD="width: 40"]
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD]
[/TD]
[TD="width: 40"]
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD]
[/TR]
[/TABLE]
[TR]
[TD="colspan: 2"]
ارباب منہاج القرآن کی خدمت ميں : اول
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD]
[/TD]
[TD="width: 40"]
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD]
[/TD]
[TD="width: 40"]
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD]
پروفيسر طاہر القادری صاحب کے دينی نقطہ نظر کے بارے ميں کچھ بہت حسن ظن تو مجھے اِس سے پہلے بھی نہيں تھا، ليکن١١، نومبر ١٩٨٨ کی شام جب صديق مکر م ڈاکٹرمنير احمد صاحب کے توجہ دلانے پر سورہ الضحٰی کے بارے ميں اُن کی تقرير کا کچھ حصہ ميں نے ٹيلی وژن پرسنا تو حقيقت يہ ہے کہ کچھ دير تک مجھے يقين نہيں ہوا کہ يہ فی الواقع پروفيسر طاہر القادری ہی ہيں جن کے رشحات فکر اِس وقت ميں سن رہا ہوں۔
مجھے نہيں معلوم، اِس سے پہلے کيا کيا نوادر تحقيق وہ اِس سورہ کے معانی و مطالب سے متعلق اپنے سامعين کی خدمت ميں پيش کر چکے تھے۔ ميں نے جب ٹيلی وژن کھولا تو اِس سورہ کی آيت 'وَوَجَدَكَ ضَآلّاً فَهَدٰی' زير بحث تھی۔ انھوں نے اِس کا ترجمہ اِس طرح کيا: ''اے محبوب اُس نے تجھے پا ليا تو تيرے ذريعے سے گمراہوں کو ہدايت بخشی۔'' ميں پورے يقين کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کوئی شخص جو عربی زبان سے شد بد واقفيت بھی رکھتا ہو، اِس آيت کا یہ ترجمہ نہيں کر سکتا۔ اِس زبان کی کوئی نئی قسم اگر ''منہاج القرآن'' ميں ايجاد کر لی گئی ہے يا پروفيسر صاحب پر آسمان سے براہ راست الہام ہوئی ہے تو يہ دوسری بات ہے، ليکن وہ عربی زبان جس سے ہم واقف ہيں، جس ميں قرآن نازل ہوا ہے، جس ميں افصح العرب والعجم نے اپنا پيغام بنی آدم تک پہنچايا ہے، جس ميں زہير، امرؤ القيس اورلبيد واعشٰی نے شاعری کی ہے، جس کے قواعد سے بويہ، فرا، زمخشری اور ابن ہشام جيسے علماے عربيت نے ترتيب ديے ہيں، اُس کے بارے ميں يہ بات پوری ذمہ داری کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اُس ميں اِس ترجمے کے ليے کوئی گنجايش نہيں ہے۔ انھوں نے 'ضالاً' کا تعلق 'وجد' سے منقطع کيا ہے۔ اُسے 'هدٰی' کا مفعول مقدم قرار ديا ہے۔ 'ضالاً' کی تنکير اور وحدت، دونوں کو نظر انداز کيا ہے۔ يہ سب کچھ، حقيقت يہ ہے کہ عربی زبان اوراُس کے اساليب سے واقف کوئی شخص ہرگز نہيں کرسکتا۔
سورہ الضحٰی کی يہ آيت اپنے مدعا ميں بالکل واضح ہے۔ اِس کا صاف ترجمہ يہ ہے کہ: ''اے پيغمبر، کيا تيرے پروردگار نے تجھے جوياے راہ پايا تو راہ نہ دکھائی؟'' يہ جملہ چونکہ 'اَلَمْ يجِدْكَ يتِيمًا فَاٰوٰی'پر معطوف ہے، اِس وجہ سے استفہام اور نفی کا جو اسلوب اُس ميں اختيار کيا گيا ہے، وہ يہاں بھی اثر انداز ہو گا۔'وجد'اس آيت ميں افعال قلوب کے طريقے پر دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوا ہے۔ چنانچہ لفظ 'ضالاً' کو اِس آيت ميں زبان کے کسی قاعدے کے مطابق بھی فعل'هدٰی' کا مفعول قرار نہيں ديا جاسکتا۔
پروفيسر طاہر القادری صاحب اگر يہ ماننا نہيں چاہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم بھی کبھی جوياے راہ تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھی راہ دکھائی تو وہ اپنے اِس نقطہ نظر پر قائم رہيں، ليکن اُنھيں معلوم ہونا چاہيے کہ اُن کا يہ نقطہ نظر قرآن کے صريح نصوص کے بالکل خلاف ہے۔ اِس ميں شبہ نہيں کہ پيغمبر کبھی کسی ضلالت ميں مبتلا نہيں ہوئے۔ وہ يقينا اُسی فطرت پر تھے جس پر اللہ تعالیٰ نے اُن کو پيدا کيا، ليکن يہ فطرت جن عقائد کو ثابت کرتی ہے، اُن کے تمام لوازم اور تقاضوں کو جاننے کے ليے آپ بھی لامحالہ وحی الٰہی کے محتاج تھے۔ چنانچہ يہی وہ احتياج ہے جس کے بارے ميں اِس سے اگلی آيت ميں فرمايا ہے کہ: ''اور کيا تيرے پروردگار نے تجھے محتاج پايا تو غنی نہ کيا؟'' اِس سورہ کی آخری آيت ميں يہ اِسی غنا کا حق بيان ہوا ہے کہ:'وَاَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ' (اور اپنے پروردگار کی نعمت کی تحديث کرو)۔ يعنی جس طرح تمھارے رب نے تمھيں ہدايت کی یہ نعمت مفت عطا فرمائی ہے، تم بھی اِسی طرح فياضانہ اِس کا چرچا کرو اور ہر مجلس ميں اِس کا ذکر عام کر دو۔ نبوت سے پہلے حضور صلی اللہ عليہ وسلم کی يہ حالت نہ ضلالت کی تھی اور نہ اِسے ہدايت قرار دے سکتے ہيں۔ اِس کے ليے صحيح تعبير 'جوياے راہ' ہی کی ہو سکتی ہے۔ عربی زبان ميں لفظ'ضال' اِس معنی ميں بھی استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ موقع کلام کی رعايت سے اِس کا صحيح ترجمہ يہی ہو گا۔
قرآن مجيد کے ترجمے ميں نبی صلی اللہ عليہ وسلم کے ليے، 'اے محبوب' کا طرز تخاطب بھی معلوم نہيں، کس طرح گوار ا کيا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی اِس کتاب ميں حضور صلی اللہ عليہ وسلم کو جہاں بھی مخاطب کيا ہے، آپ کے منصب نبوت و رسالت کے حوالے سے مخاطب کيا ہے۔ جيسے: 'يٰۤاَ يهَا النَّبِیُّ' اور 'يٰۤاَ يهَا الرَّسُوْلُ' يا خطاب کے وقت آپ کی صورت حال کے لحاظ سے تخاطب کا نہايت دل نواز ادبی اسلوب اختيار کيا ہے، جيسے: 'يٰۤاَ يهَا الْمُزَّمِّلُ'اور'يٰۤاَ يهَا الْمُدَّثِّرُ'ہر صاحب ذوق اندازہ کر سکتا ہے کہ قرآن مجيد کے اِن اساليب تخاطب کے مقابلے ميں 'اے محبوب' کا اسلوب کس قدر فروتر اور غير ثقہ ہے۔ اِسے ناموزوں قرار دينے کے ليے تنہا يہی بات کافی ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ عليہ وسلم کے ليے انتہائی التفات کے مواقع پر بھی اپنی کتاب ميں يہ اسلوب اختيار نہيں کيا۔
ہميں بعد ميں بعض احباب نے بتايا کہ پروفيسر صاحب نے سورہ الضحٰی کی اِس آيت کے اِسی طرح کے دوتين اور ترجمے بھی پيش کيے اور اُنھيں بھی اپنے اس ترجمے ہی کی طرح درست قرار ديا۔ يہ اگر فی الواقع صحيح ہے تو ہم بہت معذرت کے ساتھ عرض کريں گے کہ قرآن مجيد کوئی چيستان نہيں ہے کہ اِس کی ہر آيت دو يا تين متضاد مفاہيم کی حامل قرار دی جائے۔ يہ زمين پرخدا کی میزان اور حق وباطل کے ليے ايک قطعی معيار کی حيثيت سے نازل ہوا ہے۔ اِس کی ہر آيت اپنے سياق و سباق ميں بندھی ہوئی اور اپنے مفہوم پر ايک واضح حجت ہے۔ اِس ميں شبہ نہيں کہ لغت ميں ايک لفظ کے دس معنی ہوسکتے ہيں اورنحو ميں ايک تاليف کودس طريقوں سے بيان کيا جاسکتا ہے،ليکن لفظ جب جملہ بنتا اور جملہ کسی کلام کا حصہ قرار پاتا ہے اور اُس کے ليے ايک سياق وسباق وجو د ميں آ جاتا ہے تواُس ميں ايک سے زيادہ معنی کے ليے کوئی گنجايش باقی نہيں رہ جاتی۔ پھر يہ لفظ اور یہ تاليف اگر کسی ايسے کلام کا حصہ بنے جس کا متکلم اِس عالم کا پروردگار ہے،جو اُس کے اپنے ارشادات کے مطابق عربی مبين ميں نازل ہوا ہے، جسے خود اُس نے حق وباطل کے ليے فرقان قرار ديا ہے،جس کی صداقت کی دليل اُس نے يہ بےان کی ہے کہ اِس ميں تم ہرگزکوئی تضاد يا تناقض تلاش نہيں کرسکتے،تو اُس کے بارے ميں يہ تصور بھی نہيں کيا جاسکتا کہ کسی جگہ ايک سے زيادہ مفاہيم کا کوئی احتمال باقی رہ جائے گا۔آدمی کی عربی خام ہو اوراُس کا ادبی ذوق پست ہويا وہ سياق وسباق کی رعايت ملحوظ رکھے بغير قرآن کی ہرآيت کو الگ الگ کرکے اُس کا مدعا سمجھنے کی کوشش کرے تو يہ البتہ ممکن ہے،ليکن عربیت کے کسی جيد عالم اورقرآن کے کسی صاحب ذوق شارح سے يہ چيز کبھی صادر نہيں ہو سکتی۔ يہ کوئی علم نہيں کہ آپ کسی آيت کے دويا تين يااِس سے زيادہ معنی بيان کر ديں، بلکہ علم درحقيقت يہ ہے کہ آپ تمام احتمالات کی نفی کرکے زبان وبيان کے قابل اعتماد دلائل کے ساتھ يہ ثابت کرديں کہ آيت جس سياق وسباق ميں آئی ہے،اُس ميں اُس کا يہی ایک مفہوم ممکن ہے تاکہ اللہ کی يہ کتاب فی الواقع ايک ميزان کی حيثيت سے اِس امت کے سامنے آئے اور اِس طرح تشتت وافتراق کے بجائے يہ امت کے ليے فصل نزاعات اور وحدت فکر وعمل کا ذريعہ بنے۔
ہوسکتا ہے کہ ہماری يہ تنقيد پروفيسرصاحب اور اُن کے معتقدين کے ليے گراں
باری خاطر کا باعث ہو، ليکن حق بہر حال حق ہے اور اُس کی حميت کا تقاضا يہی ہے کہ اُسے ملامت کرنے والوں کی ملامت کی پروا کيے بغير برملا ظاہر کر ديا جائے۔ ہم ميں سے ہر شخص کو ايک دن اُس عدالت ميں پيش ہونا ہے، جہاں ہمارے وجود کا باطن ہمارے ظاہر سے زيادہ برہنہ ہو گا او رخود ہمارا وجود بھی صاف انکار کر دے گا کہ وہ اُسے چھپائے۔ہماری زبان اُس روز بھی معنی و مفہوم کو لفظوں کا جامہ پہنا سکے گی، ليکن اُس د ن يہ جامہ کسی معنی کو چھپانے کی صلاحيت سے محروم ہو جائے گا۔ ہمارے ہاتھ اور پاؤں اُس روز بھی ہمارے وجود کا حصہ ہوں گے، ليکن ہمارے ہر حکم کی تعميل سے قاصر ہو جائيں گے۔حقيقت اپنی آخری حد تک بے نقاب ہوجائے گی اورہم ميں سے کوئی شخص اُس روز اُسے کسی تاويل اور توجيہ کے پردوں ميں چھپا نہ سکے گا۔ اِس سے پہلے کہ انتہائی عجز اور انتہائی بے بسی کا يہ عالم ہمارے ليے پيدا ہو جائے، بہتر يہی ہے کہ ہم حق اور صرف حق کو اختيار کرنے کا فيصلہ كر ليں۔
وما توفيقنا الا باللّه
مجھے نہيں معلوم، اِس سے پہلے کيا کيا نوادر تحقيق وہ اِس سورہ کے معانی و مطالب سے متعلق اپنے سامعين کی خدمت ميں پيش کر چکے تھے۔ ميں نے جب ٹيلی وژن کھولا تو اِس سورہ کی آيت 'وَوَجَدَكَ ضَآلّاً فَهَدٰی' زير بحث تھی۔ انھوں نے اِس کا ترجمہ اِس طرح کيا: ''اے محبوب اُس نے تجھے پا ليا تو تيرے ذريعے سے گمراہوں کو ہدايت بخشی۔'' ميں پورے يقين کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کوئی شخص جو عربی زبان سے شد بد واقفيت بھی رکھتا ہو، اِس آيت کا یہ ترجمہ نہيں کر سکتا۔ اِس زبان کی کوئی نئی قسم اگر ''منہاج القرآن'' ميں ايجاد کر لی گئی ہے يا پروفيسر صاحب پر آسمان سے براہ راست الہام ہوئی ہے تو يہ دوسری بات ہے، ليکن وہ عربی زبان جس سے ہم واقف ہيں، جس ميں قرآن نازل ہوا ہے، جس ميں افصح العرب والعجم نے اپنا پيغام بنی آدم تک پہنچايا ہے، جس ميں زہير، امرؤ القيس اورلبيد واعشٰی نے شاعری کی ہے، جس کے قواعد سے بويہ، فرا، زمخشری اور ابن ہشام جيسے علماے عربيت نے ترتيب ديے ہيں، اُس کے بارے ميں يہ بات پوری ذمہ داری کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اُس ميں اِس ترجمے کے ليے کوئی گنجايش نہيں ہے۔ انھوں نے 'ضالاً' کا تعلق 'وجد' سے منقطع کيا ہے۔ اُسے 'هدٰی' کا مفعول مقدم قرار ديا ہے۔ 'ضالاً' کی تنکير اور وحدت، دونوں کو نظر انداز کيا ہے۔ يہ سب کچھ، حقيقت يہ ہے کہ عربی زبان اوراُس کے اساليب سے واقف کوئی شخص ہرگز نہيں کرسکتا۔
سورہ الضحٰی کی يہ آيت اپنے مدعا ميں بالکل واضح ہے۔ اِس کا صاف ترجمہ يہ ہے کہ: ''اے پيغمبر، کيا تيرے پروردگار نے تجھے جوياے راہ پايا تو راہ نہ دکھائی؟'' يہ جملہ چونکہ 'اَلَمْ يجِدْكَ يتِيمًا فَاٰوٰی'پر معطوف ہے، اِس وجہ سے استفہام اور نفی کا جو اسلوب اُس ميں اختيار کيا گيا ہے، وہ يہاں بھی اثر انداز ہو گا۔'وجد'اس آيت ميں افعال قلوب کے طريقے پر دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوا ہے۔ چنانچہ لفظ 'ضالاً' کو اِس آيت ميں زبان کے کسی قاعدے کے مطابق بھی فعل'هدٰی' کا مفعول قرار نہيں ديا جاسکتا۔
پروفيسر طاہر القادری صاحب اگر يہ ماننا نہيں چاہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم بھی کبھی جوياے راہ تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھی راہ دکھائی تو وہ اپنے اِس نقطہ نظر پر قائم رہيں، ليکن اُنھيں معلوم ہونا چاہيے کہ اُن کا يہ نقطہ نظر قرآن کے صريح نصوص کے بالکل خلاف ہے۔ اِس ميں شبہ نہيں کہ پيغمبر کبھی کسی ضلالت ميں مبتلا نہيں ہوئے۔ وہ يقينا اُسی فطرت پر تھے جس پر اللہ تعالیٰ نے اُن کو پيدا کيا، ليکن يہ فطرت جن عقائد کو ثابت کرتی ہے، اُن کے تمام لوازم اور تقاضوں کو جاننے کے ليے آپ بھی لامحالہ وحی الٰہی کے محتاج تھے۔ چنانچہ يہی وہ احتياج ہے جس کے بارے ميں اِس سے اگلی آيت ميں فرمايا ہے کہ: ''اور کيا تيرے پروردگار نے تجھے محتاج پايا تو غنی نہ کيا؟'' اِس سورہ کی آخری آيت ميں يہ اِسی غنا کا حق بيان ہوا ہے کہ:'وَاَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ' (اور اپنے پروردگار کی نعمت کی تحديث کرو)۔ يعنی جس طرح تمھارے رب نے تمھيں ہدايت کی یہ نعمت مفت عطا فرمائی ہے، تم بھی اِسی طرح فياضانہ اِس کا چرچا کرو اور ہر مجلس ميں اِس کا ذکر عام کر دو۔ نبوت سے پہلے حضور صلی اللہ عليہ وسلم کی يہ حالت نہ ضلالت کی تھی اور نہ اِسے ہدايت قرار دے سکتے ہيں۔ اِس کے ليے صحيح تعبير 'جوياے راہ' ہی کی ہو سکتی ہے۔ عربی زبان ميں لفظ'ضال' اِس معنی ميں بھی استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ موقع کلام کی رعايت سے اِس کا صحيح ترجمہ يہی ہو گا۔
قرآن مجيد کے ترجمے ميں نبی صلی اللہ عليہ وسلم کے ليے، 'اے محبوب' کا طرز تخاطب بھی معلوم نہيں، کس طرح گوار ا کيا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی اِس کتاب ميں حضور صلی اللہ عليہ وسلم کو جہاں بھی مخاطب کيا ہے، آپ کے منصب نبوت و رسالت کے حوالے سے مخاطب کيا ہے۔ جيسے: 'يٰۤاَ يهَا النَّبِیُّ' اور 'يٰۤاَ يهَا الرَّسُوْلُ' يا خطاب کے وقت آپ کی صورت حال کے لحاظ سے تخاطب کا نہايت دل نواز ادبی اسلوب اختيار کيا ہے، جيسے: 'يٰۤاَ يهَا الْمُزَّمِّلُ'اور'يٰۤاَ يهَا الْمُدَّثِّرُ'ہر صاحب ذوق اندازہ کر سکتا ہے کہ قرآن مجيد کے اِن اساليب تخاطب کے مقابلے ميں 'اے محبوب' کا اسلوب کس قدر فروتر اور غير ثقہ ہے۔ اِسے ناموزوں قرار دينے کے ليے تنہا يہی بات کافی ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ عليہ وسلم کے ليے انتہائی التفات کے مواقع پر بھی اپنی کتاب ميں يہ اسلوب اختيار نہيں کيا۔
ہميں بعد ميں بعض احباب نے بتايا کہ پروفيسر صاحب نے سورہ الضحٰی کی اِس آيت کے اِسی طرح کے دوتين اور ترجمے بھی پيش کيے اور اُنھيں بھی اپنے اس ترجمے ہی کی طرح درست قرار ديا۔ يہ اگر فی الواقع صحيح ہے تو ہم بہت معذرت کے ساتھ عرض کريں گے کہ قرآن مجيد کوئی چيستان نہيں ہے کہ اِس کی ہر آيت دو يا تين متضاد مفاہيم کی حامل قرار دی جائے۔ يہ زمين پرخدا کی میزان اور حق وباطل کے ليے ايک قطعی معيار کی حيثيت سے نازل ہوا ہے۔ اِس کی ہر آيت اپنے سياق و سباق ميں بندھی ہوئی اور اپنے مفہوم پر ايک واضح حجت ہے۔ اِس ميں شبہ نہيں کہ لغت ميں ايک لفظ کے دس معنی ہوسکتے ہيں اورنحو ميں ايک تاليف کودس طريقوں سے بيان کيا جاسکتا ہے،ليکن لفظ جب جملہ بنتا اور جملہ کسی کلام کا حصہ قرار پاتا ہے اور اُس کے ليے ايک سياق وسباق وجو د ميں آ جاتا ہے تواُس ميں ايک سے زيادہ معنی کے ليے کوئی گنجايش باقی نہيں رہ جاتی۔ پھر يہ لفظ اور یہ تاليف اگر کسی ايسے کلام کا حصہ بنے جس کا متکلم اِس عالم کا پروردگار ہے،جو اُس کے اپنے ارشادات کے مطابق عربی مبين ميں نازل ہوا ہے، جسے خود اُس نے حق وباطل کے ليے فرقان قرار ديا ہے،جس کی صداقت کی دليل اُس نے يہ بےان کی ہے کہ اِس ميں تم ہرگزکوئی تضاد يا تناقض تلاش نہيں کرسکتے،تو اُس کے بارے ميں يہ تصور بھی نہيں کيا جاسکتا کہ کسی جگہ ايک سے زيادہ مفاہيم کا کوئی احتمال باقی رہ جائے گا۔آدمی کی عربی خام ہو اوراُس کا ادبی ذوق پست ہويا وہ سياق وسباق کی رعايت ملحوظ رکھے بغير قرآن کی ہرآيت کو الگ الگ کرکے اُس کا مدعا سمجھنے کی کوشش کرے تو يہ البتہ ممکن ہے،ليکن عربیت کے کسی جيد عالم اورقرآن کے کسی صاحب ذوق شارح سے يہ چيز کبھی صادر نہيں ہو سکتی۔ يہ کوئی علم نہيں کہ آپ کسی آيت کے دويا تين يااِس سے زيادہ معنی بيان کر ديں، بلکہ علم درحقيقت يہ ہے کہ آپ تمام احتمالات کی نفی کرکے زبان وبيان کے قابل اعتماد دلائل کے ساتھ يہ ثابت کرديں کہ آيت جس سياق وسباق ميں آئی ہے،اُس ميں اُس کا يہی ایک مفہوم ممکن ہے تاکہ اللہ کی يہ کتاب فی الواقع ايک ميزان کی حيثيت سے اِس امت کے سامنے آئے اور اِس طرح تشتت وافتراق کے بجائے يہ امت کے ليے فصل نزاعات اور وحدت فکر وعمل کا ذريعہ بنے۔
ہوسکتا ہے کہ ہماری يہ تنقيد پروفيسرصاحب اور اُن کے معتقدين کے ليے گراں
باری خاطر کا باعث ہو، ليکن حق بہر حال حق ہے اور اُس کی حميت کا تقاضا يہی ہے کہ اُسے ملامت کرنے والوں کی ملامت کی پروا کيے بغير برملا ظاہر کر ديا جائے۔ ہم ميں سے ہر شخص کو ايک دن اُس عدالت ميں پيش ہونا ہے، جہاں ہمارے وجود کا باطن ہمارے ظاہر سے زيادہ برہنہ ہو گا او رخود ہمارا وجود بھی صاف انکار کر دے گا کہ وہ اُسے چھپائے۔ہماری زبان اُس روز بھی معنی و مفہوم کو لفظوں کا جامہ پہنا سکے گی، ليکن اُس د ن يہ جامہ کسی معنی کو چھپانے کی صلاحيت سے محروم ہو جائے گا۔ ہمارے ہاتھ اور پاؤں اُس روز بھی ہمارے وجود کا حصہ ہوں گے، ليکن ہمارے ہر حکم کی تعميل سے قاصر ہو جائيں گے۔حقيقت اپنی آخری حد تک بے نقاب ہوجائے گی اورہم ميں سے کوئی شخص اُس روز اُسے کسی تاويل اور توجيہ کے پردوں ميں چھپا نہ سکے گا۔ اِس سے پہلے کہ انتہائی عجز اور انتہائی بے بسی کا يہ عالم ہمارے ليے پيدا ہو جائے، بہتر يہی ہے کہ ہم حق اور صرف حق کو اختيار کرنے کا فيصلہ كر ليں۔
وما توفيقنا الا باللّه
[/TD][/TR]
[/TABLE]
Last edited by a moderator: