پشاور میں ایک لاکھ 21 ہزار سے زیادہ مکان ہیں جن میں بیشتر کرائے دار مقیم ہیں
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں پولیس نے سرچ آپریشن کے ساتھ ہرگھر کی تفصیلات جمع کرنا شروع کردی ہیں۔
خیبر پختونخوا میں اب ہر کرائے دار کو متعلقہ پولیس تھانے میں اپنے کوائف جمع کرانے ہوں گے وگرنہ قانون کے تحت سخت کارروائی ہو سکتی ہے۔
پشاور میں ایک لاکھ 21 ہزار سے زیادہ مکان ہیں جن میں بیشتر کرائے دار مقیم ہیں۔
کرائے داری کا قانون اس سال مارچ میں صوبائی اسمبلی نے منظور کیا تھا جس کے بعد سے پشاور سمیت مختلف علاقوں میں کرائے کے مکانوں پر رہائش پذیر افراد سے ان کی تفصیلات تھانے میں طلب کی جا رہی ہیں۔
پشاور کے بڑے رہائشی علاقے حیات آباد میں اب ہر گھر کی تفصیلات حاصل کی جا رہی ہیں اور اگر کسی نے اپنی تفصیلات گواہوں اور ضمانت دینے والے افراد کے شناختی کارڈ کے ساتھ تھانے میں جمع نہیں کرائے ان کے خلاف کارروائی کی تنبیہ دی جا رہی ہے۔
ایسی اطلاعات ہیں کہ اتوار کو بعض افراد کو حراست میں بھی لیا گیا ہے ۔
سپرنٹنڈنٹ پولیس محمد فیصل نے بی بی سی کو بتایا کہ حیات آباد میں جاری گھر گھر تلاشی کا عمل جاری ہے اورجو افراد کرائے کے مکانوں میں رہائش پذیر ہیں اور پولیس سے رہائش کا سرٹیفیکیٹ حاصل نہیں کیا انھیں تنبیہ کی جا رہی ہے۔
اس قانون کے تحت پولیس سے سرٹیفیکیٹ حاصل نہ کرنے والے کرائے دار کو 40 ہزار روپے تک جرمانہ اور قید کی سزا ہو سکتی ہے ۔
سپرنٹنڈنٹ پولیس کے مطابق صرف حیات آباد میں نو ہزار مکان ایسے ہیں جن میں کرائے دار مقیم ہیں اور چھ ہزار مکانات میں مالک خود رہتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ اب تک ان کے پاس ساڑھے سات ہزار افراد کا ڈیٹا جمع ہو چکا ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں کرائے داری کا کوئی باقاعدہ قانون نہ ہونے کی وجہ سے جرائم پیشہ افراد ایک ہفتے کے لیے مکان کرائے پر لیتے اور واردات کے بعد فرار ہو جاتے تھے اب ایسا نہیں ہوگا اور ہر شحص کا ریکارڈ تھانے میں موجود ہوگا۔
پشاور میں بڑی تعداد میں لوگ ایسے ہیں جن کے اپنے گھر نہیں ہیں اور وہ کرائے کے مکانوں میں رہائش پذیر ہیں۔
ان کرائے کے مکانوں میں رہائش پذیر افراد کو اب مکمل فارم اور مطلوبہ تمام دستاویزات کے ساتھ تھانے طلب کیا جا رہا ہے۔
ان میں ایسے افراد شامل ہیں جو شاید زندگی میں کبھی تھانے نہیں گئے ۔
ان افراد سے ایک فارم پر تمام تفصیلات کے علاوہ دو گواہان اور ان کے شناختی کارڈ ور پھر ضمانت کے طور پر کس افسر سے ان شناختی کارڈ کی تصدیق کرانا لازمی ہے۔
اکثر لوگوں نے شکایت کی ہے کہ طریقۂ کار انتہائی مشکل بنایا گیا ہے اگر کسی شخص کا شناختی کارڈ نادرا نے بنایا ہے تو وہ ریکارڈ
نادرا سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اس طریقۂ کار کو آسان بنا یا جائے ۔
ان کا کہنا ہے کہ جیسے پولیس گھر گھر جا کر تمام تفصیلات حاصل کر رہی ہے اس کی بنیاد پر پولیس کے پاس تمام ڈیٹا آ سکتا ہے۔
ہمیں بھی بجلی دیں، وزیر اعلیٰ کا وزیر اعظم کو کھلا خط
آخری وقت اشاعت: منگل 15 جولائ 2014 ,* 15:04 GMT 20:04 PST
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے وزیراعظم نواز شریف کو ایک کھلا خط لکھا ہے جس میں ان سے صوبے کے لیے بجلی کی فراہمی بڑھانے سمیت 11 مطالبات کیے گئے ہیں۔
یہ خط ملک کے تمام اہم اخبارات میں اشتہار کی صورت میں شائع کیا گیا ہے۔ خط کے ہمراہ نواز شریف اور پرویز خٹک کی رنگین تصاویر بھی شائع کی گئی ہیں۔
خط میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا کو وعدے کے مطابق 1300 کی بجائے 2000 میگا واٹ بجلی فراہم کی جائے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ پیسکو کو بجلی کی پیدوار، تقسیم، بلوں کی وصولی اور اثاثہ جات جیسے معاملات کے تمام اختیارات صوبائی حکومت کے سپرد کیے جائیں۔
خط میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے بجلی کے منافعے کے چھ ارب روپے ادا کیے جائیں اور وفاق کے قابل تقسیم محاصل میں سے صوبے کے حصے کے واجبات کی بروقت ادائیگی کی جائے تاکہ صوبائی حکومت فلاحِ عامہ کے منصوبوں پر خرچ کر سکے۔
وزیراعلیٰ نے اپنے خط میں مطالبہ کیا ہے کہ 500 میگا واٹ بجلی کی پیداوار کے لیے صوبے میں پیدا ہونے والی گیس کو استعمال کرنے کا حق دیا جائے۔ اس کے علاوہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے تقریباً دس لاکھ افراد کی دیکھ بھال میں مکمل معاونت کی جائے۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ شدت پسندی کے شکار صوبے کو آفت زدہ قرار دیا جائے، اور گریڈ 19 اور 20 کے افسران کو ضابطے کے مطابق صوبے میں تعینات کیا جائے۔
خط میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا میں امن و امان کی نازک صورتحال کے پیش نظر دوسرے صوبوں میں تعینات ایف سی کی نفری کو واپس خیبر پختونخوا بھیجا جائے۔
وفاقی حکومت سے مطالبات کے علاوہ اس کھلے خط میں لوگوں سے یہ اپیل بھی کی گئی ہے کہ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کی قیادت میں صوبے میں طویل لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج میں اپنی شرکت کو یقینی بنائیں۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ انتہائی بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ جب صوبائی حکومت موجودہ بوسیدہ نظام میں حقیقی تبدیلی لانے کےلیے جامع اور ٹھوس اقدامات کرنا چاہتی ہے تو اسے وفاقی حکومت کی جانب سے حوصلہ افزائی کی بجائے انتقامی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
صوبائی حکومت یہ الزام بھی لگاتی رہی ہے کہ مرکز کی طرف سے صوبے کے حصے کی بجلی فراہم نہیں کی جا رہی جس کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
PESHAWAR: Chief Information Commissioner of Khyber Pakhtunkhwa Right to Information (RTI) Commission Sahibzada Mohammad Khalid on Tuesday asked the administrative departments of the provincial government to update their respective official websites regularly and make sure public access to information. Speaking at a press conference at Peshawar Press Club, he said that the trend of maintaining secrecy on departmental level was now the thing of the past. The rule of maintaining official secrecy about information had now been replaced with the access to information under the Khyber Pakhtunkhwa Right to Information Act, he said. http://www.dawn.com/news/1119483/departments-asked-to-ensure-peoples-access-to-information
PESHAWAR: The Khyber Pakhtunkhwa government has transferred 18 doctors and 45 nurses to Bannu and adjoining districts to provide best medical facilities to the displaced people of North Waziristan Agency.
PESHAWAR:Minister for Water & Power Khwaja Asif and Governor KP Sardar Mehtab meet CM Parvez Khattak in Chief Minister House to discuss power crisis. Khawaja Asif requested CM KP to end protest against load shedding. #CMKPProtest