۔1۔ سب سے پہلے ایڈمن حضرات سے سوال ہے کہ وہ کیا واقعی ایسے موضوعات "سیاست" ڈاٹ پی کے پر شروع کرنا چاہتے ہیں؟ ایسے موضوعات کے لیے بہت سے دیگر فورمز موجود ہیں اور "سیاست" ڈاٹ پی کے اپنے موضوع کے اعتبار سے بہترین کام کر رہا ہے اور بطور ممبر میں یہ سمجھتی ہوں کہ اس فورم کو ایسی بحوث میں نہیں پڑنا چاہیے۔ یہ اس فورم کے لیے اچھا نہیں ہے۔
۔2۔ پھر شکریہ نالج سیکر بھائی صاحب کا کہ انہوں نے واقعی اتحاد بین المسلمین کی بات کی اور فتنے کو بڑھنے سے روکا۔ آجکل کے لوگوں سے اللہ نے صبر و ضبط اٹھا لیا ہے اور وہ بات بات پر کفر کے فتوے لگا کر ایک دوسرے پر خود کش حملے کر رہے ہوتے ہیں۔
یہ تمام اختلافات پچھلے چودہ سو سالوں سے موجود تھے مگر قرون اولی کے مسلمانوں میں صبر و ضبط اور دین کی سمجھ اور علم زیادہ تھا، اس لیے وہ اتنے متشدد نہ تھے اور ان اختلافات کی حقیقت کو سمجھتے تھے۔ قاضی ابو یوسف، جو کہ امام ابو حنیفہ کے شاگرد خاص تھے اور خلافت اسلامیہ کے قاضی القضاۃ تھے، اور اسلامی ریاست میں انکا فتوی رائج تھے، انہوں نے کبھی اہل تشیع کو کافر قرار دیتے ہوئے حج پر پابندی نہیں لگائی۔ بلکہ کسی فقیہ اور امام کی جانب سے پوری چودہ سو سالہ تاریخ میں یہ تحریک نظر نہیں آتی جہاں انہوں نے اہل تشیع کے حج کرنے پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہو۔ کیا آپ کے خیال میں یہ فقہاء و ائمہ جاہل تھے اور دین کا کوئی علم نہیں رکھتے تھے کہ کافروں کو چودہ سو سالوں تک بغیر روک ٹوک کے حج کرنے دیتے ہیں اور خانہ کعبہ کو ان سے پاک کرنے کی ایک آواز نہیں اٹھاتے؟
۔3۔ اللہ کا کائنات کا نظام تخلیق کیا اور اسے مرضی سے چلا رہا ہے۔ اس نے "اختلاف" کو انسان کی "فطرت" میں رکھ دیا ہے، مگر ساتھ میں یہ ہنر بھی انسان کو دیا ہے کہ وہ ان اختلافات پر کیسے قابو پائے۔
اگر اللہ چاہتا تو وہ قرآن کے ساتھ ساتھ "حدیث" کو بھی بالکل محفوظ کر دیتا تاکہ بعد میں آنے والے کڑوڑوں مسلمان حدیث میں اختلاف دیکھ کر گمراہ نہ ہو پاتے۔
بلکہ اللہ چاہتا تو توریت، زبور و انجیل کو بھی قرآن کی طرح محفوظ کر دیتا تاکہ کڑوڑوں یہود و نصاری بھی گمراہ نہ ہو پاتے۔
مگر اللہ نے یہ نہیں کیا۔ اللہ نے شریعت نازل کی، مگر نماز کی مکمل تفصیل آپ کو قرآن میں نہیں ملتی۔ اسی وجہ سے آج مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ:۔
۱۔ ایک فرقہ کہتا ہے کہ ہاتھ سینے پر باندھ کر پڑھو۔
۲۔ ایک فرقہ کہتا ہے کہ سینے پر نہیں، بلکہ ناف کے اوپر ہاتھ باندھ کر پڑھو۔
۳۔ ایک فرقہ کہتا ہے کہ نہیں ناف کے نیچے ہاتھ باندھ کر پڑھو۔
۴۔ اور ایک فرقہ کہتے ہے کہ نہیں ہاتھ مکمل طور پر کھول کر نماز پڑھو۔
اب بتلائیے کہ انسان کیا کرے۔ نماز وہ چیز ہے جو رسول اللہ ﷺ نے پورے ۲۳ سال تک لوگوں کے سامنے پڑھی اور دن میں ۵ مرتبہ پڑھی۔ مگر اسکے باوجود آج ہاتھ باندھنے کی جگہ پر اختلاف ہے۔ تو سوال پیدا ہوتا کہ اللہ نے کیوں نہ نماز پڑھنے کے طریقے کو مکمل طور پر قرآن میں نازل فرما دیا؟
اسکا جواب فقط یہ ہے کہ اللہ چاہتا ہے کہ یہ انسان اپنی فطرت کے مطابق اختلاف میں ملوث ہو، مگر دوسری طرف اللہ نے ہی انسان کو صبر و ضبط اور دوسروں کی آراء برداشت کرنے کا مادہ عطا فرمایا ہے ۔
اللہ کا درس: مشترک چیز پر اتحاد و اتفاق کرنے کی نصیحت
اللہ تعالی نے قرآن میں ایک بہت اہم درس دیا ہے جسے یہ آج کے متشدد مسلمان نظر انداز کر جاتے ہیں۔ سورہ آل عمران میں اللہ تعالی فرماتا ہے:۔
[قرآن 3:64] آپ فرما دیں: اے اہلِ کتاب! تم اس بات کی طرف آجاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے، (وہ یہ) کہ ہم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور ہم اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے
اس آیت مبارکہ سے حاصل ہونے والے سبق یہ ہیں:۔
۱۔ اللہ تعالی "انتشار و اختلافی" باتوں کی بجائے "اتحاد و یکساں" چیزوں کو فوقیت دینے کا حکم دے رہا ہے۔
۲۔ ان آج کے متشدد مسلمانوں کے لیے اس میں بہت بڑا سبق ہے۔ شاید کہ یہ اس سے نصیحت حاصل کریں۔ اور یہ متشدد و جنونی مسلمان صرف ایک فرقے میں ہی نہیں، بلکہ ہر فرقے اور ہر قوم میں ایسے متشدد اور جنونی لوگ ہوتے ہیں جو کہ یہ انتشار و اختلاف کا راستہ اختیار کر کے فتنہ پھیلا رہے ہوتے ہیں۔
مولانا اسحق مدنی صاحب کی ویڈیو آپ لوگ اوپر دیکھ چکے ہیں۔ اس سے بہتر نصیحت آپ کو بھلا اور کہاں ملے گی۔
آج کے مسلمان میں اللہ اور اُسکا رسول ﷺ مشترک ہے۔
یہ اللہ اور اسکا رسول ﷺ ہی فقط اور فقط "بنیادی اساس" ہیں۔ اگر کوئی انکے ساتھ ائمہ اہلبیت اور صحابہ کرام کو بھی "بنیادی اساس" قرار دیتا ہے تو یہ بدعت ہو جائے گی۔ ائمہ اہلبیت اور صحابہ کرام بہت مکرم و معظم سہی، مگر اسلام کی بنیادی اساس فقط ان دو اللہ کی وحدانیت اور رسول اللہ ﷺ کی رسالت کی گواہی پر مبنی ہے۔
اہل تشیع اور اہل تسنن میں اللہ اور اسکے رسول ﷺ میں کوئی اختلاف نہیں
اسلام کا کلمہ ہے
اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ و اشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ
یہ وہ کلمہ ہے جس پر اللہ کے رسول ﷺ لوگوں کو مسلمان کرتے تھے۔ ہر مسلمان، چاہے وہ شیعہ ہو یا سنی ہو، وہ یہ مکمل گواہی دیتا ہے اور دل سے یقین رکھتا ہے کہ "اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور وہ وحدہ اور لا شریک ہے، اور اللہ اسکے عبد اور رسول ہیں۔"
چودہ سو سالوں سے یہ بات متفق علیہ ہے کہ جو یہ کلمہ پڑھے گا، وہ دائرہ اسلام میں داخل ہو جائے گا۔ (اہل تشیع کا کوئی اور الگ سے کلمہ نہیں ہے، بلکہ یہی کلمہ اسلام ہے۔ اور جو وہ علیا ولی اللہ کہتے ہیں تو اسے وہ کلمہِ اسلام کا جزو مانتے ہوئے نہیں کہتے بلکہ بطور تبرکا پڑھتے ہیں کیونکہ اللہ کے رسول نے غدیر خم کے موقع پر علی ابن ابی طالب کو ولی قرار دیا تھا۔
کلمہ اسلام سب کا صرف اور صرف ایک ہے، اس میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔
مگر آگے انسان اپنی مرضی سے ایمان کی مزید گواہیاں دے سکتا ہے۔ مثلا ملائکہ کی گواہی، کتب کی گواہی، روز قیامت کی گواہی۔
اہلسنت برادران اور انکے سلف علماء نے انہی ایمان کے کلموں کو جمع کر کے انہیں "چھ کلموں" اور ایمان مجمل اور ایمان مفصل کا نام دے دیا ہے۔ یہ کلمے اور ایمان مجمل و مفصل "کلمہ اسلام" کے لازمی جزو نہیں ہیں، بلکہ فقط تبرکا پڑھے جاتے ہیں۔
اسی طرح حدیث رسول سے بھی پتا چلتا ہے کہ کلمہ اسلام کے ساتھ دیگر کچھ کلمے بطور ایمان پڑھے جا سکتے ہیں، مگر وہ کلمہ اسلام کا لازمی جزو نہیں ہیں۔ مثلا صحیح مسلم کی یہ حدیث:۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص ہر نماز کے بعد سبحان اللہ 33 بار اور الحمدللہ 33 بار اور اللہ اکبر 33 بار کہے تو یہ ننانوے کلمے ہوں گے اور پورے 100 یوں کرے کہ ایک بار یوں پڑھے (( لا الٰہ الا اﷲ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئٍ قدیر ))
اسی طرح اگر قادیانی حضرات کے سامنے اگر ہم کلمہ اسلام کے ساتھ ساتھ یہ گواہی بھی دے دیں کہ محمد ﷺ خاتم النبیین ہیں، تو ایمان کی اس گواہی دینے میں کوئی برائی نہیں، اور نہ ہی اس سے یہ کلمہ اسلام کا جزو بن جاتا ہے۔
آج کے متشدد جنونی مسلمانوں کا اللہ اور اسکے رسول میں اختلافات پیدا کرنا
اللہ تعالی نے کلمہ اسلام میں اپنے متعلق لوگوں کو متحد کیا ایک یکساں چیز پر کہ کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے، وہ وحدہ اور لا شریک ہے۔
مگر ان متشدد اور جنونی مسلمانوں نے (دونوں سائیڈوں کے) اس اللہ میں بھی اختلافات ڈھونڈ لیے اور اپنے اپنے اللہ کو الگ الگ کر لیا۔
اوپر آپ دیکھ چکے ہیں کہ ایک صاحب نے اہل تشیع پر حملے کرتے ہوئے سپاہ صحابہ کی بنائی ہوئی ریفرنسز کی ایک لسٹ پیش کر دی ہے جو کہ 183 نکات پر مشتمل ہے۔ اس میں پہلے کچھ نکات "اللہ" کے متعلق ہیں۔
اسی طرح دوسری طرف کے متشدد لوگوں نے بھی ایک لسٹ تیار کی ہوئی ہے جو کہ سینکڑوں نکات پر مشتمل ہے اور وہ بھی انہیں پھیلا کر بالکل ایسے ہی نفرت پھیلا رہے ہوتے ہیں جیسا کہ اوپر پھیلائی جا رہی ہے۔
معذرت کے ساتھ:۔ میں اس دوسری طرف کی لسٹ سے پہلے چند نکات بطور نمونہ پیش کر رہی ہوں۔ نیت فتنہ پھیلانے کی نہیں ہے اور نہ ہی کسی پر اعتراض کرنے کی ہے، بلکہ ان دونوں طرف کے متشدد جنونی حضرات کی طریقہ کار کی حقیقت کو بیان کرنا ہے تاکہ لوگ سمجھ سکیں کہ ان لوگوں کا طریقہ واردات کیا ہوتا ہے۔ پہلے اس لسٹ کو بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیے، پھر ان لوگوں کی طریقہ واردات پر گفتگو کرتے ہیں۔
- Allah tells a lie (Na'uzubillah). [Fatawa Rasheediyah by Maulana Rasheed Ahmad Gangohi, page 237]
- Allah cheats and mocks (Na'uzubillah). [Sefat Allah by Alawi al-Saqaaf, page 89]
- Allah is the root source of all evils (Na'uzubillah). [Musnad Abu Hanifa, page 152]
- Allahs leg will be in hell (Na'uzubillah). [Sahih Bukhari Arabic-English Volume 6 hadith number 371 translated by Dr Muhsin Khan]
- Allah sits on the throne in a cross legged position (Na'uzubillah). [Ebtal al-Tawilat, by Imam Abu Y'ala al-Fara, Volume 1 page 189]
- Allah can be jealous (Na'uzubillah). [Sefat Allah by Alawi al-Saqaaf, page 160]
- Allah is exactly the same as human being save two qualities (Na'uzubillah). [Al-Qawasim min al-Awasim by Abu bakr ibn al-Arabi , page 209]
- Allah created the angels from His arm and chest (Na'uzubillah). [Al-Sunnah by Abdullah Ibn Ahmad ibn Hanbal, page 190]
- Allah could travel on a mosquito (Na'uzubillah). [Aqa'id al-Salaf by Imam Darami, page 443]
- Allah suffers from weight gain (Na'uzubillah). [Al-Sunnah by Abdullah Ibn Ahmad ibn Hanbal, page 161]
- Allah partakes in jogging (Na'uzubillah). [Alawi al-Saqaaf, page 232]
- It is permissible to write the Quran with urine (Na'uzubillah). [Fatawi Qazi Khan page 780 "Chapter al Khathur"]
- When ALLAH refers to blessings, He (swt) does so in Persian and when discusses persecution He (swt) does so in Arabic (Nauzubillah). [Tafseer Ruh al-Bayan, Vol 10 page 480 published in Constantinople]
یہ کئی سو نکات پر مشتمل ایک طویل لسٹ ہے (جس میں سے شاید ڈیڑھ دو سو کے قریب چھپ کر نیٹ پر بھی آ گئی ہیں)۔ اب جو بھی کم علم اہل تشیع اس لسٹ کو پڑھے گا، وہ دوسرے فرقے کے لوگوں کو گمراہ سمجھتا ہوا ان سے نفرت شروع کر دے گا۔
اور صرف یہ دونوں فرقوں کے متشدد جنونی لوگ اکیلے نہیں ہیں، بلکہ آپ کو یہ طریقہ واردات کا استعمال کرتے ہوئے وہ لوگ بھی نظر آ جائیں گے جو کہ اسلام سے سخت نفرت رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر سلمان رشدی، تسلیمہ نسرین اور دیگر کفار وغیرہ۔ ان لوگوں نے بھی اسلامی کتب سے چند چیزیں سیاق و سباق سے باہر نکال کر، انہیں توڑ مڑوڑ کر ایسے پیش کیا ہے کہ جس کا حقیقت سے کچھ تعلق نہیں ہوتا۔
کیا آپ میں سے کبھی کسی کا اتفاق ہوا ہے کہ وہ اسلام مخالف ویب سائٹس اور ڈسکشن فورمز کا مطالعہ کرے؟ اگر آپ کو کبھی اتفاق ہو، تو آپ کو پتا چلے گا کہ اسلام مخالفین قرآن کی آیات کو انکے سیاق و سباق سے بالکل الگ کر کے قرآنی آیات سے ایسے کھلواڑ کر رہے ہوتے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ مگر ایسا کرنے سے وہ اپنے مذموم ارادے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور وہ ہے کم علم غیر مسلموں میں اسلام اور قرآن کے خلاف نفرتیں پھیلانا۔
یہ علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ عام لوگوں کو ان متشدد جنونی لوگوں کے اس طریقہ واردات سے آگاہ کریں، انہیں ہوشیار کریں کہ وہ ایسے لوگوں کے جال میں نہ پھنسا کریں کیونکہ یا تو یہ سب چیزیں جھوٹ ہوتی ہیں، یا پھر سیاق و سباق سے ہٹی ہوئی اور ان میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔
اللہ کی وحدانیت:۔
اب آپ کے سامنے ہے کہ دونوں طرف کے متشدد جنونی لوگ کیسے اللہ کی متعلق ایک دوسرے پر حملے کر رہے ہیں اور ایک دوسرے سے اللہ کے متعلق "اختلافات" کو اپنی زندگی کا مقصد بنا کر بیٹھ گئے ہیں، اور اللہ کا وہ پیغام بھول گئے ہیں جس میں اللہ نے قرآن میں نصیحت کی ہے کہ اُن چیزوں پر ایکا کیا جائے جو کہ مشترک ہیں۔
یہی حال رسالت کا ہے جہاں پر پھر یہ دونوں طرف کے متشدد جنونی حضرات رسالت کو اختلافی بنانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔
صحابہ کرام کا مسئلہ
میری ذاتی رائے میں شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دینے کی بنیادی وجہ یہ صحابہ کرام کا مسئلہ تھا۔ اسی کو بنیاد بنا کر بعد میں دونوں فریقین کے متشدد لوگوں نے اللہ کی وحدانیت اور رسول ﷺ کی رسالت کو بھی مشکوک بنانا شروع کر دیا۔
چونکہ میں اہل تشیع گھرانے میں پیدا ہوئی، یہاں پلی بڑھی، اس لیے مجھے علم ہے کہ پڑھے لکھے اور باعمل شیعہ علماء سختی سے منع کرتے ہیں کہ کسی صحابی کی شان میں گستاخی کی جائے اور نہ ان کو برا بھلا کہا جائے۔ مگر میں دیکھتی ہوں کہ ہمارے گروہ میں ایسے متشدد لوگ موجود ہیں جو اسکا بالکل الٹ کر رہے ہوتے ہیں اور جب انہیں اس سے منع کیا جاتا ہے تو وہ الٹا علماء کو ہی برا بھلا کہنا شروع ہو جاتے ہیں۔ میں ان لوگوں سے تبراء (بیزاری اختیار کرنا) کرتی ہوں اور انکا ہم سے کوئی لینا دینا نہیں۔
چند صحابہ اور انکے چند افعال سے اختلاف کرنا الگ مسئلہ ہے (جو ہمارا عقیدہ ہے)، اور اس بنیاد پر کسی کو برا بھلا کہنا بالکل جائز نہیں اور ہرگز ہرگز ہمارا عقیدہ نہیں۔
دوسری طرف مگر سپاہ صحابہ پائی جاتی ہے کہ جس نے "ناموس صحابہ" کے نام پر کفر کے فتوے جاری کرتے ہوئے قتل و غارت کو اپنا مشغلہ بنا لیا ہے۔ یہ چیز بھی متشددانہ رویہ ہے اور اسلام سے اسکا کوئی تعلق نہیں۔
اسلامی شریعت میں صحابہ کو برا بھلا کہنے والے کی شرعی سزا
اگرچہ کہ کسی کو برا بھلا کہنا ایک قبیح فعل ہے، اور خاص طور پر صحابہ کرام کو، اور اس فعل کی کھل کر مذمت کرنی چاہیے اور اس چیز کو روکنا چاہیے، مگر دوسری طرف سپاہ صحابہ نے اللہ کی شریعت کو چھوڑ کر اپنی الگ شریعت قائم کر لی ہے جہاں وہ ناموس صحابہ کے نام پر کفر کا فتوی لگاتے ہوئے قتل و غارت شروع کر دیتے ہیں۔
اب چاہے اچھا لگے یا برا لگے، مگر اسلامی شریعت کی حقیقت کو حق پسند علمائے کرام نے بیان کر دیا ہے اور اسلام کی "بنیادی اساس" کو فقط اللہ اور اسکے رسول ﷺ تک محدود رکھا ہے اور اس میں صحابہ کرام کو شامل نہیں کیا ہے۔ ایسے قبیح فعل کو انجام دینے والا شخص گناہگار اور مجرم تو ہو سکتا ہے، مگر اس سے کفر لازم آتا ہے اور نہ اسکا قتل کرنا جائز ہوتا ہے۔
اسلام میں کسی دوسرے شخص کو برا بھلا کہنے کی شرعی سزا یہ ہے کہ جواب میں اسے بھی "صرف ایک بار" برا بھلا کہہ دیا جائے۔
ابو ہریرہ نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں: 4916 - حدثنا محمد بن الصباح البزاز، حدثنا يزيد بن هارون، أخبرنا سفيان الثوري، عن منصور، عن أبي حازم، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " لا يحل لمسلم أن يهجر أخاه فوق ثلاث فمن هجر فوق ثلاث فمات دخل النار
"رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا:یہ کبیرہ گناہ ہے کہ کسی مسلمان کی عزت کے خلاف ناحق بات کی جائے اور یہ بھی کبیرہ گناہ ہے کہ ایک دفعہ گالی دینے پر دو دفعہ گالی دی جائے۔
سنن ابو داؤد، کتاب 41 (کتاب الادب)، حدیث 4859 (آنلائن لنک)
اور سنن ابو داؤد میں ہے: 4894 حدثنا عبد الله بن مسلمة حدثنا عبد العزيز يعني ابن محمد عن العلاء عن أبيه عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال المستبان ما قالا فعلى البادي منهما ما لم يعتد المظلوم
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ دو گالم گلوچ کرنے والے جو کچھ ایک دوسرے کو بکتے ہیں ان سب کا گناہ پہل کرنے والے پر ہوگا جب تک کہ مظلوم جسے پہلے گالی دی گئی زیادتی نہ کرے۔
حوالہ: سنن ابو داؤد (آنلائن لنک)
چنانچہ شریعت کا اصول ہے کہ کسی مسلمان کی شان میں ناحق باتیں کرناکبیرہ گناہ ہے مگر اس کی سزا میں زیادہ سے زیادہ جواب میں ایک دفعہ گالی دی جا سکتی ہے، اور اگر جواب میں دو دفعہ گالی دے دی جائے تو یہ بھی گناہ کبیرہ ہو گا۔ یہ اسلام میں سب و شتم (سب و شتم کا مطلب ہے برا بھلا کہنا ) کرنے کی شرعی سزا ہے،اور یہ سزا اس بات سے قطع نظر ہے کہ یہ سب و شتم ایک عام مسلمان کو کیا جائے یا پھر کسی صحابی کو۔
عبد اللہ سے روایت ہے: رسول اللہ (ص) نے فرمایا : ایک مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس کو قتل کر دینا کفر۔
حوالہ: صحیح بخاری، جلد ۹، کتاب ۸۸، حدیث ۱۹۷
اسوہ صدیقی سے سبق
آج سپاہ صحابہ حضرت ابو بکر کے نام کو استعمال کرتے ہوئے "قتل و خون" کے دریا بہائے ہوئے ہے، مگر انکے لیے بہتر ہوتا کہ وہ بذات خود اسوہ صدیقی سے کوئی سبق حاصل کرتے اور صبر و ضبط کو جو مظاہرہ کرنے کا جو حکم اللہ نے دیا ہے، اسکی عملی تعبیر وہ خود حضرت ابو بکر کی صورت میں دیکھتے۔
حضرت ابو بکر روایت کرتے ہیں۔
4365 - حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، عن يونس، عن حميد بن هلال، عن النبي صلى الله عليه وسلم ح وحدثنا هارون بن عبد الله، ونصير بن الفرج، قالا حدثنا أبو أسامة، عن يزيد بن زريع، عن يونس بن عبيد، عن حميد بن هلال، عن عبد الله بن مطرف، عن أبي برزة، قال كنت عند أبي بكر رضي الله عنه فتغيظ على رجل فاشتد عليه فقلت تأذن لي يا خليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم أضرب عنقه قال فأذهبت كلمتي غضبه فقام فدخل فأرسل إلى فقال ما الذي قلت آنفا قلت ائذن لي أضرب عنقه . قال أكنت فاعلا لو أمرتك قلت نعم . قال لا والله ما كانت لبشر بعد محمد صلى الله عليه وسلم . قال أبو داود هذا لفظ يزيد قال أحمد بن حنبل أى لم يكن لأبي بكر أن يقتل رجلا إلا بإحدى الثلاث التي قالها رسول الله صلى الله عليه وسلم كفر بعد إيمان أو زنا بعد إحصان أو قتل نفس بغير نفس وكان للنبي صلى الله عليه وسلم أن يقتل
ترجمہ: ابو برزہ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابو بکرابن ابی قحافہ کے ساتھ تھا۔ اُن کا ایک آدمی سے جھگڑا ہو گیا اور گرم الفاظ کا تبادلہ بھی ہوا۔ میں نے کہا: اے خلیفہ رسول! اگر آپ اجازت دیں تو میں اس کا گلا کاٹ دوں؟ میرے یہ الفاظ سن کر حضرت ابو بکر کا غصہ دور ہو گیا اور وہ اٹھ کر اندر چلے گئے۔ پھر انہوں نے مجھ کو بلا بھیجا اور کہا: "تم نے ابھی کیا کہا کہ اگر میں کہوں تو تم اس کو قتل تک کر دو گے"؟ میں نے کہا،"جی ہاں"۔ اس پر حضرت ابو بکر نے فرمایا، "نہیں، میں اللہ کی قسم کہا کر کہتا ہوں کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے علاوہ اس بات کی کسی کے لیے اجازت نہیں ہے"۔ حوالہ: سنن ابو داؤد، کتاب 38، حدیث4350 (آنلائن لنک)
حضرت ابو بکر نے یہ سبق کہاں سے سیکھا تھا؟ انہوں نے صبر و ضبط کا یہ سبق براہ راست اللہ کے رسول ﷺ سے سیکھا تھا اور اس لیے ہرگز ہرگز اس کے لیے تیار نہ تھے کہ شریعت میں کوئی بدعت انکی وجہ سے جاری ہو۔
امام احمد بن حنبل ابو ہریرہ سے روایت کرتے ہیں: "ایک شخص حضرت ابو بکر کو گالیاں دے رہا تھا اور رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اسے دیکھ کر ہنس رہے تھے۔ جب وہ شخص باز نہیں آیا تو حضرت ابو بکر نے بھی اسے جواب دینا شروع کر دیا۔ اس پر رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اٹھ کر چلے گئے۔ حضرت ابو بکر نے کہا، "یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)، جب تک وہ مجھے گالیاں دے رہا تھا آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) بیٹھے سنتے (اور مسکراتے) رہے۔ مگر جیسے ہی میں نے جواب دینا شروع کیا تو آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ناراض ہو گئے (اور اندر چلے گئے)۔ رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا، "اے ابو بکر، جب وہ تمکو گالیاں دے رہا تھا، تو ایک فرشتہ تمہاری طرف سے اسکو جواب دے رہا تھا۔ مگر جب تم نے خود جواب دینا شروع کیا تو شیطان آ گیا۔ اور میں اور شیطان ایک جگہ نہیں بیٹھ سکتے"۔
حوالہ: (مسند احمد بن حنبل، جلد 2، صفحہ 436)
یہی روایت سنن ابو داؤد میں بھی موجود ہے: 4898 - حدثنا عيسى بن حماد، أخبرنا الليث، عن سعيد المقبري، عن بشير بن المحرر، عن سعيد بن المسيب، أنه قال بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم جالس ومعه أصحابه وقع رجل بأبي بكر فآذاه فصمت عنه أبو بكر ثم آذاه الثانية فصمت عنه أبو بكر ثم آذاه الثالثة فانتصر منه أبو بكر فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم حين انتصر أبو بكر فقال أبو بكر أوجدت على يا رسول الله فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم " نزل ملك من السماء يكذبه بما قال لك فلما انتصرت وقع الشيطان فلم أكن لأجلس إذ وقع الشيطان " .
ترجمہ: عیسی بن حماد لیث، سعید مقبری، بشیربن محر ر، حضرت سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما تھے اور آپ کے ساتھ آپ کے صحابہ کرام بھی تھے ایک شخص نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں زبان درازی کی اور انہیں ایذا دی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ خاموش رہے اس نے پھر دوسری بار ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو تکلیف دی تو بھی وہ چپ رہے اس نے تیسری بار بھی تکلیف پہنچائی تو صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے جواب میں کچھ کہہ دیا۔ جونہی ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ کھڑے ہوئے تو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا آپ مجھ پر ناراض ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ آسمان سے ایک فرشتہ نازل ہوا ہے وہ اس تکلیف پہنچانے والی کی تکذیب کرتا رہا جب تم نے اسے جواب دیا تو درمیان میں شیطان آپڑا لہذا جب شیطان آپڑے تو میں بیٹھنے والا نہیں ہوں۔
حوالہ: سنن ابو داؤد، کتاب الادب (آنلائن لنک)
صحابہ کو برا بھلا کہنے کی ابتدا تاریخ میں کہاں سے ہوئی؟
اس کی ابتداء ہوئی بنی امیہ کے دور سے اور 90 سال تک بنی امیہ کے خلفاء مساجد میں موجود ممبران نبوی سے رسول ﷺ کی بیٹی فاطمہ الزہرا، علی ابنی ابی طالب اور حسن و حسین پر سب و شتم کرتے رہے۔
صحیح مسلم، کتاب الفضائل الصحابہ، باب من فضائل علی بن ابی طالب
- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ، - وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ - قَالاَ حَدَّثَنَا حَاتِمٌ، - وَهُوَ ابْنُ إِسْمَاعِيلَ - عَنْ بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ أَمَرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ سَعْدًا فَقَالَ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسُبَّ أَبَا التُّرَابِ فَقَالَ أَمَّا مَا ذَكَرْتُ ثَلاَثًا قَالَهُنَّ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَلَنْ أَسُبَّهُ لأَنْ تَكُونَ لِي ۔۔۔
ترجمہ: معاویہ نے سعد کو حکم دیا [أَمَرَ مُعَاوِيَةُ] اور کہا کہ تمہیں کس چیز نے روکا ہے [مَا مَنَعَكَ] کہ تم ابو تراب [یعنی علی ابن ابی طالب] کو بُرا بھلا (تَسُبَّ)نہ کہو؟ اس پر سعد نے کہا میں نے رسول ص سے علی کے متعلق تین ایسی باتیں سنی ہیں کہ جس کے بعد میں کبھی علی کو بُرا بھلا نہیں کہہ سکتا ۔۔۔
حافظ ابن حجر العسقلانی علی کی فضیلت میں یہی روایت نقل کرنے کے بعد اسکے نیچے ایک اور روایت نقل کرتے ہیں:[آنلائن لنک] وعند أبي يعلى عن سعد من وجه آخر لا بأس به قال لو وضع المنشار على مفرقي على أن أسب عليا ما سببته أبدا
ترجمہ: اور ابی یعلی نے سعد سے ایک اور ایسے حوالے [سند] سے نقل کیا ہے کہ جس میں کوئی نقص نہیں کہ سعد نے [معاویہ ابن ابی سفیان سے کہا]: اگر تم میری گردن پر آرہ [لکڑی کاٹنے والا آرہ] بھی رکھ دو کہ میں علی [ابن ابی طالب] کو بُرا بھلا کہوں تو تب بھی میں کبھی علی کو بُرا بھلا نہیں کہوں گا۔
اسی روایت کے ذیل میں لفظ سب کے متعلق شاہ عبدالعزیز کا ایک جواب فتاوی عزیزیہ، مترجم [شائع کردہ سعید کمپنی] صفحہ 413 پر موجود ہے، جس میں شاہ صاحب فرماتے ہیں: "بہتر یہی ہے کہ اس لفظ [سب] سے اسکا ظاہری معنی سمجھا جائے۔ مطلب اسکا یہی ہو گا کہ ارتکاب اس فعل قبیح کا یعنی سب یا حکم سِب (بُرا بھلا کہنا) حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے صادر ہونا لازم آئے گا۔ تو یہ کوئی اول امر قبیح نہیں ہے جو اسلام میں ہوا ہے، اس واسطے کہ درجہ سب کا قتل و قتال سے بہت کم ہے۔ چنانچہ حدیث صحیح میں وارد ہے کہ "سباب المومن فسوق و قتالہ کفر" یعنی برا کہنا مومن کو فسق ہے اور اسکے ساتھ قتال کرنا کفر ہے۔" اور جب قتال اور حکم قتال کا صادر ہونا یقینی ہے اس سے کوئی چارہ نہیں تو بہتر یہی ہے کہ انکو مرتکب کبیرہ [گناہ] کا جاننا چاہیے۔ لیکن زبان طعن و لعن بند رکھنا چاہیے۔ اسی طور سے کہنا چاہیے جیسا صحابہ رضوان اللہ علیھم سے اُن کی شان میں کہا جاتا ہے جن سے زنا اور شرب خمر سرزد ہوا رضی اللہ عنہم اجمعین۔ اور ہر جگہ خطاء اجتہادی کو دخل دینا بیباکی سے خالی نہیں۔ "
اور معاویہ ابن ابی سفیان سے منتقل ہوتی ہوئی یہ بُرائی اسکے گورنروں میں پہنچی: صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ
6382 - حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، - يَعْنِي ابْنَ أَبِي حَازِمٍ - عَنْ أَبِي، حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ اسْتُعْمِلَ عَلَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ مِنْ آلِ مَرْوَانَ - قَالَ - فَدَعَا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ فَأَمَرَهُ أَنْ يَشْتِمَ عَلِيًّا - قَالَ - فَأَبَى سَهْلٌ فَقَالَ لَهُ أَمَّا إِذْ أَبَيْتَ فَقُلْ لَعَنَ اللَّهُ أَبَا التُّرَابِ .۔۔۔
ترجمہ: سہل روایت کرتے ہیں کہ مدینہ میں مروان کے خاندان میں سے ایک شخص حاکم ہوا اور اس نے سہل کو بلایا اور حکم دیا [فَأَمَرَهُ أَنْ يَشْتِمَ عَلِيًّا] کہ وہ علی ابن ابی طالب کو گالی دے۔ سہل نے انکار کیا۔ اس پر آوہ حاکم بولا کہ اگر تو گالی دینے سے انکار کرتا ہے تو کہہ لعنت ہو اللہ کی ابو تراب پر۔ ۔۔۔۔۔
سنن ابو داؤد (لنک) پر یہ روایت موجود ہے:
Sunnan Abu Dawud, Book 40, Number 4633: Narrated Sa'id ibn Zayd ibn Amr ibn Nufayl:
Rabah ibn al-Harith said: I was sitting with someone in the mosque of Kufah while the people of Kufah were with him. Then Sa'id ibn Zayd ibn Amr ibn Nufayl came and he welcomed him, greeted him, and seated him near his foot on the throne. Then a man of the inhabitants of Kufah, called Qays ibn Alqamah, came. He received him and began to abuse him.
Sa'id asked: Whom is this man abusing? He replied: He is abusing Ali. He said: Don't I see that the companions of the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) are being abused, but you neither stop it nor do anything about it?
نوے سال تک یوں ہی اہلبیت پر مساجد سے سب و شتم کیا جاتا رہا حتی کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے آ کر اس مکروہ بدعت کا خاتمہ کیا۔ بہرحال، اس تمام تر سب و شتم کے باوجود کسی نے بھی بنی امیہ کے ان خلفاء اور ان نوے سال تک اہلبیت پر سب و شتم کرنے والوں پر کفر کا فتوی نہیں لگایا بلکہ اسے فسق و فجور ہی سمجھا ۔