Tabdeeli :Column on Imran Khan in Nawaiwaqt

nomi304

Minister (2k+ posts)





قطرہ قطرہ تبدیلی!

توفیق بٹ ـ 13 گھنٹے 20 منٹ پہلے شائع کی گئی
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کچھ عرصہ قبل تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو عوامی سطح پر جو پذیرائی حاصل ہو رہی تھی نون لیگ کی فرینڈلی اپوزیشن سے اصل اپوزیشن میں واپسی اور ایم کیو ایم کی حکومت سے علیحدگی کی وجہ سے اس میں کمی واقع ہو گئی ہے۔ یہ بات اس حد تک تو ضرور درست مانی جا سکتی ہے کہ عوامی پذیرائی حاصل کرنے کےلئے جو اختیارات اور مالی وسائل دوسری جماعتیں استعمال کر سکتی ہیں۔ عمران خان ان کا تصور بھی نہیں کر سکتا، نہ وہ ایسے ہتھکنڈے استعمال کر سکتا ہے جن کی وجہ سے کچھ سیاسی جماعتوں کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ ان کے لیڈروں کی کوئی حکم عدولی کرے تو اسے جان سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ وہ سیاسی و انتخابی کلچر بھی اس کےلئے مددگار نہیں جو سالہا سال سے اس ملک میں رائج ہے اور جس کی بنیاد پر آج ہمارا شمار زندوں میں ہوتا ہے نہ مردوں میں لفافہ صحافت اور لفافہ سیاست کے گر بھی وہ نہیں جانتا۔ اس کے پاس فی الحال بڑی تعداد میں ایسے انتخابی امیدواران بھی نہیں جو سیاسی لحاظ سے طاقتور ہوں اور ان کی شہرت بھی اچھی ہو۔ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ سیاسی لحاظ سے جتنے بھی طاقتوران موجود ہیں کسی نہ کسی حوالے سے سبھی نے اس ملک کی بنیادوں کو چاٹنے کی کوشش کی۔ وطن عزیز میں بہت ہی کم سیاسی طاقتوران ایسے ہوں گے سیاست کو جنہوں نے واقعی عبادت سمجھا اور جن کے دامن پر گندگی کا ایک چھینٹا بھی دکھائی نہیں دیتا۔ سو عمران خان کو اگر سیاسی لحاظ سے ایسے طاقتور امیدواران دستیاب نہیں تو اس میں اس کا کیا قصور ہے؟ اور معیار پر اسے سمجھوتہ کرنا بھی نہیں چاہئے۔ جنم جنم کی میلی سیاسی جماعتوں سے ٹوٹ کر آنے والے بدنام اور بدمعاش سیاستدانوں کو اس نے اپنی جماعت میں قبول کر لیا تو پھر اس میں اور دوسری سیاسی جماعتوں کے عظیم ترین رہنماﺅں میں فرق کیا رہے گا؟ سو اسے قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑیں گے۔ ذرا سی غلطی اس کی اس سیاسی ساکھ کو زبردست نقصان پہنچا سکتی ہے جو اس نے خفیہ ایجنسیوں یا امریکہ کی مدد سے نہیں سالہا سال کی جدوجہد کے نتیجے میں قائم کی ہے ورنہ کل تک تو اس کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ ایک ہسپتال ہی چلا سکتا ہے۔ ویسے یہ بھی کوئی کم کارنامہ نہیں کہ پچھتر برسوں میں اس جیسا ایک کارنامہ کرنے کی کسی کو توفیق نہیں ہوئی۔ حتیٰ کہ اندرونی و بیرونی وسائل سے مالا مال سرکار کو بھی نہیں سو عرض یہ ہے کہ سرکار کی کچھ پسندیدہ سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مفادات کےلئے اچانک سرکار کے خلاف میدان میں نکل آئی ہیں تو میرے خیال میں اس سے عمران خان کی سیاست اور صحت پر کوئی اثر پڑنے والا نہیں ہے۔ کیونکہ لوگ اب تبدیلی چاہتے ہیں اور انہیں یقین ہو گیا ہے کہ تبدیلی بار بار آزمائے جانے والے ہرگز نہیں لا سکتے۔ کسی خفیہ مدد کے بغیر عمران خان کو جتنی پذیرائی بھی مل رہی ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تبدیلی کا عمل شروع ہو چکا ہے اور قطرہ قطرہ کر کے دریا بلکہ سمندر بن ہی جائے گا۔
آج ہی کے اخبارات میں اس کا بیان شائع ہوا ہے کہ کسی گرینڈ الائنس کا حصہ بنیں گے نہ دو نمبر جماعت سے اتحاد کریں گے۔ دو نمبر سے اس کی مراد جانے کیا ہے کہ لوگ تو اب یہاں ایک نمبر کی صورت دیکھنے کو ترس گئے ہیں۔ بہر حال اس کےلئے مناسب یہی ہے کہ ان جماعتوں سے کسی صورت میں اتحاد نہ کرے جن کے اپنے اپنے ایجنڈوں ہیں اپنے ایجنڈوں کے خاطر کبھی ان کے منہ سے بددیانت ترین حکمرانوں کےلئے پھول جھڑنے لگتے ہیں تو کبھی شعلے نکلنے لگتے ہیں۔ اپنے اپنے ایجنڈوں اور مفادات کی خاطر کبھی اپنی ہم نوالہ ہم پیالہ جماعتوں کو وہ دہشت گرد، بھگوڑے، گدھے گھوڑے اور ایسے ہی جانے کتنے خطابات سے نواز رہے ہوتے ہیں اور پھر اپنے ایجنڈوں اور مفادات کی خاطر انہیں فرشتے قرار دینے لگتے ہیں ایسی جماعتوں کی صحبت سے بہتر ہے وہ اکیلا رہ کر جدوجہد کرے۔ اکیلے رہ کر اس نے اب تک جو جدوجہد کی ہے اس سے اس کے سیاسی قد میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ آج بڑے بڑے سیاسی عالم چنے اس کے مقابلے میں کوڈو دکھائی دیتے ہیں اور جنم جنم کی میلی سیاسی جماعتوں نے کرایے پر جو قلم کار حاصل کر رکھے ہیں وہ بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ کیونکہ لوگ ان کی تاریخ سے بھی واقف ہیں۔ تاریخ پر پیسے نہ پہنچیں تو اگلی تاریخ پر ان کا ہیرو بدل چکا ہوتا ہے !
 
Last edited by a moderator:

PAINDO

Siasat.pk - Blogger





قطرہ قطرہ تبدیلی!

توفیق بٹ ـ 13 گھنٹے 20 منٹ پہلے شائع کی گئی
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کچھ عرصہ قبل تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو عوامی سطح پر جو پذیرائی حاصل ہو رہی تھی نون لیگ کی فرینڈلی اپوزیشن سے اصل اپوزیشن میں واپسی اور ایم کیو ایم کی حکومت سے علیحدگی کی وجہ سے اس میں کمی واقع ہو گئی ہے۔ یہ بات اس حد تک تو ضرور درست مانی جا سکتی ہے کہ عوامی پذیرائی حاصل کرنے کےلئے جو اختیارات اور مالی وسائل دوسری جماعتیں استعمال کر سکتی ہیں۔ عمران خان ان کا تصور بھی نہیں کر سکتا، نہ وہ ایسے ہتھکنڈے استعمال کر سکتا ہے جن کی وجہ سے کچھ سیاسی جماعتوں کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ ان کے لیڈروں کی کوئی حکم عدولی کرے تو اسے جان سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ وہ سیاسی و انتخابی کلچر بھی اس کےلئے مددگار نہیں جو سالہا سال سے اس ملک میں رائج ہے اور جس کی بنیاد پر آج ہمارا شمار زندوں میں ہوتا ہے نہ مردوں میں لفافہ صحافت اور لفافہ سیاست کے گر بھی وہ نہیں جانتا۔ اس کے پاس فی الحال بڑی تعداد میں ایسے انتخابی امیدواران بھی نہیں جو سیاسی لحاظ سے طاقتور ہوں اور ان کی شہرت بھی اچھی ہو۔ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ سیاسی لحاظ سے جتنے بھی طاقتوران موجود ہیں کسی نہ کسی حوالے سے سبھی نے اس ملک کی بنیادوں کو چاٹنے کی کوشش کی۔ وطن عزیز میں بہت ہی کم سیاسی طاقتوران ایسے ہوں گے سیاست کو جنہوں نے واقعی عبادت سمجھا اور جن کے دامن پر گندگی کا ایک چھینٹا بھی دکھائی نہیں دیتا۔ سو عمران خان کو اگر سیاسی لحاظ سے ایسے طاقتور امیدواران دستیاب نہیں تو اس میں اس کا کیا قصور ہے؟ اور معیار پر اسے سمجھوتہ کرنا بھی نہیں چاہئے۔ جنم جنم کی میلی سیاسی جماعتوں سے ٹوٹ کر آنے والے بدنام اور بدمعاش سیاستدانوں کو اس نے اپنی جماعت میں قبول کر لیا تو پھر اس میں اور دوسری سیاسی جماعتوں کے عظیم ترین رہنماﺅں میں فرق کیا رہے گا؟ سو اسے قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑیں گے۔ ذرا سی غلطی اس کی اس سیاسی ساکھ کو زبردست نقصان پہنچا سکتی ہے جو اس نے خفیہ ایجنسیوں یا امریکہ کی مدد سے نہیں سالہا سال کی جدوجہد کے نتیجے میں قائم کی ہے ورنہ کل تک تو اس کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ ایک ہسپتال ہی چلا سکتا ہے۔ ویسے یہ بھی کوئی کم کارنامہ نہیں کہ پچھتر برسوں میں اس جیسا ایک کارنامہ کرنے کی کسی کو توفیق نہیں ہوئی۔ حتیٰ کہ اندرونی و بیرونی وسائل سے مالا مال سرکار کو بھی نہیں سو عرض یہ ہے کہ سرکار کی کچھ پسندیدہ سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مفادات کےلئے اچانک سرکار کے خلاف میدان میں نکل آئی ہیں تو میرے خیال میں اس سے عمران خان کی سیاست اور صحت پر کوئی اثر پڑنے والا نہیں ہے۔ کیونکہ لوگ اب تبدیلی چاہتے ہیں اور انہیں یقین ہو گیا ہے کہ تبدیلی بار بار آزمائے جانے والے ہرگز نہیں لا سکتے۔ کسی خفیہ مدد کے بغیر عمران خان کو جتنی پذیرائی بھی مل رہی ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تبدیلی کا عمل شروع ہو چکا ہے اور قطرہ قطرہ کر کے دریا بلکہ سمندر بن ہی جائے گا۔
آج ہی کے اخبارات میں اس کا بیان شائع ہوا ہے کہ کسی گرینڈ الائنس کا حصہ بنیں گے نہ دو نمبر جماعت سے اتحاد کریں گے۔ دو نمبر سے اس کی مراد جانے کیا ہے کہ لوگ تو اب یہاں ایک نمبر کی صورت دیکھنے کو ترس گئے ہیں۔ بہر حال اس کےلئے مناسب یہی ہے کہ ان جماعتوں سے کسی صورت میں اتحاد نہ کرے جن کے اپنے اپنے ایجنڈوں ہیں اپنے ایجنڈوں کے خاطر کبھی ان کے منہ سے بددیانت ترین حکمرانوں کےلئے پھول جھڑنے لگتے ہیں تو کبھی شعلے نکلنے لگتے ہیں۔ اپنے اپنے ایجنڈوں اور مفادات کی خاطر کبھی اپنی ہم نوالہ ہم پیالہ جماعتوں کو وہ دہشت گرد، بھگوڑے، گدھے گھوڑے اور ایسے ہی جانے کتنے خطابات سے نواز رہے ہوتے ہیں اور پھر اپنے ایجنڈوں اور مفادات کی خاطر انہیں فرشتے قرار دینے لگتے ہیں ایسی جماعتوں کی صحبت سے بہتر ہے وہ اکیلا رہ کر جدوجہد کرے۔ اکیلے رہ کر اس نے اب تک جو جدوجہد کی ہے اس سے اس کے سیاسی قد میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ آج بڑے بڑے سیاسی عالم چنے اس کے مقابلے میں کوڈو دکھائی دیتے ہیں اور جنم جنم کی میلی سیاسی جماعتوں نے کرایے پر جو قلم کار حاصل کر رکھے ہیں وہ بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ کیونکہ لوگ ان کی تاریخ سے بھی واقف ہیں۔ تاریخ پر پیسے نہ پہنچیں تو اگلی تاریخ پر ان کا ہیرو بدل چکا ہوتا ہے !
 
Last edited by a moderator:

GraanG2

Chief Minister (5k+ posts)
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کچھ عرصہ قبل تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو عوامی سطح پر جو پذیرائی حاصل ہو رہی تھی نون لیگ کی فرینڈلی اپوزیشن سے اصل اپوزیشن میں واپسی اور ایم کیو ایم کی حکومت سے علیحدگی کی وجہ سے اس میں کمی واقع ہو گئی ہے۔ یہ بات اس حد تک تو ضرور درست مانی جا سکتی ہے کہ عوامی پذیرائی حاصل کرنے کےلئے جو اختیارات اور مالی وسائل دوسری جماعتیں استعمال کر سکتی ہیں۔ عمران خان ان کا تصور بھی نہیں کر سکتا، نہ وہ ایسے ہتھکنڈے استعمال کر سکتا ہے جن کی وجہ سے کچھ سیاسی جماعتوں کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ ان کے لیڈروں کی کوئی حکم عدولی کرے تو اسے جان سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ وہ سیاسی و انتخابی کلچر بھی اس کےلئے مددگار نہیں جو سالہا سال سے اس ملک میں رائج ہے اور جس کی بنیاد پر آج ہمارا شمار زندوں میں ہوتا ہے نہ مردوں میں لفافہ صحافت اور لفافہ سیاست کے گر بھی وہ نہیں جانتا۔ اس کے پاس فی الحال بڑی تعداد میں ایسے انتخابی امیدواران بھی نہیں جو سیاسی لحاظ سے طاقتور ہوں اور ان کی شہرت بھی اچھی ہو۔ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ سیاسی لحاظ سے جتنے بھی طاقتوران موجود ہیں کسی نہ کسی حوالے سے سبھی نے اس ملک کی بنیادوں کو چاٹنے کی کوشش کی۔ وطن عزیز میں بہت ہی کم سیاسی طاقتوران ایسے ہوں گے سیاست کو جنہوں نے واقعی عبادت سمجھا اور جن کے دامن پر گندگی کا ایک چھینٹا بھی دکھائی نہیں دیتا۔ سو عمران خان کو اگر سیاسی لحاظ سے ایسے طاقتور امیدواران دستیاب نہیں تو اس میں اس کا کیا قصور ہے؟ اور معیار پر اسے سمجھوتہ کرنا بھی نہیں چاہئے۔ جنم جنم کی میلی سیاسی جماعتوں سے ٹوٹ کر آنے والے بدنام اور بدمعاش سیاستدانوں کو اس نے اپنی جماعت میں قبول کر لیا تو پھر اس میں اور دوسری سیاسی جماعتوں کے عظیم ترین رہنماﺅں میں فرق کیا رہے گا؟ سو اسے قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑیں گے۔ ذرا سی غلطی اس کی اس سیاسی ساکھ کو زبردست نقصان پہنچا سکتی ہے جو اس نے خفیہ ایجنسیوں یا امریکہ کی مدد سے نہیں سالہا سال کی جدوجہد کے نتیجے میں قائم کی ہے ورنہ کل تک تو اس کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ ایک ہسپتال ہی چلا سکتا ہے۔ ویسے یہ بھی کوئی کم کارنامہ نہیں کہ پچھتر برسوں میں اس جیسا ایک کارنامہ کرنے کی کسی کو توفیق نہیں ہوئی۔ حتیٰ کہ اندرونی و بیرونی وسائل سے مالا مال سرکار کو بھی نہیں سو عرض یہ ہے کہ سرکار کی کچھ پسندیدہ سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مفادات کےلئے اچانک سرکار کے خلاف میدان میں نکل آئی ہیں تو میرے خیال میں اس سے عمران خان کی سیاست اور صحت پر کوئی اثر پڑنے والا نہیں ہے۔ کیونکہ لوگ اب تبدیلی چاہتے ہیں اور انہیں یقین ہو گیا ہے کہ تبدیلی بار بار آزمائے جانے والے ہرگز نہیں لا سکتے۔ کسی خفیہ مدد کے بغیر عمران خان کو جتنی پذیرائی بھی مل رہی ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تبدیلی کا عمل شروع ہو چکا ہے اور قطرہ قطرہ کر کے دریا بلکہ سمندر بن ہی جائے گا۔
آج ہی کے اخبارات میں اس کا بیان شائع ہوا ہے کہ کسی گرینڈ الائنس کا حصہ بنیں گے نہ دو نمبر جماعت سے اتحاد کریں گے۔ دو نمبر سے اس کی مراد جانے کیا ہے کہ لوگ تو اب یہاں ایک نمبر کی صورت دیکھنے کو ترس گئے ہیں۔ بہر حال اس کےلئے مناسب یہی ہے کہ ان جماعتوں سے کسی صورت میں اتحاد نہ کرے جن کے اپنے اپنے ایجنڈوں ہیں اپنے ایجنڈوں کے خاطر کبھی ان کے منہ سے بددیانت ترین حکمرانوں کےلئے پھول جھڑنے لگتے ہیں تو کبھی شعلے نکلنے لگتے ہیں۔ اپنے اپنے ایجنڈوں اور مفادات کی خاطر کبھی اپنی ہم نوالہ ہم پیالہ جماعتوں کو وہ دہشت گرد، بھگوڑے، گدھے گھوڑے اور ایسے ہی جانے کتنے خطابات سے نواز رہے ہوتے ہیں اور پھر اپنے ایجنڈوں اور مفادات کی خاطر انہیں فرشتے قرار دینے لگتے ہیں ایسی جماعتوں کی صحبت سے بہتر ہے وہ اکیلا رہ کر جدوجہد کرے۔ اکیلے رہ کر اس نے اب تک جو جدوجہد کی ہے اس سے اس کے سیاسی قد میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ آج بڑے بڑے سیاسی عالم چنے اس کے مقابلے میں کوڈو دکھائی دیتے ہیں اور جنم جنم کی میلی سیاسی جماعتوں نے کرایے پر جو قلم کار حاصل کر رکھے ہیں وہ بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ کیونکہ لوگ ان کی تاریخ سے بھی واقف ہیں۔ تاریخ پر پیسے نہ پہنچیں تو اگلی تاریخ پر ان کا ہیرو بدل چکا ہوتا ہے !
 

saeed khan

Chief Minister (5k+ posts)
If IK will not join any alliance then PTI will be more strong because now people know that these alliances are only to get power nothing else and now Pakistanis hate these alliances.
 

PakistaniFirst

Minister (2k+ posts)
tabdeeli.gif





imran.gif