1991 میں جب خواجہ آصف پبلک آفس ہولڈر بنے تو ان کے اپنے ڈیکلئیر کردہ اثاثوں کی مالیت 51 لاکھ روپے تھی جو وراثت میں ملنے والے ایک مکان کی صورت میں تھی۔
2013 میں جب مسلم لیگ ن کی دوبارہ حکومت آئی تو ایف بی آر کے مطابق ان کے ڈیکلئر اثاثے 12، 13 ملین کے لگ بھگ تھے۔
2018 تک اچانک ان کے اثاثہ جات 22 کروڑ 10 لاکھ روپے تک پہنچ گئے۔
2013 سے 2018 کے دوران وہ پاکستان میں وزیر تھے اور ساتھ ہی یو اے ای کی ایک فرم کے مشیر بھی تھے جو انہیں 22 لاکھ روپے پاکستانی دیا کرتی تھی۔
اس معاملے میں چند باتیں بہت مشکوک ہیں۔
ایک تو ان کے اکاؤنٹ میں کمپنی نے کبھی پیسے جمع نہیں کرائے بلکہ نقد رقم کی صورت میں ان کے اکاؤنٹ میں پیسے جمع ہوتے رہے۔
دوسرے ان کی جاب حکومت میں آنے کے بعد شروع ہوئی اور حکومت ختم ہوتے ہی جاب بھی ختم ہو گئی ۔
اسی طرح ستمبر 2014 میں گوجرانوالہ کی ایک ہاؤسنگ سوسائٹی میں 80 لاکھ روپے کا پلاٹ خریدا اور ایک مہینے میں اسی سوسائٹی کو 4 کروڑ میں بیچ دیا۔ اس وقت بھی وہ وزیر تھے۔
ان پر اپنے ملازم طارق میر کے نام پر ایک بے نامی کمپنی چلانے کا الزام بھی ہے۔ "طارق میر اینڈ کمپنی" کے بینک اکاؤنٹ میں 40 کروڑ جمع کرائے گئے مگر اس رقم کے ذرائع بھی ثابت نہیں کیے گئے۔