سو زبانیں کھینچتے ہیں چار سو اور چلنے لگتی ہیں

News_Icon

Chief Minister (5k+ posts)
https://twitter.com/x/status/1785718691113435227
یوں نہیں تھا کہ ہم عوام نے کبھی ادارے کو واقعی کوئی آفاقی حقیقت سمجھا تھا۔ ہم جانتے تھے خامیاں اور کوتاہیاں ہیں۔ کوئی کوئی طریقہ بھی غلط ہے، “کوئی کوئی”، ہاں کہیں کہیں ذیادتی بھی کرجاتے ہیں “مگر وہ ا س لیے کہ ان کی ٹریننگ اس سب کے لیے تھوڑا ہی ہوئی ہے” وہ تو مجبوری میں انہیں ایسے معاملات دیکھنے پڑ جاتے ہیں۔ ملک کی سیاسی لیڈرشپ اتنی نا اہل جو ہے۔۔

خدا گواہ ہے اتنی عقل سے عاری یہ ۱۸-۲۴ کروڑ بنی قوم کبھی بھی نہیں تھی خوش فہم بھی نہیں تھے، خود کو تسلی دیتے تھے۔ بس اس بات کا بھرم تھا کہ محب وطن ہیں۔ “سب کچھ کرتے ہونگے بس ملک سے مخلص ہیں”۔ ہاں طریقہ کار غلط ہے، “کہیں کہیں”۔ میرا اپنا گھر تباہ ہوا۔ ماں جیتے جی مردوں سی ہوگئی۔ میں نے خود اپنی ذات کے المیے پر کولیٹرل ڈیمج کی چادر ڈال دی۔ مجھے تک اس بات کا بھرم تھا کہ جو کرتے ہیں ملک کے وسیع تر مفاد میں کرتے ہیں۔ کرنا پڑتا ہے، عالمی حقیقتیں اتنی سیدھی سادھی نہیں ہیں۔ دنیا آئیڈلزم پر نہیں چلتی۔ کیسی کیسی سازشیں ہوتی ہیں۔ کیسی کیسی چالیں چلی جاتی ہیں۔ کہاں قانون کی کتابیں ان سب کا احاطہ کرپاتی ہیں۔ بس اس ایک بھرم میں سو کَرم معاف ہو جاتے تھے کہ جو بھی کرتے ہیں ملک کے لیے کرتے ہیں۔

۹ اپریل کی رات کو ہمارے سارے بھرم خاک ہوگئے۔ جب پارلیمان کے سامنے پرزنر وینز آئیں۔ ۱۲ بجے عدالتیں کھلیں۔ ای سی ایل پہ نام ڈلے۔ سچ پوچھیں تو ارشد بھائی نے “وہ کون تھا” کہہ کر قوم کے ذہن میں کوئی سوال نہیں ڈالے تھے۔ اپنے برسوں کے تعلق کی نسبت ایک آخری احسان کیا تھا ان کو بروقت یہ بتا کر کہ قوم سب جانتی ہے۔ جس تصویر میں یہ اپنا عکس دیکھ رہے تھے اُس کے نقوش قوم کے سامنے ۹ اپریل کی رات سے واضح تھے۔ اُس کو سایے میں رکھ کر ایک مخلص دوست نے اس قوم کے بھرم کا واسطہ دیا تھا۔۔ آپ کو اُس کا خلوص اتنا ناگوار گزرا آپ نے اُس کی جان ہی لے لی؟

بنی گالہ کے باہر ایک شام میں نے بھی التجا کی تھی کہ “عمران خان آپ کے اور قوم کے درمیان آخری پردہ ہے” پھر کیا ہوا؟ عمران خان پر قاتلانہ حملہ کردیا۔ چار گولیاں مار دیں۔ پردہ تو چاک کردیا۔ اُس کے گھر پر حملہ کردیا۔ اُسے گھسیٹتے ہوئے لے گئے، تار تار کردیا۔ آپ نے اُس کے ساتھ کھڑے ہر شخص کے عزت پر ہاتھ ڈالا۔ جو کوئی لیریں رہ گئی تھیں جو کہیں خال خال ڈھکے رہ گئے تھے سب روبرو ہوگئے۔

بس ایک آنکھوں کا پردہ رہ گیا تھا، وہ جو ایک پرانے اُنس کی حیا ہوتی ہے۔ عدت کیس اور پھر ۸ فروری کو ایسی ننگی بیہودگی کا مظاہرہ کیا کہ جو حیا سے کوئی آنکھیں پھیر بھی رہا تھا وہ بھی بے دید ہوگیا۔

آج بچہ بچہ جانتا ہے ڈرٹی ہیری کون ہے، کیوں ہے؟ جنگل کا بادشاہ کسے کہتے ہیں کس باعث کہتے ہیں؟ ایک اور شخص کی تو حسرت ہی رہ گئی کہ کہیں گمنامی میں سکون کی چار سانسیں لے لے۔

آج بیورکریسی اپنے ضمیر کے بوجھ کا باعث اپنے کاندھے پہ رکھی آپ کی بندوق کی نال بتا رہی ہے۔ سرکاری ملازموں کی درخواستوں میں وہ نام ہیں جن کی بابت سب جانتے تھے پھر بھی نامعلوم تھے۔

جج عدالتوں میں بیٹھ کر کہہ رہے ہیں کہ جب تک آپ کو آپ کی حد میں واپس نہیں بھیجا جاتا انتظام نہیں چل سکتا۔

جس یوٹیوب کا تذکرہ تحقیر سے کرتے تھے اُس پر آپ کا ذکر یوں ہوتا ہے جیسے گلی محلوں کے غنڈوں کا۔ ٹی وی پروگراموں میں آپ ہی کے پالتوؤں نے آپ کو مضحکہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ ٹک ٹاک پر پیروڈیاں ہوتی ہیں۔ ٹویٹر پر میمز بن گئے ہیں۔ سو زبانیں کھینچتے ہیں چار سو اور چلنے لگتی ہیں۔

ایک وہ بھلا مانس تھا جس نے سامنے کی صورت پر نقاب ڈالے، سب جانتے ہوئے جواب حذف کیے کہ تم سنبھل جاؤ۔ ایک تم بدنصیب کہ ایک پوری قوم کے بھرم راکھ کرنے کو بھی اپنی جیت سمجھے؟ ایک وہ ملنگ کہ جس کی پُشت سے تم معتبر دکھتے تھے۔ ایک تم کم ظرف کہ نہ اللہ کی حدیں سمجھ پائے نہ اللہ کے بندوں کی نظروں میں اپنا مقام۔ خدا بننے کا خبط بھی آدمی کو کیسی پاتال میں گرا دیتا ہے۔ خدا بن نہیں پاتا اور اپنی عابدیت کی قسمیں بھی کھا لے، دنیا پھٹکار بھیجنے سے نہیں چُوکتی۔
 

Aliimran1

Chief Minister (5k+ posts)
maxresdefault.jpg