پاکستان میں آپ کو جا بجا عامل، پیر، بابے، کالے جادو کی کاٹ پلٹ کے ماہر، تعویز گنڈا کرنے والے مولوی ملیں گے جن کے ہاں لوگوں کی بھیڑ ہوتی ہے، خاص کر عورتیں ان کی بڑی گاہک ہوتی ہیں۔ان کے پاس لوگ جاتے ہیں کہ ہمارا کاروبار نہیں چل رہا، لگتا ہے کسی نے جادو کردیا ہے، کسی کی اپنے خاوند سے ان بن ہے، اسے تعویز چاہئے، کسی کے گھر کی عورت کو چن چمٹ گیا ہے، اس کیلئے عامل کامل یا پیر درکار ہے تاکہ اس کا جن نکالا جاسکے، عملیات اور جادوگری کے" ماہر" یہ لوگ اپنے گاہکوں کے شک کو یقین میں بدلتے ہیں کہ ہاں تم پر جادو ہی کیا گیا ہے یا تمہارے مریض کو واقعی جن چمٹ گیا ہے ۔ یہ نہ صرف لوگوں کا مال بٹورتے ہیں بلکہ ان کو مسلسل گمراہی میں رکھتے ہیں تاکہ ان کی دوکان چلتی رہے۔ لوگ بھی بڑبڑی آسانی سے ان کی بات مان لیتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ ان کے مذہب میں جنوں اور جادو کو بطور حقیقت بیان کیا گیا ہے۔ آپ کسی مسلمان سے کہیں کہ جن اور جادو تو وجود ہی نہیں رکھتے، وہ کہے گا کہ جنوں کا ذکر تو قرآن میں ہے اور جادو تو ہمارے نبی پر بھی کیا گیا تھا، تم کیسے ان کا انکار کرسکتے ہو۔ یعنی جن، بھوت اور جادو کا انکار پاکستان میں اسلام کے انکار کے مترادف سمجھا جاتا ہے ۔
پرانے زمانوں میں جب سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی تو جن چیزوں کی انسان کو سمجھ نہیں آتی تھی، ان کو جنوں بھوتوں پر ڈال دیا جاتا تھا۔ اگر کسی کو" جن بھوت چڑیلیں" نظر آتی تھیں تو اس کو شیطانِ کے زیرِ اثر قرار دے دیا جاتا تھا اور اگر کسی کو فرشتہ نظر آتا تھا تو اس کو پیغمبر مان لیا جاتا تھا۔ آج اگر کوئی شخص کہے کہ اس کو جن یا فرشتہ نظر آتا ہے تو ہمیں علمِ نفسیات کی بدولت پتا ہوتا ہے کہ وہ سکزوفرینیا کا مریض ہے، آج ہمیں ہیلوسینیشن اور دیگر نفسیاتی امراض کے بارے میں علم ہے۔ سیکولر معاشروں نے پرانے زمانوں کی توہمات کو رد کرکے انسانی نفسیات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھا اور سمجھا، فرائیڈ نے تحلیل نفسی کا طریقہ رائج کرکے انسانی نفسیات کی کئی گتھیاں سلجھائیں، انسانوں کو علم ہوا کہ دماغ ان کے ساتھ کیسی کیسی کارستانیاں کھیلتا ہے۔فلم لگے رہو منا بھائی میں سکزو فرینیا کی اچھی وضاحت کی گئی ہے جب سنجے دت کو گاندھی کے بارے میں مسلسل کئی راتوں تک پڑھنے کے بعد گاندھی نظر آنا شروع ہوجاتا ہے اور وہ اسے سچ سمجھ بیٹھتا ہے، بعد میں ڈاکٹر ثابت کرتا ہے کہ یہ اس کے دماغ کی کارستانی ہے۔۔
امریکہ میں جیمز ریڈی جو کہ ایک سٹیج جادوگر تھا، نے 1964 میں ایک پرائز کا اعلان کیا کہ جو شخص اسے کوئی بھی جادو، جن ، بھوت یا ایسی چیز دکھائے جس کی وہ (جیمز رینڈی) عقلی وضاحت نہ کرسکے تو اس کو وہ ایک ہزار ڈالر انعام دے گا، بطور سٹیج جادوگر جیمز رینڈی کو علم تھا کہ جادو ہاتھ کی صفائی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ اس کے پاس بہت سے لوگ آئے، اپنے اپنے "جادو " دکھائے مگر جیمز رینڈی نے سب کے جادو کا توڑ کیا، یعنی ان کی ٹِرک ایکسپوز کی۔ رفتہ رفتہ جیمز رینڈی نے انعام کی قیمت بڑھا کر ایک ملین ڈالر کردی۔ یہ انعام 2015 تک یعنی پچاس سال تک قائم رہا، لوگ وقتاً وفوقتاً اس کے پاس آتے رہے، مگر کوئی بھی شخص اس کو اصلی جادو یا جن بھوت نہیں دکھاسکا۔ وکی پیڈیا پر اس کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے، گوگل پر جیمز رینڈی پرائز یا پھر ون ملین ڈالر پیرانارمل چیلنج لکھیں، آپ کو تفصیل مل جائے گی۔ یوٹیوب پر بھی جیمز رینڈی کی بہت سی ویڈیوز دستیاب ہیں۔ جیمز رینڈی صرف سٹیج پرفارمر ہی نہیں تھا، وہ ایک مصنف اور سائنسی علم کی ترویج کرنے والا بھی تھا۔ اس نے ثابت کیا کہ جنوں اور جادو وغیرہ کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔
ہمارے معاشرے میں جنوں، بھوتوں اور جادو سے متعلق پھیلی توہم پرستی کے پیچھے مذہب کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ میرے خیال میں آج کی سائنسی ترقی کے دور میں لوگوں کو اس قدر جہالت میں رکھنا پورے معاشرے کیلئے تباہ کن ہے۔ جس طرح عیسائیت میں ریفارمز کی گئیں اور عیسائیت کو زمانے کے حساب سے قابلِ قبول بنایا گیا، ویسے ہی اسلام میں بھی ریفارمز کی ضرورت ہے تاکہ توہم پرستی کو سہارادینے والی مذہبی چیزوں سے لوگوں کو چھٹکارا دیا جاسکے۔ کوئی بھی معاشرہ تب تک آگے نہیں بڑھ سکتا جب تک وہ پرانے زمانے کی غیر عقلی باتوں سے خود کو دور نہیں کرلیتا۔ ہمارے ہاں تو یہ حال ہے کہ یونیورسٹیز کے اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ، پی ایچ ڈیز رکھنے والے بھی جنوں کو سچ مان رہے ہوتے ہیں کیونکہ قرآن میں ان کا ذکر ہے۔ کئی ڈاکٹر نما لوگوں کو میں جنوں پر مفصل گفتگو کرتے دیکھا ہے، ضیاء الحق کے دور میں تو ایک پاکستانی ایٹمی سائنسدان نے جنوں کی انرجی استعمال کرکے بجلی پیدا کرنے کی تجویز بھی دی تھی۔ یہ معیار ہے ہمارے ہاں تعلیم و تدریس کا۔
پرانے زمانوں میں جب سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی تو جن چیزوں کی انسان کو سمجھ نہیں آتی تھی، ان کو جنوں بھوتوں پر ڈال دیا جاتا تھا۔ اگر کسی کو" جن بھوت چڑیلیں" نظر آتی تھیں تو اس کو شیطانِ کے زیرِ اثر قرار دے دیا جاتا تھا اور اگر کسی کو فرشتہ نظر آتا تھا تو اس کو پیغمبر مان لیا جاتا تھا۔ آج اگر کوئی شخص کہے کہ اس کو جن یا فرشتہ نظر آتا ہے تو ہمیں علمِ نفسیات کی بدولت پتا ہوتا ہے کہ وہ سکزوفرینیا کا مریض ہے، آج ہمیں ہیلوسینیشن اور دیگر نفسیاتی امراض کے بارے میں علم ہے۔ سیکولر معاشروں نے پرانے زمانوں کی توہمات کو رد کرکے انسانی نفسیات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھا اور سمجھا، فرائیڈ نے تحلیل نفسی کا طریقہ رائج کرکے انسانی نفسیات کی کئی گتھیاں سلجھائیں، انسانوں کو علم ہوا کہ دماغ ان کے ساتھ کیسی کیسی کارستانیاں کھیلتا ہے۔فلم لگے رہو منا بھائی میں سکزو فرینیا کی اچھی وضاحت کی گئی ہے جب سنجے دت کو گاندھی کے بارے میں مسلسل کئی راتوں تک پڑھنے کے بعد گاندھی نظر آنا شروع ہوجاتا ہے اور وہ اسے سچ سمجھ بیٹھتا ہے، بعد میں ڈاکٹر ثابت کرتا ہے کہ یہ اس کے دماغ کی کارستانی ہے۔۔
امریکہ میں جیمز ریڈی جو کہ ایک سٹیج جادوگر تھا، نے 1964 میں ایک پرائز کا اعلان کیا کہ جو شخص اسے کوئی بھی جادو، جن ، بھوت یا ایسی چیز دکھائے جس کی وہ (جیمز رینڈی) عقلی وضاحت نہ کرسکے تو اس کو وہ ایک ہزار ڈالر انعام دے گا، بطور سٹیج جادوگر جیمز رینڈی کو علم تھا کہ جادو ہاتھ کی صفائی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ اس کے پاس بہت سے لوگ آئے، اپنے اپنے "جادو " دکھائے مگر جیمز رینڈی نے سب کے جادو کا توڑ کیا، یعنی ان کی ٹِرک ایکسپوز کی۔ رفتہ رفتہ جیمز رینڈی نے انعام کی قیمت بڑھا کر ایک ملین ڈالر کردی۔ یہ انعام 2015 تک یعنی پچاس سال تک قائم رہا، لوگ وقتاً وفوقتاً اس کے پاس آتے رہے، مگر کوئی بھی شخص اس کو اصلی جادو یا جن بھوت نہیں دکھاسکا۔ وکی پیڈیا پر اس کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے، گوگل پر جیمز رینڈی پرائز یا پھر ون ملین ڈالر پیرانارمل چیلنج لکھیں، آپ کو تفصیل مل جائے گی۔ یوٹیوب پر بھی جیمز رینڈی کی بہت سی ویڈیوز دستیاب ہیں۔ جیمز رینڈی صرف سٹیج پرفارمر ہی نہیں تھا، وہ ایک مصنف اور سائنسی علم کی ترویج کرنے والا بھی تھا۔ اس نے ثابت کیا کہ جنوں اور جادو وغیرہ کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔
ہمارے معاشرے میں جنوں، بھوتوں اور جادو سے متعلق پھیلی توہم پرستی کے پیچھے مذہب کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ میرے خیال میں آج کی سائنسی ترقی کے دور میں لوگوں کو اس قدر جہالت میں رکھنا پورے معاشرے کیلئے تباہ کن ہے۔ جس طرح عیسائیت میں ریفارمز کی گئیں اور عیسائیت کو زمانے کے حساب سے قابلِ قبول بنایا گیا، ویسے ہی اسلام میں بھی ریفارمز کی ضرورت ہے تاکہ توہم پرستی کو سہارادینے والی مذہبی چیزوں سے لوگوں کو چھٹکارا دیا جاسکے۔ کوئی بھی معاشرہ تب تک آگے نہیں بڑھ سکتا جب تک وہ پرانے زمانے کی غیر عقلی باتوں سے خود کو دور نہیں کرلیتا۔ ہمارے ہاں تو یہ حال ہے کہ یونیورسٹیز کے اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ، پی ایچ ڈیز رکھنے والے بھی جنوں کو سچ مان رہے ہوتے ہیں کیونکہ قرآن میں ان کا ذکر ہے۔ کئی ڈاکٹر نما لوگوں کو میں جنوں پر مفصل گفتگو کرتے دیکھا ہے، ضیاء الحق کے دور میں تو ایک پاکستانی ایٹمی سائنسدان نے جنوں کی انرجی استعمال کرکے بجلی پیدا کرنے کی تجویز بھی دی تھی۔ یہ معیار ہے ہمارے ہاں تعلیم و تدریس کا۔