خبریں

لندن: وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے کہا ہے کہ دہشتگرد عناصر افغانستان سے سرگرم عمل ہیں اور افغان عبوری حکومت کو فوری طور پر ان کے خلاف اقدامات کرنے چاہئیں۔ لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ افغانستان میں موجود کالعدم تنظیمیں پاکستانی سرزمین پر حملوں کی ذمہ دار ہیں اور ان کی کارروائیوں میں کئی پاکستانی شہید ہو چکے ہیں۔ وزیراعظم نے بتایا کہ پاکستان نے متعدد مرتبہ افغان حکومت کو واضح طور پر آگاہ کیا ہے کہ دوحا معاہدے پر مکمل عملدرآمد کیا جائے اور افغان سرزمین کو دہشتگردی کے لیے استعمال ہونے سے روکا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمسایہ ممالک بدلے نہیں جا سکتے، مگر یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہمسایوں سے امن کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا تنازعات کے ساتھ۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے حالیہ دورہ بیلا روس کے حوالے سے بتایا کہ اس دورے میں زراعت، صنعت، مشینری اور روزگار سمیت کئی اہم شعبوں میں دوطرفہ تعاون پر اتفاق ہوا ہے۔ ان کے مطابق: پاکستان میں موجود معدنیات کے وسیع ذخائر کو بروئے کار لانے کے لیے بیلا روس کی مشینری مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ بیلا روسی کمپنیوں کے ساتھ زرعی مشینری کی تیاری کے لیے مشترکہ منصوبے (Joint Ventures) کیے جائیں گے۔ بیلا روس میں بننے والی مشینری اب پاکستان میں بھی تیار کی جائے گی، جس سے مقامی انڈسٹری کو فروغ ملے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بیلا روس کی حکومت نے ڈیڑھ لاکھ پاکستانیوں کو روزگار فراہم کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے، جو ایک بڑی کامیابی ہے۔ شہباز شریف نے دعویٰ کیا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ "پنجاب اسپیڈ، پاکستان اسپیڈ، اور اب ہم سپر پاکستان اسپیڈ کی طرف جا رہے ہیں،" انہوں نے کہا۔ ان کا کہنا تھا کہ ترقی یافتہ اور خوشحال پاکستان ہماری منزل ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ لندن میں اوورسیز کنونشن کے دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے ملاقات کا موقع ملے گا۔ اس موقع پر ان کے مسائل سنے جائیں گے اور جہاں ممکن ہوا، عملدرآمد بھی کیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ رواں سال ترسیلات زر میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جو بیرون ملک پاکستانیوں کے اعتماد کا مظہر ہے۔
پشاور: پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی احمد کریم کنڈی نے میٹرک کے مطالعہ پاکستان کے پرچے میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی تعلیمی پالیسی سے متعلق سوال پر شدید ردعمل دیتے ہوئے صوبائی اسمبلی سیکرٹریٹ میں توجہ دلاؤ نوٹس جمع کرایا ہے۔ احمد کریم کنڈی نے نوٹس میں کہا ہے کہ صوبائی حکومت نے تعلیم کے شعبے میں ایمرجنسی کا نعرہ لگایا تھا، مگر حقیقت میں حکومت تعلیم کے فروغ کے بجائے نفرت کی سیاست کو پروان چڑھا رہی ہے۔ کنڈی کا کہنا تھا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی تعلیمی اصلاحات نے پاکستان کے تعلیمی نظام میں انقلابی تبدیلیوں کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ہمیشہ ایک علم دوست ریاست بنانے کا خواب دیکھا تھا، اور ان کی اصلاحات نے لاکھوں طلبہ کی تقدیر بدلنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے مطابق، ان سے متعلق من گھڑت اور سطحی سوالات انتہائی افسوسناک ہیں۔ رکن پیپلز پارٹی نے مطالبہ کیا کہ خیبرپختونخوا حکومت ذوالفقار علی بھٹو کی تعلیمی اصلاحات کو خراج تحسین پیش کرے اور ان کی کاوشوں کو تسلیم کرے۔ یاد رہے کہ پشاور بورڈ کے میٹرک کے مطالعہ پاکستان کے پرچے میں طلبہ سے ذوالفقار علی بھٹو کی تعلیمی پالیسی کی ناکامی کی چار وجوہات لکھنے کا سوال پوچھا گیا تھا، جس پر پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔
کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) نے حکومت کے ساتھ جاری مذاکرات میں پیش رفت نہ ہونے پر ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے پیر کو کوئٹہ میں کثیر الجماعتی کانفرنس (ایم پی سی) بلانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ بی این پی مینگل کے مطابق یہ کانفرنس دھرنے کے مقام پر منعقد کی جائے گی، جس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو مدعو کیا گیا ہے۔ پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایم پی سی میں بلوچ لانگ مارچ کرنے والوں کے مطالبات اور بلوچستان کو درپیش سنگین مسائل پر غور کیا جائے گا۔ انہوں نے حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ بلوچ خواتین کارکنوں کی گرفتاری جیسے حساس معاملات پر سنجیدہ نہیں، اور یہی ریاست کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اختر مینگل کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت دیگر خواتین سیاسی کارکنوں کی رہائی بی این پی کا بنیادی مطالبہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کے ساتھ تین مرتبہ مذاکرات کیے گئے، لیکن کوئی بامعنی نتیجہ نہیں نکلا۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ بلوچستان ایک بار پھر ریاستی جبر کا شکار ہے، اور پانچویں فوجی آپریشن سے گزر رہا ہے۔ اُن کے بقول، جو لوگ کبھی پرامن احتجاج کرتے تھے، اب پہاڑوں میں چلے گئے ہیں، کیونکہ جبری گمشدگیوں اور لاشوں کے پھینکے جانے جیسے مظالم نے احتجاج کا دروازہ بند کر دیا ہے۔ اختر مینگل نے پارلیمان کو ’ربر اسٹیمپ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ خواتین قانون سازوں کو آئینی ترامیم کے لیے ووٹ دینے پر اغوا اور دباؤ کا سامنا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ بڑی سیاسی جماعتیں بلوچستان کے عوام کے ساتھ مخلص نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر صوبے کے وسائل پر قبضہ کر رہی ہیں۔ میڈیا پر گردش کرنے والی ان خبروں کی بھی انہوں نے تردید کی جن میں کہا گیا تھا کہ انہوں نے وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی کے ساتھ پس پردہ رابطے کیے تھے۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ن) بلوچستان نے اختر مینگل کے احتجاج کو غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے مسئلے کا حل سیاسی مذاکرات کے ذریعے نکالنے پر زور دیا ہے۔ پارلیمانی لیڈر میر سلیم کھوسہ نے پریس کانفرنس میں کہا کہ سڑکوں پر احتجاج اور غیر قانونی مطالبات کے ذریعے حکومت کو دباؤ میں لانا مناسب طرز عمل نہیں۔ انہوں نے اختر مینگل کو سیاسی مذاکرات کی دعوت دی اور کہا کہ اگر تمام معاملات سڑکوں پر حل کرنے لگیں تو عدالتوں کی ضرورت ہی باقی نہ رہے گی۔ میر سلیم کھوسہ نے اختر مینگل پر الزام لگایا کہ وہ خود ماضی میں حکومتوں سے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں اور اب صرف ایک نشست تک محدود ہو کر الزام تراشی کی سیاست کر رہے ہیں۔ انہوں نے یاد دلایا کہ بی این پی (مینگل) کو ایک وقت میں 10 نشستیں حاصل تھیں، مگر آج اس کی عوامی حمایت میں شدید کمی آچکی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے بھی موجودہ سیاسی کشیدگی پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ نفرت کی سیاست کو ترک کرکے پرامن مذاکرات کو فروغ دیا جانا چاہیے۔ پیپلز پارٹی کوئٹہ ڈویژن کے صدر سردار خیر محمد ترین نے کہا کہ بلوچستان کے دیرینہ مسائل کا حل صرف اور صرف سیاسی مکالمے میں ہے۔ ان کے مطابق پارٹی عوام کو طاقت کا اصل سرچشمہ سمجھتی ہے اور مذاکرات کے ذریعے ہی دیرپا حل ممکن ہیں۔
اسلام آباد: "زندہ ہوتے ہوئے بھی مردہ قرار" — صحافی وحید مراد کی دہائی پاکستان میں صحافتی حلقوں سے تعلق رکھنے والے وحید مراد گزشتہ کئی ماہ سے ایک عجیب و غریب مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں—نادرا کے ریکارڈ میں وہ "متوفی" قرار دیے جا چکے ہیں۔ وحید مراد کا کہنا ہے کہ یونین کونسل کے ریکارڈ میں ان کی "وفات" کا اندراج کیے ہوئے دس برس گزر چکے تھے، حالانکہ وہ صحیح سلامت زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب گذشتہ سال نادرا کو اس تضاد کا علم ہوا اور انہوں نے وحید مراد سے رابطہ کیا۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ ان کے والد کے ڈیتھ سرٹیفیکیٹ پر غلطی سے ان کا شناختی کارڈ نمبر درج کر دیا گیا تھا، جس کے باعث نظام میں وحید مراد کو مردہ قرار دے دیا گیا۔ وحید مراد کے مطابق، گذشتہ ماہ اس غلطی کی اصلاح کر دی گئی اور ان کے والد کا نیا ڈیتھ سرٹیفیکیٹ بھی جاری ہو چکا ہے، تاہم نادرا اب بھی ان کے شناختی کارڈ کو بحال کرنے میں ناکام ہے۔ "میں اسلام آباد کے بلیو ایریا میگا سینٹر پر چار بار گیا، ہر بار دو دو گھنٹے انتظار کیا، مگر افسوس کے ساتھ واپس لوٹنا پڑا۔ افسران کو بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ معاملہ کیسے حل کریں،" وحید مراد نے شکایت کرتے ہوئے کہا۔ انہوں نے مزید کہا: "کیا مجھے یونین کونسل سے یہ سرٹیفیکیٹ لینا پڑے گا کہ میں زندہ ہوں؟ حالانکہ میں ان کے سامنے کھڑا ہوں، میرے فنگر پرنٹس ان کے سسٹم میں موجود ہیں، پھر بھی وہ تصدیق کرنے سے قاصر ہیں۔" وحید مراد نے ادارہ جاتی رویے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "کہا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں حکومتوں کے نظام شہریوں کی سہولت کے لیے ہوتے ہیں، لیکن لگتا ہے پاکستان اس دنیا کا حصہ نہیں۔" نادرا کی جانب سے اس معاملے پر تاحال کوئی باضابطہ مؤقف سامنے نہیں آیا۔
راولپنڈی پولیس نے تھانہ روات کے علاقے میں ایک برساتی نالے سے ملنے والی خاتون کی لاش کے معمے کو حل کر لیا ہے۔ تفتیش کے بعد مقتولہ کے شوہر اور ایک جعلی عامل کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ پولیس ترجمان کے مطابق، مقتولہ قدسیہ بتول ایک پرائیویٹ اسکول میں معلمہ تھیں۔ ملزمان نے خاتون کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد پھندا ڈال کر قتل کیا اور لاش کو زمین میں دفن کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق، مقتولہ اور ان کے شوہر امین کا ایک جعلی عامل اسرار کے پاس آنا جانا تھا۔ اس عامل نے قدسیہ سے بڑی مقدار میں رقم اور زیورات حاصل کر لیے تھے۔ شوہر کو اپنی اہلیہ کے عامل کے ساتھ تعلقات پر شکوک تھے۔ جب قدسیہ نے عامل سے اپنی رقم اور زیورات واپس مانگے تو دونوں ملزمان نے انہیں قتل کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ ملزمان نے عملیات کے بہانے قدسیہ کو ایک مقام پر لے جا کر تشدد کیا اور پھانسی دے کر ہلاک کر دیا۔ قتل کے بعد لاش کو زمین میں دفن کر کے واقعہ کو چھپانے کی کوشش کی گئی۔ دسمبر 2024 میں انہوں نے مقتولہ کے اغوا کا جعلی مقدمہ درج کروایا تھا، تاہم روات پولیس نے پیشہ ورانہ تفتیش کے بعد ملزمان کے عزائم بے نقاب کر دیے۔ **"ملزمان کو قرار واقعی سزا دی جائے گی"** ملزمان کی گرفتاری پر سی پی او راولپنڈی سید خالد ہمدانی نے ایس پی صدر، اے ایس پی صدر اور تفتیشی ٹیم کی تعریف کی۔ وہیں، ایس پی صدر محمد نبیل کھوکھر نے کہا کہ گرفتار ملزمان کے خلاف ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ عدالتی کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ **"چاہے مجرم کتنے ہی ہوشیار کیوں نہ ہوں، وہ قانون سے فرار حاصل نہیں کر سکتے۔"** پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان کو جلد ہی عدالت میں پیش کر کے انصاف کا عمل مکمل کیا جائے گا۔
امریکی ریاست لوزیانا میں قائم امیگریشن عدالت نے ایک اہم اور متنازع فیصلے میں فلسطینی نژاد طالبعلم اور سرگرم کارکن محمود خلیل کے خلاف ملک بدری کے مقدمے کو جاری رکھنے کی اجازت دے دی ہے، جس سے امریکا میں موجود دیگر بین الاقوامی طلبہ کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے۔ ڈان اخبار کے مطابق، کولمبیا یونیورسٹی سے وابستہ گریجویٹ طالبعلم محمود خلیل پر نہ تو کسی جرم کا الزام ہے اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی عدالتی فرد جرم موجود ہے، تاہم امریکی انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ ان کی موجودگی سے ملک کی خارجہ پالیسی کو ممکنہ طور پر "سنگین منفی اثرات" لاحق ہو سکتے ہیں۔ 30 سالہ خلیل، جنہوں نے خود کو "سیاسی قیدی" قرار دیا ہے، رواں سال 8 مارچ کو نیویارک میں کولمبیا یونیورسٹی کے اپارٹمنٹ سے گرفتار کیے گئے تھے اور لوزیانا کی ایک سخت سیکیورٹی والی جیل میں منتقل کر دیا گیا۔ یہ جیل ایک نجی ٹھیکیدار کے زیر انتظام ہے، جہاں خاردار تاروں سے گھرا ماحول تارکین وطن کے لیے قید کا منظر پیش کرتا ہے۔ محمود خلیل، جو الجزائر کی شہریت رکھتے ہیں اور شام کے ایک فلسطینی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے، گزشتہ سال امریکا کے مستقل رہائشی بنے تھے۔ ان کی اہلیہ نور عبداللہ ایک امریکی شہری ہیں۔ عدالت میں جمع کرائے گئے امریکی سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو کے دو صفحات پر مشتمل خط میں الزام عائد کیا گیا کہ محمود خلیل یہود مخالف مظاہروں اور "تخریبی سرگرمیوں" میں ملوث ہیں، جس سے یونیورسٹی کیمپسز میں یہودی طلبہ کے لیے مبینہ طور پر خطرناک ماحول پیدا ہوا ہے۔ تاہم، خط میں ان پر کسی قانون شکنی کا براہ راست الزام عائد نہیں کیا گیا۔ محمود خلیل کے وکلا کا مؤقف ہے کہ ان کے موکل کو ان کی تقریر اور سیاسی مؤقف کی بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا ہے، جو امریکی آئین کی پہلی ترمیم کے تحت مکمل طور پر تحفظ یافتہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ مقدمہ دراصل سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے اس ایجنڈے کا حصہ ہے، جس کے تحت فلسطینی حامی بین الاقوامی طلبہ کو امریکا سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔ یہ معاملہ نہ صرف امریکا میں آزادیِ اظہار کے حق پر سوالات اٹھا رہا ہے، بلکہ یہ بھی واضح کر رہا ہے کہ سیاسی سرگرمیوں میں شرکت بین الاقوامی طلبہ کے لیے کس حد تک خطرناک ثابت ہو سکتی ہے، چاہے وہ قانونی طور پر ہی ملک میں کیوں نہ مقیم ہوں۔ فی الوقت، عدالت نے خلیل کے وکلا کو انتظامیہ کی طرف سے پیش کیے گئے شواہد کا جائزہ لینے کا وقت دیا ہے، جس کے بعد مقدمے میں مزید پیش رفت متوقع ہے۔
پاکستان اور بیلاروس کے درمیان دوطرفہ تعلقات میں ایک اہم سنگ میل عبور ہو گیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کے سرکاری دورہ بیلاروس کے دوران دونوں ممالک نے متعدد معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں (ایم او یوز) پر دستخط کیے، جن میں سب سے اہم معاہدہ پاکستان سے 1,50,000 سے زائد تربیت یافتہ اور ہنرمند نوجوانوں کو بیلاروس بھیجنے کا ہے۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق، وزیراعظم شہباز شریف جب بیلاروس کے دارالحکومت منسک پہنچے تو صدر الیگزینڈر لوکاشینکو نے پرتپاک استقبال کیا۔ وزیراعظم کو مسلح افواج کی جانب سے گارڈ آف آنر پیش کیا گیا، جبکہ دونوں ممالک کے قومی ترانے بجائے گئے۔ استقبالیے کے بعد ایک باضابطہ تقریب منعقد ہوئی جس میں دونوں ممالک کے اعلیٰ حکام نے دفاع، تجارت، پوسٹل سروسز اور دیگر شعبوں میں تعاون بڑھانے کے لیے معاہدوں پر دستخط کیے۔ پاکستان کی وزارت دفاع اور بیلاروس کی وزارت دفاع کے درمیان فوجی تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا گیا، جبکہ پاکستان کی ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (TDAP) اور بیلاروس کے ایوانِ صنعت و تجارت کے درمیان تجارتی تعاون پر بھی معاہدہ طے پایا۔ پاکستان پوسٹ اور بیلاروس کی پوسٹل اتھارٹی کے درمیان بھی ایک اہم معاہدہ ہوا، جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان ڈاک کی ترسیل کو مؤثر اور آسان بنانا ہے۔ دورے کے دوران وزیراعظم پاکستان اور صدر بیلاروس کے درمیان ایوانِ آزادی میں اہم ملاقات بھی ہوئی جس میں علاقائی و عالمی امور، باہمی تجارت، سرمایہ کاری، اور معاشی تعاون پر گفتگو کی گئی۔ دونوں رہنماؤں نے زرعی مشینری کی مشترکہ تیاری، الیکٹرک گاڑیوں و بسوں کی تیاری، غذائی تحفظ، اور دفاعی تعاون کے فروغ پر بھی اتفاق کیا۔ مزید یہ کہ دونوں ممالک بزنس ٹو بزنس روابط کو وسعت دینے پر بھی متفق ہوئے۔ پاکستان سے ڈیڑھ لاکھ ہنر مند نوجوانوں کی بیلاروس منتقلی کا معاہدہ پاکستان کے نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی جانب ایک بڑا قدم ہے، جس کے تحت مختلف شعبوں میں تربیت یافتہ پاکستانی ورکرز کو بیلاروس میں روزگار فراہم کیا جائے گا۔ اس ملاقات کے دوران دونوں رہنماؤں نے پاک-بیلاروس تعلقات کی حالیہ مثبت پیشرفت پر اطمینان کا اظہار کیا اور دوستی کے اس سفر کو مزید وسعت دینے کے عزم کا اعادہ کیا۔
ایران کے سرحدی صوبے سیستان و بلوچستان میں افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے جہاں افغان بارڈر کے قریب ہیزآباد کے علاقے میں واقع ایک آٹو ورکشاپ پر مسلح افراد نے دھاوا بول کر 8 پاکستانی مکینکس کو بے دردی سے قتل کر دیا۔ مقتولین کا تعلق پنجاب کے شہر بہاولپور سے بتایا جا رہا ہے۔ ایرانی میڈیا اور سفارتی ذرائع کے مطابق یہ تمام پاکستانی مزدور مہرستان کے نواحی علاقے میں ایک آٹو ریپئر ورکشاپ پر کام کر رہے تھے۔ حملہ آوروں نے نہ صرف فائرنگ کی بلکہ متاثرین کے ہاتھ پاؤں باندھ کر انہیں بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارا۔ ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس حملے میں پاکستان مخالف شدت پسند تنظیم ملوث ہو سکتی ہے۔ سیکیورٹی فورسز نے جائے وقوعہ سے تمام لاشیں تحویل میں لے لی ہیں جبکہ حملہ آوروں کی شناخت اور گرفتاری کے لیے ایرانی حکام نے تفتیش کا آغاز کر دیا ہے۔ واقعہ مہرستان شہر سے تقریباً 5 کلومیٹر اور پاک-ایران سرحد سے 100 کلومیٹر کے فاصلے پر پیش آیا۔ ذرائع کے مطابق، جاں بحق افراد میں آٹو ورکشاپ کے مالک دلشاد اور اس کا بیٹا نعیم شامل ہیں، جبکہ جعفر، دانش اور نثار نامی کارکن بھی اس دلخراش واقعے میں جان کی بازی ہار گئے۔ پاکستانی سفارتخانے کے حکام جائے وقوعہ کے لیے روانہ ہو چکے ہیں تاکہ لاشوں کی شناخت اور وطن واپسی کے انتظامات مکمل کیے جا سکیں۔ حکومتی سطح پر متاثرہ خاندانوں سے رابطے کیے جا رہے ہیں اور مقتولین کو انصاف دلانے کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھانے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف ایک انسانی المیہ ہے بلکہ پاک-ایران سرحدی سیکیورٹی پر بھی سنگین سوالات اٹھا رہا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے باضابطہ مذمتی بیان اور ایران سے مؤثر تحقیقات کی درخواست متوقع ہے۔
لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے لاہور میں نوازشریف کے نام پر پہلا انٹرنیٹ سٹی بنانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اقدام صوبے میں ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہو گا۔ اناطولیہ ڈپلومیسی فورم سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ 2024 میں وزیراعلیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد، انہوں نے پنجاب میں تعلیم کے شعبے میں اہم اقدامات کیے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور یہاں مختلف شعبوں میں اصلاحات پر کام جاری ہے تاکہ عوام کی زندگیوں میں بہتری لائی جا سکے۔ وزیراعلیٰ نے مزید کہا کہ وہ تعلیم کے شعبے میں اہم تبدیلیاں لا رہی ہیں، اور صوبے کے سکولوں کو جدید ٹیکنالوجی پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ خاص طور پر، بچیوں کو تعلیم دینے کے لیے ان کی حکومت نے خصوصی توجہ دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابتدائی تعلیم کے شعبے میں بہتری کے لیے مختلف اقدامات کیے گئے ہیں۔ مریم نواز نے پنجاب میں ہونہار طلباء کے لیے 50 ہزار سکالرشپس کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ ان سکالرشپس کا 50 فیصد حصہ بچیوں کو دیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ، پنجاب میں 30 ہزار اساتذہ کو میرٹ پر بھرتی کرنے کا عمل جاری ہے اور اساتذہ کی تربیت کے لیے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے لاہور میں نوازشریف کے نام سے انٹرنیٹ سٹی بنانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ نصاب کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالا جا رہا ہے اور آئی ٹی کی تعلیم کے فروغ پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو فوری انصاف کی فراہمی ہمارا وژن ہے، اور اس مقصد کے لیے صوبے میں مزید اقدامات کیے جائیں گے۔ اس کے بعد، مریم نواز کی ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان سے ملاقات ہوئی، جس میں خاتون اول امینہ اردوان بھی موجود تھیں۔ صدر اردوان نے مریم نواز کا خیرمقدم کرتے ہوئے ان کی ڈپلومیسی فورم کانفرنس میں شرکت پر شکریہ ادا کیا اور نواز شریف کی صحت کے بارے میں پوچھا۔ صدر اردوان نے کہا کہ "جلد نواز شریف سے ملاقات ہوگی، انشاء اللہ۔" اس موقع پر، مریم نواز نے ترکیہ کے صدر کو نواز شریف کی جانب سے خیر سگالی کا پیغام پہنچایا اور دورے کی دعوت دینے پر صدر اردوان کا شکریہ ادا کیا۔
اسلام آباد: وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے 26 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس ترمیم کی سب سے خوبصورت بات عدلیہ کا احتساب ہے، کیونکہ یہ آئینی عدالتیں ہیں، شاہی دربار نہیں۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ جو ججز کیسز نہیں سن سکتے، انہیں گھر جانا چاہیے۔ ڈان نیوز کے مطابق، وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے اپنی گفتگو میں مزید کہا کہ بعض ججز دن میں 2 سے 3 کیسز ہی سنتے ہیں، جبکہ کچھ ججز اللہ کو حاضر ناظر جان کر دن میں 20 کیسز کی سماعت کرتے ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ان سائلین کا کیا قصور ہے جن کے مقدمات سننے نہیں جاتے؟ وزیرِ قانون نے یہ بھی کہا کہ جو ججز سماعت نہیں کرنا چاہتے، انہیں اپنے منصب سے استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ اعظم نذیر تارڑ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق اور موجودہ چیف جسٹس کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے وکلا کے لیے قانون کے مطابق فیصلے کیے۔ وزیرِ قانون نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ وکلا کے احتجاج کو دہشت گردی کے ایکٹ سے جوڑا گیا، اور کہا کہ ایسا معاملہ تو کبھی جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی نہیں ہوا تھا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ آئندہ آنے والے دنوں میں مزید اچھی خبریں ملیں گی اور حکومت نے کبھی بھی کسی بار سے بیک ڈور حمایت حاصل نہیں کی۔ وزیرِ قانون کا کہنا تھا کہ حکومت کو کسی بھی بار میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ اعظم نذیر تارڑ نے مزید کہا کہ حکومت اور وکلا کے درمیان معاہدے میں کسی قسم کا دھوکہ نہیں ہوگا اور جوڈیشل کونسل کے بارے میں ان کا نقطہ نظر واضح تھا۔ انہوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں بلوچستان اور سندھ سے ججز کی تعیناتی کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے ہائیکورٹ میں مزید رنگینی آئی ہے۔ وفاقی وزیر نے یہ بھی کہا کہ 1973 کے آئین کو تمام سیاسی جماعتیں تسلیم کرتی ہیں اور ججز کے تبادلوں کے حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان کا فیصلہ حتمی ہوگا۔ اس کے بعد وزیرِاعظم پاکستان ان فیصلوں پر نظرثانی کریں گے اور صدرِ مملکت کے دستخط سے دوسرے صوبوں سے ججز وفاق میں تعینات کیے جائیں گے۔ انہوں نے یہ وضاحت بھی کی کہ یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ دوسرے صوبوں سے اسلام آباد میں ججز تعینات نہیں ہو سکتے۔ اعظم نذیر تارڑ نے اپنے بیان کے اختتام پر کہا کہ جب بھی کوئی وکیل دوست انہیں ملنے آئے، وہ ان سے ضرور ملتے ہیں، اور وکلا کا میگا سینٹر پروجیکٹ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا مقصد عوام کی خدمت کرنا ہے اور وہ ملک و قوم کی خدمت میں استقامت سے آگے بڑھیں گے۔
اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیرِاعظم عمران خان کی 15 اپریل کو ضلعی و سیشن عدالت اسلام آباد میں طلبی کے معاملے پر ایک اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔ اڈیالہ جیل انتظامیہ نے عمران خان کو عدالت میں پیش کرنے کے لیے خصوصی سیکیورٹی فراہم کرنے کی درخواست کر دی ہے۔ ذرائع کے مطابق، اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کی جانب سے سیکیورٹی سے متعلق ایک باقاعدہ خط متعلقہ حکام کو ارسال کیا گیا ہے، جس میں عمران خان کی عدالت پیشی کے موقع پر سیکیورٹی گارڈز کی اضافی نفری فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ جیل حکام نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ عمران خان ایک اہم شخصیت ہیں، اور ان کی حفاظت کے لیے غیرمعمولی اقدامات ناگزیر ہیں۔ یاد رہے کہ عمران خان کے خلاف اقدامِ قتل، جعلی رسیدوں اور دیگر الزامات کے تحت دائر مختلف مقدمات میں ضمانت کی درخواستوں پر سماعت 15 اپریل کو سیشن کورٹ میں متوقع ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج افضل مجوکا نے سابق وزیراعظم کو اس روز ذاتی حیثیت میں عدالت پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ عدالتی سماعت سے قبل سیکیورٹی کی یہ تیاری نہ صرف کیس کی حساسیت کو ظاہر کرتی ہے بلکہ اس امر کی بھی غمازی کرتی ہے کہ عمران خان کی عدالت پیشی ایک بار پھر میڈیا اور عوام کی توجہ کا مرکز بننے والی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سیکریٹری جنرل، سلمان اکرم راجہ نے پارٹی میں جاری اختلافات کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارٹی قیادت کے درمیان کوئی ذاتی محاذ آرائی یا غیر ذمہ دارانہ بیان بازی نہیں ہو رہی، بلکہ صرف اصولی مؤقف سامنے آ رہے ہیں، اور امید ہے کہ جلد یہ معاملات حل ہو جائیں گے۔ لاہور کی انسداد دہشتگردی عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی آئین، قانون کی بالادستی اور شفاف انتخابات کے لیے مکمل طور پر پرعزم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پارٹی چاہتی ہے کہ ملک میں بنیادی حقوق بحال ہوں، اور اگر کسی کو یہ گمان ہے کہ ہم دباؤ میں آ کر پیچھے ہٹ جائیں گے، تو وہ غلط فہمی کا شکار ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے مائنز اینڈ منرلز بل کی منظوری کو چیئرمین عمران خان سے مشاورت سے مشروط قرار دیا۔ اعظم سواتی کے حالیہ بیانات پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ کسی ڈیل کے حوالے سے ان کے علم میں کوئی بات نہیں، اور اعظم سواتی اپنی ذاتی حیثیت میں گفتگو کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی کی طرف سے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا گیا، اور عمران خان سے ملاقات کے بعد ہی واضح ہو سکے گا کہ آیا انہوں نے کسی کو مذاکرات کا پیغام دیا ہے یا نہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ عمران خان سے ملاقاتوں میں دانستہ رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیں تاکہ صورتِ حال کو مبہم بنایا جا سکے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ انہوں نے جیل میں ملاقات کے لیے چھ وکلاء کے نام دیے تھے، مگر ان میں سے پانچ کو نکال دیا گیا، جبکہ ملاقات کرنے والے افراد فہرست کا حصہ ہی نہیں تھے۔ سلمان اکرم راجہ کے اس مؤقف پر بیرسٹر علی ظفر نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان سے ملاقات ہر پارٹی رکن کا حق ہے، اور سلمان اکرم راجہ نے بلاوجہ تنازع پیدا کیا ہے۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے چیئرمین، بیرسٹر گوہر علی خان نے بھی سخت مؤقف اپناتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے بعد پارٹی میں فیصلہ سازی کا اختیار صرف ان کے پاس ہے، اور وہ کسی کو وضاحت دینے کے پابند نہیں بلکہ پوری پارٹی ان کو جواب دہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی یقین دہانی کروائی کہ وہ عمران خان کے اعتماد کو کبھی ٹھیس نہیں پہنچائیں گے۔ واضح رہے کہ دو روز قبل پی ٹی آئی کی صفوں میں قیادت کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر گئے تھے، جس کے باعث پارٹی کے اندر ایک نیا بحران جنم لیتا نظر آ رہا ہے۔ تاہم، سلمان اکرم راجہ پرامید ہیں کہ موجودہ مشاورتی عمل کے نتیجے میں یہ مسائل جلد ختم ہو جائیں گے۔
**اسلام آباد ہائیکورٹ میں بنچز کی تبدیلی کا تنازع شدت اختیار کر گیا، ڈویژن بنچ نے قائم مقام چیف جسٹس کے احکامات کو غیر قانونی قرار دے دیا** اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ میں بنچز کی تبدیلی کا تنازع مزید شدت اختیار کر گیا ہے، جہاں ڈویژن بنچ نے قائم مقام چیف جسٹس کے احکامات کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اہم فیصلے سنائے ہیں۔ جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان پر مشتمل ڈویژن بنچ نے قائم مقام چیف جسٹس کی ہدایت پر دوسرے بنچز سے نکال کر ان کے پاس بھیجے گئے کیسز کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہیں واپس متعلقہ بنچز میں بھیجنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے کہا کہ قائم مقام چیف جسٹس کے اختیارات سے تجاوز کیا گیا ہے۔ عدالت نے کیسز کی مارکنگ اور ٹرانسفر کے حوالے سے نئی ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ: - کیسز کی فکسنگ یا مارکنگ کا اختیار ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کے پاس ہے، جو قانونی دائرہ کار میں رہتے ہوئے اسے استعمال کر سکتا ہے۔ - چیف جسٹس کا اختیار صرف روسٹر کی منظوری تک محدود ہے۔ - کسی کیس کو دوسرے بنچ میں منتقل کرنے کے لیے قانونی جواز ضروری ہے، اور یہ تب ہی ممکن ہے جب جج خود معذرت کرے یا کسی وجہ سے کیس سننے سے انکار کر دے۔ توہینِ مذہب کے کیس کو واپس بنچ 5 میں بھیجنے کا حکم ڈویژن بنچ نے توہینِ مذہب کے الزامات کی تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دینے کے کیس کو دوبارہ بنچ 5 کے پاس بھیجنے کا حکم دیا، جہاں سے یہ کیس پہلے سنبھالا جا رہا تھا۔ عدالت نے کہا کہ بغیر قانونی جواز کے کیس کو ڈویژن بنچ کے سامنے پیش کرنا غیر قانونی تھا۔ "انتظامی سائیڈ نے قائم مقام چیف جسٹس کو مناسب assist نہیں کیا" اپنے فیصلے میں ڈویژن بنچ نے کہا کہ اس معاملے میں انتظامی سائیڈ نے قائم مقام چیف جسٹس کو مناسب مدد فراہم نہیں کی، جس کی وجہ سے عدالت کو شرمناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ عدالت نے آئندہ ایسے واقعات سے بچنے کے لیے سی پی سی اور ہائیکورٹ رولز اینڈ آرڈرز سے رہنمائی لینے پر زور دیا۔ یہ تنازع اس وقت اور بڑھ گیا جب عدالت نے واضح کیا کہ "لارجر بنچ کے فیصلے کے مطابق چیف جسٹس بنچ تشکیل دے سکتے ہیں، لیکن اس میں ترمیم یا دوبارہ تشکیل صرف اسی صورت میں دی جا سکتی ہے جب بنچ خود معذرت کرے یا دوبارہ تشکیل کی درخواست کرے۔" اسلام آباد ہائیکورٹ میں جاری یہ تنازع عدالتی خودمختاری اور انتظامی اختیارات کے درمیان کشمکش کو واضح کرتا ہے، جس پر قانونی حلقوں میں بحث جاری ہے۔
اسلام آباد (رپورٹر) — امریکا نے یوکرین میں معدنی وسائل کے معاہدے کے بعد اب پاکستان کے وسیع معدنی ذخائر پر اپنی توجہ مرکوز کر دی ہے۔ سرکاری بیان کے مطابق، امریکی حکام نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات میں پاکستان کے تانبے، سونے اور لیتھیم کے ذخائر میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے سینئر اہلکار ایرک مائر نے اسلام آباد میں منعقدہ معدنی سرماہی کانفرنس کے موقع پر وزیراعظم سے ملاقات کی۔ اس کانفرنس میں کینیڈا کی بیرک گولڈ سمیت متعدد بین الاقوامی کمپنیوں اور امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب، چین، ترکی اور آذربائیجان کے نمائندوں نے شرکت کی۔ امریکی محکمہ خارجہ کے سینئر اہلکار ایرک مائر نے پاکستان کے معدنی شعبے میں موجود وسیع مواقع کو تسلیم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کرنے میں گہری دلچسپی رکھتی ہیں۔ مائر نے پاکستان کے معدنی ذخائر، خاص طور پر تانبے، سونے اور لیتھیم کے وسیع ذخائر کو بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لیے انتہائی پرکشش قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا پاکستان کے ساتھ تجارت، سرمایہ کاری اور دہشت گردی کے خلاف مشترکہ تعاون کے شعبوں میں تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کا خواہاں ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کے پاس کھربوں ڈالر مالیت کے معدنی ذخائر موجود ہیں جو ملکی معیشت کو سہارا دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ پاکستان خام معدنیات کی برآمد کی بجائے ملک میں ہی ان کی پروسیسنگ اور تیار مصنوعات کی فروخت کو ترجیح دے گا۔ پاکستان کے اہم تانبے اور سونے کے ذخائر بلوچستان میں واقع ہیں، جہاں حالیہ برسوں میں تشدد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یہ امریکی سرمایہ کاری کے لیے ایک اہم چیلنج بھی ہے۔ وزیراعظم نے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی خواہش کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ امریکا کے ساتھ تجارتی شراکت داری کو مضبوط بنانے کے لیے ایک وفد بھیج رہے ہیں۔ امریکا کی یہ دلچسپی پاکستان کے لیے ایک بڑا موقع ہے، لیکن ساتھ ہی یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ معاہدہ پاکستان کے مفاد میں ہوگا یا نہیں۔
اسلام آباد: پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) جو برسوں سے خسارے میں چل رہی تھی، اچانک منافع بخش کیسے بن گئی؟ اس سوال کا جواب سابق منیجنگ ڈائریکٹر اجاز ہارون نے ایک پوڈکاسٹ میں تفصیل سے دیا۔ 2008 سے 2011 تک پی آئی اے کی باگ ڈور سنبھالنے والے ہارون نے ادارے کے مالیاتی معاملات پر روشنی ڈالی۔ پوڈکاسٹ کے میزبان کے سوال کے جواب میں ہارون نے کہا کہ "یہ منافع جس طرح خسارے سے تبدیل ہوا، اس میں پی آئی اے کے آپریشنل اخراجات میں کمی یا آمدنی میں اضافہ کم ہے، بلکہ اصل وجہ سود کی ادائیگیوں میں کمی ہے۔ پی آئی اے جو پہلے بھاری سود ادا کرتی تھی، اب اسے یہ ادا نہیں کرنا پڑ رہا۔ یہیں سے بڑا منافع آیا ہے۔ البتہ آمدنی بڑھانے کے لیے ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔" جب میزبان نے پوچھا کہ "صرف 2 یا 3 ماہ میں اچانک یہ منافع کیسے آگیا؟ کیا اکاؤنٹس میں کوئی گڑبڑ کی گئی؟" تو ہارون نے جواب دیا کہ "میں یہ نہیں کہوں گا کہ کوئی ہیرا پھیری ہوئی ہے۔ میرا خیال ہے کہ حکومت کو سوچنا چاہیے کہ اب پی آئی اے کو پرائیویٹائز کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے، یہ تو منافع میں چل رہی ہے۔" میزبان کے ایک اور سوال پر کہ "وہ دوسری کمپنی جس کے باعث 600 کروڑ روپے کا نقصان ہوا، کیا وہ بھی حکومت کی ملکیت ہے؟ کیا یہ نقصان ٹیکس دہندگان کو اٹھانا پڑے گا؟" ہارون نے کہا، *"ہاں، یہ خسارہ تو اٹھانا پڑے گا، اور ظاہر ہے کہ ٹیکس دہندگان ہی اسے برداشت کریں گے۔" اپنے دور کی ایک اہم کوشش کا ذکر کرتے ہوئے ہارون نے کہا، "15 سال پہلے میں نے ترک ایئر لائنز کے ساتھ اتحاد کا معاہدہ کیا تھا، لیکن اسے سیاستدانوں نے ناکام بنا دیا۔ تمام سیاسی جماعتیں اس میں شامل تھیں۔ اگر ہم نے یہ معاہدہ کر لیا ہوتا، تو آج ہم بھی ترک ایئر لائنز کی طرح دنیا کے ہر کونے میں پروازیں بھر رہے ہوتے۔" ان افشاں کرنے والے بیانات سے پی آئی اے کے گزشتہ مالی بحران، موجودہ منافع اور سیاسی مداخلت کے اثرات پر نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اور پی آئی اے انتظامیہ ان دعوؤں پر کیا ردعمل دیتی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں بینچز کی بار بار تبدیلی اور مقدمات کے ایک بینچ سے دوسرے بینچ میں منتقل کیے جانے کے عمل پر جسٹس محسن اختر کیانی نے سخت سوالات اٹھا دیے، جس نے عدالتی انتظامیہ کے اختیارات اور نظام انصاف کی خودمختاری پر اہم بحث چھیڑ دی ہے۔ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کچھ مقدمات کو ایک بینچ سے دوسرے بینچ میں بلا وجہ منتقل کیے جانے پر اعتراض کیا۔ سماعت کے دوران جسٹس کیانی نے واضح کیا کہ "قائم مقام چیف جسٹس انتظامی بنیادوں پر کوئی ایسا آرڈر نہیں دے سکتے جس سے عدالتی کارروائی پر اثر پڑے۔ یہ کسی طور مناسب نہیں کہ سنگل بینچ کے زیر سماعت کیس کو اچانک ڈویژن بینچ میں منتقل کر دیا جائے۔" انہوں نے زور دے کر کہا کہ "یہ میرا اصولی موقف ہے کہ میں کسی بھی کیس کو ایک بینچ سے دوسرے بینچ میں منتقل نہیں کروں گا۔" یہ بات انہوں نے وفاقی کوٹہ سسٹم سے متعلق ایک اہم مقدمے کے تناظر میں کہی، جس کا بینچ گزشتہ روز قائم مقام چیف جسٹس کی جانب سے تبدیل کر دیا گیا تھا۔ عدالت کے اندر ہلکے پھلکے ماحول میں جسٹس کیانی نے وکلاء سے کہا کہ "جا کر انہیں بتائیں کہ اس معاملے پر دوبارہ غور کیا جائے۔" ان کے اس طرزِ گفتگو نے اگرچہ حاضرین کو مسکرا دیا، لیکن اس کے پیچھے عدالتی نظام میں بے ضابطگیوں کے خلاف ایک سنجیدہ پیغام بھی تھا۔ اس واقعے نے عدالتی حلقوں میں انتظامی اختیارات اور ججوں کی خودمختاری کے درمیان توازن کے حوالے سے نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ ماہرینِ قانون کا کہنا ہے کہ اگر مقدمات کو بار بار ایک بینچ سے دوسرے بینچ میں منتقل کیا جاتا رہے تو اس سے نہ صرف انصاف کی فراہمی میں تاخیر ہوگی، بلکہ عوام کا اعتماد بھی متاثر ہوگا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عدالتِ عالیہ اس معاملے پر کیا واضح رُخ اختیار کرتی ہے۔
کراچی کے علاقے نارتھ کراچی پاور ہاؤس کے قریب ایک تیز رفتار ڈمپر نے موٹر سائیکل سوار کو ٹکر مار دی، جس کے بعد غصے میں بھرے ہوئے افراد نے کئی ڈمپر گاڑیوں کو آگ لگا دی۔ اس واقعے کے بعد سپر ہائی وے پر احتجاج کیا گیا، جس کی وجہ سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوگیا۔ ڈمپر ایسوسی ایشن کے صدر لیاقت محسود نے دعویٰ کیا کہ ان کی 11 گاڑیاں نذرِ آتش کردی گئی ہیں اور انہوں نے اس اقدام کو دہشت گردی سے تعبیر کیا۔ میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، *"ہم پاکستانی ہیں اور قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرنا چاہتے ہیں، لیکن اگر ہمارے ساتھ یہ سلوک جاری رہا تو ہمیں پاکستان سے بائیکاٹ کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔"* انہوں نے مطالبہ کیا کہ گاڑیاں جلانے والوں کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے اور سوال اٹھایا کہ اگر واقعی کوئی زخمی ہوا ہے تو اسے سامنے لایا جائے۔ تاہم، معروف صحافی کرن ناز نے لیاقت محسود کے بیانات پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ *"جب ڈمپرز کی بے قابو رفتار سے کراچی کے بے گناہ شہری روزانہ موت کے منہ میں جاتے ہیں تو ڈمپر ایسوسی ایشن کے صدر کو کوئی تشویش نہیں ہوتی۔ لیکن جب ان کی 11 گاڑیاں جلتی ہیں تو وہ پاکستان کو بائیکاٹ کرنے کی دھمکیاں دینے لگتے ہیں۔"* انہوں نے مزید کہا کہ *"اگر ابتدا ہی میں ڈمپر ڈرائیورز کے خلاف سخت کارروائی کی جاتی تو آج نہ حاملہ خواتین سڑکوں پر کچلی جاتیں، نہ کسی کے بیٹے کے جسم کے ٹکڑے ہوتے، اور نہ ہی آج ڈمپرز جلائے جاتے۔"* معاملہ ابھی تک حل طلب ہے، اور عوامی سطح پر اس پر شدید ردعمل سامنے آرہا ہے۔ شہریوں کا مطالبہ ہے کہ ڈمپر ڈرائیورز کی بے احتیاطی پر سخت قوانین بنائے جائیں تاکہ ایسے المناک واقعات کا سلسلہ روکا جاسکے۔
اسلام آباد: مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد تقی عثمانی نے قومی فلسطین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیل اور اس کے حامی ممالک کے خلاف مکمل اقتصادی و سفارتی بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ "تمام اسلامی ممالک پر اب جہاد فرض ہو چکا ہے۔ اگر مسلم فوجیں اپنے بھائیوں کو ظلم سے نہیں بچا سکتیں تو پھر یہ فوجیں اور اسلحہ کس کام کے؟" مفتی صاحب نے کہا کہ اسرائیل بین الاقوامی قوانین کو پامال کر رہا ہے اور اقوام متحدہ امریکہ و اسرائیل کے ہاتھوں میں کھلونا بن چکی ہے۔ انہوں نے غزہ میں جاری جنگ بندی معاہدے کے باوجود مسلسل بمباری کو "انسانی تاریخ کا سیاہ ترین باب" قرار دیا۔ انہوں نے سوال اٹھایا: "جب 55 ہزار سے زائد مسلمان شہید ہو چکے ہیں، تو کیا اب بھی جہاد فرض نہیں ہو گا؟" ان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کی مالی، جانی اور عملی مدد ہر مسلمان پر فرض ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے حماس کے مجاہدین کی بے مثال قربانیوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ "فلسطینی قیادت اپنے موقف سے بال برابر پیچھے نہیں ہٹی، لیکن امت مسلمہ صرف قراردادوں اور کانفرنسوں تک محدود ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پورا اسلامی عالم جہاد کا اعلان کرتا۔" انہوں نے زور دے کر کہا کہ "قائد اعظم نے اسرائیل کو ناجائز ریاست قرار دیا تھا اور آج بھی پاکستان کا یہی موقف ہے۔ ہم اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔" انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا 55 ہزار سے زائد معصوم فلسطینیوں کے قتل کے بعد بھی جہاد فرض نہیں ہو جاتا؟ ان کا کہنا تھا کہ مسلم حکمرانوں کو زبانی جمع خرچ سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ عملی طور پر اسرائیل اور اس کے حامی ممالک کے خلاف اقتصادی اور سفارتی محاذ کھولنا ہوگا۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کا اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں رہا اور نہ ہی مستقبل میں ہوگا، کیونکہ قائدِ اعظم محمد علی جناح نے شروع ہی سے اسرائیل کو ناجائز ریاست قرار دیا تھا۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین اور عالم دین مفتی منیب الرحمان نے خطاب کرتے ہوئے تمام مسلم حکومتوں پر جہاد کو فرض قرار دیا اور کہا کہ فلسطینیوں کی نصرت امت مسلمہ پر واجب ہوچکی ہے۔ اسی موقع پر جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے خطاب میں کہا کہ فلسطین کی جنگ صرف غزہ تک محدود نہیں بلکہ یہ پورے عالمِ اسلام کی جنگ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان جس مقصد کے لیے وجود میں آیا تھا، اگر وہ آج فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا تو یہ اپنے قیام کے مشن سے غداری کے مترادف ہوگا۔ انہوں نے اسرائیل کو "ریاستی دہشت گرد" قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہودی تاریخ ہی ظلم و بربریت سے بھری پڑی ہے، اور اب بھی وہ اسی راستے پر گامزن ہیں۔ کانفرنس کے اختتام پر جاری ہونے والے متفقہ اعلامیے میں کہا گیا کہ غزہ میں ہونے والی خونریزی کوئی معمولی جنگ نہیں بلکہ انسانیت کے خلاف ایک منظم نسل کشی ہے، جس میں ہسپتالوں، اسکولوں اور رہائشی علاقوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اعلامیے میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ اقوامِ متحدہ اور عالمی عدالت انصاف جیسے ادارے اسرائیلی مظالم کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ کانفرنس میں اگلے جمعے کو "یومِ مظلومِ فلسطین" کے طور پر منانے کا بھی اعلان کیا گیا۔
پشاور: خیبر پختونخوا اسمبلی میں پیش کیا جانے والا مائنز اینڈ منرلز ترمیمی بل پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات کا سبب بنا ہوا ہے، جس پر وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور اور پارٹی رہنما عاطف خان کے درمیان واٹس ایپ گروپ میں تیز مباحثہ ہوا۔ ذرائع کے مطابق، پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کے واٹس ایپ گروپ میں عاطف خان نے اس بل کی سخت مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ **"یہ بل صوبے کے عوام کے مفادات کے خلاف ہے۔"** ان کے اس موقف پر وزیراعلیٰ گنڈاپور نے سوال اٹھایا: **"کیا آپ نے یہ بل پڑھا ہے؟ اگر انگریزی نہیں آتی تو میں اردو ترجمہ بھیج دیتا ہوں۔ اس بل میں کوئی مسئلہ نہیں، مسئلہ آپ کا ذاتی ہے۔"** عاطف خان نے اس کے بعد گروپ میں کوئی جواب نہیں دیا، لیکن انہوں نے میڈیا سے بات کرنے سے بھی انکار کر دیا، جس سے اندرونی کشیدگی کے اشارے ملے ہیں۔ پی ٹی آئی کے سیکرٹری اطلاعات عدیل اقبال نے اس معاملے کو معمول کا داخلی مکالمہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ **"پارٹی میں ایسی بحثیں ہوتی رہتی ہیں۔ یہ اختلاف نہیں، بلکہ جمہوری عمل کا حصہ ہے۔"** انہوں نے بتایا کہ پیر کو ارکان اسمبلی کو اس بل کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی جائے گی۔ حکومتِ خیبر پختونخوا کا کہنا ہے کہ یہ ترمیم صوبائی معدنی وسائل کے موثر استعمال اور غیرقانونی کان کنی کو روکنے کے لیے ضروری ہے۔ تاہم، مخالفین کا ماننا ہے کہ اس سے صوبے کے وسائل پر مرکز یا مقامی اشرافیہ کا کنٹرول بڑھ سکتا ہے۔ یہ واقعہ اس وقت سامنے آیا ہے جب پی ٹی آئی گذشتہ کچھ عرصے سے اندرونی تقسیم کا شکار نظر آ رہی ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ پارٹی قیادت اختلافات کو معمول قرار دے رہی ہے، لیکن یہ واقعہ پی ٹی آئی کی پالیسیوں پر اتحاد کے بجائے بڑھتے ہوئے تنازعات کی عکاسی کرتا ہے۔
**اسلام آباد:** بجلی کے صارفین کے لیے ایک اور خوشخبری سامنے آئی ہے جس کے تحت مزید 11 انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) اور سی پی پی اے نے بجلی کے ٹیرف میں کمی کی درخواست نیپرا میں جمع کرا دی ہے۔ وفاقی کابینہ کی جانب سے دسمبر 2024 اور جنوری 2025 میں نظرثانی شدہ معاہدوں کی منظوری کے بعد اب یہ کمپنیاں بجلی کی قیمتوں میں کمی کے لیے تیار ہو گئی ہیں۔ نیپرا نے سی پی پی اے اور آئی پی پیز کی مشترکہ درخواست پر 16 اپریل کو سماعت کا اعلان کیا ہے۔ اس سماعت میں بیگاس پر چلنے والے 9 پاور پلانٹس کے فیول کاسٹ کمپوننٹس کا جائزہ لیا جائے گا۔ اس کے علاوہ، 2002 کی پاور پالیسی کے تحت کام کرنے والے 2 آئی پی پیز نے بھی اپنی درخواستیں جمع کروائی ہیں۔ یاد رہے کہ اس سے قبل بھی 2002 کی پاور پالیسی کے تحت کام کرنے والے 7 آئی پی پیز نے نیپرا میں بجلی کے نرخوں میں کمی کی درخواست جمع کرا چکی ہیں۔ اگر یہ تمام درخواستیں منظور ہو جاتی ہیں، تو ملک بھر میں بجلی کے نرخوں میں مزید کمی کا امکان ہے، جس سے گھریلو اور صنعتی صارفین کو بڑی ریلیف مل سکتی ہے۔ گزشتہ ہفتے 3 اپریل کو وزیراعظم محمد شہباز شریف نے بجلی کے نرخوں میں 7 روپے فی یونٹ کمی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب گھریلو صارفین کے لیے بجلی کی قیمت 34 روپے 37 پیسے فی یونٹ ہوگی، جبکہ صنعتی صارفین کے لیے 7 روپے 59 پیسے فی یونٹ کمی کر کے قیمت 40 روپے 60 پیسے فی یونٹ مقرر کی گئی ہے۔ وزیراعظم نے اسلام آباد میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "عوام کو ریلیف دینا ہماری اولین ترجیح ہے۔ یہ خوشخبری مسلم لیگ (ن) کے منشور کا حصہ تھی، اور الحمدللہ ہم نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ اس میں پاکستان آرمی کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر کا کلیدی کردار رہا ہے۔" ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر نیپرا آئی پی پیز اور سی پی پی اے کی درخواستوں کو منظوری دے دیتا ہے، تو بجلی کے نرخوں میں مزید کمی کا امکان ہے، جس سے مہنگائی کے خلاف حکومتی کوششوں کو تقویت ملے گی۔ صارفین امید کر رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں بجلی کے بلوں میں نمایاں کمی ہوگی۔

Back
Top