سیاسی

سینئر صحافی وتجزیہ کار نصرت جاوید نے نجی ٹی وی چینل پبلک نیوز پر پروگرام خبر نشر میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری کا یہ کہنا ہے کہ انتخابات میں تاخیر کی وجہ صرف یہ ہے کہ ایک شخص نوازشریف کو اقتدار میں لانے کے لیے سارا ارینجمنٹ کیا جا رہا ہے۔ نصرت جاوید نے کہا کہ میں جان کی امان پا کر عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ سارا ارینجمنٹ نوازشریف کو نہیں بلکہ مسلم لیگ کو جتوانے کے لیے کیا جا رہا ہے، نوازشریف کو بھی کچھ عرصے بعد یہ پتہ لگ جائے گا۔ انہوں نے نوازشریف کو عالمی سٹیبلشمنٹ کی حاصل حمایت کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ پتہ کریں کہ پچھلے 1 سال کے دوران لندن میں ان سے کون کون سے ملک کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزرز نے ملاقات کی ہے۔ لندن میں ان کا بہت بڑا دکھاوا ہے میاں صاحب کا جس میں سے ایک حسین نواز کا دفتر ہے لیکن خفیہ ملاقاتیں ڈاکٹر صاحب کے فارم ہائوس پر ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عجیب اتفاق ہے کہ شہید بینظیر بھٹو بھی جلاوطنی کے بعد اکتوبر کے مہینے میں پاکستان آئی تھیں اور اب نوازشریف بھی اکتوبر میں پاکستان آرہے ہیں دونوں صورتوں میں کہیں نہ کہیں انٹرنیشنل سٹیبلشمنٹ ارینجمنٹ تھا۔ شہید بینظیر بھٹو بھی این آر او کر کے ملک میں آئی تھیں لیکن اللہ نہ کرے کے اس جیسا کچھ اس دفعہ ہو۔ میاں نوازشریف کی 21 اکتوبر کو وطن واپسی کے حوالے سے بہت سا بیک ڈور ورک ہوا ہوا ہے، ریاست نوازشریف کی آمد کے لیے تیاریاں کر رہی تھی۔ نوازشریف کی واپسی میں انٹرنیشنل سٹیبلشمنٹ کا رول بھی موجود ہے اور وہ کون لوگ ہیں ان کا نام بھی وقت آنے پر بتا دوں گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود چند حقائق ہیں جن سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں، یہ بات دنیا کی کوئی طاقت نہیں بتا سکتی کہ انہیں علاج کی غرض سے باہر تو بھجوا دیا گیا تھا لیکن اس کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایک کیس میں انہیں بھگوڑا قرار دیا تھا۔ میری نظر میں تو یہ قطعاً ناجائز بنیادوں پر کیا گیا تھا لیکن اس حقیقت سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں کہ انہیں عدالت نے اشتہاری قرار دیا تھا۔ عدالت کے اس فیصلے کے بعد نوازشریف لندن سے روانہ ہو کر لاہور ایئرپورٹ اتر کر سیدھے مینار پاکستان چلے جائیں کیا وہ چنگیز خان ہیں جو ملک فتح کر کے آ رہے ہیں۔ ملک میں ایک قانون موجود ہے اس پر عملدرآمد کرنا ہو گا، یہ ایک حقیقت ہے یا ملک میں کوئی ایسی اتھارٹی ہونی چاہیے جو کہہ دے کہ میاں صاحب پر قائم تمام مقدمات خارج کیے جاتے ہیں لیکن ایسا کچھ نہیں ہے۔
مراد سعید کے سسرال کے گھر چھاپہ، ساس کے کپڑے پھاڑدئیے گئے، اہلیہ کو دھمکیاں اور بدتمیزی کچھ روز قبل پولیس نے مراد سعید کے سسرال سے نامعلوم افراد نے مراد سعید کے برادر نسبتی اور انکے ملازمین کو اٹھا لیا اور ساتھ تمام موبائل فون اور لیپ ٹاپ بھی لے گئے ۔اس سے ایک روز قبل مراد سعید کے برادر نسبتی کو ایک جعلی مقدمے میں گرفتار بھی کیا تھا لیکن عدالت نے انھیں رہا کر دیا تھا۔ ذرائع کے مطابق مراد سعید کے ڈی ایچ اے پشاور والے گھر میں 8 سے دس سادہ کپڑوں میں اہلکار جبکہ 50 سے 60 پولیس والے بغیر وارنٹ کے گھسے، ذرائع کے مطابق پولیس والوں کو بتایا گیا تھا کہ ہم نے ایک ڈرگ ڈیلر کے گھر پر چھاپہ مارنا ہے اور میجر طیب آن بورڈ تھے، تین دفعہ گھر کی بغیر وارنٹ تلاشی لی گئی، یہ اہلکار 3 گھنٹے تک گھر میں موجود رہے، مراد کی ساس نےمزاحمت کی تو پولیس والوں نے انکے کپڑے پھاڑدئیے ، مراد سعید کی بیوی کیساتھ بدتمیزی کی گئی اور دھمکیاں دی گئیں جبکہ مرادسعید کی سالیاں انکو وہاں پر گھسیٹا گیا ہے۔ پولیس اہلکار زبردستی مرادسعید کی اہلیہ کی گاڑی لیکر جارہے تھے، مرادسعید کی ساس نے روکنے کی کوشش کی تو انکے کپڑے پھاڑ دئیے اور ساتھ کہا کہ آپکو کیا لگتا ہے کہ مرادسعید بولے گا تو ہم بولنے دیں گے؟ مرادسعید کے سالوں کو ہراساں کیا گیا، مرادسعید نے اسلام آباد والا جو گھر خالی کیا ،انکو بھی فالو کررہے ہیں، مرادسعید کے ملازم کو اٹھالیا گیااور 2 ہفتے بعد وہ ریکور ہوا جبکہ پشاور میں ایک ملازم جس کی عمر 18 سال تھی، پر تشدد کیا گیا۔ اس واقعے کے بعد مرادسعید کی اہلیہ روپوش ہیں جبکہ ان پر ایف آئی آر درج ہے جبکہ اس سے قبل پولیس افسر عمران الدین نے ایف آئی آر کاٹنے سےا نکار ردیا گیا۔ تحریک انصاف پشاور کے عہدیدار عرفان سلیم نے کہا کہ مراد سعید کے گھر جیسے چھاپہ مارا گیا وہ بہت شرمناک ہے، مراد سعید کے گھر والوں پر ظلم کیا گیا، ہم نے کل رات ریڈ والی ویڈیوز شئیر کیں تو یہ اور بدنام ہوں گے۔ خیبرپختونخوا پولیس سے درخواست ہے کہ اتنا مت گریں۔
اپنے پروگرام میں تجزیہ کرتے ہوئے عامرمتین نے کہا کہ نواز شریف کو بظاہرانتظامیہ ہرسہولت فراہم کرنےکیلئےتیار ہے۔لیکن بھائی جان یاد رکھیں کہ آخرکارآنا عوام کےپاس ہی ہےاورالیکشن بھی ہوناہے۔وہ پہلے ہی بپھری پڑی ہے کہ ایک لیڈر جیل میں ہے اور ایک مفرور، سزا یافتہ مجرم کو باہرسےلاکرالیکشن کروایاجارہا ہے۔عوام کو سنبھالنااتنا آسان نہیں ہوگا۔ عامرمتین نے کہا کہ جب الیکشن ہوتے ہیں، ماحول بن جاتا ہے تو عوام کسی کی نہیں سنتی، وہ یہ ضرور دیکھے گی کہ ایک لیڈر جیل میں ہے لیکن دوسرے سزا یافتہ شخص کو بلاکر اسے الیکشن لڑنے کی اجازت دی جارہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نورا کشتی کی تیاری جتنی مرضی کر لیں۔ مفرور مجرم کو لندن سے سرکاری پروٹوکول میں بجھوا لیں۔ قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ضمانت یا راہداری دلوا دیں۔ پنجاب پولیس کی نگرانی میں مفرور قیدی پر گل پاشی کروا لیں۔ شاہانہ پروٹوکول دلوا دیں۔ بریانی پلاؤ اور ولیمہ نما انداز میں روشنیوں اور قومی دھنوں کے ساتھ تاریخی جلسہ کروا لیں۔ اس کو پی ٹی وی پر بھی دکھلا دیں۔ پھر۰۰۰۰ پھر کیا ہو گا۔ آج کی سیاست کا سب سے بڑا سوال یہ ہے۔ ووٹ تو پھر بھی لینا پڑے گا۔ کیا پنجاب پلس وہ دلوا سکے گی۔ بارہ اکتوبر والے دن مشرف نے اپنے طاقت کے عروج پر ملٹری ڈکٹیٹر کے طور پر بھی یہ سب کیا مگر نہ تو 2002 میں اور نہ ہی 2008 میں اپنی کنگز پارٹی کو اکثریت دلوا سکا۔ تو اس دفعہ یہ ہو کیسے ہو گا۔ جعلی ریفرنڈم تو ہو سکتا ہے۔ انتتخابات؟؟ ووٹر کے دل جیتنا اک اور ہی کھیل ہے۔ ووٹ کو عزت سے شروع کر کے ووٹ کی تزلیل کا سفر جیت کر بھی ہار ہی ہوتی ہے۔ پی ٹی آئ سبق سیکھ رہی ہے آپ کو تو یاد ہونا چاہیے تھا میاں صاحب
سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف سائفر کیس میں وکلاء نے اہم نکات اٹھادیئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی قانونی ٹیم نے عمران خان کے خلاف قائم سائفر کیس میں اہم قانونی نکات اٹھادیئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف سائفر کیس میں ضمانت کی درخواست میں دلائل دیتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے اہم نکتہ اٹھایا اور کہا کہ حکومت نے ریٹینشن آف سائفر کا مقدمہ بنایا ہے اگر ریٹینشن آف سائفر کا مقدمہ عمران خان صاحب پر بن سکتا ہے تو شہباز شریف پر کیوں نہیں بن سکتا، عمران خان کے پاس سائفر 33 دن کیلئے رہا جبکہ یہی سائفر شہباز شریف کے پاس169 دن رہا، اس دوران قومی سلامتی کمیٹی کی میٹنگز بھی ہوئیں تب سائفر کہاں تھا؟ پاکستان تحریک انصاف کی قانونی ٹیم نے سائفر کیس میں دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ غیر قانونی حراست میں دیئے گئے بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی، الزام ہے کہ سابق وزیر اعظم سائفر کو اپنے ساتھ لے گئے ایسی صورتحال میں تو اس مقدمے کا مدعی اعظم خان کو ہونا چاہئیے تھا، 15 اگست کو وہ ملزم تھے لاپتہ ہوئے پھر یہ بیان آگیا۔ سلمان صفدر نے موقف اپنایا کہ اگر اعظم خان کو اس کرمنل ایکٹ کے حوالے سے علم تھا تو وہ اس کیس میں مدعی کیوں نہیں ہیں، ریکارڈ کی دیکھ بھال ان کے آفس کی ذمہ داری تھی، اعظم خان پر دھمکی اور پریشر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا یہ ڈاکومنٹری ثبوتوں کا کیس ہے، وہ دستاویزات کہاں ہیں۔ پی ٹٰی آئی کے وکیل نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ قانون صرف فوجیوں کے لیے ہے، یہ کیس وزارت خارجہ نے کیوں نہیں کیا،وزارت داخلہ اس کیس میں فریق کیسے ہو سکتا ہے ؟ یہ قانون دشمن کے ساتھ معلومات شیئر کرنے سے متعلق ہے،بدقسمتی سے اس قانون کو سیاسی مخالفین کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ چالان کے ساتھ جو ڈاکومنٹ ہیں کیا سائفر کی کاپی اس کے ساتھ منسلک ہے، اسپیشل پراسیکیوٹر نےجواب دیا کہ چالان کے ساتھ سائفر کی کاپی نہیں لگ سکتی، سیکرٹ ڈاکومینٹ ہونے کی وجہ سے سائفر کو چالان کے ساتھ منسلک نہیں کیا جاسکتا۔ عمران خان کی سائفر میں ضمانت کی درخواست پر دلائل دیتے ہوئے دوسرا اہم ترین نکتہ جو کہ بیرسٹر ابوذر سلمان نیازی کی طرف سے اٹھایا گیا کہ " چیئرمین پی ٹی آئی پر "ریٹینشن آف سائفر کا الزام" قانونی طور پر غلط ہے،کیونکہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 میں ترمیم کے بعد اگست 2023 میں لفظ "ریٹینشن" کا اضافہ کیا گیا اور آئین کے آرٹیکل 12 کے پیش نظر یہ مبینہ ایکٹ میں اگست 2023 سے پہلے بنائے گئے کیسز پر لاگو ہی نہیں ہوتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی سے منسوب سائفر والا واقعہ مارچ-اپریل 2022 میں واقع ہوا۔" اور اگر اس نقطے کو مان لیا جائے تو کیس سرے سے ہی ختم ہو جائے گا۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ شائد نواز شریف ریلیف نا ملنے کی صورت میں وطن واپس ناآئیں۔ تفصیلات کے مطابق آج نیوز کے پروگرام فیصلہ آپ کا میں سپریم کورٹ کی جانب سے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر سنائے جانے والے فیصلے اور نواز شریف کی واپسی کے موضوعات پر بات کی گئی، پروگرام میں شریک پیپلزپارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ نواز شریف کو اگر ریلیف نا ملا تو شائد وہ واپس نا آئیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نواز شریف کی واپسی پر عدلیہ کا ایک امتحان ہوگا، اگر عدالت نے کہا کہ وہ واپسی پر گرفتاری دیں، پھر ضمانت لیں اور جلسہ کریں تو 21 اکتوبر کو مینار پاکستان پر جلسہ نہیں ہوسکے گا۔ پروگرام میں شریک مسلم لیگ کے سینئر رہنما ملک احمد خان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی 5 سال کی نااہلیت والی سزا کا تعین پارلیمان کرچکی ہے، وکلاء دیکھیں گے کہ اس پر کوئی صورت ہوئی، نواز شریف کو ریلیف درکار ہوا یا ضرورت پڑی تو نظر ثانی میں ضرور جایا جائے گا، اگر سپریم کورٹ میں تقسیم ایسے ہی چلتی رہی تو یہ بڑا نقصان ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بادی النظر میں دیکھاجائے تو اپیل کا حق نا ہونا نہت بڑی ناانصافی ہے، ابھی سپریم کورٹ نے بہت سی چیزوں میں اپنی سمت کو درست کرنا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ نواز شریف ایک سزایافتہ مجرم ہیں، ان کی اپیلیں مسترد ہوچکی ہیں، وہ مقرر کردہ ٹائم فریم میں واپس بھی نہیں آئے، وہ جب بھی واپس آئیں گے انہیں قانون کے مطابق جیل جانا ہوگا، نیب کے جرم میں سزا یافتہ مجرم جہاں بھی لینڈ کرے قانون کے مطابق ان کی گرفتاری ضرور ہوگی۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں میں انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا، اس حوالے سے پارٹی کو بھی آگاہ کردیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرا لیڈر نواز شریف ہے، شہباز شریف یا مریم نواز شریف نہیں ہیں، میں ن لیگ کا حصہ ہوں ،مگر میں نے پارٹی کو بتادیا ہے کہ ان حالات میں الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اقتدار دیکھ چکی ہیں، ہمیں اقتدار کی جنگ اور کرسیوں کی لالچ سےپیچھے ہٹنا ہوگا، ہم نے اپنی تاریخ کو مسخ کردیا ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ عدم اعتماد کے بعد ہمیں حکومت نہیں بنانی چاہیے تھی، میں ٹروتھ کمیشن کے قیام کی حمایت کرتا ہوں، اگر یہ بنا تو میں سب سے پہلے اس میں پیش ہوں گا، نئی سیاسی جماعت کی جگہ موجود ہے مگر یہ بہت بعد کی بات ہے۔ نواز شریف کی واپسی پراستقبال کیلئے جانے سے متعلق سوال کے جواب میں شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ یہ حلقے کے عوام فیصلہ کریں گے کہ استقبال کیلئے جانا ہے یا نہیں جانا۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہ اور سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اکیس اکتوبر کو وطن واپس آرہے ہیں, وطن واپسی پر نواز شریف کو کئی کیسز کا سامنا کرنا پڑے گا, اس حوالے سے سابق وزیر اعظم کے وکیل امجد پرویز کہتے ہیں میاں نوازشریف 21 اکتوبر بروز ہفتہ وطن واپس آرہے ہیں ، اورانکے مقدمات سے نمٹنے کے طریقہ کار پر پارٹی قیادت اور انکے وکلاء کی ٹیم غور کررہی ہے۔ انہوں نے جنگ رپورٹر سے ٹیلی فونک گفتگو میں کہا فی الحال اس حوالے سے کچھ چیزیں زیر غور ہیں، جلد ہی اس حوالے سے حکمت عملی طے کر لی جائے گی اور اسکی روشنی میں ہی ان کے قانونی معاملات کو آگے بڑھایا جائیگا۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکلا کا کہنا ہے کہ نوازشریف کو باآسانی حفاظتی ضمانت مل سکتی ہے، نوازشریف کی سزا بدستور قائم ہے، ریاست اگر سزا معطلی کی مخالفت نہ کرے تو نواز شریف کی ضمانت کے حوالے سے کیس مضبوط ہوگا۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکلا چوہدری افراسیاب خان او ر حافظ ایس اے رحمان نے کہا اگر میاں نواز شریف لاہور ائیر پورٹ پر اترتے ہیں تو انکی واپسی سے قبل انکے وکلاء حکومت کو فریق بنا کر لاہورہائی کورٹ سے انکی بحفاظت اسلام آباد ہائی کورٹ تک پہنچنے سے متعلق ضمانت قبل از گرفتاری کروائینگے, جوکہ ہر درخواست گزارکو باآسانی مل جاتی ہے، انہوں نے کہا جس میں صرف اتنا موقف اختیار کیا جاتا ہے کہ درخواست گزار کیخلاف فلاں ایف آئی آر یا مقدمہ درج ہے ،جس میں متعلقہ عدالت سے ضمانت کیلئے رجوع کرنا چاہتا ہوں، حکومت کو روکا جائے کہ وہ میری متعلقہ عدالت سے ضمانت کی درخواست کے فیصلے تک مجھے گرفتار نہ کرے۔ فاضل وکلاء کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میاں نواز شریف کو ذہنی طور پر صحت مندی کی حالت میں اشتہاری مجرم قرار دیکر انکا کیس داخل دفتر کرکے ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کرچکی ہے، انہوں نے بتایا وہ حفاظتی ضمانت کے اجراء کے بعد سب سے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے خود سرنڈر کر کے داخل دفتر کی گئی اپیلوںور سزا معطلی کے حکمنامہ کی بحالی کی استدعا کریں گے ،اپنی غیر حاضری کے موقف کے حق میں وہ جہاں مختلف جو ازپیش کرینگے، ان کی سپورٹ کیلئے انکی میڈیکل رپورٹیں پیش کی جائیں گی ، اسکے بعد یہ واضح طورپر یہ متعلقہ عدالتی بنچ کا اختیار ہے کہ وہ ان کی سزا کو معطل کرے یا درخواست کو خارج کرکے انہیں جیل بھجو ادے۔ چوہدری افراسیاب خان ایڈوکیٹ نے مزید کہا سردست میاں نواز شریف کی سزا بدستور قائم ہے ،جس میں وہ سزا یافتہ مجرم اور اشتہاری ہیں، اسلئے ریاست انکے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے؟ اس کا انحصار ریاست کی پالیسی پرہوگا ؟اگر ریاست کی جانب سے انکی سزا معطلی کی مخالفت نہیں کی جاتی ہے تو انکا کیس بہت مضبوط ہوگا ،دوسری صورت میں معاملہ صرف عدالتی بنچ کی صوابدید پر ہوگا۔ انہوں نے واضح کیا ٹرانزٹ یا حفاظتی ضمانت ہر اس ملزم کا حق ہوتا ہے جوخود کو قانون کے سامنے سرنگوں کرنے کا ارادہ ظاہر کرے ،فاضل وکیل نے ایک اور ٹیکنیکل نقطہ پر خیال آرائی کرتے ہوئے کہا کہ ایک ملزم تو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 498 کے تحت ٹرانزٹ یا حفاظتی ضمانت کے لئے ہائی کورٹ سے رجوع کرسکتا ہے لیکن ایک سزا یافتہ مجرم اس کی بجائے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت کسی بھی ہائی کورٹ میں درخواست دیکر حفاظتی ضمانت والا موقف پیش کرکرے داد رسی لے سکتا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی سینئیر نائب صدر اور چیف آرگنائزر مریم نواز شریف آج لاہور میں اہم جلسے خطاب کریں گی,پارٹی قائد محمد نواز شریف کی وطن واپسی کے حوالے سے جلسہ ٹھوکر نیاز بیگ کے مقام پرہوگا۔ مریم نواز شریف 21 اکتوبر کو نواز شریف کی واپسی اور ان کے ایجنڈے کے بارے میں اظہار خیال کریں گی۔مسلم لیگ ن نےلاہور میں 21 اکتوبر کو مینار پاکستان کے جلسے سے قبل بڑے پارو شو کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔مسلم لیگ ن نے 20 ایکڑ سے زائد رقبہ پر پنڈال سجا لیا ہے۔پنڈال میں 25 فٹ بلند اور 60 فٹ چوڑا سٹیج تیار کر لیا گیا ہے۔ جلسےکیلئے پنڈال میں 20 ہزار کرسیاں لگا دی گئی ہیں،لاہور کے قومی اسمبلی کے حلقہ 135 جلسے کی تمام تر تیاریاں مکمل کر لی گئیں۔مقامی قیادت مسلم لیگ ن لاہور کے صدر سیف الملوک کھوکر اور صدر یوتھ ونگ لاہور فیصل کھوکر نے جلسہ گاہ کی تیاریوں کا جائزہ لیا۔ مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر مریم نواز جلسے سے خطاب کریں گی۔مسلم لیگ ن کے سینر رہنما پرویز رشید اور سابق وفاقی وزیر مریم اورنگزیب بھی شرکت کریں گے۔مریم نواز مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی وطن واپسی پر استقبال کے حوالے سے کارکنان سے خطاب کریں گی۔
سینئر سیاستدان مصطفیٰ نواز کھوکھر نے سینئر صحافی مطیع اللہ جان کی ن لیگ کی طرفداری کا پول کھول کررکھ دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سینئر سیاستدان مصطفیٰ نواز کھوکھر نے سینئر صحافی مطیع اللہ جان کو انٹرویو دیا ، مطیع اللہ جان نے مصطفیٰ نواز کھوکھر سے سوال کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض کا احتساب نہیں کرنا چاہیے کیا آپ کیلئے ان دونوں کے کام قابل قبول ہیں؟ مصطفیٰ نواز کھوکھر نے جواب دیا کہ اگر آپ نے احتساب کرنا ہے تو اس وقت سے شروع کریں جب اصغر خان کا آن ریکارڈ بیان موجو ہے، آپ احتساب کے معاملے میں سیلیکٹو مت ہوئیں،آپ سیلکٹیو ہورہے ہیں کیونکہ اصغر خان کیس میں نواز شریف اور ان باقی جنرلز کا نام ہے جنہوں نےپیسے لے کر اتحاد بنوائے۔ https://x.com/ArtistInWarTime/status/1709907751088906322?t=go3fQ2LIzDJdm28ZPqbEdA&s=08 مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ احتساب شروع کرنا ہے تو ادھر سے شروع کریں اور پھر قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض تک آئیں۔ میزبان مطیع اللہ جان نے کہا کہ پھر تو یہ احتساب نا کرنے والی بات ہے۔ مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ کیوں نا ہونےو الی بات ہے، مطلب ماضی میں بینظیر بھٹو کے ساتھ ہونےوالے غلط اقدامات کو معاف کررہے ہیں۔ مطیع اللہ جان نے اس بات سےنتیجہ اخذ کرکے سوال کیا کہ اس کا مطلب ہوا کہ نئی جماعت بنانے کیلئے آپ کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کی ضرورت ہے، آپ کو سڑکوں پر جانا چاہیے تھا،ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر باتیں کرنے سے ہوٹلوں میں بیٹھ کر تقریریں کرنے سے پارٹیاں نہیں بنتیں۔ مصطفیٰ نواز کھوکھر نےکہا کہ ہم نے کتنے سیمینارز کیے، ہم نے کسی ہوٹل میں کوئی سمینار نہیں کیا، سب سے پہلے ہم نے کوئٹہ سے آغاز کیا جہاں انسانی حقوق کی سب سے زیادہ خلاف ورزیاں ہورہی ہیں، ہماری کونسی بات سے ایسا ثابت ہوتا ہے کہ ہم پرو اسٹیبلشمنٹ ہیں، ہم نےاپنے سیمینارز میں متعدد بار اسٹیبلشمنٹ کے رول کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ مطیع اللہ جان نے سوال کیا کہ اس وقت ملک کون چلا رہا ہے؟ سینئر سیاستدان نے جواب دیا کہ اس وقت ملک اسٹیبلشمنٹ ، فوج چلارہی ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے ، منتخب لوگوں کے پاس یہ اختیار ہونا چاہیے کہ وہ اس ملک میں حکومت کرسکیں۔
گزشتہ روز سائفر کیس کی جیل میں سماعت کے دوران شاہ محمودقریشی اور عمران خان کی ملاقات ہوئی۔ جس کے دوران دونوں نے ایک دوسرے سے گفتگو کی۔ ذرائع کے مطابق عمران خان اور شاہ محمود ایک جالی کے پیچھے بیٹھے تھے ،جیل سماعت میں کمرہ عدالت اور چئیرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود کے درمیان جالی حائل تھی ۔ جالی سے ہی عمران خان اور شاہ محمود نے اڈیالہ جیل میں لگنے والی عدالت میں ملاقات کے دوران کچھ دیر سرگوشیوں میں بات چیت کی۔ غیر متوقع طور پر دوران سماعت عمران خان اور ان کے وکلا نے جیل سہولیات اور خدشات کے حوالے سے عدالت کے سامنے کوئی شکایت نہیں کی ۔ ذرائع کے مطابق عمران خان بظاہر اسی طرح نارمل صورت حال میں تھے جس طرح اٹک جیل کی سماعتوں کے دوران ہوتے تھے ، جیل میں کیس کی سماعت تقریبا ایک گھنٹہ تک جاری رہی ، پراسیکیوشن نے ان کیمرہ سماعت اور جلد ٹرائل کی درخواستیں دائر کیں جبکہ عمران خان کے وکلاء نے اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ آنے تک سماعتیں ملتوی کرنیکی درخواست دائر کی۔
پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما اسد قیصر نے عمران خان کےبیرون ملک جانے کی تجویز سے متعلق خبروں کی تردید کردی ہے۔ تفصیلات کے مطابق سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اپنے ایک بیان میں چیئرمین پی ٹی آئی کے بیرون ملک جانے سے متعلق خبروں کی تردید کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیااور کہا کہ عمران خان کے بیرون ملک جانے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسا کرنا تودور کی بات ہم نے کبھی ایسا سوچا بھی نہیں ہے،ہمارا ماننا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی تمام کیسز میں باعزت بری ہوں، محمد علی درانی سے ملاقات میں بھی یہی موقف اپنایا کہ ہم ملک میں جمہوریت کا تسلسل چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ملک میں صاف و شفاف انتخابات کروائے جائیں۔ خیال رہے کہ نجی خبررساں ادارے "سنو ٹی وی" نےدعویٰ کیا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی بیرون ملک منتقلی کے آپشن پر غور کیا جارہا ہے، اس حوالے سے صدر مملکت عارف علوی اور سینئر پارٹی رہنما اسد قیصر سرگرم ہیں۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ اگر چیئرمین پی ٹی آئی کی بیرون ملک منتقلی کی راہ ہموار ہوجاتی ہےتو تحریک انصاف کو عام انتخابات میں حصہ لینے کی مکمل آزادی ہوگی۔
سینئر صحافی اعزاز سید نے کہا ہے کہ بہت سے سیاستدان اور بیوروکریٹس معیشت اور احتساب کی بنیاد پر انتخابات ملتوی کیے جانے کی باتیں کررہے ہیں۔ جیو نیوز کے پروگرام رپورٹ کارڈ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اعزاز سید نے مولانا فضل الرحمان کے جنوری میں انتخابات نا ہونے سے متعلق بیان سے متعلق سوال کےجواب میں کہا کہ مولانا بہت سوچ سمجھ کر سیاست کرتے ہیں، وہ کبھی اسٹیبلشمنٹ کے دائیں ہاتھ پر نہیں بلکہ بائیں ہاتھ کی طرف ہوتے ہیں،وہ ہمیشہ گڈ بکس میں رہنا چاہتے ہیں، مولانا ہمیشہ وہ موقف اختیار کرتے ہیں جو اس ملک کے طاقتور حلقوں کی خواہش ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت وفاقی دارالحکومت میں بہت حد تک سگنل موجود ہیں کہ انتخابات معیشت اور احتساب کو بنیاد بنا کر موخر کیے جاسکتے ہیں،اگر نگراں حکومت کے دور میں ڈالر 250 روپے تک آگیا، قیمتیں کنٹرول کرلی گئیں تو یہ موقف اپنایا جائے گاکہ یہ نظام عوام کو ریلیف دینےکے قابل ہے لہذا انتخابات ملتوی کردیا جائے، اگر یہ فیصلہ ہوگیا کہ انتخابات موخر یا ملتوی کرنے ہیں تو یہ ساری جماعتیں خود اس حق میں دلائل دیں گی جو آج انتخابات کا مطالبہ کررہی ہیں۔ اعزاز سید نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے کچھ لوگوں سے بھی اہم ملاقات ہوئی ہے، چیف الیکشن کمشنر ایک خودمختار ذہن کے شخص ہیں،تاہم ایک اہم شخصیت کی ملاقات ہوئی ہے جس کے نتائج وقت آنے پر سامنے آئیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنرل فیض کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے، ہر چیز میں ان کا نام لیا جارہا ہے کیونکہ وہی سامنے تھے، تاہم ایسا نہیں ہے کہ کوئی بھی آرمی افسر اپنے طور پر ایسی چیزیں کرسکتا ہے،فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عمل درآمد سے متعلق رپورٹ 27 اکتوبر کو دینی ہے، اس فیصلے کے چار نکات ایسے ہیں جو بہت اہم ہیں،ان نکات پرکافی حد تک عمل درآمد ہوگا،اور ہوسکتا ہے کہ اس فیصلے پر عمل درآمد کیلئے چیف جسٹس صاحب کوئی عدالتی میکنزم بنادیا جائے۔
نوازشریف کی وطن واپسی پر عمران خان کو بڑا سیاسی دھچکا دینے کی پلاننگ۔۔ میاں نوازشریف کی قانونی ریلیف ملنے کی صورت میں سیاسی قائدین سے ملاقات کریں گے تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن نے عمران خان اور تحریک انصاف کو الیکشن سے باہر رکھنے اور کاؤنٹر کرنے کیلئے 9 مئی کوبطور ہتھیار استعمال کرنیکا فیصلہ کیا ہے اور وطن واپسی پر نوازشریف دیگر سیاسی قائدین کیساتھ ملکر 9 مئی سے متعلق بیانئے میں اہم کردار ادا کریں گے نجی چینل کے مطابق نوازشریف عدالتوں سے ریلیف ملنے کی صورت میں سیاسی قائدین آصف زرداری، بلاول بھٹو، مولانا فضل الرحمان ، چوہدری شجاعت حسین سمیت حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کے قائدین سے ملاقاتیں کریں گے جس کے بعد 9 مئی واقعات کے خلاف ایک مشترکہ اعلامیہ بھی سامنے آ سکتا ہے۔ نواز شریف سیاسی سرگرمیاں شروع کرتے ہیں تو زرداری،بلاول،مولانا فضل الرحمٰن،چودھری شجاعت حسین سمیت سابق حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کے قائدین سے ملاقاتیں کر کے 9مئی کے ماسٹر مائنڈز کے خلاف ایک مشترکہ اعلامیہ بھی سامنے آ سکتا ہے۔ یادرہے کہ اس سے قبل جاوید لطیف اور رانا ثناء اللہ بھی مطالبہ کرچکے ہیں کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث رہنماؤں کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ جاوید لطیف نے کہا تھا کہ ہمارا بیانیہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے احتساب کا ہے۔
نو ماہ سے جاری مقدمے سے بول ٹی وی کے سابق صحافی شاہد اسلم ڈپریشن کا شکار ہوگئے, مقدمے کی وجہ سے ان کی صحافت کتنی متاثر ہوئی، اس سوال کے جواب میں شاہد اسلم کا کہنا تھا کہ 'جب سے میرے خلاف مقدمہ درج ہوا ہے، میں بے روزگار ہوں۔ اس سے زیادہ کیا متاثر ہو سکتا ہے؟ میری سوشل لائف، میری ذاتی زندگی اور میری پروفیشنل لائف سب کچھ ایک جھٹکے میں الٹ کر رہ گیا۔ صحافی شاہد اسلم کو ایک تحقیقاتی اسٹوری کی وجہ سے رات کے اندھیرے میں اٹھایا گیا۔ شاہد اسلم کو لاہور سے سادہ کپڑوں میں 20 کے قریب افراد نے 13 جنوری 2023 کو بغیر وارنٹ گرفتار کر کے اسلام آباد منتقل کیا تھا۔ خبروں کے مطابق انہیں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کے اہل خانہ کے ٹیکس ریکارڈ منظرعام پر لانے کے معاملے میں حراست میں لیا گیا۔ اگلے دن ہی گرفتار ملزم شاہد اسلم کو ایف آئی اے نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں جج عمر شبیر کے سامنے پیش کیا۔ سماعت کے دوران ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ بیرون ملک مقیم صحافی احمد نورانی کو شاہد اسلم سے ایف بی آر کی انفارمیشن مل رہی تھی۔ صحافی شاہد اسلم کی کہانی تحقیقاتی اسٹوریز کرنے والے صحافیوں کے لئے ایک کیس اسٹڈی بھی ہے۔ شاہد اسلم کا کہنا ہے کہ اس واقعہ کے بعد سے اب تک مجھے کہیں نوکری نہیں ملی۔ میں عملاً بے روزگاری کی زندگی گزار رہا ہوں۔ شاہد اسلم پر ایف آئی آر درج ہوئی اور انہیں مقدمے کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ایف آئی آر میں پیکا آرڈیننس 2016 کے سیکشن 4، پاکستان پینل کوڈ 1960 کے 109 سیکشن RW/3 اور دی پریوینشن آف کرپشن ایکٹ 1947 کے سیکشن 5 (2) کے قوانین کے تحت مقدمہ درج ہوا۔ کیا شاہد اسلم اپنے ساتھ ہونے والے واقعے کے بعد ذہنی دباؤ سے باہر نکل پائے ہیں؟ شاہد کی زندگی میں کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں؟ کیا شاہد اسلم صحافتی ذمہ داریاں پہلے کی طرح ادا کر پا رہے ہیں؟ صحافی کی سیفٹی اس کی جان ہی نہیں بلکہ اس کی زندگی کے وہ معاشی، معاشرتی اور ذاتی معاملات بھی ہوتے ہیں جو کسی ایک واقعہ کے رونما ہونے سے یکسر تبدیل ہو جاتے ہیں۔ انٹرویو کے دوران شاہد اسلم نے سیفٹی کے حوالے سے کئے گئے سوال پر بتایا کہ اسٹوری تو میں نے کی نہیں، اسٹوری تو انگریزی روزنامے سے وابستہ احمد نوارنی نے کی تھی۔ مجھے تو اس الزام میں گرفتار کیا گیا کہ میں نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو ( ایف بی آر) سے سٹوری حاصل کرنے کے لئے معاونت کی ہے۔ میرا مؤقف یہ ہے کہ اس میں سچائی نہیں ہے تو میں پہلے سے ہی اپنی سیفٹی کے بارے میں کیا اقدامات اٹھاتا۔ اب تک میں آٹھ پیشیوں میں عدالت جا چکا ہوں۔ ایک نہ ایک دن یہ مقدمہ ختم ہو گا۔ ہر رات نے ختم ہونا ہوتا ہے اور صبح ہونی ہوتی ہے۔ میرے مقدمے کو آگے لے کر جائیں، ایسے ہی عدالتوں میں چکر لگواتے رہیں گے، سزا وہ مجھے کوئی دے نہیں سکتے۔ اس کیس کو لٹکانے کا مقصد یہی ہو گا کہ صحافیوں کے لئے ایک سبق رہے۔ شاہد اسلم کا کہنا ہے کہ 4 اکتوبر کو میری پیشی ہے اور ہو سکتا ہے اس پیشی کے دوران مجھ پر فرد جرم بھی عائد کر دی جائے۔ شاہد نے مزید کہا کہ اب تک 8 پیشیوں میں حاضر ہو چکا ہوں اور آخری پیشی میں عدالت میں چالان کی کاپی بھی جمع ہوئی تھی۔ اس مقدمے کی وجہ سے ان کی صحافت کتنی متاثر ہوئی، اس سوال کے جواب میں شاہد اسلم کا کہنا تھا کہ 'جب سے میرے خلاف مقدمہ درج ہوا ہے، میں بے روزگار ہوں۔ اس سے زیادہ کیا متاثر ہو سکتا ہے؟ میری سوشل لائف، میری ذاتی زندگی اور میری پروفیشنل لائف سب کچھ ایک جھٹکے میں الٹ کر رہ گیا ہے'۔ شاہد اسلم بول ٹیلی وژن سے وابستہ تھے اور وہ لاہور میں اپنی صحافتی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے۔ فروری کے آغاز میں ہی انہیں زبانی طور پر ادارے کی جانب سے معطلی کے فیصلے سے آگاہ کردیا گیا تھا جبکہ مہینے کی آخری تاریخوں میں نوٹس بھی آ گیا تھا۔ شاہد کے مطابق ادارے نے کوئی خاص وجہ تو نہیں بتائی، اتنا ضرور کہا تھا کہ معاملات ٹھیک ہو جائیں گے تو ادارے کے لئے دوبارہ خدمات سر انجام دے سکتے ہیں۔ شاہد اسلم کے مطابق جب مجھ پر مقدمہ درج ہوا تو انٹرنیشنل میڈیا نے بہت سپورٹ کیا جس میں خاص کر ' کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس' اور 'رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز' خاص طور پر رابطے میں ہیں۔ یہ ادارے میری ہر پیشی کو کور بھی کرتے ہیں۔ امریکہ میں قائم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے پاکستانی صحافیوں کے خلاف مقدمات کے اندراج پر تنقید کی۔ واشنگٹن میں سی پی جے کے ایشیا پروگرام کے کوآرڈی نیٹر سٹیون بٹلر نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا؛ 'پاکستان میں فوج یا کسی دوسرے ادارے پر تنقیدی تبصروں کی پاداش میں صحافیوں کو قانونی طور پر ہراساں نہیں کیا جانا چاہئیے۔ ان کے خلاف دائر متعدد ایف آئی آرز کو ایک ساتھ واپس لیا جانا چاہئیے۔ سی پی جے پاکستان کو صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ممالک میں شمار کرتا ہے جہاں سویلین حکومتوں اور فوج کی زیر قیادت سکیورٹی ایجنسیوں پر صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے اور ہراساں کرنے کے الزامات لگائے جاتے ہیں'۔ شاہد اسلم کا کہنا ہے کہ وفاقی قانون 2021 کے تحت صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کے تحفظ کے لیے اگر کمیشن بن جاتا تو شاید میں اس مقدمہ سے جلدی بری ہو جاتا مگر اس ایکٹ کی مثال وہی ہے کہ انصاف کے لئے عمارت تو بنا دی مگر قاضی کی تلاش باقی ہے۔ شاہد اسلم نے موجودہ صورت حال کا احاطہ کچھ اس طرح کیا کہ 'میں ابھی تک ایک ٹراما سے گزر رہا ہوں، کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں۔ میں نے اپنے ذہنی تناؤ کے لئے کسی بھی نفسیاتی ڈاکٹر کی طرف رجوع نہیں کیا۔ اگر میں وقت سے اپنا ٹریٹمنٹ کروا لیتا تو شاید ایک بہتر ماحول میں خود کو تصور کرتا'۔ شاہد کا کہنا ہے کہ رپورٹنگ کے لئے میں مختلف سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں جاتا تھا جہاں اب پچھلے 9 ماہ سے میں نہیں جا سکا۔ جن لوگوں سے میں روزانہ بات کرتا تھا اب مہینوں بات نہیں ہوئی۔ ذہنی تناؤ کا شکار الگ سے ہوں۔ اسلام آباد پریس کلب کے صدر انور رضا کا کہنا ہے کہ شاہد اسلم کی نوکری کے بارے میں سیکرٹری انفارمیشن سے ہم نے بات کی ہے کہ شاہد اسلم کے واجبات ادا کئے جائیں۔ بول ٹی وی چونکہ اب کسی اور کی مالکیت ہو گیا ہے، ہم نے ان سے بھی شاہد اسلم کے واجبات کے بارے میں بات کی ہے۔ بہت جلد انہیں نوکری بھی مل جائے گی جبکہ بول نیوز کے حکام کے مطابق شاہد اسلم کی ڈیوٹی ہولڈ کی ہوئی ہیں، انہیں نوکری سے نہیں نکالا گیا۔ لاہور پریس کلب کے صدر اعظم چودھری کا کہنا ہے کہ شاہد اسلم کا ہم نے ہر قدم پر ساتھ دیا ہے۔ رہائی کے بعد شاہد اسلم لاہور پریس کلب بھی تشریف لائے اور پریس کلب کے ارکان کو معاملے سے متعلق مکمل بریفنگ بھی دی۔ لاہور پریس کلب کے اعلیٰ عہدیدار شاہد اسلم کی پیشی میں ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔
عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کی خبریں پیسے دے کر چلوائی جا رہی ہیں: مسلم لیگ ن کے رہنمائوں کے مطابق حکومت ان کو مل چکی ہے، رسماً اعلان ہونا باقی ہے: سینئر صحافی وتجزیہ نگارعارف حمید بھٹی سینئر صحافی وتجزیہ نگار عارف حمید بھٹی نے نجی ٹی وی چینل جی این این نیوز کے پروگرام خبر ہے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک حکمت عملی کے تحت میاں محمد نوازشریف کو سیاست سے دوبارہ سے زندہ کرنے کے لیے میڈیا اور سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ نوازشریف کے ساتھ جو لوگ بھی رابطے میں ہیں ان کو پاکستان واپس لا رہے ہیں وہ سب اپنے فیصلے پر ایک دن پچھتائیں گے۔ ہم رہیں نہ رہیں لیکن تاریخ میں یہ سب کچھ لکھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف کو جو اب ملک میں لا رہے ہیں ان کے ساتھ یہ جو کچھ کریں گے وہ بھی تاریخ میں درج ہو گا، آج ان کے پاس طاقت ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا بھی ایک نظام ہے۔ پاکستان میں سب سے غیراہم نوازشریف ہیں لیکن میڈیا پر چلنے والا ہر پروگرام ان کے گرد چل رہا ہے۔ عمران خان اس وقت ملک میں سب سے اہم شخصیت ہے جسے عوام دیکھنا چاہتی ہے لیکن اس کی جھلک بھی نہیں دکھائی جاتی۔ انہوں نے کہا کہ عوام چاہے خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے لیکن ملک کے چند طاقتور خاندانوں کے پاس ہر سہولت میسر ہے جو قوم کے ساتھ ظلم کر رہے ہیں۔ عام انتخابات ابھی ہونے ہیں لیکن لندن میں بیٹھا شخص لکھ کر دے رہا ہے کہ آئندہ میں اس ملک کا وزیراعظم بنوں گا۔ عوام ہی خوشحال ہو گئی تو یہ چند خاندان کہاں سے کھائیں گے؟ جو ملک سے باہر محل بناتے ہیں۔ انہوں نے انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ پیسے دے کر یہ خبریں چلائی جا رہی ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کی سٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل ہو رہی ہے لیکن اس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ عمران خان جیل میں بیٹھا بھی صرف ایک ہی مطالبہ کر رہا ہے کہ صاف شفاف انتخابات کروائے جائیں، ڈیل کس بات کی کروں؟ مسلم لیگ ن کے رہنمائوں کے مطابق حکومت ان کو مل چکی ہے، رسماً اعلان ہونا باقی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کی سٹیبلشمنٹ سے ڈیل خبریں جان بوجھ کر پلانٹ کی جا رہی ہیں، کل جب اٹک جیل سے عمران خان نکلے تو انتظامیہ کو ہدایت تھی کہ اگر ان کی ایک بھی تصویر جاری ہوئی تو آپ سب سسپنڈ ہوں گے۔ اٹک جیل سے نکلنے پر گاڑی میں موجود عمران خان کے عکس کی ویڈیو سے پریشان ہو کر ایک اعلیٰ پولیس افسر کی سرزنش کی گئی ہے، اگر وہ باہر آگیا تو ان کے پلے کچھ نہیں رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کی ڈیل کا تاثر دیا جا رہا ہے لیکن ڈیل جس کے ساتھ ہونی تھی اس کے ساتھ ہو چکی ہے، لندن سے کوئی فلائٹ لاہور ڈائریکٹ نہیں آتی لیکن ٹیلیفون ڈائریکٹ آتے ہیں ۔ غربت میں پاکستان سستا ترین ملک ہے، قوت خرید ختم ہو چکی، 98 فیصد عوام بجلی کا بل ادا کرنے اور ایک کلو آٹا خریدنے کے قابل بھی نہیں رہے، چند خاندانوں نے اس ملک کو یرغمال بنا لیا ہے۔
مسلم لیگ ن نے عام انتخابات کیلئے "ادارے نہیں شخصیات نشانہ " کی حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن نے ملک کی معاشی و سیاسی تباہی کی ذمہ داری سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید، سابق چیئرمین نیب جاوید اقبال، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور پانامہ جے آئی ٹی پر ڈالنے کامنصوبہ بنالیا ہے۔ ن لیگ کی مقامی قیادت نے لندن میں کیے گئے فیصلوں کے تحت میدان میں اترنا شروع کردیا ہے، ایک طرف پارٹی کی سینئر نائب صدر مریم نوازشریف نے لاہور میں ایک تقریر کے دوران سپریم کورٹ کے سابق و موجودہ ججز کو نشانہ بنایا تو ن لیگی رہنما میاں جاوید لطیف نے سیاسی لوگوں کے ساتھ ساتھ ریاستی اداروں کے لوگوں کو بھی کٹہرے میں لانے کی باتیں کیں۔ مریم نواز شریف نے اپنی تقریر میں کہا کہ چار پانچ کے ایک گروہ نےنواز شریف کو باہر نکالا ، قوم اقامہ بینچ کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ دوسری جانب میاں جاوید لطیف نے کہا کہ ن لیگ کی حکومت گرانے والے کرداروں کا احتساب ضروری ہے،7201 کے کرداروں کا بھی احتساب ہونا چاہیے ورنہ سویلینز خود ایسا کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ خیال رہے کہ نجی ٹی وی چینل نے لندن میں ن لیگ کے بڑوں کے اجلاس کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ن لیگ انتخابی مہم کے دوران ریاستی اداروں کے بجائے اہم شخصیات کونشانہ بناتے ہوئے ملکی معاشی بربادی کی ذمہ داری ان شخصیات پر ڈالی جائے گی اور اس بیانیے کو عوام میں پھیلانے کیلئے خفیہ آڈیوزبھی سامنے لائی جائیں گی۔
سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے گزشتہ روز ڈیرہ اسماعیل خان میں جلسہ کیا، اس جلسے میں پرویز خٹک کو ڈیرہ اسماعیل خان سرکاری پروٹوکول میں لایا گیا لیکن جلسہ بری طرح ناکام رہا۔ پرویز خٹک کے صاحبزادے اسحاق خٹک نے ایک ویڈیو شئیر کی جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پرویز خٹک کا قافلہ آرہا ہے اس قافلے میں آگے پیچھے پولیس کی گاڑیاں تھیں۔ رضوان غلیزئی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ غداری کے کیسز سے سرکاری پروٹوکول تک کا فاصلہ صرف ایک پریس کانفرنس کا ہے۔ تمام تر حکومتی سرپرستی کے باوجود پرویز خٹک کا جلسہ بری طرح فلاپ رہا اور خالی کرسیوں کا سمندر نظر آیا۔ پی ٹی آئی رہنما فیصل امین گنڈاپور نے جلسے کی ویڈیو شئیر کرتے ہوئے کہا کہکھٹمل پارٹی کا لوٹا محمود خان ڈیرہ اسماعیل خان میں "لاکھوں لوگوں" سے تین کنال کے پلاٹ میں خطاب کر رہا ہے۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔ ڈی آئی خان عمران خان اورتحریک انصاف کا گڑھ تھا، ہے اور رہے گا. پرویز خٹک کی آمد سے قبل شہر میں استقبالیہ بینرز لگائے گئے لیکن مقامی لوگوں نے ان بینرز پر لوٹے لٹکادئیے خیال رہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان تحریک انصاف کے علی امین گنڈاپور اور جے یو آئی ف کے مولانا فضل الرحمان کا آبائی شہر ہے، علی امین گنڈاپور نے الیکشن 2018 میں اس شہر سے مولانا فضل الرحمان کو شکست دی تھی جبکہ دوسری سیٹ پر تحریک انصاف کے شیخ یعقوب منتخب ہوئے جو بعدازاں منحرف ہوکر پرویز خٹک سے جاملے۔
تحریک انصاف کے ساتھ جو کچھ اب ہو رہا ہے وہ 40 سالوں سے پیپلزپارٹی کے ساتھ ہو رہا ہے: رہنما پیپلزپارٹی پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما ندیم افضل چن نے نجی ٹی وی چینل آج نیوز کے پروگرام "فیصلہ آپ کا" میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جتنا عرصہ جو بھی اقتدار میں رہا ہے اسے اس کا حساب دینا پڑے گا۔ میاں محمد نوازشریف سینئر سیاستدان ہیں اور میری دعا ہے کہ خیریت سے اپنے ملک واپس آ کر اپنا کردار ادا کریں۔ انہیں جلد پاکستان واپس آکر اپنے خلاف کیسز کا دفاع کرنا چاہیے اور قوم کو امید دینی چاہیے جسے اس وقت ایک لیڈر کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرا میاں محمد نوازشریف سے ایک بڑا سوال یہ ہے کہ وہ اپنے بھائی کی حکومت میں جلاوطن کیوں رہے؟ جس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ موٹروے، ڈالر، پلوں سے زیادہ نظام عدل کسی بھی ملک کیلئے سب سے اہم ہوتا ہے، پاکستان میں اتنی دفعہ اقتدار میں رہنے کے باوجود آپ اس ملک کا نظام عدل ٹھیک نہیں کر سکے ۔ انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری نے ہمیشہ دہشت گردی کے خلاف بات کی ہے اور پاکستان پیپلزپارٹی نے ہمیشہ جیلوں اور شہادتوں کی صورت میں اس کی قیمت ادا کی ہے۔ پاکستان میں ہمارے علاوہ کوئی یہ بات نہیں کرے گا کہ ثاقب نثار یا جنرل فیض حمید جیسے لوگوں کا احتساب ہونا چاہیے۔ ہماری قوم کے ساتھ افغان جہاد کے بعد کھلواڑا کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کسی اور کی جنگ لڑی جس کا فائدہ کسے پہنچا ، کس نے جائیدادیں بنائیں، پیسے بنا کر شوگر ملیں قائم کیں، ملک کو آگے لے کر چلنا ہے تو یہ دیکھنا بھی ہو گا اور سب کو اس کا پتا ہونا چاہیے۔ انتخابات کے حوالے سے کہا کہ میں پہلے دن سے کہہ رہا ہوں کہ لیول پلیئنگ فیلڈ صرف ن لیگ کیلئے جسے بیوروکریسی اور انتظامیہ سپورٹ کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ہمیں لگا کہ ن لیگ سٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا ہے تو ہم ضرور بات کریں گے لیکن بیوروکریسی کو دیکھیں تو وہ ن لیگ کی مکمل حمایت کر رہی ہے کیونکہ وہ ایک لمبا عرصہ اقتدار میں رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے ساتھ جو کچھ اب ہو رہا ہے وہ 40 سالوں سے پیپلزپارٹی کے ساتھ ہو رہا ہے، پنجاب بڑا صوبہ ہے لیکن ہم یہاں کبھی اقتدار میں نہیں رہے۔ انہوں نے کہا کہ چھوٹے صوبوں کے ساتھ وفاقی حکومت دے کر پیپلزپارٹی کے ساتھ سب سے بڑا کھلواڑ کیا گیا، بینظیر بھٹو کی شہادت کے باوجود بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ پاکستان پیپلزپارٹی انتظامیہ کیلئے ویسے ہی اچھوت ہے جیسے مشرف یا ضیاء الحق کے دور میں تھے۔ محسن نقوی کے حوالے سے کہا کہ ہم ان کے قریب ہیں لیکن وہ ہمارے قریب نہیں ہیں۔
پیپلزپارٹی کے رہنماء سید خورشید شاہ نے بول سے خصوصی گفتگو میں کہا ہے کہ جبر سے کوئی سیاسی جماعت ختم نہیں ہوتی، عمران خان بالکل نہیں ٹوٹے گا، جتنا عمران خان پر دباؤ ڈالیں گے وہ مزید مضبوط ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک کو بچانے کی آخری امید صاف شفاف الیکشن ہے۔ مولانا فضل الرحمان ایسی باتیں نہ کریں، وہ خود بضد تھے کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جلدی لائی جائے۔ خورشید شاہ کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت مسلم لیگ ن کی حکومت ہے وہ الیکشن کیوں چاہے گی؟ ان کا مزید کہنا تھا کہ آئین کے مطابق نئے صدر کے انتخاب تک موجودہ صدر عہدے پر برقرار رہیں گے۔ دوسری جانب نجی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے خورشید شاہ نے نگراں حکومت کون لیگ کی حکومت قراردے دیا اور کہا ن لیگ کی حکومت ہے تو نواز شریف کو واپس آنا چاہیئے۔ خورشیدشاہ کا کہنا تھا کہ فوادحسن فوادکی شمولیت سےواضح ہوگیا ہے کہ نگراں حکومت نہیں ن لیگ کی حکومت ہے ، ن لیگ کی گزشتہ حکومت کوبھی فوادحسن فوادہی چلاتےتھے. پی پی رہنما نے کہا کہ سیاستدان مخالف ضرورہوتے ہیں آپس میں دشمن نہیں ہوتے، سیاست کل کیا ہوتی ہے کچھ پتہ نہیں،کل کون اقتدار کون جیل میں ہوتا ہے۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ملکی معیشت کو استحکام کیلئے کیے جانے والے اقدامات کے پڑوسی ملک بھارت کے میڈیا پر بھی چرچے ہونے لگے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر بھارتی خبررساں ادارے کی ایک رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں پاک فوج کے سپہ سالار جنرل عاصم منیر کی معاشی استحکام کیلئے کی جانے والی کاوشوں کو خوب سراہا گیا ہے۔ بھارتی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاک فوج کے چیف جنرل عاصم منیر معاشی استحکام کیلئے کئی ممالک سے بات چیت کررہے ہیں تاکہ پاکستان کو جلد از جلد معاشی مدد مل سکے، کیونکہ پاکستان کی معاشی صورتحال دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے، ڈالر کےمقابلے میں روپے کی قدر گرتی جارہی ہے اور مہنگائی روز نئے ریکارڈ بنارہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے پاک فوج نے مورچہ سنبھال لیا ہے اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اپنے ملک کو سب سے بڑے معاشی بحران سے نکالنے کا عزم کا اظہار کیا ہے، حالانکہ یہ کام بہت مشکل ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق آرمی چیف نے گزشتہ سالوں میں پاکستان سے دوسرے ممالک منتقل ہونےو الے کاروبار اور سرمایہ کاروں کو واپس لانے کیلئے کوششیں شروع کردی ہیں، امید کی جارہی ہے کہ پاکستان میں جلد ہی زراعت، صنعت اور آئی ٹی کے شعبے میں یہ کاروباری شخصیات دوبارہ بڑا کارنامہ کریں گے۔
تجزیہ کار اور قانونی ماہر ریما عمر نے کہا ہے کہ صدر کے پاس صرف تاریخ دینے کا اختیار ہی نہیں بلکہ وہ آئینی طور پر تاریخ دینے کے پابند ہیں، یہ ان کی آئینی ذمہ داری ہے۔ جیو نیوز کے پروگرام رپورٹ کارٹ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار اور قانونی ماہر ریما عمر نے صدر کی جانب سے انتخابات کی تاریخ دینے کے اعلان سے متعلق گفتگو کی اور کہاکہ آئین میں اس سے واضح پوزیشن ہو ہی نہیں سکتی کہ صدر کے پاس صرف تاریخ دینے کا اختیار نہیں ہے بلکہ صدرآرٹیکل 48 کے تحت پابند ہیں کہ جب وہ وزیراعظم کی تجویز پر اسمبلیاں تحلیل کرتے ہیں تو انہیں 90 روز میں انتخابات کی تاریخ بھی دینی ہوتی ہے۔ ریما عمر نے کہا کہ اس میں کوئی چوائس نہیں ہے کہ چلیں میں دے دیتا ہوں یا نہیں دیتا، یہ آئین ان پر پابندی لگاتا ہے انہوں نے تاریخ دینی ہی دینی ہے، اگرصدر کے اس اختیار سے بھی مسئلہ تھا تو 18ویں ترمیم میں اس کو تبدیل کردیتے، اس وقت تو یہی بات ہے کہ قومی اسمبلی کے نئے انتخابات کی تاریخ صدر نے ہی دینی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل44 میں واضح طور پر لکھا ہے کہ صدر نئی اسمبلی سے نئے صدر کے انتخاب تک اپنے عہدے پر قائم رہیں گے، آئین میں عبوری صدر، کیرٹیکر صدر جیسی کسی چیز کا کوئی ذکر نہیں ہے۔