سیاسی

سینئر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ نواز شریف پرانی مقتدرہ پر تنقید کرتے ہیں نئی مقتدرہ کے ساتھ چل رہے ہیں، اسی طرح پرانی عدلیہ نے ان کے خلاف فیصلے دیئے لیکن آج کی عدلیہ انہیں ریلیف دے رہی ہے۔ جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں ایسی صورتحال سامنے آئی جس میں عدالت عظمیٰ کے چھ رکنی بنچ نے اپنے ہی پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ معطل کردیا ہے، تفصیلی فیصلہ آنے سے پہلے ہی اسے معطل کردیا گیا ہے، اس فیصلے کے بعد ملک میں انسانی حقوق کے حوالے سے سوالات اٹھ گئے ہیں۔ سینئر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ نواز شریف کو پرانی مقتدرہ یعنی جنرل باجوہ اور جنرل فیض سے بڑے حقیقی گلے ہیں، ان دونوں نے نواز شریف کے ساتھ بہت زیادتیاں کی تھیں، نئی مقتدرہ نواز شریف کو سپورٹ کررہی ہے اس لیے بیانیہ میں بڑا تضاد آگیا ہے۔ نواز شریف پرانی مقتدرہ پر تنقید کرتے ہیں نئی مقتدرہ کے ساتھ چل رہے ہیں، اسی طرح پرانی عدلیہ نے ان کے خلاف فیصلے دیئے لیکن آج کی عدلیہ انہیں ریلیف دے رہی ہے، نواز شریف نے اس تضاد سے نکلنے کیلئے انتقام نہیں حساب کا بیانیہ اپنالیا ہے۔ سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ میری رائے میں جن لوگوں نے اس وقت غلط کیا انہیں بھگتنا چاہیے، جسٹس منیر سے لے کر آج تک جن ججوں نے اور جن جرنیلوں نے مارشل لاء لگائے ہیں ان کے خلاف کم از کم علامتی فیصلے تو آنے چاہئیں، پاکستان میں مظلوم کا ووٹ بینک توڑنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی پارٹی کے ساتھ ظلم ہوتا ہے تو اس کا ووٹ بینک تادیر قائم رہتا ہے، یہ بات درست ہے نواز شریف اس وقت اکیلے لڑرہے ہیں ان کے مخالف کوئی نہیں ہے۔ سہیل وڑائچ نے کہا کہ شہری حلقوں میں بظاہر پی ٹی آئی اکثریت میں نظر آرہی ہے، پی ٹی آئی کو لیول پلیئنگ فیلڈ مل گئی تو شہروں میں جیت جائے گی، پی ٹی آئی کو الیکشن میں لیول پلیئنگ فیلڈ ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے، فی الحال لگتا ہے عمران خان کو نااہل قرار دیدیا جائے گا، پی ٹی آئی کے کارکنوں کے ملٹری ٹرائل ہوں گے، اس طرح مزید خوف اور ناامیدی پھیلائی جائے گی جس سے پی ٹی آئی کا ووٹر باہر نہیں نکلے گا۔ مریم نواز نے کہا کہ سپریم کورٹ میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کیخلاف سماعت میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے وکلاء لطیف کھوسہ، سلمان اکرم راجہ اور اعتزاز احسن تمام وقت روسٹرم پر موجود رہے، ججوں کے ساتھ گفتگو سے زیادہ وکلاء کی آپس میں بحث ہوتی رہی۔ اٹارنی جنرل بھی اپنے عمومی رویے کے خلاف غصہ میں نظر آئے، ججوں سے بھی یہ صورتحال کنٹرول نہیں ہورہی تھی، جسٹس طارق مسعود نے بار بار وکلاء سے نشستوں پر بیٹھنے کیلئے کہا مگر وہ کھڑے رہے۔ میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں ایسی صورتحال سامنے آئی جس میں عدالت عظمیٰ کے چھ رکنی بنچ نے اپنے ہی پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ معطل کردیا ہے، تفصیلی فیصلہ آنے سے پہلے ہی اسے معطل کردیا گیا ہے، اس فیصلے کے بعد ملک میں انسانی حقوق کے حوالے سے سوالات اٹھ گئے ہیں۔ جسٹس طارق مسعود کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے چھ رکنی بنچ نے جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ کا وہ فیصلہ معطل کردیا ہے جس میں سویلینز کا ملٹری ٹرائل کالعدم قرار دیا تھا، سپریم کورٹ نے سویلینز کا ملٹری ٹرائل جاری رکھنے کی ہدایت تو کردی مگر اس حوالے سے حتمی فیصلہ جاری نہ کرنے کے احکامات بھی دیدیئے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے کہا ہے کہ انتقام نہیں چاہتا، حساب لینا تو بنتا ہے۔مسلم لیگ ن کے پارلیمانی بورڈ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ آج جھوٹ ہوا میں اڑ گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میرے خلاف مقدمات میں جان نہیں تھی، سزا مجھے نہیں 25 کروڑ عوام کو ملی۔ نواز شریف نے کہا کہ جو دکھ ہمیں دیے گئے ان کا کوئی مداوا ہے؟ ہم نے جنرل باجوہ یا جنرل راحیل کے خلاف کبھی کوئی سازش نہیں کی,کبھی کسی کے خلاف سازش نہیں کی، دفاع کو مضبوط کیا، جے ایف 17 کے معاہدے پر میرے دستخط ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو دکھ ہمیں دیئے گئے ہیں اس کا کوئی مداوا ہے؟ میری اہلیہ آخری سانسیں لے رہی تھیں میں نے مریم سے کہا اللہ انہیں شفا عطا فرمائیں ، ہم چلتے ہیں پاکستان، جعلی مقدمہ ہے سزا بھگتیں گے، یہ نہیں کرسکتے کہ سزا سننے کے بعد ہم یہاں بیٹھے رہیں۔ سابق وزیر اعظم نے کہا کہ پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کو میرے بے قصور ہونے کا یقین تھا، ایسا فیصلہ سنایا گیا جو دنیا میں مذاق بنا، جو دکھ ملے کیا ان کا کوئی مداوا ہے؟ انتقام لینا نہیں چاہتا لیکن احتساب ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ 21 اکتوبر کو میں نے لاہور آکر یہ کہا تھا کہ میں کسی انتقامی جذبے سے یہاں نہیں آیا لیکن یہ تو پوچھنا چاہیے کہ اس ملک کیساتھ ایسا کیوں کیا گیا؟ انہوں نے کہا کہ 8 فروری کو سب سے بڑی عدالت بنے گی، عوامی جے آئی ٹی بنے گی، ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ڈالر کو چار سال باندھ کر رکھا، ہم نے آئی ایم ایف کو خدا حافظ کہا، کیا ججز کبھی سسلین مافیا، گاڈ فادر جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں، میری دشمنی میں کیے گئے اقدام نے عوام کو نقصان پہنچایا۔ نواز شریف نے کہا کہ سازشی عناصر روز شام میں دکانداری چمکاتے تھے، ہمارے وقت میں آٹا، چینی، گوشت اور سب اشیا سستی تھیں، میں نے کیا بگاڑا تھا اس بینچ کا جس نے مجھے سسیلین مافیا کہا، مجھے بطور فرد سزا ملی، اصل سزا 25 کروڑ عوام کو ملی۔ قائد مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ مجھے پیغام بھیجا گیا کہ نوازشریف کو پتا ہونا چاہیے کہ اڈیالہ جیل میں بڑی جگہ ہے، اس مائنڈ سیٹ سے لوگ آئیں گے تو یہی ہوتا رہے گا، مجھے انتقام سے کوئی غرض نہیں، میرے ساتھ جو کچھ ہوا اس کا حساب ہونا چاہیے، جنھوں نے قوم کے ساتھ زیادتی کی میں انھیں معاف نہیں کرسکتا۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ اللہ نے مجھے جھوٹے مقدمات سے بری فرمایا ہے، دنیا بھی کہہ رہی ہے کہ سازش کے تحت مقدمات بنائے گئے۔ نواز شریف نے کہا کہ پاکستان اور اس کے 25 کروڑ عوام کے خلاف یہ سازش ہوئی ہے اور 25 کروڑ عوام کو اس کا نوٹس لینا چاہیے وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے یہ کام کیا اور کیوں کیا؟ میں نے تو کسی کے خلاف کوئی سازش نہیں کی ہم نے تو اپنا کام کیا سڑکیں بنائیں , موٹرویز بنائیں ,لوڈشیڈنگ ختم کی , ایٹمی دھماکے کیے دفاع کو مضبوط کیا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی (پی) پرویز خٹک الیکشن سے بھاگنے سے متعلق سوال کے جواب میں اپنا بیان بدلنے پر مجبور ہوگئے۔ تفصیلات کے مطابق جیونیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں میزبان شہزاد اقبال نے پی ٹی آئی (پی) کے چیئرمین پرویز خٹک کو 23 مارچ 2023 کو دیئے گئے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے پوچھا کہ پی ٹی آئی رہتے میں آپ ن لیگ اور پیپلزپارٹی پر الزام لگارہے تھے کہ وہ الیکشن سے بھاگ رہے ہیں، آج آپ یہی الزام پی ٹی آئی پر لگارہے ہیں؟ چیئرمین پی ٹی آئی (پی) پرویز خٹک نے کہا کہ انتخابات سے دونوں بھاگ رہے ہیں، عمران خان اس لیے الیکشن سے نہیں بھاگ رہے تھے کہ وہ ہار جائیں گے، بلکہ عمران خان الیکشن سے اس لیے بھاگ رہے تھے کیونکہ وہ ملک میں انتشار پھیلانا ،عوامی طاقت پر قبضہ کرنا اور صدارتی نظام لانا چاہتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس معاملے پر جب مشاورت ہوئی تو میں نے اس کی مخالفت کی ، جب حکومت چلی گئی تو عمران خان نے اپنا پورا ذہن بنالیا تھا کہ انہوں نے عوامی طاقت کی بنیاد پر واپس اقتدار میں آنا ہے، فوج کو کمزور کرنا ہے، صدارتی نظام لاؤں گا کہ میرے مقابلے میں کون کھڑا ہوسکتا ہے۔ ماضی میں عمران حکومت کے خلاف امریکی سازش کا معاملہ ہر فورم پر اٹھانے سے متعلق سوال کے جواب میں پرویز خٹک نے کہا کہ جو میں باتیں ماضی میں کررہا تھا وہ اس بریفنگ کی بنیاد پر تھیں جو ہمیں پارٹی کی طرف سے دی گئی تھی، لیڈر کی بات کو عوام کے سامنے بیان کرنا پڑتا ہے، ہم اکیلے میں اس پر بحث بھی کرلیتے تھے مگر لیڈر کی بات کو ردکرنا آسان نہیں ہوتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ خفیہ دستاویزات عمران خان کے پاس آئی تھیں، اس کو پبلک کرکے عمران خان نے حلف کی خلاف ورزی کی، ہم نے تو وہ باتیں عوام میں جاکر کیں جو ہمیں عمران خان نے بتائیں، ہم نے حلف کی خلاف ورزی نہیں کی۔
مسلم لیگ ن اور ق لیگ میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا معاملہ گھمبیر ہونے لگا۔۔ ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ن ق لیگ کو 2 قومی اور 3 صوبائی اسمبلی کی سیٹیں دینے کو تیار ہے لیکن دوسری طرف چوہدری شجاعت کے بھتیجے حسین الٰہی کی سیٹ پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا جس سے 9 مئی کے واقعات کو جواز بناکر تحریک انصاف چھڑوائی گئی تھی۔ مسلم لیگ ق 4 سیٹیں چاہتی ہے جن میں حسین الٰہی کیلئے اور ایک حلقہ چوہدری سرور کیلئے بھی چاہتی ہے جبکہ ن لیگ گجرات کے نوابزدگان اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے جنیدانورچوہدری کی قربانی نہیں دے سکتی، اسی طرح چوہدری سرور کو لاہور کے شاہدرہ حلقہ سے ٹکٹ ملنا مشکل ہے کیونکہ وہاں ملک ریاض اور عظمیٰ بخاری کے سمیع اللہ خان شوہر نظریں گاڑے بیٹھے ہیں۔ اگرچہ حسین چوہدری سالک کو قومی اسمبلی اور چوہدری شافع کو صوبائی اسمبلی کی سیٹ آفر کی گئی ہے لیکن چوہدری سالک اور چوہدری شافع کیلئے بڑا مسئلہ پرویزالٰہی اور تحریک انصاف کی مقبولیت بنے ہوئے ہیں۔اس سے نہ صرف ووٹ بنک تقسیم ہوگا بلکہ عابدرضاکوٹلہ کی وجہ سے ن لیگ کا ووٹ نہ پڑنے کا بھی خدشہ ہے۔ اگرچہ طارق بشیر چیمہ کی قومی اسمبلی کی سیٹ پر اتفاق ہوگیا ہے لیکن اسکے باوجود اسکےحلقے پر بھی صورتحال انتہائی دگرگوں ہے کیونکہ طارق بشیرچیمہ اپنا پینل لاکر لڑوانا چاہتا ہے لیکن ن لیگ اپنے ایم پی ایز کو ٹکٹ دینا چاہتی ہے۔ طارق بشیر چیمہ کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہے جس میں وہ نوازشریف کیساتھ بیٹھے کافی پریشان نظرآرہے ہیں جس کی وجہ غالبا سعود مجید اور اسکا پینل ہے یہاں سےصوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ پر خالد محمود ججا ایک ہزار ووٹ سے جبکہ دوسری سیٹ سے سعد مسعود3500 ووٹوں سے ہارا تھا۔ یہاں سے طارق بشیرچیمہ کے نیچے دونوں ایم پی ایز تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے لیکن ان سے بھی 9 مئی واقعات کو جواز بناکر پارٹی چھڑوائی گئی۔ اسکے باوجود تحریک انصاف کا حلقے میں ذاتی ووٹ بنک ن لیگ کیلئے پریشان کن ہے اور خدشہ ہے کہ کہیں تحریک انصاف جاٹ، آرائیں اور راجپوت برادری پر مشتمل پینل بناکر میدان میں نہ آجائے ۔ صحافی محمد عمیر کے مطابق نون لیگ اور ق لیگ کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے مطابق طارق بشیر چیمہ کے نیچے دونوں امیدوار ن لیگ کے ہونگے۔ یزمان کا یہ حلقہ جٹ آرائیں کی لڑائی ہے۔طارق بشیر چیمہ کے نیچے دونوں ایم پی اے آرائیں ہیں اور یہ دونوں 2018 میں جیتے تھے اور یہ اسوقت پرویز الہی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ن لیگ کی جانب سے سعود مجید آرائیں ہیں وہ الیکشن نہیں لڑیں گے تو کیا سعود مجید اپنا بیٹے چیمے کے نیچے لڑوائے گا؟ انہوں نے مزید کہا کہ آرائیں چوہدری مجید اور جٹ چوہدری بشیر کی اس حلقہ کی لڑائی قیام پاکستان سے چل رہی ہے۔ ن لیگ کے یہاں سے ایک مضبوط ایم پی اے کے امیدوار جٹ ہیں،اگر اوپر نیچے جٹ امیدوار ہونگے تو آرائیوں کا ووٹ اکٹھا ہوجائے گا۔یزمان ون وے ٹریفک مشکل چلے گی۔ انکا کہنا تھا کہ تحریک انصاف یہاں بہتر پینل دینے کی پوزیشن میں ہیں کہ جیتے ہوئے دونوں امیدوار اب بھی پرویز الہی کے ساتھ ہیں اور ان کا وہاں اپنا ووٹ بینک ہے۔ 2018 میں تحریک انصاف نے یہاں ایم این اے اور ایم پی اے کے امیدوار نہیں دئیے تھے۔
چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے سابق وزیراعظم وقائد ن لیگ میاں نوازشریف پر شدید تنقید کے باوجود چیف آرگنائزر ن لیگ مریم نوازشریف نے اپنی توپوں کا رخ سابق وزیراعظم وچیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی طرف رکھا ہوا ہے۔ پنجاب کے شہر جلالپور جٹاں میں ن لیگ کے یوتھ کنونشن سے خطاب میں کہا کہ ہمارے جن مخالفین نے کہا کہ نوازشریف کی سیاست اب ختم ہو چکی ہے وہ سب اپنے اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ انہوں نے عمران خان پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ میاں نوازشریف کو ماضی میں چور کہنے والا آج خود سے جیل میں بیتھا ہوا ہے۔ نوازشریف پر جلسوں میں چوری کا الزام لگانے والے کبھی بھی معاملہ عدالت لے کر نہیں گیا۔ ایک بار وزیراعظم رہنے والے شخص کی چوری کے چرچے ہیں لیکن نوازشریف پر آج تک کرپشن پر کوئی الزام نہیں لگا، اس شخص سے چوری کا حساب مانگا گیا تو ٹانگ پر پلستر چڑھا لیا۔ انہوں نے کہا کہ 60 ارب روپے کی ڈکیتی مارنے والا شخص جیل میں بیٹھ کر کبھی دیسی مرغی تو کبھی ایکسائز مشین کا مطالبہ کر رہا ہے، اگر جیل میں اسے سہولت دینی ہے تو تمام قیدیوں کو یہ سہولت دی جائے۔ جیل میں اپنے اعمالوں کی سزا بھگتنے والے کا نام بھی نہیں لینا چاہتی، ایک بار اقتدار ملنے پر اس شخص پر ملکی تاریخ میں کرپشن کا سب سے بڑا کیس بنا۔ انہوں نے کہا کہ میاں نوازشریف کو تین دفعہ ملک کا اقتدار ملا لیکن اس پر کوئی چوری کا الزام نہیں لگا سکا، اس شخص نے بہت جھوٹ بولے، نوازشریف کے بجائے اس کے اعمال نے ہی اس سے انتقام لے لیا۔ کہا گیا کہ نوازشریف تاریخ کا حصہ بن گیا، کبھی واپس نہیں آئے گا لیکن سازش کرنے والوں نے دیکھا کہ میاں نوازشریف کس عزت کے ساتھ اپنے وطن واپس آیا۔ انہوں نے کہا کہ میاں نوازشریف کا استقبال کرنے کے لیے 21 اکتوبر کو پورا ملک سڑکوں پر امڈ آیا تھا اور سڑکیں چھوٹی پڑ گئی تھیں۔ نوازشریف اب بھی عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں، وہ لوگ جو کہہ رہے ہیں کہ نوازشریف کو عدالتوں سے فیور مل رہی ہے، انہیں شرم آنی چاہیے۔ نوازشریف کو انصاف رینگ رینگ کا مل رہا ہے، ان کے خلاف پانامہ کے نام پر جھوٹ پہ جھوٹ بولا گیا۔
سابق وزیر دفاع وصدر پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز پرویز خٹک نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ایک نیا انکشاف کر دیا ہے۔ پرویز خٹک نے نیا پاکستان میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کو ان کی مدت ملازمت میں توسیع دینے کی آفر کی گئی تھی لیکن غیرمعینہ مدت تک توسیع کی آفر والی بات جھوٹی ہے۔ جنرل باجوہ کو ان کی مدت ملازمت میں توسیع کی آفر کرنے تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت تک پانی سر سے اونچا جا چکا تھا، انہیں غیرمعینہ مدت کیلئے آرمی چیف بننے کی آفر کی بات غلط ہے۔ عمران خان پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے ان کو وزارت داخلہ دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن پھر مکر گئے، وہ جھوٹے شخص ہیں۔ مجھے صدر پاکستان بنانے کی آفر بھی کی گئی تھی جسے میں نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ کیا میری سیاست ختم کرنا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ عمران خان کے کہنے پر میں خود 2 دفعہ سابق آرمی چیف کے پاس گیا تھا اور انہیں عہدے میں توسیع کی آفر کی لیکن غیرمعینہ مدت تک توسیع والی بات کوئی جاہل ہی کر سکتا ہے کیونکہ ملک کے قانون میں ایسا کچھ ہے ہی نہیں۔ جنرل باجوہ کی مدت میں 1 سال باقی تھا جب انہیں مدت ملازمت میں توسیع کی آفر کرنے کیلئے عمران خان نے مجھے بھیجا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے پہلے صدر پاکستان کیلئے مجھے آفر کی، پھر اسد قیصر کو بھی آفر کی گئی لیکن وہ انکاری ہو گئے جس کے بعد ڈاکٹر عارف علوی کو صدر بنایا گیا۔ عمران خان نے جب مجھے وزیر دفاع لگانے کا فیصلہ کیا تو مجھے پتہ لگ گیا کہ اس نے مجھے کھڈے لائن لگانا ہے لیکن اللہ نے میرے لیے بہتر کیا کہ میں آرمڈ فورسز کے ساتھ تعلقات اچھے ہو گئے۔ انہوں نے نوشہرہ کے حلقے سے اپنے رشتے داروں کو پارٹی ٹکٹ جاری کرنے بارے سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ ٹکٹ صرف اسے جاری کیا جائے گا جو پارٹی کو سیٹ پر جیت دلوا سکتا ہے، چاہے وہ امیدوار میرے اپنے گھر سے ہی کیوں نہ ہو۔ واضح رہے کہ پرویز خٹک نے نوشہرہ کے حلقے میں 7 نشستیں اپنے رشتے داروں کو دینے کی تردید نہیں کی۔
مسلم لیگ ن اور استحکام پاکستان پارٹی میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے کمیٹی قائم کر دی گئی۔ ذرائع کے مطابق ن لیگ کی طرف سے رانا ثناء اللّٰہ، ایاز صادق اور سعد رفیق جبکہ آئی پی پی کی طرف سے عون چوہدری، اسحاق خاکوانی اور نعمان لنگڑیال کمیٹی میں ہوں گے۔ ذرائع کے مطابق ن لیگ لاہور میں قومی اسمبلی کی نشست پر علیم خان کو سپورٹ کرے گی، ن لیگ عون چوہدری،اسحاق خاکوانی،نعمان لنگڑیال کے مقابلے میں امیدوار کھڑا نہیں کرے گی، لودھراں میں ایک قومی اور ایک صوبائی نشست پر آئی پی پی کی حمایت کرے گی ذرائع کے مطابق جہانگیر ترین یا ان کے بیٹے علی ترین لودھراں سے رکنِ قومی اسمبلی کا الیکشن لڑیں گے۔اگر ن لیگ جہانگیرترین یا انکے بیٹے کی حمایت کرتی ہے تو ن لیگ کو صدیق بلوچ کی قربانی دینا پڑے گی اور اس صورت میں صدیق بلوچ کی جانب سے آزاد حیثیت میں الیکشن متوقع ہے۔ آئی پی پی کے صدر علیم خان اور عون چوہدری لاہور سے قومی اسمبلی کا ایکشن لڑیں گے۔علیم خان کا حلقہ وہی ہے جو یازصادق کا حلقہ ہے جبکہ علیم خان کو این اے 127 لاہور جہاں سے شائستہ پرویز ملک اور انکے شوہر پرویز ملک مرحوم این این اے رہے ہیں، سے بھی الیکشن متوقع ہے۔ یادرہے کہ علیم خان 2002 اور 2008 میں ق لیگ کے ٹکٹ پر اس حلقے سے الیکشن لڑچکے ہیں۔ 2002 میں وہ طاہرالقادری سے ہارگئے تھے جبکہ 2008 میں نصیربھٹہ کے ہاتھوں انکی ضمانت ضبط ہوگئی تھی۔ عون چوہدری این اے 128 سے خود کو امیدوار تصور کرتے ہیں جو رانا مبشراقبال کا حلقہ ہے اور عون چوہدری کے بھائی چوہدری امین یہاں سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر ایم پی اے بنے تھے او ربعدازاں منحرف ہونے کے بعد ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تو ہارگئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اسحاق خاکوانی وہاڑی سے اور نعمان لنگڑیال ساہیوال سے الیکشن لڑیں گے جبکہ دونوں پارٹیوں میں سے ایک مضبوط امیدوار کو حلقے میں سامنے لایا جائے گا اور مضبوط امیدوار کے لیے غیر جانبدار سروے بھی کرایا جا سکتا ہے۔ نعمان لنگڑیال کی صورت میں ن لیگ کو چوہدری زاہداقبال اور اسحاق خاکوانی کی صورت میں تہمینہ دولتانہ اور انکے بیٹے کی سیٹ کی قربانی دینا ہوگی جبکہ اس حلقے سے عائشہ نذیر جٹ ایک مضبوط امیدوار تصور کی جاتی ہیں۔ عون چوہدری کا کہنا ہے کہ ن لیگ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر آئندہ دو تین روز میں میٹنگ ہو گی۔ ذرائع کے مطابق دونوں پارٹیاں اپنے اپنے امیدواروں کے نام سامنے رکھیں گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ استحکام پاکستان پارٹی فردوس عاشق اعوان، فرخ حبیب، غلام محمدلالی، غلام سرور خان، ذوالفقاردُلہ کیلئے بھی سیٹ چاہتی ہے لیکن ماسوائے کسی اور کو دینے کو تیار نہیں نظرآتی جبکہ غلام سرور خان کے نام پر ن لیگ غور کرسکتی ہے۔
جمعیت علماء اسلام کے سیکرٹری جنرل سینیٹر عبدالغفور حیدری نےبھی رجیم چینج کا راز کھول دیا۔اور انکشاف کیا کہ جنرل باجوہ نے جب دیکھا کہ عمران خان سے حکومت نہیں چل رہی تو ہاتھ کھینچ لیااوراسکا مطلب تھا اپوزیشن کچھ کرلے اور ہم خان کو بند گلی میں لےگئے۔ انہوں نے مزید کہاکہ استحکام پاکستان پارٹی اور پرویز خٹک کو بنایاگیاہے تو انہیں سیٹیں بھی دی جائیں گی۔ مولانا غفور حیدری نے مزید کہا کہ بلاول نےمیاں صاحب پرلاڈلےکاالزام لگایاتو ثابت بھی کرناہوگا۔اگر2018کی تاریخ کسی کےلیےبھی دوہرائی گئی تومزاحمت کریں گے۔ انہوں نے الیکشن کمیشن کو مشورہ دیا کہ الیکشن کمیشن مضبوط اعصاب کامظاہرہ کرے۔شیڈول نہ آنےپرشکوک پیداہوتے ہیں۔نیشنل حکومت کمزور ہوتی ہےچوں چوں کامربہ ٹھیک نہیں 2تین جماعتوں کی حکومت بہترکامکرسکتی ہے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ اٹھارویں ترمیم کو چھیڑ نےکےخلاف ہیں کسی نے ایساکیاتو اسکاساتھ نہیں دیں گے صوبوں کومزید اختیارات ملنے چاہیے۔بلوچستان میں پیپلزپارٹی سےبھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ پربات ہوئی۔ثناء اللہ زہری سے ملاقات بھی ہوئی۔ مولانا فضل الرحمان کے صدر پاکستان بننے سے متعلق سوال پر انکا کہنا تھا کہ جب دوسروں کووزیراعظم صدر بناتے ہیں توپھرمولانا فضل الرحمان کوصدر بنانےکاحق رکھتے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں مسلم لیگ ن کے پسندیدہ ہونے اور نواز شریف کے لاڈلا کا تاثر انتخابات کو پہلے سے متنازعہ بنا رہا ہے،فوج، عدلیہ اور سیاست دان الیکشن سے قبل راستے کا تعین کریں ورنہ الیکشن کے بعد بھی استحکام نہیں آئے گا ،عمران خان کو سزا حقائق کی بنیاد پر ہوتی ہے تو اسے قبول کیا جائے گا اور اگر الٹے سیدھے مقدمات میں ہوئی تو نہ تاریخ اسے قبول کرے گی نہ ہی عوام مانیں گے۔ غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو میں انہوں نے کہا مسلم لیگ ن کے پسندیدہ ہونے اور نواز شریف کے لاڈلا کا تاثر انتخابات کو پہلے سے متنازعہ بنا رہا ہے، نواز شریف کو خاموشی ترک کرکے عوام کو اپنی سوچ کے متعلق بتانا چاہیے کہ وہ ملک و سیاست کو کس سمت لے جانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا فوج، عدلیہ اور سیاست دان الیکشن سے قبل راستے کا تعین کریں ورنہ الیکشن کے بعد بھی استحکام نہیں آئے گا اور انتخابات میں تاخیر ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ ایک سوال کے جواب میں شاہ خاقان نے کہا عمران خان کو عدالتوں سے زبردستی نااہل کروایا گیا تو اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے، عمران خان کو سزا حقائق کی بنیاد پر ہوتی ہے تو اسے قبول کیا جائے گا اور اگر الٹے سیدھے مقدمات بنائے گئے تو نہ تاریخ اسے قبول کرے گی نہ ہی عوام مانیں گے۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ مریم نواز سے اختلاف ہے نہ ناراضی، جو سوچ میری جماعت نے اپنائی ہے اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ملک کی سمت کا تعین کرنا سب سے زیادہ نواز شریف کی ذمے داری ہے، سمت نہیں طے کی تو حکومت چلانا مشکل ہوگا۔ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے عوام کی تکلیفیں بڑھانے کے سوا کچھ نہیں کیا، اگر پہلے سے تاثر ہو کہ کون فیورٹ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ الیکشن فیئر نہیں ہوں گے، الیکشن کے بعد پیدا ہونے والی ممکنہ خرابی کا حصہ نہیں بننا چاہتا، اس لیے انتخابات میں حصہ نہیں لوں گا۔ سابق وزیراعظم نے مزید کہا کہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزامات لگاتی ہیں کہ وہ فیورٹ ہوگئی ہے، شاید سب کو فیورٹ بننے کا شوق ہوتا ہے، اس سے ملک کا نقصان ہوتا ہے، جو اتحاد ہو رہے ہیں اس سے مقامی طور پر الیکشن میں فائدہ ملنے کے امکانات کم ہیں، جہاں ایم کیو ایم ہے وہاں ن لیگ کے اتنے ووٹر نہیں کہ ایم کیو ایم کو فائدہ پہنچے۔ شاہد خاقان نے یہ بھی کہا کہ ووٹ کو عزت دینے کا مطلب ملک آئین کے مطابق چلے گا، کسی غیر آئینی معاملے کا حصہ بنیں گے تو خرابی پیدا ہوگی، نواز شریف عوام کو بتائیں ان کی کیا سوچ ہے؟ جہاں آج ملک کھڑا ہے جولائی 2017 کے فیصلے کا اس میں اثر ہے، جو نا انصافی ہوئی اسے درست کرنے کی ضرورت ہے۔
بیرسٹر گوہر خان چیئرمین پی ٹی آئی منتخب ہوئے تو پاکستان تحریک انصاف سمیت دیگر جماعتوں کی جانب سے شدید تنقید کی گئی, جس پرچیف الیکشن کمشنر پی ٹی آئی نیاز اللہ نیازی کہتے ہیں کہ پارٹی الیکشن کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا وقت یکم دسمبر دوپہر 3 بجے تک تھا، صرف گوہر خان پینل کے کاغذات ملے، اکبر بابر شام 5 بجے آئے، کوئی مسئلہ تھا تو رابطہ کرتے، میں ضرور حل کرتا، قانون کے مطابق الیکشن ہوئے، بلے کا نشان ملے گا، پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کے لیے بنائے گئے چیف الیکشن کمشنر نیاز اللہ نیازی کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف نے رولز کے تحت الیکشن کروا دیے، پارٹی بلے کے نشان پر ہی الیکشن لڑے گی۔ جیو نیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں گفتگو کرتے ہوئے نیاز اللہ نیازی کا کہنا تھا ہمیں 20 دن دیے گئے کہ دوسرا الیکشن کریں، ہم نے رولز کے تحت الیکشن کروا دیے، پوری امید ہے کہ پی ٹی آئی بلے کے نشان پر ہی عام انتخابات میں حصہ لے گی۔ ان کا کہنا تھا رولز کے مطابق ریٹرننگ افسر نے مجھے ون پینل لسٹیں دیں، پارٹی نے کسی کو منع نہیں کیا تھا کہ الیکشن میں حصہ نہیں لینا، ہمارے پاس ان نشستوں کے لیے کسی اورامیدوار نے کاغذات نہیں جمع کیے۔ ان کا کہنا تھا اکبر ایس بابر نے ایسے ہی ہائپ بنائی کہ ایسے انٹرا پارٹی انتخابات ہو رہے ہیں، ان کے بیان کو مسترد کرتا ہوں، میں الیکشن کمشنر تھا میرے پاس آتے تو یقین کریں میں ان کا فیصلہ کرتا۔ نیاز اللہ نیازی کا مزید کہنا تھا اگلے ہفتے میں عام انتخابات کے لیے شیڈول آرہا ہے، تحریک انصاف کو کسی نہ کسی طریقے سے ان مراحل سے آؤٹ کیا جا رہا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ مجھے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن پر تنقید کرنے والوں پر حیرت ہو رہی ہے، وہ سیاسی جماعتیں تنقید کر رہی ہیں جو انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کراتیں۔ یہ جماعتیں عام انتخابات میں بھی دھاندلی کرتی ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن پر تنقید کرنے والی سیاسی جماعتوں نے کیا خود کبھی جماعت میں انتخابات کرائے ہیں؟ پی ٹی آئی نے ہر دفعہ انٹرا پارٹی انتخابات کرائے ہیں، پیپلز پارٹی کو بھی خود اپنے الیکشن دیکھنے چاہیں۔ چیف الیکشن کمشنر پی ٹی آئی نیاز اللہ نیازی نے مزید کہا کہ ہم نے الیکشن کمیشن کی ہدایات کے مطابق20 دنوں کے اندر الیکشن کرائے ، آئین اور قانون کے مطابق ہی انٹر ا پارٹی انتخابات کرائے ہیں، کل ہم انتخابات کا نوٹیفیکیشن کر کے سوموار کو الیکشن کمیشن میں جمع کرا دیں گے۔ اُن کا کہنا تھا کہ تکنیکی طور پر سیاسی میدان سے باہر کرنے کی کوشش کی گئی تو ہم اس کا مقابلہ کریں گے۔ بانی رہنما پی ٹی آئی اکبر ایس بابرکی تنقید سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئےنیاز اللہ نیازی نے کہا کہ اکبر ایس بابر پارٹی سے ڈس کوالیفائی ہو چکے ہیں، انہیں پارٹی سے نکال دیا تھا، اس لیے انہیں تو انٹرا پارٹی انتخابات پر تنقید کرنی ہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے گزشتہ روز انٹرا پارٹی انتخابات کا انعقاد کیا جس میں پشاور سے تعلق رکھنے والے بیرسٹر گوہر علی خان کو عمران خان کی جگہ پارٹی کا چیئرمین منتخب کیا گیا جبکہ عمر ایوب مرکزی جنرل سیکرٹری ہوں گے۔ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے انٹرا پارٹی الیکشن کو چیلنج کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن الیکشن کمیشن اور پارٹی کے آئین کے بھی خلاف ہیں۔
عدت میں نکاح کے کیس کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک درخواست کی کہانی جسے بار بار مقرر کیا گیا لیکن ڈیڑھ ماہ میں اسکی سماعت نہ ہوسکی۔ صحافی احتشام عباسی کے مطابق اپنی تاریخ کا ایک منفرد واقعہ یہ بھی ہے کہ عمران خان نے دوران عدت نکاح کیس قابلِ سماعت قرار دینے کے سیشن عدالت کے فیصلے کے خلاف 12 اکتوبر کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی جو چیف جسٹس عامر فاروق کی عدالت میں سماعت کیلئے مقرر ہوئی لیکن اُس پر ڈیڑھ ماہ میں کوئی سماعت نہیں ہو سکی. عمران خان کی درخواست پہلی بار 17 اکتوبر کو سماعت کیلئے مقرر ہوئی لیکن کیس اُس دن کی کازلسٹ سے منسوخ کر دیا گیا پھر یکم نومبر کیلئے مقرر ہوا لیکن اُس دن کی کازلسٹ سے بھی نکال دیا گیا. تیسری بار 30 نومبر کو مقرر ہونے کی کازلسٹ جاری ہوئی لیکن ساتھ ہی اُس سے بھی نکال کر 18 دسمبر کیلئے مقرر کر دیا گیا ہے. اب بظاہر صورتحال یہ نظر آ رہی ہے کہ محمد حنیف کے وہ درخواست تو سول عدالت سے واپس لینے کی بنیاد پر عمران خان کی ہائیکورٹ میں زیرالتواء درخواست غیرموثر ہو گئی لیکن اگر وہ خاور مانیکا کی سول عدالت میں دائر درخواست قابلِ سماعت قرار دینے کا دو دن پہلے کا فیصلہ چیلنج کرتے ہیں تو اُس پر رجسٹرار آفس کا اعتراض آ جائے گا کہ آپکی ایسی ہی درخواست تو پہلے ہی زیرالتواء پڑی ہے نئی کیسے دائر کر سکتے ہیں؟
خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی بقا کی ایک اور وجہ وہاں پر دیگر سیاسی جماعتوں کی عدم دلچسپی یا ابتر صورت حال ہے ۔سلیم صافی اپنے کالم میں سلیم صافی کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی اور پختونخوا: پی ٹی آئی کو سب سے زیادہ فائدہ اس بات کا پہنچ رہا ہے کہ پیپلز پارٹی، نون لیگ، پرویز خٹک ، اے این پی اور وزارت اعلیٰ اور لاڈلا بننے کی خواہش میں آپس میں لڑپڑے ہیں۔ مثلا اگر جے یو آئی اوراے این پی کے رہنماؤں کی تقریریں سنی جائیں تو ان کا نشانہ پی ٹی آئی نہیں بلکہ پرویز خٹک ہوتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کا نشانہ پی ٹی آئی سے زیادہ مسلم لیگ(ن) ہے۔ سلیم صافی کے مطابق مسلم لیگ(ن) کی طرف سے امیرمقام اپنے تئیں محنت کررہے ہیں لیکن میاں صاحب کو مری کی سیر سے فرصت نہیں۔ اب آپ اندازہ لگالیجئے کہ پی ٹی آئی کو اس سے بہتر سازگار ماحول اور کہاں مل سکتا ہے جو یہاں اسے ملا ہوا ہے۔ احمد وڑائچ نے کہا کہ سلیم صافی نے کالم میں لکھا "خیبر پختون خوا میں نہ پی ٹی آئی کے سامنے کوئی متبادل قوت تھی اور نہ آج کل ہے". ن لیگ، پیپلز پارٹی، جے یو آئی، اے این پی ، جماعت اسلامی کو ہاتھ ملانے کا مشورہ دیا، محسن نقوی کی تعریف کی کہ بہادر ہے، نگران وزیراعلی خیبرپختونخوا کو سیکھنے کا مشورہ دیا۔ تقریباً رو دیے فرمان خان نے تبصرہ کیا کہ سلیم صافی کے پورے کالم کا نچوڑ یہ کے وہ پختون خواہ میں پی ٹی آئی کے مقبولیت سے شدید تکلیف میں مبتلا ہے
عمران خان کی جانب سے بیرسٹر گوہر خان کو تحریک انصاف کا چئیرمین نامزد کرنے پر ن لیگ کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آگیا ہے۔ ن لیگ کا کہنا ہے کہ ایک وکیل کو چئیرمین پی ٹی آئی نامزد ککے ثابت ہوگیا کہ عمران خان ایک خودغرض اور خودپرست شخص ہے۔ خواجہ آصف نے ردعمل دیتے ہوئے کہ اکہ عمران خان کا تحریک انصاف کے ایک وکیل کو چیئرمین بنانا ساری پارٹی کی سیاسی قیادت پہ عدم اعتماد ھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ساری عمر اس نے اپنے ساتھیوں کو حقیر جانا ھے اور اسکی درجنوں مثالیں تحریک انصاف کی نام نہاد جدوجہد میں ملیں گی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسوقت جب عمران خان جیل میں ھے اسے یہ بھی خوف ھے کہ پارٹی پہ قبضہ نہ ھو جاۓ۔ یہاں تک کے وہ بیگم صاحبہ پہ بھی اعتبار کا رسک نہیں لے سکتا۔ اپنے تعلق کی بیک گراؤنڈ اسکے سامنے ھے۔ انکا کہنا تھا کہ دولت اور اقتدار دونوں میں اعتبار بہت مشکل ھوتا ھے۔ اور جب فریقین کا ماضی اس سلسلہ میں مشتبہ بھی ھو۔ مائزہ حمید نے ردعمل دیا کہ ایک کمزور ، سیاسی نومولود اور اپنے ذاتی وکیل کو اپنا جانشین بنا کر عمران خان نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ وہ ایک خودغرض اور خود پرست شخص ہے ۔۔ اسکا سب کچھ اپنے گرد ہی گھومتا ہے وہ کسی پے بھی اعتبار نہیں کرتا ۔۔امید ہے اس با ر پی ٹی آئی کا مخلص ورکر یہ فیصلہ قبول نہیں کرے گی ۔۔
خیبر پختون خوا کے ضلع بنوں کے کنٹونمنٹ بورڈ کے نوجوان چیف ایگزیکٹیو افسر بلال پاشا نے مبینہ طور پر خود کو گولی مار کر خود کشی کرلی۔بعض اطلاعات کے مطابق انہیں دل کا دورہ پڑا ہے۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس جائے وقوعہ پہنچ گئی۔ بلال پاشا کی لاش سی ایم ایچ بنوں منتقل کر دی گئی جہاں ڈاکٹرز نے ان کی موت کی تصدیق کردی۔ ان کی خودکشی کی وجہ تاحال سامنے نہیں آسکی ہے۔ بلال پاشا جنوبی پنجاب کے ایک پسماندہ علاقہ میں پیدا ہوا۔علق خانیوال کے علاقہ عبدالحکیم سے تھا۔ والد دیہاڑی دار مزدور تھے۔ مالی حالات اچھے نہ ہونے کی وجہ سے مسجد میں ہی قائم مکتب سے پرائمری پاس کی۔ جنوبی پنجاب کی پسماندگی کا عالم سب پر عیاں ہے لہذا بلال پاشا نے بھی چھٹی جماعت سے اے بی سی پڑھنا شروع کی۔ انٹر میڈیٹ ایمرسن کالج ملتان اور بیچلر زرعی یو یونیورسٹی فیصل آباد سے کیا۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ مسجد سے پانچ جماعتیں کرنے والا بچہ کل کو مقابلے کا امتحان پاس کرکے سی ایس پی بن جائے گا. انہوں نے سی ایس ایس 47ویں کامن گروپ سے کیا تھا۔ وہ ایک خوش مزاج افسر تھے جو دوسرے کے کام آتے تھے اور ان میں سرکاری افسری کی رعونت اور تکبر نہیں تھا۔ ان کا یوٹیوب چینل بھی ہے جس پر وہ آن لائن پڑھاتے تھے اور سی ایس ایس کی تیاری کرواتے تھے۔ ان کی ناگہانی موت ان کے شاگردوں اور دوست و احباب سب کے لیے حیرت اور صدمے کا باعث بنی ہوئی ہے۔
سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور ایک بار پھر تحریک انصاف میں شمولیت کیلئے پر تولنے لگے، انہیں تحریک عدم اعتماد کے موقع پر گورنرشپ سے ہٹادیا گیا تھا۔جس کے بعد وہ مسلم لیگ ق میں شامل ہوگئے تھے۔ لندن سے تعلق رکھنے والے صحافی مرتضیٰ علی شاہ کا کہنا ہے کہ سابق گورنر چوہدری محمد سرور ایک بار پھر پی ٹی آئی میں شامل ہونا چاہتے ہیں لیکن انہیں تاحال کامیابی نہیں مل پائی ۔ مرتضیٰ علی شاہ کے مطابق چوہدری سرور نے مسلم لیگ ن میں شمولیت کیلئے بھی مذاکرات کئے تاہم نواز شریف نے انکار کردیا کیونکہ2014میں عمران خان اور قادری کے ناکام دھرنے کے وقت وہ ن لیے چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ چوہدری سرور کو مسلم لیگ ق میں شمولیت کے بعد پارٹی کا چیف آرگنائزر بنایا گیا تھا لیکن انہوں نے سوائے عائشہ گلالئی اور چند رہنماؤں کی شمولیت کروانے کے پارٹی معاملات میں کوئی دلچسپی نہ لی۔ چوہدری سرور پی ٹی آئی رہنماؤں سے رابطے کررہے ہیں لیکن انہیں کامیابی نہیں مل پارہی کیونکہ انہیں اگر کوئی شمولیت کی اجازت دے سکتا ہے تو وہ اڈیالہ جیل میں قید عمران خان ہیں لیکن انہوں نے واضح کر دیا ہے کہ وہ ان درجنوں رہنماؤں کو معاف نہیں کریں گے اور نہیں بھولیں گے جنہوں نے مشکل وقت میں انہیں مایوس کیا۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف لابنگ کرنے والے قابل قبول نہیں۔ چوہدری سرور کے پی ٹی آئی میں شامل ہونیکی خواہش کی وجہ بھی سامنے آگئی ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ چوہدری سرور اپنے بیٹے انس کو گلاسکو کا الیکشن جتوانا چاہتے ہیں کیونکہ گلاسکو میں اوورسیز پاکستانیوں کی بڑی تعداد مقیم ہے جن کا جھکاؤ عمران خان کی طرف ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ فیصل آباد اور ٹوبہ ٹیک سنگھ میں چوہدری سرور کے کافی رشتہ دار موجود ہیں جنہیں چوہدری سرور الیکشن لڑوانا چاہتے ہیں۔ چوہدری سرور جب ان سے پی ٹی آئی میں دوبارہ شمولیت کی کوششوں کے بارے میں پوچھا گیا تو سرور نے ترید نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ تمام آپشنز دستیاب ہیں، مختلف سطحوں پر بات چیت جاری ہے، ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے، جلد ہی حتمی فیصلہ کروں گا۔ ایک اور باخبر ذرائع نے بتایا کہ اب تک پی ٹی آئی نے اس پیشکش میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی ہے، پی ٹی آئی سپورٹرز بھی چوہدری سرور کو تحریک انصاف میں نہیں دیکھنا چاہتے۔ان کا کہنا ہے کہ مشکل وقت میں چوہدری سرور تحریک انصاف کو چھوڑ گئے تھے اور انہوں نے حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ بنانے کیلئے سہولت کاری کی۔
ہمیں معلومات موصول ہورہی ہیں شایدبلےکانشان بیلٹ پرہوشایدامیدوار ٹکٹ بھی لے لیں لیکن وہ ٹکٹ لینے والےامیدوار میدان میں نہ ہوں،اعزاز سید نجی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے اعزازسید نے کہا کہ اگر تحریک انصاف سے بلے کا نشان چھینا گیا تو اس الیکشن کی کوئی کریڈیبلٹی نہیں ہو گی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ تحریک انصاف کو بلے کا نشان مل بھی جائے تو پی ٹی آئی کا ٹکٹ اگر کوئی امیدوار لے گا تو وہ میدان میں نہیں ہو گا ، یہ بات میں معلومات کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں بعدازاں اعزاز سید نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جانے والے ایک زمہ دار سول سرکاری افسر نے بتایا کہ انتخابات میں اگر بلے کا نشان ہوا تو ٹکٹ لینے والا نہیں ہوگا اور اگر کسی نے ٹکٹ لیا تو وہ میدان میں نہیں ہوگا واضح رہے کہ ایسی ہی بات اسٹیبلشمنٹ سے قریبی تعلقات رکھنے والی کئی شخصیات کرچکی ہیں جن کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے پاس بلا بھی ہو لیکن امیدوار نہیں ہونگے اور اگر کوئی الیکشن میں کھڑا ہوگا تو اسے دستبردار کروالیا جائے گا یا انہیں الیکشن کمیشن کے ذریعے الیکشن سے باہر کردیا جائے گا۔ راجہ ریاض نے دعویٰ کیا تھا کہ تحریک انصاف الیکشن سے باہر ہوگی اور بلا ان سے چھین لیا جائے گا جبکہ فیصل واوڈا کا کہنا تھا کہ اگر تحریک انصاف کے پاس بلا بھی ہو تب بھی تحریک انصاف الیکشن نہیں لڑسکے گی اور انکے امیدوارکمپین نہیں چلاسکیں گے
گزشتہ 6 ماہ کے دوران (9 مئی کے بعد) سے پاکستان تحریک انصاف کے 478 میں سے230 سابق اراکین اسمبلی نے پارٹی کی خیر آباد کہہ دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق خبررساں ادارے ہم نیوز سے وابستہ سینئر صحافی زاہد گشکوری کی خصوصی رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کے 183 سابق اراکین ایسے ہیں جنہوں نے پارٹی کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے رہنے کا اعادہ کیا ہے، تاہم 65 اراکین ایسے بھی ہیں جو پارٹی چھوڑنے یا نا چھوڑنے کا فیصلہ نہیں کرسکیں ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 2018 میں پاکستان بھر سے پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر 478 قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین منتخب ہوئے تھے، ان میں سے 371 اراکین انتخابات جیت کر اسمبلیوں میں پہنچے جبکہ107 مخصوص نشستیں، خواتین اور اقلیتوں کی نشستیں شامل تھی۔ 478میں سے پی ٹی آئی کی قومی اسمبلی کی 164 نشستیں تھیں ، پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے کے بعد پی ٹی آئی کے ارکین نے دوسری جماعتوں میں شمولیت اختیار کرنا شروع کردی جس میں تیزی 9 مئی کے واقعات کے بعد آگئی اور اہم مرکزی رہنماؤں نے بھی پی ٹی آئی چھوڑ کر دیگر جماعتوں میں شمولیت اختیار کرلی۔ پی ٹی آئی سے الگ ہونےو الوں نے یا تو دیگر جماعتوں میں شمولیت اختیار کی تاہم 2 نئی پارٹیاں استحکام پاکستان پارٹی اور پی ٹی آئی پارلیمنٹیرنز قائم ہوئیں،آئی پی پی جہانگیر ترین اور علیم خان نے قائم کی جبکہ پی ٹی آئی پی خیبر پختونخوا میں پرویز خٹک کی سربراہی میں قائم کی گئی۔ زاہد گشکوری کے مطابق پی ٹی آئی چھوڑ کر جانے والےسب سے زیادہ اراکین آئی پی پی میں شامل ہوئے جن کی تعداد 70 ہوچکی ہے، اس کے بعد ن لیگ میں 60 پی ٹی آئی اراکین نے شمولیت اختیار کی، پی ٹی آئی پی میں 40، پیپلزپارٹی میں 25، ایم کیو ایم میں 10 جبکہ جے یو آئی ف اور اے این پی میں پانچ پانچ اراکین نے شمولیت اختیار کی۔ پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی سیٹیں جیتنے والے اراکین کی بات کی جائے تو اب تک 85 اراکین دوسری پارٹی میں چھلانگ لگاچکے ہیں جن میں 69 اراکین براہ راست منتخب ہونےو الے جبکہ11 مخصوص نشستوں اور 5 اقلیتی نشستوں پر رکن اسمبلی بننے والے اراکین شامل ہیں، پی ٹی آئی کے20 سابق اراکین اسمبلی ایسے بھی ہیں جنہوں نے پارٹی چھوڑنے کے سوال پر خاموشی اختیار کی۔
آصف علی زرداری نے دعویٰ کیا ہے کہ عمران حکومت میں پیپلز پارٹی کو پی ٹی آئی سے اتحاد کےلیے 6 وزارتوں کی پیشکش کی گئی۔ نجی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عمران حکومت مائنس زرداری پیپلز پارٹی چاہتی تھی، انہیں ملک سے باہر جانے کا کہا گیا۔ آصف زرداری نے مزید کہا کہ عمران خان حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد درست فیصلہ تھا، عمران خان کی وجہ سے پاکستان دنیا میں تنہا ہوگیا تھا، وہ ملکی معیشت کے دشمن تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر عمران خان کو فارغ نہ کیا جاتا تو وہ ایک فوجی کے ذریعے آر او الیکشن کروا کے 2028 تک حکومت بنا لیتے، پھر ایک کلو دودھ کے لیے ٹرک بھر کر پیسے لے جانے پڑتے۔
سینئر صحافی وتجزیہ نگار نصرت جاوید نے نجی ٹی وی چینل پبلک ٹی وی پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ معروف قانون دان سلمان اکرم راجہ ایڈووکیٹ لاہور سے پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے انتخابات میں حصہ لیں گے اور قومی اسمبلی کی نشست جیتیں گے۔ چیئرمین تحریک انصاف کے ایک قریبی سورس نے بتایا ہے کہ سلمان اکرم ڈیفنس کے علاقے سے الیکشن لڑیں گے اور وہ تحریک انصاف کے بڑے مضبوط امیدوار ہوں گے۔ نصرت جاوید نے کہا کہ اسلام آباد کے حلقے سے اسد عمر نے بھی اپنی سیٹ خالی کی ہے اس پر سینئر قانون دان بابر اعوان کے انتخابات میں حصہ لینے کا امکان ہے کیونکہ وہ مقامی بھی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کا وکلاء کو انتخابات لڑوانا ایک اچھا حربہ ہے، دوسری طرف وکلاء سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن میں تحریک انصاف کے قریبی عابدی زبیری کو ہرا دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد بار میں بھی الیکشن ہو رہے ہیں جس میں غالباً شعیب شاہین کے بھائی کھڑے ہو رہے ہیں، دیکھتے ہیں کہ وہ جیتتے ہیں یا نہیں۔ سپریم کورٹ بار والا مسئلہ ہی عام انتخابات میں درپیش آیا تو تحریک انصاف کا یہ حربہ بھی ناکام ہو سکتا ہے۔ 18 ویں ترمیم میں تبدیلیوں پر ن لیگ کے اجلاس میں غور سے متعلق شائع خبرپر میں بہت پریشان تھا لیکن پھر عرفان صدیقی نے واضح طور پر خبر کی تردید کر دی۔ نصرت جاوید نے کہا سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کو کسی نے مشورہ دیا کہ سوات، مالاکنڈ جائیں انتخابی کمپین کریں۔ میں اپنے تین ذرائع سے کنفرم کرنے کے بعد بتا رہا ہوں کہ محمود خان سوات کے رہائشی ہیں لیکن وہ اپنے گائوں نہیں گئے ایک ہوٹل میں مقیم رہے۔ بلاول بھٹو بارے کہا کہ وہ آصف علی زرداری کا بیٹا نہیں ہے بلکہ شہید بینظیر بھٹو کا بھی بیٹا ہےلوگ اس کی بات سنیں گے۔
تحریک عدم اعتماد سے قبل تحریک انصاف سے مںنحرف ارکان کو ٹکٹ کے حصول میں مشکلات کا سامنا، ن لیگ کے اندر شدید مشکلات صحافی نعیم اشرف بٹ کے مطابق دوسال قبل پی ٹی آئی سےمنخرف ہونیوالےچند سابق ایم این ایزکونون لیگ میں مخالفت کاسامنا ہے۔ 20میں سے9کونون کی ٹکٹ دینےکی مخالفت کی گئی، باقی11میں سے8کی حمایت اور3کامقامی قیادت سےمشاورت سےفیصلہ ہوگا۔ ن لیگی ذرائع کے مطابق جسکی حلقےمیں بہترپوزیشن ہوئی اسےٹکٹ ملےگی۔ہوسکتاہےبعض کو ایم پی ایز ٹکٹ اورلیگی ایم این اے کا امیدوار بنایا جائے ن لیگی رہنما کے مطابق ٹکٹوں کا حتمی فیصلہ پارلیمانی بورڈ ان امیدواروں کے انٹرویوز اور مقامی حالات پر کرے گا۔ ایک اور ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ فیصل آباد سے راجہ ریاض کے مقابلے میں رانا افضل کے بیٹے کو جبکہ تحریک انصاف کے ہی منحرف نواب شیروسیر کے مقابلے میں طلال چوہدری کو موزوں امیدوار سمجھا جارہا ہے۔ ملتان سے محمد حسین ڈاہر، راناقاسم نون، مظفرگڑھ سے عامرطلال گوپانگ اور بہاولنگر سے عبدالغفار وٹو کو ٹکٹ ملنے کاامکان ہے۔
ن لیگ نے سندھ میں قدم جمانے کے لئے مشن بنالیا.جس میں کامیابی کے لیے مسلم لیگ نون سندھ میں قدم جمانے کے متحرک ہو گئی ہے اور آئندہ الیکشن کے لیے بڑے سیاسی اتحاد کی تشکیل کے لیے پیش قدمی کرتے ہوئے صوبے کے اہم سیاسی کھلاڑیوں سے ملاقاتیں شروع کر دی ہیں۔ ملک میں آئندہ عام انتخابات کے لیے 8 فروری کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے اور سیاسی جماعتوں نے اس کے لیے صف بندی بھی شروع کر دی ہے۔ انتخابات سے پہلے سیاسی محاذ گرم ہونے لگا ہے اور مسلم لیگ نون کی قیادت اس کے لیے سرگرم ہو گئی ہے جس نے سندھ میں اپنے قدم جمانے کے لیے کوششیں شروع کر دی ہیں اور صوبے میں بڑا سیاسی اتحاد بنانے کا مشن لیے ن لیگی وفد نے کراچی میں ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ ن لیگ سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی وزرا خواجہ سعد رفیق، ایاز صادق سمیت دیگر رہنما پہلے جے یو آئی رہنما راشد سومرو کے گھر پہنچے اور وہاں سیاسی بیٹھک لگائی۔ راشد سومرو نے لیگی قیادت کو لاڑکانہ جلسے کی دعوت دی جس پر خواجہ سعد رفیق نے یقین دہانی کرائی کہ مسلم لیگ نون کا وفد اس جلسے میں ضرور شرکت کرے گا۔ ن لیگی رہنماؤں نے کراچی میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے سربراہ پیر پگارا سے ملاقات کی۔ انہیں نواز شریف کا پیغام پہنچایا اور بڑے سیاسی اتحاد کے لیے تفصیلی مشاورت کی۔ ن لیگی رہنما سعد رفیق کا کہنا تھا کہ وقت آ گیا ہے کہ سندھ میں متبادل قیادت لائی جائے۔ ہم کسی کے خلاف اتحاد نہیں بنا رہے ہیں لیکن ہم خیال لوگوں سے ایڈجسٹمنٹ حق ہے۔ ایاز صادق کا کہنا تھا کہ گرینڈ الائنس سے سندھ میں انتخابات کے نتائج کچھ اور ہی ہوں گے۔ پی پی سے اتحاد ہوسکتا ہے لیکن وزیراعظم لاہور سے نہیں تو جاتی امرا سے ہوگا۔ مسلم لیگ ن کا وفد آج بہادر آباد میں ایم کیو ایم مرکز جائے گا اور نواز شریف کا پیغام پہنچائے گا۔ ملاقات میں کراچی سمیت سندھ بھر میں انتخابی اتحاد سمیت دیگر معاملات پرمشاورت ہوگی سابق وفاقی وزیر داخلہ اور مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ صاف و شفاف الیکشن سے عوامی مینڈیٹ حاصل کریں گے۔ لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کی جانب بڑھنے سے روکا گیا، ایک فتنے کو پروجیکٹ کے طور پر لانچ کیا گیا جس کی ناکامی ملک کو بہت مہنگی پڑی۔ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ فتنے کے دور میں ہمیں اور ہماری قیادت کو جھوٹے مقدمات میں جیلوں میں ڈالا گیا، جیلوں میں ہمارے کھانے بند اور اذیت کا ماحول پیدا کیا گیا، جیلوں کی صعوبتیں جھیلیں اس وقت کونسی سہولت کاری تھی؟