سیاسی

عدت میں نکاح کے کیس کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک درخواست کی کہانی جسے بار بار مقرر کیا گیا لیکن ڈیڑھ ماہ میں اسکی سماعت نہ ہوسکی۔ صحافی احتشام عباسی کے مطابق اپنی تاریخ کا ایک منفرد واقعہ یہ بھی ہے کہ عمران خان نے دوران عدت نکاح کیس قابلِ سماعت قرار دینے کے سیشن عدالت کے فیصلے کے خلاف 12 اکتوبر کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی جو چیف جسٹس عامر فاروق کی عدالت میں سماعت کیلئے مقرر ہوئی لیکن اُس پر ڈیڑھ ماہ میں کوئی سماعت نہیں ہو سکی. عمران خان کی درخواست پہلی بار 17 اکتوبر کو سماعت کیلئے مقرر ہوئی لیکن کیس اُس دن کی کازلسٹ سے منسوخ کر دیا گیا پھر یکم نومبر کیلئے مقرر ہوا لیکن اُس دن کی کازلسٹ سے بھی نکال دیا گیا. تیسری بار 30 نومبر کو مقرر ہونے کی کازلسٹ جاری ہوئی لیکن ساتھ ہی اُس سے بھی نکال کر 18 دسمبر کیلئے مقرر کر دیا گیا ہے. اب بظاہر صورتحال یہ نظر آ رہی ہے کہ محمد حنیف کے وہ درخواست تو سول عدالت سے واپس لینے کی بنیاد پر عمران خان کی ہائیکورٹ میں زیرالتواء درخواست غیرموثر ہو گئی لیکن اگر وہ خاور مانیکا کی سول عدالت میں دائر درخواست قابلِ سماعت قرار دینے کا دو دن پہلے کا فیصلہ چیلنج کرتے ہیں تو اُس پر رجسٹرار آفس کا اعتراض آ جائے گا کہ آپکی ایسی ہی درخواست تو پہلے ہی زیرالتواء پڑی ہے نئی کیسے دائر کر سکتے ہیں؟
خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی بقا کی ایک اور وجہ وہاں پر دیگر سیاسی جماعتوں کی عدم دلچسپی یا ابتر صورت حال ہے ۔سلیم صافی اپنے کالم میں سلیم صافی کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی اور پختونخوا: پی ٹی آئی کو سب سے زیادہ فائدہ اس بات کا پہنچ رہا ہے کہ پیپلز پارٹی، نون لیگ، پرویز خٹک ، اے این پی اور وزارت اعلیٰ اور لاڈلا بننے کی خواہش میں آپس میں لڑپڑے ہیں۔ مثلا اگر جے یو آئی اوراے این پی کے رہنماؤں کی تقریریں سنی جائیں تو ان کا نشانہ پی ٹی آئی نہیں بلکہ پرویز خٹک ہوتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کا نشانہ پی ٹی آئی سے زیادہ مسلم لیگ(ن) ہے۔ سلیم صافی کے مطابق مسلم لیگ(ن) کی طرف سے امیرمقام اپنے تئیں محنت کررہے ہیں لیکن میاں صاحب کو مری کی سیر سے فرصت نہیں۔ اب آپ اندازہ لگالیجئے کہ پی ٹی آئی کو اس سے بہتر سازگار ماحول اور کہاں مل سکتا ہے جو یہاں اسے ملا ہوا ہے۔ احمد وڑائچ نے کہا کہ سلیم صافی نے کالم میں لکھا "خیبر پختون خوا میں نہ پی ٹی آئی کے سامنے کوئی متبادل قوت تھی اور نہ آج کل ہے". ن لیگ، پیپلز پارٹی، جے یو آئی، اے این پی ، جماعت اسلامی کو ہاتھ ملانے کا مشورہ دیا، محسن نقوی کی تعریف کی کہ بہادر ہے، نگران وزیراعلی خیبرپختونخوا کو سیکھنے کا مشورہ دیا۔ تقریباً رو دیے فرمان خان نے تبصرہ کیا کہ سلیم صافی کے پورے کالم کا نچوڑ یہ کے وہ پختون خواہ میں پی ٹی آئی کے مقبولیت سے شدید تکلیف میں مبتلا ہے
عمران خان کی جانب سے بیرسٹر گوہر خان کو تحریک انصاف کا چئیرمین نامزد کرنے پر ن لیگ کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آگیا ہے۔ ن لیگ کا کہنا ہے کہ ایک وکیل کو چئیرمین پی ٹی آئی نامزد ککے ثابت ہوگیا کہ عمران خان ایک خودغرض اور خودپرست شخص ہے۔ خواجہ آصف نے ردعمل دیتے ہوئے کہ اکہ عمران خان کا تحریک انصاف کے ایک وکیل کو چیئرمین بنانا ساری پارٹی کی سیاسی قیادت پہ عدم اعتماد ھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ساری عمر اس نے اپنے ساتھیوں کو حقیر جانا ھے اور اسکی درجنوں مثالیں تحریک انصاف کی نام نہاد جدوجہد میں ملیں گی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسوقت جب عمران خان جیل میں ھے اسے یہ بھی خوف ھے کہ پارٹی پہ قبضہ نہ ھو جاۓ۔ یہاں تک کے وہ بیگم صاحبہ پہ بھی اعتبار کا رسک نہیں لے سکتا۔ اپنے تعلق کی بیک گراؤنڈ اسکے سامنے ھے۔ انکا کہنا تھا کہ دولت اور اقتدار دونوں میں اعتبار بہت مشکل ھوتا ھے۔ اور جب فریقین کا ماضی اس سلسلہ میں مشتبہ بھی ھو۔ مائزہ حمید نے ردعمل دیا کہ ایک کمزور ، سیاسی نومولود اور اپنے ذاتی وکیل کو اپنا جانشین بنا کر عمران خان نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ وہ ایک خودغرض اور خود پرست شخص ہے ۔۔ اسکا سب کچھ اپنے گرد ہی گھومتا ہے وہ کسی پے بھی اعتبار نہیں کرتا ۔۔امید ہے اس با ر پی ٹی آئی کا مخلص ورکر یہ فیصلہ قبول نہیں کرے گی ۔۔
خیبر پختون خوا کے ضلع بنوں کے کنٹونمنٹ بورڈ کے نوجوان چیف ایگزیکٹیو افسر بلال پاشا نے مبینہ طور پر خود کو گولی مار کر خود کشی کرلی۔بعض اطلاعات کے مطابق انہیں دل کا دورہ پڑا ہے۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس جائے وقوعہ پہنچ گئی۔ بلال پاشا کی لاش سی ایم ایچ بنوں منتقل کر دی گئی جہاں ڈاکٹرز نے ان کی موت کی تصدیق کردی۔ ان کی خودکشی کی وجہ تاحال سامنے نہیں آسکی ہے۔ بلال پاشا جنوبی پنجاب کے ایک پسماندہ علاقہ میں پیدا ہوا۔علق خانیوال کے علاقہ عبدالحکیم سے تھا۔ والد دیہاڑی دار مزدور تھے۔ مالی حالات اچھے نہ ہونے کی وجہ سے مسجد میں ہی قائم مکتب سے پرائمری پاس کی۔ جنوبی پنجاب کی پسماندگی کا عالم سب پر عیاں ہے لہذا بلال پاشا نے بھی چھٹی جماعت سے اے بی سی پڑھنا شروع کی۔ انٹر میڈیٹ ایمرسن کالج ملتان اور بیچلر زرعی یو یونیورسٹی فیصل آباد سے کیا۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ مسجد سے پانچ جماعتیں کرنے والا بچہ کل کو مقابلے کا امتحان پاس کرکے سی ایس پی بن جائے گا. انہوں نے سی ایس ایس 47ویں کامن گروپ سے کیا تھا۔ وہ ایک خوش مزاج افسر تھے جو دوسرے کے کام آتے تھے اور ان میں سرکاری افسری کی رعونت اور تکبر نہیں تھا۔ ان کا یوٹیوب چینل بھی ہے جس پر وہ آن لائن پڑھاتے تھے اور سی ایس ایس کی تیاری کرواتے تھے۔ ان کی ناگہانی موت ان کے شاگردوں اور دوست و احباب سب کے لیے حیرت اور صدمے کا باعث بنی ہوئی ہے۔
سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور ایک بار پھر تحریک انصاف میں شمولیت کیلئے پر تولنے لگے، انہیں تحریک عدم اعتماد کے موقع پر گورنرشپ سے ہٹادیا گیا تھا۔جس کے بعد وہ مسلم لیگ ق میں شامل ہوگئے تھے۔ لندن سے تعلق رکھنے والے صحافی مرتضیٰ علی شاہ کا کہنا ہے کہ سابق گورنر چوہدری محمد سرور ایک بار پھر پی ٹی آئی میں شامل ہونا چاہتے ہیں لیکن انہیں تاحال کامیابی نہیں مل پائی ۔ مرتضیٰ علی شاہ کے مطابق چوہدری سرور نے مسلم لیگ ن میں شمولیت کیلئے بھی مذاکرات کئے تاہم نواز شریف نے انکار کردیا کیونکہ2014میں عمران خان اور قادری کے ناکام دھرنے کے وقت وہ ن لیے چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ چوہدری سرور کو مسلم لیگ ق میں شمولیت کے بعد پارٹی کا چیف آرگنائزر بنایا گیا تھا لیکن انہوں نے سوائے عائشہ گلالئی اور چند رہنماؤں کی شمولیت کروانے کے پارٹی معاملات میں کوئی دلچسپی نہ لی۔ چوہدری سرور پی ٹی آئی رہنماؤں سے رابطے کررہے ہیں لیکن انہیں کامیابی نہیں مل پارہی کیونکہ انہیں اگر کوئی شمولیت کی اجازت دے سکتا ہے تو وہ اڈیالہ جیل میں قید عمران خان ہیں لیکن انہوں نے واضح کر دیا ہے کہ وہ ان درجنوں رہنماؤں کو معاف نہیں کریں گے اور نہیں بھولیں گے جنہوں نے مشکل وقت میں انہیں مایوس کیا۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف لابنگ کرنے والے قابل قبول نہیں۔ چوہدری سرور کے پی ٹی آئی میں شامل ہونیکی خواہش کی وجہ بھی سامنے آگئی ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ چوہدری سرور اپنے بیٹے انس کو گلاسکو کا الیکشن جتوانا چاہتے ہیں کیونکہ گلاسکو میں اوورسیز پاکستانیوں کی بڑی تعداد مقیم ہے جن کا جھکاؤ عمران خان کی طرف ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ فیصل آباد اور ٹوبہ ٹیک سنگھ میں چوہدری سرور کے کافی رشتہ دار موجود ہیں جنہیں چوہدری سرور الیکشن لڑوانا چاہتے ہیں۔ چوہدری سرور جب ان سے پی ٹی آئی میں دوبارہ شمولیت کی کوششوں کے بارے میں پوچھا گیا تو سرور نے ترید نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ تمام آپشنز دستیاب ہیں، مختلف سطحوں پر بات چیت جاری ہے، ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے، جلد ہی حتمی فیصلہ کروں گا۔ ایک اور باخبر ذرائع نے بتایا کہ اب تک پی ٹی آئی نے اس پیشکش میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی ہے، پی ٹی آئی سپورٹرز بھی چوہدری سرور کو تحریک انصاف میں نہیں دیکھنا چاہتے۔ان کا کہنا ہے کہ مشکل وقت میں چوہدری سرور تحریک انصاف کو چھوڑ گئے تھے اور انہوں نے حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ بنانے کیلئے سہولت کاری کی۔
ہمیں معلومات موصول ہورہی ہیں شایدبلےکانشان بیلٹ پرہوشایدامیدوار ٹکٹ بھی لے لیں لیکن وہ ٹکٹ لینے والےامیدوار میدان میں نہ ہوں،اعزاز سید نجی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے اعزازسید نے کہا کہ اگر تحریک انصاف سے بلے کا نشان چھینا گیا تو اس الیکشن کی کوئی کریڈیبلٹی نہیں ہو گی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ تحریک انصاف کو بلے کا نشان مل بھی جائے تو پی ٹی آئی کا ٹکٹ اگر کوئی امیدوار لے گا تو وہ میدان میں نہیں ہو گا ، یہ بات میں معلومات کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں بعدازاں اعزاز سید نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جانے والے ایک زمہ دار سول سرکاری افسر نے بتایا کہ انتخابات میں اگر بلے کا نشان ہوا تو ٹکٹ لینے والا نہیں ہوگا اور اگر کسی نے ٹکٹ لیا تو وہ میدان میں نہیں ہوگا واضح رہے کہ ایسی ہی بات اسٹیبلشمنٹ سے قریبی تعلقات رکھنے والی کئی شخصیات کرچکی ہیں جن کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے پاس بلا بھی ہو لیکن امیدوار نہیں ہونگے اور اگر کوئی الیکشن میں کھڑا ہوگا تو اسے دستبردار کروالیا جائے گا یا انہیں الیکشن کمیشن کے ذریعے الیکشن سے باہر کردیا جائے گا۔ راجہ ریاض نے دعویٰ کیا تھا کہ تحریک انصاف الیکشن سے باہر ہوگی اور بلا ان سے چھین لیا جائے گا جبکہ فیصل واوڈا کا کہنا تھا کہ اگر تحریک انصاف کے پاس بلا بھی ہو تب بھی تحریک انصاف الیکشن نہیں لڑسکے گی اور انکے امیدوارکمپین نہیں چلاسکیں گے
گزشتہ 6 ماہ کے دوران (9 مئی کے بعد) سے پاکستان تحریک انصاف کے 478 میں سے230 سابق اراکین اسمبلی نے پارٹی کی خیر آباد کہہ دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق خبررساں ادارے ہم نیوز سے وابستہ سینئر صحافی زاہد گشکوری کی خصوصی رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کے 183 سابق اراکین ایسے ہیں جنہوں نے پارٹی کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے رہنے کا اعادہ کیا ہے، تاہم 65 اراکین ایسے بھی ہیں جو پارٹی چھوڑنے یا نا چھوڑنے کا فیصلہ نہیں کرسکیں ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 2018 میں پاکستان بھر سے پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر 478 قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین منتخب ہوئے تھے، ان میں سے 371 اراکین انتخابات جیت کر اسمبلیوں میں پہنچے جبکہ107 مخصوص نشستیں، خواتین اور اقلیتوں کی نشستیں شامل تھی۔ 478میں سے پی ٹی آئی کی قومی اسمبلی کی 164 نشستیں تھیں ، پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے کے بعد پی ٹی آئی کے ارکین نے دوسری جماعتوں میں شمولیت اختیار کرنا شروع کردی جس میں تیزی 9 مئی کے واقعات کے بعد آگئی اور اہم مرکزی رہنماؤں نے بھی پی ٹی آئی چھوڑ کر دیگر جماعتوں میں شمولیت اختیار کرلی۔ پی ٹی آئی سے الگ ہونےو الوں نے یا تو دیگر جماعتوں میں شمولیت اختیار کی تاہم 2 نئی پارٹیاں استحکام پاکستان پارٹی اور پی ٹی آئی پارلیمنٹیرنز قائم ہوئیں،آئی پی پی جہانگیر ترین اور علیم خان نے قائم کی جبکہ پی ٹی آئی پی خیبر پختونخوا میں پرویز خٹک کی سربراہی میں قائم کی گئی۔ زاہد گشکوری کے مطابق پی ٹی آئی چھوڑ کر جانے والےسب سے زیادہ اراکین آئی پی پی میں شامل ہوئے جن کی تعداد 70 ہوچکی ہے، اس کے بعد ن لیگ میں 60 پی ٹی آئی اراکین نے شمولیت اختیار کی، پی ٹی آئی پی میں 40، پیپلزپارٹی میں 25، ایم کیو ایم میں 10 جبکہ جے یو آئی ف اور اے این پی میں پانچ پانچ اراکین نے شمولیت اختیار کی۔ پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی سیٹیں جیتنے والے اراکین کی بات کی جائے تو اب تک 85 اراکین دوسری پارٹی میں چھلانگ لگاچکے ہیں جن میں 69 اراکین براہ راست منتخب ہونےو الے جبکہ11 مخصوص نشستوں اور 5 اقلیتی نشستوں پر رکن اسمبلی بننے والے اراکین شامل ہیں، پی ٹی آئی کے20 سابق اراکین اسمبلی ایسے بھی ہیں جنہوں نے پارٹی چھوڑنے کے سوال پر خاموشی اختیار کی۔
آصف علی زرداری نے دعویٰ کیا ہے کہ عمران حکومت میں پیپلز پارٹی کو پی ٹی آئی سے اتحاد کےلیے 6 وزارتوں کی پیشکش کی گئی۔ نجی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عمران حکومت مائنس زرداری پیپلز پارٹی چاہتی تھی، انہیں ملک سے باہر جانے کا کہا گیا۔ آصف زرداری نے مزید کہا کہ عمران خان حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد درست فیصلہ تھا، عمران خان کی وجہ سے پاکستان دنیا میں تنہا ہوگیا تھا، وہ ملکی معیشت کے دشمن تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر عمران خان کو فارغ نہ کیا جاتا تو وہ ایک فوجی کے ذریعے آر او الیکشن کروا کے 2028 تک حکومت بنا لیتے، پھر ایک کلو دودھ کے لیے ٹرک بھر کر پیسے لے جانے پڑتے۔
سینئر صحافی وتجزیہ نگار نصرت جاوید نے نجی ٹی وی چینل پبلک ٹی وی پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ معروف قانون دان سلمان اکرم راجہ ایڈووکیٹ لاہور سے پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے انتخابات میں حصہ لیں گے اور قومی اسمبلی کی نشست جیتیں گے۔ چیئرمین تحریک انصاف کے ایک قریبی سورس نے بتایا ہے کہ سلمان اکرم ڈیفنس کے علاقے سے الیکشن لڑیں گے اور وہ تحریک انصاف کے بڑے مضبوط امیدوار ہوں گے۔ نصرت جاوید نے کہا کہ اسلام آباد کے حلقے سے اسد عمر نے بھی اپنی سیٹ خالی کی ہے اس پر سینئر قانون دان بابر اعوان کے انتخابات میں حصہ لینے کا امکان ہے کیونکہ وہ مقامی بھی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کا وکلاء کو انتخابات لڑوانا ایک اچھا حربہ ہے، دوسری طرف وکلاء سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن میں تحریک انصاف کے قریبی عابدی زبیری کو ہرا دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد بار میں بھی الیکشن ہو رہے ہیں جس میں غالباً شعیب شاہین کے بھائی کھڑے ہو رہے ہیں، دیکھتے ہیں کہ وہ جیتتے ہیں یا نہیں۔ سپریم کورٹ بار والا مسئلہ ہی عام انتخابات میں درپیش آیا تو تحریک انصاف کا یہ حربہ بھی ناکام ہو سکتا ہے۔ 18 ویں ترمیم میں تبدیلیوں پر ن لیگ کے اجلاس میں غور سے متعلق شائع خبرپر میں بہت پریشان تھا لیکن پھر عرفان صدیقی نے واضح طور پر خبر کی تردید کر دی۔ نصرت جاوید نے کہا سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کو کسی نے مشورہ دیا کہ سوات، مالاکنڈ جائیں انتخابی کمپین کریں۔ میں اپنے تین ذرائع سے کنفرم کرنے کے بعد بتا رہا ہوں کہ محمود خان سوات کے رہائشی ہیں لیکن وہ اپنے گائوں نہیں گئے ایک ہوٹل میں مقیم رہے۔ بلاول بھٹو بارے کہا کہ وہ آصف علی زرداری کا بیٹا نہیں ہے بلکہ شہید بینظیر بھٹو کا بھی بیٹا ہےلوگ اس کی بات سنیں گے۔
تحریک عدم اعتماد سے قبل تحریک انصاف سے مںنحرف ارکان کو ٹکٹ کے حصول میں مشکلات کا سامنا، ن لیگ کے اندر شدید مشکلات صحافی نعیم اشرف بٹ کے مطابق دوسال قبل پی ٹی آئی سےمنخرف ہونیوالےچند سابق ایم این ایزکونون لیگ میں مخالفت کاسامنا ہے۔ 20میں سے9کونون کی ٹکٹ دینےکی مخالفت کی گئی، باقی11میں سے8کی حمایت اور3کامقامی قیادت سےمشاورت سےفیصلہ ہوگا۔ ن لیگی ذرائع کے مطابق جسکی حلقےمیں بہترپوزیشن ہوئی اسےٹکٹ ملےگی۔ہوسکتاہےبعض کو ایم پی ایز ٹکٹ اورلیگی ایم این اے کا امیدوار بنایا جائے ن لیگی رہنما کے مطابق ٹکٹوں کا حتمی فیصلہ پارلیمانی بورڈ ان امیدواروں کے انٹرویوز اور مقامی حالات پر کرے گا۔ ایک اور ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ فیصل آباد سے راجہ ریاض کے مقابلے میں رانا افضل کے بیٹے کو جبکہ تحریک انصاف کے ہی منحرف نواب شیروسیر کے مقابلے میں طلال چوہدری کو موزوں امیدوار سمجھا جارہا ہے۔ ملتان سے محمد حسین ڈاہر، راناقاسم نون، مظفرگڑھ سے عامرطلال گوپانگ اور بہاولنگر سے عبدالغفار وٹو کو ٹکٹ ملنے کاامکان ہے۔
ن لیگ نے سندھ میں قدم جمانے کے لئے مشن بنالیا.جس میں کامیابی کے لیے مسلم لیگ نون سندھ میں قدم جمانے کے متحرک ہو گئی ہے اور آئندہ الیکشن کے لیے بڑے سیاسی اتحاد کی تشکیل کے لیے پیش قدمی کرتے ہوئے صوبے کے اہم سیاسی کھلاڑیوں سے ملاقاتیں شروع کر دی ہیں۔ ملک میں آئندہ عام انتخابات کے لیے 8 فروری کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے اور سیاسی جماعتوں نے اس کے لیے صف بندی بھی شروع کر دی ہے۔ انتخابات سے پہلے سیاسی محاذ گرم ہونے لگا ہے اور مسلم لیگ نون کی قیادت اس کے لیے سرگرم ہو گئی ہے جس نے سندھ میں اپنے قدم جمانے کے لیے کوششیں شروع کر دی ہیں اور صوبے میں بڑا سیاسی اتحاد بنانے کا مشن لیے ن لیگی وفد نے کراچی میں ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ ن لیگ سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی وزرا خواجہ سعد رفیق، ایاز صادق سمیت دیگر رہنما پہلے جے یو آئی رہنما راشد سومرو کے گھر پہنچے اور وہاں سیاسی بیٹھک لگائی۔ راشد سومرو نے لیگی قیادت کو لاڑکانہ جلسے کی دعوت دی جس پر خواجہ سعد رفیق نے یقین دہانی کرائی کہ مسلم لیگ نون کا وفد اس جلسے میں ضرور شرکت کرے گا۔ ن لیگی رہنماؤں نے کراچی میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے سربراہ پیر پگارا سے ملاقات کی۔ انہیں نواز شریف کا پیغام پہنچایا اور بڑے سیاسی اتحاد کے لیے تفصیلی مشاورت کی۔ ن لیگی رہنما سعد رفیق کا کہنا تھا کہ وقت آ گیا ہے کہ سندھ میں متبادل قیادت لائی جائے۔ ہم کسی کے خلاف اتحاد نہیں بنا رہے ہیں لیکن ہم خیال لوگوں سے ایڈجسٹمنٹ حق ہے۔ ایاز صادق کا کہنا تھا کہ گرینڈ الائنس سے سندھ میں انتخابات کے نتائج کچھ اور ہی ہوں گے۔ پی پی سے اتحاد ہوسکتا ہے لیکن وزیراعظم لاہور سے نہیں تو جاتی امرا سے ہوگا۔ مسلم لیگ ن کا وفد آج بہادر آباد میں ایم کیو ایم مرکز جائے گا اور نواز شریف کا پیغام پہنچائے گا۔ ملاقات میں کراچی سمیت سندھ بھر میں انتخابی اتحاد سمیت دیگر معاملات پرمشاورت ہوگی سابق وفاقی وزیر داخلہ اور مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ صاف و شفاف الیکشن سے عوامی مینڈیٹ حاصل کریں گے۔ لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کی جانب بڑھنے سے روکا گیا، ایک فتنے کو پروجیکٹ کے طور پر لانچ کیا گیا جس کی ناکامی ملک کو بہت مہنگی پڑی۔ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ فتنے کے دور میں ہمیں اور ہماری قیادت کو جھوٹے مقدمات میں جیلوں میں ڈالا گیا، جیلوں میں ہمارے کھانے بند اور اذیت کا ماحول پیدا کیا گیا، جیلوں کی صعوبتیں جھیلیں اس وقت کونسی سہولت کاری تھی؟
سینئر تجزیہ کار اطہر کاظمی نے اسد عمر کے سیاست کو خیر آباد کہنے کے اعلان پرردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی پی ٹی آئی کے خلاف کارروائی تیز ہوگئی ہیں۔ جی این این کے پروگرام "ویو پوائنٹ" میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار اطہر کاظمی نے کہا کہ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنا اسد عمر کا ذاتی فیصلہ ہے، کچھ چیزیں ہیں جس کی جانب اشارہ کیا جارہا ہے کہ حالیہ دنوں میں دوبارہ کچھ گرفتاریاں ہوئیں، پی ٹی آئی نے کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد ایک اعلامیہ بھی جاری کیا کہ جب سے الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہوا ہے اس کے بعد پی ٹی آئی کے لوگوں کے خلاف کارروائیاں تیز ہوگئی ہیں۔ اطہر کاظمی نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی نے بھی لیول پلیئنگ فیلڈ کے معاملے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے، اسد عمر کے پارٹی میں رہنے یا نا رہنے سے کیا فرق پڑجائے گا؟ میرے خیال سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، بس اتنا ضرور لگے گا کہ پاکستان کی سیاست میں اسد عمر جیسے پڑھے لکھے لوگ ہوں، ملکی سیاست آگے بڑھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس موقع پر میں فواد چوہدری کے حوالے سے کہنا چاہوں گا کہ ان کے خلاف ایک مقدمے میں بڑی مضحکہ خیز دفعات شامل کی گئی ہیں، یہ ایسی دفعات ہیں جو آج سے 30 سے 40 سال پیچھے چلے جائیں تو بکری چوری اور بھینس چوری جیسے مقدمے تب بھی نظر آتے تھے۔ اطہر کاظمی نے کہا کہ ان چیزوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہماری سیاست آج بھی وہیں پھنسی ہوئی ہو، اور سیاست کی وجہ سے ہمارا ملک آج بھی وہیں پھنسا ہوا ہے جہاں آج سے 50 برس قبل پھنسا ہوا تھا، اگر ہم نے ملک کو آگے لے کر جانا ہے تو ہمیں پروگریسیو سیاست کرنی پڑے گی اور پروگریسیو سوچ رکھنے والوں کو سیاست میں لانا ہوگا۔
لاڈلے کو لانے والے اور لاڈلا سمجھ چکے کہ اکیلے الیکشن جیتنا ناممکن: کسی بھی سیاسی جماعت کو مائنس کیا گیا تو ان انتخابات کو الیکشن کے بجائے سلیکشن ہی سمجھوں گا: سینئر صحافی نجی ٹی وی چینل جی این این کے پروگرام خبر ہے میں گفتگو کرتےہوئے سینئر صحافی وتجزیہ نگار عارف حمید بھٹی نے ایم کیو ایم کے مسلم لیگ ن سے اتحاد پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ اسے گینگ آف لیاری بلاتی رہی ہے جب بکتربند گاڑیاں تک اغوا کر لی جاتی تھیں۔ سیاسی جماعتوں کا یہ اتحاد خوش آئند ہے، نفرتوں کو ختم ہونا چاہیے لیکن میری خبر کے مطابق اگر پاکستان تحریک انصاف نے انتخابات میں حصہ لیا تو مسلم لیگ ن کی کوشش ہو گی کہ انتخابات نہ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کی چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات ہوئی ہے اور اگر وہ شفاف الیکشن کرواتے ہیں تو ہو سکتا ہے مسلم لیگ ن تحریک انصاف کی طرف بھی جائے۔ چودھری غلام حسین کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن لاہور میں شاید ایک بھی سیٹ نہ نکال سکے۔ عارف حمید بھٹی نے کہا کہ الیکشن ہوں گے یا سلیکشن! تمام سیاسی جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ دی جانی چاہیے۔ ن لیگ، پیپلزپارٹی ہو یا تحریک انصاف کسی بھی سیاسی جماعت کو مائنس کیا گیا تو ان انتخابات کو الیکشن کے بجائے سلیکشن ہی سمجھوں گا۔ انہوں نے کہا کہ ضیاء الحق کے ہونہار لیڈر کا اگر متحدہ قومی موومنٹ سے اتحاد ہو گیا ہے تو یہ اچھی بات ہے، کراچی کے عوام کی بہتری ہونی چاہیے۔ 10 سروے رپورٹس کے مطابق شفاف انتخابات ہونے کی صورت میں مسلم لیگ ن پنجاب میں زیادہ سے زیادہ 40 سیٹیں حاصل کر سکے گی۔ عارف حمید بھٹی کا کہنا تھا کہ کسی بھی سیاسی جماعت سے اتحاد کرنا ن لیگ کا حق ہے لیکن ہماری اطلاعات کے مطابق ن لیگ کے اپنے سروے کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی، تحریک انصاف کے بعد مسلم لیگ ن کا نمبر ہے۔ ن لیگ سمجھ چکی ہے کہ اس کے لیے الیکشن جیتنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کا بظاہر تو پنجاب میں ووٹ بینک نہیں ہے، یہ اتحاد اس نے پی ٹی آئی کی 10 سیٹیں حاصل کرنے کے لیے کیا ہے۔ آج تو آصف زرداری نے بھی کہہ دیا ہے کہ ہم نے تو ان کا ساتھ دے کر غلطی کی، اس کا مطلب ہے کہ لاڈلے کو لانے والے اور لاڈلا سمجھ چکے ہیں کہ وہ الیکشن نہیں جیت سکتے۔
ثاقب بشیر کیس واپس لینے کی درخواست اور 10 ماہ ؟ 21 اکتوبر 2022 کو توشہ خانہ ریفرنس کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ آیا ایک ہفتے کے اندر عمران خان نے فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا چیف جسٹس عامر فاروق نے فیصلہ معطل نہیں کیا لیکن میانوالی کی نشست پر ضمنی الیکشن کرانے سے رک دیا (اس دوران الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل نا ہونے کی وجہ سے اس پر عمل درآمد شروع ہو گیا) ۔ سماعتیں چلتی رہیں اس دوران الیکشن کمیشن نے عمران خان کو توشہ خانہ فیصلے کی بنیاد پر چیئرمین شپ سے ہٹانے کی کاروائی کا آغاز کیا تو عمران خان نے لاہور ہائیکورٹ میں کاروائی چیلنج کر دی عمران خان کے وکیل علی ظفر کے مطابق انہوں نے چیئرمین شپ سے ہٹانے کی الیکشن کمیشن کی کاروائی کے ساتھ الیکشن کمیشن کا توشہ خانہ ریفرنس فیصلہ (جو اسلام آباد ہائیکورٹ میں پہلے ہی چیلنج کیا ہوا تھا) بھی اسی پٹیشن میں لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا اور علی ظفر کے بقول انہوں نے لاہور ہائیکورٹ کو اسلام آباد ہائیکورٹ کی جاری کاروائی سے متعلق بر وقت مطلع بھی کیا تھا اس کے بعد لاہور ہائیکورٹ نے نومبر 2022 میں لارجر بنچ تشکیل دے دیا اور کہا کہ عمران خان یا تو لاہور ہائیکورٹ میں کیس چلائے یا اسلام آباد ہائیکورٹ میں چلائے دونوں جگہوں پر کیس ایک وقت میں نہیں چلے گا عمران خان نے 18 جنوری 2023 کو اسلام آباد ہائیکورٹ سے درخواست واپس لینے کی متفرق درخواست دائر کردی 19 جنوری کو سماعت ہوئی چیف جسٹس نے کہا 25 جنوری کے لیے رکھ لیتے ہیں دوسری طرف کو سن کر فیصلہ کریں گے اگلی سماعت پر الیکشن کمیشن اور محسن شاہ نواز رانجھا کے وکیل نے اعتراض اٹھایا اور عدالت کو کہا عمران خان نے لاہور ہائیکورٹ میں یہاں اور یہاں کی کاروائی لاہور ہائیکورٹ کو نہیں بتائی پھر کیس یہاں پہلے چل رہا ہے یہی چلنا چاہیے اگر عدالت نے ان کی درخواست واپس لینے کی منظور کرنی بھی ہے تو ان کے خلاف لکھ کر درخواست منظور کرے کیونکہ انہوں نے عدالت سے چیٹنگ کی ہے پھر معاملہ چلتا رہا چھ سات سماعتیں ہوئیں آخر کار 13 ستمبر کو فیصلہ محفوظ ہوا جو آج چھ نومبر تک محفوظ ہے 19 جنوری سے 6 نومبر تک کے دوران توشہ خانہ ریفرنس فیصلے پر مکمل عمل ہو چکا فوجداری کاروائی میں عمران خان کو سزا ہو چکی نااہلی ہو چکی لیکن 10 ماہ میں اسلام آباد ہائیکورٹ سے کیس واپس لینے کی عمران خان کی درخواست پر فیصلہ نا ہو سکا ۔۔۔ ہے نا دلچسپ کہانی ؟
گزشتہ روز سائفر کیس میں سلمان اکرم راجہ نے کونسے اہم نکات اٹھائے ؟ تفصیلات سامنے آگئیں اسلام آباد ہائیکورٹ میں دلائل دیتے ہوئے سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ایک تو یہ کہ مقدمہ سننے والے جج کی تعیناتی غیر قانونی ہے، اس پر عدالت نے وزارت قانون سے جواب طلب کیا ہے۔ دوسرا یہ کہ کمپلینٹ کیس میں ایف آئی آر پر ٹرائل نہیں ہوسکتا ،وفاقی کابینہ کی منظوری ضروری تھی۔وفاقی کابینہ نے فیصلہ کرنا تھا کہ یہ کیس ٹرائل کیلئے بھیجا جاسکتا ہے یا نہیں اور دوسرا کونسا جج یہ کیس سنے گا اسکا فیصلہ وفاقی کابینہ نے کرنا تھا۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہماری دانست میں یہ معاملہ وفاقی کابینہ کے پاس گیا ہی نہیں۔ سلمان اکرم راجہ نے تیسرا نقطہ اوپن ٹرائل سے متعلق اٹھایا دلائل دیتے ہوئے سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا یہ پہلا مقدمہ ہے جس پر انسداد دہشتگری عدالت کے جج سماعت کر رہے ہیں، وزارت قانون کیسے سینکڑوں ایڈیشنل سیشن ججز میں سے ایک جج کو یہ اختیار دے سکتی ہے؟ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ بڑا ایشو یہ بھی ہے کہ ٹرائل کورٹ کی کارروائی اوپن کورٹ کیوں نہیں کی گئی؟ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ بند کمروں میں ٹرائل ہورہا ہے جس کا میڈیا اور ملزم کے خاندان کو پتہ نہیں لگ رہا ہے کہ ہوکیا رہا ہے اور دوسرا بنیادی دستاویزات ملزمان کے وکلاء کو نہیں دی جارہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسا مقدمہ جو ریاست کے خلاف ہو وہ ایف آئی آر کی بنیاد پر قائم ہوہی نہیں سکتا، اس حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں۔ اس پر بیرسٹر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ تو واقعی اپنی جگہ پر ایک بڑا مسئلہ ہے، عدالتی کارروائی کو پبلک ہونا چاہیے۔
میرے 38 سالہ صحافتی تجربے میں کسی سیاستدان کو اتنے سخت الفاظ میں لوگوں کی پگڑی اتارتے نہیں دیکھا جتنا خواجہ آصف کو دیکھا ہے۔موصوف باجوہ کو فون کرکے الیکشن جیت جاتے ہیں۔عامرمتین اپنے پروگرام میں تجزیہ کرتے ہوئے عامرمتین کا کہنا تھا کہ ایون فیلڈ کیس کے اربوں کے کیسز ہیں مگر خواجہ آصف اپنا کارنامہ گول کر جاتے ہیں ہمیشہ۔اتنا بڑا فراڈ کیا لیکن بچ گئے عدالت سے۔پاکستان کے وزیر خارجہ ہوتے ہوئے دبئی کی ایک چھوٹی سی کمپنی میں پارٹ ٹائم ملازم رہے ۔کوئی نظیر نہیں اسکی کہ کبھی معزز دنیا میں ایسا ہوا ہو ۔۔ انہوں نےمزید کہا کہ میرے 38 سالہ صحافتی تجربے میں کسی سیاستدان کو اتنے سخت الفاظ میں لوگوں کی پگڑی اتارتے نہیں دیکھا جتنا خواجہ آصف کو دیکھا ہے۔ عامرمتین کا کہنا تھا کہ موصوف دنیا کی تاریخ میں واحد وزیر دفاع/خارجہ ہوں گیں جو وزارت کے دوران دبئ کی کسی پرائیویٹ کمپنی کے پارٹ ٹائم ملازم بھی تھے۔ اس سے بڑا مفادات کا ٹکرائو یا سیکیورٹی رسک ہو نہی سکتا۔ وہ بڑے کھلاڑی ہیں۔ جنرل باجوہ کو کال کر کے الیکشن بھی جیت جاتے رہے۔ سینئر صحافی نے مزید کہا کہ نواز شریف اقامہ پر ناہل ہوئے مگر خواجہ صاحب کو سپریم کورٹ نے کلئیر کر دیا۔ قانون کو چھوڑیں مسلہ اخلاقی ہے۔ کیا دنیا کی تاریخ میں ایسا ہوا کہ وزیر دفاع/خارجہ کسی اور ملک کی کمپنی میں پارٹ ٹائم گھٹیا سی ملازمت کے پیسے لیتا ہو۔ وہ کیا ڈھکوسلا تھا۔ آج تک یہ تحقیق نہی ہو سکی کہ چکر کیا تھا۔ عامرمتین نے سوال اٹھایا کہ کیوں اتنی چھوٹی تنخواہ کے لیے خواجہ صاحب نے یہ رسک لیا۔ کیوں ان سب لوگوں کو امارات کا اقامہ چاہیے تھا۔ اس اقامہ کے زریعے کیا کچھ ہوتا رہا۔ اس کا حساب کبھی تو ہو گا۔ کون کرے گا معلوم نہیں۔ مگر خدا کے لیے اس جواب سے پہلے ان کو دفاع سے دور رکھیں۔
سینئر صحافی و تجزیہ کار جاوید چوہدری نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے ایک وفد نے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی ہے۔ہوسکتا ہے کہ وہ آئندہ انتخات میں کسی پارٹی کے ٹکٹ کے بجائے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑیں تفصیلات کے مطابق جاوید چوہدری نے یہ انکشاف ہم نیوز کے پروگرام"پاور پولیٹکس ود عادل عباسی" میں گفتگو کرتے ہوئے کیا اور کہا کہ پی ٹی آئی وفد نے مولانا فضل الرحمان سے کہا کہ ہمیں الیکشن لڑنے دیا جائے، پی ٹی آئی رہنماؤں نے مولانا سے اس امید سے ملاقات کیلئے گئے کہ انہیں انتخابات میں حصہ لینے دیا جائے۔ جاوید چوہدری نے کہا کہ پی ٹی آئی وفد میں سے کسی ایک فرد کا تعلق دوسرے صوبے سے نہیں تھا بلکہ اسد قیصر، علی محمد خان اور بیرسٹر سیف کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے، اسد قیصر اور علی محمد خان چیئرمین پی ٹی آئی کی اجازت کے بغیر مولانا سے ملنے گئے، جو رہنما اس ملاقات میں شامل تھے ہوسکتا ہے کہ وہ آئندہ انتخات میں کسی پارٹی کے ٹکٹ کے بجائے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑیں ۔ سینئر صحافی نے کہا کہ پی ٹی آئی وفد نے ملاقات میں خواہش کا اظہار کیا کہ اگروہ انتخابات میں حصہ لیتے ہیں تو مولانا فضل الرحمان ان کی مدد کریں، ایسا نا ہو کہ ان رہنماؤں کو بالکل ہی آؤٹ کردیا جائے۔ جاوید چوہدری نے کہا کہ عمران خان ، اسد قیصر اور علی محمد خان سے کافی عرصے سے رابطے میں نہیں ہیں، عمران خان کا ماننا ہے کہ جیل سے رہائی پانے والے کسی رہنما نے اگر کوئی دوسری پارٹی جوائن نہیں کی تو بھی وہ پی ٹی آئی کا حصہ نہیں رہا، کیونکہ رہائی کا مقصد ہے کہ انہیں کسی ڈیل کے تحت رہائی ملی۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان سمجھتے ہیں علی محمد خان کسی نا کسی جگہ ایڈجسٹ کرکے آئے ہیں کیونکہ ان کے گھر پولیس دوبارہ کبھی نہیں گئی۔
مسلم لیگ ن کی سینئر نائب صدر مریم نواز شریف کی جانب سے ایک سال قبل کیا گیا ایک بڑا دعویٰ سچ ثابت ہوگیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر اور سینئر نائب صدر مریم نواز شریف نے ایک سال قبل ایک پریس کانفرنس کے دوران دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف واپس آئیں گے تو سیدھا جیل نہیں جائیں گےبلکہ انہیں ضمانت ملے گی۔ سینئر صحافی و تجزیہ کار صابر شاکر نے یہ ویڈیو کلپ شیئر کرتے ہوئے کہا کہ مریم نواز شریف نے بہت بڑاسرنڈر کروایا ہے، جو حکم انہوں نے دیا گیا اس کی ہوبہو تعمیل کروائی گئی ہے۔ آج احتساب عدالت اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کو 21 اکتوبر کو واپسی پر ایئر پورٹ سے گرفتاری سے روکتے ہوئے ان کو 24 اکتوبر تک حفاظتی ضمانت دیدی ہے، اس فیصلے کے بعد مریم نواز شریف کا ایک سال قبل کیا گیا دعویٰ سچ ثابت ہوگیا۔ مریم نواز شریف نے ماضی میں ایک انٹرویو کے دوران مزاحمت کا راستہ چننے سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک دوسرا راستہ ہے جو مجھے بھی آتا ہے جو آج کل بہت سارے لوگوں نے اپنا رکھا ہے، اس راستے پر صرف ہاتھ جوڑنے پڑتے ہیں، اپنی عزت نفس کو قربان کرنا پڑتا ہے اور اس میں صرف آپ کو جوتے صاف کرنے پڑتے ہیں۔ رہنما ن لیگ نے کہا تھا کہ وہ بہت آسان راستہ ہے، وہ راستہ مجھے بھی آتا ہے اور بہت اچھے سے آتا ہے،آپ یہ نا سمجھیں جو راستہ میں نے چنا اس کے بارے میں مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ ایک مشکل راستہ ہے۔ سوشل میڈیا صارفین نےماضی کے اس بیان کو شیئر کرتے ہوئے ردعمل دیا اور کہا کہ مریم نواز شریف نے ثابت کردیا کہ انہیں جوتے صاف کرنے والا راستہ بہت اچھے سے آتا ہے اور یہ وہی راستہ ہے جو میاں نواز شریف شروع سے اپناتے آئے ہیں۔
لاہور ہائیکورٹ نے (ن) لیگ کے رہنما حنیف عباسی کو ایفی ڈرین کوٹہ کیس سے بری کردیا,لاہور ہائیکورٹ کی جسٹس عالیہ نیلم کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے اپیل پر محفوظ فیصلہ سنایا اور حنیف عباسی کی ایفی ڈرین کیس میں عمر قید کی سزا کے خلاف اپیل منظور کرتے ہوئے سزا کو کالعدم قرار دیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی و دیگر ملزمان پر جولائی 2012 میں 500 کلو گرام ایفی ڈرین حاصل کرنے کا مقدمہ دائر کیا گیا تھا، اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) نے حنیف عباسی سمیت دیگر ملزمان پر 9 سی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔ اس مقدمے میں حنیف عباسی کے علاوہ غضنفر، احمد بلال، عبدالباسط، ناصر خان، سراج عباسی، نزاکت اور محسن خورشید نامی افراد بھی شامل تھے۔ لاہور ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے 11اپریل 2019 کو حنیف عباسی کی سزا معطل کرکے رہا کر دیا تھا جبکہ حنیف عباسی نے سزا کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں اپیل دائر کر رکھی تھی۔ حنیف عباسی کے بری ہونےپر محسن شاہنواز رانجھا نے ایکس پر لکھا الحمدللہ، اللہ کا شکر ہے کہ حنیف عباسی صاحب آج عمران خان کے بنائے ہوئے جھوٹے کیس سے بری ہوگئے۔ حنیف عباسی صاحب اور ان کے خاندان نے غیر معمولی بہادری اور استقامت کے ساتھ انتہائی خطرناک الزام کا سامنا کیا۔ آپ کو اس کیس سے باعزت بری ہونے پر مبارکباد۔ حنا پرویز بٹ کا کہنا تھا کہ حنیف عباسی کو ایفی ڈرین کیس میں باعزت بری ہونے پر بہت بہت مبارک ہو۔ عمران خان کے بنائے گئے جھوٹے کیس کی اصلیت کھل کر سامنے آ رہی ہے، اسی لئے آج اسے مکافات عمل کا سامنا ہے حنیف عباسی کو ملنے والے اس ریلیف پر مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے جہاں خوشی کا اظہار کیا، وہیں لیگی رہنما یہ دعویٰ کرتے نظرآتے ہیں کہ یہ کیس عمران خان کا بنایا ہوا ہے جبکہ حنیف عباسی کے خلاف 2012 میں 500 کلو ایفیڈرین کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔اس وقت پیپلزپارٹی کی حکومت تھی اور یوسف رضاگیلانی وزیراعظم تھے۔ یہ کیس کئی سال مسلسل چلتا رہا اور حنیف عباسی کو 21 جولائی 2018 کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ۔ اس دوران عدالت میں شدید ہنگامہ آرائی ہوئی ااور عدالت کا فرنیچر توڑا گیا۔ جب حنیف عباسی کو سزا سنائی گئی اس وقت عمران خان وزیراعظم نہیں تھے، عمران خان 18 اگست کو وزیراعظم بنے تھے جبکہ 2019 میں حنیف عباسی کی سزا معطل کردی گئی تھی ۔
مطیع اللہ جان کے راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی سے متعلق دل دہلادینے والے انکشافات کردیئے, ایکس پر لکھا کل شام ہارٹ اٹیک کاُشکار گاؤں سے آئے رشتہ دار کی عیادت کے لئیے راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی راول روڈ راولپنڈی گیا مریض عبدلحمید عباسی کو دن کے وقت دل کا شدید دورہ پڑنے کے بعد گھوڑا گلی مری سے لایا گیا تھا جسے کچھ گھنٹے آئی سی یو میں رکھنے کے بعد نہ جانے کیوں جنرل وارڈ میں شفٹ کر دیا گیا تھا جہاں بستر پر لیٹے بیس کے قریب مریضوں کے آس پاس کوئی ڈاکٹر یا نرس نظر نہیں آ رہا تھا, مریض کی سانسیں اکھڑ رہی تھی، مطیع اللہ جان نے مزید لکھا اُس کے نوجوان بیٹے کے ہمراہ نرسوں کے سٹیشن پر گیا تو وہاں تین نرسوں کے سامنے مریضوں کی فائلوں کا ڈھیر لگا تھا، ڈاکٹر کا نام و نشان نہ تھا، پوچھتا پوچھتا ڈپٹی میڈیکل سپرینٹنڈنٹ کے دفتر میں گیا تو ساتھ میں سینئیر ڈاکٹروں کے تمام کمروں میں تالے لگے دیکھے مطیع اللہ نے مزید بتایا کہ ایک ڈاکٹر ڈی ایم ایس کے کمرے نکلتا نظر آیا تو اُس سے مریض کی حالت بارے بتایا، ڈکٹر نرسوں کے سٹیشن تک آیا اور مریض کا نام بتا کر فائل مانگی جسے کچھ محنت کے بعد ایک نرس نے تلاش کر کے نکالا، میں نے پوچھا کہ کیا یہ فائل مریض کے بیڈ پر ہر وقت موجود نہیں ہونی چاہئیے تو نرس بولی نہیں مریض نے اس فائل کا کیا کرنا ہے یہاں اِس کو پڑھ کر ہم مریض کو دوائی دینے جاتے ہیں، اور یہ دیکھیں آپکے مریض کو اب صرف رات کی دوائی دینی ہے، انہوں نےلکھا کہ ایک ڈاکٹر نے دوسرے ڈاکٹر کا پوچھا تو نرس بولی وہ چھٹی کر کے چلے گئے ہیں جسکے بعد پہلے والا ڈاکٹر بھی مریض کی فائل پر نظر ڈالے بغیر ہی چلا گیا، تین نرسوں کے سامنے مریض کی فائلوں کا انبار دیکھ کر پریشانی کی حالت میں بیسمنٹ میں ایڈمن بلاک گیا تو واں دیکھا ناموں کی بڑی بڑی تختیاں لگے بڑے ڈاکٹروں کے تمام دفتروں پر تالے لگے ہیں واپس وارڈ میں مریض کے پاس آیا تو مریض غنودگی میں تھا اور اونچے اونچے سانس لے رہا تھا اسکے نوجوان بیٹے نے بتایا کہ آئی سی یو سے ڈاکٹروں نے وارڈ میں شفٹ کر دیا یہ بول کر کہ اب یہ بہتر ہیں، وارڈ میں مریضوں کے ساتھ عیادت کرنے والوں کی بڑی تعداد تھی اور تب بھی ڈاکٹر یا نرس کہی نظر نہیں آ رہے تھے، مریض کے بیٹے کے ہمراہ باہر نکلا تو مرکزی داخلے کے راستے پر ایک نوجوان ڈاکٹر آ گئے جو شاید مجھے پہچانتے تھے جنھوں نے مریض کو دیکھنے کا وعدہ کیا، اور میں اپنے پروگرام کی ریکارڈنگ کے واسطے واپس آفس کی طرف روانہ ہو گیا انہوں نے کہا ایک گھنٹا ہی گذار ہو گا کہ سٹوڈیو میں بیٹھے ہوئے ایک دوست کی فون آئی جس نے بتایا کہ ہمارے اُس عزیز کی ڈیتھ ہو گئی ہے، ذہن میں ایک ہی سوال آیا کہ اُس مریض کو پہلے دل کے دورے کے بعد کم از کم ۴۸ گھنٹے تو آئی سی یو میں رکھا جانا چاہئیے تھا، پھر سوچا وہاں بھی تو یہی نرسیں اور یہی ڈاکٹر ہونگے جو مریض کی فائلیں انبار کی صورت سامنے رکھتے ہیں اور اٹینڈ نٹ کے فریاد پر اسکی فائل ڈھونڈ کر اسکی دوائی دیتےہیں۔ بڑے بوجھل دل کے ساتھ پروگرام ریکارڈ کروایا۔راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ کا بڑا نام تھا مگر اب شاید اِس سے بھی بڑے نام کا کوئی افسر اسکا بڑا بن گیا ہے۔