خان صاحب آپ نے چھوڑی ہی اتنی ہوئی ہیں کہ لوگوں کو اب عادت سی ہو گی ہے

Awan S

Chief Minister (5k+ posts)
خان صاحب کم از کم فری انٹرٹینمنٹ تو مہیا کرتے ہیں - ابھی کل کی بات ہے ان کی اپنی پارٹی والے کہہ رہے تھے ہماری نوشہرہ والی سیٹ پر ہم اسلئے ہارے کہ یہ خٹک برادران کی لڑائی تھی - خان صاحب نے نیا سانپ اپنی پٹاری سے کہا کہ نہیں نون لیگ نے سائنسی دھاندلی کی ہے
 

Awan S

Chief Minister (5k+ posts)
انہیں ججوں کی مہربانی سے میاں صاحب اقامے پر نا اہل ہوئے اور سزا سنانے والا نیب جج کہتا ہے اسے میاں صاحب کے خلاف فیصلہ سنانے پر مجبور کیا گیا - نیب تو ہر دور میں حکومت وقت کی باندی رہی ہے لیکن ججوں کو صرف اسٹیبلشمنٹ اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور کرسکتی ہے کیونکے وہاں جان سے مارنے کی دھمکیاں ملتی ہیں - حکومت وقت کے دباؤ کو اب ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے جج برداشت کر لیتے ہیں - جج بھی کیا کریں اب جان تو سب کو پیاری ہے -ویسے افتخار چودھری تو مشرف کے آگے بھی ڈٹ گیا تھا اور اس کی بہادری اور ایمانداری تسلیم کرنے کی خان صاحب کی ویڈیوز ریکارڈ پر ہیں
 

zaheer2003

Chief Minister (5k+ posts)
تو تم نے کہاں سے دیکھ لیا ہے عمران خان کا ترقی ایکسپوننشل کرؤ - مجھے بھی دکھاؤ نا
‎سال 2020 تقریبا ختم ہو گیا ہے۔ یہ سال کیسا گزرا، ہر شخص کے تجربات مختلف ہوں گے لیکن ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ کرہ ارض پر شاید ہی کوئی انسان ایسا ہو جو سال 2020 میں کویڈ 19 کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی صورتحال سے متاثر نہ ہوا ہو۔ ترقی یافتہ ممالک سے لے کر ترقی پذیر قوموں تک شاید سب متاثر ہوئے ہیں۔

ایک سال میں پاکستانی معیشت کس حد تک اثر انداز ہوئی اور کورونا کے علاوہ دیگر عوامل نے پاکستان کی معاشی حالت پر کیا اثرات چھوڑے ہیں۔ آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
‎اگر یہ کہا جائے کہ پاکستانی معیشت کا دارومدار ڈالر کے اتار اور چڑھاؤ کے ساتھ منسلک ہے تو غلط نہیں ہو گا۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ صرف ڈالر ہی معاشی ترقی و تنزلی کا پیمانہ ہے۔ اس کے علاوہ بھی دیگر عوامل موجود ہیں جو معاشی سمت کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ آج ہم بیشتر پہلووں کا جائزہ لیں گے۔ آئیے سب سے پہلے ڈالر پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
‎ڈالر اور پاکستانی معیشت:
‎یکم جنوری 2020 کو پاکستان میں ڈالر کی قیمت تقریباً 154 روپے تھی اور دسمبر 2020 میں اس کی قیمت تقریباً 160 روپے پچاس پیسے ہے۔ ایک سال کے دوران ڈالر کی قیمت تقریباً 170 بھی رہی ہے۔ تقریباً بارہ روپے کی کمی کامیاب حکومتی پالیسیوں کی بدولت دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔ 2014 میں جب ڈالر کی قیمت تقریباً ایک سو آٹھ روپے ہو گئی تھی اور شیخ رشید نے دعوی کیا تھا کہ حکومت ڈالر کی قیمت سو روپے پر نہیں لا سکتی تو اسحاق ڈار صاحب سعودی عرب کی جانب سے ڈیڑھ ارب ڈالر کی مبینہ امداد کو استعمال کرتے ہوئے ڈالر کی قیمت 97 روپے تک لے آئے تھے۔
لیکن وہ ایک مصنوعی طریقہ تھا جس کا نقصان پاکستان کو ہوا۔جبکہ موجودہ کمی مارکیٹ کے اصولوں کے تحت ہوئی ہے۔ حکومت نے ڈالرز کے ذخائر بڑھانے کے لیے جو قانون سازی کی ہے اس نے ملک میں روپے کی قدر کو مضبوط کیا ہے۔
‎میں یہاں روشن ڈیجیٹل اکاونٹس کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ حکومت نے بیرون ملک پاکستانیوں کو ڈالر اکاونٹس پر سات فیصد تک منافع کی پرکشش آفر کی جبکہ دنیا میں یہ شرح 0.5 فیصد سے ایک فیصد تک ہے۔ اس کے علاوہ بیرون ملک بیٹھے آسان شرائط پر آن لائن اکاونٹ کھلوانے کی سہولت بھی مہیا کر دی۔
ادئیگیاں بھی آن لائن ہوں گی اور وصولیاں بھی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ چند ماہ میں ہزاروں روشن ڈیجیٹل اکاونٹس کھل گئے ہیں۔ جن میں کروڑوں ڈالرز جمع بھی ہو گئے ہیں۔ گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر کے مطابق پاکستان روزانہ تقریباً دو ملین ڈالرز روشن ڈیجیٹل اکاونٹ میں وصول کر رہا ہے۔ 23 نومبر 2020 تک پاکستان تقریباً سولہ ارب روپے حاصل کر چکا ہے۔
‎اس کے علاوہ ایف اے ٹی ایف کے سخت قوانین نے ڈالر کو 170 روپے کی سطح سے نیچے لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سخت سزاؤں کی بدولت جعلی منی چینجرز نے کاروبار بند کر دیے ہیں اور بیرون ملک پاکستانی آفیشیل چینل کے ذریعے رقم پاکستان بھجوانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
ایک اہم وجہ کویڈ 19 ہے۔ جس کی وجہ سے قرضوں کی ادائیگی میں ریلیف ملا ہے۔ ریلیف حاصل کرنا بھی تحریک انصاف حکومت کی کامیاب سفارتکاری کا ثبوت ہے۔پاکستان جی 20 ممالک سے بھی تقریباً 800 ملین ڈالر قرضوں کی ادائیگیوں میں وقت لینے میں کامیاب ہو گیا ہے۔گو کہ آج بھی ڈالر کی قیمت جنوری 2020 سے ذیادہ ہے لیکن ڈالر کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے حکومتی کاوشیں بہتر دکھائی دیتی ہیں۔
‎برآمدات:
‎برآمدات کسی بھی ملک کی ترقی میں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ کاروبار کا دور ہے اور کارپوریٹ سیکٹر ہی اصل حکمران ہے۔ آج کے ترقی یافتہ ممالک وہ ہیں جن کے تاجر خوشحال ہیں۔ اگر آپ دنیا کو اپنی چیزیں بیچ نہیں سکتے تو آپ چاہے بے پناہ ذخائر کے مالک ہی کیوں نہ ہوں آپ معاشی طور پر مضبوط نہیں ہو سکتے۔
تحریک انصاف کی حکومت نے بھی برآمدات بڑھانے کے لیے بہترقدامات کیے ہیں۔ اگر پچھلے بارہ ماہ کی بات کی جائے تو نومبر 2019 میں پاکستان کی برآمدات تقریباً دو ارب ڈالر تھیں اور نومبر 2020 کے اعدادوشمار دیکھے جائیں تو ان کے مطابق برآمدات میں 7.2 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
کرونا کے باوجود ایک سال میں یہ کارکردگی زیادہ حوصلہ افزا دکھائی دیتی ہے۔ اگر ان بارہ مہینوں کے درمیان کارکردگی دیکھی جائے ایشیا کے دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں معاشی سرگرمیاں کم عرصے تک بند رہی ہیں۔
ہندوستان اور چائنا میں ہونے والے نقصان کا فائدہ پاکستان نے اٹھایا ہے۔ ٹیکسٹائل سیکٹر کے بیشتر آرڈر چین اور ہندوستان سے کٹ کر پاکستان کو ملے ہیں۔جو کہ کامیاب حکومتی برآمدات پالیسی کام منہ بولتا ثبوت ہے۔
‎ٹیکسٹائل اور کپاس کی برآمدات
‎اگر ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کی بات کی جائے تو پچھلے چند ماہ میں بہتری دیکھنے میں آرہی ہے۔ ٹیکسٹائل سیکٹر اپنی مکمل کپیسٹی پر کام کر رہا ہے۔ پچھلے چند ماہ میں حکومت نے ٹیکس ریفنڈ اور بجلی کے نرخوں میں ٹیکسٹائل سیکٹر کو جو مراعات دی ہیں ان کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔
‎میں یہاں کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ پچھلی حکومتوں نے کپاس کی پیداوار بڑھانے پر توجہ نہیں دی ہے۔ جس کے اثرات اس سال دیکھنے میں آئے ہیں۔ کاٹن کی پیداوار کم ہوئی ہے۔ اس کی وجہ کسانوں کی کپاس کی پیداوار میں عدم دلچسپی ہے۔ فی ایکٹر پیداوار اتنی کم ہوتی ہے کہ کسان کو جیب سے پیسہ لگانا پڑ جاتا ہے۔
موجودہ حکومت کی مثبت پالیسیوں کی بدولت بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستان کو کپاس کا وہی ریٹ مل رہا ہے جو چائنا، بھارت، بنگلہ دیش کو ملتا ہے لیکن فی ایکڑ پیداوار کم ہونے کی وجہ سے اخراجات بھی پورے نہیں ہو پاتے اس لیے کپاس کی پیداوار کم ہو رہی ہے۔ ٹیسکٹائل سیکٹر اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے کپاس درآمد کرنے پر مجبور ہوا ہے۔
وزیراعظم صاحب نے اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے نجی شعبے کوریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کرنے کی دعوت دی ہے۔ انھوں نے بین القوامی ماہرین سے رابطہ کر لیا ہے ،جس کے مثبت اثرات آنے والے دنوں میں دیکھے جا سکیں گی۔
‎پاک افغان تجارت
‎سال 2020 اس اعتبار سی بھی بہتر ہے کہ برآمدات کو بڑھانے کے لیے پاک افغان تنازعات کو کم کرنے کی عملی کوشش کی گئی ہے۔ وفود آ جا رہے ہیں۔ سفارتی سطح پر ملاقاتیں جاری ہیں۔ اکتوبر 2020 میں افغانی وفد پاکستان آیا۔ تجارت بڑھانے کی بات ہوئی۔ نومبر 2020 میں رزاق داؤد صاحب افغانستان پہنچے اور ان کے پیچھے وزیراعظم عمران خان بھی افغان صدر سے ملاقات کرنے پہنچ گئے۔ تجارت کے راستے میں بہت سی رکاوٹیں ختم ہوئیں۔
سب سے اہم موضوع پاکستان کے ٹرکوں کو ازبکستان، تاجکستان اور آزربائیجان تک براہ راست رسائی دینے سے متعلق تھا۔ خبر ہے کہ اس معاملے پر کافی کام ہو چکا ہے اور امید کی جارہی ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ راستے پاکستان کے لیے کھل جائیں گے جس سے برآمدات بڑھانے میں مدد ملے گی۔
‎اس کے علاوہ پاک افغان بارڈر پر سامان کا بک جانا اور فائلوں کاپیٹ کاغذوں سے بھرنے جیسے معاملات بھی زیر غور آئے ہیں۔ بارڈر پر جدید سکیننگ کا نظام نافذ کرنے، بارڈر فینسنگ کروانے اور نظام کو کمپیوٹرائزڈ کرانے کے آپشنز پر سختی سے عمل کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔
اس کے علاوہ دونوں اطراف کے چیمبر ز آف کامرس کے مشترکہ دفاتر طورخم اور کابل میں بنانے پر اتفاق ہونے کی خبریں ہیں۔ جس سے امید کی جارہی ہے کہ تاجروں کے مسائل سالوں لٹکنے کی بجائے گھنٹوں میں حل ہو جائیں گے۔
افغان سپئئر پارٹس اور سگریٹ پاکستان کی منفی لسٹ میں شامل ہیں جس سے پاکستان میں استعمال شدہ گاڑیوں کے سپیئر پارٹس مہنگے ہو گئے ہیں۔ ان میٹنگز میں انھیں منفی لسٹ میں سے نکالنے پر بھی کافی پیش رفت ہوئی ہے۔ان اقدامات نے تاجروں کے لیے نئی امیدیں پیدا کی ہیں اور دونوں اطرف کی بزنس کمیونٹی اپنی حکومتوں سے خوش دکھائی دے رہی ہے۔
‎ٹیکس آمدن:
‎کسی بھی ملک کی معیشت میں ٹیکس آمدن جسم میں خون جیسی حیثیت رکھتی ہے۔ ٹیکس آئے گا تو ملک چلے گا۔
‎اگر ملکی سالانہ ٹیکس آمدن کی بات کی جائے تو آئی ایم ایف سے مذاکرات کے بعد پچھلے سال ٹیکس حدف 5.503 ٹریلین روپے تھا جبکہ صرف 3.908 ٹریلین روپے ٹیکس اکٹھا ہو سکا تھا۔ اس کی وجوہات کئی ہیں لیکن حکومت کی جانب سے کویڈ 19 کو سب سے بڑی وجہ قرار دیا گیا۔ اس مالی سال کا ٹیکس ٹارگٹ 4.963 ٹریلین روپے طے کیا گیا ہے۔
‎حکومت یہ ٹیکس ٹارگٹ حاصل کر پاتی ہے یا نہیں اس کا صحیح حساب جون2021 میں ہو سکے گا لیکن ابھی تک کے اعدادوشمار کے مطابق نئے مالی سال کے پہلے کوارٹر کا جو ٹیکس حدف مقرر کیا گیا تھا حکومت نے اس سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کیا ہے۔ درآمدات میں کمی کے باوجود ٹیکس حدف کا حصول یہ ظاہر کرتا ہے کہ ملک کے اندر مقامی سطح پر اشیا کی تیاری کا رجحان بڑھ رہا ہے اور وہ مارکیٹ میں بک بھی رہی ہیں یعنی کہ کسٹمر لوکل بنی چیزوں کو خرید رہے ہیں۔
‎ابھی تک دسمبر 2020 کے اعدادوشمار جاری نہیں کیے گئے جس کے باعث موجودہ کوارٹر کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا لیکن حکومتی حلقوں میں امید کی جارہی ہے کہ دوسرا کواٹر جو 31 دسمبر کو ختم ہو گا اس کا ٹیکس حدف بھی حاصل کر لیا جائے گا۔
‎بے روزگاری اور پاکستانی معیشت
‎اگر بے روزگاری کی بات کی جائے تو سال 2020 زیادہ غیر متوقع نہیں رہا ہے۔ یہاں یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ بے روزگاری کے حساب سے 2020 میں شاید پوری دنیا برے وقت سے گزر رہی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ کویڈ 19 ہے۔ سب سے زیادہ بے روزگاری امریکہ میں دیکھنے میں آئی ہے۔ لیکن پاکستان کی بات کی جائے تو دنیا کے مقابلے میں بے روزگاری کی شرح اتنی ذیادہ نہیں بڑھی ہے۔ سال 2019 میں پاکستان میں بے روزگاری کی شرح تقریباً 4.5 فیصد ہے جبکہ سن 2020 میں بھی یہ شرح 4.5 فیصد ہی رہی ہے۔
‎جو کہ حکومت کی کامیاب حکمت عملی قرار دی جا رہی ہے۔ ایک ماہ کے مکمل لاک ڈاؤن نے ملک میں بے روزگاری بڑھائی لیکن بعدازاں وزیراعظم عمران خان نے اسے بڑی غلطی قرار دیا اور جس وقت کورونا اپنے عروج پر تھا حکومت نے لاک ڈاؤن ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ جس سے کاروبار کھلے اور بے روزگاری میں زیادہ اضافہ نہیں ہو سکا۔
یہ بات بھی قابل تحسین ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی اس پالیسی کی دنیا معترف ہوئی۔ جس طرح کورونا اور معیشت دونوں ساتھ چلے ہیں دنیا میں اس کے مثال نہیں ملتی۔ بلکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن نے دنیا کو پاکستان سے سیکھنے کا مشورہ بھی دیا۔
‎کرنٹ اکاونٹ سرپلس اور ڈالر ذخائر
‎حکومت کے مطابق سال 2020 اس حوالے سے بھی بہتر رہا کہ کرنٹ اکاونٹ خسارہ ختم ہو کر سرپلس میں تبدیل ہو گیا ہے۔پچھلے چار ماہ سے مسلسل کرنٹ اکاونٹ سرپلس رپورٹ ہو رہا ہے جو کہ خوش آئند ہے۔
‎حکومتی ڈالر کے ذخائر میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ پچھلے ماہ کی رپورٹ کے مطابق ڈالر ذخائر ساڑھے تین سال کی بلند ترین سطح پر آگئے ہیں۔ 17-2016 کے مطابق ڈالر کے ذخائر 21.4 ارب ڈالر تھے۔ 2020 میں ڈالر کے ذخائر 20.4 ارب ڈالر ہو گئے ہیں۔
‎اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سب سے اہم وجہ دوست ممالک کی جانب سے قرضوں کی ادائیگیوں میں ملنے والا ریلیف ہے۔ اس کے علاوہ روشن ڈیجیٹل اکاونٹ اور ایف اے ٹی ایف بل کی منظوری ایسے اقدامات ہیں جن کے بغیر یہ لیول برقرار رکھنا مشکل تھا۔
میں یہاں ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ستمبر 2020 میں ریکوڈک کیس میں پاکستان کو بین الاقومی عدالت کی جانب سے ملنے والا ریلیف کافی حوصلہ افزا خبر تھی۔ جس نے وقتی طور پر چھ ارب ڈالر کی ادائیگی کی لٹکتی ہوئی تلوار ہٹا دی۔ اگر پاکستان کو یہ ڈالر ادا کرنے پڑ جاتے تو ذخائر کا یہ لیول شاید برقرا نہیں رکھا جا سکتا تھا۔
‎قرضوں کی صورتحال
‎سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق جون 2018 سے جون 2020 میں ختم ہونے والے تحریک انصاف کی حکومت کے دو مالی سالوں میں قرضوں میں 18.5 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ قرضوں کی مالیت 112 ارب ڈالر ہے اور قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے مزید قرض لینے کے منصوبے زیر غور ہیں۔
اسی مالی سال کے اختتام تک پاکستان نے تقریباً 11.89 ارب ڈالر کے قرض واپس کیے ہیں۔جو کہ 19-2018 کی نسبت 23 فیصد زیادہ ہیں۔ لیکن کویڈ 19 کی وجہ سے کچھ قرضوں کی ادائیگیوں میں ریلیف بھی ملا ہے۔ اس میں سب سے بڑا ریلیف جی 20 ممالک کی جانب سے ہے۔حالیہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان نے تقریباً آٹھ سو ملین ڈالرز کے قرض معاف کروا لیے ہیں اور باقی ایک ارب ڈالرز کے لیے کوششیش جاری ہیں۔یہ خبر پاکستان کے لیے اچھی ہے۔
‎اگر فورا واجب الادا قرضوں کی ادائیگی کی بات کی جائے تو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت نے چار ارب ڈالر کے قرض واپس مانگ لیے ہیں۔ جو کہ دسمبر سے فروری تک واجب الادا ہیں۔ جولائی 2020 میں ہی سعودی عرب نے ایک ارب ڈالر واپس مانگا تھا جو پاکستان نے چین سے لے کر سعودی کو دے دیا تھا۔ لیکن اب صورتحال تھوڑی مشکل دکھائی دیتی ہے۔
دسمبر 2020 میں بھی سعودی عرب نے ایک ارب ڈالر مانگ لیا ہے جو ایک مرتبہ پھر چین سے لے کر واپس کر دیا گیا ہے۔ چین نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ دوستی کا حق ادا کیا ہے۔ تحریک انصاف نے چائنا سے بہتر تعلق کو ایک مرتبہ پھر نئی بلندیوں تک پہنچایا ہے۔
‎کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان
‎حکومت پاکستان نے کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان کے نام سے ایک ادارہ بنا رکھا ہے جس کا کام اشیا کی قیمتوں کو بلاوجہ بڑھنے سے روکنا ہے۔ بدقسمتی سے 2009 میں سیمنٹ اندسٹری نے لاہور ہائیکورٹ میں ایک پٹیشن دائر کر کے سی سی اے کے خلاف سٹے لے لیا۔
سیمنٹ کے بعد باقی صنعتوں جن میں شوگر، آئل اینڈ گیس، فرٹیلائزر، ایجوکیشن، ٹیلی کام، رئیل سٹیٹ دودھ اور جوس بنانے والے کئی اداروں نے عدالت سے سٹے لے لیا۔ جو کہ گیارہ سال بعد سال 2020 میں ختم ہوا ہے۔ جس سے یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ اشیا کی قیمت اس وقت تک نہیں بڑھائی جا سکے گی جب تک اس کا مکمل حساب کتاب حکومت کے ساتھ شئیر نہیں کر لیا جاتا۔
آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ ڈالر کی قیمت اگر دس فیصد بڑھتی ہے تو گاڑیوں کی قیمت پچیس فیصد بڑھ جاتی ہے اور جب ڈالر کی قیمت کم ہوتی ہے گاڑیوں کی قیمت کم نہیں کی جاتی۔ یہ مسئلہ دراصل عدالت میں موجود سٹے کی وجہ سے تھا جو کہ ختم ہو گیا ہے جس کے ساتھ ہی کمیشن نے کام بھی تیز کر دیا ہے۔
نومبر میں سی سی پی نے سیمنٹ سیکٹر پر چھاپے مار کر ریکارڈ قبضے میں لیا ہے۔ یہ اطلاع تھی کہ سیمنٹ کی قیمتوں میں غیر حقیقی اضافہ کیا گیا ہے۔ماہرین کے مطابق اگر یہ ادارہ اپنی اصل روح کے ساتھ کام شروع کردے تو پاکستان میں اشیا کی ویلیو فار منی کو یقینی بنایا جا سکے گا اور مہنگائی میں بھی خاطر خواہ کمی ہو سکے گی۔
‎ایف اے ٹی ایف بل کی منظوری
‎سال 2020 اس لحاظ سے بہتر رہا ہے کہ اس میں ایف اے ٹی ایف کا بل منظور ہو گیا ہے۔ اینٹی منی لانڈرنگ قوانین پاکستانی معیشیت میں بہتری کے لیے ناگزیر ہو گئے تھے۔ اسے اسمبلی سے منظور کروانے کے لیے حکومت کے پاس مطلوبہ تعداد موجود نہیں تھی اور اپوزیشن اس بل کی منظوری کے حق میں بھی نہیں تھی لیکن حکومت نے بہترین حکمت عملی کے تحت اسے اسمبلی سے منظور کروا لیا۔
جس کے بعد پاکستان سے ڈالرز کی منی لانڈرگ میں کمی ہونے کی امید ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں ڈالر کی قدر میں کمی اور ڈالر ذخائر میں مسلسل اضافہ کی ایک وجہ بھی یہی ہے۔ جیسے ہی یہ بل تیار ہونے اور منظور ہونے کا عمل شروع ہوا تو جعلی منی چینجرز نے دکانیں بند کرنا شروع کر دیں اور ڈالر بینکوں اور منی چینجرز کو بیچ دیے۔
اس سے پاکستان میں بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافہ ہوا بلکہ اگست کے مہینے میں پاکستانی تاریخ کی سب سے زیادہ ترسیلات موصول ہوئی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق غیر قانونی راستے محدود ہونے کی وجہ سے بیرون ملک پاکستانی رقوم کی منتقلی کے لیے قانونی راستے استعمال کر رہے ہیں۔
‎فری لانسنگ اور پاکستانی معیشت:
‎کویڈ 19 نے جہاں دنیا کی معیشت کو بدلا ہے وہیں پاکستانی معیشت پر بھی گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ گھروں پر فارغ بیٹھنے سے جس شعبے کی طرف سب سے ذیادہ رجحان بڑھا ہے وہ فری لانسنگ ہے۔ یعنی کہ آپ کو اگر کوئی بھی کام آ آتا ہے تو لیپ ٹاپ کھولیں ، کسی بھی فری لانسنگ سائیٹ پر جائیں، اپنا اکاونٹ بنائیں جس میں لوگوں کو بتائیں کہ آپ کیا سروس دی سکتے ہیں۔
جنھیں آپ کی سروس کی ضرورت ہو گی وہ آپ سے رابطہ کریں گے اور آپ گھر بیٹھے ڈالرز میں کمائی شروع کر سکیں گے۔ سال 2020 میں اچھی خبر یہ بھی آئی کہ پاکستان میں فری لانسنگ کی گروتھ دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ پہلے نمبر پر امریکہ، دوسرے پر برطانیہ، تیسرے ہر برازیل اور چوتھے پر پاکستان ہے۔ یعنی کہ پاکستان ایشیائی ممالک میں پہلے نمبر ہے۔
‎اس خبر کا پاکستانی معیشت کو بہت فائدہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق فری لانسنگ سے پاکستان سالانہ ایک ارب ڈالر سے زیادہ زرمبادلہ کما رہا ہے۔ یہ آمدن کمانے والے اکثریت لوگوں کی عمریں پچیس سے پینتیس سال ہیں۔
وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری صاحب نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان بہت جلد 93 بلین ڈالرز کی گیمنگ اور اینی میشن مارکیٹ میں داخل ہونے جا رہا ہے۔پاکستان سرکاری سطح پر گیمنگ سرٹیفیکیٹس جاری کرے گا جس سے پاکستانی نوجوان بین الاقومی مارکیٹ میں کام کرنے کے قابل ہو سکے گا۔
یہ خبر بہترین ہے -اس سے جہاں بچوں کا ٹیکنالوجی کے استعمال کی طرف رجحان بڑھے گا وہاں فری لانسنگ سے حاصل آمدن میں بھی اضافہ ہو سکے گا۔ حکومت کا جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ چلنے کا عزم نجی شعبے کو بھی پروان چڑھانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ بہت سے گیمنگ سافٹ وئیر ہاوسز پاکستان آ کر کام کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن حکومتی عدم دلچسپی کے باعث ہمت نہیں کر پاتے تھے۔
فواد چوہدری صاحب کے اس اقدام سے پاکستان میں روزگار بڑھے گا اور سوفٹ وئیر کی برآمدات میں اضافہ ہو گا۔ماہرین کے مطابق فری لانسنگ پاکستان جیسے معاشرے کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ آپ جیسے ہی لیپ ٹاپ کھولتے ہیں دنیا بھر کی نوکریاں اور کام کروانے والے آپ کے سامنے حاضر ہو جاتے ہیں اور آپ اپنی مرضی سے اور وقت کے مطابق کام کرتے ہیں۔ جب دل چاہا لیپ ٹاپ بند کیا اور دیگر مصروفیات میں وقت صرف کر لیا۔اس کا فائدہ دو طرفہ ہے۔
عمومی طور پر یورپ اور امریکہ میں کس کام کے بیس ہزار ڈالر لیے جاتے ہیں پاکستان میں فری لانسنگ سائیٹ پر بیٹھا نوجوان وہ کام صرف ایک ہزار ڈالر میں کر دیتا ہے۔ جو کہ پاکستانی کرنسی میں تقریب ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے بنتے ہیں۔ پاکستان میں پڑھا لکھا نوجوان اوسطا بیس سے تیس ہزار روپے کماتا ہے۔ وہ یہ رقم ایک مہینے کی محنت کے بعد حاصل کرتا ہے۔ جبکہ فری لانسر دو سے تین دن میں ایک اللہ ساٹھ ہزار روپے کما لیتا ہے۔ اس سے جہاں پاکستان میں بیٹھے بے روزگار شخص کو روزگار مل رہا ہے وہیں امریکہ یورپ میں بیٹھے فرد یا کمپنی کو اے پلس کوالٹی کا کام انتہائی کم قیمت میں مل رہا ہے۔
یہ کامیابی اس وقت میں حاصل کی ہے جب پاکستان میں بین الاقوامی ادائیگیوں کا نظام پے پال موجود نہیں ہے اور دنیا کے سب سے بڑے آن لائن سٹور ایمازون پر پاکستان میں بیٹھ کر قانونی طریقے سے آن لائن تجارت نہیں کی جا سکتی۔
اگر حکومت بینکنگ نظام پر تھوڑی سی توجہ دے تو ان اداروں کو پاکستان لایا جا سکتا ہے اور پاکستان فری لانسنگ کی دنیا میں پہلے نمبر پر آ سکتا ہے۔ اسی سال رزاق داؤد صاحب نے بھی پے پال کو پاکستان لانے کی حامی بھری ہے اور کوششیں بھی جاری ہیں۔امید ہے کہ پاکستانی معیشیت آنے والے دنوں میں صحیح معنوں میں فائدہ اٹھا سکے گی۔
 

zaheer2003

Chief Minister (5k+ posts)
انہیں ججوں کی مہربانی سے میاں صاحب اقامے پر نا اہل ہوئے اور سزا سنانے والا نیب جج کہتا ہے اسے میاں صاحب کے خلاف فیصلہ سنانے پر مجبور کیا گیا - نیب تو ہر دور میں حکومت وقت کی باندی رہی ہے لیکن ججوں کو صرف اسٹیبلشمنٹ اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور کرسکتی ہے کیونکے وہاں جان سے مارنے کی دھمکیاں ملتی ہیں - حکومت وقت کے دباؤ کو اب ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے جج برداشت کر لیتے ہیں - جج بھی کیا کریں اب جان تو سب کو پیاری ہے -ویسے افتخار چودھری تو مشرف کے آگے بھی ڈٹ گیا تھا اور اس کی بہادری اور ایمانداری تسلیم کرنے کی خان صاحب کی ویڈیوز ریکارڈ پر ہیں
What Judge actually said


497397_3468925_Affidavit-1_updates.jpg

497397_5464909_Affidavit-2_updates.jpg

497397_9400466_Affidavit-3_updates.jpg

497397_5943491_Affidavit-4_updates.jpg
 

Awan S

Chief Minister (5k+ posts)
What Judge actually said


497397_3468925_Affidavit-1_updates.jpg

497397_5464909_Affidavit-2_updates.jpg

497397_9400466_Affidavit-3_updates.jpg

497397_5943491_Affidavit-4_updates.jpg
آپ کو شاید وہ وقت یاد نہیں ہے - فیصلہ لیٹ ہوا اور کافی لیٹ تھا تو باہر کھڑے ایک صحافی نے کہا کہ جج ارشد سمیت پوری قوم فیصلے کا انتظار کر رہی ہے - پھر صحافیوں نے دیکھا کچھ فائلیں اندر گئیں فوٹو کاپی مشینیں چلیں اور فیصلہ باہر آ گیا - جج ارشد نے اپنی ویڈیو میں سب چیزوں کا اعتراف کیا - ویسے جج ارشد کے کیبن کی چھان بین کی جائے تو اصل فیصلہ کہیں ردی میں پڑا ہو گا
 

Awan S

Chief Minister (5k+ posts)
What Judge actually said


497397_3468925_Affidavit-1_updates.jpg

497397_5464909_Affidavit-2_updates.jpg

497397_9400466_Affidavit-3_updates.jpg

497397_5943491_Affidavit-4_updates.jpg
ویسے یہ نیب کورٹ کا فیصلہ ہے آج تک کوئی بھی نیب کورٹ کا فیصلہ اصل عدالت میں برقرار نہیں رہ سکا کیونکے یہ فیصلے بدنیتی کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور ہائی کورٹ تک جاتے جاتے حالات بدل جاتے ہیں - اب بھی حالات بدل چکے ہیں اب ججوں پر اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کوئی دباؤ نہیں ہے جو درست ہو وہ کریں
 

Wake up Pak

Prime Minister (20k+ posts)
انہیں ججوں کی مہربانی سے میاں صاحب اقامے پر نا اہل ہوئے اور سزا سنانے والا نیب جج کہتا ہے اسے میاں صاحب کے خلاف فیصلہ سنانے پر مجبور کیا گیا - نیب تو ہر دور میں حکومت وقت کی باندی رہی ہے لیکن ججوں کو صرف اسٹیبلشمنٹ اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور کرسکتی ہے کیونکے وہاں جان سے مارنے کی دھمکیاں ملتی ہیں - حکومت وقت کے دباؤ کو اب ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے جج برداشت کر لیتے ہیں - جج بھی کیا کریں اب جان تو سب کو پیاری ہے -ویسے افتخار چودھری تو مشرف کے آگے بھی ڈٹ گیا تھا اور اس کی بہادری اور ایمانداری تسلیم کرنے کی خان صاحب کی ویڈیوز ریکارڈ پر ہیں
Wrong assessment as usual. You are a good spin master.
Sharifs are known for bribing judges.
IK supporting Iftikhar choudhary has nothing to do with what noon has done with judges and everything is on record.
May it be storming the supreme court or calling justice Qayyum to get the desired judgment.
 

zaheer2003

Chief Minister (5k+ posts)
آپ کو شاید وہ وقت یاد نہیں ہے - فیصلہ لیٹ ہوا اور کافی لیٹ تھا تو باہر کھڑے ایک صحافی نے کہا کہ جج ارشد سمیت پوری قوم فیصلے کا انتظار کر رہی ہے - پھر صحافیوں نے دیکھا کچھ فائلیں اندر گئیں فوٹو کاپی مشینیں چلیں اور فیصلہ باہر آ گیا - جج ارشد نے اپنی ویڈیو میں سب چیزوں کا اعتراف کیا - ویسے جج ارشد کے کیبن کی چھان بین کی جائے تو اصل فیصلہ کہیں ردی میں پڑا ہو گا
PMLN knows only stories stories & stories

wo bhi jhooti
 

RajaRawal111

Prime Minister (20k+ posts)
‎سال 2020 تقریبا ختم ہو گیا ہے۔ یہ سال کیسا گزرا، ہر شخص کے تجربات مختلف ہوں گے لیکن ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ کرہ ارض پر شاید ہی کوئی انسان ایسا ہو جو سال 2020 میں کویڈ 19 کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی صورتحال سے متاثر نہ ہوا ہو۔ ترقی یافتہ ممالک سے لے کر ترقی پذیر قوموں تک شاید سب متاثر ہوئے ہیں۔

ایک سال میں پاکستانی معیشت کس حد تک اثر انداز ہوئی اور کورونا کے علاوہ دیگر عوامل نے پاکستان کی معاشی حالت پر کیا اثرات چھوڑے ہیں۔ آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
‎اگر یہ کہا جائے کہ پاکستانی معیشت کا دارومدار ڈالر کے اتار اور چڑھاؤ کے ساتھ منسلک ہے تو غلط نہیں ہو گا۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ صرف ڈالر ہی معاشی ترقی و تنزلی کا پیمانہ ہے۔ اس کے علاوہ بھی دیگر عوامل موجود ہیں جو معاشی سمت کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ آج ہم بیشتر پہلووں کا جائزہ لیں گے۔ آئیے سب سے پہلے ڈالر پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
‎ڈالر اور پاکستانی معیشت:
‎یکم جنوری 2020 کو پاکستان میں ڈالر کی قیمت تقریباً 154 روپے تھی اور دسمبر 2020 میں اس کی قیمت تقریباً 160 روپے پچاس پیسے ہے۔ ایک سال کے دوران ڈالر کی قیمت تقریباً 170 بھی رہی ہے۔ تقریباً بارہ روپے کی کمی کامیاب حکومتی پالیسیوں کی بدولت دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔ 2014 میں جب ڈالر کی قیمت تقریباً ایک سو آٹھ روپے ہو گئی تھی اور شیخ رشید نے دعوی کیا تھا کہ حکومت ڈالر کی قیمت سو روپے پر نہیں لا سکتی تو اسحاق ڈار صاحب سعودی عرب کی جانب سے ڈیڑھ ارب ڈالر کی مبینہ امداد کو استعمال کرتے ہوئے ڈالر کی قیمت 97 روپے تک لے آئے تھے۔
لیکن وہ ایک مصنوعی طریقہ تھا جس کا نقصان پاکستان کو ہوا۔جبکہ موجودہ کمی مارکیٹ کے اصولوں کے تحت ہوئی ہے۔ حکومت نے ڈالرز کے ذخائر بڑھانے کے لیے جو قانون سازی کی ہے اس نے ملک میں روپے کی قدر کو مضبوط کیا ہے۔
‎میں یہاں روشن ڈیجیٹل اکاونٹس کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ حکومت نے بیرون ملک پاکستانیوں کو ڈالر اکاونٹس پر سات فیصد تک منافع کی پرکشش آفر کی جبکہ دنیا میں یہ شرح 0.5 فیصد سے ایک فیصد تک ہے۔ اس کے علاوہ بیرون ملک بیٹھے آسان شرائط پر آن لائن اکاونٹ کھلوانے کی سہولت بھی مہیا کر دی۔
ادئیگیاں بھی آن لائن ہوں گی اور وصولیاں بھی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ چند ماہ میں ہزاروں روشن ڈیجیٹل اکاونٹس کھل گئے ہیں۔ جن میں کروڑوں ڈالرز جمع بھی ہو گئے ہیں۔ گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر کے مطابق پاکستان روزانہ تقریباً دو ملین ڈالرز روشن ڈیجیٹل اکاونٹ میں وصول کر رہا ہے۔ 23 نومبر 2020 تک پاکستان تقریباً سولہ ارب روپے حاصل کر چکا ہے۔
‎اس کے علاوہ ایف اے ٹی ایف کے سخت قوانین نے ڈالر کو 170 روپے کی سطح سے نیچے لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سخت سزاؤں کی بدولت جعلی منی چینجرز نے کاروبار بند کر دیے ہیں اور بیرون ملک پاکستانی آفیشیل چینل کے ذریعے رقم پاکستان بھجوانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
ایک اہم وجہ کویڈ 19 ہے۔ جس کی وجہ سے قرضوں کی ادائیگی میں ریلیف ملا ہے۔ ریلیف حاصل کرنا بھی تحریک انصاف حکومت کی کامیاب سفارتکاری کا ثبوت ہے۔پاکستان جی 20 ممالک سے بھی تقریباً 800 ملین ڈالر قرضوں کی ادائیگیوں میں وقت لینے میں کامیاب ہو گیا ہے۔گو کہ آج بھی ڈالر کی قیمت جنوری 2020 سے ذیادہ ہے لیکن ڈالر کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے حکومتی کاوشیں بہتر دکھائی دیتی ہیں۔
‎برآمدات:
‎برآمدات کسی بھی ملک کی ترقی میں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ کاروبار کا دور ہے اور کارپوریٹ سیکٹر ہی اصل حکمران ہے۔ آج کے ترقی یافتہ ممالک وہ ہیں جن کے تاجر خوشحال ہیں۔ اگر آپ دنیا کو اپنی چیزیں بیچ نہیں سکتے تو آپ چاہے بے پناہ ذخائر کے مالک ہی کیوں نہ ہوں آپ معاشی طور پر مضبوط نہیں ہو سکتے۔
تحریک انصاف کی حکومت نے بھی برآمدات بڑھانے کے لیے بہترقدامات کیے ہیں۔ اگر پچھلے بارہ ماہ کی بات کی جائے تو نومبر 2019 میں پاکستان کی برآمدات تقریباً دو ارب ڈالر تھیں اور نومبر 2020 کے اعدادوشمار دیکھے جائیں تو ان کے مطابق برآمدات میں 7.2 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
کرونا کے باوجود ایک سال میں یہ کارکردگی زیادہ حوصلہ افزا دکھائی دیتی ہے۔ اگر ان بارہ مہینوں کے درمیان کارکردگی دیکھی جائے ایشیا کے دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں معاشی سرگرمیاں کم عرصے تک بند رہی ہیں۔
ہندوستان اور چائنا میں ہونے والے نقصان کا فائدہ پاکستان نے اٹھایا ہے۔ ٹیکسٹائل سیکٹر کے بیشتر آرڈر چین اور ہندوستان سے کٹ کر پاکستان کو ملے ہیں۔جو کہ کامیاب حکومتی برآمدات پالیسی کام منہ بولتا ثبوت ہے۔
‎ٹیکسٹائل اور کپاس کی برآمدات
‎اگر ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کی بات کی جائے تو پچھلے چند ماہ میں بہتری دیکھنے میں آرہی ہے۔ ٹیکسٹائل سیکٹر اپنی مکمل کپیسٹی پر کام کر رہا ہے۔ پچھلے چند ماہ میں حکومت نے ٹیکس ریفنڈ اور بجلی کے نرخوں میں ٹیکسٹائل سیکٹر کو جو مراعات دی ہیں ان کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔
‎میں یہاں کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ پچھلی حکومتوں نے کپاس کی پیداوار بڑھانے پر توجہ نہیں دی ہے۔ جس کے اثرات اس سال دیکھنے میں آئے ہیں۔ کاٹن کی پیداوار کم ہوئی ہے۔ اس کی وجہ کسانوں کی کپاس کی پیداوار میں عدم دلچسپی ہے۔ فی ایکٹر پیداوار اتنی کم ہوتی ہے کہ کسان کو جیب سے پیسہ لگانا پڑ جاتا ہے۔
موجودہ حکومت کی مثبت پالیسیوں کی بدولت بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستان کو کپاس کا وہی ریٹ مل رہا ہے جو چائنا، بھارت، بنگلہ دیش کو ملتا ہے لیکن فی ایکڑ پیداوار کم ہونے کی وجہ سے اخراجات بھی پورے نہیں ہو پاتے اس لیے کپاس کی پیداوار کم ہو رہی ہے۔ ٹیسکٹائل سیکٹر اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے کپاس درآمد کرنے پر مجبور ہوا ہے۔
وزیراعظم صاحب نے اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے نجی شعبے کوریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کرنے کی دعوت دی ہے۔ انھوں نے بین القوامی ماہرین سے رابطہ کر لیا ہے ،جس کے مثبت اثرات آنے والے دنوں میں دیکھے جا سکیں گی۔
‎پاک افغان تجارت
‎سال 2020 اس اعتبار سی بھی بہتر ہے کہ برآمدات کو بڑھانے کے لیے پاک افغان تنازعات کو کم کرنے کی عملی کوشش کی گئی ہے۔ وفود آ جا رہے ہیں۔ سفارتی سطح پر ملاقاتیں جاری ہیں۔ اکتوبر 2020 میں افغانی وفد پاکستان آیا۔ تجارت بڑھانے کی بات ہوئی۔ نومبر 2020 میں رزاق داؤد صاحب افغانستان پہنچے اور ان کے پیچھے وزیراعظم عمران خان بھی افغان صدر سے ملاقات کرنے پہنچ گئے۔ تجارت کے راستے میں بہت سی رکاوٹیں ختم ہوئیں۔
سب سے اہم موضوع پاکستان کے ٹرکوں کو ازبکستان، تاجکستان اور آزربائیجان تک براہ راست رسائی دینے سے متعلق تھا۔ خبر ہے کہ اس معاملے پر کافی کام ہو چکا ہے اور امید کی جارہی ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ راستے پاکستان کے لیے کھل جائیں گے جس سے برآمدات بڑھانے میں مدد ملے گی۔
‎اس کے علاوہ پاک افغان بارڈر پر سامان کا بک جانا اور فائلوں کاپیٹ کاغذوں سے بھرنے جیسے معاملات بھی زیر غور آئے ہیں۔ بارڈر پر جدید سکیننگ کا نظام نافذ کرنے، بارڈر فینسنگ کروانے اور نظام کو کمپیوٹرائزڈ کرانے کے آپشنز پر سختی سے عمل کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔
اس کے علاوہ دونوں اطراف کے چیمبر ز آف کامرس کے مشترکہ دفاتر طورخم اور کابل میں بنانے پر اتفاق ہونے کی خبریں ہیں۔ جس سے امید کی جارہی ہے کہ تاجروں کے مسائل سالوں لٹکنے کی بجائے گھنٹوں میں حل ہو جائیں گے۔
افغان سپئئر پارٹس اور سگریٹ پاکستان کی منفی لسٹ میں شامل ہیں جس سے پاکستان میں استعمال شدہ گاڑیوں کے سپیئر پارٹس مہنگے ہو گئے ہیں۔ ان میٹنگز میں انھیں منفی لسٹ میں سے نکالنے پر بھی کافی پیش رفت ہوئی ہے۔ان اقدامات نے تاجروں کے لیے نئی امیدیں پیدا کی ہیں اور دونوں اطرف کی بزنس کمیونٹی اپنی حکومتوں سے خوش دکھائی دے رہی ہے۔
‎ٹیکس آمدن:
‎کسی بھی ملک کی معیشت میں ٹیکس آمدن جسم میں خون جیسی حیثیت رکھتی ہے۔ ٹیکس آئے گا تو ملک چلے گا۔
‎اگر ملکی سالانہ ٹیکس آمدن کی بات کی جائے تو آئی ایم ایف سے مذاکرات کے بعد پچھلے سال ٹیکس حدف 5.503 ٹریلین روپے تھا جبکہ صرف 3.908 ٹریلین روپے ٹیکس اکٹھا ہو سکا تھا۔ اس کی وجوہات کئی ہیں لیکن حکومت کی جانب سے کویڈ 19 کو سب سے بڑی وجہ قرار دیا گیا۔ اس مالی سال کا ٹیکس ٹارگٹ 4.963 ٹریلین روپے طے کیا گیا ہے۔
‎حکومت یہ ٹیکس ٹارگٹ حاصل کر پاتی ہے یا نہیں اس کا صحیح حساب جون2021 میں ہو سکے گا لیکن ابھی تک کے اعدادوشمار کے مطابق نئے مالی سال کے پہلے کوارٹر کا جو ٹیکس حدف مقرر کیا گیا تھا حکومت نے اس سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کیا ہے۔ درآمدات میں کمی کے باوجود ٹیکس حدف کا حصول یہ ظاہر کرتا ہے کہ ملک کے اندر مقامی سطح پر اشیا کی تیاری کا رجحان بڑھ رہا ہے اور وہ مارکیٹ میں بک بھی رہی ہیں یعنی کہ کسٹمر لوکل بنی چیزوں کو خرید رہے ہیں۔
‎ابھی تک دسمبر 2020 کے اعدادوشمار جاری نہیں کیے گئے جس کے باعث موجودہ کوارٹر کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا لیکن حکومتی حلقوں میں امید کی جارہی ہے کہ دوسرا کواٹر جو 31 دسمبر کو ختم ہو گا اس کا ٹیکس حدف بھی حاصل کر لیا جائے گا۔
‎بے روزگاری اور پاکستانی معیشت
‎اگر بے روزگاری کی بات کی جائے تو سال 2020 زیادہ غیر متوقع نہیں رہا ہے۔ یہاں یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ بے روزگاری کے حساب سے 2020 میں شاید پوری دنیا برے وقت سے گزر رہی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ کویڈ 19 ہے۔ سب سے زیادہ بے روزگاری امریکہ میں دیکھنے میں آئی ہے۔ لیکن پاکستان کی بات کی جائے تو دنیا کے مقابلے میں بے روزگاری کی شرح اتنی ذیادہ نہیں بڑھی ہے۔ سال 2019 میں پاکستان میں بے روزگاری کی شرح تقریباً 4.5 فیصد ہے جبکہ سن 2020 میں بھی یہ شرح 4.5 فیصد ہی رہی ہے۔
‎جو کہ حکومت کی کامیاب حکمت عملی قرار دی جا رہی ہے۔ ایک ماہ کے مکمل لاک ڈاؤن نے ملک میں بے روزگاری بڑھائی لیکن بعدازاں وزیراعظم عمران خان نے اسے بڑی غلطی قرار دیا اور جس وقت کورونا اپنے عروج پر تھا حکومت نے لاک ڈاؤن ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ جس سے کاروبار کھلے اور بے روزگاری میں زیادہ اضافہ نہیں ہو سکا۔
یہ بات بھی قابل تحسین ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی اس پالیسی کی دنیا معترف ہوئی۔ جس طرح کورونا اور معیشت دونوں ساتھ چلے ہیں دنیا میں اس کے مثال نہیں ملتی۔ بلکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن نے دنیا کو پاکستان سے سیکھنے کا مشورہ بھی دیا۔
‎کرنٹ اکاونٹ سرپلس اور ڈالر ذخائر
‎حکومت کے مطابق سال 2020 اس حوالے سے بھی بہتر رہا کہ کرنٹ اکاونٹ خسارہ ختم ہو کر سرپلس میں تبدیل ہو گیا ہے۔پچھلے چار ماہ سے مسلسل کرنٹ اکاونٹ سرپلس رپورٹ ہو رہا ہے جو کہ خوش آئند ہے۔
‎حکومتی ڈالر کے ذخائر میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ پچھلے ماہ کی رپورٹ کے مطابق ڈالر ذخائر ساڑھے تین سال کی بلند ترین سطح پر آگئے ہیں۔ 17-2016 کے مطابق ڈالر کے ذخائر 21.4 ارب ڈالر تھے۔ 2020 میں ڈالر کے ذخائر 20.4 ارب ڈالر ہو گئے ہیں۔
‎اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سب سے اہم وجہ دوست ممالک کی جانب سے قرضوں کی ادائیگیوں میں ملنے والا ریلیف ہے۔ اس کے علاوہ روشن ڈیجیٹل اکاونٹ اور ایف اے ٹی ایف بل کی منظوری ایسے اقدامات ہیں جن کے بغیر یہ لیول برقرار رکھنا مشکل تھا۔
میں یہاں ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ستمبر 2020 میں ریکوڈک کیس میں پاکستان کو بین الاقومی عدالت کی جانب سے ملنے والا ریلیف کافی حوصلہ افزا خبر تھی۔ جس نے وقتی طور پر چھ ارب ڈالر کی ادائیگی کی لٹکتی ہوئی تلوار ہٹا دی۔ اگر پاکستان کو یہ ڈالر ادا کرنے پڑ جاتے تو ذخائر کا یہ لیول شاید برقرا نہیں رکھا جا سکتا تھا۔
‎قرضوں کی صورتحال
‎سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق جون 2018 سے جون 2020 میں ختم ہونے والے تحریک انصاف کی حکومت کے دو مالی سالوں میں قرضوں میں 18.5 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ قرضوں کی مالیت 112 ارب ڈالر ہے اور قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے مزید قرض لینے کے منصوبے زیر غور ہیں۔
اسی مالی سال کے اختتام تک پاکستان نے تقریباً 11.89 ارب ڈالر کے قرض واپس کیے ہیں۔جو کہ 19-2018 کی نسبت 23 فیصد زیادہ ہیں۔ لیکن کویڈ 19 کی وجہ سے کچھ قرضوں کی ادائیگیوں میں ریلیف بھی ملا ہے۔ اس میں سب سے بڑا ریلیف جی 20 ممالک کی جانب سے ہے۔حالیہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان نے تقریباً آٹھ سو ملین ڈالرز کے قرض معاف کروا لیے ہیں اور باقی ایک ارب ڈالرز کے لیے کوششیش جاری ہیں۔یہ خبر پاکستان کے لیے اچھی ہے۔
‎اگر فورا واجب الادا قرضوں کی ادائیگی کی بات کی جائے تو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت نے چار ارب ڈالر کے قرض واپس مانگ لیے ہیں۔ جو کہ دسمبر سے فروری تک واجب الادا ہیں۔ جولائی 2020 میں ہی سعودی عرب نے ایک ارب ڈالر واپس مانگا تھا جو پاکستان نے چین سے لے کر سعودی کو دے دیا تھا۔ لیکن اب صورتحال تھوڑی مشکل دکھائی دیتی ہے۔
دسمبر 2020 میں بھی سعودی عرب نے ایک ارب ڈالر مانگ لیا ہے جو ایک مرتبہ پھر چین سے لے کر واپس کر دیا گیا ہے۔ چین نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ دوستی کا حق ادا کیا ہے۔ تحریک انصاف نے چائنا سے بہتر تعلق کو ایک مرتبہ پھر نئی بلندیوں تک پہنچایا ہے۔
‎کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان
‎حکومت پاکستان نے کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان کے نام سے ایک ادارہ بنا رکھا ہے جس کا کام اشیا کی قیمتوں کو بلاوجہ بڑھنے سے روکنا ہے۔ بدقسمتی سے 2009 میں سیمنٹ اندسٹری نے لاہور ہائیکورٹ میں ایک پٹیشن دائر کر کے سی سی اے کے خلاف سٹے لے لیا۔
سیمنٹ کے بعد باقی صنعتوں جن میں شوگر، آئل اینڈ گیس، فرٹیلائزر، ایجوکیشن، ٹیلی کام، رئیل سٹیٹ دودھ اور جوس بنانے والے کئی اداروں نے عدالت سے سٹے لے لیا۔ جو کہ گیارہ سال بعد سال 2020 میں ختم ہوا ہے۔ جس سے یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ اشیا کی قیمت اس وقت تک نہیں بڑھائی جا سکے گی جب تک اس کا مکمل حساب کتاب حکومت کے ساتھ شئیر نہیں کر لیا جاتا۔
آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ ڈالر کی قیمت اگر دس فیصد بڑھتی ہے تو گاڑیوں کی قیمت پچیس فیصد بڑھ جاتی ہے اور جب ڈالر کی قیمت کم ہوتی ہے گاڑیوں کی قیمت کم نہیں کی جاتی۔ یہ مسئلہ دراصل عدالت میں موجود سٹے کی وجہ سے تھا جو کہ ختم ہو گیا ہے جس کے ساتھ ہی کمیشن نے کام بھی تیز کر دیا ہے۔
نومبر میں سی سی پی نے سیمنٹ سیکٹر پر چھاپے مار کر ریکارڈ قبضے میں لیا ہے۔ یہ اطلاع تھی کہ سیمنٹ کی قیمتوں میں غیر حقیقی اضافہ کیا گیا ہے۔ماہرین کے مطابق اگر یہ ادارہ اپنی اصل روح کے ساتھ کام شروع کردے تو پاکستان میں اشیا کی ویلیو فار منی کو یقینی بنایا جا سکے گا اور مہنگائی میں بھی خاطر خواہ کمی ہو سکے گی۔
‎ایف اے ٹی ایف بل کی منظوری
‎سال 2020 اس لحاظ سے بہتر رہا ہے کہ اس میں ایف اے ٹی ایف کا بل منظور ہو گیا ہے۔ اینٹی منی لانڈرنگ قوانین پاکستانی معیشیت میں بہتری کے لیے ناگزیر ہو گئے تھے۔ اسے اسمبلی سے منظور کروانے کے لیے حکومت کے پاس مطلوبہ تعداد موجود نہیں تھی اور اپوزیشن اس بل کی منظوری کے حق میں بھی نہیں تھی لیکن حکومت نے بہترین حکمت عملی کے تحت اسے اسمبلی سے منظور کروا لیا۔
جس کے بعد پاکستان سے ڈالرز کی منی لانڈرگ میں کمی ہونے کی امید ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں ڈالر کی قدر میں کمی اور ڈالر ذخائر میں مسلسل اضافہ کی ایک وجہ بھی یہی ہے۔ جیسے ہی یہ بل تیار ہونے اور منظور ہونے کا عمل شروع ہوا تو جعلی منی چینجرز نے دکانیں بند کرنا شروع کر دیں اور ڈالر بینکوں اور منی چینجرز کو بیچ دیے۔
اس سے پاکستان میں بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافہ ہوا بلکہ اگست کے مہینے میں پاکستانی تاریخ کی سب سے زیادہ ترسیلات موصول ہوئی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق غیر قانونی راستے محدود ہونے کی وجہ سے بیرون ملک پاکستانی رقوم کی منتقلی کے لیے قانونی راستے استعمال کر رہے ہیں۔
‎فری لانسنگ اور پاکستانی معیشت:
‎کویڈ 19 نے جہاں دنیا کی معیشت کو بدلا ہے وہیں پاکستانی معیشت پر بھی گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ گھروں پر فارغ بیٹھنے سے جس شعبے کی طرف سب سے ذیادہ رجحان بڑھا ہے وہ فری لانسنگ ہے۔ یعنی کہ آپ کو اگر کوئی بھی کام آ آتا ہے تو لیپ ٹاپ کھولیں ، کسی بھی فری لانسنگ سائیٹ پر جائیں، اپنا اکاونٹ بنائیں جس میں لوگوں کو بتائیں کہ آپ کیا سروس دی سکتے ہیں۔
جنھیں آپ کی سروس کی ضرورت ہو گی وہ آپ سے رابطہ کریں گے اور آپ گھر بیٹھے ڈالرز میں کمائی شروع کر سکیں گے۔ سال 2020 میں اچھی خبر یہ بھی آئی کہ پاکستان میں فری لانسنگ کی گروتھ دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ پہلے نمبر پر امریکہ، دوسرے پر برطانیہ، تیسرے ہر برازیل اور چوتھے پر پاکستان ہے۔ یعنی کہ پاکستان ایشیائی ممالک میں پہلے نمبر ہے۔
‎اس خبر کا پاکستانی معیشت کو بہت فائدہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق فری لانسنگ سے پاکستان سالانہ ایک ارب ڈالر سے زیادہ زرمبادلہ کما رہا ہے۔ یہ آمدن کمانے والے اکثریت لوگوں کی عمریں پچیس سے پینتیس سال ہیں۔
وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری صاحب نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان بہت جلد 93 بلین ڈالرز کی گیمنگ اور اینی میشن مارکیٹ میں داخل ہونے جا رہا ہے۔پاکستان سرکاری سطح پر گیمنگ سرٹیفیکیٹس جاری کرے گا جس سے پاکستانی نوجوان بین الاقومی مارکیٹ میں کام کرنے کے قابل ہو سکے گا۔
یہ خبر بہترین ہے -اس سے جہاں بچوں کا ٹیکنالوجی کے استعمال کی طرف رجحان بڑھے گا وہاں فری لانسنگ سے حاصل آمدن میں بھی اضافہ ہو سکے گا۔ حکومت کا جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ چلنے کا عزم نجی شعبے کو بھی پروان چڑھانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ بہت سے گیمنگ سافٹ وئیر ہاوسز پاکستان آ کر کام کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن حکومتی عدم دلچسپی کے باعث ہمت نہیں کر پاتے تھے۔
فواد چوہدری صاحب کے اس اقدام سے پاکستان میں روزگار بڑھے گا اور سوفٹ وئیر کی برآمدات میں اضافہ ہو گا۔ماہرین کے مطابق فری لانسنگ پاکستان جیسے معاشرے کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ آپ جیسے ہی لیپ ٹاپ کھولتے ہیں دنیا بھر کی نوکریاں اور کام کروانے والے آپ کے سامنے حاضر ہو جاتے ہیں اور آپ اپنی مرضی سے اور وقت کے مطابق کام کرتے ہیں۔ جب دل چاہا لیپ ٹاپ بند کیا اور دیگر مصروفیات میں وقت صرف کر لیا۔اس کا فائدہ دو طرفہ ہے۔
عمومی طور پر یورپ اور امریکہ میں کس کام کے بیس ہزار ڈالر لیے جاتے ہیں پاکستان میں فری لانسنگ سائیٹ پر بیٹھا نوجوان وہ کام صرف ایک ہزار ڈالر میں کر دیتا ہے۔ جو کہ پاکستانی کرنسی میں تقریب ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے بنتے ہیں۔ پاکستان میں پڑھا لکھا نوجوان اوسطا بیس سے تیس ہزار روپے کماتا ہے۔ وہ یہ رقم ایک مہینے کی محنت کے بعد حاصل کرتا ہے۔ جبکہ فری لانسر دو سے تین دن میں ایک اللہ ساٹھ ہزار روپے کما لیتا ہے۔ اس سے جہاں پاکستان میں بیٹھے بے روزگار شخص کو روزگار مل رہا ہے وہیں امریکہ یورپ میں بیٹھے فرد یا کمپنی کو اے پلس کوالٹی کا کام انتہائی کم قیمت میں مل رہا ہے۔
یہ کامیابی اس وقت میں حاصل کی ہے جب پاکستان میں بین الاقوامی ادائیگیوں کا نظام پے پال موجود نہیں ہے اور دنیا کے سب سے بڑے آن لائن سٹور ایمازون پر پاکستان میں بیٹھ کر قانونی طریقے سے آن لائن تجارت نہیں کی جا سکتی۔
اگر حکومت بینکنگ نظام پر تھوڑی سی توجہ دے تو ان اداروں کو پاکستان لایا جا سکتا ہے اور پاکستان فری لانسنگ کی دنیا میں پہلے نمبر پر آ سکتا ہے۔ اسی سال رزاق داؤد صاحب نے بھی پے پال کو پاکستان لانے کی حامی بھری ہے اور کوششیں بھی جاری ہیں۔امید ہے کہ پاکستانی معیشیت آنے والے دنوں میں صحیح معنوں میں فائدہ اٹھا سکے گی۔
I read it all ???