رانا شمیم:عدالت انہیں مافیا گارڈ فادر کہہ چکی،اب سمجھ جانا چاہیے:ارشاد بھٹی

irshad.jpg


ن لیگ کا طریقہ واردات اداروں کو متنازع بناؤ ہے، ارشاد بھٹی کا رانا شمیم کے معاملے پر تجزیہ

سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے معاملے میں ایک نیا اہم موڑ سامنے آگیا، رانا شمیم کا کہنا ہے کہ انہوں ںے حلف نامے پر اکیلے دستخط کئے، جبکہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ نواز شریف کے بیٹے حسین نواز کے دفتر میں اور دیگر مبینہ افراد کی موجودگی میں یہ کام ہوا، اداروں کو بلیک میل کرنے کیلئے کام کیا جارہاہے،

جبکہ ن لیگ کہتی ہے کہ فرق نہیں پڑتا کہ حلف نامہ کہاں دیا گیا کس کے سامنے دیا گیا، فرق حلف نامے میں موجود معلومات سے پڑتا ہے، اس حوالے سے جیونیوز کے پروگرام رپورٹ کارڈ میں سینیر تجزیہ کار ارشاد بھٹی سے گفتگو کی گئی۔

ارشاد بھٹی نے کہا کہ فرق پڑتا ہے ، بیان عدالت میں ہو یا جلسے میں فرق پڑتا ہے، حسین نواز وہ ہی ہیں جن کے بارے میں نواز شریف نے کہا تھا کہ یہ ہیں وہ ذرائع جس سے میں نے فلیٹ خریدے اس کے متن نگار یہ ہی تھے، حسن نواز نے ہی کہا تھا ہماری پراپرٹی لندن میں ہیں، حالانکہ مریم نواز مکر گئیں تھیں کہ ہماری اندرون اور بیرون ملک جائیدادیں نہیں ہیں،حسین نواز وہ ہی ہیں جس سے چوراسی کروڑ کے نواز شریف کو گفٹس دیئے تھے۔


ارشاد بھٹی نے کہا کہ حسین نواز وہ ہی ہیں جنہوں نے ستائیسویں شب کو مدینہ منورہ میں جج ارشد ملک سے ملاقات کی تھی، حسین نواز کے دفتر میں اگر حلف نامے کا کام ہوا ہے تو مجھے کوئی حیرت نہیں ہورہی،عدالت انہیں مافیا گارڈ فادر کہہ چکی ہے ان کا طریقہ واردات ہے اداروں کو فیصلوں کو متنازع بناؤ،جو ان کے خلاف کارروائی کرتا بیانات دیتااس کو متنازع بنادیتے۔

ارشاد بھٹی نے کہا کہ رانا شمیم نوازشریف کے وکیل رہے ہیں، حسین نواز سے دو ملاقاتیں بھی لندن میں ہوئیں ہیں،مسلم لیگ ن کے لوگ انہیں لندن لے کرگئے،حسین نواز کے دفتر میں بیٹھ کر یہ سب کچھ ہوا ہے اب سمجھ جانا چاہیے کہانی کیسے بنائی گئی ہے،

سوال یہ پیدا ہوتا ہے سوا تین سال بعد ان کا ضمیر کیسے جاگا،حلف نامہ لندن لاکر میں کیوں رکھا تھا؟ حلف نامے میں اس جج کا نام کیوں جو اس وقت نواز شریف فیملی کے کیس سن ہی نہیں رہا تھا، اور حلف نامی اسی وقت کیوں آیا جب اس جج نے دو دن بعد شریف فیملی کے کیس سننے تھے۔

دوسری جانب سابق چیف جج رانا شمیم نے بیان حلفی لفافے سے نکال کر اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے پیش کر دیا،چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ عدالت اپنے آپ کو قابل احتساب بنا رہی ہے،باقی جو کچھ ہو رہا ہے وہ نہیں ہم اپنی عدالت کی حد تک بات کر رہے ہیں۔
 
Last edited by a moderator: