یہ وہ بھگوڑے ہیں جو ابتدا سے بھارتی ہندو فوج سے پٹتے آئے ہیں۔ ان کے پاپائے اوّل ایوب خان مردود نے 1965 میں کشمیر فتح کرنے کی ٹھانی، لینے کے دینے پڑ گئے۔ کشمیر کیا ہاتھ آتا، لاہور جاتے جاتے رہ گیا۔ ہندوستان نے کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا، ایوب خانی فوج چند بھارتی علاقوں پر قبضہ کر پائی اور اپنے علاقے بازیاب کرانے کے لیے تاشقند میں جاکر تھوک چاٹنا پڑ گیا۔
ایوب خانی جانشین، میڈم نورجہاں اور اقلیم اختر سمیت 75 عورتوں کا دیوانہ جرنیل سفارت کاروں کے سامنے انڈر وئیر میں پیش ہورہا تھا اور دوسری طرف ڈھاکہ میں عمران خانی چچا، اے اے کے نیازی ہتھیاروں سمیت 1971 میں اپنی پتلون اور چڈی اتار رہا تھا۔
امیرالمؤمنین جرنیل ضیاء الحق 1984 میں سیاچن کے محاذ پر ہندوؤں کے آگے ڈھیر ہوئے۔ ہندوستان پھر بھی باز نہ آیا تو کرکٹ ڈپلومیسی کے نام پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بم کی دھمکی دے آئے ورنہ ایک بار پھر ٹھیک ٹھاک پٹائی ہوجاتی۔
بڑی کوشش کی کہ 1971 کی سیاہی جو غزوہ ہند بریگیڈ کے منہ پر لگ کر پورا منہ سیاہ کر گئی تھی، کسی طرح دھل جائے۔ مگر امریکیوں کا اتنا دباؤ تھا کہ اپنے ہاتھوں سے خالصتانی تحریک کا جنازہ اٹھانا پڑ گیا۔ سکھ علٰحیدگی پسندوں کی تفصیلات ہندوستان کے حوالے کروائیں اور نام بے نظیر بھٹو کا لگا دیا، بالکل ویسے ہی جیسے 1965 اور 1971 میں جوتے کھانے پڑ گئے اور الزام بھٹو پر لگا دیا۔
اگر بے نظیر یا اعتزاز احسن ایسے غدار تھے کہ خالصتان کی تحریک بھارت کی جھولی میں ڈالی تو پھر 1993 میں دوبارہ اقتدار اس کے حوالے کیوں کیا؟ غداری کا مقدمہ کیوں نہ چلایا؟
غزوہ ہند بریگیڈ نے 1990 کے عشرے میں سر توڑ کوشش کر لی کہ کسی طرح کشمیر کا عسکری حل نکل آئے، کمانڈو مشرف نے 1999 میں کارگل 'واپس' لینے کی کوشش بھی کی، مگر منہ کی کھائی۔
بے ایمان اور عیاش لوگوں کے نصیب میں ناکامی اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ خود اپنے ملک کے شہر کراچی کو یہ لوگ دو دہائیوں تک کشمیر اور بیروت بنائے رہے، اور قدرت سے یہ توقع کی کہ ان کو کشمیر کے معاملے میں نصرت مل جائے۔ یہ بھلا ممکن ہے؟
اس پر نخرے بھی ان کے بہت ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ کچھ بھی ہوجائے، ان کے سر پر کتنے ہی جوتے پڑ جائیں، ان کی عزت اور تکریم میں کمی نہ آنے پائے۔ پاکستانی ان کے لیے زندہ باد کے نعرے لگاتے رہیں، ان کو دودھ دینے والی مقدس گاؤ ماتا مانتے رہیں۔
تبھی اگر کسی نے ان کے گندے لچھّن قوم کو اور دنیا کو دکھائے، تو ان کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ یہاں تک کہ لوگوں کو اغوا کر کے تشدد کا نشانہ بناتے، بلکہ جان سے ہی مار ڈالتے۔
صحافی سلیم شہزاد 2011 میں اغوا ہوئے اور ان کی لاش بازیاب ہوئی۔
حامد میر پر قاتلانہ حملہ ہوا۔
ایک اور صحافی احمد نورانی کو 2017 میں نامعلوم افراد نے مار پیٹ کر تشدد کا نشانہ بنایا۔
آج ہی دن دہاڑے، منافق مدینہ، عمران نیازی کے دارلخلافہ سے صحافی مطیع اللہ جان اغوا ہوگئے اور تاحال لاپتہ ہیں۔
نہیں معلوم کہ وہ زندہ سلامت بازیاب ہوں گے یا ان کی لاش بھی کسی کار کے اندر یا نالے سے برآمد ہوگی۔
اگر کوئی شخص ریاست کے خلاف کسی سرگرمی میں ملوّث ہے تو آپ اس کے خلاف مقدمہ دائر کریں، قانون کا راستہ اختیار کریں۔
یہ کون سا طریقہ ہے کہ دن دہاڑے مجرموں کی طرح لوگوں کو سر راہ اغوا کیا جائے اور غائب کر دیا جائے۔
کمزور اور غیر مسلح عوام پر مردانگی کے جوہر دکھانے سے بہتر ہے کہ اپنے مقابل کی فوج سے لائن آف کنٹرول پر زور آزمائی کر کے دیکھ لیا جائے۔ بارڈر پر تو پتلون گیلی ہوجاتی ہے، اور دو چار جھڑپوں کے بعد سیز فائر اور امن کی کوششیں شروع ہوجاتی ہیں، مگر جن عوام کے پیسوں پر پل رہے ہیں ان پر ہی اپنی بہادری کا سکہ بٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ایوب خانی جانشین، میڈم نورجہاں اور اقلیم اختر سمیت 75 عورتوں کا دیوانہ جرنیل سفارت کاروں کے سامنے انڈر وئیر میں پیش ہورہا تھا اور دوسری طرف ڈھاکہ میں عمران خانی چچا، اے اے کے نیازی ہتھیاروں سمیت 1971 میں اپنی پتلون اور چڈی اتار رہا تھا۔
امیرالمؤمنین جرنیل ضیاء الحق 1984 میں سیاچن کے محاذ پر ہندوؤں کے آگے ڈھیر ہوئے۔ ہندوستان پھر بھی باز نہ آیا تو کرکٹ ڈپلومیسی کے نام پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بم کی دھمکی دے آئے ورنہ ایک بار پھر ٹھیک ٹھاک پٹائی ہوجاتی۔
بڑی کوشش کی کہ 1971 کی سیاہی جو غزوہ ہند بریگیڈ کے منہ پر لگ کر پورا منہ سیاہ کر گئی تھی، کسی طرح دھل جائے۔ مگر امریکیوں کا اتنا دباؤ تھا کہ اپنے ہاتھوں سے خالصتانی تحریک کا جنازہ اٹھانا پڑ گیا۔ سکھ علٰحیدگی پسندوں کی تفصیلات ہندوستان کے حوالے کروائیں اور نام بے نظیر بھٹو کا لگا دیا، بالکل ویسے ہی جیسے 1965 اور 1971 میں جوتے کھانے پڑ گئے اور الزام بھٹو پر لگا دیا۔
اگر بے نظیر یا اعتزاز احسن ایسے غدار تھے کہ خالصتان کی تحریک بھارت کی جھولی میں ڈالی تو پھر 1993 میں دوبارہ اقتدار اس کے حوالے کیوں کیا؟ غداری کا مقدمہ کیوں نہ چلایا؟
غزوہ ہند بریگیڈ نے 1990 کے عشرے میں سر توڑ کوشش کر لی کہ کسی طرح کشمیر کا عسکری حل نکل آئے، کمانڈو مشرف نے 1999 میں کارگل 'واپس' لینے کی کوشش بھی کی، مگر منہ کی کھائی۔
بے ایمان اور عیاش لوگوں کے نصیب میں ناکامی اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ خود اپنے ملک کے شہر کراچی کو یہ لوگ دو دہائیوں تک کشمیر اور بیروت بنائے رہے، اور قدرت سے یہ توقع کی کہ ان کو کشمیر کے معاملے میں نصرت مل جائے۔ یہ بھلا ممکن ہے؟
اس پر نخرے بھی ان کے بہت ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ کچھ بھی ہوجائے، ان کے سر پر کتنے ہی جوتے پڑ جائیں، ان کی عزت اور تکریم میں کمی نہ آنے پائے۔ پاکستانی ان کے لیے زندہ باد کے نعرے لگاتے رہیں، ان کو دودھ دینے والی مقدس گاؤ ماتا مانتے رہیں۔
تبھی اگر کسی نے ان کے گندے لچھّن قوم کو اور دنیا کو دکھائے، تو ان کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ یہاں تک کہ لوگوں کو اغوا کر کے تشدد کا نشانہ بناتے، بلکہ جان سے ہی مار ڈالتے۔
صحافی سلیم شہزاد 2011 میں اغوا ہوئے اور ان کی لاش بازیاب ہوئی۔
حامد میر پر قاتلانہ حملہ ہوا۔
ایک اور صحافی احمد نورانی کو 2017 میں نامعلوم افراد نے مار پیٹ کر تشدد کا نشانہ بنایا۔
آج ہی دن دہاڑے، منافق مدینہ، عمران نیازی کے دارلخلافہ سے صحافی مطیع اللہ جان اغوا ہوگئے اور تاحال لاپتہ ہیں۔
نہیں معلوم کہ وہ زندہ سلامت بازیاب ہوں گے یا ان کی لاش بھی کسی کار کے اندر یا نالے سے برآمد ہوگی۔
اگر کوئی شخص ریاست کے خلاف کسی سرگرمی میں ملوّث ہے تو آپ اس کے خلاف مقدمہ دائر کریں، قانون کا راستہ اختیار کریں۔
یہ کون سا طریقہ ہے کہ دن دہاڑے مجرموں کی طرح لوگوں کو سر راہ اغوا کیا جائے اور غائب کر دیا جائے۔
کمزور اور غیر مسلح عوام پر مردانگی کے جوہر دکھانے سے بہتر ہے کہ اپنے مقابل کی فوج سے لائن آف کنٹرول پر زور آزمائی کر کے دیکھ لیا جائے۔ بارڈر پر تو پتلون گیلی ہوجاتی ہے، اور دو چار جھڑپوں کے بعد سیز فائر اور امن کی کوششیں شروع ہوجاتی ہیں، مگر جن عوام کے پیسوں پر پل رہے ہیں ان پر ہی اپنی بہادری کا سکہ بٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔