سرینا عیسیٰ کے وزنی دلائل ایف بی آر تحقیقات سے نکلنے کا سبب بنے

Resilient

Minister (2k+ posts)
سرینا عیسیٰ کے وزنی دلائل ان کے ایف بی آر تحقیقات سے نکلنے کا سبب بنے ہیں۔ جبکہ ایف بی آر نے اپنی حتمی رپورٹ میں سرینا عیسیٰ کے خلاف علیحدہ سماعت کا اشارہ دے دیا ہے۔

جسٹس عیسیٰ کے اہل خانہ لندن میں اپنی جائیداد رکھتے ہیں لیکن یہ جائیدادیں جج کی بیٹی، بیوی اور بیٹے نے آزادانہ طور پر آمدنی کے ذریعہ خرید ی ہیں، جو قانونی اور اعلان شدہ ذرائع کے ذریعے پاکستان سے لندن بھیجی گئی۔

تفصیلات کے مطابق، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے اعلیٰ عدالت میں متعدد دلائل پیش کیے ہیں جس کی وجہ سے وہ اور ان کے شوہر ٹیکس حکام کی تحقیقات سے باہر نکل گئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے 10 رکنی بنچ نے ایف بی آر کو اختیار دیا تھا کہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے گھروالوں کے آف شور اثاثوں کی تحقیقات کرے۔

سرینا عیسیٰ کے دلائل جو انہوں نے ٹیکس حکام اور سپریم کورٹ میں پیش کیے 1700 صفحات پر مشتمل تھے۔ وہ اپنا مدعا 18 جون، 2020 سے پیش کررہی تھیں۔ پیر کے روز ان کی نظرثانی درخواست پر سپریم کورٹ کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ 6 جون، 2020 کے حکم نامے میں شامل تمام احکامات کو غیرقانونی قرار دیا جاتا ہے اور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

سرینا عیسیٰ نے 9 جولائی، 2020 کو حکام کو بتایا تھا کہ ایف بی آر کمشنر ذوالفقار احمد کو ان کے کیس کی تحقیقات کرنے کا قانونی اختیار نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کوئی بھی قابل ٹیکس آمدنی نہیں چھپائی ہے اور نا ہی غلط اعدادوشمار فراہم کیے ہیں۔

انہوں نے بتایا تھا کہ نا ہی انہوں نے لندن پراپرٹیز چھپائی ہیں اور نا ہی چھپانے کی کوشش کی ہے، وہ ان کے اور ان کے بچوں کے نام پر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ انہیں چھپانا چاہتیں تو کوئی ٹرسٹ یا کمپنی بناسکتی تھیں اور انہیں ایک یا زائد مختلف ناموں یا کارپوریٹ نام کےپیچھے چھپاسکتی تھیں۔

جب کہ ٹیکس حکام کا کہنا تھا کہ سرینا عیسیٰ نے جو منی ٹریل فراہم کی ہے اس میں بہت سے تضادات ہیں مثلاً ان کے پاس ایک کروڑ روپے کی مجموعی ٹیکس رقم تھی جو انہوں نے مذکورہ تین آف شورز کو ظاہر کرنے کے دوران استعمال کرلی تھی، جب کہ لندن پراپرٹیز کو چھپایا گیا اور انہیں اپنی دولت میں ظاہر نہیں کیا۔

سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ان کے کیس کے حوالے سے جو حکم جاری کیا گیا اس کی وجہ یہ تھی کہ بظاہر ایف بی آر تحقیقات کار ان کی وضاحت سے مطمئن نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بات جرمانے کا باعث نہیں ہوسکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی امریکن اسکول کی جانب سے 1982ء سے انہیں ملنے والی تنخواہوں کو نظرانداز کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایف بی آر نے ان کی پوری زندگی کی کمائی کو قلم کی ایک جنبش سے نظرانداز کردیا اور یہ سمجھا کہ میں 500مربع گز کا گھر خریدنے کی اہل نہیں تھیں کیا ایسا اس لیے تھا کیوں کہ میں خاتون تھی؟سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ انہیں یہ امید نہیں تھی کہ ایف بی آر افسران غیرملکی کرنسی اکائونٹس سے متعلق مختلف قوانین نظرانداز کریں گے۔ انہوں نے اپنے مؤقف کی تائید میں مختلف کیسز کے حوالے بھی دیئے۔

اپنی آمدنی ثابت کرنے کیلئے انہوں نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ انہوں نے اپنی زرعی آمدنی اور قابل ٹیکس آمدنی سے غیرملکی کرنسی حاصل کی۔ جب کہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایف بی آر نے غیرقانونی طور پر ان کے غیرملکی کرنسی اکائونٹس سے متعلق معلومات حاصل کی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جیسے ہی ایف بی آر نے اپنی فائنڈنگ ریکارڈ کی تھی ویسے ہی یہ معاملہ منطقی انجام کو پہنچ گیا تھا۔ انہوں نے کسی بھی طرح اپنے موقف میں تبدیلی نہیں کی بلکہ شروع سے آخر تک ان کا موقف ایک ہی رہا۔

یعنی انہوں نے 2013 میں جو دو پراپرٹیز خریدی تھیں اس کی مکمل ادائیگی انہوں نے خود کی تھی۔ ان کے جواب کا حوالہ ایک سینئر عہدیدار نے دیا جنہوں نے اپنا نام ظاہر کرنے سے منع کیا ہے۔

جسٹس عیسیٰ پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ وہ لندن کی تینوں جائیدادوں کے مالک ہیں لیکن جج نے واضح کیا کہ وہ براہ راست یا بالواسطہ جائیدادوں سے مستفید ہونے والے مالک نہیں۔ صدارتی ریفرنس کو کالعدم کردیا گیا تھا لیکن اس معاملے کو تحقیقات کے لئے فیڈرل بیورو آف ریونیو (ایف بی آر) کو بھیجا گیا تھا تاکہ اس امر کی تحقیقات کی جائیں کہ ذرائع آمدن لندن کیسے بھیجے گئے اور ان کا اصل مقام کیا ہے۔

ذرائع نے بتایا ہے کہ حکومت پاکستان کے اثاثوں کی بازیابی کے یونٹ (اے آر یو) نے عیسیٰ فیملی کے اثاثوں کی تفصیلات برطانوی حکومت سے حاصل کیں اور ساتھ ہی حکومت سے یہ درخواست بھی کی کہ فنڈز کی منتقلی یا خریداری کے دوران اگر کوئی غیرقانونی قدام اٹھایا گیا ہو تو اس سے پاکستان کو آگاہ کیا جائے۔

یہ بھی پوچھا گیا تھا کہ کیا جو فنڈ استعمال کئے گئے ہیں وہ پاکستان سے منتقل کی گئی رقم سے میل نہیں کھاتے۔ برطانوی حکومت کے کسٹم اینڈ ریونیو ڈپارٹمنٹ نے پاکستانی حکومت کو آگاہ کیا کہ یہ تینوں اثاثے قانونی طور پر خریدے گئے ہیں، منی لانڈرنگ کے انسداد کی جانچ پڑتال کی گئی ہے اور برطانیہ میں استعمال ہونے والے فنڈز کو پاکستان سے بھیجے گئے فنڈز سے چیک کیا گیا تھا۔

یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ آیا اس رپورٹ کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا ہے یا نہیں لیکن یہاں کے ایک ذرائع نے بتایا کہ برطانیہ کی حکومت نے ان حقائق کی تصدیق پاکستان کے حکام کو کی ہے۔ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ سرینا مونٹسیریٹ کیریرا نصف ہسپانوی ہیں اور ان کے پاس ہمیشہ ہی ہسپانوی پاسپورٹ موجود رہا ہے۔

ان کے بیٹے ارسلان عیسیٰ کھوسہ نے برک بیک یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے اور بیٹی سحر عیسیٰ کھوسو ایک تربیت یافتہ بیرسٹر ہیں جو خود ایک برطانوی شہری ہیں اور انہوں نے ایک برطانوی شہری سے شادی کی تھی۔ ارسلان اور سحر دونوں برسوں سے برطانیہ میں رہ رہے ہیں اوریہیں کام کر رہے ہیں۔

مشرقی لندن اور وسطی لندن میں تین جائیدادوں میں سے جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ سرینا مونٹسیریٹ کیریرا، جو قاضی فائز عیسیٰ سے شادی کے بعد پاکستان چلی گئیں، ایک جائیداد براہ راست ان کے نام سے ہے۔ ایچ ڈی ریونیو اور کسٹم (ایچ ایم آر سی) ریکارڈ کے مطابق سرینا کیریرا نے 20.10.2011 کو کینڈل اسٹریٹ پر دو بیڈروم کا فلیٹ خریدا تھا جس کی مالیت کا تخمینہ 300000 پونڈز ہے۔ فلیٹ اپارٹمنٹ بلاک کی چھٹی منزل پر ہے۔ سرینا کیریرا اور ان کے بیٹے ارسلان عیسیٰ کھوسہ نے مارچ 2013 میں مشرقی لندن کے والتھم سٹو میں245000 پونڈز میں مشترکہ طور پر ایک فلیٹ خریدا تھا۔

ٹائٹل ڈیڈ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سودا 27 مارچ 2013 کو ہوا تھا۔ جسٹس کھوسہ کی بیٹی سحر عیسیٰ کھوسو اور زرینہ مونٹسیریٹ کیریرا نے 28 جون 2013 کو ایسٹ لندن کا ایک فلیٹ 270000 پونڈز میں خریدا۔

لینڈ رجسٹری ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ 23 اپریل 2019 کو تینوں پراپرٹیز کی تلاشی لی گئی تھی۔ جسٹس عیسیٰ کوئٹہ میں پیدا ہوئے، جہاں انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی، بعد ازاں وہ اپنے او اور اے لیولز مکمل کرنے کے لئے کراچی منتقل ہوئے۔

بعدازاں انہوں نے لندن میں قانون پڑھا اور 1982 میں مڈل ٹیمپل سے بار آف انگلینڈ اینڈ ویلز میں بلوا لئے گئے۔ بیرسٹر کی حیثیت سے کوالیفائی کرنے کے بعد جسٹس عیسیٰ پاکستان واپس آئے جہاں انہوں نے بلوچستان ہائی کورٹ کے وکیل کی حیثیت سے داخلہ لیا اور جلد ہی کراچی میں پریکٹس شروع کر دی۔ وہ رضوی عیسیٰ اینڈ کمپنی کے اونر تھے۔

اے آر یو نے قاضی فائز عیسیٰ کے بیٹے اور بیٹی کے بارے میں تفتیش کے لئے ایک جاسوس کمپنی کی خدمات بھی حاصل کیں۔

ان کو نگرانی کا نشانہ بنایا گیا جبکہ جاسوس کمپنی نے پاکستان جانے کے لئے ان کی تفصیلات حاصل کیں۔ اس کیس سے واقف ذرائع نے بتایا کہ جاسوس کمپنی نے پاکستانی حکام کو تینوں املاک کی تفصیلات فراہم کیں جو عوامی طور پر دستیاب اراضی رجسٹری ریکارڈ پر موجود ہیں۔

 

smartmax1

Senator (1k+ posts)
سرینا عیسیٰ کے وزنی دلائل ان کے ایف بی آر تحقیقات سے نکلنے کا سبب بنے ہیں۔ جبکہ ایف بی آر نے اپنی حتمی رپورٹ میں سرینا عیسیٰ کے خلاف علیحدہ سماعت کا اشارہ دے دیا ہے۔

جسٹس عیسیٰ کے اہل خانہ لندن میں اپنی جائیداد رکھتے ہیں لیکن یہ جائیدادیں جج کی بیٹی، بیوی اور بیٹے نے آزادانہ طور پر آمدنی کے ذریعہ خرید ی ہیں، جو قانونی اور اعلان شدہ ذرائع کے ذریعے پاکستان سے لندن بھیجی گئی۔

تفصیلات کے مطابق، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے اعلیٰ عدالت میں متعدد دلائل پیش کیے ہیں جس کی وجہ سے وہ اور ان کے شوہر ٹیکس حکام کی تحقیقات سے باہر نکل گئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے 10 رکنی بنچ نے ایف بی آر کو اختیار دیا تھا کہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے گھروالوں کے آف شور اثاثوں کی تحقیقات کرے۔

سرینا عیسیٰ کے دلائل جو انہوں نے ٹیکس حکام اور سپریم کورٹ میں پیش کیے 1700 صفحات پر مشتمل تھے۔ وہ اپنا مدعا 18 جون، 2020 سے پیش کررہی تھیں۔ پیر کے روز ان کی نظرثانی درخواست پر سپریم کورٹ کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ 6 جون، 2020 کے حکم نامے میں شامل تمام احکامات کو غیرقانونی قرار دیا جاتا ہے اور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

سرینا عیسیٰ نے 9 جولائی، 2020 کو حکام کو بتایا تھا کہ ایف بی آر کمشنر ذوالفقار احمد کو ان کے کیس کی تحقیقات کرنے کا قانونی اختیار نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کوئی بھی قابل ٹیکس آمدنی نہیں چھپائی ہے اور نا ہی غلط اعدادوشمار فراہم کیے ہیں۔

انہوں نے بتایا تھا کہ نا ہی انہوں نے لندن پراپرٹیز چھپائی ہیں اور نا ہی چھپانے کی کوشش کی ہے، وہ ان کے اور ان کے بچوں کے نام پر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ انہیں چھپانا چاہتیں تو کوئی ٹرسٹ یا کمپنی بناسکتی تھیں اور انہیں ایک یا زائد مختلف ناموں یا کارپوریٹ نام کےپیچھے چھپاسکتی تھیں۔

جب کہ ٹیکس حکام کا کہنا تھا کہ سرینا عیسیٰ نے جو منی ٹریل فراہم کی ہے اس میں بہت سے تضادات ہیں مثلاً ان کے پاس ایک کروڑ روپے کی مجموعی ٹیکس رقم تھی جو انہوں نے مذکورہ تین آف شورز کو ظاہر کرنے کے دوران استعمال کرلی تھی، جب کہ لندن پراپرٹیز کو چھپایا گیا اور انہیں اپنی دولت میں ظاہر نہیں کیا۔

سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ان کے کیس کے حوالے سے جو حکم جاری کیا گیا اس کی وجہ یہ تھی کہ بظاہر ایف بی آر تحقیقات کار ان کی وضاحت سے مطمئن نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بات جرمانے کا باعث نہیں ہوسکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی امریکن اسکول کی جانب سے 1982ء سے انہیں ملنے والی تنخواہوں کو نظرانداز کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایف بی آر نے ان کی پوری زندگی کی کمائی کو قلم کی ایک جنبش سے نظرانداز کردیا اور یہ سمجھا کہ میں 500مربع گز کا گھر خریدنے کی اہل نہیں تھیں کیا ایسا اس لیے تھا کیوں کہ میں خاتون تھی؟سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ انہیں یہ امید نہیں تھی کہ ایف بی آر افسران غیرملکی کرنسی اکائونٹس سے متعلق مختلف قوانین نظرانداز کریں گے۔ انہوں نے اپنے مؤقف کی تائید میں مختلف کیسز کے حوالے بھی دیئے۔

اپنی آمدنی ثابت کرنے کیلئے انہوں نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ انہوں نے اپنی زرعی آمدنی اور قابل ٹیکس آمدنی سے غیرملکی کرنسی حاصل کی۔ جب کہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایف بی آر نے غیرقانونی طور پر ان کے غیرملکی کرنسی اکائونٹس سے متعلق معلومات حاصل کی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جیسے ہی ایف بی آر نے اپنی فائنڈنگ ریکارڈ کی تھی ویسے ہی یہ معاملہ منطقی انجام کو پہنچ گیا تھا۔ انہوں نے کسی بھی طرح اپنے موقف میں تبدیلی نہیں کی بلکہ شروع سے آخر تک ان کا موقف ایک ہی رہا۔

یعنی انہوں نے 2013 میں جو دو پراپرٹیز خریدی تھیں اس کی مکمل ادائیگی انہوں نے خود کی تھی۔ ان کے جواب کا حوالہ ایک سینئر عہدیدار نے دیا جنہوں نے اپنا نام ظاہر کرنے سے منع کیا ہے۔

جسٹس عیسیٰ پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ وہ لندن کی تینوں جائیدادوں کے مالک ہیں لیکن جج نے واضح کیا کہ وہ براہ راست یا بالواسطہ جائیدادوں سے مستفید ہونے والے مالک نہیں۔ صدارتی ریفرنس کو کالعدم کردیا گیا تھا لیکن اس معاملے کو تحقیقات کے لئے فیڈرل بیورو آف ریونیو (ایف بی آر) کو بھیجا گیا تھا تاکہ اس امر کی تحقیقات کی جائیں کہ ذرائع آمدن لندن کیسے بھیجے گئے اور ان کا اصل مقام کیا ہے۔

ذرائع نے بتایا ہے کہ حکومت پاکستان کے اثاثوں کی بازیابی کے یونٹ (اے آر یو) نے عیسیٰ فیملی کے اثاثوں کی تفصیلات برطانوی حکومت سے حاصل کیں اور ساتھ ہی حکومت سے یہ درخواست بھی کی کہ فنڈز کی منتقلی یا خریداری کے دوران اگر کوئی غیرقانونی قدام اٹھایا گیا ہو تو اس سے پاکستان کو آگاہ کیا جائے۔

یہ بھی پوچھا گیا تھا کہ کیا جو فنڈ استعمال کئے گئے ہیں وہ پاکستان سے منتقل کی گئی رقم سے میل نہیں کھاتے۔ برطانوی حکومت کے کسٹم اینڈ ریونیو ڈپارٹمنٹ نے پاکستانی حکومت کو آگاہ کیا کہ یہ تینوں اثاثے قانونی طور پر خریدے گئے ہیں، منی لانڈرنگ کے انسداد کی جانچ پڑتال کی گئی ہے اور برطانیہ میں استعمال ہونے والے فنڈز کو پاکستان سے بھیجے گئے فنڈز سے چیک کیا گیا تھا۔

یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ آیا اس رپورٹ کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا ہے یا نہیں لیکن یہاں کے ایک ذرائع نے بتایا کہ برطانیہ کی حکومت نے ان حقائق کی تصدیق پاکستان کے حکام کو کی ہے۔ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ سرینا مونٹسیریٹ کیریرا نصف ہسپانوی ہیں اور ان کے پاس ہمیشہ ہی ہسپانوی پاسپورٹ موجود رہا ہے۔

ان کے بیٹے ارسلان عیسیٰ کھوسہ نے برک بیک یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے اور بیٹی سحر عیسیٰ کھوسو ایک تربیت یافتہ بیرسٹر ہیں جو خود ایک برطانوی شہری ہیں اور انہوں نے ایک برطانوی شہری سے شادی کی تھی۔ ارسلان اور سحر دونوں برسوں سے برطانیہ میں رہ رہے ہیں اوریہیں کام کر رہے ہیں۔

مشرقی لندن اور وسطی لندن میں تین جائیدادوں میں سے جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ سرینا مونٹسیریٹ کیریرا، جو قاضی فائز عیسیٰ سے شادی کے بعد پاکستان چلی گئیں، ایک جائیداد براہ راست ان کے نام سے ہے۔ ایچ ڈی ریونیو اور کسٹم (ایچ ایم آر سی) ریکارڈ کے مطابق سرینا کیریرا نے 20.10.2011 کو کینڈل اسٹریٹ پر دو بیڈروم کا فلیٹ خریدا تھا جس کی مالیت کا تخمینہ 300000 پونڈز ہے۔ فلیٹ اپارٹمنٹ بلاک کی چھٹی منزل پر ہے۔ سرینا کیریرا اور ان کے بیٹے ارسلان عیسیٰ کھوسہ نے مارچ 2013 میں مشرقی لندن کے والتھم سٹو میں245000 پونڈز میں مشترکہ طور پر ایک فلیٹ خریدا تھا۔

ٹائٹل ڈیڈ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سودا 27 مارچ 2013 کو ہوا تھا۔ جسٹس کھوسہ کی بیٹی سحر عیسیٰ کھوسو اور زرینہ مونٹسیریٹ کیریرا نے 28 جون 2013 کو ایسٹ لندن کا ایک فلیٹ 270000 پونڈز میں خریدا۔

لینڈ رجسٹری ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ 23 اپریل 2019 کو تینوں پراپرٹیز کی تلاشی لی گئی تھی۔ جسٹس عیسیٰ کوئٹہ میں پیدا ہوئے، جہاں انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی، بعد ازاں وہ اپنے او اور اے لیولز مکمل کرنے کے لئے کراچی منتقل ہوئے۔

بعدازاں انہوں نے لندن میں قانون پڑھا اور 1982 میں مڈل ٹیمپل سے بار آف انگلینڈ اینڈ ویلز میں بلوا لئے گئے۔ بیرسٹر کی حیثیت سے کوالیفائی کرنے کے بعد جسٹس عیسیٰ پاکستان واپس آئے جہاں انہوں نے بلوچستان ہائی کورٹ کے وکیل کی حیثیت سے داخلہ لیا اور جلد ہی کراچی میں پریکٹس شروع کر دی۔ وہ رضوی عیسیٰ اینڈ کمپنی کے اونر تھے۔

اے آر یو نے قاضی فائز عیسیٰ کے بیٹے اور بیٹی کے بارے میں تفتیش کے لئے ایک جاسوس کمپنی کی خدمات بھی حاصل کیں۔

ان کو نگرانی کا نشانہ بنایا گیا جبکہ جاسوس کمپنی نے پاکستان جانے کے لئے ان کی تفصیلات حاصل کیں۔ اس کیس سے واقف ذرائع نے بتایا کہ جاسوس کمپنی نے پاکستانی حکام کو تینوں املاک کی تفصیلات فراہم کیں جو عوامی طور پر دستیاب اراضی رجسٹری ریکارڈ پر موجود ہیں۔

be sharamo copy paste karna chor do.
kin dalail ki baat karte ho,
sari behas iss baat pe hoyi hai, keh hum se ko poch nhi sakta,
agar hum se pochna hai , tu phir aap baqi judges bi apni families ki properties declare karen, warna baqi judges bhi tiyar rahen.
warna iss case ko pheli 2 hearing mein hi khatam kiya ja sakta tha, sirf apni banking details complete saboot dey kar. lekin nhi .
in sab judges ne ye faisala kar ke acha kiya ab yeh sab Allah ki adalat mein hi case complete karen gye.
 

hello

Chief Minister (5k+ posts)
مضبوط دلائل
حکومت نے میری جاسوسی کی اسلام جاسوسی سے منع کرتا ہے لہذا حکومت نے میری جاسوسی کرکے
اسلام پر حملہ کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔قاضی فائز عیسی

کیا یہ لطیفہ نہیں

ایک فیکٹری میں ایک امام دین کام کرتا تھا اس کے مالکوں نے فیکٹری کو نقصان باعث سب کی تنخواہیں کم کرنے کا اعلان کر دیا ۔۔۔۔ امام دین نے سارے ملازمین کو اکٹھا کیا اور کہا یہ مالک یزیدی ہیں لوگوں نے کہا وہ کیسے اس نے کہا کہ ایک وہ امام تھےایک میں امام ہوں ان کا کربلا میں پانی بند کیا گیا میری تنخواہ کم کر دی گئی جس سے سے میں اپنے گھر کا پانی کا بل دیتا تھا لہذا ان کا بھی پانی بند کیا گیا اور میرا بھی پانی بند کیا گیا لہزا یہ یزیدی ہوئےاوپر سے مالک آگئے انہوں نے امام دین کو فیکٹری سے نکال باہر پھینکا کہ اب ہم یزدی تو ہو ہی گئے تو پورے بنے تو لگا امام دین منتیں کرنے جناب معافی دے دیں ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن معافی نہ مل سکی یزیدوں سے۔۔۔۔۔۔۔!

کیا یہ شخص چیف جسٹس بننے کے قابل ہے
 

Citizen X

President (40k+ posts)
Simple thing is, judges know if they set this precedent in law, today its qazi easy paisa on the stand, tomorrow it could be them and then they themselves could be convicted by the precedent they set in law themselves. They have just future proofed themselves against prosecution.

But in doing so have set a very black mark in history and unfortunately there is nothing much than anyone can do. After the Apex court of the country where does one go to seek justice?
 

Pakistanpk

Politcal Worker (100+ posts)
عدلیہ کو جتنا ذلیل اور رسوا قاضی فائز عیسیٰ نے کیا ہے - اتنا مولوی مشتاق نے بھٹو کیس میں نہیں کیا تھا
 

RajaRawal111

Prime Minister (20k+ posts)
مضبوط دلائل
حکومت نے میری جاسوسی کی اسلام جاسوسی سے منع کرتا ہے لہذا حکومت نے میری جاسوسی کرکے
اسلام پر حملہ کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔قاضی فائز عیسی

کیا یہ لطیفہ نہیں

ایک فیکٹری میں ایک امام دین کام کرتا تھا اس کے مالکوں نے فیکٹری کو نقصان باعث سب کی تنخواہیں کم کرنے کا اعلان کر دیا ۔۔۔۔ امام دین نے سارے ملازمین کو اکٹھا کیا اور کہا یہ مالک یزیدی ہیں لوگوں نے کہا وہ کیسے اس نے کہا کہ ایک وہ امام تھےایک میں امام ہوں ان کا کربلا میں پانی بند کیا گیا میری تنخواہ کم کر دی گئی جس سے سے میں اپنے گھر کا پانی کا بل دیتا تھا لہذا ان کا بھی پانی بند کیا گیا اور میرا بھی پانی بند کیا گیا لہزا یہ یزیدی ہوئےاوپر سے مالک آگئے انہوں نے امام دین کو فیکٹری سے نکال باہر پھینکا کہ اب ہم یزدی تو ہو ہی گئے تو پورے بنے تو لگا امام دین منتیں کرنے جناب معافی دے دیں ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن معافی نہ مل سکی یزیدوں سے۔۔۔۔۔۔۔!

کیا یہ شخص چیف جسٹس بننے کے قابل ہے
Pichwarey men asli durd he yehi he.
Kheen ye CJ na bun jaaey.
 

Citizen X

President (40k+ posts)
Pichwarey men asli durd he yehi he.
Kheen ye CJ na bun jaaey.
? ? ?? Hai hai khushiyaan, ke Qazi easy paisa CJP kub banay ga aur kub meray ganjay ko clean chit dey ke shurkhuroo kare ga aur who 4th bar phir PM banayga aur phir se ek baar hum khul ke loot mar karegay.

Kyun ke naa hi easy paisay ne raseedain di, aur na hi ganju singh ne. Dono ek hi darjay ke haramkhor chor hai. Ek ex-PM aur ek SC ka judge.

Wah re Pakistan teri kismat.
 

RajaRawal111

Prime Minister (20k+ posts)
? ? ?? Hai hai khushiyaan, ke Qazi easy paisa CJP kub banay ga aur kub meray ganjay ko clean chit dey ke shurkhuroo kare ga aur who 4th bar phir PM banayga aur phir se ek baar hum khul ke loot mar karegay.

Kyun ke naa hi easy paisay ne raseedain di, aur na hi ganju singh ne. Dono ek hi darjay ke haramkhor chor hai. Ek ex-PM aur ek SC ka judge.

Wah re Pakistan teri kismat.
He (Qazi Eessa) stood in front of Agencies. Your donkey does not have guts to stand in front of. He actually bent over in front of them.
And this fight was with Establishment. You and your donkey are taking claim just for nothing. He guys are totally irrelevant here.
 

Citizen X

President (40k+ posts)
He (Qazi Eessa) stood in front of Agencies.
? ? ? ? ? ?

Man which patwari world you live in! I can't seem figure out if you are gullible, extremely stupid or willfully ignorant.

And for a second, for the sake of argument lets take all your nonsense and bakwas into account. Does this still mean easy paisa is not accountable? Holding such an important position in Pakistan, he does not have to justify from where he acquired his undeclared wealth?

Like ganju singh if he was such a honest person, On day one, he would have thrown his money trail on the face of the 10 member bench and govt and told them to fuck off and walked out a blemish free man with his head held high and we would all apologize, but no he and his wife barked for almost two years about everything under the sun except giving their money trail.
 

Lubnakhan

Minister (2k+ posts)
One day this judge will help Nawaz sharif!! And somehow it will be fine for pmln supporters! No one believes bin supremacy of law! They want sharifs on throne!
 

Resilient

Minister (2k+ posts)
مضبوط دلائل
حکومت نے میری جاسوسی کی اسلام جاسوسی سے منع کرتا ہے لہذا حکومت نے میری جاسوسی کرکے
اسلام پر حملہ کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔قاضی فائز عیسی

کیا یہ لطیفہ نہیں

ایک فیکٹری میں ایک امام دین کام کرتا تھا اس کے مالکوں نے فیکٹری کو نقصان باعث سب کی تنخواہیں کم کرنے کا اعلان کر دیا ۔۔۔۔ امام دین نے سارے ملازمین کو اکٹھا کیا اور کہا یہ مالک یزیدی ہیں لوگوں نے کہا وہ کیسے اس نے کہا کہ ایک وہ امام تھےایک میں امام ہوں ان کا کربلا میں پانی بند کیا گیا میری تنخواہ کم کر دی گئی جس سے سے میں اپنے گھر کا پانی کا بل دیتا تھا لہذا ان کا بھی پانی بند کیا گیا اور میرا بھی پانی بند کیا گیا لہزا یہ یزیدی ہوئےاوپر سے مالک آگئے انہوں نے امام دین کو فیکٹری سے نکال باہر پھینکا کہ اب ہم یزدی تو ہو ہی گئے تو پورے بنے تو لگا امام دین منتیں کرنے جناب معافی دے دیں ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن معافی نہ مل سکی یزیدوں سے۔۔۔۔۔۔۔!

کیا یہ شخص چیف جسٹس بننے کے قابل ہے

کیوں جھوٹا پراپیگنڈہ کرتے ہو؟؟ قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ججوں کی جاسوسی کرنا غیر قانونی ہے ، غیراسلامی کب کہا؟؟
 

Resilient

Minister (2k+ posts)
be sharamo copy paste karna chor do.
kin dalail ki baat karte ho,
sari behas iss baat pe hoyi hai, keh hum se ko poch nhi sakta,
agar hum se pochna hai , tu phir aap baqi judges bi apni families ki properties declare karen, warna baqi judges bhi tiyar rahen.
warna iss case ko pheli 2 hearing mein hi khatam kiya ja sakta tha, sirf apni banking details complete saboot dey kar. lekin nhi .
in sab judges ne ye faisala kar ke acha kiya ab yeh sab Allah ki adalat mein hi case complete karen gye.

قاضی فائز عیسیٰ نے جائیداد کی منی ٹریل دینی ہی نہیں تھی کیونکہ یہ اس کی جائیداد تھی ہی نہیں ، حکومت پہلے بھی یہ ثابت نہیں کرسکی اسی لئے پہلے فیصلے میں بھی یہ ریفرینس کالعدم ہوگیا تھا ، اس کی بیوی نے دینی جس نے دے دی اور سپریم کورٹ نے اسے تسلیم بھی کرلیا ، پہلے فیصلے میں بھی تسلیم کرلیا تھا لیکن دوسرے دن یہ معاملہ ایف بی آر کو بھجوا دیا ، قاضی صاحب ، ان کی بیگم اور بار کے سربراہان نے رویو پٹیشن کی کہ جب سپریم کورٹ نے منی ٹریل کو تسلی بخش قرار دے دیا تھا تو معاملہ ایف بی آر کو کیوں بھجوا دیا ، اس آرڈر کو اس فیصلے میں بھی کالعدم قرار دے دیا گیا
 

Resilient

Minister (2k+ posts)
He (Qazi Eessa) stood in front of Agencies. Your donkey does not have guts to stand in front of. He actually bent over in front of them.
And this fight was with Establishment. You and your donkey are taking claim just for nothing. He guys are totally irrelevant here.

Imran Khan can not stand even against Raja Riaz.
 

smartmax1

Senator (1k+ posts)

قاضی فائز عیسیٰ نے جائیداد کی منی ٹریل دینی ہی نہیں تھی کیونکہ یہ اس کی جائیداد تھی ہی نہیں ، حکومت پہلے بھی یہ ثابت نہیں کرسکی اسی لئے پہلے فیصلے میں بھی یہ ریفرینس کالعدم ہوگیا تھا ، اس کی بیوی نے دینی جس نے دے دی اور سپریم کورٹ نے اسے تسلیم بھی کرلیا ، پہلے فیصلے میں بھی تسلیم کرلیا تھا لیکن دوسرے دن یہ معاملہ ایف بی آر کو بھجوا دیا ، قاضی صاحب ، ان کی بیگم اور بار کے سربراہان نے رویو پٹیشن کی کہ جب سپریم کورٹ نے منی ٹریل کو تسلی بخش قرار دے دیا تھا تو معاملہ ایف بی آر کو کیوں بھجوا دیا ، اس آرڈر کو اس فیصلے میں بھی کالعدم قرار دے دیا گیا
yehi tu msla hai tum logon ka, manana nhi hai, oh bhai properties Mrs. Esa ke naam pe hai. aur woh banking details nhi dey saki. iss liye SC ke ek judge ny kaha tha, 3 sawal jo faiz esa se poche gaye, jin ka jawab us ney nhi diya, aur kaha agar mein jawab deta hon tu ek naya reference start ho jaye ga. 10 bar se ziyda judges ney ms. esa se kaha ke jo reports ap ney apne documents ke sath submit ki hain woh pardhein lekin woh nhi pardh rahe thi.
judges ny faisala esa diya jis ke misal kaheen nhi milti. yeh case kahin bhi challenge nhi ho sakta. hahaha.
yaad rakho iss duniya mein tu yeh sab bach jain gaye. lekin wahan Allah ki adalat mein koi nhi bache ga. wahan koi sifarish nhi chalti, bhaley woh imran khan ho, nawaz, shabaz, zardari. ya mein ya tum. so uss ki fikar karo.
 

Resilient

Minister (2k+ posts)
yehi tu msla hai tum logon ka, manana nhi hai, oh bhai properties Mrs. Esa ke naam pe hai. aur woh banking details nhi dey saki. iss liye SC ke ek judge ny kaha tha, 3 sawal jo faiz esa se poche gaye, jin ka jawab us ney nhi diya, aur kaha agar mein jawab deta hon tu ek naya reference start ho jaye ga. 10 bar se ziyda judges ney ms. esa se kaha ke jo reports ap ney apne documents ke sath submit ki hain woh pardhein lekin woh nhi pardh rahe thi.
judges ny faisala esa diya jis ke misal kaheen nhi milti. yeh case kahin bhi challenge nhi ho sakta. hahaha.
yaad rakho iss duniya mein tu yeh sab bach jain gaye. lekin wahan Allah ki adalat mein koi nhi bache ga. wahan koi sifarish nhi chalti, bhaley woh imran khan ho, nawaz, shabaz, zardari. ya mein ya tum. so uss ki fikar karo.

بھائی یہ قانونی نکتہ ہے ، عمر عطا بندیال نے چارہ پھینکا تھا جسے قاضی فائز عیسیٰ نے نگلنے سے انکار کردیا ، اگر وہ سوالوں کا جواب دیتا تو پھر سے ری-ٹرائل شروع ہوجاتا ، جب اس کی بیوی نے سارا کچھ بتا دیا تو قاضی فائز عیسیٰ سو سوال کا کرنے کا کیا تک ہے؟؟

مثال تو نواز شریف کے فیصلے کی بھی نہیں ملتی ، وہ بھی کہیں چیلنج نہیں ہوسکتا​