مالی سال 2019-20 میں اربوں روپے کی بے ضابطگیاں،آڈیٹر جنرل آڈٹ رپورٹ جاری

8.jpg


آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے مالی سال 2019-20 کی آڈٹ رپورٹ تیار کر لی، رپورٹ میں پٹرولیم سیکٹر،ٹیلی کام سیکٹر،این ایچ اے، پی ڈبلیو ڈی اسٹیٹ آفس اور اوگرا سمیت دیگر اداروں میں اربوں روپے کی بے قاعدگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔

تفصیلات کے مطابق آڈیٹر جنرل آف پاکستان آفس نے پٹرولیم سیکٹر، ٹیلی کام سیکٹر،این ایچ اے،سی ڈی اے،پی ڈبلیو ڈی، اسٹیٹ آفس اور اوگرا سمیت دیگر اداروں کا آڈٹ مکمل کرلیا، آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 2019-20 کے دوران لیکوڈ نیچرل گیس (ایل این جی) کی درآمد میں مس مینجمنٹ، مہنگی ایل این جی کی خریداری سمیت پیٹرولیم سیکٹر میں کرپشن کا انکشاف ہوا ہے، رپورٹ کے مطابق ٹیلی کام سیکٹر، این ایچ اے، پی ڈبلیو ڈی اسٹیٹ آفس اور اوگرا میں بھی بےقاعدگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔

آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے ان شعبوں کی آڈٹ رپورٹ 2020-21 تیار کی ہے، اداروں کے مالی سال 2019-20 کے حسابات کا آڈٹ بھی کیا گیا جس میں 205 ارب روپے سے زائد کی بے قاعدگی سامنے آئی ہے۔

تفصیلی آڈٹ رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ مالی سال 2019-20 میں ایل این جی کارگو کی درآمد کی مس مینجمنٹ کے باعث قومی خزانے کو ایک ارب 65 کروڑ ستانوے لاکھ روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔ ایل این جی کے ٹینڈرز میں غیر ضروری تاخیر کی وجہ سے مہنگی ایل این جی خریدی گئی۔

آڈٹ رپورٹ میں آڈیٹر جنرل نے سفارش کی ہے کہ اس نقصان کی تحقیقات کی جائیں اور ذمہ داروں کا تعین کرکے ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔

ایل این جی کی درآمد کی ناقص منصوبہ بندی کے دوسرے آڈٹ کیس میں بھی قومی خزانے کو ایک ارب 31 کروڑ39 لاکھ روپے سے زائد کے نقصان کا انکشاف کیا گیا۔

مالی سال 2019-20 میں پورٹ چارجز کی اضافی ادائیگیوں کی مد میں قومی خزانے کو 8 ارب ستر کروڑ پینتالیس لاکھ روپے کے نقصان کا بھی انکشاف ہوا، مینجمنٹ فیس پر کم سیلز ٹیکس چارج کرنے کی مد میں قومی خزانے کو 18کروڑ 79لاکھ روپے نقصان پہنچایا گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ٹیلی کام سیکٹر میں مجموعی طور پر 57 آڈٹ پیراز میں مالی بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی گئی اور دو ارب 37 کروڑ چودہ لاکھ چھیاسٹھ ہزار روپے کی ریکوری کی نشاندہی کی گئی، رپورٹ میں سفارش کی گئی کہ پی ٹی اے کے مفاد میں لائسنس کی شرائط پر نظر ثانی کی جائے ۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ سروسز پر سیلز ٹیکس کی عدم کٹوتی کی مد میں بھی قومی خزانے کو چھبیس لاکھ 68 روپے کا نقصان پہنچایا گیا ہے اور رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ اس حوالے سے ڈیپارٹمنٹل آڈٹ کمیٹی(ڈی اے سی)کی سفارشات پر فوری طور پر عملدرآمد کیا جائے۔