بالاآخر فائنل وقت آ پنہچا ہے۔ ہمارے سامنے دو آپشن ہیں۔ ملک بچانا ہے۔ یا ملائیت کو بچانا ہے؟۔ اگر ہم ملائیت کو بچاتے ہیں تو ملک ہاتھ سے نکل جاے گا جس کے نتیجے میں ملائیت بھی فنا ہوجاے گی۔ جب ملک ہی نہ ہوگا تو ملائیت اپنی موت آپ مرجاے گی۔ ملائیت کی جگہ مسلح جتھے لے لیں گے بالکل اسی طرح وزیرستان میں بھی ہوچکا ہے اور ملاز کا کام صرف طالبان کی تابعداری رہ گیا تھا۔ ان مسلح جتھوں کا نشانہ ہمارے وہ پڑھے لکھے لوگ ہونگے جو آج ان مسلح تنظیموں اور جتھوں کے خلاف خاموش ہیں۔ بلکہ اسلامی بننے کے فیشن میں ان کو سپورٹ بھی کرتے ہیں۔
ان حالات میں حکومت نام کی تو کوی چیز نہیں ہوگی کیونکہ کوی بھی سیاستدان اسلام آباد سے باہر جانے کا سوچ بھی نہیں سکے گا البتہ پاک فوج ان مسلح جتھوں اور لشکروں کے خلاف پورے ملک میں برسرپیکار ہوگی۔ اسی اندرونی انارکی کی وجہ سے سرحدوں کی حفاظت مشکل ہوجاے گی۔ افغانستان کی طرف سے مسلح جتھے ہمارے شمالی علاقوں، گلگت بلتستان، وزیرستان اور کے پی کے سے ہوتے ہوے اسلام آباد تک جانے کی کوشش کریں گے ان مسلح جتھوں اور تنظیموں کے پاس اسلحہ اور پیسے کی کمی نہیں ہوگی کیونکہ ان کے پیچھے امریکہ ، یورپ اور انڈیا ہونگے جن کا نشانہ چین ہوگا اور چین کا واحد راستہ جو پاکستان کے اندر سے گزرتا ہے بند کرنے کی کوشش کریں گے
پاکستان دراصل چین کی زمینی نہر سویز ہے۔ کیونکہ اس راستے سے چین کا چالیس دن کا بحری سفر سات دن میں طے ہوجاتا ہے۔نہر سویز دو سمندروں کے درمیان خشکی کا ایک ٹکڑا کاٹ کر بنای گئی تھی۔ مشرق اور مغرب کے درمیان ٹریلینز ڈالر کا بحری کاروبار ہزاروں کلومیٹر کے لمبے اور خطرناک سمندری راستے کی بجاے ایک سو بیس میل لمبی پرسکون اور محفوظ نہر سویز کے ذریعے ہونے لگا، نہر سویز اسرائیل اور امریکہ کو ہمیشہ کھٹکتی رہی ہے اسی طرح خشک نہر سویز بھی اب بہت ساری طاقتوں کو کھٹکنے لگی ہے۔ چین ہمارا دوست ہے لہذا ہمیں اس کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط اور ترقی یافتہ بنانے ہونگے ، ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ چین سے پاکستان آنے والے کو بہت زیادہ فرق محسوس ہو ، پاکستان سے جرائم اور جہالت اور کرپشن کو فوری طور پر ختم کرنا ہوگا، چینی جب پاکستان آئیں تو انہیں وہی ماڈرن سہولیات اور جدید شہر دیکھنے کو ملیں جیسے ان کے اپنے ملک میں ہیں تو وہ بلاخطر کاروبار کیلئے آنا چاہیں گے ، چین یہاں فیکٹریاں لگانا چاہے گا کیونکہ انرجی کا حصول پاکستان میں بہت آسان ہے، بحری آئل ٹینکرز کی بجاے ایران بلکہ سعودیہ سے بھی پائیپ لائین کھینچی جا سکتی ہے۔
ملاوٹ ہماری قومی پہچان بن چکی ہے اور کرپشن ماتھے کا جھومر ، پہلے ماتھے پر محراب نمازی کی علامت تھی مگر اب یہ نشان دیکھ کر دماغ میں آتا ہے کہ ضرور کوی حرامخور ہوگا سنا ہے نواب آف کالا باغ کی ایک وارننگ کہ چوبیس گھنٹے میں ملاوٹ ختم کرو یا پھر مرنے کیلئے تیار ہوجاو کے بعد ملاوٹ زدہ اشیا خاص کر مرچوں کو نہروں میں بہانے سے پانی سرخ ہوگیا تھا؟ آج بھی ایسا ہوسکتا ہے مگر اس کے لئے دو تین بندے لٹکانے ضروری ہیں
میرے خیال میں ہمیں بھٹو کے بناے گئے فرسودہ آئین کی جگہ ایک نیا مسودہ تیار کرنا ہوگا جس میں کوی شق بھی نظریہ ضرورت کے تحت نہ شامل کی گئی ہو، اس آئین کے ماتھے پر تحریر ہو کہ اللہ اور رسول کو ماننے والوں کی اکثریتی ریاست پاکستان میں صدر سے لے کر آرمی چیف اور سپریم کورٹ سے لے کر فارن آفس تک تمام عہدے صرف اور صرف اہلیت کی بنیاد پر دئیے جائیں گے نہ کہ مذہبی بنیادوں پر۔ مذہب ہر ایک کا ذاتی عقیدہ ہوگا اس کی وجہ سے کسی اہل پاکستانی پر کم اہلیت والے کو ہرگز ترجیح نہیں دی جاے گی کیونکہ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا اور ملک بھی اسی لئے پیچھے رہ گیا ہے کہ اہل غیر مسلم پاکستانی حق نہ ملنے کی وجہ سے باہر نکل گئے
بلاتفریق تمام مدارس کو گورنمنٹ کی تحویل میں لے کر اسکولز اور کالجز میں بدل دیا جاے گا اور ہر گلی میں مساجد دھڑوں کی بنیاد پر بنانے کی اجازت نہیں ہوگی
تھر میں ایک بہت بڑا ڈیٹنشن سنٹر بنا کر اس میں فرقہ پرست ملاوں اور سڑکوں پر مانگنے والے فقیروں کے بچوں کو رکھا جاے انہیں کھانا اور تعلیم کی سہولت دی جاے جبکہ مولویوں کو ان کی خدمت پر لگا دیا جاے، کھانا پکانا، صفای، درخت لگانا اور تعمیرات ان سے کروای جائیں اور فقیروں کے بچوں کو پڑھایا جاے اور کھیل کے لئے سہولیات دی جائین ہوسکتا ہے انہی میں سے کئی بابر اعظم اور شاہین آفریدی نکل آئیں
اگر یہ نہیں تو پھر دوسرا آپشن یہ ہے کہ اسلحہ خریدو اور سول وار کیلئے تیار رہو
ان حالات میں حکومت نام کی تو کوی چیز نہیں ہوگی کیونکہ کوی بھی سیاستدان اسلام آباد سے باہر جانے کا سوچ بھی نہیں سکے گا البتہ پاک فوج ان مسلح جتھوں اور لشکروں کے خلاف پورے ملک میں برسرپیکار ہوگی۔ اسی اندرونی انارکی کی وجہ سے سرحدوں کی حفاظت مشکل ہوجاے گی۔ افغانستان کی طرف سے مسلح جتھے ہمارے شمالی علاقوں، گلگت بلتستان، وزیرستان اور کے پی کے سے ہوتے ہوے اسلام آباد تک جانے کی کوشش کریں گے ان مسلح جتھوں اور تنظیموں کے پاس اسلحہ اور پیسے کی کمی نہیں ہوگی کیونکہ ان کے پیچھے امریکہ ، یورپ اور انڈیا ہونگے جن کا نشانہ چین ہوگا اور چین کا واحد راستہ جو پاکستان کے اندر سے گزرتا ہے بند کرنے کی کوشش کریں گے
پاکستان دراصل چین کی زمینی نہر سویز ہے۔ کیونکہ اس راستے سے چین کا چالیس دن کا بحری سفر سات دن میں طے ہوجاتا ہے۔نہر سویز دو سمندروں کے درمیان خشکی کا ایک ٹکڑا کاٹ کر بنای گئی تھی۔ مشرق اور مغرب کے درمیان ٹریلینز ڈالر کا بحری کاروبار ہزاروں کلومیٹر کے لمبے اور خطرناک سمندری راستے کی بجاے ایک سو بیس میل لمبی پرسکون اور محفوظ نہر سویز کے ذریعے ہونے لگا، نہر سویز اسرائیل اور امریکہ کو ہمیشہ کھٹکتی رہی ہے اسی طرح خشک نہر سویز بھی اب بہت ساری طاقتوں کو کھٹکنے لگی ہے۔ چین ہمارا دوست ہے لہذا ہمیں اس کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط اور ترقی یافتہ بنانے ہونگے ، ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ چین سے پاکستان آنے والے کو بہت زیادہ فرق محسوس ہو ، پاکستان سے جرائم اور جہالت اور کرپشن کو فوری طور پر ختم کرنا ہوگا، چینی جب پاکستان آئیں تو انہیں وہی ماڈرن سہولیات اور جدید شہر دیکھنے کو ملیں جیسے ان کے اپنے ملک میں ہیں تو وہ بلاخطر کاروبار کیلئے آنا چاہیں گے ، چین یہاں فیکٹریاں لگانا چاہے گا کیونکہ انرجی کا حصول پاکستان میں بہت آسان ہے، بحری آئل ٹینکرز کی بجاے ایران بلکہ سعودیہ سے بھی پائیپ لائین کھینچی جا سکتی ہے۔
ملاوٹ ہماری قومی پہچان بن چکی ہے اور کرپشن ماتھے کا جھومر ، پہلے ماتھے پر محراب نمازی کی علامت تھی مگر اب یہ نشان دیکھ کر دماغ میں آتا ہے کہ ضرور کوی حرامخور ہوگا سنا ہے نواب آف کالا باغ کی ایک وارننگ کہ چوبیس گھنٹے میں ملاوٹ ختم کرو یا پھر مرنے کیلئے تیار ہوجاو کے بعد ملاوٹ زدہ اشیا خاص کر مرچوں کو نہروں میں بہانے سے پانی سرخ ہوگیا تھا؟ آج بھی ایسا ہوسکتا ہے مگر اس کے لئے دو تین بندے لٹکانے ضروری ہیں
میرے خیال میں ہمیں بھٹو کے بناے گئے فرسودہ آئین کی جگہ ایک نیا مسودہ تیار کرنا ہوگا جس میں کوی شق بھی نظریہ ضرورت کے تحت نہ شامل کی گئی ہو، اس آئین کے ماتھے پر تحریر ہو کہ اللہ اور رسول کو ماننے والوں کی اکثریتی ریاست پاکستان میں صدر سے لے کر آرمی چیف اور سپریم کورٹ سے لے کر فارن آفس تک تمام عہدے صرف اور صرف اہلیت کی بنیاد پر دئیے جائیں گے نہ کہ مذہبی بنیادوں پر۔ مذہب ہر ایک کا ذاتی عقیدہ ہوگا اس کی وجہ سے کسی اہل پاکستانی پر کم اہلیت والے کو ہرگز ترجیح نہیں دی جاے گی کیونکہ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا اور ملک بھی اسی لئے پیچھے رہ گیا ہے کہ اہل غیر مسلم پاکستانی حق نہ ملنے کی وجہ سے باہر نکل گئے
بلاتفریق تمام مدارس کو گورنمنٹ کی تحویل میں لے کر اسکولز اور کالجز میں بدل دیا جاے گا اور ہر گلی میں مساجد دھڑوں کی بنیاد پر بنانے کی اجازت نہیں ہوگی
تھر میں ایک بہت بڑا ڈیٹنشن سنٹر بنا کر اس میں فرقہ پرست ملاوں اور سڑکوں پر مانگنے والے فقیروں کے بچوں کو رکھا جاے انہیں کھانا اور تعلیم کی سہولت دی جاے جبکہ مولویوں کو ان کی خدمت پر لگا دیا جاے، کھانا پکانا، صفای، درخت لگانا اور تعمیرات ان سے کروای جائیں اور فقیروں کے بچوں کو پڑھایا جاے اور کھیل کے لئے سہولیات دی جائین ہوسکتا ہے انہی میں سے کئی بابر اعظم اور شاہین آفریدی نکل آئیں
اگر یہ نہیں تو پھر دوسرا آپشن یہ ہے کہ اسلحہ خریدو اور سول وار کیلئے تیار رہو