منحرف اراکین کا ووٹ مسترد نہیں ہوسکتا،دو ججز کا اختلافی فیصلہ

13sclootaikhtalafinote.jpg

آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے میں 2 ججز نے اختلافی نوٹ دیا جس کےمطابق پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والے اراکین کا ووٹ مسترد نہیں ہوسکتا۔

تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے 3-2 کی اکثریت سے فیصلہ سنادیا ہے جس کےمطابق منحرف اراکین کا ووٹ شمار نہیں ہوسکتا، مختصر فیصلے میں جسٹس مظہر عالم اور جسٹس مندوخیل نے اختلافی نوٹ تحریر کیا۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ بینچ کے اکثریتی فیصلے سے متفق نہیں ہیں، کسی رکن کے انحراف پر پارٹی سربراہ کی جانب سے ڈکلیئریشن دینے پر الیکشن کمیشن اس رکن کو ڈی سیٹ کرسکتا ہے، آرٹیک 63 اے ایک مکمل ضابطہ ہے۔


اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ انحراف کرنے والے اراکین کا ووٹ شمار ہوگا، تاہم پارلیمان کو اختیار ہے کہ اس معاملے پر مزیر قانون سازی کرے، آرٹیکل 63 اے کے تحت نااہل ہونے والے رکن کے پاس سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اختیار ہے۔

اختلافی نوٹ میں دونوں ججز نے موقف اپنایا کہ آرٹیکل 63 اے کی اس سے زیادہ تشریح آئین پاکستان کو دوبارہ لکھنے کے مترادف ہوگی، صدر پاکستان کے ریفرنس میں جو سوال پوچھے گئے اس میں کوئی جان نہیں ہے، ان سوالوں کے جواب منفی ہیں،پارلیمنٹ مناسب سمجھے تو منحرف ارکان پر مزید پابندیاں عائد کرنے کیلئے قانون سازی کرسکتی ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال،کی جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر نے اکثریتی فیصلہ تحریر کیا، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 63 اے کو اکیلے نہیں پڑھا جاسکتا، اس آرٹیکل کا اطلاق پارٹی ہدایات کی خلاف ورزی سے ہوتا ہے، منحرف ارکان کا ووٹ شمار نہیں ہوگا، موزوں یہی ہے کہ انحراف ہونا ہی نہیں چاہیے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 17(2) سیاسی جماعتوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے، سیاسی جماعتیں جمہوریت کا بنیادی جز ہیں، پارٹی پالیسی سے انحراف سیاسی جماعتوں کیلئے تباہ کن ہے اور اسے کینسر قرار دینا درست ہے۔
 
Last edited:

samisam

Chief Minister (5k+ posts)
الحمد للّٰہ تین جج حلالی ماں باپ کی حلالی اولاد نکلے اور اپنی ماں کی دلالی کرنے والے بکاؤ دلال نہیں نکلے
الحمد اللہ
اللہ اکبر
 

arifkarim

Prime Minister (20k+ posts)
13sclootaikhtalafinote.jpg

آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے میں 2 ججز نے اختلافی نوٹ دیا جس کےطابق پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والے اراکین کا ووٹ مسترد نہیں ہوسکتا۔

تفصیلات کےطابق سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے 3-2 کی اکثریت سے فیصلہ سنادیا ہے جس کےطابق منحرف اراکین کا ووٹ مسترد کردیا جائے گا، مختصر فیصلے میں جسٹس مظہر عالم اور جسٹس مندوخیل نے اختلافی نوٹ تحریر کیا۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ بینچ کے اکثریتی فیصلے سے متفق نہیں ہیں، پارٹی سربراہ کے کی جانب سے کسی رکن کے انحراف پر ڈکلیئریشن پر الیکشن کمیشن اس رکن کو ڈی سیٹ کرسکتا ہے، آرٹیک 63 اے ایک مکمل ضابطہ ہے۔


اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ انحراف کرنے والے اراکین کا ووٹ شمار ہوگا، تاہم پارلیمان کو اختیار ہے کہ اس معاملے پر مزیر قانون سازی کرے، آرٹیکل 63 اے کے تحت نااہل ہونے والے رکن کے پاس سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اختیار ہے۔

اختلافی نوٹ میں دونوں ججز نے موقف اپنایا کہ آرٹیکل 63 اے کی اس سے زیادہ تشریح آئین پاکستان کو دوبارہ رکھنے کے مترادف ہوگی، صدر پاکستان کے ریفرنس میں جو سوال پوچھے گئے اس میں کوئی جان نہیں ہے، ان سوالوں کے جواب منفی ہیں،پارلیمنٹ مناسب سمجھے تو منحرف ارکان پر مزید پابندیاں عائد کرنے کیلئے قانون سازی کرسکتی ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال،کی جسٹس اعجاش الاحسن اور جسٹس منیب اختر نے اکثریتی فیصلہ تحریر کیا، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 63 اے کو اکیلے نہیں پڑھا جاسکتا، اس آرٹیکل کا اطلاق پارٹی ہدایات کی خلاف ورزی سے ہوتا ہے، منحرف ارکان کا ووٹ شمار نہیں ہوگا، موزوں یہی ہے کہ انحراف ہونا ہی نہیں چاہیے۔

سپریم مورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 17(2) سیاسی جماعتوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے، سیاسی جماعتیں جمہوریت کا بنیادی جز ہیں، پارٹی پالیسی سے انحراف سیاسی جماعتوں کیلئے تباہ کن ہے اور اسے کینسر قرار دینا درست ہے۔
یہ دونوں حرامی ججز گٹر فائز عیسی کی قبیل سے ہیں
 

samisam

Chief Minister (5k+ posts)
The point is that still 2 judges think that lota votes should be counted. Its alarming to think that people with such a corrupted thought process are judges of the SC
جب ہیرا منڈی کی گشتی کی نسل بٹھاؤ گے تو گشتی کے بچے والے اور چکلے والے فیصلے ہی ہوں گے ایسے گشتی کے بچے ملک سے ہارس ٹریڈنگ ختم نہیں ہونے دیتے ملک دشمن نطفہ حرام خنزیر الطوایف نسل
 

KPKInsafian

Senator (1k+ posts)
13sclootaikhtalafinote.jpg

آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے میں 2 ججز نے اختلافی نوٹ دیا جس کےطابق پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والے اراکین کا ووٹ مسترد نہیں ہوسکتا۔

تفصیلات کےطابق سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے 3-2 کی اکثریت سے فیصلہ سنادیا ہے جس کےطابق منحرف اراکین کا ووٹ مسترد کردیا جائے گا، مختصر فیصلے میں جسٹس مظہر عالم اور جسٹس مندوخیل نے اختلافی نوٹ تحریر کیا۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ بینچ کے اکثریتی فیصلے سے متفق نہیں ہیں، پارٹی سربراہ کے کی جانب سے کسی رکن کے انحراف پر ڈکلیئریشن پر الیکشن کمیشن اس رکن کو ڈی سیٹ کرسکتا ہے، آرٹیک 63 اے ایک مکمل ضابطہ ہے۔


اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ انحراف کرنے والے اراکین کا ووٹ شمار ہوگا، تاہم پارلیمان کو اختیار ہے کہ اس معاملے پر مزیر قانون سازی کرے، آرٹیکل 63 اے کے تحت نااہل ہونے والے رکن کے پاس سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اختیار ہے۔

اختلافی نوٹ میں دونوں ججز نے موقف اپنایا کہ آرٹیکل 63 اے کی اس سے زیادہ تشریح آئین پاکستان کو دوبارہ رکھنے کے مترادف ہوگی، صدر پاکستان کے ریفرنس میں جو سوال پوچھے گئے اس میں کوئی جان نہیں ہے، ان سوالوں کے جواب منفی ہیں،پارلیمنٹ مناسب سمجھے تو منحرف ارکان پر مزید پابندیاں عائد کرنے کیلئے قانون سازی کرسکتی ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال،کی جسٹس اعجاش الاحسن اور جسٹس منیب اختر نے اکثریتی فیصلہ تحریر کیا، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 63 اے کو اکیلے نہیں پڑھا جاسکتا، اس آرٹیکل کا اطلاق پارٹی ہدایات کی خلاف ورزی سے ہوتا ہے، منحرف ارکان کا ووٹ شمار نہیں ہوگا، موزوں یہی ہے کہ انحراف ہونا ہی نہیں چاہیے۔

سپریم مورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 17(2) سیاسی جماعتوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے، سیاسی جماعتیں جمہوریت کا بنیادی جز ہیں، پارٹی پالیسی سے انحراف سیاسی جماعتوں کیلئے تباہ کن ہے اور اسے کینسر قرار دینا درست ہے۔
Topi drama, pir aik aur batti kai pechay lagaana hai.
 

Aliimran1

Chief Minister (5k+ posts)

Bund ayal nay yeh buhat bada lollipop denay ki koshish ki hai. ——Ab dekhna yeh hai kah iss ka beneficiaries kon hon gay ——-​

I personally don’t trust this clown ? —— This is only their advisory and Election commission will interpret this in favor of Kukri Sharif Punjab government​