نور مقدم قتل کیس کا فیصلہ محفوظ،نور کے والد شوکت مقدم نے کیس بارے کیا کہا؟

1shaukatmukadam.jpg

مقتولہ نور مقدم کے والد اور سابق سفارتکار شوکت مقدم کا کہنا ہے کہ تفتیش سے مکمل مطمئن ہوں، تھوڑی بہت اونچ نیچ ہو جاتی ہے، جج عطا ربانی پر پورا بھروسہ ہے۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد کی جانب سے نورمقدم قتل کیس کا ٹرائل مکمل ہونے اور جج عطا ربانی کی جانب سے کیس کا فیصلہ محفوظ کیے جانے کے بعد مقتولہ کے والد شوکت مقدم نے عدالت کے باہر میڈیا سے بات کی۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ملزمان کے لیے زیادہ سے زیادہ سزا مانگی ہے اور مجھے جج عطا ربانی پر پورا بھروسہ ہے، انہوں نے صاف شفاف ٹرائل کیا ہے۔


شوکت مقدم نے کہا کہ کیس کی تفتیش میں پولیس پر پریشر رہا لیکن انہوں نے اپنی پوری تفتیش کی مشکل وقت تھا لیکن اپنی بیٹی پر مکمل یقین ہے۔ انہوں نے کہا کہ نور مقدم نیک لڑکی تھی، وہ کسی غلط چیز میں ملوث نہیں تھی، جبکہ سی سی ٹی وی سے بھی ثابت ہوا کہ نور مقدم کو یرغمال بنا کر رکھا گیا۔

یاد رہے کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے نور مقدم قتل کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے، جج عطا ربانی 24 فروری کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سنائیں گے۔

گزشتہ سماعت پر وکلا نے دلائل مکمل کیے اور پراسیکیوٹر نے کہا کہ ظاہر جعفر پر قتل اور زیادتی کرنے کے چارجز لگے ہیں، ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی پر قتل کی اطلاع نہ دینے اور سہولت کاری کے چارج لگتے ہیں، والدین پولیس کو اطلاع دے دیتے تو نور مقدم کو قتل ہونے سے بچایا جا سکتا تھا، چوکیدار اور مالی سب دیکھ رہے تھے لیکن کہتے ہیں کہ ہمیں تو پتہ ہی نہیں، چوکیدار اور مالی پر سزائے موت اور تا عمر قید کے چارجز لگتے ہیں۔

پبلک پراسیکیوٹر رانا حسن نے کہا کہ تھراپی ورکس کے مالک طاہر ظہور پر عمر قید اور سزائے موت کے چارجز لگتے ہیں، تھراپی ورکس کے ملازمین پر عمر قید اور سزائے موت کے چارجز لگتے ہیں، اس کیس کو ملک کا بچہ بچہ دیکھ رہا ہے کہ ملک کا نظام کیسے چل رہا ہے، نور مقدم قتل کیس کو عدالت مثالی کیس بنائے اور ملزمان کو زیادہ سے زیادہ سزا دی جائے۔
 

Bubber Shair

Chief Minister (5k+ posts)
ملازمین کے پاس وقت تھا کہ رہتی دنیا تک کچھ کر جاتے ایک جان بچا کر جنت کما جاتے کیونکہ ان کی جوانی تو رخصت ہونے کو تھی اب مالی سے بڑھ کے یہ کیا بن سکتا تھا ہیڈ مالی بن جاتا اور گارڈ زیادہ سے زیادہ کسی بینک کا چوکیدار بن جاتا مگر یہ وہی نوکر ہی کہلاتے عاقبت سنور جاتی تو پھر انہیں اپنے معمولی نوکر ہونے کا غم بھی نہ ہوتا۔ اب جس زندگی کو بچانے کیلئے انہوں نے ظلم پر آنکھیں بند کر لی تھیں وہی زندگی حرام گزرے گی جیل کی سلاخیں اور قید و بند و مشقت