کوئلے کی کان میں

Doctor sb

Senator (1k+ posts)
کوئلے کی کان میں!
---------------------
پنسلوانیا یونیورسٹی کا شمار عالمی درجہ بندی میں پہلی چند یونیورسٹیز میں ہوتا ہے- معتبر آٹھ نجی امریکی جامعات کی یونین، آئی وی لیگ
(Ivy League)
میں پنسلوانیا بھی شامل ہے- دیگر بڑے ناموں میں ہارورڈ، ییل، پرنسٹن وغیرہ آتے ہیں
پنسلوانیا یونیورسٹی کا وارٹن
(Wharton)
بزنس سکول معاشیات ومالیات میں تحقیق وتدریس کے لیے عالمی سطح پر معروف ہے- پاکستان کی یونیورسٹیز میں زیرتعلیم فنانس کے طالبعلم سے اس کی اعلیٰ تعلیم کی خواہش وترجیحاتی مقام کا اگر پوچھا جاۓ تو اکثریت کا جواب وارٹن بزنس سکول ملے گا- اور یہ خواہش فقط پاکستانی طلباء پر موقوف نہیں، یورپ میں بھی طالبلموں کو یہ حسرت کرتے پائیں گے
سابق لیگی وزیرخزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل اسی معتبر جامعہ پنسلوانیا کے وارٹن بزنس اسکول سے فارغ التحصیل (پی ایچ ڈی) ہیں- آئی ایم ایف کے ساتھ پیشہ وارانہ طور پر منسلک رہ چکے اور اب اپنے کاروباری ادارے، اسماعیل انڈسٹریز کو دیکھتے ہیں
نجی چینلز پر حکومتی پالیسیوں پرتنقید کرتے اکثر وبیشتر دیکھائی دیتے ہیں جس میں کوئی قباحت بھی نہیں- اپوزیشن سے تعلق ہے تو جائز تنقید کرنا ان کا حق ہے اور فرض بھی- لیکن اگلے روز انہیں روٹین کا یہ کام بغیر تیاری کرنا کچھ مہنگا پڑ گیا
معمول کی پریس کانفرنس میں وہ حکومت کے لتے لے رہے تھے کہ ایک رپورٹر نے عام سا سوال داغ دیا
رپورٹر: آپ کی (ایک ضمنی کمپنی) کینڈی لینڈ کی باٹم لائین بہتر ہوئی ہے، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ بطور کاروباری فرد، بزنس بہتر ہوا ہے کہ نہیں؟
سوال بظاہر بڑا سادہ تھا مگر مفتاح اس کے لیے تیار نہ تھے- اور ویسے بھی وہ ہماری رائج سیاست میں دروغ گوئی اور لفظوں کی ہیرا پھیری کے فن کا تجربہ رکھتے ہیں اور نہ ہی اچھی مشق، یوں کہیے کہ ابھی پوری طرح آلودہ نہیں ہوۓ
سوال پر بری طرح سٹپٹا گۓ- گلہ خشک، لہجے میں تھرتھراہٹ، اور زبان میں لنکت آگئی- حالت اتنی غیر ہوگئی کہ لگتا تھا کہ موصوف کا ابھی بی پی ڈاؤن ہونے لگا ہے- قسمت ساتھ دے گئی کہ بغل میں شریف خاندان کی ایک خاتون ترجمان بیٹھی تھی جس نے صورتحال سنبھال لی
مفتاح: وہ جی، یہ جی، ہاں، ہوں ۔۔۔ سانس قدرے بحال ہوئی تو کہنے لگے کہ ان کے کاروبار کا پاکستانی معیشت سے کیا تعلق؟۔۔۔ اناللہ وانا اليه راجعون!ے
ہماری خام خیالی یہ تھی کہ پروفیشنل اور اعلٰی تعلیم یافتہ طبقہ سیاسی جماعتوں کا حصہ بنے گا تو اپنی " کلاس" مینٹین رکھے گا اور ایسا سیاسی ماحول فروغ پاۓ گا جس میں محض چیخ وپکار نہیں بلکہ تجزیہ ہوگا، تنقید براۓ تنقید نہیں بلکہ حکومت کی اصلاح اور قوم کی مجموعی بہتری مدنظر ہوگی- امید یہ بھی وابستہ تھی کہ چونکہ سیاسی جماعتیں ان کی پیداواری صلاحیتوں کی محتاج ہیں تو یہ طبقہ اپنی اپنی قیادتوں کو جمہوری اصولوں ضابطوں کا پابند کرے گا تاکہ سول آمریت جیسی نحوست کے ساۓ سیاسی جماعتوں سے چھٹیں
افسوس، مفتاح اسماعیل اپنی پہچان وکردار برقرار نہ رکھ پاۓ، اسی کوئلے کی کان کا حصہ بن گۓ!
 

abidbutt

Senator (1k+ posts)
کوئلے کی کان میں!
---------------------
پنسلوانیا یونیورسٹی کا شمار عالمی درجہ بندی میں پہلی چند یونیورسٹیز میں ہوتا ہے- معتبر آٹھ نجی امریکی جامعات کی یونین، آئی وی لیگ
(Ivy League)
میں پنسلوانیا بھی شامل ہے- دیگر بڑے ناموں میں ہارورڈ، ییل، پرنسٹن وغیرہ آتے ہیں
پنسلوانیا یونیورسٹی کا وارٹن
(Wharton)
بزنس سکول معاشیات ومالیات میں تحقیق وتدریس کے لیے عالمی سطح پر معروف ہے- پاکستان کی یونیورسٹیز میں زیرتعلیم فنانس کے طالبعلم سے اس کی اعلیٰ تعلیم کی خواہش وترجیحاتی مقام کا اگر پوچھا جاۓ تو اکثریت کا جواب وارٹن بزنس سکول ملے گا- اور یہ خواہش فقط پاکستانی طلباء پر موقوف نہیں، یورپ میں بھی طالبلموں کو یہ حسرت کرتے پائیں گے
سابق لیگی وزیرخزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل اسی معتبر جامعہ پنسلوانیا کے وارٹن بزنس اسکول سے فارغ التحصیل (پی ایچ ڈی) ہیں- آئی ایم ایف کے ساتھ پیشہ وارانہ طور پر منسلک رہ چکے اور اب اپنے کاروباری ادارے، اسماعیل انڈسٹریز کو دیکھتے ہیں
نجی چینلز پر حکومتی پالیسیوں پرتنقید کرتے اکثر وبیشتر دیکھائی دیتے ہیں جس میں کوئی قباحت بھی نہیں- اپوزیشن سے تعلق ہے تو جائز تنقید کرنا ان کا حق ہے اور فرض بھی- لیکن اگلے روز انہیں روٹین کا یہ کام بغیر تیاری کرنا کچھ مہنگا پڑ گیا
معمول کی پریس کانفرنس میں وہ حکومت کے لتے لے رہے تھے کہ ایک رپورٹر نے عام سا سوال داغ دیا
رپورٹر: آپ کی (ایک ضمنی کمپنی) کینڈی لینڈ کی باٹم لائین بہتر ہوئی ہے، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ بطور کاروباری فرد، بزنس بہتر ہوا ہے کہ نہیں؟
سوال بظاہر بڑا سادہ تھا مگر مفتاح اس کے لیے تیار نہ تھے- اور ویسے بھی وہ ہماری رائج سیاست میں دروغ گوئی اور لفظوں کی ہیرا پھیری کے فن کا تجربہ رکھتے ہیں اور نہ ہی اچھی مشق، یوں کہیے کہ ابھی پوری طرح آلودہ نہیں ہوۓ
سوال پر بری طرح سٹپٹا گۓ- گلہ خشک، لہجے میں تھرتھراہٹ، اور زبان میں لنکت آگئی- حالت اتنی غیر ہوگئی کہ لگتا تھا کہ موصوف کا ابھی بی پی ڈاؤن ہونے لگا ہے- قسمت ساتھ دے گئی کہ بغل میں شریف خاندان کی ایک خاتون ترجمان بیٹھی تھی جس نے صورتحال سنبھال لی
مفتاح: وہ جی، یہ جی، ہاں، ہوں ۔۔۔ سانس قدرے بحال ہوئی تو کہنے لگے کہ ان کے کاروبار کا پاکستانی معیشت سے کیا تعلق؟۔۔۔ اناللہ وانا اليه راجعون!ے
ہماری خام خیالی یہ تھی کہ پروفیشنل اور اعلٰی تعلیم یافتہ طبقہ سیاسی جماعتوں کا حصہ بنے گا تو اپنی " کلاس" مینٹین رکھے گا اور ایسا سیاسی ماحول فروغ پاۓ گا جس میں محض چیخ وپکار نہیں بلکہ تجزیہ ہوگا، تنقید براۓ تنقید نہیں بلکہ حکومت کی اصلاح اور قوم کی مجموعی بہتری مدنظر ہوگی- امید یہ بھی وابستہ تھی کہ چونکہ سیاسی جماعتیں ان کی پیداواری صلاحیتوں کی محتاج ہیں تو یہ طبقہ اپنی اپنی قیادتوں کو جمہوری اصولوں ضابطوں کا پابند کرے گا تاکہ سول آمریت جیسی نحوست کے ساۓ سیاسی جماعتوں سے چھٹیں
افسوس، مفتاح اسماعیل اپنی پہچان وکردار برقرار نہ رکھ پاۓ، اسی کوئلے کی کان کا حصہ بن گۓ!

Very good commentary and analysis for the downfall of our elite educated class
 

concern_paki

Chief Minister (5k+ posts)
Sirf degree lene say shaoor nahi aa jata hai, aur khasi dafa haramkhori aur beyghairati aur beyimaani khoonein bhi shaamil hoti hai is liye pehle ke buzurg rishtay karte waqt khandan dekha karte thay